دنیا کا مطلوب ترین انسان

  • Work-from-home

Just_Like_Roze

hmmmm ...
Super Star
Aug 25, 2011
7,884
5,089
1,313

اسنوڈن پچھلے ایک برس سے امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ چھپن چھپائی کھیل رہا ہے فوٹو : فائل

یہ پچھلے سال ماہ جون کی بات ہے، پاکستانیوں نے عالم حیرت و پریشانی میں یہ خبر سنی کہ امریکی حکومت دنیائے نیٹ پر وسیع پیمانے پر ان کی جاسوسی کررہی ہے۔جو پاکستانی گوگل، سکائی پی، ایم ایس این براؤزر، یاہو، ایپل وغیرہ استعمال کرتا، وہ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ریڈار میں آجاتا۔ تب ایجنسیاں مسلسل باخبر رہتیں کہ فلاں پاکستانی نیٹ یا موبائل پر کس سے ملاقاتیں اور باتیں کررہا ہے،کن ویب سائٹوں پر جارہا ہے اور اس کی کیا سرگرمیاں ہیں۔
امریکی انٹیلی جنس ایجنسیاں پاکستانیوں ہی نہیں بھارتیوں، ایرانیوں، روسیوں درحقیقت دنیائے نیٹ پر ہر قومیت کے باشندوں پر نظر رکھے ہوئے تھیں اور کسی کو علم نہ تھا کہ ’’بگ برادر‘‘ خفیہ طور پر اس کی سرگرمیاں نوٹ کررہا ہے۔ تقریباً 1949ء میں مشہور امریکی ادیب، جارج اورویل نے اپنے ناول ’’1984‘‘ میں جس عالمی آمرانہ و استبدانہ حکومت کا تصور پیش کیا تھا، دور حاضر میں امریکی حکمران طبقہ اسے شدومد سے اپنا چکا ہے۔

دلچسپ بات یہ کہ دنیا بھر میں عوام و خواص کی ٹوہ میں لگی امریکی حکومت کے ’’کارنامے‘‘ گھر کے بھیدی ایڈورڈ سنوڈن ہی نے افشا کیے اور یہ کوئی معمولی بات نہیں… سنوڈن کا شمار دنیا کے بہادر ترین انسانوں میں ہونا چاہیے۔مئی 2013ء تک سنوڈن سی آئی اے کی نہایت پُرکشش اور مراعات سے بھر پور ملازمت کررہا تھا۔

اسے دنیا کی ہر آسائش میسر تھی۔ لیکن جب ضمیر نے تہیہ کرلیا کہ وہ اپنی حکومت کا ظلم و ستم سامنے لائے گا، تو سنوڈن نے عیش و عشرت والی اپنی زندگی کو لات مار دی۔ پاکستانیوں سمیت امریکی چیرہ دستیوں کا شکار ہر قوم کو سنوڈن کی قربانیوں پر اس کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ آمروں سے ٹکر ہر کوئی نہیں لے سکتا، اس کے لیے ہمت و قربانی دینے کا جذبہ درکار ہوتا ہے۔

اب بیچارا اسنوڈن پچھلے ایک برس سے امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ چھپن چھپائی کھیل رہا ہے۔ روس نے اسے پناہ دے رکھی ہے، مگر امریکی جاسوس شکاری کتوں کی مانند اس کی بو سونگھتے پھرتے ہیں۔ بعید نہیںکہ اسرائیلی جاسوس جس طرح 1960ء میں جرمن فوجی افسر، ایڈلف ایخمان کو ارجنٹائن سے اغوا کر لائے تھے، اسی طرح سی آئی اے بھی سنوڈن کو روس میں دبوچے اور امریکا لے آئے۔ امریکی حکومت اسے ’’غدار‘‘ قرار دے چکی اور غداری کی سزا موت ہے۔

ایڈورڈ سنوڈن ایک شرمیلا، بھیڑبھاڑ سے دور رہنے والا نوجوان ہے۔ اسے اپنی تشہیر بھی پسند نہیں، اسی لیے دنیا والے کم ہی جانتے ہیں کہ سنوڈن نے دنیا کی اکلوتی سپرپاور سے کیوں ٹکر لی اور اپنی جان خطرے میں ڈال دی؟ یہی اہم سوالات جاننے کی خاطر اس ماہ اگست میں مشہور امریکی انویسٹیگیٹو صحافی، جیمز بامفورڈ ماسکو پہنچا۔ وہ پچھلے نو ماہ سے کوششیں کررہا تھا کہ کسی طرح سنوڈن سے انٹرویو ہوسکے۔وہ لکھتا ہے :

’’ جب سنوڈن امریکی تاریخ میں سب سے زیادہ قومی راز چرا کر فرار ہوا اور روسیوں نے اسے پناہ دی، تو امریکا میں اکثر لوگ یہی سمجھنے لگے کہ وہ روس کا ایجنٹ تھا۔ تاہم یہ الزام محض افواہ ہے۔آج ایڈورڈ سنوڈن کسی ملک کا شہری نہیں اور صرف میڈیا میں ہی اس کا چرچا سننے کو ملتا ہے… بہت کم لوگ اس سے ملاقات کرپاتے ہیں ۔ اس سے بھی کم لوگوں کو علم ہے کہ وہ رہتا کہاں ہے۔ تاہم وہ دنیا بھر میں جمہوریت، شخصی آزادی اور امن سے محبت کرنے والے کروڑوں انسانوں کا محبوب ہیرو بن چکا ہے۔‘‘

حال ہی میں واشنگٹن پوسٹ نے خبر دی کہ وائٹ ہاؤس میں ایک خصوصی ’’سنوڈن سیل‘‘ قائم ہوچکا ہے۔ اس خفیہ سیل سے سی آئی اے، ایف بی اے، این ایس اے اور دیگر امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اعلیٰ افسر وابستہ ہیں۔ یہ افسر روزانہ میٹنگیں کرتے اور ایسی راہیں ڈھونڈتے ہیں جن سے سنوڈن کو قابو کیا جاسکے۔
ایڈورڈ سنوڈن ماسکو میں ایک عام انسان کی طرح زندگی گزار رہا ہے۔ وہ بھیس بدل کر دکانوں میں خریداری کرتا اور گھومتا پھرتا ہے۔ ٹوٹی پھوٹی روسی بول لیتا ہے۔ بہت کم سیل فون اور کمپیوٹر استعمال کرتا ہے کیونکہ امریکی خفیہ ایجنسی، این ایس اے(National Security Agency) کے ماہرین ایسے جدید آلات ایجاد کرچکے جو بند کمپیوٹر، لیپ ٹاپ یا سمارٹ فون کے مائیکروفون بھی آن کر دیتے ہیں۔
حال ہی میں ایک اور دلچسپ انکشاف ہوا۔ یہ کہ سنوڈن کے نام پر امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی کمین گاہوں میں چھپا کوئی اور شخص بھی اس کے نام سے خفیہ دستاویزات افشا کررہا ہے۔ سنوڈن اس متعلق کوئی بات کرنے سے انکاری ہے، مگر مغربی میڈیا یہ حقیقت جان چکا۔
11 ستمبر 2001ء کو سنوڈن دفتر جارہا تھا کہ گاڑی کے ریڈیو پر اس نے سنا، طیارے ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ٹکرا گئے۔ سبھی امریکیوں کے مانند وہ بھی اس حادثے سے بہت متاثر ہوا۔ حتیٰ کہ جب 2004ء میں امریکی افواج نے فلوجہ، عراق پر حملہ کیا، تو سنوڈن رضا کارانہ طور پر اس میں شامل ہوگیا، وہ کہتا ہے:

’’تب مجھے بھی امریکی حکومت کے اس پروپیگنڈے پر یقین آگیا کہ عراق خطرناک ہتھیار بناکر امریکیوں کو نیست و نابود کرنا چاہتا تھا۔ میں سمجھتا تھا کہ امریکی حکومت سچ بول رہی ہے۔ لہٰذا جذبہ حب الوطنی کے تحت میں بھی فوج میں جا شامل ہوا۔‘‘



سنوڈن عراق اس لیے بھی گیا تاکہ عربی زبان سیکھ سکے۔ اسے نئی زبانیں سیکھنے کا بہت شوق ہے۔ وہ تمام داخلہ امتحانات میں پاس ہوگیا مگر جب عسکری تربیت کا مرحلہ آیا، تو اس کی کمزور جسمانی ساخت آڑے آگئی۔ ایک حادثے میں اس کی دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئیں اور اسے مجبوراً فوج سے رخصت ہونا پڑا۔وہ کچھ ہی عرصے فارغ رہا۔ اسے ایک ٹاپ سیکرٹ سرکاری ادارے میں بحیثیت سکیورٹی گارڈ ملازمت مل گئی۔ وہ جھوٹ پکڑنے کے امتحان (پولی گراف ٹیسٹ) میں کامیاب رہا۔ اس کا ماضی بھی اچھی طرح کنگھالا گیا۔ یوں سنوڈن عالم بے خبری میں انٹیلی جنس کی خفیہ دنیا کا حصہ بن گیا۔

جب افسران بالا کو علم ہوا کہ وہ معاملات کمپیوٹر میں طاق ہے، تو سی آئی اے نے اسے اپنے گلوبل کمیونیکیشنز ڈویژن میں بھرتی کرلیا۔ ایلیٹ امریکی خفیہ ایجنسی کے صدر دفتر (لینگلے، ورجینا) میں واقع یہ ڈویژن کمپیوٹر سے متعلق معاملے و مسائل حل کرتا ہے۔
اسرائیل۔۔۔ موجاں ای موجاں
جزیرہ ہوائی پہنچ کر سنوڈن پہ پہلا انکشاف یہ ہوا کہ دنیائے انٹرنیٹ میں کروڑوں انسانوں کی جاسوسی سے این ایس اے کو جو ڈیٹا حاصل ہوا، وہ اسے من و عن اسرائیل کو فراہم کررہی ہے۔ اس ڈیٹا میں امریکا میں مقیم ان لاکھوں عربوں اور فلسطینیوں کی ای میلیں اور فون کالیں بھی شامل تھیں جن کے رشتے دار مقبوضہ فلسطین میں مقیم تھے۔ سنوڈن کہتا ہے:

’’میں امریکی و اسرائیلی حکومتوں کا تعاون دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اسرائیلی اس ڈیٹا کے ذریعے باآسانی فلسطینیوں کو ٹارگٹ کرسکتے تھے۔ میں اسے انفرادی آزادی کی پامالی کے بدترین واقعات میں شامل سمجھتا ہوں۔‘‘

حکومت کرپٹ کیسے ہوتی ہے؟
ایڈورڈ سنوڈن یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ این ایس اے کے افسر اور حکومتی اہلکار دھڑلے سے کہتے ہیں کہ عوام کی کالیں و ای میلیں ٹیپ نہیں ہورہیں۔ یہ صریح جھوٹ چھوٹے انٹیلی جنس اہلکار ایک کان سے سنتے دوسرے سے نکال دیتے۔ وہ کہتا ہے:

’’یوں میرے ساتھیوں نے فرد کی آزادی پامال کرنے والی حکومتی کارروائی کو معمولی بدی سمجھ کر نظر انداز کردیا۔ لیکن میرے نزدیک یہ بہت بڑی غلطی تھی کیونکہ انسان اسی طرح چھوٹی چھوٹی برائیوں، قانون توڑنے کے واقعات، جھوٹوں اور دھوکہ بازی کو نظر انداز کرنے لگے، تو وہ اسے زندگی کا چلن سمجھنے لگتا ہے۔

’’پندرہ، بیس، پچیس سال بعد انسان برائیوں کا ایسا عادی ہوجاتا ہے کہ پھر بڑی سے بڑی برائی بھی اسے حیرت زدہ اور متاثر نہیں کرتی اور یہی خطرناک بات ہے۔ تب انسان کے لیے تمام اخلاقیات اور اصول ضابطے بے معنی بن جاتے ہیں اور وہ جس کی لاٹھی اسی کی بھینس والے انتہائی نامعقول نظریے کو درست سمجھنے لگتا ہے۔ تب حکومت اور سرکاری اہل کار عوام کو دھوکا دیتے اور برائی کرتے ہوئے یہی سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی ذمے داری نبھا رہے ہیں۔ یوں سارا نظام حکومت ہی کرپٹ ہوجاتا ہے۔ امریکی حکومت کا سسٹم بھی اسی کیفیت سے دوچار ہے۔

شام جب دنیائے نیٹ سے کٹا
2012ء میں این ایس اے کے ہیکروں نے کوشش کی کہ شام میں انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والی سب سے بڑی کمپنی کے بنیادی روسٹر میں اپنا پروگرام چھوڑ دے۔ یوں این ایس اے کو موقع مل جاتا کہ وہ شام میں بیشتر انٹرنیٹ ٹریفک کو ریکارڈ کرسکے۔

شام تب پوری طرح خانہ جنگی کی لپیٹ میں تھا لیکن کسی تکنیکی خرابی کی وجہ سے پروگرام روسٹر میں انسٹال نہیں ہوسکا۔ یہی نہیں، اس نے روسٹر کو ناقابل استعمال بنا ڈالا۔ چنانچہ شام کے بیشتر علاقوں کا انٹرنیٹ سے رابطہ منقطع ہوگیا۔ مگر شامی حکومت اور عوام، کسی کو علم نہ تھا کہ اس خرابی کی ذمے دار امریکی حکومت ہے۔

اُدھر این ایس اے کے ہیکروں میں ہلچل مچ گئی۔ ہر طرف ’’ارے مروادیا‘‘ کے جملے سنائی دیئے۔ اب انہوں نے سرتوڑ کوشش کی کہ روسٹر درست کردیں۔ انہیں خوف تھا کہ شامی حکومت جدید ترین سافٹ ویئر تک پہنچ سکتی ہے لیکن روسٹر مرمت نہ ہوسکا۔

این ایس اے کی خوش قسمتی کہ شامی حکومت کے ماہرین کمپیوٹر اسی تگ و دو میں لگے رہے کہ دنیائے انٹرنیٹ سے رابطہ بحال ہوجائے۔ انہیں یہ جستجو نہیں تھی کہ خرابی کے منبع تک پہنچا جائے۔ تبھی امریکی سرکاری ہیکروں میں درج ذیل لطیفہ مشہور ہوا جو کسی حد تک سچائی بھی رکھتا ہے: ’’اگر ہم پکڑے جاتے، تو پریشانی کی کوئی بات نہ تھی، ہم فوراً اسرائیل کی طرف انگلی اٹھا دیتے۔‘‘

انتہائی خطرناک سافٹ ویئر : مونسٹر مائنڈ
سنوڈن یہ جان کر حیرت زدہ ہوا کہ امریکی ماہرین کمپیوٹر ایک مہلک اور تباہ کن سافٹ ویئر ’’مونسٹر مائنڈ‘‘ (MonsterMind)ایجاد کرچکے۔ یہ پروگرام دنیائے انٹرنیٹ میں امریکی تنصیبات کی نگرانی کرتا اور ان پر سائبر حملے روکتا ہے۔

مونسٹر مائنڈ کی جدت و ہلاکت آفریں خصوصیت یہ ہے کہ جس جگہ سے سائبر حملہ آئے، وہ اس پر جوابی وار کرتا اور کمپیوٹر کو ناکارہ بنا دیتا ہے۔ سنوڈن کے مطابق مونسٹر مائنڈ کی یہی خاصیت بہت خطرناک ہے۔

وجہ یہ ہے کہ سائبر حملے عموماً چھپ کر کیے جاتے ہیں۔ مثلاً ہیکر چین میں بیٹھا ہے، مگر اس نے حملہ روس میں موجود کمپیوٹر سے کیا۔ ایسی صورت میں مونسٹر مائنڈ نہ صرف غلط طور پر روس پر حملہ آور ہوتا ہے بلکہ ممکن ہے کہ شکار ہونے والا کمپیوٹر کسی سکول کالج یا ہسپتال میں ہو اور اس کی خرابی سے سارا نظام تلپٹ ہو جائے۔

اس صورت حا ل میں روس نے جوابی وار کیا، تو دونوں سپر طاقتوں کے مابین جنگ چھڑ سکتی ہے۔ اسی لیے سنوڈن نے مونسٹر مائنڈ کو بنی نوع انسان کے خلاف سرگرم عمل ابلیس قرار دیا۔
 

Bird-Of-Paradise

TM ki Birdie
VIP
Aug 31, 2013
23,935
11,040
1,313
ώόήȡέŕĻάήȡ

اسنوڈن پچھلے ایک برس سے امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ چھپن چھپائی کھیل رہا ہے فوٹو : فائل

یہ پچھلے سال ماہ جون کی بات ہے، پاکستانیوں نے عالم حیرت و پریشانی میں یہ خبر سنی کہ امریکی حکومت دنیائے نیٹ پر وسیع پیمانے پر ان کی جاسوسی کررہی ہے۔جو پاکستانی گوگل، سکائی پی، ایم ایس این براؤزر، یاہو، ایپل وغیرہ استعمال کرتا، وہ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ریڈار میں آجاتا۔ تب ایجنسیاں مسلسل باخبر رہتیں کہ فلاں پاکستانی نیٹ یا موبائل پر کس سے ملاقاتیں اور باتیں کررہا ہے،کن ویب سائٹوں پر جارہا ہے اور اس کی کیا سرگرمیاں ہیں۔
امریکی انٹیلی جنس ایجنسیاں پاکستانیوں ہی نہیں بھارتیوں، ایرانیوں، روسیوں درحقیقت دنیائے نیٹ پر ہر قومیت کے باشندوں پر نظر رکھے ہوئے تھیں اور کسی کو علم نہ تھا کہ ’’بگ برادر‘‘ خفیہ طور پر اس کی سرگرمیاں نوٹ کررہا ہے۔ تقریباً 1949ء میں مشہور امریکی ادیب، جارج اورویل نے اپنے ناول ’’1984‘‘ میں جس عالمی آمرانہ و استبدانہ حکومت کا تصور پیش کیا تھا، دور حاضر میں امریکی حکمران طبقہ اسے شدومد سے اپنا چکا ہے۔

دلچسپ بات یہ کہ دنیا بھر میں عوام و خواص کی ٹوہ میں لگی امریکی حکومت کے ’’کارنامے‘‘ گھر کے بھیدی ایڈورڈ سنوڈن ہی نے افشا کیے اور یہ کوئی معمولی بات نہیں… سنوڈن کا شمار دنیا کے بہادر ترین انسانوں میں ہونا چاہیے۔مئی 2013ء تک سنوڈن سی آئی اے کی نہایت پُرکشش اور مراعات سے بھر پور ملازمت کررہا تھا۔

اسے دنیا کی ہر آسائش میسر تھی۔ لیکن جب ضمیر نے تہیہ کرلیا کہ وہ اپنی حکومت کا ظلم و ستم سامنے لائے گا، تو سنوڈن نے عیش و عشرت والی اپنی زندگی کو لات مار دی۔ پاکستانیوں سمیت امریکی چیرہ دستیوں کا شکار ہر قوم کو سنوڈن کی قربانیوں پر اس کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ آمروں سے ٹکر ہر کوئی نہیں لے سکتا، اس کے لیے ہمت و قربانی دینے کا جذبہ درکار ہوتا ہے۔

اب بیچارا اسنوڈن پچھلے ایک برس سے امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ چھپن چھپائی کھیل رہا ہے۔ روس نے اسے پناہ دے رکھی ہے، مگر امریکی جاسوس شکاری کتوں کی مانند اس کی بو سونگھتے پھرتے ہیں۔ بعید نہیںکہ اسرائیلی جاسوس جس طرح 1960ء میں جرمن فوجی افسر، ایڈلف ایخمان کو ارجنٹائن سے اغوا کر لائے تھے، اسی طرح سی آئی اے بھی سنوڈن کو روس میں دبوچے اور امریکا لے آئے۔ امریکی حکومت اسے ’’غدار‘‘ قرار دے چکی اور غداری کی سزا موت ہے۔

ایڈورڈ سنوڈن ایک شرمیلا، بھیڑبھاڑ سے دور رہنے والا نوجوان ہے۔ اسے اپنی تشہیر بھی پسند نہیں، اسی لیے دنیا والے کم ہی جانتے ہیں کہ سنوڈن نے دنیا کی اکلوتی سپرپاور سے کیوں ٹکر لی اور اپنی جان خطرے میں ڈال دی؟ یہی اہم سوالات جاننے کی خاطر اس ماہ اگست میں مشہور امریکی انویسٹیگیٹو صحافی، جیمز بامفورڈ ماسکو پہنچا۔ وہ پچھلے نو ماہ سے کوششیں کررہا تھا کہ کسی طرح سنوڈن سے انٹرویو ہوسکے۔وہ لکھتا ہے :

’’ جب سنوڈن امریکی تاریخ میں سب سے زیادہ قومی راز چرا کر فرار ہوا اور روسیوں نے اسے پناہ دی، تو امریکا میں اکثر لوگ یہی سمجھنے لگے کہ وہ روس کا ایجنٹ تھا۔ تاہم یہ الزام محض افواہ ہے۔آج ایڈورڈ سنوڈن کسی ملک کا شہری نہیں اور صرف میڈیا میں ہی اس کا چرچا سننے کو ملتا ہے… بہت کم لوگ اس سے ملاقات کرپاتے ہیں ۔ اس سے بھی کم لوگوں کو علم ہے کہ وہ رہتا کہاں ہے۔ تاہم وہ دنیا بھر میں جمہوریت، شخصی آزادی اور امن سے محبت کرنے والے کروڑوں انسانوں کا محبوب ہیرو بن چکا ہے۔‘‘

حال ہی میں واشنگٹن پوسٹ نے خبر دی کہ وائٹ ہاؤس میں ایک خصوصی ’’سنوڈن سیل‘‘ قائم ہوچکا ہے۔ اس خفیہ سیل سے سی آئی اے، ایف بی اے، این ایس اے اور دیگر امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اعلیٰ افسر وابستہ ہیں۔ یہ افسر روزانہ میٹنگیں کرتے اور ایسی راہیں ڈھونڈتے ہیں جن سے سنوڈن کو قابو کیا جاسکے۔
ایڈورڈ سنوڈن ماسکو میں ایک عام انسان کی طرح زندگی گزار رہا ہے۔ وہ بھیس بدل کر دکانوں میں خریداری کرتا اور گھومتا پھرتا ہے۔ ٹوٹی پھوٹی روسی بول لیتا ہے۔ بہت کم سیل فون اور کمپیوٹر استعمال کرتا ہے کیونکہ امریکی خفیہ ایجنسی، این ایس اے(National Security Agency) کے ماہرین ایسے جدید آلات ایجاد کرچکے جو بند کمپیوٹر، لیپ ٹاپ یا سمارٹ فون کے مائیکروفون بھی آن کر دیتے ہیں۔
حال ہی میں ایک اور دلچسپ انکشاف ہوا۔ یہ کہ سنوڈن کے نام پر امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی کمین گاہوں میں چھپا کوئی اور شخص بھی اس کے نام سے خفیہ دستاویزات افشا کررہا ہے۔ سنوڈن اس متعلق کوئی بات کرنے سے انکاری ہے، مگر مغربی میڈیا یہ حقیقت جان چکا۔
11 ستمبر 2001ء کو سنوڈن دفتر جارہا تھا کہ گاڑی کے ریڈیو پر اس نے سنا، طیارے ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ٹکرا گئے۔ سبھی امریکیوں کے مانند وہ بھی اس حادثے سے بہت متاثر ہوا۔ حتیٰ کہ جب 2004ء میں امریکی افواج نے فلوجہ، عراق پر حملہ کیا، تو سنوڈن رضا کارانہ طور پر اس میں شامل ہوگیا، وہ کہتا ہے:

’’تب مجھے بھی امریکی حکومت کے اس پروپیگنڈے پر یقین آگیا کہ عراق خطرناک ہتھیار بناکر امریکیوں کو نیست و نابود کرنا چاہتا تھا۔ میں سمجھتا تھا کہ امریکی حکومت سچ بول رہی ہے۔ لہٰذا جذبہ حب الوطنی کے تحت میں بھی فوج میں جا شامل ہوا۔‘‘



سنوڈن عراق اس لیے بھی گیا تاکہ عربی زبان سیکھ سکے۔ اسے نئی زبانیں سیکھنے کا بہت شوق ہے۔ وہ تمام داخلہ امتحانات میں پاس ہوگیا مگر جب عسکری تربیت کا مرحلہ آیا، تو اس کی کمزور جسمانی ساخت آڑے آگئی۔ ایک حادثے میں اس کی دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئیں اور اسے مجبوراً فوج سے رخصت ہونا پڑا۔وہ کچھ ہی عرصے فارغ رہا۔ اسے ایک ٹاپ سیکرٹ سرکاری ادارے میں بحیثیت سکیورٹی گارڈ ملازمت مل گئی۔ وہ جھوٹ پکڑنے کے امتحان (پولی گراف ٹیسٹ) میں کامیاب رہا۔ اس کا ماضی بھی اچھی طرح کنگھالا گیا۔ یوں سنوڈن عالم بے خبری میں انٹیلی جنس کی خفیہ دنیا کا حصہ بن گیا۔

جب افسران بالا کو علم ہوا کہ وہ معاملات کمپیوٹر میں طاق ہے، تو سی آئی اے نے اسے اپنے گلوبل کمیونیکیشنز ڈویژن میں بھرتی کرلیا۔ ایلیٹ امریکی خفیہ ایجنسی کے صدر دفتر (لینگلے، ورجینا) میں واقع یہ ڈویژن کمپیوٹر سے متعلق معاملے و مسائل حل کرتا ہے۔
اسرائیل۔۔۔ موجاں ای موجاں
جزیرہ ہوائی پہنچ کر سنوڈن پہ پہلا انکشاف یہ ہوا کہ دنیائے انٹرنیٹ میں کروڑوں انسانوں کی جاسوسی سے این ایس اے کو جو ڈیٹا حاصل ہوا، وہ اسے من و عن اسرائیل کو فراہم کررہی ہے۔ اس ڈیٹا میں امریکا میں مقیم ان لاکھوں عربوں اور فلسطینیوں کی ای میلیں اور فون کالیں بھی شامل تھیں جن کے رشتے دار مقبوضہ فلسطین میں مقیم تھے۔ سنوڈن کہتا ہے:

’’میں امریکی و اسرائیلی حکومتوں کا تعاون دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اسرائیلی اس ڈیٹا کے ذریعے باآسانی فلسطینیوں کو ٹارگٹ کرسکتے تھے۔ میں اسے انفرادی آزادی کی پامالی کے بدترین واقعات میں شامل سمجھتا ہوں۔‘‘

حکومت کرپٹ کیسے ہوتی ہے؟
ایڈورڈ سنوڈن یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ این ایس اے کے افسر اور حکومتی اہلکار دھڑلے سے کہتے ہیں کہ عوام کی کالیں و ای میلیں ٹیپ نہیں ہورہیں۔ یہ صریح جھوٹ چھوٹے انٹیلی جنس اہلکار ایک کان سے سنتے دوسرے سے نکال دیتے۔ وہ کہتا ہے:

’’یوں میرے ساتھیوں نے فرد کی آزادی پامال کرنے والی حکومتی کارروائی کو معمولی بدی سمجھ کر نظر انداز کردیا۔ لیکن میرے نزدیک یہ بہت بڑی غلطی تھی کیونکہ انسان اسی طرح چھوٹی چھوٹی برائیوں، قانون توڑنے کے واقعات، جھوٹوں اور دھوکہ بازی کو نظر انداز کرنے لگے، تو وہ اسے زندگی کا چلن سمجھنے لگتا ہے۔

’’پندرہ، بیس، پچیس سال بعد انسان برائیوں کا ایسا عادی ہوجاتا ہے کہ پھر بڑی سے بڑی برائی بھی اسے حیرت زدہ اور متاثر نہیں کرتی اور یہی خطرناک بات ہے۔ تب انسان کے لیے تمام اخلاقیات اور اصول ضابطے بے معنی بن جاتے ہیں اور وہ جس کی لاٹھی اسی کی بھینس والے انتہائی نامعقول نظریے کو درست سمجھنے لگتا ہے۔ تب حکومت اور سرکاری اہل کار عوام کو دھوکا دیتے اور برائی کرتے ہوئے یہی سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی ذمے داری نبھا رہے ہیں۔ یوں سارا نظام حکومت ہی کرپٹ ہوجاتا ہے۔ امریکی حکومت کا سسٹم بھی اسی کیفیت سے دوچار ہے۔

شام جب دنیائے نیٹ سے کٹا
2012ء میں این ایس اے کے ہیکروں نے کوشش کی کہ شام میں انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والی سب سے بڑی کمپنی کے بنیادی روسٹر میں اپنا پروگرام چھوڑ دے۔ یوں این ایس اے کو موقع مل جاتا کہ وہ شام میں بیشتر انٹرنیٹ ٹریفک کو ریکارڈ کرسکے۔

شام تب پوری طرح خانہ جنگی کی لپیٹ میں تھا لیکن کسی تکنیکی خرابی کی وجہ سے پروگرام روسٹر میں انسٹال نہیں ہوسکا۔ یہی نہیں، اس نے روسٹر کو ناقابل استعمال بنا ڈالا۔ چنانچہ شام کے بیشتر علاقوں کا انٹرنیٹ سے رابطہ منقطع ہوگیا۔ مگر شامی حکومت اور عوام، کسی کو علم نہ تھا کہ اس خرابی کی ذمے دار امریکی حکومت ہے۔

اُدھر این ایس اے کے ہیکروں میں ہلچل مچ گئی۔ ہر طرف ’’ارے مروادیا‘‘ کے جملے سنائی دیئے۔ اب انہوں نے سرتوڑ کوشش کی کہ روسٹر درست کردیں۔ انہیں خوف تھا کہ شامی حکومت جدید ترین سافٹ ویئر تک پہنچ سکتی ہے لیکن روسٹر مرمت نہ ہوسکا۔

این ایس اے کی خوش قسمتی کہ شامی حکومت کے ماہرین کمپیوٹر اسی تگ و دو میں لگے رہے کہ دنیائے انٹرنیٹ سے رابطہ بحال ہوجائے۔ انہیں یہ جستجو نہیں تھی کہ خرابی کے منبع تک پہنچا جائے۔ تبھی امریکی سرکاری ہیکروں میں درج ذیل لطیفہ مشہور ہوا جو کسی حد تک سچائی بھی رکھتا ہے: ’’اگر ہم پکڑے جاتے، تو پریشانی کی کوئی بات نہ تھی، ہم فوراً اسرائیل کی طرف انگلی اٹھا دیتے۔‘‘

انتہائی خطرناک سافٹ ویئر : مونسٹر مائنڈ
سنوڈن یہ جان کر حیرت زدہ ہوا کہ امریکی ماہرین کمپیوٹر ایک مہلک اور تباہ کن سافٹ ویئر ’’مونسٹر مائنڈ‘‘ (MonsterMind)ایجاد کرچکے۔ یہ پروگرام دنیائے انٹرنیٹ میں امریکی تنصیبات کی نگرانی کرتا اور ان پر سائبر حملے روکتا ہے۔

مونسٹر مائنڈ کی جدت و ہلاکت آفریں خصوصیت یہ ہے کہ جس جگہ سے سائبر حملہ آئے، وہ اس پر جوابی وار کرتا اور کمپیوٹر کو ناکارہ بنا دیتا ہے۔ سنوڈن کے مطابق مونسٹر مائنڈ کی یہی خاصیت بہت خطرناک ہے۔

وجہ یہ ہے کہ سائبر حملے عموماً چھپ کر کیے جاتے ہیں۔ مثلاً ہیکر چین میں بیٹھا ہے، مگر اس نے حملہ روس میں موجود کمپیوٹر سے کیا۔ ایسی صورت میں مونسٹر مائنڈ نہ صرف غلط طور پر روس پر حملہ آور ہوتا ہے بلکہ ممکن ہے کہ شکار ہونے والا کمپیوٹر کسی سکول کالج یا ہسپتال میں ہو اور اس کی خرابی سے سارا نظام تلپٹ ہو جائے۔

اس صورت حا ل میں روس نے جوابی وار کیا، تو دونوں سپر طاقتوں کے مابین جنگ چھڑ سکتی ہے۔ اسی لیے سنوڈن نے مونسٹر مائنڈ کو بنی نوع انسان کے خلاف سرگرم عمل ابلیس قرار دیا۔
infomative
 
  • Like
Reactions: JUST LIKE ROZE
Top