حقیقت کی تلاش

  • Work-from-home

Dawn

TM Star
Sep 14, 2010
3,699
3,961
1,313
saudi arabia
بسم اللہ الرحمن الرحیم


مسلم یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین ، علی گڑھ کی طرف سے
ستمبر 1958 کے پہلے ہفتہ میں اسلامی تقریروں کا اک سلسلہ
سیریز آف لکچرس آن اسلام - کے عنوان سے جاری -
کیا گیا تھا درج ذیل مقالہ اسی سلسلہ کے تحت 6/ستمبر کو
یونیورسٹی کے یونین ہال میں پڑھا گیا
کائنات اک بہت بڑی کتاب کی مانند ہمارے سامنے پھیلی ہوئی ہے مگر یہ اک ایسی انوکھی کتاب ہے جس کے کسی صفحہ پر اس کا موضوع اور اسکے مصنف کا نام تحریر نہیں اگر چہ اس کتاب کا اک اک حرف یہ بول رہا ہے کہ اس کا موضوع کیا ہوسکتا ہے اور اسکا مصنف کون ہے
جب کوئی شخص آنکھ کھولتا ہے اور دیکھتا ہے کہ وہ اک وسیع و عریض کائنات کے درمیان کھڑا ہے تو بالکل قدرتی طور پراس کے ذہن میں سوال آتا ہے کہ ---- " میں کون ہوں اور یہ کائنات کیا ہے –" وہ اپنے آپ کو اور کائنات کو سمجھنے کیلئے بے چین ہوتا ہے اپیہ فطرت میں سموئے ہوئے اشارات کو پڑھنے کی کوشش کرتا ہے دنیا میں وہ جن حالات سے دوچار ہورہا ہے چاہتا ہے کہ وہ انکے حقیقی اسباب معلوم کرے غرض اس کے ذہن میں بہت سے سولات اٹھتے ہیں جنکا جواب معلوم کرنے کیلئے وہ بیقرار رہتا ہے مگر وہ نہیں جانتا کہ اس کا جواب کیا ہوسکتا ہے یہ سوالات محض فلسفیانہ قسم کے سوالات نہیں ہیں بلکہ یہ انسان کی فطرت اور اسکے حالات کا قدرتی نتیجہ ہیں – یہ ایسے سوالات ہیں جن سے دنیا میں تقریبا ہر شخص کو اک بار گزرنا ہوتا ہے – جن کا جواب نہ پانے کی صورت میں کوئی پاگل ہوجاتا ہے ،کوئی خودکشی کرلیتا ہے ،کسی کی ساری زندگی بے چینیوں میں گذرجاتی ہے اور کوئی اپنے حقیقٰی سوال کا جواب نہ پاکر دنیا کی دلچسپیوں میں کھوجاتا ہے اور چاہتا ہے اسی میں گم ہوکر اس ذہنی پریشانی سے نجات حاصل کرے – وہ جو کچھ حاصل کرسکتا ہے اسکو حاصل کرنے کی کوشش میں اسکو بھلا دیتا ہے جس کو وہ حاصل نہ کرسکا


 

Dawn

TM Star
Sep 14, 2010
3,699
3,961
1,313
saudi arabia
اس سوال کو ہم ایک لفظ میں " حقیقت کی تلاش " کہہ سکتے ہیں لیکن اسکا اگر تجزیہ کریں تو یہ بہت سے سولات کا مجموعہ نکلے گا- یہ سوالات کیا ہیں – ان کو مختلف الفاظ میں ظاہر کیا جاسکتا ہے مگر میں اپنی آسانی کیلئے ان کو مندرجہ ذیل تین عنوانات کے تحت بیان کرونگا
خالق کی تلاش ----- معبود کی تلاش ----- اپنے انجام کی تلاش
میرے نزدیک حقیقت کی تلاش دراصل نام ہے ان ہی تینوں سوالات کا جواب معلوم کرنے کا – آپ خواہ جن الفاظ میں بھی اس سوال کی تشریح کریں – مگر حقیقتا وہ اسی کی بدلی ہوئی تعبیر ہوگی اور انہیں تین عنوانات کے تحت انھیں اکٹھا کیا جاسکے گا بظاہر یہ سوالات ایسے ہیں جن کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے اور نہ کسی پہاڑ کی چوٹی پر ایسا کوئی بورڈ لگا ہوا نظر آتا ہے جہاں ان کا جواب لکھ کر رکھ دیا گیا ہو – مگر حقیقت یہ ہے کہ جو سوال ہے اسی کے اندر ان کا جواب بھی موجود ہے – کائنات اپنی حقیقت کی طرف آپ اشارہ کرتی ہے اگر چہ وہ ہم کو یقینی علم تک نہیں لے جاتی لیکن یہ اشارہ اتنا واضح اور قطعی ہے کہ اگر ہم کو کسی ذریعہ سے حقیقت کا علم ہوجائے تو ہمارا ذہن پکار اٹھتا ہے کہ یقینا یہی حقیقت ہے ،اسکے سوا کائنات کی کوئی اور حقیقت نہیں ہو سکتی
 

Dawn

TM Star
Sep 14, 2010
3,699
3,961
1,313
saudi arabia
کائنات کو دیکھتے ہی جو سب سے پہلا سوال ذہن میں آتا ہے وہ یہ کہ اسکا بنانے والا کون ہے اور کون ہے جو اس عظیم کارخانے کو چلا رہا ہے – پچھلے زمانوں میں انسان یہ سمجھتا تھا کہ بہت سی غیر مرئی طاقتیں اس کائنات کی مالک ہیں – اک بڑے خدا کے تحت بہت سے چھوٹے چھوٹے خدا اس کا انتظام کر رہے ہیں – اب بھی بہت سے لوگ اس قسم کا عقیدہ رکھتے ہیں –مگر علمی دنیا میں عام طور پر اب یہ نظریہ ترک کیا جا چکا ہے – یہ اک مردہ نظریہ ہے نہ زندہ نظریہ- موجودہ زمانے کہ وہ لوگ جو اپنے آپ کو ترقی یافتہ کہتے ہیں اور جن کا خیال ہے کہ وہ جدید دور کے انسان ہیں ؛ وہ شرک کے بجائے الحاد کے قائل ہیں – ان کا خیال ہے کہ کائنات کسی ذی شعور ہستی کی کار فرمائی نہیں ہے بلکہ اک اتفاقی حادثہ کا نتیجہ ہے – اور جب کوئی واقعہ وجود میں آجائے تو اس کے سبب سے کچھ دوسرے واقعات بھی وجود میں آئینگے- اس طرح اسباب و واقعات کااک لمبا سلسلسہ قائم ہوجاتا ہے اور یہی سلسلئہ اسباب ہے جو کائنات کو چلا رہا ہے- اس توجیہ کی بنیاد دو چیزوں پر ہے ایک " اتفاق " اور دوسرا " قانون علت " law of causationیہ توجیہ بتاتی ہے کہ اب سے تقریبا دو لاکھ ارب سال ( 20 نیل سال ) پہلے کائنات کا وجود نہ تھا- اس وقت ستارے تھے اور نہ سیارے مگر فضاء میں مادہ موجود تھا- یہ مادہ اس وقت جمی ہوئی ٹھوس حالت میں موجود نہ تھا بلکہ اپنے ابتدائی ذرے یعنی برقیے اور پروٹونوں کی شکل میں پوری فضائے بسیط میں یکساں طور پر پھیلا ہوا تھا – گویا انتہائی چھوٹے چھوٹے ذرات کا اک غبار تھا– جس سے کائنات بھری ہوئی تھی - اس وقت مادہ بالکل توازن کی حالت میں موجود تھا - اس میں کسی قسم کہ حرکت نہ تھی – ریاضی کہ نقطہ نگاہ سے یہ توازن ایسا تھا کہ اگر کوئی اس میں ذرا سا بھی خلل ڈالے تو پھر یہ قائم نہ رہ سکتا – یہ خلل بڑھتا ہی چلا جائیگا - اگر اس ابتدائی خلل کو مان لیجئے تو ان لوگوں کا خیال ہے کہ اس کے بعد کے تمام واقعات علم ریاضی کے ذریعہ ثابت ہوجاتے ہیں چنانچہ ایسا ہوا کہ مادہ کہ اس بادل میں خفیف سا خلل ہوا جیسے کوئی کسی پانی کے حوض میں ہاتھ ڈال کر ہلا دے – کائنات کی پر سکون دنیا میں یہ خلل کس نے پیدا کیا –یہی وہ جمع شدہ مادہ ہے جسے ہم ستارے ،سیارے اور سحابئے کہتے ہیں
 

Dawn

TM Star
Sep 14, 2010
3,699
3,961
1,313
saudi arabia
کائنات کی یہ توجیہ سائنس کی طرف سے پیش کی گئی تھی مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ اس قدر بودی اور کمزور توجیہ ہے کہ کبھی خود سائنس دانوں کو بھی اس پر شرح صدر حاصل نہ ہوسکا – یہ توجیہ اس حقیقت کو تسلیم کرتی ہے کہ اسے نہیں معلوم کہ کائنات کو سب سے پہلے کس نے حرکت دی تھی مگر اس کے باوجود اس کا دعوی ہے کہ اس نے کائنات کے محرک اول کو معلوم کرلیا ہے اور اس محرک اول کا نام اس کے نزدیک اتفاق ہے – سوال یہ ہے کہ جب کائنات میں صرف غیر متحرک مادہ موجود تھا اس کے سوا کوئی چیز موجود نہ تھی تو یہ عجیب و غریب قسم کا اتفاق کہاں سے وجود میں آگیا جس نے ساری کائنات کو حرکت دے دی – جس واقعہ کے اسباب نہ مادہ کے اندر موجود تھے اور نہ مادہ کے باہر – وہ واقعہ وجود میں آیا تو کیسے ؟ اس توجیہ کا یہ نہایت دلچسپ تضاد ہے کہ وہ ہر واقعہ سے پہلے اک واقعہ کا ہونا ضروری قرار دیتی ہے جو بعد کو ظاہے ہونے والے واقعہ کا سبب بن سکے مگر اس توجیہ کی ابتداء ایک ایسے واقعہ سے ہوتی ہے جس سے پہلے اس کا سبب موجود نہیں یہی وہ بنیادی مفروضہ ہے جس پر کائنات کی اتفاقی پیدائش کے نظریہ کی پوری عمارت کھڑا کردی گئی ہےپھر یہ کائنات اگر محض اتفاق سے وجود میں آئی ہے تو کیا واقعات لازمی طور پر وہی رخ اختیار کرنے پر مجبور تھے جو انھوں نے اختیار کیا – کیا اسکے سوا کچھ اور نہیں ہو سکتا تھا – کیا ایسا ممکن نہیں تھا کہ ستارے آپس میں ٹکرا کر تباہ ہوجائیں – مادہ میں حرکت پیدا ہونے کہ بعد کیا یہ ضروری تھا کہ یہ محض حرکت نہ رہے بلکہ ایک ارتقائی حرکت بن جائے اور حیرت انگیز تسلسل کے ساتھ موجودہ کائنات کو وجود میں لانے کی طرف دوڑنا شروع کردے – آخر وہ کونسی منطق تھی جس نے ستاروں کے وجود میں آتے ہی اس کو لا متناہی خلا میں نہایت باقاعدگی کے ساتھ پھرانا شروع کردیا – پھر وہ کونسی منطق تھی جس نے کائنات کے اک بعید ترین گوشہ میں نظام شمسی کو وجود دیا پھر وہ کونسی منطق تھی جس سے ہمارے کرہ زمین پر وہ عجیب و غریب تبدیلیاں ہوئیں جن کی وجہ سے یہاں زندگی کا قیام ممکن ہوسکا اور جن تبدیلیوں کا سراغ آج تک کائنات کی بیشمار دنیاؤں میں سے کسی ایک دنیا میں بھی نہیں معلوم کیا جاسکا ہے – پھر وہ کونسی منطق تھی جو ایک خاص مرحلہ پر بے جان مادہ سے جاندار مخلوق پیدا کرنے کا سبب بن گئی – کیا اس بات کی کوئی معقول توجیہ کی جاسکتی ہے کہ زمین پر زندگی کس طرح اور کیوں وجود میں آئی اور کس قانون کے تحت مسلسل پیدا ہوتی چلی جا رہی ہے؟
 

Dawn

TM Star
Sep 14, 2010
3,699
3,961
1,313
saudi arabia

پھروہ کونسی منطق تھی جس نے کائنات کے ایک چھوٹے سے رقبہ میں حیرت انگیز طور پر وہ تمام چیزیں پیدا کردیں جو ہماری زندگی اور ہمارے تمدن کیلئے درکار تھیں ،پھروہ کونسی منطق ہے جو جو ان حالات کو ہمارے لئے باقی رکھے ہوئے ہے – کیا محض اتفاق کا پیش آجانا اس بات کی کافی وجہ تھی کہ یہ سارے واقعات اس قدر حسن ترتیب کے ساتھ مسلسل پیش آتے چلے جائیں اور اربوں اور کھربوں سالوں تک ان کا سلسلہ جاری رہے اور پھر بھی ان میں کوئی فرق نہ آنے پائے – کیا اس بات کی کوئی واقعی توجیہ کی جاسکتی ہے کہ محض اتفاق سے پیش آنے والے واقعہ میں لزوم کی صفت کہاں سے آگئی اور اتنے عجیب و غریب طریقے پر مسلسل ارتقاء کرنے کا رجحان اس میں کہاں سے پیدا ہوگیا ؟
یہ اس سوال کا جواب تھا کہ کائنات کیسے پیدا ہوئی – اس کے بعد یہ سوال پیدا ہوا کہ اس کا پیدا کرنے والا کون ہے وہ کون ہے جو اس عظیم کارخانے کو اس قدر منظم طریقے پر حرکت دے رہا ہے اس توجیہ میں جس کو کائنات کا خالق قرار دیا گیا ہے اسی کو کائنات کا حاکم قرار نہیں دیا جاسکتا – یہ توجیہ عین اپنی ساخت کہ اعتبار سے دو خدا چاہتی ہے کیونکہ حرکت اول کی توجیہ کیلئے تو اتفاق کا نام دیا جاسکتا ہے مگر اس کے بعد کی مسلسل حرکت کو کسی حال میں بھی اتفاق نہیں کہا جاسکتا – اسکی توجیہ کیلئے دوسرا خدا تلاش کرنا پڑیگا –
اس مشکل کو حل کرنے کیلئے اصول تعلیل principle of causation پیش کیا گیا جس کا مطلب یہ ہے کہ حرکت اول کے بعد کائنات میں علت اور معلول کا ایک ایسا سلسلہ قائم ہوگیا کہ ایک کہ بعد ایک تمام واقعات پیش آتے جارہے ہیں بالکل اسی طرح جیسے بچے بہت سی ایٹیںہ کھڑی کرکے کنارے کی ایک اینٹ گرادیتے ہیں تو اس کے بعد کی تمام اینٹیں خود بخود گرتی چلی جاتی ہیں جو واقعہ ظہور میں آتا ہے اس کا سبب کائنات کے باہر کہیں موجود نہیں بلکہ نا قابل تسخیر قوانین کے تحت حالات ماقبل کا لازمی نتیجہ ہوتا ہے اور یہ سابقہ حالات بھی اپنے سے پہلے واقعات کا لازمی نتیجہ تھے – اس طرح کائنات میں علت اور معلول کا ایک لامتناہی سلسلہ قائم ہوگیا ہے – حتی کہ جس صورت میں تاریخ عالم کا آغاز ہوا اس نے آئندہ سلسلہ واقعات کا قطعی فیصلہ کردیا ہے – جب ابتدائی صورت ایک دفعہ معین ہوگئی تو قدرت صرف ایک ہی طریق سے منزل مقصود تک پہنچ سکتی تھی گویا کائنات جس روز پیدا ہوئی اس کی آئندہ تاریخ بھی متعین ہوچکی ہے –
اس اصول کو قدرت کا اساسی قانون مقرر کرنا سترہویں صدی کا ایک بہت بڑا واقعہ تھا چنانچہ یہ تحریک شروع ہوئی کہ تمام کائنات کو ایک مشین ثابت کیا جائے – انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں یہ تحریک اپنے عروج پر آگئی یہ زمانہ سائنسداں اور انجنئیروں کا تھا جنکی دلی خواہش تھی کہ قدرت کے مشینی ماڈل بنائے جائیں – اسی زمانے میں ہیلم ہولٹز نے کہا تھا کہ " تمام قدرتی سائنسوں کا آخری مقصد اپنے آپ کو میکانکس میں منتقل کرلینا ہے-" اگر چہ اس اصول کے مطابق کائنات کے تمام مظاہر کی تشریح کرنے میں ابھی سائنسدانوں کو کامیابی نہیں ہوئی تھی مگر ان کا یقین تھا کہ کائنات کی تشریح میکانیکی پیرائے میں ہو سکتی ہے – وہ سمجھتے تھے کہ صرف ٹھوڑی سی کوشش کی ضرورت ہے اور بالآخر تمام عالم ایک چلتی ہوئی مشین ثابت ہوجائے گا-
 

Dawn

TM Star
Sep 14, 2010
3,699
3,961
1,313
saudi arabia
ان باتوں کا انسانی زندگی سے تعلق صاف ظاہر تھا- اصول تعلیل کی ہر توسیع اور قدرت کی ہر کامیاب میکانیکی تشریح نے اختیار انسانی پر یقین کرنا محال بنادیا کیونکہ اگر یہ اصول تمام قدرت پر حاوی ہے تو زندگی اس سے کیو ں مستثنی ہو سکتی ہے – اس طرز فکر کے نتیجہ میں سترہویں اور اٹھارویں صدی کے میکانیکی فلسفے وجود میں آئے – جب یہ دریافت ہوا کہ جاندار خلیہ Living cell بھی بے جان مادہ کی طرح ایک سے کیمیاوی جوہروں سے بنا ہے تو فورا سوال پیدا ہوا کہ وہ خاص اجزاء جن سے ہمارے جسم و دماغ بنے ہوئے ہیں کیونکر اصول تعلیل کے دائرے سے باہر ہوسکتے ہیں – چنانچہ یہ گمان کیا گیا بلکہ بڑے جوش کے ساتھ یہ دعوی کردیا گیا کہ زندگی بھی ایک خالص مشین ہے یہاں تک کہا گیا کہ نیوٹن ، باخ اور مائیکل انگلوکے دماغ چھاپنے والی مشین سے صرف پیچیدگی میں مختلف تھے اور ان کا کام صرف یہ تھا کہ بیرونی محرکات کا مکمل جواب دیں –
مگر سائنس اس سخت اور غیر معتدل قسم کے اصول علت کی اب قائل نہیں ہے – نظریہ اضافیت اصول تعلیل کو دھوکے Illusion کے لفظ سے یاد کرتا ہے- انیسویں صدی کے آخر ہی میں سائنس پر یہ واضح ہوگیا تھا کہ کائنات کے بہت سے مظاہر ، بالخصوص روشنی اور قوت کشش ، میکانیکی تشریح کی ہر کوشش کو ناکام بنادیتے ہیں – یہ بحث ابھی جاری تھی کہ کیا ایسی مشین بنائی جاسکتی ہے جو نیوٹن کے افکار ، باخ کے جذبات اور مائیکل انگلو کے خیالات کا اعادہ کرسکے مگر سائینسدانوں کو بڑی تیزی سے یہ یقین ہوتا جا رہا تھا کہ شمع کی روشنی اور سیب کا گرنا کوئی مشین نہیں دہرا سکتی – قدیم سائینس نے بڑے وثوق سے اعلان کیا تھا کہ قدرت صرف ایک ہی راستہ اختیار کرسکتی ہے جو اول روز سے علت اور معلول کی مسلسل کڑی کے مطابق ابد تک کیلئے معین ہوچکا ہے مگر بالآخر سائینس کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ کائنات کا ماضی اس قدر اٹل طور پر اس کے مستقبل کا سبب نہیں ہے جیسا کہ پہلے خیال کیا جاتا تھا- موجودہ معلو مات کی روشنی میں سائنس دانوں کی ایک بڑی اکثریت کا اب اس بات پر اتفاق ہے کہ علم کا دریا ہمیں ایک غیر میکانیکی حقیقت non mechanical reality کی طرف لے جارہا ہے – ( اصول تعلیل پر یہاں جو گفتگو کی گئی ہے وہ زیادہ تر جینز جیمز کی کتاب " مسٹریس یونیورس " سے ماخوذ ہے )
کائنات کی پیدائش اور اسکی حرکت کے بارے میں یہ دونوں نظریہ جو سائنسی ترقیوں کے ساتھ وجود میں آئے تھے اب تک یقین کی دولت سے محروم ہیں – جدید تحقیقات ان کو مضبوط نہیں بناتی بلکہ اور کمزور کردیتی ہے – اس طرح گویا سائنس خود ہی اس نظریہ کی تردید کررہی ہے ، اب انسان دوبارہ اپنے ابتدائی مقام پر کھڑا ہے – ہمارے سامنے پھر یہ سوال ہے کہ کائنات کس نے بنائی اور کون اسے چلا رہا ہے ؟
 

Dawn

TM Star
Sep 14, 2010
3,699
3,961
1,313
saudi arabia
یہ خالق کی تلاش کا مسلئہ تھا – اس کے بعد دوسری چیز انسان جو جاننا چاہتا ہے وہ یہ کہ " میرا معبود کون ہے ؟" ہم اپنی زندگی میں صریح طور پر ایک خلا محسوس کرتے ہیں مگر ہم نہیں جانتے کہ کیسے اس خلا کو پر کریں - یہی خلا کا وہ احساس ہے جس کو میں نے "معبود کی تلاش " سے تعبیر کیا ہے – یہ احساس دو پہلو سے ہوتا ہے :
اپنے وجود اور باہر کی دنیا پر جب ہم غور کرتے ہیں تو دو نہایت شدید جذبے ہمارے اندر پیدا ہوتے ہیں- پہلا شکر اور احسان مندی کا اور دوسرا کمزوری اور عجز کا –
ہم اپنی زندگی کے جس گوشہ میں بھی نظر ڈالتے ہیں ، ہمیں صاف دکھائی دیتا ہے کہ ہماری زندگی کسی کے احسانات سے ڈھکی ہوئی ہے یہ دیکھ کر دینے والے کیلئے ہمارے اندر بے پناہ جذبہ شکر امنڈ آتا ہےاور ہم چاہتے ہیں کہ اپنی بہترین عقیدتوں کو اپنے محسن پر قربان کرسکیں – یہ تلاش ہمارے لئے محض فلسفیانہ نوعیت کی چیز نہیں ہے بلکہ ہماری نفسیات سے اس کا گہرا تعلق ہے یہ سوال محض ایک خارجی مسلئہ کو حل کرنے کا سوال نہیں ہے بلکہ یہ ہماری اندرونی طلب ہے اور ہمارا پورا وجود اس سوال کا جواب معلوم کرنا چاہتا ہے -
غور کیجئے ، کیا کوئی شریف آدمی اس حقیقت کو نظر انداز کرسکتا ہے کہ وہ کائنات میں ایک مستقل واقعہ کہ حیثیت سے موجود ہے ؟ حالانکہ اس میں اسکی اپنی کوششوں کا کوئی دخل نہیں ہے – وہ اپنے آپ کو ایک ایسے جسم میں پا رہا ہے جس سے بہتر جسم کا وہ تصور نہیں کرسکتا حالانکہ اس جسم کو اس نے خود نہیں بنایا ہے – اس کو ایسی عجیب و غریب ذہنی قوتیں حاصل ہیں جو کسی بھی دوسرے جاندار کو نہیں دی گئی ہیں حالانکہ اس نے ان قوتوں کو حاصل کرنے کیلئے کچھ بھی نہیں کیا ہے اور نہ وہ کچھ کرسکتا ہے- ہمارا وجود ذاتی نہیں ہے بلکہ عطیہ ہے – یہ عطیہ کس نے دیا ہے ؟ انسانی فطرت اس سوال کا جواب معلوم کرنا چاہتی ہے تاکہ وہ اپنے اس عظیم محسن کا شکریہ ادا کرسکے –
پھر اپنے جسم کے باہر دیکھئے ، دنیا میں ہم اس حال میں پیدا ہوتے ہیں کہ ہمارے پاس اپنا کچھ بھی نہیں ہوتا ، نہ ہم کو کائنات کے اوپر کوئی اختیار حاصل ہے کہ ہم اس کو اپنی ضرورت کے مطابق بنا سکیں – ہماری ہزاروں ضرورتیں ہیں مگر کسی ایک ضرورت کو بھی ہم خود سے پورا نہیں کرسکتے – لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں حیرت انگیز طور پر ہماری تمام ضرورتوں کو پورا کرنے کا انتظام کیا گیا ہے – ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کائنات اپنے تمام سازوسامان کے ساتھ اس بات کی منتظر ہے کہ انسان پیدا ہو اور وہ اس کی خدمت میں لگ جائے – مثال کے طور پر آواز کو لیجئے جس کے ذریعہ ہم اپنا خیال دوسروں تک پہنچاتے ہیں یہ کیسے ممکن ہوا کہ ہمارے ذہن میں پیدا ہونے والے خیالات زبان کا ارتعاش بن کر دوسرے کے کان تک پہنچیں اور ان کو قابل فہم آوازوں کی صورت میں سن سکے – اس کیلئے ہمارے باہر اور اندر بے شمار انتظامات کئے گئے ہیں - جن میں سے ایک وہ درمیانی واسطہ ہے جس کو ہم "ہوا " کہتے ہیں – ہم جو الفاظ بولتے ہیں وہ بے آواز لہروں کی صورت میں ہوا پر اس طرح سفر کرتے ہیں جس طرح پانی کی سطح پر موجیں پیدا ہوتی ہیں اور بڑھتی چلی جاتی ہیں – میرے منھ سے نکلی ہوئی آواز آپ تک پہنچنے کے لئے درمیان میں ہوا کا موجود ہونا ضروری ہے - اگر یہ درمیانی واسطہ نہ ہو تو آپ میرے ہونٹ ہلتے ہوئے دیکھیں گے مگر میری آواز نہ سنیں گے – مثال کے طور پر ایک بند فانوس کے اندر برقی گھنٹی رکھ کر اسے بجایا جائے تو اس کی آواز صاف سنائی دے گی – لیکن اگر فانوس کے اندر کی ہوا کو پوری طرح نکال دیا جائے اور اس کے بعد گھنٹی بجائی جائے تو آپ شیشہ کے اندر گھنٹی کو بجتا ہوا دیکھیں گے مگر اس کی آواز بالکل سنائی نہ دے گی کیونکہ گھنٹی کے بجنے سے جو ارتعاش پیدا ہوتا ہے اس کو قبول کرکے آپ کے کانوں تک پہنچانے کے لئے فانوس کے اندر ہوا موجود نہیں ہے – مگر یہ ذریعہ بھی نہ کافی ہے کیونکہ ہوا کہ ذریعہ ہماری آواز پانچ سیکنڈ میں صرف ایک میل کا راستہ طئے کرتی ہے –اس کے یہ معنی ہے کہ ہوا کا ذریعہ صرف قریبی ماحول میں گفتگو کے لئے کارآمد ہے – وہ ہماری آواز کو دور تک نہیں پہنچاسکتا –
اگر آواز صرف ہوا کے ذریعہ پھیلتی تو اس کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانا ممکن نہ ہوتا – مگر قدرت نے اس کے لئے ہمیں ایک اور انتہائی تیز رفتا ر ذریعہ مہیا کیا ہے ، یہ روشنی یا برقی رو ہے جس کی رفتار ایک سیکنڈ میں ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل ہے – لا سلکی پیغامات میں اسی کے ذریعہ سے کام لیا جاتا ہے – جب کوئی مقرر ریڈیو اسٹیشن میں لگے مائکرو فون کے قریب آواز نکالتا ہے تو مائکروفون آواز کو جذب کرکے اسے برقی رو میں تبدیل کردیتا ہے اور تار کے ذریعہ اس کو آلہ نشر یا ٹرانس میٹر تک بھیج دیتا ہے آلات نشر آواز کے پہنچتے ہی مرتعش ہوکر فضاء میں وہی ارتعاش پیدا کردیتے ہیں اس طرح پانچ سکنڈ میں ایک میل چلنے والی آواز برقی لہروں میں تبدیل ہوکر ایک سکنڈ میں دو لاکھ میل کے قریب رفتار حاصل کرلیتی ہے اور دم بھر میں ساری دنیا میں پھیل جاتی ہے یہی لا سلکی موجیں ہیں جن کو ہمارے ریڈیو سٹ کی آواز گیر مشین قبول کرکے بلند آواز میں ان کا اعادہ کردیتی ہے اور پھر ہزاروں میل دور بولی ہوئی آواز کو ہم کسی تاخیر کے بغیر سننے لگتے ہیں – یہ ان بے شمار انتظامات میں سے ایک ہیں جس کو میں نے بیان نہیں کیا ہے بلکہ اس کا صرف نام لیا ہے - اگر اس کا اور دوسری چیزوں کا تفصیلی ذکر کیا جائے تو اس کے لئے ہزاروں صفحے درکار ہونگے اور پھر بھی ان کا بیان ختم نہ ہوگا –
یہ عطیات جن سے ہر آدمی دوچار ہورہا ہے اور جن کے بغیر اس زمین پر انسانی زندگی اور تمدن کا کوئی تصور نہیں کیا جاسکتا – انسان جاننا چاہتا ہے کہ یہ سب کس نے اس کے لئے مہیا کیا ہے – ہر آن جب وہ کسی نعمت سے دوچار ہوتا ہے تو اس کے دل میں بے پناہ جذبئہ شکر امنڈ آتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اپنے محسن کو پائے اور اپنے آپ کو اس کے قدموں میں ڈال دے- محسن کے احسانات کو ماننا ، اس کو اپنے دل کی گہرائیوں میں جگہ دینا اور اس کی خدمت میں اپنے بہترین جذبات کو نذر کرنا ، یہ انسانی فطرت کا شریف ترین جذبہ ہے ہر آدمی جو اپنی اور کائنات کی زندگی پر غور کرتا ہے اس کے اندر نہات شدت سے یہ جذبہ ابھرتا ہے – پھر کیا اس جذبہ کا کوئی جواب نہیں ؟ کیا انسان اس کائنات کے اندر ایک یتیم بچہ ہے جس کے اندر امنڈتے ہوئے جذبات محبت کی تسکین کا کوئی ذریعہ نہیں ؟
 

Dawn

TM Star
Sep 14, 2010
3,699
3,961
1,313
saudi arabia
یہ معبود کی تلاش کا ایک پہلو ہے – اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ انسان کے حالات فطری طور پر یہ تقاضہ کرتے ہیں کہ کائنات کے اندر اسکا کوئی سہارا ہو – اگر ہم آنکھ کھول کر دیکھیں تو ہم اس دنیا میں ایک انتہائی عاجز اور بے بس مخلوق ہیں – ذرا اس خلاء کا تصور کیجئے جس میں ہماری یہ زمین سورج کے گرد چکر لگا رہی ہے –آپ جانتے ہیں کہ زمین کی گولائی تقریبا 25 ہزار میل ہے اور وہ ناچتے ہوئے لٹو کی مانند اپنے محور پر مسلسل اس طرح گھوم رہی ہے کہ ہر 24 گھنٹے میٰں ایک چکر پورا ہوجاتا ہے گویا اس کی رفتار تقریبا ایک ہزار میل فی گھنٹہ ہے – اسی کے ساتھ وہ سورج کے چاروں طرف اٹھارہ کروڑ ساٹھ لاکھ میل کے لمبے دائرے میں نہایت تیزی سے دوڑ رہی ہے
خلاء کے اندر اس قدر تیز دوڑتی ہوئی زمین پر ہمارا وجود قائم رکھنے کے لئے زمین کی رفتار کو ایک خاص اندازہ کے مطابق رکھا گیا ہے – اگر ایسا نہ ہوتو زمین کے اوپر انسان کی حالت ان سنگ ریزوں کی طرح ہوجائے جو کسی متحرک پہئہ پر رکھ دئے گئے ہو ں اسی کے ساتھ مزید انتظام یہ ہے کہ زمین کی کشش ہم کو کھینچے ہوئے ہے اور اوپر سے ہوا کا زبردست دباؤ پڑتا ہے ہوا کے ذریعہ جو دباؤ پڑھ رہا ہے کہ وہ جسم کے ہر مربع انچ پر ساڑھے سات سیر تک معلوم کیا گیا ہے – یعنی ایک اوسط آدمی کے سارے جسم پر تقریبا 280 من کا دباؤ ہے – ان حیرت انگیز انتظامات نے ہم کو خلاء میں مسلسل دوڑتی ہوئی زمین کے چاروں طرف قائم کر رکھا ہے-
پھر ذرا سورج پر غور کیجئے - سورج کی جسامت آٹھ لاکھ 65 ہزار میل ہے – جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہماری زمین سے دس لاکھ گناہ بڑا ہے – یہ سورج آگ کا دہکتا ہوا سمندر ہے جس کے قریب کوئی بھی چیز ٹھوس حالت میں نہیں رہ سکتی – زمین اور سورج کے درمیان اس وقت تقریبا ساڑھے نو کروڑ میل کا فاصلہ ہے اگر اس کے بجائے وہ اس کے نصف فاصلے پر ہوتا تو سورج کی گرمی سے کاغذ جل جاتا اور اگر وہ چاند کی جگہ یعنی دو لاکھ چالیس ہزار میل کے فاصلے پر آجائے تو زمین پگھل کر بخارات میں تبدیل ہوجائے – یہی سورج ہے جس سے زمین پر زندگی کے تمام مظاہر قائم ہیں - اس مقصد کے لئے اس کو ایک خاص فاصلہ پر رکھا گیا ہے اگر وہ دور چلا جائے تو زمین برف کی طرح جم جائے اور اگر قریب آجائے تو ہم سب لوگ جل بھن کر خاک ہوجائیں -
پھر ذرا اس کائنات کی وسعت کو دیکھئے اور اس قوت کشش پر غور کیجئے جو اس عظیم کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے – کائنات ایک بے انتہاء وسیع کارخانہ ہے اس کی وسعت کا اندازہ ماہرین فلکیات کے نزدیک یہ ہے کہ روشنی جس کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سکنڈ ہے اس کو کائنات کے گرد ایک چکر کرنے میں کئی ارب برس درکار ہونگے - یہ نظام شمسی جس کے اندر ہماری زمین ہے بظاہر بہت بڑا معلوم ہوتا ہے مگر پوری کائنات کے مقابلے میں اس کی کوئی حیثیت نہیں - کائنات میں اس سے بہت بڑے بڑے بے شمار ستارے لا محدود وسعتوں میں پھیلے ہوئے ہیں جن میں سے بعض اتنے بڑے ہیں کہ ہمارا پورا نظام شمسی اس پر رکھا جاسکتا ہے جو قوت کشش ان بے شمار دنیاؤں کو سنبھالے ہوئے ہے اس کی عظمت کا تصور اس سے کیجئے کہ سورج جس بے پناہ طاقت سے زمین کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے اور اس کو وسیع ترین فضاء میں گر کر برباد ہوجانے سے روکتا ہے یہ غیر مرئی طاقت اس قدر قوی ہے کہ اگر اس مقصد کیلئے کسی مادی شئے سے زمین کو باندھنا پڑھتا تو جس طرح گھاس کی پتیاں زمین کو ڈھانکے ہوئے ہیں اسی طرح دھاتی تاروں سے کرہ ارض ڈھک جاتا – ہماری زندگی بالکلیہ ایسی طاقتوں کے رحم و کرم پر ہے جن پر ہمارا کوئی اختیار نہیں انسان کی زندگی کے لئے دنیا میں جو انتظامات ہیں اور جن کی موجودگی کے بغیر انسانی زندگی کا تصور نہیں کیا جاسکتا وہ اتنے بلند پیمانہ پر ہورہے ہیں اور ان کو وجود میں لانے کے لئے اتنی غیر معمولی قوت تصرف درکار ہے کہ انسان خود سے انھیں وجود میں لانے کا تصور نہیں کرسکتا موجودات کے لئے جو طریق عمل مقرر کیا گیا ہے ، اس کا مقرر کرنا تو درکنار ، اس پر کنٹرول کرنا بھی انسان کے بس کی بات نہیں – وہ دیکھتا ہے کہ کائنات کی غیر معمولی قوتیں میرے ساتھ ہم آہنگی نہ کریں تو میں زمین پر ٹھہر بھی نہیں سکتا ، اس کے اوپر ایک متمدن زندگی کی تعمیر تو بہت دور کی بات ہے
ایسی ایک کائنات کے اندر جب ایک انسان اپنے حقیر وجود کو دیکھتا ہے تو وہ اپنے آپ کو اس سے بھی زیادہ بے بس محسوس کرنے لگتا ہے جتنا کہ سمندر کو موجوں کے درمیان ایک چیونٹی اپنے آپ کو بچانے کی جدوجہد کررہی ہو – وہ بے اختیار چاہتا ہے کہ کوئی ہو جو اس اتھاہ کائنات میں اس کا سہارا بن سکے – وہ ایک ایسی ہستی کی پناہ ڈھونڈنا چاہتا ہے جو کائنات کی قوتوں سے بالاتر ہو جس کی پناہ میں آجانے کے بعد وہ اپنے آپ کو محفوظ و مامون تصورکرسکے –
 

Dawn

TM Star
Sep 14, 2010
3,699
3,961
1,313
saudi arabia
یہ وہ دو جذبے ہیں جن کو میں نے " معبود کی تلاش " کا عنوان دیا ہے معبود کی تلاش دراصل ایک فطری جذبہ ہے جس کا مطلب ایک ایسی ہستی کی تلاش ہے جو آدمی کی محبت اور اس کے اعتماد کا مرکز بن سکے موجودہ زمانے میں قوم ، وطن اور ریاست کو انسان کی اس طلب کا جواب بناکر پیش کیا گیا ہے – جدید تہذیب یہ کہتی ہے کہ اپنی قوم اپنے وطن اور اپنی ریاست کو یہ مقام دو کہ وہ تمہاری عقیدتوں کا مرکز بنے اور اسی سے وابستگی کو اپنا سہارا بناؤ - ان چیزوں کو معبود کے نام پر پیش نہیں کیا جاتا مگر زندگی میں ان کو جو مقام دیا گیا ہے وہ تقریبا وہی ہے جو دراصل ایک معبود کا نام ہونا چاہئے مگر ان چیزوں کو معبود کی جگہ دینا بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی کو ایک رفیق زندگی کی ضرورت ہو تو اس کی خدمت میں آپ ایک پتھر کی ایک سل پیش کردیں - کھلی ہوئی بات ہے کہ انسان کے اندر تلاش کا یہ جذبہ جو ابھرتا ہے اس کے اسباب انسانی نفسیات میں بہت گہرائی سے پھیلے ہوئے ہیں ، وہ ایک ایسی ہستی کی تلاش میں ہے جو ساری کائنات پر محیط ہو - اس طلب کا جواب کسی جغرافیائی خطہ میں نہیں مل سکتا - یہ چیزیں زیادہ سے زیادہ کسی سماج کی تعمیر میں کچھ مدد دے سکتی ہیں مگروہ انسان کے تلاش معبود کے جذبے کی تسکین نہیں بن سکتیں - اس کے لئے ایک کائناتی وجود درکار ہے – انسان کو اپنی محبتوں کے مرکز کے لئے ایک ایسا وجود چاہئے جس نے زمین و آسمان کو بنایا ہو اور وہ اپنے سہارے کے لئےاسے ایک ایسی طاقت کی تلاش ہے جو کائنات کے اوپر حکمران ہو - جب تک انسان ایسے ایک وجود کو نہیں پائےگا اس کا خلا بدستور باقی رہیگا ، کوئی دوسری چیز اسے پر نہیں کرسکتی –
 

Dawn

TM Star
Sep 14, 2010
3,699
3,961
1,313
saudi arabia
حقیقت کی تلاش کا تیسرا جزو اپنے انجام کی تلاش ہے آدمی یہ جاننا چاہتا ہے کہ وہ کہاں سے آیا ہے اور کہاں جائے گا وہ اپنے اندر بہت سے حوصلے اور تمنائیں پاتا ہے - وہ معلوم کرنا چاہتاہے کہ ان کی تسکین کس طرح ہوگی وہ موجودہ محدود زندگی کے مقابلے میں ایک طویل تر زندگی چاہتا ہے مگر نہیں جانتا کہ وہ کس کو کہاں پائے گا – اس کے اندر بہت سے اخلاقی اور انسانی احساسات ہیں جو دنیا میں بری طرح پامال کئے جا رہے ہیں – اس کے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا وہ اپنی پسندیدہ دنیا کو حاسل نہ کرسکے گا – یہ سوالات کس طرح انسان کے اندر سے ابلتے ہیں اور کائنات کا مطالعہ کس طرح اس کے ذہن میں یہ سوال پیدا کرتا ہے ، اس موقع پر اس کے تھوڑی سی تفصیل مناسب ہوگی
مماہرین حیاتیا ت کا خیال ہے کہ انسان اپنی موجودہ شکل میں تین لاکھ برس سے زمین پر موجود ہے – اس کے مقابلےمیں کائنات کی عمر بہت زیادہ ہے یعنی دو لاکھ ارب سال ( 20 نیل سال ) اس سے پہلے کائنات ایک برقی ذرات کے ایک غبار کی شکل میں تھی ، پھر اس میں حرکت ہوئی اور مادہ سمٹ سمٹ کر مختلف جگہوں میں جمع ہونا شروع ہوگیا - یہی وہ جمع شدہ مادہ ہے جن کو ہم ستارے ، سیارے اور سحابیے کہتے ہیں یہ مادی ٹکڑے گیس کے مہیب گولے کی شکل میں نا معلوم مدت تک فضاء میں گردش کرتے رہے – تقریبا دو ارب سال پہلے ایسا ہوا کہ کائنات کا کوئی بڑا ستارہ فضاء میں سفر کرتا ہوا آفتاب کے قریب آنکلا جو اس وقت اب سے بہت بڑا تھا جس طرح چاند کی کشش سے سمندر میں اونچی اونچی لہریں اٹھتی ہیں ، اسی طرح اس دوسرے ستارے کی کشش سے ہمارے آفتاب پر ایک عظیم طوفان برپا ہوا ، زبردست لہریں پیدا ہوئیں جو رفتہ رفتہ نہایت بلند ہوئیں اور قبل اس کے کہ وہ ستارے آفتاب سے دور ہٹنا شروع ہو ، اس کی قوت کشش اتنی زیادہ بڑھ گئی کہ آفتاب کی ان زبردست گیسی لہروں کے کچھ حصے ٹوٹ کر ایک جھٹکے کہ ساتھ دور فضاء میں نکل گئے - یہی بعد کو ٹھنڈے ہوکر نظام شمسی کے توابع بنے اس وقت یہ سب ٹکڑے آفتاب کے گرد گھوم رہے ہیں اور ان ہی میں سے ایک ہماری زمین ہے –
زمین ابتدا ایک شعلہ کی حالت میں سورج کے گرد گھوم رہی تھی ، مگر پھر مسلسل فضاء میں حرارت خارج کرنے کی وجہ سے ٹھنڈی ہونا شروع ہوئی یہ عمل کروڑوں برس ہوتا رہا یہاں تک کہ وہ بالکل سرد ہوگئی – مگر سورج کی گرمی اب بھی اس پر پڑ رہی تھی جس کی وجہ سے بخارات اٹھنا شروع ہوئے اور گھٹاؤں کی شکل میں اس کی فضاء کے اوپر چھاگئے ، پھر یہ بادل برسنا شروع ہوئے اور ساری زمین پانی سے بھر گئی – زمین کا اوپری حصہ اگرچہ ٹھنڈا ہوگیا تھا مگر اس کا اندرونی حصہ اب بھی گرم تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ زمین سکڑنے لگی – اس کی وجہ سے زمین کے اندر کی گرم گیسوں پر دباؤ پڑا اور وہ باہر نکلنے کے لئے بے قرار ہوگئیں - تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد زمین پھٹنے لگی - جگہ جگہ بڑے بڑے شگاف پڑ گئے – اسی طرح بحری طوفانوں ، خوفناک زلزلوں سے زمین کا کچھ حصہ اوپر ابھر آیا اور کچھ حصہ دب گیا - دبے ہوئے حصوں پر پانی بھر گیا اور سمندر کہلائے اور ابھرے ہوئے حصوں نے براعظم کی صورت اختیار کی - بعض اوقات یہ ابھار اس طرح واقع ہوا کہ بڑی بڑی اونچی باڑھیں سی بن گئیں – یہ دنیا کہ پہلے پہاڑ تھے –
 

Dawn

TM Star
Sep 14, 2010
3,699
3,961
1,313
saudi arabia
ماہرین ارضیات کا خیال ہے کہ ایک ارب 23 کروڑ سال ہوئے جب پہلی بار زمین پر زندگی پیدا ہوئی یہ چھوٹے چھوٹے کیڑے تھے جو پانی کے کنارے وجود میں آئے - اس کے بعدمختلف قسم کے جانور پیدا ہوتے اور مرتے رہے – کئی ہزار سال تک زمین پر صرف جانور رہے - اس کے بعد سمندری پودے نمودار ہوئے اور خشکی پر بھی گھاس اگنا شروع ہوئی - اس طرح لمبی مدت تک بے شمار واقعات ظہور میں آتے رہے یہاں تک کہ انسانی زندگی کے لئے حالات سازگار ہوئے اور زمین پر انسان پیدا ہوا-
اس نظریہ کے مطابق انسان کی ابتداء پچھلے تین لاکھ سال سے ہوئی ہے - یہ مدت بہت ہی کم ہے – وقت کے جو فاصلے کائنات نے طئے کئے ہیں ان کے مقابلے میں انسانی تاریخ چشم زدن سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی - پھر اگر انسانیت کی اکائی کو لیجئے تو معلوم ہوگا کہ ایک انسان کی عمر کا اوسط سو سال سے بھی کم ہے – ایک طرف اس واقعہ کو سامنے رکھئے اور پھر اس حقیقت پر غور کیجئے کہ کائنات میں انسان سے بہتر کوئی وجود معلوم نہیں کیا جاسکا ہے زمین و آسمان کی اربوں اور کھربوں سال کی گردش کے بعد جو بہترین مخلوق اس کائنات کے اندر وجود میں آئی ہے وہ انسان ہے - مگر یہ حیرت انگیز انسان جو ساری دنیا پر فوقیت رکھتا ہے ، جو تمام موجودات میں سب سے افضل ہے ، اس کی زندگی چند سال سے زیادہ نہیں ہمارا وجود جن مادی اجزاء سے مرکب ہے ان کی عمر تو اربوں کھربوں سال ہو اور وہ ہمارے مرنے کے بعد بھی باقی رہ جائیں مگر ان مادی اجزاء کی یکجائی سے جو اعلی ترین وجود بنتا ہے وہ صرف سو برس زندہ رہے جو کائنات کا حاصل ہے وہ کائنات سے بھی کم عمر رکھتا ہے !
تاریخ کے طویل ترین دور میں بے شمار واقعات کیا صرف اس لئے جمع ہوئے تھے کہ ایک انسان کو چند دنوں کے لئے پیدا کرکے ختم کردیں ؟
زمین پر آج جتنے انسان پائے جاتے ہیں اگر ان میں کا ہر آدمی چھ فٹ لمبا ڈھائی فٹ چوڑا اور ایک فٹ موٹا ہوتو اس پوری آبادی کو بہ آسانی ایک ایسے صندوق میں بند کیا جاسکتا ہے جو طول و عرض اور بلندی میں ایک میل ہو - بات کچھ عجیب سی معلوم ہوتی ہے مگر حقیقت یہی ہے پھر اس صندوق کو کسی سمندر کے کنارے لے جاکر ایک ہلکا سا دھکا دے دیں تو یہ صندوق پانی کی گہرائی میں جاگرےگا- صدیا ں گزر جائیں گی ، نسل انسانی اپنے کفن میں لپٹی ہوئی ہمیشہ کے لئے پڑی رہے گی ، دنیا کے ذہن سے یہ بھی محو ہوجائے گا کہ یہاں کبھی انسان کی قسم کی کوئی نسل آباد تھی سمندر کی سطح پر بدستور طوفان آتے رہیں گے سورج اسی طرح چمکتا رہے گا ، کرہ ارض بدستور اپنے محور پر چکر لگاتا رہے گا ، کائنات کی لا محدود پہنائیوں میں پھیلی ہوئی بے شمار دنیائیں اتنے بڑے حادثہ کو ایک معمولی واقعہ سے زیادہ اہمیت نہ دیں گی - کئی صدیوں کے بعد ایک اونچا سا مٹی کا ڈھیر زبان حال سے بتائے گا کہ یہ نسل انسانی کی قبر ہے جہاں وہ صدیوں پہلے ایک چھوٹے سے صندوق میں دفن کی گئی تھی –
کیا انسان کی قیمت بس اسی قدر ہے ، مادہ کو کوٹئیے ، پیٹئے ، جلائیے ، کچھ بھی کیجئے ، وہ ختم نہیں ہوتا - وہ ہر حال میں اپنے وجود کو باقی رکھتا ہے مگر انسان جو مادہ سے برتر مخلوق ہے کیا اس کے لئے بقا نہیں ؟ یہ زندگی جو ساری کائنات کا خلاصہ ہے ، کیا وہ اتنی بے حقیقت ہے کہ اتنی آسانی سے اسے ختم کیا جاسکتا ہے ؟ کیا انسانی زندگی کا منتہابس یہی ہے کہ وہ کائنات میں اپنے ننھے سے وطن میں چند روز کے لئے پیدا ہوا اور پھر فنا ہوکر رہ جائے ؟ تمام انسانی علم اور ہماری کامرانیوں کے سارے واقعات ہمارے ساتھ ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائیں اور کائنات اس طرح باقی رہ جائے گویا نسل انسانی کبھی کوئی چیز ہی نہیں تھی -
اس سلسلہ میں دوسری چیز جو صریح طور پر محسوس ہوتی ہے وہ یہ کہ اگر زندگی بس اسی دنیا کی زندگی ہے تو یہ ایک ایسی زندگی ہے جس میں ہماری امنگوں کی تکمیل نہیں ہوسکتی - ہر انسان لا محدود مدت تک زندہ رہنا چاہتا ہے کسی کو بھی موت پسند نہیں - مگر اس دنیا میں ہر پیدا ہونے والا جانتا ہے کہ وہ ایسی زندگی سے محروم ہے - آدمی خوشی حاصل کرنا چاہتا ہے - ہر آدمی کی یہ خواہش ہے کہ وہ دکھ درد ہر قسم کی تکلیفوں سے محفوظ رہ کر زندگی گذارے مگر حقیقی معنوں میں کیا کوئی شخص بھی ایسی زندگی حاصل کرسکتا ہے ہر آدمی یہ چاہتا ہے کہ اس کو اپنے حوصلوں کی تکمیل کا آخری حد تک موقع ملے وہ اپنی ساری تمناؤں کو عمل کی صورت میں دیکھنا چاہتا ہے مگر اس محدود دنیا میں وہ ایسا نہیں کرسکتا ہم جو کچھ چاہتے ہیں یہ کائنات اس کے لئے بالکل ناسازگار معلوم ہوتی ہے - وہ ہر چند قدم پر ہمارا راستہ روک کر کھڑی ہوجاتی ہے - کائنات صرف ایک حد تک ہمارا ساتھ دیتی ہے - اس کے بعد ہم کو مایوس اور ناکام لوٹا دیتی ہے –
سوال یہ ہے کہ انسانی زندگی محض غلطی سے اس کائنات میں بھٹک آئی ہے جو دراصل اس کے لئے نہیں بنائی گئی تھی اور جو بظاہر زندگی اور اسکے متعلقات سے بالکل بے پرواہ ہے ؟ کیا ہمارے تمام جذبات و خیالات اور ہماری تمام خواہشیں غیر حقیقی ہیں جن کا واقعی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ؟ ہمارے تمام بہترین تخیلات کائنات کے راستے سے ہٹے ہوئے ہیں اور ہمارے ذہنوں میں بالکل الل ٹپ طریقے سے پیدا ہوگئے ہیں – وہ تمام احساسات جن کو لے کر انسانی نسل پچھلے ہزاروں سال سے پیدا ہورہی ہے اور جن کو اپنے سینہ میں لئے ہوئے ہے وہ اس حال میں دفن ہوجاتی ہے کہ وہ انھیں حاصل نہیں کرسکی – کیا ان احساسات کی کوئی منزل نہیں ؟ کیا وہ انسانوں کے ذہن میں بس یونہی پیدا ہورہے ہیں جن کے لئے نہ ماضی میں کوئی بنیاد موجود ہے اور نہ مستقبل میں ان کا کوئی مقام ہے –
 

Dawn

TM Star
Sep 14, 2010
3,699
3,961
1,313
saudi arabia
ساری کائنات میں انسان ایک ایسا وجود ہے جو کل کا تصور رکھتا ہے یہ صرف انسان کی خصوصیت ہے کہ وہ مستقبل کے بارے میں سونچتا ہے اور اپنے آئندہ حالات کو بہتر بنانا چاہتا ہے - اسمیں شک نہیں کہ بعض جانور مثلا چیونٹیاں خوراک جمع کرتی ہیں یابئیاں گھونسلے بناتا ہے مگر ان کا یہ عمل غیر شعوری طور پر محض عادتا ہوتا ہے ان کی عقل اس کا فیصلہ نہیں کرتی کہ انہیں خوراک جمع کرکے رکھنی چاہئے تاکہ کل کے کام آسکے یا ایسا گھر بنانا چاہئے جو موسموں کے ردوبدل میں تکلیف سے بچائے - انسان اور دوسری مخلوقات کا یہ فرق ظاہر کرتا ہے کہ انسان کو تمام دوسری چیزوں سے زیادہ موقع ملنا چاہئے جانوروں کے لئے زندگی صرف آج کی زندگی ہے ، وہ زندگی کا کوئی کل نہیں رکھتے- کیا انسانی زندگی کا بھی کوئی کل نہیں ہے ؟ ایسا ہونا فطرت کے خلاف ہے فردکا تصور جو انسان میں پایا جاتا ہے اس کا صریح تقاضا ہے کہ انسان کی زندگی اس سے کہیں زیادہ بڑی ہو جتنی آج اسے حاصل ہے انسان " کل " چاہتا ہے مگر اس کو صرف" آج " دیا گیا ہے-
 
  • Like
Reactions: *Muslim* and Star24

Dawn

TM Star
Sep 14, 2010
3,699
3,961
1,313
saudi arabia
اسی طرح جب ہم سماجی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم کو ایک خلاء کا زبردست احساس ہوتا ہے ایک طرف مادی دنیا ہے جو اپنی جگہ پر مکمل نظر آتی ہے- وہ ایک متعین قانون میں جکڑی ہوئی ہے اور اس کی ہر چیز اپنے مقرر راستے پر چلی جارہی ہے – دوسرے لفظوں میں مادی دنیا ویسی ہی ہے جیسی کہ اسے ہونا چاہئے مگر انسانی دنیا کا حال اس سے مختلف ہے یہاں صورت حال اس سے برعکس ہے جیسا کہ اسے ہونا چاہئے تھا - ہم صریح طور پر دیکھتے ہیں کہ ایک انسان دوسرے انسان پر ظلم کرتا ہے اور دونوں اس حال میں مرجاتے ہیں کہ ایک ظالم اور دوسرا مظلوم ہوتا ہے - کیا ظالم کو اسکے ظلم کی سزا اور مظلوم کو اس کی مظلومیت کا بدلہ دئے بغیر دونوں کی ندگی کو مکمل کہا جاسکتا ہے ایک شخص سچ بولتا ہے اور حق داروں کو ان کے حقوق ادا کرتا ہے جس کے نتیجہ میں اس کی زندگی مشکل بن جاتی ہے دوسرا شخص جھوٹ اور فریب سے کام لیتا ہے اور جس کی جو چیز پاتا ہے ہڑپ کرلیتا ہے جس کے نتیجہ میں اس کی زندگی نہایت عیش و عشرت کی زندگی بن جاتی ہے - اگر یہ دنیا اسی حال میں ختم ہوجائے تو کیا دونوں انسانوں کے اس مختلف انجام کی کوئی توجیہ کی جاسکتی ہے - ایک قوم دوسری قوم پر ڈاکہ ڈالتی ہے اور اس کے وسائل اور ذرائع پر قبضہ کرلیتی ہے مگر اس کے باوجود دنیا میں وہی نیک نام رہتی ہے کیونکہ اس کے پاس نشر و اشاعت کے ذرائع ہیں اور دبی ہوئی قوم کی حالت سے دنیا ناواقف رہتی ہے کیونکہ اس کی آہ دنیا کے کانوں تک پہنچنے کا کوئی ذریعہ نہیں - کیا ان دونوں کی صحیح حیثیت کبھی ظاہر نہیں ہوگی ؟ دو اشخاص اور دو قوموں میں ایک مسئلہ میں اختلاف ہوتا ہے اور زبردست کشمکش تک نوبت پہنچ جاتی ہے دونوں اپنے آپ کو برسر حق کہتے ہیں اور ایک دوسرے کو انتہائی برا ثابت کرتے ہیں مگر دنیا میں ان کے مقدمہ کا فیصلہ نہیں ہوتا - کیا ایسی کوئی عدالت نہیں ہے جو ان کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کرسکے- دو اشخاص یا دوقوموں میں ایک مسئلہ پر اختلاف ہوتا ہے اور زبردست کشمکش تک نوبت پہنج جاتی ہے- دونوں اپنے آپ کو برسر حق کہتے ہیں اور ایک دوسرے کو انتہائی برا ثابت کرتے ہیں مگر دنیا میں ان کے مقدمے کا فیصلہ نہیں ہوتا کیا ایسی کوئی عدالت نہیں ہے جو ان کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کرسکے ؟ موجودہ دور کو ایٹمی دور کہا جاتا ہے لیکن اس کو خود سری کا دور کہیں تو زیادہ صحیح ہوگا – آج کا انسان صرف اپنی رائے اور خواہش پر چلنا چاہتا ہے خواہ اس کی رائے اور خواہش کتنی ہی غلط کیوں نہ ہو – ہر شخص غلط کار ہے مگر ہر شخص گلے کی پوری قوت کے ساتھ اپنے کو صحیح ثابت کررہا ہے – اخبارات میں لیڈروں اور حکمرانوں کے بیانات دیکھئے – ہر ایک انتہائی دیدہ دلیری کے ساتھ اپنے ظلم کو آئین انصاف اور اپنی غلط کاریوں کو بالکل جائز ثابت کرتا ہوا نظر آئے گا – کیا اس فریب کا پردہ کبھی چاک ہونے والا نہیں ہے ؟
یہ صورت حال صریح طور پر ظاہر کررہی ہے کہ یہ دنیا نامکمل ہے اس کی تکمیل کے لئے ایک ایسی دنیا چاہئے جہاں ہر ایک کو اس کا صحیح مقام مل سکے – مادی دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں کوئی خلا ہے ، اس کو پورا کرنے کے اسباب موجود ہے – مادی دنیا میں کہیں کوئی کمی نظر نہیں آتی – اس کے برعکس انسانی دنیا میں ایک زبرست خلا ہے – جس قدرت نے مادی دنیا کو مکمل حالت میں ترقی دی ہے کیا اسکے پاس انسانی دنیا کا خلا پر کرنے کا کوئی سامان موجود نہیں ؟ ہمارا احساس بعض افعال کو اچھا اور بعض کو برا سمجھتا ہے – ہم کچھ باتوں کے متعلق چاہتے ہیں کہ وہ ہوں اور کچھ باتوں کو چاہتے ہیں کہ وہ نہ ہوں – مگر ہماری فطری خواہش کے علی الرغم وہ سب کچھ یہاں ہورہا ہے جس کو انسانی فطرت برا سمجھتی ہے – انسان کے اندر اس طرح کے احساس کی موجودگی یہ معنی رکھتی ہے کہ کائنات کی تعمیر حق پر ہوئی ہے - یہاں باطل کے بجائے حق کو غالب آنا چاہئے – پھر کیا حق ظاہر نہیں ہوگا – جو چیز مادی دنیا میں پوری ہورہی ہے – کیا وہ انسانی دنیا میں پوری نہیں ہوگی –
 

Dawn

TM Star
Sep 14, 2010
3,699
3,961
1,313
saudi arabia
یہی وہ سوالات ہیں جن کے مجموعہ کو میں نے اوپر " انسانیت کے انجام کی تلاش " کہا ہے – ایک شخص جب ان حالات کو دیکھتا ہے تو وہ سخت بے چینی میں مبتلا ہوجاتا ہے – اس کے اندر نہایت شدت سے یہ احساس ابھرتا ہے کہ زندگی اگر یہی ہے جو اس وقت نظر آرہی ہے ، تو یہ کس قدر لغو زندگی ہے ! وہ ایک طرف دیکھتا ہے کہ انسانی زندگی کے لئے کائنات میں اس قدر اہتمام کیا گیا ہے گویا سب کچھ صرف اسی کے لئے ہے ،دوسری طرف انسان کی زندگی اس قدر مختصر اور اتنی ناکام ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کو کس لئے پیدا کیا گیا ہے
اس سوال کے سلسلے میں آج لوگوں کا رجحان عام طور پر یہ ہے کہ اس قسم کے جھنجھٹ میں پڑھنا فضول ہے – یہ سب فلسفیانہ سوالات ہیں ، اورحقیقت پسندی یہ ہے کہ زندگی کا جو لمحہ تمہیں حاصل ہے اس کو پر مسرت بنانے کی کوشش کرو – آئندہ کیا ہوگا ؟ یا جو کچھ ہورہا ہے وہ صحیح ہے یا غلط ، اس کی فکر میں پرھنے کی ضرورت نہیں –
اس جواب کے بارے میں کم از کم بات جو کہی جاسکتی ہے وہ یہ کہ جو لوگ اس انداز میں سونچتے ہیں انہوں نے ابھی انسانیت کے مقام کو نہیں پہنچانا وہ مجاز کو حقیقت سمجھ لینا چاہتے ہیں – واقعات انھیں ابدی زندگی کا راز معلوم کرنےکی د عوت دے رہے ہیں – مگر وہ چند روزہ زندگی پر قانع ہوگئے ہیں – انسانی نفسیات کا تقاضہ ہے کہ اپنے امنگوں اور اصولوں کی تکمیل کے لئے ایک وسیع تر دنیا کی تلاش کرے مگر یہ نادان روشنی کے بجائے اس کے سایہ کو کافی سمجھ رہے ہیں – کائنات پکاررہی ہے کہ یہ دنیا تمہارے لئے نا مکمل ہے ، دوسری مکمل دنیا کا کھوج لگاؤ – ہمارا فیصلہ ہے کہ ہم اس نا مکمل دنیا میں اپنی زندگی کی عمارت تعمیر کریں گے ، ہم کو مکمل دنیا کی ضرورت نہیں – حالات کا صریح اشارہ ہے کہ زندگی کا ایک انجام ہونا چاہئے مگر یہ لوگ صرف آغاز کو لے کر بیٹھ گئے ہیں – اور انجام کی طرف سے آنکھیں بند کرلی ہیں – حالانکہ یہ اس قسم کی ایک حماقت ہے جو شتر مرغ کے متعلق مشہور ہے- اگر فی الواقع زندگی کا کوئی انجام ہے تو وہ آکر رہے گا اور کسی کا اس سے غافل ہونا اس کو روکنے کا سبب نہیں بن سکتا- البتہ ایسے لوگوں کے حق میں وہ ناکامی کا فیصلہ ضرور کرسکتا ہے حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زندگی کو کل زندگی سمجھنا اور صرف آج کو پر مسرت بنانے کی کوشش کو اپنا مقصد بنالینا بڑی کم ہمتی اور بے عقلی کی بات ہے – آدمی اگر اپنی زندگی اور کائنات پر تھوڑا سا بھی غور کرے تو اس نقطہ نظر کی لغویت فورا واضح ہوجاتی ہے – ایسا فیصلہ وہی کرسکتا ہے جو حقیقتوں کی طرف سے آنکھیں بند کرلے اور بالکل بے سمجھی بوجھی زندگی گذارنا شروع کردے –
 

Dawn

TM Star
Sep 14, 2010
3,699
3,961
1,313
saudi arabia
یہ ہے وہ چند سوالات جو کائنات کو دیکھتے ہی نہایت شدت کے ساتھ ہمارے ذہن میں ابھرتے ہیں – اس کائنات کا ایک خالق ہونا چاہئے مگر اس کے متعلق ہمیں کچھ نہیں معلوم – اس کو چلانے والا اور اس کو سنبھالنے والا ہونا چاہئے، مگر ہم نہیں جانتے کہ وہ کون ہے – ہم کسی کے احسانات سے ڈھکے ہوئے ہیں اور مجسم شکر و سپاس بن کر اس ہستی کو ڈھونڈنا چاہتے ہیں جس کے آگے اپنی عقیدت کے جذبات کو نثار کرسکیں مگر ایسا کوئی وجود ہمیں نظر نہیں آتا- ہم اس کائنات کے اندر انتہائی عجز اور بےبسی کے عالم میں ہیں ، ہم کو ایک ایسی پناہ کی تلاش ہے جہاں پہنچ کر ہم اپنے آپ کو محفوظ تصور کرسکیں مگر ایسی کوئی پناہ ہماری آنکھوں کے سامنے موجود نہیں ہے – پھر جب ہم اپنی زندگی اور اپنی عمر کو دیکھتے ہیں تو کائنات کا یہ تضاد ہم کو ناقابل فہم معلوم ہوتا ہے کہ کائنات کی عمر تو کھربوں سال ہو اور انسان جو کائنات کا خلاصہ ہے اس کی عمر صرف چند سال – فطرت ہم کو بے شمار امنگوں اورحوصلوں سے معمور کرے مگر دنیا کے اندر اس کی تسکین کا سامان فراہم نہ کرے – پھر سب سے زیادہ سنگین تضاد وہ ہے جو مادی دنیا اور انسانی دنیا میں پایا جاتا ہے – مادی دنیا انتہائی طور پر مکمل ہے ، اس میں کہیں خلا نظر نہیں آتا مگر انسانی زندگی میں زبردست خلا ہے – اشرف المخلوقات کی حالت ساری مخلوق سے بد تر نظر آتی ہے ہماری بد قسمتی کی انتہاء یہ ہے کہ اگر پٹرول کا کوئی نیا چشمہ دریافت ہو یا بھڑ بکریوں کی نسل بڑھے تو اس سے انسان خوش ہوتا ہے مگر انسانی نسل کا اضافہ ہم سے گوارا نہیں – ہم اپنی مشکلوں سے اس قدر پریشان ہیں کہ انسان کی پیدائش کو روک دینا چاہتے ہیں
یہ سوالات ہم کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں – وہ اندر سے بھی ابل رہے ہیں اور باہر سے بھی ہمیں گھیرے ہوئے ہیں مگر ہمیں نہیں معلوم کہ ان کا جواب کیا ہے- یہ زندگی کی حقیقت معلوم کرنے کا سوال ہے- مگر کس قدر عجیب بات ہے کہ ہمیں زندگی تو مل گئی مگر اس کی حقیقت ہمیں نہیں بتائی گئی-
اس حقیقت کی دریافت کے لئے جب ہم اپنی عقل اور اپنے تجربات کی طرف دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا صحیح اور قطعی جواب معلوم کرنا ہماری عقل اور ہمارے تجربہ کے بس سے باہر ہے –اس سلسلہ میں اب تک ہم نے جو رائیں قائم کی ہیں وہ اٹکل سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتیں – جس طرح ہماری نظر کا دائرہ محدود ہے اور ہم ایک مخصوص جسامت سے چھوٹی چیزوں کا مشاہدہ نہیں کرسکتے اور ایک مخصوص فاصلہ سے آگے کے اجسام کو نہیں دیکھ سکتے ، اسی طرح کائنات کے متعلق ہمارا علم بھی ایک تنگ دائرے میں محدود ہے جس کے آگے یا پیچھے کی ہمیں کوئی خبر نہیں – ہمارا علم نا مکمل ہے ہمارے حواس خمسہ ناقص ہے – ہم حقیقت کو نہیں دیکھ سکتے – میدہ اور کالک کو اگر ملایا جائے تو بھورا خاکستری رنگ کا ایک سفوف سا بن جاتا ہے ، لیکن اس سفوف کا باریک کیڑا جو سفوف کے ذروں ہی کہ برابر ہوتا ہے اور صرف خوردبین کی مدد سے دیکھا جاسکتا ہے وہ اس کو کچھ سیاہ اور کچھ کوسفید رنگ کی چٹان سمجھتا ہے – اس کے مشاہدہ کے پیمانے میں خاکستری سفوف کوئی چیز نہیں-
نوع انسان کی زندگی اس زمانے کے مقابلہ میں جب کہ یہ کرہ ارض وجود میں آیا ، اس قدر مختصر ہے کہ کسی شمار میں نہیں آتی اور خود کرہ ارض کائنات کے اتھاہ سمندر میں ایک قطرہ کے برابر بھی نہیں – ایسی صورت میں انسان کائنات کی حقیقت کے بارے میں جو خیال آرائی کرتا ہے ، اس کو اندھیرے میں ٹٹولنے سے زیاہ اور کچھ نہیں کہا جاسکتا – ہماری انتہائی لا علمی فورا ظاہر ہوجاتی ہے جب ہم کائنات کی وسعت کا تصور کرنے کی کوشش کرتے ہیں – اگر آپ اسے ملحوظ رکھیں کہ آفتاب اسی ( 80 ) کھرب سال سے موجود ہے ، اس زمین کی عمر جس پر ہم بستے ہیں ، دو ارب سال ہے اور زمین پر زندگی کے آثار نمایاں ہوئے تین کروڑ سال گذر چکے ہیں مگر اس کے مقابلے میں زمین پر ذی عقل انسان کی تاریخ پندرہ بیس ہزار سال سے زیادہ نہیں ، تویہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ یہ چند ہزار سال کا زمانہ جس میں انسان نے اپنی معلومات فراہم کی ہے – اس طویل زمانے کا ایک بہت حقیر جزو ہے جو کہ دراصل کائنات کے اسرار کو معلوم کرنے کے لئے درکار ہے- کائنات کے بےحد طویل ماضی اور نا معلوم مستقبل کے درمیان انسانی زندگی محض ایک لمحہ کی حیثیت رکھتی ہے – ہمارا وجود ایک نہایت حقیر قسم کا درمیانی وجود ہے جس کے آگے اور پیچھے کی ہمیں کوئی خبر نہیں – ہماری عقل کو عاجزی کہ ساتھ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ اس کائنات کی وسعت لا محدود ہے اور اس کو سمجھنے کے لئے ہماری عقل اور ہمارا تجربہ بالکل نا کافی ہے – ہم اپنی محدود صلاحیتوں کے ذریعہ اس کو کبھی سمجھ نہیں سکتے –
اس طرح ہمارا علم اور ہمارا مطالعہ ہم کو ایک ایسے مقام پر لاکر چھوڑ دیتا ہے جہاں ہمارے سامنے بہت سے سوالات ہیں ، ایسے سوالات جو لازمی طور پر اپنا جواب چاہتے ہیں – جن کے بغیر انسانی زندگی بالکل لغو اور بے کار نظر آتی ہے – مگر جب ہم ان پر سونچنے بیٹھتے ہیں تو ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ ہم اپنے ذہن سے ان کا جواب معلوم نہیں کرسکتے – ہم کو آنکھ ہی نہیں ملی جس سے حقیقت کا مشاہدہ کیا جاسکے- اور وہ ذہن ہمیں حاصل نہیں ہے جو براہ راست حقیقت کا ادراک کرسکے –
 

Dawn

TM Star
Sep 14, 2010
3,699
3,961
1,313
saudi arabia
اس موقع پر ایک شخص ہمارے سامنے آتا ہے اور کہتا ہے کہ جس حقیقت کو تم معلوم کرنا چاہتے ہو اس کا علم مجھے دیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ :
" اس کائنات کا ایک خدا ہے – جس نے سارے عالم کو بنایا ہے اور اپنے غیر معمولی قوتوں کے ذریعہ اس کا انتظام کر رہا ہے – جو چیزیں تمہیں حاصل ہیں وہ سب اسی نے تمہیں دی ہیں اور سارے معاملات کا اختیار اسی کو ہے – یہ جو تم دیکھ رہے ہو کہ مادی دنیا کے اندر کوئی تضاد نہیں ، وہ ٹھیک ٹھیک اپنے فرائض انجام دے رہی ہے اور اس کے برعکس انسانی دنیا ادھوری نظر آتی ہے ، یہاں زبردست خلفشار برپا ہے – اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کو آزادی دے کر اسے آزمایا جا رہا ہے – تمہارا مالک یہ چاہتا ہے کہ اس کا قانون جو مادی دنیا میں براہ راست نافذ ہورہا ہے ، اس کو انسان اپنی زندگی میں خود سے اختیار کرے - یہی وجود کائنات کا خالق ہے ، وہی اس کا مدبر اور منتظم ہے ، وہی تمہارے جذبات شکر کا مستحق ہے اور وہی ہے جو تم کو پناہ دے سکتا ہے اس نے تمہارے لئے ایک لا محدود زندگی کا انتظام کر رکھا ہے جو موت کے بعد آنے والی ہے ، جہاں تمہاری امنگوں کی تسکین ہوسکے گی – جہاں حق و باطل الگ الگ کردئے جائیں گے اور نیکو ں کو انکی نیکی کا اور بروں کو ان کی برائی کا بدلہ دیا جائے گا – اس نے میرے ذریعہ سے تمہارے پاس اپنی کتاب بھیجی ہے جس کا نام قرآن ہے – جو اس کو مانے گا وہ کامیاب ہوگا اور جو اس کو نہ مانے گا وہ ذلیل کردیا جائے گا- "
یہ محمدﷺ کی آواز ہے جو چودہ سو برس پہلے عرب کے ریگستان سے بلند ہوئی تھی اور آج بھی ہم کو پکار رہی ہے – اس کا پیغام ہے کہ اگر حقیقت کو معلوم کرنا چاہتے ہوتو میری آواز پر کان لگاؤ اور میں جو کچھ کہتا ہوں اس پر غور کرو –
کیا یہ آواز حقیقت کی واقعی تعبیر ہے ؟ کیا ہمیں اس پر ایمان لانا چاہئے ؟ وہ کونسی بنیادیں ہیں جن کی روشنی میں اس کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کیا جائے گا؟
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس حقیقت کو اس وقت تسلیم کریں گے جبکہ وہ انھیں نظر آئے – وہ حقیقت کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں مگر یہ مطالبہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص فلکیا ت کا مطالعہ ریاضی کے بغیرکرنے کی کوشش کرے اور کہے کہ وہ فلکیاتی سائنس کی صرف ان ہی دریافتوں کو تسلیم کرے گا جو کھلی آنکھوں سے اسے نظر آتی ہو، ریاضیات کی دلیل اس کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے ، یہ مطالبہ ظاہر کرتا ہے کہ آدمی کو اپنی قوتوں کا صحیح علم نہیں ہے –
انسان کے پاس مشاہدہ کی جو قوتیں ہیں وہ نہایت محدود ہیں – حقیقت ہمارے لئے ایک ناقابل مشاہدہ چیز ہے – ہم اسے محسوس تو کرسکتے ہیں مگر اسے دیکھ نہیں سکتے – ایک زمانے میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ دنیا چار چیزوں سے مل کر بنی ہے ---- " آتش و آب و خاک و باد – " دوسرے لفظوں میں قدیم انسان اس غلط فہمی میں مبتلا تھا کہ حقیقت ایک ایسی چیز ہے جسے دیکھا جاسکتا ہے – مگر جدید تحقیقات نے اس کی غلطی واضح کردی ہے – اب ہم جانتے ہیں کہ دنیا کی تمام چیزیں اپنے آخری تجزیہ میں ایٹم کے باریک ترین ذرات پر مشتمل ہے –ایٹم ایک اوسط درجہ کے سیب سے اتنا ہی چھوٹا ہوتا ہے جتنا کہ سیب ہماری زمین سے – یہ ایٹم ایک طرح کا نظام شمسی ہے جس کا ایک مرکز ہے – اس مرکز میں پروٹان اور نیوٹران ہوتے ہیں اور اس کے چاروں طرف الکٹران ( برقیے ) مختلف مداروں میں اسی طرح حرکت کرتے ہیں جیسے سورج کے گر د اس کے تابع سیارے حرکت کرتے ہیں – ایک برقیہ جس کا قطر سنٹی میٹر کا پانچ ہزار کروڑواں حصہ ہو اور جو اپنے مرکز کے چاروں طرف ایک سکنڈ میں کروڑوں مرتبہ چکر کاٹتا ہو ، اس کے تصور کی کوشش کرنا سعی لا حاصل ہے جب کہ ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ یہ اندرونی عالموں کی آخری حد ہے – ممکن ہے ان عالموں کے اندر ان سے بھی چھوٹے عالم ہوں –
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے مشاہدہ کی قوت کس قدر کمزور ہے – پھر سوال یہ ہے کہ پروٹان اور نیوٹران کہ وہ انتہائی چھوٹے ذرے جو باہم مل کر مرکز بناتے ہیں وہ کس طرح قائم ہے – آخر یہ پروٹان اور نیوٹران مرکز سے باہر کیوں نہیں نکل پڑتے – وہ کیا چیز ہے جو انھیں ایک دوسرے سے باندھے ہوئے ہے – سائنس دانوں کاخیال ہے کہ ان مادی ذرات کے درمیان ایک توانائی موجو ہے اور یہی توانائی مرکز کے برقی اور غیر برقی ذرات کو آپس میں جکڑے ہوئے ہے – اس کو طاقت یکجائی کا نام دیا گیا ہے – گویا مادہ اپنے آخری تجزیہ میں توانائی ہے – میں پوچھتا ہوں ، کیا یہ توانائی قابل مشاہدہ چیز ہے ؟ کیا کسی بھی خوردبین کے ذریعہ اسے دیکھا جاسکتا ہے – اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جدید سائنس نے خود یہ تسلیم کرلیا ہے کہ حقیقت ایک ناقابل مشاہدہ چیز ہے – اس کو انسانی آنکھ نہیں دیکھ سکتی –
اب اگر ہم رسول ؐ کی بات کو ماننے کے لئے ہم یہ شرط لگائیں کہ وہ جن حقیقتوں کی خبر دے رہے ہیں وہ ہمیں چھونے اور دیکھنے کو ملنی چاہئیں تب ہم اسے مانیں گے تو یہ ایک نہایت نا معقول بات ہوگی - یہ ایسی ہی بات ہوگی کہ کوئی تاریخ ہند کا طالب علم ایسٹ انڈیا کمپنی کے حالات کامطالعہ کرتے ہوئے اپنے استاد سے کہے کہ کمپنی کے تمام کردار کو میرے سامنے لا کھڑا کردو ، اور وہ میرے سامنے وہ تمام گذرے ہوئے واقعات کو دہرائیں ، تب میں تمہاری تاریخ تسلیم کروں گا-
 

Dawn

TM Star
Sep 14, 2010
3,699
3,961
1,313
saudi arabia
پھر وہ کونسی بنیادیں ہیں جن کی روشنی میں دیکھ کر ہم یہ فیصلہ کریں کہ یہ دعوت صحیح ہے یا غلط ، اور ہم کو اسے قبول کرنا چاہئے یا نہیں - میرے نزدیک اس دعوت کو جانچنے کے تین خاص پہلو ہیں- اول یہ کہ اس کی توجیہ حقیقت سے کتنی خاص مطابقت رکھتی ہے دوسرے یہ کہ زندگی کے انجام کے بارے میں اس کا دعوی محض دعوی ہے یا اس کی کوئی دلیل بھی ان کے پاس ملتی ہے – اور تیسرے یہ کہ ان کے پیش کئے ہوئے کلام میں کیا ایسی کوئی نمایاں خصوصیت پائی جارہی ہے کہ اس کو خدا کا کلام کہا جاسکے – ان تینوں پہلوؤں کےاعتبار سے جب ہم رسولؐ کے کام کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک پر وہ نہایت کامیابی کے ساتھ پورا اتر رہے ہیں -
1 - رسول ؐ نے کائنات کی جو توجیہ کی ہے اس میں ہماری تمام پیچیدگیوں کا حل موجود ہے – ہمارے اندر اور ہمارے باہر جتنے سوالات پیدا ہوتے ہیں ان سب کا وہ بہترین جواب ہے –
2 - زندگی کے انجام کے بارے میں ان کا جو دعوی ہے اس کے لئے وہ اایک قطعی دلیل بھی اپنے پاس رکھتے ہیں – وہ یہ کہ موجودہ زندگی میں وہ اس انجام کا ایک نمونہ ہمیں دکھا دیتا ہے جس کو بعد کی زندگی میں آنے کی وہ خبر دے رہا ہے –
3 - وہ جس کلام کو خدا کا کلام کہتے ہیں اس کے اندر اتنی غیر معمولی خصوصیات پائی جاتی ہیں کہ ماننا پڑتا ہے کہ یقینا یہ ایک فوق الانسانی طاقت کا کلام ہے - کسی انسان کا کلام ایسا نہیں ہوسکتا –
آئیے اب ان تین پہلوؤں سے رسول ؐ کی دعوت کا جائزہ لیں-
1 - اس کی پہلی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ وہ انسانی نفسیات کے عین مطابق ہے – اس کے معنی یہ ہے کہ انسان کی پیدائش جس فطرت پر ہوئی ہے وہی فطرت اس توجیہ کی بھی ہے – اس توجیہ کی بنیاد ایک خدا کے تصور پر رکھی گئی ہے اور ایک خدا کا شعور انسان کی فطرت میں شامل ہے – اس کے دو نہایت مضبوط قرینے ہیں - ایک یہ کہ انسانی تاریخ کی تمام معلوم زبانوں میں انسانوں کی اکثریت بلکہ تقریبا ان کی تمام تعداد نے خدا کے وجود کو تسلیم کیا ہے – انسان پر کبھی بھی ایسا دور نہیں گذرا ہے جب اس کی اکثریت خدا کے شعور سے خالی رہی ہو – قدیم ترین زمانوں سے لےکر آج تک انسانی تاریخ کی متفقہ شہادت یہی ہے کہ خدا کا شعور انسانی فطرت کا نہایت طاقتور شعور ہے – دوسرا قرینہ یہ ہے کہ جب انسان پر کوئی نازک وقت آتا ہے تو اس کا دل بے اختیار خدا کو پکار اٹھتا ہے جہاں کوئی سہارا نظر نہیں آتا وہاں وہ خدا کا سہارا ڈھونڈتا ہے - جاہل ہو یا عالم خدا پرست ہو یا ملحد روشن خیال ہو یا تاریک خیال – جب بھی اس پر کوئی ایسا وقت گذرتا ہے جہاں عام انسانی قوتیں جواب دیتی نظر آتی ہیں تو وہ ایک ایسی ہستی کو پکار تا ہے جو تمام طاقتوں سے بڑھ کر طاقتور ہے اور جو تمام طاقتوں کا خزانہ ہے - انسان اپنے نازک ترین لمحات میں خدا کو یاد کرنے پر مجبور ہے – اس کی ایک دلچسپ مثال ہمیں سٹالین کی زندگی میں ملتی ہے جس کا ذکر مسٹر چرچل نے دوسری جنگ عظیم کے حالات کے متعلق اپنی کتاب کی چوتھی جلد صفحہ 433 میں کیا ہے - 1942 کے نازک حالات میں جبکہ ہٹلر سارے یوروپ کے لئے خطرہ بنا ہوا تھا ، چرچل نے ماسکو کا سفر کیا تھا – اس موقع پر چرچل نے سٹالین کو اتحادی فوجی کارروائی کے متعلق اپنی اسکیم کی تفصیلات بتائیں - چرچل کا بیان ہے کہ اسکیم کی تشریح کے ایک خاص مرحلہ پر جبکہ سٹالین کی دلچسپیاں اس سے بہت بڑھ چکی تھیں ، اس کی زبان سے نکلا " خدا اس اسکیم کو کامیاب کرے "/ – ("ڈاکٹر سید عبداللطیف - دی مائنڈ القرآن بلڈس صفحہ 94 )
اسی کے ساتھ نبی ؐ کی آواز کی یہ خصوصیت بھی ہے کہ وہ ان تمام سوالات کی مکمل توجیہ ہے جو انسان معلوم کرنا چاہتا ہے اور جو کائنات کے مطالعہ سے ہمارے ذہنوں میں ابھرتے ہیں - کائنات کے مطالعہ نے ہمیں اس نتیجہ پر پہنچایا تھا کہ یہ محض اتفاق سے نہیں پیدا ہوسکتی ، ضرور اس کا کوئی پیدا کرنے والا ہونا چاہئے – اس توجیہ میں اس سوال کا جواب موجود ہے – ہم کو نظر آرہا تھا کہ کائنات محض ایک مادی مشین نہیں ہے – اس کے پیچھے کوئی غیر معمولی ذہن ہونا چاہئے جو اسے چلا رہا ہو – اس توجیہ میں اس سوال کا جواب بھی موجود ہے – ہم کو اپنے محسن کی تلاش تھی اور ایک ایسی ہستی کی تلاش تھی جو ہمارا سہارا بن سکے – اس توجیہ میں اس کا جواب بھی موجود ہے – ہم کو یہ بات بہت عجیب معلوم ہورہی تھی کہ انسانی زندگی اتنی مختصر کیوں ہے ہم اس کو لا محدود دیکھنا چاہتے تھے جہاں ہماری امنگوں کی تکمیل ہوسکے – اس کی توجیہ میں اس کا جواب بھی موجود ہے - پھر انسانی حالات کا شدید تقاضہ تھا کہ حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا واضح اور اچھے اور برے الگ الگ کردئے جائیں ہر ایک کو اس کا صحیح مقام دیا جائے – اس سوال کا جواب بھی اس توجیہ میں موجود ہےغرض زندگی سے متعلق سارے سوالات کا مکمل جواب ہے اور اتنا بہتر جواب ہے کہ اس سے بہتر جواب کا ہم تصورنہیں کرسکتے- اس سے وہ سارے سوالات حل ہوجاتے ہیں جو کائنات کے مطالعہ سے ہمارے ذہن میں پیدا ہوئے تھے –
2 – ان کی دعوت کی دوسری نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ زندگی کے انجام کے بارے میں وہ جو نظریہ پیش کرتے ہیں اس کا ایک واقعاتی نمونہ خود اپنی زندگی میں ہمیں دکھادیتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ دنیا اسی طرح ظالم اور مظلوم کو لئے ہوئے ختم نہیں ہوجائے گی بلکہ اس کے انجام پت کائنات کا رب ظاہر ہوگا اور سچوں اور جھوٹوں کو ایک دوسرے سے الگ الگ کردے گا - اس دن کے آنے میں جو دیر ہے وہ اس مہلت کار کے ختم ہونے کی ہے جو تمہارے لئے مقدر ہے –
یہ بات وہ صرف کہہ کر نہیں چھوڑدیتے ، بلکہ اسی کے ساتھ ان کا دعوی یہ بھی ہے کہ میں جو کچھ کہتا ہوں اس کے صحیح ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ اس عدالت کا ایک نمونہ مالک کائنات میرے ذریعہ سے اسی دنیا میں تم کو دکھائے گا - میرے ذریعہ سے وہ حق کو غالب اور باطل کو مغلوب کرے گا ، اپنے فرماں برداروں کو عزت دے گا اور اپنے نا فرمانوں کو ذلیل کرکے انھیں عذاب میں مبتلا کرے گا – یہ واقعہ بہرحال ظہور میں آئے گا خواہ دنیا کے لوگ کتنی ہی مخالفت کریں اور ساری طاقت اس کے مٹانے پر لگادیں - جس طرح آخرت کا ہونا قطعی طور پر مقدر ہے اور کوئی اسے روک نہیں سکتا – اسی طرح میری زندگی میں اس کا نمونہ دیکھایا جانا بھی لازمی ہے – یہ ایک نشان ہوگا آنے والے دن کا اور یہ دلیل ہوگی اس بات کی کہ کائنات کی تعمیر عدل پر ہوئی ہے اور یہ میں جس طاقت کا نمائندہ ہوں وہ ایک ایسی طاقت ہے جس کی طاقت سب پر بالا ہے – یہ طاقت ایک روز تم کو اپنے سامنے کھڑا کرکے تمام اگلے پچھلے انسانوں کا فیصلہ کرے گی –
چیلنچ وہ اس وقت دیتے ہیں جب کہ وہ تنہا ہیں ، پوری قوم ان کی دشمن ہوگئی ہے – خود ان کا ملک ان کو جگہ دینے کے لئے تیار نہیں – ان کے قریب ترین اعزا نے بھی ان کا ساتھ چھوڑ دیا - ان کے پاس مادی وسائل و ذرائع میں سے بھی کچھ نہیں – ایسا ایک شخص پورے یقین کے ساتھ یہ اعلان کرتا ہے کہ میں غالب ہونگا اور میرے ذریعہ سے خدا کی عدالت زمین پر قائم ہوگی – سننے والے ان کا مذاق اڑاتے ہیں مگر وہ نہایت سنجیدگی کے ساتھ اپنا کام کرتا چلا جا رہا ہے - ملک کی اکثریت اس کے قتل کا فیصلہ کرتی ہے – اس کی معاشیات تباہ کردیتی ہے – اس کو جلاوطنی پر مجبور کرتی ہے – اس کو مٹانے پر اپنا سارا زور صرف کردیتی ہے – مگر اس کے مقابلے میں یہ سب کچھ بے اثر ثابت ہوتا ہے اگرچہ بہت تھوڑے لوگ اس کا ساتھ دیتے ہیں – ایک طرف معمولی اقلیت ہوتی ہے اور دوسری طرف زبردست اکثریت – ایک طرف سازوسامان ہوتا ہے اور دوسری طرف بے سروسامانی – ایک طرف ملکی باشندوں اور ہمسایہ قوموں کی حمایت ہوتی ہے اور دوسری طرف اپنوں اور غیروں کی متفقہ مخالفت – حالات کی انتہائی ناسازگاری سے اس کے ساتھی اکثر گھبرا اٹھتے ہیں مگر وہ ہر بار یہی کہتا ہے کہ انتظار کرو ، خدا کا فیصلہ آکر رہے گا ، اس کو کوئی طاقت روک نہیں سکتی –
اس کے چیلنچ پر چوتھائی صدی بھی گذرنے نہیں پاتی کہ وہ مکمل شکل میں پورا ہوجاتا ہے اور تاریخ میں اپنی نوعیت کا واحد واقعہ ظہور میں آتا ہے کہ ایک شخص نے جن دعووں کے ساتھ اپنے کام کا آغاز کیا تھا ٹھیک اسی شکل میں اس کا دعوی پورا ہوا اور اس کے مخا لفین اس میں کوئی کمی بیشی نہ کر سکے –حق اور باطل الگ الگ ہوگیا – خدا کے فرماں برداروں کو عزت اور غلبہ حاصل ہوا ، اور خدا کے نافرمانوں کا زور توڑ کر انھیں محکوم بنادیا گیا-
اس طرح اس دعوت نے انسانوں کے لئے جس انجام کی خبر دی تھی اس کا ایک نمونہ دنیا میں قائم کردیا جو قیامت کے لئے عبرت کا نشان ہے- اس نمونہ کی تکمیل آخرت میں ہوگی جب سارے انسانوں کو خداکی عدالت میں حاضر کرکے ان کا آخری فیصلہ کیا جائے گا –
 

Dawn

TM Star
Sep 14, 2010
3,699
3,961
1,313
saudi arabia
2 – اس شخص کے دعوے کہ برحق ہونے کا تیسرا ثبوت وہ کلام ہے جس کو وہ کلام الٰہی کہ کر پیش کر تا ہے – اس کلام کے اوپر کتنی ہی صدیاں گذر چکی ہیں مگر اس کی عظمت ، اس کی سچائی اور حقیقت کے بارے میں اس بیان کا ایک حروف بھی غلط ثابت نہ ہوسکا جبکہ کوئی بھی انسانی کتاب ایسی نہیں ہے جو ان نقائص سے پاک ہو
دوسرے لفظوں میں قرآن بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ وہ خدا کی کتاب ہے اس کے بہت سے پہلو ہیں مگر میں یہاں صرف تین پہلوؤں کا ذکر کرونگا – ایک اس کا غیر معمولی انداز بیان ، دوسرے اس کے معنی کا تضاد سے پاک ہونا – تیسرے اس کی ابدیت –
1 - قرآن ایک غیر معمولی کلام ہے – اس کو پڑھتے ہوئے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مصنف ایک ایسے بلند مقام سے بول رہا ہے جو کسی بھی انسان کو حاصل نہیں – اس کی عبارتوں کا شکوہ ، اس کی بے پناہ روانی اور اس کا فیصلہ کن انداز بیان اتنا حیرت انگیز طور پر انسانی کلام سے مختلف ہے کہ صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ مالک کائنات کی آواز ہے کسی انسان کی آواز نہیں – اس کا پر یقین اور با عظمت کلام خود ہی بول رہا ہے کہ یہ خدا کی کتاب ہے جس میں خدا اپنے بندوں سے مخاطب ہوا ہے – قرآن میں کائنات کی حقیقت بتائی گئی ہے – انسان کے انجام کی خبر دی گئی ہے اور زندگی سے متعلق تمام کھلے اور چھپے حالات پر گفتگو کی گئی ہے – مگر یہ سب کچھ اس قدر قطعی انداز میں بیان ہوا ہے کہ اظہار واقعہ کا مشاہدہ معلوم ہونے لگتا ہے قرآن کو پڑھتے ہوئے گویا ایسا محسوس ہوتا ہے گویا آدمی کو حقیقت کا علم نہیں دیا جارہا ہے بلکہ اس کو حقیقت کے سامنے لے جاکر کھڑا کردیا گیا ہے – وہ واقعہ کو کتاب کے صفحات میں نہیں پڑھ رہا ہے بلکہ اسکرین کے اوپر اس کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے – کلام کی یہ قطعیت صاف ظاہر کر رہی ہے کہ یہ ایک ایسی ہستی کا کلام ہے جس کو حقیقتوں کا براہ راست علم ہے – کوئی انسان جو حقیقتوں کا ذاتی علم نہ رکھتا ہو ، اپنے کلام میں ہر گز یہ قطعیت پیدا نہیں کرسکتا – یہاں میں نمونہ کے طور پر قرآن کی ایک چھوٹی سی سورت نقل کروں گا –
بسم الله الرحمن الرحيم
إِذَا السَّمَاءُ انفَطَرَتْ ﴿١﴾ وَإِذَا الْكَوَاكِبُ انتَثَرَتْ ﴿٢﴾ وَإِذَا الْبِحَارُ فُجِّرَتْ ﴿٣﴾ وَإِذَا الْقُبُورُ بُعْثِرَتْ ﴿٤﴾ عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ وَأَخَّرَتْ ﴿٥﴾ يَا أَيُّهَا الْإِنسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ ﴿٦﴾ الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَ ﴿٧﴾ فِي أَيِّ صُورَةٍ مَّا شَاءَ رَكَّبَكَ ﴿٨﴾ كَلَّا بَلْ تُكَذِّبُونَ بِالدِّينِ ﴿٩﴾ وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَافِظِينَ ﴿١٠﴾ كِرَامًا كَاتِبِينَ ﴿١١﴾ يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ ﴿١٢﴾ إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِي نَعِيمٍ ﴿١٣﴾ وَإِنَّ الْفُجَّارَ لَفِي جَحِيمٍ ﴿١٤﴾ يَصْلَوْنَهَا يَوْمَ الدِّينِ ﴿١٥﴾ وَمَا هُمْ عَنْهَا بِغَائِبِينَ ﴿١٦﴾ وَمَا أَدْرَاكَ مَا يَوْمُ الدِّينِ ﴿١٧﴾ ثُمَّ مَا أَدْرَاكَ مَا يَوْمُ الدِّينِ ﴿١٨﴾ يَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَيْئًا ۖ وَالْأَمْرُ يَوْمَئِذٍ لِّلَّـهِ ﴿١٩﴾
بسم الله الرحمن الرحيم
جب آسمان پھٹ جائے گا (1) اور جب ستارے جھڑ جائیں گے (2) اور جب سمندر بہہ نکلیں گے (3) اور جب قبریں (شق کر کے) اکھاڑ دی جائیں گی (4) (اس وقت) ہر شخص اپنے آگے بھیجے ہوئے اور پیچھے چھوڑے ہوئے (یعنی اگلے پچھلے اعمال) کو معلوم کر لے گا (5) اے انسان! تجھے اپنے رب کریم سے کس چیز نے بہکایا (6) جس (رب نے) تجھے پیدا کیا، پھر ٹھیک ٹھاک کیا، پھر (درست اور) برابر بنایا (7) جس صورت میں چاہا تجھے جوڑ دیا (8) ہرگز نہیں بلکہ تم تو جزا وسزا کے دن کو جھٹلاتے ہو (9) یقیناً تم پر نگہبان عزت والے (10) لکھنے والے مقرر ہیں (11) جوکچھ تم کرتے ہو وه جانتے ہیں (12) یقیناً نیک لوگ (جنت کے عیش وآرام اور) نعمتوں میں ہوں گے (13) اور یقیناً بدکار لوگ دوزخ میں ہوں گے (14) بدلے والے دن اس میں جائیں گے (15) وه اس سے کبھی غائب نہ ہونے پائیں گے (16) تجھے کچھ خبر بھی ہے کہ بدلے کا دن کیا ہے (17) میں پھر (کہتا ہوں کہ) تجھے کیا معلوم کہ جزا (اور سزا) کا دن کیا ہے (18) (وه ہے) جس دن کوئی شخص کسی شخص کے لئے کسی چیز کا مختار نہ ہوگا، اور (تمام تر) احکام اس روز اللہ کے ہی ہوں گے ( 19 )
( یہاں یہ بات ملحوظ رکھی جائے کہ ترجمہ میں کبھی وہ زور پیدا نہیں ہوسکتا جو اصل کلام میں ہے )
کس قدر یقین سے بھرا ہوا ہے یہ کلام جس میں زندگی کی ابتداء اور انتہاء سب کچھ بیان کردی گئی ہے – کوئی بھی انسانی کتاب جو زندگی اور کائنات کے موضوع پر لکھی گئی ہو ، اس یقین کی مثال پیش نہیں کرسکتی ، سیکڑوں سال سے انسان کائنات کی حقیقت پر غور کررہا ہے ، بڑے بڑے فلسفی اور سائنس داں پیدا ہوئے ، مگر کوئی اس یقین کے ساتھ بولنے کی جراءت نہ کرسکا – سائنس آج بھی یہ تسلیم کرتی ہے کہ وہ کسی قطعی اور صحیح علم سے ابھی بہت دور ہے جبکہ قرآن اس قدر یقین کے ساتھ بات کہتا ہے گویا وہ علم کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور حقیقت سے آخری وقت تک واقف ہے –
2 – قرآن کے کلام الہی ہونے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ اس نے مابعد الطبیعی حقائق سے لے کر تمدنی مسائل تک تمام اہم امور پر گفتگو کی ہے مگر کہیں بھی اس کے کلام میں تضاد نہیں پایا جاتا – اس کلام پر تقریبا دیڑھ ہزار برس پورے ہورہے ہیں ، اس دوران میں بہت سی نئی نئی باتیں انسان کو معلوم ہوئی ہیں مگر اس کی باتوں میں اب بھی کوئی تضاد ظاہر نہ ہوسکا – حالانکہ انسانوں میں سے کسی ایک بھی فلسفی کا اس حیثیت سے نام نہیں لیا جاسکتا کہ اس کا کلام تضاد اور اختلاف سے پاک ہے - اس دوران میں ہزاروں فلسفی پیدا ہوئے جنھوں نے اپنی عقل سے زندگی اور کائنات کی توجیہ کرنے کی کوشش کی مگر بہت جلد ان کے کلام کا تضاد ظاہر ہوگیا اور زمانہ نے انھیں رد کردیا -
 

Dawn

TM Star
Sep 14, 2010
3,699
3,961
1,313
saudi arabia
کسی کلام کا تضاد سے پاک ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ حقیقت سے کلی مطابقت رکھتا ہے – جو شخص حقیقتوں کا علم نہ رکھتا ہو یا صرف جزوی علم اسے حاصل ہو وہ جب بھی حقیقت کو بیان کرنے بیٹھے گا لازمی طور پرتضادات کا شکار ہوجائے گا - وہ ایک پہلو کی تشریح کرتے ہوئے دوسرے پہلو کی رعایت نہ کرسکے گا و ہ ایک رخ کو کھولے گا تو دوسرے رخ کو بند کردے گا - زندگی اور کائنات کی توجیہ کا سوال ایک ہمہ گیر سوال ہے - اس کے لئے ساری حقیقتوں کا علم حاصل ہونا ضروری ہے اور چونکہ اپنی محدود صلاحیتوں کی بنا پر ساری حقیقتوں کا علم حاصل نہیں کرسکتا اس لئے وہ سارے پہلوؤں کیہ رعایت بھی نہیں کرسکتا - یہی وجہ ہے کہ انسان کے بنائے ہوئے فلسفوں میں تضاد کا پایا جانا لازمی ہے - قرآن کی یہ خصوصیت کہ وہ اس قسم کے تضادات سے پاک ہے ، اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ وہ حقیقت کی صحیح ترین تعبیر ہے ، اس کے سوا تمام تعبیریں غلط ہیں - اس واقعہ کو میں مثال کے ذریعہ واضح کروں گا-
1 - زندگی کے موضوع پر جو کتاب لکھی جائے اس کا ایک ضروری باب زندگی کے فرائض متعین کرنا ہے - یہ فرائض متعین کرنے میں ضروری ہے کہ ان کے مختلف پہلوؤں کی ٹھیک ٹھیک رعایت کی جائے –ایسا نہ ہو کہ کسی ایک پہلو سے کوئی ایسا حکم دیا جائے جو دوسرے پہلو سے ٹکراتا ہو- مثلا مرد اور عورت کی حیثیت متعین کرنا تمدنی زندگی کا ایک اہم مسئلہ ہے - آج کے ترقی یافتہ دور نے یہ قرار دیا ہے کہ عورت اور مرد کے درمیان مساوات ہونی چاہئے اور زندگی کے ہر شعبہ میں دونوں کو یکساں طور پر کام کرنے کا موقع دینا چاہئے مگر یہاں انسانی ساخت کا تمدنی اصول ایک نہایت اہم صورت واقعی سے ٹکرارہا ہے - یعنی اس حقیقت سے کہ حیاتیات کے اعتبار سے دونوں صنفوں کے درمیان مساوات نہیں ہے اور یہ ممکن نہیں ہے کہ دونوں یکساں طور پر زندگی کا بوجھ اٹھا سکیں - اس کے برعکس قرآن نے تمدنی زندگی میں عورت اور مرد کا جو مقام متعین کیا ہے وہ دونوں کی پیدائشی ساخت کے عین مطابق ہے اور قانون اور حقیقت کے درمیان کوئی تضاد پیدا نہیں ہوتا –
2 - کارل مارکس نے انقلاب کا فلسفہ یہ بتا یا ہے کہ جس طرح ایک عالم گیر قانون کشش سے ستارے حرکت کررہے ہیں اسی طرح کچھ ناگذیر تاریخی قوانین ہیں جو سماجی تبدیلیوں کا سبب بنتے ہیں یہ قوانین مسلسل طور پر اپنا کام کررہے ہیں اور اسی کے مطابق انسانی زندگی میں انقلابات آتے ہیں مگر اس فلسفہ کو مرتب کرنے کے ساتھ ہی اس نے یہ نعرہ بھی لگایا کہ :
" دنیا کے مزدورو! متحد ہوجاؤ "
ظاہر ہے کہ یہ دونوں باتیں ایک دوسرے کی ضد ہیں - اگر سماجی تبدیلیوں کا کوئی ناگزیر تاریخی قانون ہے تو سیاسی جدوجہد کی ضرورت نہیں اور اگر سیاسی جدوجہد کے ذریعہ اگر انقلاب آتا ہے تو پھر ناگزیر تاریخی قانون کے کیا معنی ؟
اس کے برعکس قرآن انسانی ارادہ کو تسلیم کرتا ہے - اس کا فلسفہ یہ ہے کہ زندگی میں جو واقعات پیش آتے ہیں وہ انسان کی اپنی کوششوں کا نتیجہ ہوتے ہیں - مادی دنیا کی طرح ان واقعات کی کوئی لازمی منطق نہیں ہے – بلکہ انسانی شکل انھیں کوئی بھی شکل دے سکتی ہے - یقینا فطرت کے کچھ قوانین ہیں اور اس سلسلہ میں وہ اہم کام کرتے ہیں مگر ان کے کام کی نوعیت یہ ہے کہ وہ انسانی کوششوں کا ساتھ دے کر اسے منزل تک پہنچادیتے ہیں نہ کہ خود انسانی کوششیں ان قوانین کا خارجی ظہور ہیں - اس طرح قرآن کے نظریہ اور اس کی دعوت میں کوئی تضاد نہیں - وہ جب اپنے نظریہ کو قائم کرنے کے لئے لوگوں کو پکارتا ہے تو وہ اپنے فلسفہ کی تصدیق کرتا ہے نہ کہ اس کی تردید - اس کے برعکس مارکسی فلسفہ اس کے عملی پروگرام سے صاف ٹکرارہا ہے ، کمیونسٹ پارٹیوں کا وجود حقیقی معنوں میں مارکسی فلسفہ کی تردید ہے - کمیونسٹ مینی فسٹو کا آخری فقرہ اس کے پہلے فقرہ کو رد کردیتا ہے –
قرآن کی تعلیمات کو اگر آپ انسانی فلسفوں کے مقابلے میں رکھ کر دیکھیں تو اس قسم کی بہت سی مثالیں پائیں گے-
3 - قرآن کی تیسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ تقریبا دیڑھ ہزار برس سے موجود ہے - اس زمانے میں کتنے انقلابات آئے ہیں ، تاریخ میں کتنی الٹ پلٹ ہوئی ہے ، زمانہ نے کتنی کروٹیں بدلی ہیں ، مگر اب تک اس کی کوئی بات غلط ثابت نہیں ہوئی ، وہ ہر زمانہ کے عقلی امکانات اور تمدنی ضروریات کا مسلسل ساتھ دیتا چلا آرہا ہے - اس کی تعلیمات کی ہمہ گیری کسی مقام پر بھی ختم نہیں ہوتی بلکہ ہر زمانے کے مسائل پر حاوی ہوتی چلی جاتی ہے - یہ اس عظیم کتاب کی ایک ایسی خصوصیت ہے جو کسی بھی انسانی کتاب کو اب تک حاصل نہیں ہوسکی ہے - انسان کا بنایا ہوا ہر فلسفہ چند ہی دنوں بعد اپنی غلطی ظاہر کردیتا ہے مگر صدیوں پر صدیاں گذرتی جارہی ہیں اور اس کتاب کی صداقت میں کوئی فرق نہیں آتا –
یہ قانون اس وقت بنایا گیا تھا جب عرب کے غیر متمدن اور منتشر قبائل میں اسلامی ریاست قائم کرنے کا مسئلہ درپیش تھا مگر اس کے بعد صدیوں تک وہ اسلامی حکومتوں کی تمام ضرورتیں پوری کرتا رہا اور موجودہ ترقی یافتہ دور میں بھی نہ صرف یہ کہ وہ زمانہ کا پورا ساتھ دینے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ صرف وہی ایک ایسا نظام ہے جو حقیقی معنوں میں زندگی کے مسائل کو حل کرسکتا ہے - دیڑھ ہزار برس پہلے جس طرح اس نے اپنی برتری ثابت کی تھی آج بھی وہ اسی طرح تمام فلسفوں پر فوقیت رکھتا ہے –
یہ قرآن کا معجزہ ہے کہ زندگی کے بارے میں اس نے جو نظریات پیش کئے تھے اور فرد اور جماعت کے عمل کے لئے جو خاکہ تجویز کیا تھا وہ آج بھی نہ تو پرانا ہوا اور نہ اس میں کسی نقص کی نشاندہی کی جاسکتی ہے اس دوران میں کتنے فلسفے پیدا ہوئے اور مرگئے اور کتنے نظام بنے اور بگڑ گئے مگر قرآن کے نظریہ کی صداقت اور اس کے عملی نظام کی افادیت آج بھی مسلم ہے –
میں یہاں دونوں پہلوؤں سے ایک ایک مثال پیش کروں گا –
قرآن نے یہ دعوی کیا تھا کہ کائنات کا محرک ایک ذہن ہے جو بالارادہ اسے حرکت دے رہا ہے - قرآن نے یہ دعوی یوروپ کی نشاۃ ثانیہ سے بہت پہلے کیا تھا - اس کے بعد بہت سے فلسفی اور سائنس داںاٹھے جنھوں نے بڑے زوروشور کے ساتھ یہ دعوی کیا کہ کائنات محض ایک مادی مشین ہے جو خودبخود حرکت کررہی ہے - یہ نظریہ دوسوبرس تک انسانی ذہنوں پر حکومت کرتا رہا - ایسا معلوم ہوا کہ علم کی ترقی نے قرآن کے دعوی کو رد کردیا ہے - مگر اس کے بعد خود کائنات کے مطالعہ سے سائنس دانوں پر یہ منکشف ہوا کہ زندگی اور کائنات کی توجیہ محض مادی قوانین کے ذریعہ نہیں کی جاسکتی - اب سائنس دن بدن قرآن کے اس نظریہ کی طرف لوٹ رہی ہے کہ اس کائنات کے پیچھے ایک ذہن ہے جو اپے ارادہ سے اس کو چلا رہا ہے - مشہور سانئس داں سر جیمز جنیز اس تبدیلی کی تشریح کرتے ہوئے لکھتا ہے :
" علم کے دریا نے پچھلے چند برسوں میں نہایت تیزی سے ایک نیا موڑ اختیار کیا ہے - تیس سال پہلے ہمارا خیال تھا یا ہم نےفرض کرلیا تھا کہ ہم ایک ایسی آخری حقیقت کی طرف بڑھ رہے ہیں جو اپنی نوعیت میں میکانیکی ہے - ایسا نظر آتا تھا کہ کائنات ایٹموں کے ایک ایسے بے ترتیب انبار پر مشتمل ہے جو اتفاقی طور پر اکٹھا ہوگئے ہیں اور جن کا کام یہ ہے کہ بے مقصد اور اندھی طاقتوں کے تحت جو کوئی شعور نہیں رکھتی ہیں ، کچھ زمانے کے لئے ایک بے معنی رقص کریں جس کے ختم ہونے پر ایک مردہ کائنات باقی رہ جائے - اس خالص میکانیکی دنیا میں مذکورہ بالا اندھی طاقتوں کے عمل کے دوران میں زندگی ایک حادثہ کے طور پر بالکل اتفاق سے آپہنچی ہے - کائنات کا ایک بہت ہی چھوٹا گوشہ یا امکان کے طور اس کے کئی گوشے کچھ عرصہ کے لئے اتفاقی طور پرذی شعور ہوگئے ہیں - مگر موجودہ معلومات کی روشنی میں طبیعیات کی حد تک سائنس کا اس بات پر تقریبا اتفاق ہے کہ علم کا دریا ہمیں ایک غیر میکانیکی حقیقت کی طرف لے جا رہا ہے – "
اسی مضمون میں آگے چل کر وہ لکھتا ہے :
" جدیدمعلومات ہم کو مجبور کرتی ہیں کہ ہم اپنے پچھلے خیالات پر نظرثانی کریں جو ہم نے جلدی میں قائم کرلئے تھے – یعنی کی ہم اتفاق سے ایک ایسی کائنات میں آپڑے ہیں جس کو خود زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے یا وہ باقائدہ طور پر زندگی سے عداوت رکھتی ہے – اب ہم نے دریافت کرلیا ہے کہ کائنات ایک ایسی خالق یا مدبر Desiging or controling power طاقت کاثبوت فراہم کررہی ہے جو ہمارے شخصی ذہن سے بہت کچھ ملتی جلتی ہے – " ( ماڈرن سائنٹفک تھاٹ ، صفحہ 104 )
 
Top