کسی کلام کا تضاد سے پاک ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ حقیقت سے کلی مطابقت رکھتا ہے – جو شخص حقیقتوں کا علم نہ رکھتا ہو یا صرف جزوی علم اسے حاصل ہو وہ جب بھی حقیقت کو بیان کرنے بیٹھے گا لازمی طور پرتضادات کا شکار ہوجائے گا - وہ ایک پہلو کی تشریح کرتے ہوئے دوسرے پہلو کی رعایت نہ کرسکے گا و ہ ایک رخ کو کھولے گا تو دوسرے رخ کو بند کردے گا - زندگی اور کائنات کی توجیہ کا سوال ایک ہمہ گیر سوال ہے - اس کے لئے ساری حقیقتوں کا علم حاصل ہونا ضروری ہے اور چونکہ اپنی محدود صلاحیتوں کی بنا پر ساری حقیقتوں کا علم حاصل نہیں کرسکتا اس لئے وہ سارے پہلوؤں کیہ رعایت بھی نہیں کرسکتا - یہی وجہ ہے کہ انسان کے بنائے ہوئے فلسفوں میں تضاد کا پایا جانا لازمی ہے - قرآن کی یہ خصوصیت کہ وہ اس قسم کے تضادات سے پاک ہے ، اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ وہ حقیقت کی صحیح ترین تعبیر ہے ، اس کے سوا تمام تعبیریں غلط ہیں - اس واقعہ کو میں مثال کے ذریعہ واضح کروں گا-
1 - زندگی کے موضوع پر جو کتاب لکھی جائے اس کا ایک ضروری باب زندگی کے فرائض متعین کرنا ہے - یہ فرائض متعین کرنے میں ضروری ہے کہ ان کے مختلف پہلوؤں کی ٹھیک ٹھیک رعایت کی جائے –ایسا نہ ہو کہ کسی ایک پہلو سے کوئی ایسا حکم دیا جائے جو دوسرے پہلو سے ٹکراتا ہو- مثلا مرد اور عورت کی حیثیت متعین کرنا تمدنی زندگی کا ایک اہم مسئلہ ہے - آج کے ترقی یافتہ دور نے یہ قرار دیا ہے کہ عورت اور مرد کے درمیان مساوات ہونی چاہئے اور زندگی کے ہر شعبہ میں دونوں کو یکساں طور پر کام کرنے کا موقع دینا چاہئے مگر یہاں انسانی ساخت کا تمدنی اصول ایک نہایت اہم صورت واقعی سے ٹکرارہا ہے - یعنی اس حقیقت سے کہ حیاتیات کے اعتبار سے دونوں صنفوں کے درمیان مساوات نہیں ہے اور یہ ممکن نہیں ہے کہ دونوں یکساں طور پر زندگی کا بوجھ اٹھا سکیں - اس کے برعکس قرآن نے تمدنی زندگی میں عورت اور مرد کا جو مقام متعین کیا ہے وہ دونوں کی پیدائشی ساخت کے عین مطابق ہے اور قانون اور حقیقت کے درمیان کوئی تضاد پیدا نہیں ہوتا –
2 - کارل مارکس نے انقلاب کا فلسفہ یہ بتا یا ہے کہ جس طرح ایک عالم گیر قانون کشش سے ستارے حرکت کررہے ہیں اسی طرح کچھ ناگذیر تاریخی قوانین ہیں جو سماجی تبدیلیوں کا سبب بنتے ہیں یہ قوانین مسلسل طور پر اپنا کام کررہے ہیں اور اسی کے مطابق انسانی زندگی میں انقلابات آتے ہیں مگر اس فلسفہ کو مرتب کرنے کے ساتھ ہی اس نے یہ نعرہ بھی لگایا کہ :
" دنیا کے مزدورو! متحد ہوجاؤ "
ظاہر ہے کہ یہ دونوں باتیں ایک دوسرے کی ضد ہیں - اگر سماجی تبدیلیوں کا کوئی ناگزیر تاریخی قانون ہے تو سیاسی جدوجہد کی ضرورت نہیں اور اگر سیاسی جدوجہد کے ذریعہ اگر انقلاب آتا ہے تو پھر ناگزیر تاریخی قانون کے کیا معنی ؟
اس کے برعکس قرآن انسانی ارادہ کو تسلیم کرتا ہے - اس کا فلسفہ یہ ہے کہ زندگی میں جو واقعات پیش آتے ہیں وہ انسان کی اپنی کوششوں کا نتیجہ ہوتے ہیں - مادی دنیا کی طرح ان واقعات کی کوئی لازمی منطق نہیں ہے – بلکہ انسانی شکل انھیں کوئی بھی شکل دے سکتی ہے - یقینا فطرت کے کچھ قوانین ہیں اور اس سلسلہ میں وہ اہم کام کرتے ہیں مگر ان کے کام کی نوعیت یہ ہے کہ وہ انسانی کوششوں کا ساتھ دے کر اسے منزل تک پہنچادیتے ہیں نہ کہ خود انسانی کوششیں ان قوانین کا خارجی ظہور ہیں - اس طرح قرآن کے نظریہ اور اس کی دعوت میں کوئی تضاد نہیں - وہ جب اپنے نظریہ کو قائم کرنے کے لئے لوگوں کو پکارتا ہے تو وہ اپنے فلسفہ کی تصدیق کرتا ہے نہ کہ اس کی تردید - اس کے برعکس مارکسی فلسفہ اس کے عملی پروگرام سے صاف ٹکرارہا ہے ، کمیونسٹ پارٹیوں کا وجود حقیقی معنوں میں مارکسی فلسفہ کی تردید ہے - کمیونسٹ مینی فسٹو کا آخری فقرہ اس کے پہلے فقرہ کو رد کردیتا ہے –
قرآن کی تعلیمات کو اگر آپ انسانی فلسفوں کے مقابلے میں رکھ کر دیکھیں تو اس قسم کی بہت سی مثالیں پائیں گے-
3 - قرآن کی تیسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ تقریبا دیڑھ ہزار برس سے موجود ہے - اس زمانے میں کتنے انقلابات آئے ہیں ، تاریخ میں کتنی الٹ پلٹ ہوئی ہے ، زمانہ نے کتنی کروٹیں بدلی ہیں ، مگر اب تک اس کی کوئی بات غلط ثابت نہیں ہوئی ، وہ ہر زمانہ کے عقلی امکانات اور تمدنی ضروریات کا مسلسل ساتھ دیتا چلا آرہا ہے - اس کی تعلیمات کی ہمہ گیری کسی مقام پر بھی ختم نہیں ہوتی بلکہ ہر زمانے کے مسائل پر حاوی ہوتی چلی جاتی ہے - یہ اس عظیم کتاب کی ایک ایسی خصوصیت ہے جو کسی بھی انسانی کتاب کو اب تک حاصل نہیں ہوسکی ہے - انسان کا بنایا ہوا ہر فلسفہ چند ہی دنوں بعد اپنی غلطی ظاہر کردیتا ہے مگر صدیوں پر صدیاں گذرتی جارہی ہیں اور اس کتاب کی صداقت میں کوئی فرق نہیں آتا –
یہ قانون اس وقت بنایا گیا تھا جب عرب کے غیر متمدن اور منتشر قبائل میں اسلامی ریاست قائم کرنے کا مسئلہ درپیش تھا مگر اس کے بعد صدیوں تک وہ اسلامی حکومتوں کی تمام ضرورتیں پوری کرتا رہا اور موجودہ ترقی یافتہ دور میں بھی نہ صرف یہ کہ وہ زمانہ کا پورا ساتھ دینے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ صرف وہی ایک ایسا نظام ہے جو حقیقی معنوں میں زندگی کے مسائل کو حل کرسکتا ہے - دیڑھ ہزار برس پہلے جس طرح اس نے اپنی برتری ثابت کی تھی آج بھی وہ اسی طرح تمام فلسفوں پر فوقیت رکھتا ہے –
یہ قرآن کا معجزہ ہے کہ زندگی کے بارے میں اس نے جو نظریات پیش کئے تھے اور فرد اور جماعت کے عمل کے لئے جو خاکہ تجویز کیا تھا وہ آج بھی نہ تو پرانا ہوا اور نہ اس میں کسی نقص کی نشاندہی کی جاسکتی ہے اس دوران میں کتنے فلسفے پیدا ہوئے اور مرگئے اور کتنے نظام بنے اور بگڑ گئے مگر قرآن کے نظریہ کی صداقت اور اس کے عملی نظام کی افادیت آج بھی مسلم ہے –
میں یہاں دونوں پہلوؤں سے ایک ایک مثال پیش کروں گا –
قرآن نے یہ دعوی کیا تھا کہ کائنات کا محرک ایک ذہن ہے جو بالارادہ اسے حرکت دے رہا ہے - قرآن نے یہ دعوی یوروپ کی نشاۃ ثانیہ سے بہت پہلے کیا تھا - اس کے بعد بہت سے فلسفی اور سائنس داںاٹھے جنھوں نے بڑے زوروشور کے ساتھ یہ دعوی کیا کہ کائنات محض ایک مادی مشین ہے جو خودبخود حرکت کررہی ہے - یہ نظریہ دوسوبرس تک انسانی ذہنوں پر حکومت کرتا رہا - ایسا معلوم ہوا کہ علم کی ترقی نے قرآن کے دعوی کو رد کردیا ہے - مگر اس کے بعد خود کائنات کے مطالعہ سے سائنس دانوں پر یہ منکشف ہوا کہ زندگی اور کائنات کی توجیہ محض مادی قوانین کے ذریعہ نہیں کی جاسکتی - اب سائنس دن بدن قرآن کے اس نظریہ کی طرف لوٹ رہی ہے کہ اس کائنات کے پیچھے ایک ذہن ہے جو اپے ارادہ سے اس کو چلا رہا ہے - مشہور سانئس داں سر جیمز جنیز اس تبدیلی کی تشریح کرتے ہوئے لکھتا ہے :
" علم کے دریا نے پچھلے چند برسوں میں نہایت تیزی سے ایک نیا موڑ اختیار کیا ہے - تیس سال پہلے ہمارا خیال تھا یا ہم نےفرض کرلیا تھا کہ ہم ایک ایسی آخری حقیقت کی طرف بڑھ رہے ہیں جو اپنی نوعیت میں میکانیکی ہے - ایسا نظر آتا تھا کہ کائنات ایٹموں کے ایک ایسے بے ترتیب انبار پر مشتمل ہے جو اتفاقی طور پر اکٹھا ہوگئے ہیں اور جن کا کام یہ ہے کہ بے مقصد اور اندھی طاقتوں کے تحت جو کوئی شعور نہیں رکھتی ہیں ، کچھ زمانے کے لئے ایک بے معنی رقص کریں جس کے ختم ہونے پر ایک مردہ کائنات باقی رہ جائے - اس خالص میکانیکی دنیا میں مذکورہ بالا اندھی طاقتوں کے عمل کے دوران میں زندگی ایک حادثہ کے طور پر بالکل اتفاق سے آپہنچی ہے - کائنات کا ایک بہت ہی چھوٹا گوشہ یا امکان کے طور اس کے کئی گوشے کچھ عرصہ کے لئے اتفاقی طور پرذی شعور ہوگئے ہیں - مگر موجودہ معلومات کی روشنی میں طبیعیات کی حد تک سائنس کا اس بات پر تقریبا اتفاق ہے کہ علم کا دریا ہمیں ایک غیر میکانیکی حقیقت کی طرف لے جا رہا ہے – "
اسی مضمون میں آگے چل کر وہ لکھتا ہے :
" جدیدمعلومات ہم کو مجبور کرتی ہیں کہ ہم اپنے پچھلے خیالات پر نظرثانی کریں جو ہم نے جلدی میں قائم کرلئے تھے – یعنی کی ہم اتفاق سے ایک ایسی کائنات میں آپڑے ہیں جس کو خود زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے یا وہ باقائدہ طور پر زندگی سے عداوت رکھتی ہے – اب ہم نے دریافت کرلیا ہے کہ کائنات ایک ایسی خالق یا مدبر Desiging or controling power طاقت کاثبوت فراہم کررہی ہے جو ہمارے شخصی ذہن سے بہت کچھ ملتی جلتی ہے – " ( ماڈرن سائنٹفک تھاٹ ، صفحہ 104 )