بسم اللہ الرحمن الرحیم
معزز دوستوں میں نے دوسرے ٹھریڈ میں اپنی پوسٹ میں ایک بات کی طرف توجہ دلائی تھی کہ کہ طلاق کی دو جہتیں ہیں ایک طلاق بحیثیت شرعی مسلہ اور دوسرا طلاق دینے کا طریقہ ، ادب یا اصول،
ہمارا اختلاف طلاق بحیثیت شرعی مسلہ پر ہے۔
طریقہ پر کوئی اختلاف نہیں۔
اگر اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیا جائے اور اس پر غور و فکر کیا جائے تو مسلہ سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی۔
دو مثالوں سے سمجھے۔
مثال نمبر ایک: نماز سے باہر آنے کے دو طریقے ہیں۔
ایک طریقہ یہ ہے کہ اس کا جو طریقہ اور ادب ہمیں سکھلایا گیا ہے اس کے مطابق سلام کے ذریعے نماز سے باہر آنا چاہئے۔
دوسرا طریقہ بغیر سلام کے نمازی نماز سے باہر آگیا
دونوں صورتوں میں نمازی نماز سے باہر آگیا لیکن پہلی صورت میں اس کو اجرو ثواب ملے گا اور دوسری صورت میں وہ گنہاگار ہوگا۔
مثال نمبر دو: طلاق ہی کی مثال لے لیجئے۔
طلاق کے لئے ہمیں یہ ادب اور اخلاقی طریقہ سمجھایا گیا ہے کہ جب عورت حیض کی حالت میں ہو اور وہ حیض سے پاک ہوجائے تو مباشرت سے پہلے اسے طلاق دی جائے۔ یہ طلاق کا بہترین اور اخلاقی طریقہ ہے۔
لیکن اگر کوئی شخص عورت کے حالت حیض مین ہونے کے وقت طلاق دے دیتا ہے تو یہ صورت سخت ناپسندیدہ ہے اور بندہ گنہاگار ہو گا۔
لیکن شرعی مسلہ یہ ہے کہ دونوں صورتوں میں طلاق ہوگئی۔
بالکل اسی طرح بھی طلاق ثلاثہ کا معاملہ ہے۔
طلاق کے تین طریقے ہیں تینوں صورتوں میں طلاق واقع ہوجاتی ہے
احسن، حسن اور بدعت
معزز دوستوں میں نے دوسرے ٹھریڈ میں اپنی پوسٹ میں ایک بات کی طرف توجہ دلائی تھی کہ کہ طلاق کی دو جہتیں ہیں ایک طلاق بحیثیت شرعی مسلہ اور دوسرا طلاق دینے کا طریقہ ، ادب یا اصول،
ہمارا اختلاف طلاق بحیثیت شرعی مسلہ پر ہے۔
طریقہ پر کوئی اختلاف نہیں۔
اگر اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیا جائے اور اس پر غور و فکر کیا جائے تو مسلہ سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی۔
دو مثالوں سے سمجھے۔
مثال نمبر ایک: نماز سے باہر آنے کے دو طریقے ہیں۔
ایک طریقہ یہ ہے کہ اس کا جو طریقہ اور ادب ہمیں سکھلایا گیا ہے اس کے مطابق سلام کے ذریعے نماز سے باہر آنا چاہئے۔
دوسرا طریقہ بغیر سلام کے نمازی نماز سے باہر آگیا
دونوں صورتوں میں نمازی نماز سے باہر آگیا لیکن پہلی صورت میں اس کو اجرو ثواب ملے گا اور دوسری صورت میں وہ گنہاگار ہوگا۔
مثال نمبر دو: طلاق ہی کی مثال لے لیجئے۔
طلاق کے لئے ہمیں یہ ادب اور اخلاقی طریقہ سمجھایا گیا ہے کہ جب عورت حیض کی حالت میں ہو اور وہ حیض سے پاک ہوجائے تو مباشرت سے پہلے اسے طلاق دی جائے۔ یہ طلاق کا بہترین اور اخلاقی طریقہ ہے۔
لیکن اگر کوئی شخص عورت کے حالت حیض مین ہونے کے وقت طلاق دے دیتا ہے تو یہ صورت سخت ناپسندیدہ ہے اور بندہ گنہاگار ہو گا۔
لیکن شرعی مسلہ یہ ہے کہ دونوں صورتوں میں طلاق ہوگئی۔
بالکل اسی طرح بھی طلاق ثلاثہ کا معاملہ ہے۔
طلاق کے تین طریقے ہیں تینوں صورتوں میں طلاق واقع ہوجاتی ہے
احسن، حسن اور بدعت
طلاق دینے کا شرعی طریقہ
۱:…
ایک یہ کہ بیوی ماہواری سے پاک ہو تو اس سے جنسی تعلق قائم کئے بغیر ایک ”رجعی طلاق“ دے، اور پھر اس سے رُجوع نہ کرے، یہاں تک کہ اس کی عدّت گزر جائے، اس صورت میں عدّت کے اندر اندر رُجوع کرنے کی گنجائش ہوگی، اور عدّت کے بعد دوبارہ نکاح ہوسکے گا۔ یہ طریقہ سب سے بہتر ہے۔
۲:… دُوسرا طریقہ یہ کہ الگ الگ تین طہروں میں تین طلاق دے، یہ صورت زیادہ بہتر نہیں، اور بغیر شرعی حلالہ کے آئندہ نکاح نہیں ہوسکے گا۔
۳:… تیسری صورت ”طلاقِ بدعت“ کی ہے، جس کی کئی صورتیں ہیں، مثلاً یہ کہ بیوی کو ماہواری کی حالت میں طلاق دے یا ایسے طہر میں طلاق دے جس میں صحبت کرچکا ہو، یا ایک ہی لفظ سے، یا ایک ہی مجلس میں، یا ایک ہی طہر میں تین طلاقیں دے ڈالے، یہ ”طلاقِ بدعت“ کہلاتی ہے۔ اس کا حکم یہ ہے کہ اس طریقے سے طلاق دینے والا گنہگار ہوتا ہے، مگر طلاق واقع ہوجاتی ہے، اگر ایک دی تو ایک واقع ہوئی، اگر دو طلاقیں دیں تو دو واقع ہوئیں، اور اگر اکٹھی تین طلاقیں دے دیں تو تینوں واقع ہوگئیں، خواہ ایک لفظ میں دی ہو، یا ایک مجلس میں، یا ایک طہر میں۔