"لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی ہے

  • Work-from-home

Armaghankhan

Likhy Nhi Ja Sakty Dukhi Dil K Afsaany
Super Star
Sep 13, 2012
10,433
5,571
1,313
KARACHI

"لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی ہے "
پھر تیری یاد ایک نیا زخم دینے چلی آئی ہے
بہاروں کے جزیروں سے خاموشیاں گنگنائی ہیں
ہاتھوں کی لکیروں سے تیرا نام کریدنے آئی ہے
یہ خیالوں کا اختتام بھی
کوئی میرے حافظہ سے کردے
جو حصول ہوئے ہیں ماضی سےغم
اس فقدان میں پیار بھر دے
کوئی خلاء سے کہہ دے یوں شور نا مچائے۔
زیست کہ اس سفر میں وہ بہار یاد نادلائے
اس خلش کا نشترجو میری روح پر لگائے
ان فضاؤں کو رسوا کرنے کیسی یہ ہوا چھائی ہے
وہ محبت تھی کیسی جس سے بغاوت کی صداء آئی ہے
لمحوں کی مسافت نے صدیوں کی سزا پائی ہے
ساکت سی ان سماعتوں میں
اے خلاء کیسا یہ شور لائی ہے
کوئی میرے زیست سے کہہ دے
وہ خزاں کی تاب سے نا بکھریں
رنجش کا ہاتھ تھامنے کیسی یہ خزاں آئی ہے
قاصر تھا یہ دل سمجھنے
کہ کس فضاء سے اضطراب کی ہوا آئی ہے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی ہے
رشتوں کہ ذخیروں میں کیسا یہ تغافل تھا
شکوئے تھے اتنے اس نفس کی تشنگی سے
وقت کہ حصار میں محبت کو موت آئی ہے
فطرت میں ٹہر جائے سناٹوں میں یہ شور کیوں
اس زاد سفر میں اسودگی کے یہ نشترکیوں
ناآشنا ناکردے وقت اپنے طلاطم سے
کوئی میری امید سے کہہ دیں
میری خواہش میں رنگِ بہار بھر دے
تخلیق کریں اس خزاں میں ایسا موسم
جو اجل تک میری روح کو بہار کردیں

ایک تلخ حقیقت کا وقت ہر زخم بھر دیں
جوتراش لیں ان خواہشوں کی دھوپ کو
اورمیری ذات کا تکمیل سفر کردیں
جو ہوا کہ ہر رخ کو پھر سے بہار بہار کردیں
اے دردتیرے سیلاب میں
!خواہش کا مچلنا بھی عجب تھا
امید کہ اس چمن میں جیسے چپکے سے بہار آئی ہے
@Afrasham_afi @khwahish @cutekhushi
 
  • Like
Reactions: Afrasham_afi

Afrasham_afi

Super Star
Apr 23, 2013
5,386
4,871
713
in friends heart
"لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی ہے "
پھر تیری یاد ایک نیا زخم دینے چلی آئی ہے
بہاروں کے جزیروں سے خاموشیاں گنگنائی ہیں
ہاتھوں کی لکیروں سے تیرا نام کریدنے آئی ہے
یہ خیالوں کا اختتام بھی
کوئی میرے حافظہ سے کردے
جو حصول ہوئے ہیں ماضی سےغم
اس فقدان میں پیار بھر دے
کوئی خلاء سے کہہ دے یوں شور نا مچائے۔
زیست کہ اس سفر میں وہ بہار یاد نادلائے
اس خلش کا نشترجو میری روح پر لگائے
ان فضاؤں کو رسوا کرنے کیسی یہ ہوا چھائی ہے
وہ محبت تھی کیسی جس سے بغاوت کی صداء آئی ہے
لمحوں کی مسافت نے صدیوں کی سزا پائی ہے
ساکت سی ان سماعتوں میں
اے خلاء کیسا یہ شور لائی ہے
کوئی میرے زیست سے کہہ دے
وہ خزاں کی تاب سے نا بکھریں
رنجش کا ہاتھ تھامنے کیسی یہ خزاں آئی ہے
قاصر تھا یہ دل سمجھنے
کہ کس فضاء سے اضطراب کی ہوا آئی ہے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی ہے
رشتوں کہ ذخیروں میں کیسا یہ تغافل تھا
شکوئے تھے اتنے اس نفس کی تشنگی سے
وقت کہ حصار میں محبت کو موت آئی ہے
فطرت میں ٹہر جائے سناٹوں میں یہ شور کیوں
اس زاد سفر میں اسودگی کے یہ نشترکیوں
ناآشنا ناکردے وقت اپنے طلاطم سے
کوئی میری امید سے کہہ دیں
میری خواہش میں رنگِ بہار بھر دے
تخلیق کریں اس خزاں میں ایسا موسم
جو اجل تک میری روح کو بہار کردیں
ایک تلخ حقیقت کا وقت ہر زخم بھر دیں
جوتراش لیں ان خواہشوں کی دھوپ کو
اورمیری ذات کا تکمیل سفر کردیں
جو ہوا کہ ہر رخ کو پھر سے بہار بہار کردیں
اے دردتیرے سیلاب میں
!خواہش کا مچلنا بھی عجب تھا
امید کہ اس چمن میں جیسے چپکے سے بہار آئی ہے
@Afrasham_afi @khwahish @cutekhushi
umdaaaaaaaaaaaaaaaaaaa :):))
 
Top