ریڈار کے ذریعےڈولفن ریڈار سسٹم

  • Work-from-home

Just_Like_Roze

hmmmm ...
Super Star
Aug 25, 2011
7,884
5,089
1,313
q.JPG
فطرت سے متاثر ہوکر انسان نے کتنی ہی ایجادات کی ہیں۔ ان میں چھوٹی اور معمولی اشیا سے لے کر بڑی بڑی مشینیں اور دیگر آلات شامل ہیں۔


اس کے علاوہ مختلف ٹیکنالوجیز بھی فطرت سے متأثر نظر آتی ہیں۔ پودوں اور جانوروں کی خصوصیات سے متأثر ہوکر ایجادات کرنے کا عمل سائنس کی باقاعدہ ایک شاخ ہے جو ’ بایو ممیٹکس‘ کہلاتی ہے۔ اس کی ایک مثال جدید ترین ریڈار نظام بھی ہے۔ برطانوی محققین نے ایک آبی مخلوق ڈولفن کی ’شکار کی نشان دہی کی تکنیک‘ سے متاثر ہوکر نیا ریڈار سسٹم ایجاد کیا ہے۔ یہ غیر ضروری سگنلز کو کارآمد سگنلز سے الگ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔


ریڈار کے ذریعے ہدف کی نشان دہی ایک عام طریقہ ہے۔ تاہم اس طریقے سے وہ سگنلز بھی ہم تک پہنچ جاتے ہیں، جن کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ ان سگنلز کو ’کلٹّر‘ کہا جاتا ہے۔ برطانوی محققین کا کہنا ہے کہ نئے ریڈار نظام کی مدد سے بموں اور جاسوسی کے آلات کا باآسانی پتہ چلایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح یہ نظام ملبے یا برف تلے دبے لوگوں کی نشان دہی کرنے کی صلاحیت کا حامل بھی ہے۔





نئے ریڈار کی ایجاد کا سہرا یونیورسٹی آف ساؤتھ ہیمپٹن کی ٹیم کے سر ہے، جس کی سربراہی ٹموتھی لائٹون کررہے تھے۔ نیا ریڈار نظام لہریں منتشر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یہ موجیں جب اشیا سے ٹکرا کر لوٹتی ہیں تو ایک شبیہہ تشکیل دیتی ہیں جسے ’ سنا ‘ جاسکتا ہے۔ تحقیقی ٹیم کا کہنا ہے کہ یہ ریڈار اپنی ایک تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے آسانی سے غیر ضروری اور ضروری لہروں کو الگ الگ کرسکتا ہے۔ محققین کے مطابق ڈولفن مچھلیاں بھی اسی نظام کے تحت لہریں پیدا کرتی ہیں جن کی مدد سے وہ اپنے کھانے کے لیے موزوں جسامت کی مچھلیوں کو دیگر مچھلیوں سے الگ شناخت کرتی ہیں اور پھر ان پر حملہ آور ہوتی ہیں۔


یہ تحقیق برطانوی سائنسی جریدے ’’ پروسیڈنگز آف رائل سوسائٹی‘‘ میں شایع ہوئی ہے۔ محققین نے ڈولفن کی اس تکنیک کو TWIPR کا نام دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے تیار کردہ ریڈار Twin Inverted Pulse Radar کہلائے گا۔ انہوں نے اسے ڈولفن ریڈار سسٹم بھی کہا ہے۔ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ اس نئے ریڈار کو موجودہ ریڈاروں سے بہت بہتر کہا جا سکتا ہے، کیوں کہ یہ صرف مطلوبہ اہداف ہی کی نشان دہی نہیں کرتا بلکہ اس کی مدد سے زمین میں چھپائے گئے بموں میں موجود برقی تاروں، جاسوسی کے لیے استعمال کیے جانے والے آلات اور عمارتوں کی دیواروں کے پیچھے موجود اشیا مثلاً پتھروں اور درختوں کی نشان دہی بھی کی جاسکتی ہے۔
 
Top