درِ قفس سے پرے جب صبا گزرتی ہے
کسے خبر کہ اسیروں پہ کیا گزرتی ہے
تعلقات ابھی اس قدر نہ ٹوٹے تھے
کہ تیری یاد بھی دل سے خفا گزرتی ہے
وہ اب ملے بھی تو ملتا ہے اس طرح جیسے
بجھے چراغ کو چھو کر ہوا گزرتی ہے
یہ اہلِ ہجر کی بستی ہے احتیاط سے چل
مصیبتوں کی یہاں انتہا گزرتی ہے
کسے خبر کہ اسیروں پہ کیا گزرتی ہے
تعلقات ابھی اس قدر نہ ٹوٹے تھے
کہ تیری یاد بھی دل سے خفا گزرتی ہے
وہ اب ملے بھی تو ملتا ہے اس طرح جیسے
بجھے چراغ کو چھو کر ہوا گزرتی ہے
یہ اہلِ ہجر کی بستی ہے احتیاط سے چل
مصیبتوں کی یہاں انتہا گزرتی ہے