جب ہم جن تھے''

  • Work-from-home

AnadiL

••●∂ιѕαѕтєя●••
VIP
Nov 24, 2012
72,933
23,237
1,313

ہائے وہ بھی کیا دن تھے جب ہم جن تھے۔ ۔ ۔ ۔ ہم ان دنوں کی بات کر رہے ہیں جب ہم نے اپنی پہلی جناتی سٹوری بک پڑھی جو ایک انکل نے گفٹ کی تھی۔ اس کتاب نے ہمیں اتنا متاثر کیا کہ پورا گروپ ہی جن بننے کا خواب دیکھنے لگا۔ سچ بتائیں تو یہ خواب تو ننھے میاں کا ہی تھا لیکن مظلوم عوام ہونے کی وجہ سے ہمیں زبردستی دکھایا جاتا تھا۔ اس خواب میں ہم اتنا ڈوب چکے تھے کہ اکثر ایک دوسرے سے باتیں بھی جناتی ہی ہوا کرتی تھیں۔ گھر میں پرانے کپڑے ڈھونڈ ڈھانڈ کر سفید سلک کے عربی لباس کے طرح کے لمبے چوغے سلوائے گئے اور ان کے ساتھ لمبی لمبی ٹوپیاں بھی جن کے ساتھ نقاب جڑا ہوا تھا۔ اس نقاب میں صرف آنکھوں کی جگہ دو سوراخ تھے باقی چہرہ نظر نہیں آتا تھا۔ یہ لباس گھر والوں سے چوری چھپے بنوائے گئے تھے اور ان کی ڈانٹ کے پیش نظر گھر سے باہر ڈیرے پر ہی چھپائے گئے تھے۔
آتے جاتے جناتی قہقہہ لگانے کی بھی پریکٹس ہوتی رہتی۔ ایک دن ننھا اور میں کمرے میں داخل ہوئے تو بیڈ کے نیچے کوئی گھسا کچھ نکال رہا تھا۔ ننھا سمجھا کہ ملازم ہو گا۔ ننھا دبے پاؤں پیروں کے قریب گیا اور زوردار جناتی قہقہہ لگایا۔ نیچے جو کوئی بھی تھا شاید گھبراہٹ میں بھول گیا کہ بیڈ کے نیچے ہے اور جلدی سے کھڑا ہونے کی کوشش کی۔ تڑاخ کی آواز سے کھوپڑی اور بیڈ کے تصادم ہوا۔ ابھی ہم اس تڑاخ کی نوعیت پر غور کر ہی رہے تھے کہ نیچے سے ننھے کے والد صاحب سر پکڑے برآمد ہوئے۔ ان کے سر پر ایک اور ننھا منا سر نمودار ہو چکا تھا۔ آگے جو کچھ ہوا آپ خود سمجھدار ہیں۔
لیکن اس سے ہمیں اپنے قہقہوں کی اثرپذیری ضرور پتہ چل گئی۔


ہمارا فارغ اوقات میں مشغلہ یہی تھا کہ ڈیرے پر جاتے اور جنوں کے لباس میں گھس کر ایک کھیت میں بیٹھ کر جسے ہم نے کوہ قاف کا نام دے رکھا تھا گپیں لگاتے۔ ہمارا ڈیرہ ذرا آبادی سے ہٹ کر تھا اس لیے کبھی کسی نے ہمیں اس حلیے میں دیکھا نہیں تھا۔ گرمیوں میں مویشی بھی ڈیرے پر شفٹ کر دیے گئے تو ہماری تفریح میں رکاوٹ پڑ گئی کیونکہ اب ہر وقت کوئی نہ کوئی مویشیوں کی دیکھ بھال کے لیے ڈیرے پر موجود ہوتا تھا۔ ہم بھی اکثر چچا کے ساتھ رات ڈیرے پر ہی گزارا کرتے تھے۔
ایک دن چودھویں کی رات تھی اور چاند ہوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ ہم اور چچا ایک کھیت میں چارپائیاں ڈالے گپیں لگا رہے تھے کہ گاؤں سے ایک لڑکا آیا اور چچا کو کہنے لگا کہ ان کے کوئی دوست فیملی کے ساتھ آئے ہیں۔
چچا نے کچھ دیر سوچا پھر ڈیرے کی کنجیاں ہمیں سونپیں اور دھیان رکھنے کا کہہ کر چلے گئے گاؤں کی جانب۔ ہماری تو سمجھو دلی مراد بر آئی۔
فوراً اپنے چوغے نکال کر زیب تن کیے اور کوہ قاف میں بیٹھ کر گپیں لگانے لگے۔
ننھے کو نہ جانے کیا سوجھی کہ ایک ایک جلتی موم بتی بھی سب کو پکڑا دی۔ اب ہم چاروں ایک چوکور شکل میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ چاندنی میں کچھ لوگ آتے دکھائی دیے۔ ہم ویسے ہی بیٹھے رہے۔ کچھ نزدیک آئے تو ان کی نظر ہم پر پڑی وہ ادھر ہی رک گئے۔ ماٹو نے آہستہ سے پوچھا "اب کیا کیا جائے۔ ننھا بولا "شاید یہ ہمیں سچ مچ کا بھوت سمجھ رہے ہیں اسی طرح بیٹھے رہو۔ آگے دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔"
کچھ دیر کے بعد ایک بندہ کچھ قریب آیا۔ ابھی وہ کچھ دور تھا کہ سکنٹو بولا "اوئے یہ تو پیر جی ہیں۔" ہمارے علاقے کے پیر صاحب جن پکڑنے اور نکالنے کے لیے مشہور تھے۔ ننھا بولا "شاید ہمیں بھی قابو کرنے کی کوشش کرنے لگے ہیں۔" میرے دل میں شرارت آئی۔ میں نے کہا "یونہی چپ چاپ بیٹھے رہو دیکھتے ہیں کیسے پکڑتے ہیں۔" ہم سے قریباً پندرہ فٹ کے فاصلے پر آ کر وہ رک گیے۔ ہم یونہی ساکت بیٹھے دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے اپنی چھڑی اٹھائی اور ہمارے گرد ایک دائرہ کھینچنا شروع کر دیا۔ جب دائرہ مکمل ہوا تو ڈرتے ڈرتے اس میں پاؤں رکھا اور با آواز بلند کچھ پڑھنے لگے۔ شاید کوئی منتر تھا یا آیات تھیں پتہ نہ چل سکا۔ جب پڑھتے ہوئے کوئی پندرہ منٹ گزر گئے تو ان کی آواز ذرا دھیمی پڑنے لگی اور اس میں ڈر جھلکنے لگا۔ پانچ منٹ مزید پڑھ کر وہ خاموش ہو گئے اور حیرت سے ہماری جانب دیکھنے لگے۔


اچانک ننھا اٹھا اور ان کی جانب بڑھ گیا۔ وہ یونہی ساکت کھڑے دیکھ رہے تھے لیکن صاف پتہ چل رہا تھا کہ ڈر سے کانپ رہے ہیں۔ ننھے نے قریب جا کر جیب میں سے کچھ نکالا اور بولا۔
"پریشان کیوں ہوتے ہو یہ لو ٹافی کھاؤ۔"
پیر جی کو شاید زندگی میں پہلی دفعہ کسی جن نے ٹافی کی آفر کی تھی۔ وہ ٹافی کیا کھاتے تڑ سے گرے اور بے ہوش۔
جو لوگ دور کھڑے دیکھ رہے تھے وہ واپس بھاگے اور چلانے لگے۔ "کھا لیا۔ ۔ ۔ ۔ کھا لیا۔ ۔ ۔ ۔ پیر جی کو کھا لیا۔ ۔ ۔ ۔"


ہم نے چند لمحے تو منظر دیکھا پھرجلدی سے کپڑے اتار کر چھپائے اور دوبارہ بندوں کی جون میں واپس آ گئے۔
جب کچھ دیر بعد گھر والے وہاں آئے تو ہم وہاں پیر جی کے گرد آلتی پالتی مارے بیٹھے تھے۔ پیر جی کو واپس لے جایا گیا اور ہمارا صدقہ اتارا گیا کہ اتنے خبیث جنوں کے ہتھے چڑھتے چڑھتے بچ گئے۔


اس کے بعد ہمارے ڈیرے کو باقاعدہ بھوت زدہ قرار دے دیا۔ مویشی وغیرہ سب ہٹا لیے گئے۔ پیر جی نے ہوش میں آنے کے بعد اعلان کیا۔ " جن تو میری جان کے ہی پیچھے مڑ گئے تھے مجھے اپنے ساتھ لے جانا چاہتے تھے لیکن بھلا ہو ابا جی کے دیے ہوئے تعویز کا جو بچ گیا۔ جن نے تو میرے کان میں آ کر کہا تھا کہ اگر یہ تعویز نہ ہوتا تو ہم یہیں تمہارا خون پی جاتے۔ فی الحال میں نے حصار کھینچ دیا ہے یہ جن وہاں سے باہر نہ آ سکیں گے۔ "
یہ بیان سن کر جو ہماری حالت ہوئی۔ ۔ ۔ ۔ کہ جن جنوں کی یہ بات کر رہے ہیں وہ تو یہیں ان کے ساتھ بیٹھے چائے پی رہے ہیں۔


پیر جی نے اعلان کیا کہ وہ تین راتوں میں ہی ان جنوں کو قابو میں کر لیں گے اور نہ صرف قابو میں کریں گے بلکہ سب کو دکھائیں گے بھی۔ اصل میں پچھلے کچھ عرصہ سے پیر جی کی شہرت کی کشتی ڈانواں ڈول تھی اور ان کو شاید یہ موقع اپنی شہرت کے غبارے میں ہوا بھرنے کے لیے کافی موزوں لگا۔ ہم ایک دن نظر بچا کر اپنا سازو سامان نکال لائے اور ایک کھیت میں چھپا دیا۔


پہلی رات پیر جی کھیت میں جا کر بیٹھ گئے اور کچھ اگر بتیاں سلگا کر قریب رکھیں اور کوئی جاپ کرنے لگے۔ لوگ بھی کچھ دور کھڑے دیکھ رہے تھے۔ لیکن پہلی پوری رات کچھ سامنے نہ آیا۔ دوسری رات بھی جب ایسی ہی گزری تو لوگوں میں پیر صاحب کے بارے میں باتیں شروع ہو گئیں۔ تیسرے دن گروپ میٹنگ ہوئی۔ ننھے نے تجویز دی "رات کو پھر جن بن کے چلتے ہیں وہاں۔ دور سے اپنا آپ دکھا دیں گے اور بھاگ لیں گے۔"
سب نے اس تجویز کی مخالفت کی لیکن وہ ننھا ہی کیا جو مان جائے اور اگر وہ خود راضی ہو تو باقی سب کیسے انکار کر سکتے تھے۔ لہٰذا تیسری رات جب پیر جی مشن پر روانہ ہوئے تو آدھی رات کے قریب ہم نے بھی گھر والوں کی نظر بچا کر دیوار پھاندی اور ڈیرے کی راہ لی۔ راستے میں کھیتوں میں سے ہوتے چلے تاکہ لوگ نہ دیکھ سکیں اور چوغے بھی زیب تن کر لیے۔ ڈیرےپر پہنچے تو دور سے دیکھا کہ پیر صاحب کوہ قاف میں آلتی پالتی مارے کچھ پڑھ رہے ہیں اور کوئی پندرہ بیس لوگ کچھ دور راستے پر کھڑے دیکھ رہے ہیں۔
منظر کچھ ایسا تھا کہ ہم ایک طرف تھے۔ اور پیر صاحب ہمارے اور لوگوں کے درمیان تھے۔ ہم درختوں کی اوٹ میں تھے اس لیے چاندنی کے باوجود نظر نہ آ رہے تھے۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ کچھ دیر تماشا دیکھتے ہیں پھر سامنے جائیں گے۔


ابھی کچھ دیر ہی ہوئی تھی کہ اچانک پیر جی اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔ اور باآواز بلند بولے۔ "میں جانتا ہوں تم آ گئے ہو۔ میں تمہں حکم دیتا ہوں کہ سامنے آ جاؤ ورنہ یہیں جلا دوں گا۔"
ہمارے منہ حیرت سے کھل گئے کہ پیر جی کو کیسے ہماری آمد کا پتہ چلا۔
ابھی ہم حیران ہو ہی رہے تھے کہ اچانک ٹلو نے ڈری ڈری سی آواز نکالتے ہوئے ایک جانب اشارہ کیا۔ ہم نے جب ادھر نگاہ دوڑائی تو پتلون گیلی ہوتی محسوس ہوئی۔ ایک بھوسے کے ڈھیر کے پیچھے سے سفید سا کوئی ہیولا برآمد ہو رہا تھا جو دیکھنے میں جن ہی لگ رہا تھا۔
ننھے کے منہ سے یہی نکلا۔ ۔ ۔ "مارے گئے یہاں تو سچ مچ جن تھا۔"
ہم سب نے آنکھیں بند کر لیں اور کلمہ کا ورد شروع کر دیا۔ اچانک کسی کے قریب آنے کی آواز آئی۔ آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ جن بھاگتا ہمارے پاس آ چکا تھا۔ ہماری خوف سے گھگھی بندھ گئی۔ جب وہ چند قدم کے فاصلے پر تھا تو اس کی نظر ہم پر پڑی۔


جن نے ہمیں دیکھ کر چیخ ماری۔ ہم نے ڈر کے مارے جن سے بھی بلند چیخ ماری۔ اب جن ہمارے اور لوگوں کے درمیان تھا ہم نے اس کے پہلو سے کنی کترا کر بھاگنے کا فیصلہ کیا اور دوڑے۔ ہمیں اپنی جانب دوڑتا دیکھ کر جن نہ جانے کیا سمجھا اور الٹے پاؤں واپس دوڑ لگا دی۔ پیر صاحب نے عالم وجد سے جاگ کر دیکھا تو جن نظر آیا اس کے پیچھے ہم پر نگاہ پڑی۔ ۔ ۔


ان کی زبان سے یہی نکلا۔ ۔ ۔ "اوئے بھاگو اوئے یہ چاروں تو سچ مچ آ گئے۔" اور پیر صاحب نے بھی دوڑ لگا دی۔ لوگوں نے پیر صاحب کو بھاگتے دیکھا تو وہ بھی سر پر پاؤں رکھ کر دوڑے۔ اب سچوایشن کچھ ایسی تھی کہ آگے آگے گاؤں والے پیچھے پیر صاحب پیچھے جن اور ان سب کے پیچھے ہم۔
گھر میں گھسنے سے قبل ہی ہم اپنے جناتی لباس سے چھٹکارا حاصل کر چکے تھے۔ گھر میں گھس کر ابھی چھپنے کا سوچ ہی رہے تھے کہ اماں حضور نے پکڑ لیا اور بولیں۔ "ضرور جن دیکھنے گئے ہوگے۔ ابھی دکھاتی ہوں تم سب کو یہیں جن۔ اور ساتھ ہی جوتا اتار کر تواضح شروع کر دی۔" ہم تو اپنی جان بچ جانے پر شکر کر رہے تھے اس لیے تواضح زیادہ محسوس نہیں ہوئی۔


دوسرے دن پتہ چلا کہ دوسرا جن بھی پکڑ لیا گیا اور وہ بھی کوئی بندہ تھا جسے پیر صاحب نے پیسے دیے تھے جن بننے کے۔ تھوڑی دہیر بعد گاؤں کی چوپال میں سب بیٹھے تبصرہ کر رہے تھے کہ جو کچھ بھی ہوا ان چار جنوں کی وجہ سے پیر صاحب کی اصلیت تو سامنے آ گئی۔
ایک بزرگ نے تبصرہ کیا "مجھے لگتا ہے کہ ان کو پتہ چل گیا ہو گا کہ یہاں جنوں کے نام پہ فراڈ ہو رہا ہے اسی لیے یہاں پہنچ گئے۔"
اور ہم دوسروں کے ساتھ ہنستے ہوئے دل ہی دل میں سوچ رہے تھے کہ ہم اس کو اصلی جن سمجھتے رہے اور وہ ہمیں۔


اگر کوئی جن پڑھے تو بھائی ہمارا کسی بھی فراڈ کا کوئی ارادہ نہ تھا۔

__________________
 
  • Like
Reactions: khusboo and Mahen

Xyz.

Banned
Nov 30, 2013
270
61
1,128
saudi arabia
mjhe parnein say na alerji hy is liye ap baat karo us ka jwab doun ga ap koi apni beti kahani suneye jin wali tab koi sunein yeh kitabi batein kiya koi parhy pehly schols main itna parhy hein abh dill nahi krta
 

AnadiL

••●∂ιѕαѕтєя●••
VIP
Nov 24, 2012
72,933
23,237
1,313
mjhe parnein say na alerji hy is liye ap baat karo us ka jwab doun ga ap koi apni beti kahani suneye jin wali tab koi sunein yeh kitabi batein kiya koi parhy pehly schols main itna parhy hein abh dill nahi krta
hmmm ok...
 
Top