مجھے گمنام رہنے کا
کچھ ایسا شوق ہے ہم دم
کسی بے نام صحرا میں
بھٹکتی روح ہو جیسے
جہاں سائے ترستے ہو
کسی پیکر کی آہٹ کو
جہاں زندہ نہ ہو کوئی
جہاں پہ موت رہتی ہو
یا کچھ ایسے کہ دریا کے
کہیں اُس پار کیکر پہ
کسی چڑیا کے بچے کی
تڑپتی پیاس ہو جیسے
کہ جس کی زندگی کے دن
بہت بے جان گُزرے ہو
جو اُڑنے کو ترستا ہو
مگر حسرت دمِ آخر
وہ اپنے گھونسلے میں ہی
کچھ ایسے جان دے جیسے
ہزاروں کروٹوں کے بعد
میری اُمید مرتی ہے
کچھ ایسا شوق ہے ہم دم
کسی بے نام صحرا میں
بھٹکتی روح ہو جیسے
جہاں سائے ترستے ہو
کسی پیکر کی آہٹ کو
جہاں زندہ نہ ہو کوئی
جہاں پہ موت رہتی ہو
یا کچھ ایسے کہ دریا کے
کہیں اُس پار کیکر پہ
کسی چڑیا کے بچے کی
تڑپتی پیاس ہو جیسے
کہ جس کی زندگی کے دن
بہت بے جان گُزرے ہو
جو اُڑنے کو ترستا ہو
مگر حسرت دمِ آخر
وہ اپنے گھونسلے میں ہی
کچھ ایسے جان دے جیسے
ہزاروں کروٹوں کے بعد
میری اُمید مرتی ہے