تفسیر ابنِ کثیر

  • Work-from-home

Zia_Hayderi

TM Star
Mar 30, 2007
2,468
1,028
1,213

تفسیر ابنِ کثیر
(تفسیر محمدی)
حصہ اول
سورۂ فاتحہ و سورۂ بقرہ
عماد الدین ابن کثیر
1

سورۂ فاتحہ
۱

بسم اللہ سورہ نمل کی ایک آیت یا؟
صحابہ نے اللہ کی کتاب کو اسی سے شروع کیا۔ علماء کا اتفاق ہے کہ آیت (بسم اللہ الرحمن الرحیم) سورہ نمل کی ایک آیت ہے۔ البتہ اس میں اختلاف ہے کہ وہ ہر سورت کے شروع میں خود مستقل آیت ہے ؟ یا ہر سورت کی ایک مستقل آیت ہے جو اس کے شروع میں لکھی گئی ہے ؟ اور ہر سورت کی آیت کا جزو ہے ؟ یا صرف سورہ فاتحہ ہی کی آیت ہے اور دوسری سورتوں کی نہیں؟ صرف ایک سورت کو دوسری سورت سے علیحدہ کرنے کے لئے لکھی گئی ہے ؟ اور خود آیت نہیں ہے ؟ علماء سلف اور متاخرین کا ان آرا میں اختلاف چلا آتا ہے ان کی تفصیل اپنی جگہ پر موجود ہے۔ سنن ابو داؤد میں صحیح سند کے ساتھ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سورتوں کی جدائی نہیں جانتے تھے جب تک آپ پر (بسم اللہ الرحمن الرحیم) نازل نہیں ہوتی تھی۔ یہ حدیث مستدرک حاکم میں بھی ہے ایک مرسل حدیث میں یہ روایت حضرت سعید بن جبیر سے بھی مروی ہے۔ چنانچہ صحیح ابن خزیمہ میں حضرت ام سلمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بسم اللہ کو سورہ فاتحہ کے شروع میں نماز میں پڑھا اور اسے ایک آیت شمار کیا لیکن اس کے ایک راوی عمر بن ہارون بلخی ضعیف ہیں اسی مفہوم کی ایک روایت حضرت ابو ہریرہ سے بھی مروی ہے۔ حضرت علی، حضرت ابن عباس، حضرت عبد اللہ بن عمر، حضرت عبد اللہ بن زبیر، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم، حضرت عطا، حضرت طاؤس، حضرت سعید بن جبیر، حضرت مکحول اور حضرت زہری رحمہم اللہ کا یہی مذہب ہے کہ بسم اللہ ہر سورت کے آغاز میں ایک مستقل آیت ہے سوائے سورہ برات کے۔ ان صحابہ اور تابعین کے علاوہ حضرت عبد اللہ بن مبارک، امام شافعی، امام احمد اور اسحٰق بن راہویہ اور ابو عبیدہ قاسم بن سلام رحمہم اللہ کا بھی یہی مذہب ہے۔ البتہ امام مالک امام ابو حنیفہ اور ان کے ساتھی کہتے ہیں۔ کہ بسم اللہ نہ تو سورہ فاتحہ کی آیت ہے نہ کسی اور سورت کی۔ امام شافعی کا ایک قول یہ بھی ہے کہ بسم اللہ سورہ فاتحہ کی تو ایک آیت ہے لیکن کسی اور سورۃ کی نہیں۔ ان کا ایک قول یہ بھی ہے کہ ہر سورت کے اول کی آیت کا حصہ ہے لیکن یہ دونوں قول غریب ہیں۔ داؤد کہتے ہیں کہ ہر سورت کے اول میں بسم اللہ ایک مستقل آیت ہے سورت میں داخل نہیں۔ امام احمد بن حنبل سے بھی یہی روایت ہے ابو بکر رازی نے ابو حسن کرخی کا بھی یہی مذہب بیان کیا ہے جو امام ابو حنیفہ کے بڑے پایہ کے ساتھی تھے۔ یہ تو تھی بحث بسم اللہ کے سورہ فاتحہ کی آیت ہونے یا نہ ہونے کی۔ (صحیح مذہب یہی معلوم ہوتا ہے کہ جہاں کہیں قرآن پاک میں یہ آیت شریفہ ہے وہاں مستقل آیت ہے واللہ اعلم۔ مترجم)

بسم اللہ با آواز بلند یا دبی آواز سے ؟
اب اس میں بھی اختلاف ہے کہ آیا اسے با آواز بلند پڑھنا چاہیے یا پست آواز سے ؟ جو لوگ اسے سورہ فاتحہ کی آیت نہیں کہتے وہ تو اسے بلند آواز سے پڑھنے کے بھی قائل نہیں۔ اسی طرح جو لوگ اسے سورہ فاتحہ سے الگ ایک آیت مانتے ہیں وہ بھی اس کے پست آواز سے پڑھنے کے قائل ہیں۔ رہے وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ یہ ہر سورت کے اول سے ہے۔ ان میں اختلاف ہے۔ شافعی رحمت اللہ کا مذہب ہے کہ سورہ فاتحہ اور ہر سورت سے پہلے اسے اونچی آواز سے پڑھنا چاہیے۔ صحابہ، تابعین اور مسلمانوں کے مقدم و موخر امامین کی جماعتوں کا یہی مذہب ہے صحابہ میں سے اسے اونچی آواز سے پڑھنے والے حضرت ابو ہریرہ، حضرت ابن عمر، ابن عباس، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم ہیں۔ بیہقی، ابن عبدالبر نے حضرت عمر اور حضرت علیسے بھی روایت کیا اور امام خطیب بغدادی نے چاروں خلیفوں سے بھی روایت کیا لیکن سند غریب بیان کیا ہے۔ تابعین میں سے حضرت سعید بن جبیر، حضرت عکرمہ حضرت ابو قلابہ، حضرت زہری، حضرت علی بن حسن ان کے لڑکے محمد، سعید بن مسیب، عطا، طاؤس، مجاہد، سالم، محمد بن کعب قرظی، عبید، ابو بکر بن محمد بن عمرو بن حزم، ابو وائل ابن سیرین کے مولیٰ زید بن اسلم، عمر بن عبدالعزیز، ارزق بن قیس، حبیب بن ابی ثابت، ابو شعثا، مکحول، عبد اللہ بن معقل بن مقرن اور بروایت بیہقی، عبد اللہ بن صفوان، محمد بن حنفیہ اور بروایت ابن عبدالبر عمرو بن دینار رحمہم اللہ سب کے سب ان نمازوں میں جن میں قرات اونچی آواز سے پڑھی جاتی ہے۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی بلند آواز سے پڑھتے تھے۔ ایک دلیل تو اس کی یہ ہے کہ جب یہ آیت سورہ فاتحہ میں سے ہے تو پھر پوری سورت کی طرح یہ بھی اونچی آواز سے ہی پڑھنی چاہیے۔ علاوہ ازیں سنن نسائی، صحیح ابن خزیمہ، صحیح ابن حبان، مستدرک حاکم میں مروی ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نماز پڑھائی اور قرات میں اونچی آواز سے بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی پڑھی اور فارغ ہونے کے بعد فرمایا میں تم سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ نماز میں مشابہ ہوں۔ اس حدیث کو دار قطنی خطیب اور بیہقی وغیرہ نے صحیح کہا ہے۔ ابو داؤد اور ترمذی میں ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز کو بسم اللہ الرحمن الرحیم سے شروع کیا کرتے تھے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث ایسی زیادہ صحیح نہیں۔ مستدرک حاکم میں انہی سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم بسم اللہ الرحمن الرحیم کو اونچی آواز سے پڑھتے تھے۔ امام حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا انداز قرات
صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قرات کس طرح تھی۔ فرمایا کہ ہر کھڑے لفظ کو آپ لمبا کر کے پڑھتے تھے پھر بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر سنائی بسم اللہ پر مد کیا الرحمن پر مد کیا الرحیم پر مد کیا۔ مسند احمد، سنن ابو داؤد، صحیح ابن خزیمہ اور مستدرک حاکم میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہر ہر آیت پر رکتے تھے اور آپ کی قرات الگ الگ ہوتی تھی جیسے بسم اللہ الرحمن الرحیم پھر ٹھہر کر الحمد للہ رب العلمین پھر ٹھہر کر الرحمن الرحیم پھر ٹھہر کر ملک یوم الدین دار قطنی اسے صحیح بتاتے ہیں۔ امام شافعی، امام حاکم نے حضرت انس سے روایت کی ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مدینہ میں نماز پڑھائی اور بسم اللہ نہ پڑھی تو جو مہاجر اصحاب وہاں موجود تھے انہوں نے ٹوکا۔ چنانچہ پھر جب نماز پڑھانے کو کھڑے ہوئے تو بسم اللہ پڑھی۔ غالباً اتنی ہی احادیث و آثار اس مذہب کی حجت کے لئے کافی ہیں۔ باقی رہے اس کے خلاف آثار، روایات، ان کی سندیں، ان کی تعلیل، ان کا ضعف اور ان کی تقاریر وغیرہ ان کا دوسرے مقام پر ذکر اور ہے۔ دوسرا مذہب یہ ہے کہ نماز میں بسم اللہ کو زور سے نہ پڑھنا چاہیے۔ خلفاء اربعہ اور عبد اللہ بن معقل، تابعین اور بعد والوں کی جماعتوں سے یہی ثابت ہے۔ ابو حنیفہ، ثوری، احمد بن حنبل کا بھی یہی مذہب ہے۔ امام مالک کا مذہب ہے کہ سرے سے بسم اللہ پڑھے ہی نہیں نہ تو آہستہ نہ بلند کیا۔ ان کی دلیل ایک تو صحیح مسلم والی حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز کو تکبیر سے اور قرات کو الحمد للہ رب العلمین سے ہی شروع کیا کرتے تھے۔ صحیحین میں ہے حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں میں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت ابو بکر اور حضرت عمر اور حضرت عثمان کے پیچھے نماز پڑھی یہ سب الحمد للہ رب العلمین سے شروع کرتے تھے۔ مسلم میں ہے کہ بسم اللہ نہیں پڑھتے تھے نہ تو قرات کے شروع میں نہ اس قرات کے آخر میں۔ سنن میں حضرت معقل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی یہی مروی ہے۔ یہ ہے دلیل ان ائمہ کے بسم اللہ آہستہ پڑھنے کی۔ یہ خیال رہے کہ یہ کوئی بڑا اختلاف نہیں ہر ایک فریق دوسرے کی نماز کی صحت کا قائل ہے۔ فالحمد للہ (بسم اللہ کا مطلق نہ پڑھنا تو ٹھیک نہیں۔ بلند و پست پڑھنے کی احادیث میں اس طرح تطبیق ہو سکتی ہے کہ دونوں جائز ہیں۔ گو پست پڑھنے کی احادیث قدرے زوردار ہیں واللہ اعلم۔ مترجم)

 

Zia_Hayderi

TM Star
Mar 30, 2007
2,468
1,028
1,213
2-

فصل بسم اللہ کی فضیلت کا بیان

تفسیر ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بسم اللہ الرحمن الرحیم کی نسبت سوال کیا آپ نے فرمایا یہ اللہ تعالیٰ کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بڑے ناموں اور اس میں اس قدر نزدیکی ہے جیسے آنکھ کی سیاہی اور سفیدی میں۔ ابن مردویہ میں بھی یہی کی روایت ہے۔ ابن مردویہ یہ بھی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب عیسیٰ علیہ السلام کو ان کی والدہ نے معلم کے پاس بٹھایا تو اس نے کہا لکھئے بسم اللہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کہا بسم اللہ کیا ہے ؟ استاد نے جواب دیا میں نہیں جانتا۔ آپ نے فرمایا “ب” سے مراد اللہ تعالیٰ کا “بہا” یعنی بلندی ہے اور “س” سے مراد اس کی سنا یعنی نور اور روشنی ہے اور “م” سے مراد اس کی مملکت یعنی بادشاہی ہے اور “اللہ” کہتے ہیں معبودوں کے معبود اور اور “رحمن” کہتے ہیں دنیا اور آخرت میں رحم کرنے والے کو “رحیم” کہتے ہیں۔ آخرت میں کرم و رحم کرنے والے کو۔ ابن جریر میں بھی یہی روایت ہے لیکن سند کی روسے یہ بے حد غریب ہے ، ممکن ہے کسی صحابی وغیرہ سے مروی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ بنی اسرائیل کی روایتوں میں سے ہو۔ مرفوع حدیث نہ ہو واللہ اعلم۔ ابن مردویہ میں منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مجھ پر ایک ایسی آیت اتری ہے جو کسی اور نبی پر سوائے حضرت سلیمان علیہ السلام کے نہیں اتری۔ وہ آیت بسم اللہ الرحمن الرحیم ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جب یہ آیت “بسم اللہ الرحمن الرحیم” اتری بادل مشرق کی طرف چھٹ گئے۔ ہوائیں ساکن ہو گئیں۔ سمندر ٹھہر گیا جانوروں نے کان لگا لئے۔ شیاطین پر آسمان سے شعلے گرے اور پروردگار عالم نے اپنی عزت و جلال کی قسم کھا کر فرمایا کہ جس چیز پر میرا یہ نام لیا جائے گا اس میں ضرور برکت ہو گی۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جہنم کے انیس داروغوں سے جو بچنا چاہے وہ بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھے۔ اس کے بھی انیس حروف ہیں۔ ہر حرف ہر فرشتے سے بچاؤ بن جائے گا۔ اسے ابن عطیہ نے بیان کیا ہے اس کی تائید ایک اور حدیث بھی ہے جس میں آپ نے فرمایا میں نے تیس سے اوپر فرشتوں کو دیکھا کہ وہ جلدی کر رہے تھے یہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اس وقت فرمایا تھا جب ایک شخص نے ربنا ولک الحمد حمدا کثیرا طیبا مبارکا فیہ پڑھا تھا اس میں بھی تیس سے اوپر حروف ہیں اتنے ہی فرشتے اترے اسی طرح بسم اللہ میں بھی انیس حروف ہیں اور وہاں فرشتوں کی تعداد بھی انیس ہے وغیرہ وغیرہ۔ مسند احمد میں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی سواری پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا یہ نہ کہو اس سے شیطان پھولتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ گویا اس نے اپنی قوت سے گرایا۔ ہاں بسم اللہ کہنے سے وہ مکھی کی طرح ذلیل و پست ہو جاتا ہے۔ نسائی نے اپنی کتاب عمل الیوم واللیلہ میں اور ابن مردویہ نے اپنی تفسیر میں بھی اسے نقل کیا ہے اور صحابی کا نام اسامہ بن عمیر بتایا ہے اس میں یہ لکھا ہے کہ بسم اللہ کہہ کر بسم اللہ کی برکت سے شیطان ذلیل ہو گا۔ اسی لئے ہر کام اور ہر بات کے شروع میں بسم اللہ کہہ لینا مستحب ہے۔ خطبہ کے شروع میں بھی بسم اللہ کہنی چاہئے۔ حدیث میں ہے کہ جس کام کو بسم اللہ الرحمن الرحیم سے شروع نہ کیا جائے وہ بے برکتا ہوتا ہے۔ پاخانہ میں جانے کے وقت بسم اللہ پڑھ لے۔ حدیث میں یہ بھی ہے کہ وضو کے وقت بھی پڑھ لے۔ مسند احمد اور سنن میں ابو ہریرہ، سعید بن زید اور ابو سعید رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا “جو شخص وضو میں اللہ کا نام نہ لے اس کا وضو نہیں ہوتا۔ ” یہ حدیث حسن ہے بعض علماء تو وضو کے وقت آغاز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنا واجب بتاتے ہیں۔ بعض مطلق وجوب کے قائل ہیں۔ جانور کو ذبح کرتے وقت بھی اس کا پڑھنا مستحب ہے۔ امام شافعی اور ایک جماعت کا یہی خیال ہے۔ بعض نے یاد آنے کے وقت اور بعض نے مطلقاً اسے واجب کہا ہے اس کا تفصیلی بیان عنقریب آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ۔ امام رازی نے اپنی تفسیر میں اس آیت کی فضیلت میں بہت سی احادیث نقل کی ہیں۔ ایک میں ہے کہ “جب تو اپنی بیوی کے پاس جائے اور بسم اللہ پڑھ لے اور اللہ کوئی اولاد بخشے تو اس کے اپنے اور اس کی اولاد کے سانسوں کی گنتی کے برابر تیرے نامہ اعمال میں نیکیاں لکھی جائیں گی” لیکن یہ روایت بالکل بے اصل ہے ، میں نے تو یہ کہیں کسی معتبر کتاب میں نہیں پائی۔ کھاتے وقت بھی بسم اللہ پڑھنی مستحب ہے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ “رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عمر بن ابو سلمہ سے فرمایا (جو آپ کی پرورش میں حضرت ام المومنین ام سلمہ کے اگلے خاوند سے تھے ) کہ بسم اللہ کہو اور اپنے داہنے ہاتھ سے کھایا کرو اور اپنے سامنے سے نو آلہ اٹھایا کرو۔ ” بعض علماء اس وقت بھی بسم اللہ کا کہنا واجب بتلاتے ہیں۔ بیوی سے ملنے کے وقت بھی بسم اللہ پڑھنی چاہئے۔ صحیحین میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ “رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی سے ملنے کا ارادہ کرے تو یہ پڑھے بسم اللہ اللھم جنبنا الشیطان و جنب الشیطان ما رزقتنا یعنی اے اللہ ہمیں اور جو ہمیں تو دے اسے شیطان سے بچا” فرماتے ہیں کہ اگر اس جماع سے حمل ٹھہر جائے تو اس بچہ کو شیطان کبھی نقصان نہ پہنچا سکے گا یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بسم اللہ کی “ب” کا تعلق کس سے ہے نحویوں کے اس میں دو قول ہیں اور دونوں ہی تقریباً ہم خیال ہیں۔ بعض اسم کہتے ہیں اور بعض فعل، ہر ایک کی دلیل قرآن سے ملتی ہے جو لوگ اسم کے ساتھ متعلق بتاتے ہیں وہ تو کہتے ہیں کہ بسم اللہ ابتدائی یعنی اللہ کے نام سے میری ابتداء ہے۔ قرآن میں ہے ارکبوا فیھا بسم اللہ مرجریھا ومرسھا الخ اس میں اسم یعنی مصدر ظاہر کر دیا گیا ہے اور جو لوگ فعل مقدر بتاتے ہیں چاہے وہ امر ہو یا خبر۔ جیسے کہ ابدا بسم اللہ اور ابتدات بسم اللہ ان کی دلیل آیت اقرا باسم دراصل دونوں ہی صحیح ہیں، اس لئے کہ فعل کے لئے بھی مصدر کا ہونا ضروری ہے تو اختیار ہے کہ فعل کو مقدر مانا جائے اور اس کے مصدر کو مطابق اس فعل کے جس کا نام پہلے لیا گیا ہے۔ کھڑا ہونا، بیٹھنا ہو، کھانا ہو، پینا ہو، قرآن کا پڑھنا ہو، وضو اور نماز وغیرہ ہو ان سب کے شروع میں برکت حاصل کرنے کے لئے امداد چاہنے کے لئے اور قبولیت کے لئے اللہ تعالیٰ کا نام لینا مشروع ہے واللہ اعلم۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم میں روایت ہے “حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب سب سے پہلے جبرئیل علیہ السلام محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی لے کر آئے تو فرمایا اے محمد کہئے استعیذ باللہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم پھر کہا کہئے بسم اللہ الرحمن الرحیم مقصود یہ تھا کہ اٹھنا، بیٹھنا، پڑھنا سب اللہ کے نام سے شروع ہو۔ “

بے معنی بحث

اسم یعنی نام ہی مسمیٰ یعنی نام والا ہے یا کچھ اور اس میں اہل علم کے تین قول ہیں ایک تو یہ کہ اسم ہی مسمی ہے۔ ابو عبیدہ کا اور سیبویہ کا بھی یہی قول ہے۔ باقلانی اور ابن نور کی رائے بھی یہی ہے۔ ابن خطیب رازی اپنی تفسیر کے مقدمات میں لکھتے ہیں۔ حشویہ اور کرامیہ اور اشعریہ تو کہتے ہیں اسم نفس مسمیٰ ہے اور نفس تسمیہ کا غیر ہے اور معزلہ کہتے ہیں کہ اسم مسمی کا غیر ہے اور نفس تسمیہ ہے۔ ہمارے نزدیک اسم مسمی کا بھی غیر ہے اور تسمیہ کا بھی۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر اسم سے مراد لفظ ہے جو آوازوں کے ٹکڑوں اور حروف کا مجموعہ ہے تو بالبداہت ثابت ہے کہ یہ مسمی کا غیر ہے اور اگر اسم سے مراد ذات مسمی ہے تو یہ وضاحت کو ظاہر کرتا ہے جو محض بیکار ہے۔ ثابت ہوا کہ اس بیکار بحث میں پڑنا ہی فضول ہے۔ اس کے بعد جو لوگ اسم اور مسمی کے فرق پر اپنے دلائل لائے ہیں ان کا کہنا ہے محض اسم ہوتا ہے مسمی ہوتا ہی نہیں جیسے معدوم کا لفظ۔ کبھی ایک مسمی کے کئی اسم ہوتے ہیں جیسے مشترک۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسم اور چیز ہے اور مسمیٰ اور چیز ہے یعنی نام الگ ہے۔ اور نام والا الگ ہے۔ اور دلیل سنئے کہتے ہیں اسم تو لفظ ہے دوسرا عرض ہے۔ مسمیٰ کبھی ممکن یا واجب ذات ہوتی ہے۔ اور سنئے اگر اسم ہی کو مسمیٰ مانا جائے تو چاہئے کہ آگ کا نام لیتے ہی حرارت محسوس ہو اور برف کا نام لیتے ہی ٹھنڈک۔ جبکہ کوئی عقلمند اس کی تصدیق نہیں کرتا۔ اور دلیل سنئے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اللہ کے بہت سے بہترین نام ہیں، تم ان ناموں سے اسے پکارو۔ حدیث شریف ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں تو خیال کیجئے کہ نام کس قدر بکثرت ہیں حالانکہ مسمی ایک ہی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک لہ ہے اسی طرح اسماء کو اللہ کی طرف اس آیت میں مضاف کرنا، اور جگہ فرمانا فسبح باسم ربک العظیم وغیرہ یہ اضافت بھی اسی کا تقاضا کرتی ہے کہ اسم اور ہو اور مسمی اور کیونکہ اضافت کا مقتضا مغائرت ہے۔ اسی طرح یہ وللہ الاسماء الحسنی فادعوہ بھا وظللہ الاسماء الحسنی یعنی اللہ تعالیٰ کو اس کے ناموں کے ساتھ پکارو۔ یہ بھی اس امر کی دلیل ہے کہ نام اور ہے نام والا اور۔ اب ان کے دلائل بھی سنئے جو اسم اور مسمی کو ایک ہی بتاتے ہے۔ تو نام برکتوں والا فرمایا حالانکہ خود اللہ تعالیٰ برکتوں والا ہے۔ اس کا آسان جواب یہ ہے کہ اس مقدس ذات کی وجہ سے اس کا نام بھی عظمتوں والا ہے۔ ان کی دوسری دلیل یہ ہے کہ جب کوئی شخص کہے کہ زینت پر طلاق ہے تو طلاق اس کی بیوی جس کا نام زینت ہے ہو جاتی ہے۔ اگر نام اور نام والے میں فرق ہوتا تو نام پر طلاق پڑتی، نام والے پر کیسے پڑتی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے مراد یہی ہوتی ہے کہ اس ذات پر طلاق ہے جس کا نام زینت ہے۔ تسمیہ کا اسم سے الگ ہونا اس دلیل کی بنا پر ہے کہ تسمیہ کہتے ہیں کسی کا نام مقرر کرنے کو اور ظاہر ہے یہ اور چیز ہے اور نام والا اور چیز ہے۔ رازی کا قول یہی ہے کہ یہ سب کچھ تو لفظ “باسم” کے متعلق تھا اب لفظ “اللہ” کے متعلق سنئے۔ اللہ خاص نام ہے رب تبارک و تعالیٰ کا۔ کہا جاتا ہے کہ اسم اعظم یہی ہے اس لئے کہ تمام عمدہ صفتوں کے ساتھ ہی موصوف ہوتا ہے۔ جیسے کہ قرآن پاک میں ہے ھو اللہ الذی یعنی وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو ظاہرو باطن کا جاننے والا ہے ، جو رحم کرنے والا مہربان ہے۔ وہی اللہ جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، جو بادشاہ ہے پاک ہے ، سلامتی والا ہے ، امن دینے والا ہے ، محافظ ہے ، غلبہ والا ہے ، زبردست ہے ، برائی والا ہے ، وہ ہر شرک سے اور شرک کی چیز سے پاک ہے۔ وہی اللہ پیدا کرنے والا ، مادہ کو بنانے والا، صورت بخشنے والا ہے۔ اس کے لئے بہترین پاکیزہ نام ہیں، آسمان و زمین کی تمام چیزیں اس کی تسبیح بیان کرتی ہیں۔ وہ عزتوں اور حکمتوں والا ہے۔ ان آیتوں میں تمام نام صفاتی ہیں، اور لفظ اللہ ہی کی صفت ہیں یعنی اصلی نام اللہ ہے۔ دوسری جگہ فرمایا کہ اللہ ہی کے لئے ہیں پاکیزہ اور عمدہ عمدہ نام۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام (صفاتی) نام خود تجویز فرمائے ہیں[1] پس تم اس کو ان ہی ناموں سے پکارو۔ اور فرماتا ہے اللہ کو پکارو۔ یا رحمن کو پکارو جس نام سے پکارو۔ اسی کے پیارے پیارے اور اچھے اچھے نام ہیں۔ بخاری و مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں۔ ایک کم ایک سو جو انہیں یاد کر لے جنتی ہے۔ ترمذی اور ابن ماجہ کی روایت میں ان ناموں کی تفصیل بھی آئی ہے اور دونوں کی روایتوں میں الفاظ کی کچھ تبدیلی کچھ کمی زیادتی بھی ہے۔ رازی نے اپنی تفسیر میں بعض لوگوں سے روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پانچ ہزار نام ہیں۔ ایک ہزار تو قرآن شریف اور صحیح حدیث میں ہیں اور ایک ہزار توراۃ میں اور ایک ہزار انجیل میں اور ایک ہزار زبور میں اور ایک ہزار لوح محفوظ میں اللہ ہی وہ نام ہے جو سوائے اللہ تبارک و تعالیٰ کے کسی اور کا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک عرب کو یہ بھی معلوم نہیں کہ اس کا اشتقاق کیا ہے اس کا باب کیا ہے بلکہ ایک بہت بڑی نحویوں کی جماعت کا خیال ہے کہ یہ اسم جامد ہے اور اس کا کوئی اشتقاق ہے ہی نہیں۔ قرطبی نے علماء کرام کی ایک بڑی جماعت کا یہی مذہب نقل کیا ہے جن میں حضرت امام شافعی امام خطابی امام الحرمین امام غزالی بھی شامل ہیں۔ خلیل اور سیبویہ سے روایت ہے کہ الف لام اس میں لازم ہے۔ امام خطابی نے اس کی ایک دلیل یہ دی ہے کہ یا اللہ اصل کلمہ کا نہ ہوتا تو اس پر ندا کا لفظ یا داخل نہ ہو سکتا کیونکہ قواعد عربی کے لحاظ سے حرف ہذا کا الف لام والے اسم پر داخل نہ ہو سکتا کیونکہ قواعد عربی کے لحاظ سے حرف ندا کا لفظ لام والے اسم میں داخل ہونا جائز نہیں۔ بعض لوگوں کا یہ قول بھی ہے کہ یہ مشتق ہے اور اس پر روبہ بن لجاج کا ایک شعر دلیل لاتے ہیں جس میں مصدر تَاَلَہ، کا بیان ہے جس کا ماضی مضارع اَلَہَ یأَلَہ، اَلھتہ اور تالھا ہے جیسے کہ ابن عباس سے مروی ہے کہ وہ ویذرک الھتک پڑھتے تھے مراد اس سے عبادت ہے۔ یعنی اس کی عبادت کی جاتی ہے اور وہ کسی کی عبادت نہیں کرتا۔ ) مجاہد وغیرہ کہتے ہیں۔ بعض نے اس پر اس آیت سے دلیل پکڑی ہے کہ آیت (وھو اللہ فی السموت وفی الارض) اور آیت میں ہے (وھوالذی فی السماء الہ وفی الارض الہ) یعنی وہی اللہ ہے آسمانوں میں اور زمین میں۔ وہی ہے جو آسمان میں معبود ہے اور زمین میں معبود ہے۔ سیبویہ خلیل سے نقل کرتے ہیں کہ اصل میں یہ الہ تھا جیسے فعال پھر ہمزہ کے بدلے الف و لام لایا گیا جیسے “الناس:کہ اس کی اصل “اناس” ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ اس لفظ کی اصل الاہ ہے الف لام حرف تعظیم کے طور پر لایا گیا ہے۔ سیبویہ کا بھی پسندیدہ قول یہی ہے۔ عرب شاعروں کے شعروں میں بھی یہ لفظ ملتا ہے۔ کسائی اور فرا کہتے ہیں کہ اس کی اصل الالہ تھی ہمزہ کو حذف کیا اور پہلے لام کو دوسرے میں ادغام کیا جیسے کہ آیت(لکنا ھو اللہ ربی) میں لکن انا کا لکنا ہوا ہے۔ چنانچہ حسن کی قرات میں لکن انا ہی ہے اور اس کا اشتقاق ولہ سے ہے اور اس کے معنی تحیر ہیں ولہ عقل کے چلے جانے کو کہتے ہیں۔ جب وہ جنگل میں بھیج دیا جائے۔ چونکہ ذات باری تعالیٰ میں اور اس کی صفتوں کی تحقیق میں عقل حیران و پریشان ہو جاتی ہے اس لئے اس پاک ذات کو اللہ کہا جاتا ہے۔ اس بنا پر اصل میں یہ لفظ ولاہ تھا۔ واؤ کو ہمزہ سے بدل دیا گیا جیسے کہ وشاح اور وسادۃ میں اشاح اور اسادہ کہتے ہیں۔ رازی کہتے ہیں کہ یہ لفظ الھت الی فلان سے مشتق ہے جو کہ معنی میں “سکنت” کے ہے۔ یعنی میں نے فلاں سے سکون اور راحت حاصل کی۔ چونکہ عقل کا سکون صرف ذات باری تعالیٰ کے ذکر سے ہے اور روح کی حقیقی خوشی اس کی معرفت میں ہے اس لئے کہ علی الاطلاق کامل وہی ہے ، اس کے سوا اور کوئی نہیں اسی وجہ سے اللہ کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے آیت (الا بذکر اللہ تطمئن القلوب)الخ یعنی ایمانداروں کے دل صرف اللہ تعالیٰ کے ذکر سے ہی اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ لاہ یلوہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی چھپ جانے اور حجاب کرنے کے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ الہ الفصیل سے ہے چونکہ بندے اسی کی طرف تضرع اور زاری سے جھکتے ہیں اسی کے دامن رحمت کا پلہ ہر حال میں تھامتے ہیں، اس لئے اسے اللہ کہا گیا ایک قول یہ بھی ہے کہ عرب الہ الرجل یالہ اس وقت کہتے ہیں جب کسی اچانک امر سے کوئی گھبرا اٹھے اور دوسرا اسے پناہ دے اور بچا لے چونکہ تمام مخلوق کو ہر مصیبت سے نجات دینے والا اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہے ، اس لئے اس کو اللہ کہتے ہیں۔ جیسے کہ قرآن کریم میں ہے آیت(وھو یجیر ولا یجار علیہ) یعنی وہی بچاتا ہے اور اس کے مقابل میں کوئی نہیں بچایا جاتا (وھو منعم) حقیقی منعم وہی فرماتا ہے تمہارے پاس جنتی نعمتیں ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہیں، وہی مطعم ہے فرمایا ہے وہ کھلاتا ہے اور اسے کوئی نہیں کھلاتا۔ وہی موجد ہے فرماتا ہے ہر چیز کا وجود اللہ کی طرف سے ہے۔ رازی کا مختار مذہب یہی ہے کہ لفظ اللہ مشتق نہیں ہے۔ خلیل، سیبویہ اکثر اصولیوں اور فقہا کا یہی قول ہے ، اس کی بہت سی دلیلیں بھی ہیں اگر یہ مشتق ہوتا تو اس کے معنی میں بہت سے افراد کی شرکت ہوتی حالانکہ ایسا نہیں پھر اس لفظ کو موصوف بنایا جاتا ہے اور بہت سی اس کی صفتیں آتی ہیں جیسے رحمن، رحیم، مالک، قدوس وغیرہ تو معلوم ہوا کہ یہ مشتق نہیں۔ قرآن میں ایک جگہ آیت(عزیز الحمید اللہ) الخ جو آتا ہے وہاں یہ عطف بیان ہے۔ ایک دلیل ہے اس کے مشتق نہ ہونے کی یہ بھی ہے آیت(ھل تعلم لہ سمیا) یعنی کیا اس کا ہم نام بھی کوئی جانتے ہو؟ لیکن یہ غور طلب ہے واللہ اعلم۔ بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ لفظ عبرانی ہے لیکن رازی نے اس قول کو ضعیف کہا ہے اور فی الواقع ضعیف ہے بھی۔ رازی فرماتے ہیں کہ “مخلوق کی دو قسمیں ہیں ایک وہ جو معرفت الٰہی کے کنارے پر پہنچ گئے دوسرے وہ جو اس سے محروم ہیں جو حیرت کے اندھیروں میں اور جہالت کی پر خار وادیوں میں پڑے ہیں وہ تو عقل کو رو بیٹھے اور روحانی کمالات کو کھو بیٹھے ہیں لیکن جو ساحل معرفت پر پہنچ چکے ہیں جو نورانیت کے وسیع باغوں میں جا ٹھہرے جو کبریائی اور جلال کی وسعت کا اندازہ کر چکے ہیں وہ بھی یہاں تک پہنچ کر حیران و ششدر رہ گئے ہیں۔ غرض ساری مخلوق اس کی پوری معرفت سے عاجز اور سرگشتہ ویران ہے۔ ” ان معانی کی بناء پر اس پاک ذات کا نام اللہ ہے۔ ساری مخلوق اس کی محتاج، اس کے سامنے جھکنے والی اور اس کی تلاش کرنے والی ہے۔ اس حقیقت کی وجہ سے اسے اللہ کہتے ہیں۔ جیسا کہ خلیل کا قول ہے عرب کے محاورے میں ہر اونچی اور بلند چیز کو “لاہ” کہتے ہیں۔ سورج جب طلوع ہوتا ہے تب بھی وہ کہتے ہیں لاھت الشمس چونکہ پروردگار عالم بھی سب سے بلند و بالا ہے اس کو بھی اللہ کہتے ہیں۔ اور الہ کے معنی عبادت کرنے اور تالہ کے معنی حکم برداری اور قربانی کے ہیں اور رب عالم کی عبادت کی جاتی ہے اور اس کے نام پر قربانیاں کی جاتی ہیں اس لئے اسے اللہ کہتے ہیں۔ ابن عباس کی قرات میں ہے ویذرک والھتک اس کی اصل الالہ ہے پس صرف کلمہ کی جگہ جو ہمزہ ہے وہ حذف کیا گیا۔ پھر نفس کلمہ کالام زائد لام سے جو تعریف کے لئے لایا گیا ہے ملا دیا گیا پھر ایک کو دوسرے میں مدغم کر دیا تو ایک لازم مشدد رہ گیا اور تعظیماً اللہ کہا گیا۔ یہ تو تفسیر لفظ “اللہ” کی تھی۔
 

Zia_Hayderi

TM Star
Mar 30, 2007
2,468
1,028
1,213
اَلرَّحمن اور الرحیم کے معنی

آیت(الرحمن الرحیم) کا بیان آئے گا یہ دونوں نام رحمت سے مشتق ہیں۔ دونوں میں مبالغہ ہے الرحمن میں رحیم سے زیادہ مبالغہ ہے۔ علامہ ابن جریر کے قول سے معلوم ہوتا ہے وہ بھی ان معنوں سے متفق ہیں گویا اس پر اتفاق ہے۔ بعض سلف کی تفسیروں سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے ان معنوں پر مبنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قول بھی پہلے گزر چکا ہے کہ رحمن سے مراد دنیا اور آخرت میں رحم کرنے والا اور رحیم سے مراد آخرت میں رحم کرنے والا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ رحمن مشتق نہیں ہے اگر یہ اس طرح ہوتا تو مرحوم کے ساتھ ملتا۔ حالانکہ قرآن میں بالمومنین رحیما آیا ہے۔ مبرد کہتے ہیں رحمن عبرانی نام ہے عربی نہیں۔ ابو اسحاق زجاج معانی القرآن میں کہتے ہیں کہ احمد بن یحییٰ کا قول ہے کہ رحیم عربی لفظ ہے اور رحمن عبرانی ہے دونوں کو جمع کر دیا گیا ہے۔ لیکن ابو اسحٰق فرماتے ہیں “اس قول کو دل نہیں مانتا۔ ” قرطبی فرماتے ہیں “اس لفظ کے مشتق ہونے کی یہ دلیل ہے کہ ترمذی کی صحیح حدیث ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میں رحمن ہوں میں نے رحم کو پیدا کیا اور اپنے نام میں سے ہی اس کا نام مشتق کیا۔ اس کے ملانے والے کو میں ملاؤں گا اور اس کے توڑنے والے کو کاٹ دوں گا۔ ” اس صریح حدیث کے ہوتے ہوئے مخالفت اور انکار کرنے کی گوئی گنجائش نہیں۔ رہا کفار عرب کا اس نام سے انکار کرنا یہ محض ان کی جہالت کا ایک کرشمہ تھا۔ قرطبی کہتے ہیں کہ “رحمن اور رحیم کے ایک ہی معنی ہیں اور جیسے ندمان اور ندیم۔ ” ابو عبید کا بھی یہی خیال ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ فعلان فعیل کی طرح نہیں۔ فعلان میں مبالغہ ضروری ہوتا ہے جیسے غضبان اسی شخص کو کہہ سکتے ہیں۔ جو بہت ہی غصہ والا ہو اور فعیل صرف فاعل اور صرف مفعول کے لئے بھی آتا ہے۔ جو مبالغہ سے خالی ہوتا ہے۔ ابو علی فارسی کہتے ہیں کہ “رحمن عام اسم ہے جو ہر قسم کی رحمتوں کو شامل ہے اور صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے۔ رحیم باعتبار مومنوں کے ہے فرمایا ہے آیت(وکان بالمومنین رحیما) مومنون کے ساتھ رحیم ہے۔ ” ابن عباس فرماتے ہیں “یہ دونوں رحمت و رحم والے ہیں، ایک میں دوسرے سے زیادہ رحمت و رحم ہے۔ ” حضرت ابن عباس کی اس روایت میں لفظ ارق ہے اس کے معنی خطابی وغیرہ ارفق کرتے ہیں جیسے کہ حدیث میں ہے کہ “اللہ تعالیٰ رفیق یعنی شفیق اور مہربانی والا ہے وہ ہر کام میں نرمی اور آسانی کو پسند کرتا ہے وہ دوسروں پر نرمی اور آسانی کرنے والے پر وہ نعمتیں مرحمت فرماتا ہے جو سختی کرنے والے پر عطا نہیں فرماتا۔ ” ابن المبارک فرماتے ہیں “رحمن اسے کہتے ہیں کہ جب اس سے جو مانگاجائے عطا فرمائے اور رحیم وہ ہے کہ جب اس سے نہ مانگا جائے وہ غضبناک ہو۔ ” ترمذی کی حدیث میں ہے “جو شخص اللہ تعالیٰ سے نہ مانگے اللہ تعالیٰ اس پر غضبناک ہوتا ہے۔ ” بعض شاعروں کا قول ہے۔

اللہ یغضب ان ترکت سوالہ

وبنی ادم حین یسال یغضب

یعنی اللہ تعالیٰ سے نہ مانگو تو وہ ناراض ہوتا ہے اور بنی آدم سے مانگو تو وہ بگڑتے ہیں۔ عزرمی فرماتے ہیں کہ رحمن کے معنی تمام مخلوق پر رحم کرنے والا اور رحیم کے معنی مومنوں پر رحم کرنے والا ہے۔ دیکھئے قرآن کریم کی دو آیتوں آیت(ثم استوی علی العرش اور الرحمن علی العرش استوی) میں استویٰ کے ساتھ رحمن کا لفظ ذکر کیا تاکہ تمام مخلوق کو یہ لفظ اپنے عام رحم و کرم کے معنی سے شامل ہو سکے اور مومنوں کے ذکر کے ساتھ لفظ رحیم فرمایا آیت(وکان بالمومنین رحیما) پس معلوم ہوا کہ رحمن میں مبالغہ بہ نسبت رحیم کے بہت زیادہ ہے۔ لیکن حدیث کی ایک دعا میں یا رحمن الدنیا والاخرۃ ورحیمھما بھی آیا ہے۔ رحمن یہ نام بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے۔ اس کے سوا کسی دوسرے کا نام نہیں۔ جیسے کہ فرمان ہے کہ اللہ کو پکارو یا رحمن کو جس نام سے چاہو اسے پکارو اس کے بہت اچھے اچھے نام ہیں۔ ایک اور آیت میں ہے آیت(واسئل من ارسلنا) الخ یعنی ان سے پوچھ لو تجھ سے پہلے ہم نے جو رسول بھیجے تھے کیا انہوں نے رحمن کے سوا کسی کو معبود کہا تھا کہ ان کی عبادت کی جائے جب مسیلمہ، کذاب نے بڑھ چڑھ کر دعوے شروع کئے اور اپنا نام رحمن العیامہ رکھا تو پروردگار نے اسے بے انتہا رسوا اور برباد کیا، وہ جھوٹ اور کذب کی علامت مشہور ہو گیا۔ آج اسے مسیلمہ کذاب کہا جاتا ہے اور ہر جھوٹے دعویدار کو اس کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے۔ ہر دیہاتی اور شہری ہر کچے پکے گھر والا اسے بخوبی جانتا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ رحیم میں رحمن سے زیادہ مبالغہ ہے اس لئے کہ اس لفظ کے ساتھ اگلے لفظ کی تاکید کی گئی ہے اور تاکید بہ نسبت اس کے کہ جس کی تاکید جائے زیادہ قوی ہوتی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں تاکید ہے ہی نہیں بلکہ یہ تو صفت ہے اور صفت میں یہ قاعدہ نہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کا نام لیا گیا اس نام میں بھی اس کا کوئی شریک نہیں، سب سے پہلے اس کی صفت رحمن بیان کی گئی اور یہ نام رکھنا بھی دوسروں کو ممنوع ہے جیسے فرما دیا کہ اللہ کو یا رحمن کو پکارو جس نام سے چاہو پکارو اس کے لئے اسماء حسنیٰ بہت سارے ہیں۔ مسیلمہ نے بد ترین جرأت کی لیکن برباد ہوا اور اس کے گمراہ ساتھیوں کے سوا اس کی کسی کے دل میں نہ آئی۔ رحیم کے وصف کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے دوسروں کو بھی موصوف کیا ہے۔ فرماتا ہے آیت(لقد جاءکم )الخ اس آیت میں اپنے نبی کو رحیم کہا، اسی طرح اپنے بعض ایسے ناموں سے دوسروں کو بھی اس نے وابستہ کیا ہے۔ جیسے آیت (انا خلقنا الانسان)الخ میں انسان کو سمیع اور بصیر کہا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بعض نام تو ایسے ہیں کہ دوسروں پر بھی ہم معنی ہونے کا اطلاق ہو سکتا ہے اور بعض ایسے ہیں کہ نہیں ہو سکتا جیسے اللہ اور رحمن، خالق اور رزاق وغیرہ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنا پہلا نام اللہ پھر اس کی صفت رحمن سے کی۔ اس لئے کہ رحیم کی نسبت یہ زیادہ خاص ہے اور زیادہ مشہور ہے۔ قاعدہ ہے کہ اول سب سے زیادہ بزرگ نام لیا جاتا ہے ، اس لئے سب سے پہلے سب سے زیادہ خاص نام لیا گیا پھر اس سے کم۔ پھر اس سے کم۔ اگر کہا جائے کہ جب رحمن میں رحیم سے زیادہ مبالغہ موجود ہے پھر اسی پر اکتفا کیوں نہ کیا گیا؟ تو اس کے جواب میں حضرت عطا خراسانی کا یہ قول پیش کیا جا سکتا ہے کہ چونکہ کافروں نے رحمن کا نام بھی غیروں کا رکھ لیا تھا اس لئے رحیم کا لفظ بھی ساتھ لگایا گیا تاکہ کسی قسم کا وہم ہی نہ رہے۔ رحمن و رحیم صرف اللہ تعالیٰ ہی کا نام ہے۔ ابن جریر نے تاہم اس قول کی تصدیق کی ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جاہلیت کے زمانے کے عرب رحمن سے واقف ہی نہ تھے ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی آیت (قل ادعوا اللہ وادعوا الرحمن) الخ نازل فرما کر ان کی تردید کی۔ حدیبیہ والے سال جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی سے فرمایا تھا کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھو تو کفار نے کہا تھا کہ ہم رحمن اور رحیم کو نہیں جانتے۔ بخاری میں یہ روایت موجود ہے۔ بعض روایتوں میں ہے کہ انہوں نے کہا تھا کہ ہم رحمن یمامہ کو جانتے ہیں کسی اور رحمن کو نہیں جانتے۔ اسی طرح قرآن پاک میں ہے آیت(واذا قیل لھم اسجدواللرحمن) الخ یعنی جب ان سے کہا جاتا ہے کہ رحمن کے سامنے سجدہ کرو تو وہ حیران زدہ ہو کر جواب دیتے ہیں کہ رحمن کون ہے ؟ جسے ہم تیرے قول کی وجہ سے سجدہ کریں۔ درحقیقت یہ بد کار لوگ صرف عناد، تکبر، سرکشی اور دشمنی کی بنا پر رحمن سے انکار کرتے تھے نہ کہ وہ اس نام سے نا آشنا تھے۔ اس لئے کہ جاہلیت کے زمانے کے پرانے اشعار میں بھی اللہ تعالیٰ کا نام رحمن موجود ہے جو انہی کے سلامہ اور دوسرے شعراء کے اشعار میں ملاحظہ ہو۔ تفسیر ابن جریر میں ہے حضرت عبد اللہ بن عباس سے کہ رحمن فعلان کے وزن پر رحمت سے ماخوذ ہے اور کلام عرب سے ہے۔ وہ اللہ رفیق اور رقیق ہے جس پر رحم کرنا چاہے اور جس سے غصے ہو اس سے بہت دور اور اس پر بہت سخت گیر بھی ہے اسی طرح اس کے تمام نام ہیں۔ حسن فرماتے ہیں رحمن کا نام دوسروں کے لئے منع ہے۔ خود اللہ تعالیٰ کا نام ہے لوگ اس نام پر کوئی حق نہیں رکھتے۔ ام سلمہ والی حدیث جس میں کہ ہر آیت پر حضور صلی اللہ علیہ و سلم ٹھہرا کرتے تھے۔ پہلے گزر چکی ہے اور ایک جماعت اسی طرح بسم اللہ کو آیت قرار دے کر آیت الحمد کو الگ پڑھتی ہے اور بعض ملا کر پڑھتے ہیں۔ میم کو دو ساکن جمع ہو جانے کی وجہ سے زیر دیتے ہیں۔ جمہور کا بھی یہی قول ہے کوفی کہتے ہیں کہ بعض عرب میم کے زیر سے پڑھتے ہیں، ہمزہ کی حرکت زبر میم کو دیتے ہیں۔ جیسے آیت(الم اللہ لا الہ الا ھو) ابن عطیہ کہتے ہیں کہ زبر کی قرات کسی سے بھی میرے خیال میں مروی نہیں۔ آیت(بسم اللہ الرحمن الرحیم) کی تفسیر ختم ہوئی اب آگے سنئے۔”

۲۔ساتوں قاری الحمد کو دال پر پیش سے پڑھتے ہیں اور الحمد للہ کو مبتدا خبر مانتے ہیں۔

سفیان بن عینیہ اور روبہ بن عجاج کا قول ہے کہ دال پر زبر کے ساتھ ہے اور فعل یہاں مقدر ہے۔ ابن ابی عبلہ الحمد کی دال کو اور اللہ کے پہلے لام دونوں کو پیش کے ساتھ پڑھتے ہیں اور اس لام کو پہلے کے تابع کرتے ہیں اگرچہ اس کی شہادت عربی زبان میں ملتی ہے مگر اس کی شہادت زبان عرب سے ملتی ہے شاذ ہے۔ حسن اور زید بن علی ان دونوں حرفوں کو زیر سے پڑھتے ہیں اور لام کے تابع دال کو کرتے ہیں۔ ابن جریر فرماتے ہیں “الحمد للہ کے معنی یہ ہیں کہ صرف اللہ تعالیٰ کا شکر ہے اس کے سوا کوئی اس کے لائق نہیں، خواہ وہ مخلوق میں سے کوئی بھی ہو اس وجہ سے کہ تمام نعمتیں جنہیں ہم گن بھی نہیں سکتے ، اس مالک کے سوا اور کوئی ان کی تعداد کو نہیں جانتا اسی کی طرف سے ہیں۔ اسی نے اپنی اطاعت کرنے کے تمام اسباب ہمیں عطا فرمائے۔ اسی نے اپنے فرائض پورے کرنے کے لئے تمام جسمانی نعمتیں ہمیں بخشیں۔ پھر بے شمار دنیاوی نعمتیں اور زندگی کی تمام ضروریات ہمارے کسی حق بغیر ہمیں بن مانگے بخشیں۔ اس کی لازوال نعمتیں، اس کے تیار کردہ پاکیزہ مقام جنت کو ہم کس طرح حاصل کر سکتے ہیں؟ یہ بھی اس نے ہمیں سکھا دیا پس ہم تو کہتے ہیں کہ اول آخر اسی مالک کی پاک ذات ہر طرح کی تعریف اور حمد و شکر کے شائق ہے۔ الحمد للہ یہ ثنا کا کلمہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ثنا و خود آپ کی ہے اور اسی ضمن میں یہ فرما دیا ہے کہ تم کہو الحمد للہ۔ ” بعض نے کہا کہ الحمد للہ کہنا اللہ تعالیٰ کے پاکیزہ ناموں اور اس کی بلند و بالا صفتوں سے اس کی ثنا کرنا ہے۔ اور الشکرللہ کہنا اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کے احسان کا شکریہ ادا کرنا ہے۔ لیکن یہ قول ٹھیک نہیں۔ اس لئے کہ عربی زبان کو جاننے والے علماء کا اتفاق ہے۔ کہ شکر کی جگہ حمد کا لفظ اور حمد کی جگہ شکر کا لفظ بولتے ہیں۔ جعفر صادق، ابن عطا صوفی بھی فرماتے ہیں۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ ہر شکر کرنے والے کا کلمہ الحمد للہ ہے۔ قرطبی نے ابن جریر کے قول کو معتبر کرنے کے لئے یہ دلیل بھی بیان کی ہے کہ اگر کوئی الحمد للہ شکرا کہے تو جائز ہے۔ دراصل علامہ ابن جریر کے اس دعویٰ میں اختلاف ہے ، پچھلے علماء میں مشہور ہے کہ حمد کہتے ہیں زبانی تعریف بیان کرنے کو خواہ جس کی حمد کی جاتی ہو اس کی لازم صفتوں پر ہو یا متعدی صفتوں پر اور شکر صرف متعدی صفتوں پر ہوتا ہے اور وہ دل زبان اور جملہ ارکان سے ہوتا ہے۔ عرب شاعروں کے اشعار بھی اس پر دلیل ہیں، ہاں اس میں اختلاف ہے کہ حمد کا لفظ عام ہے یا شکر کا اور صحیح بات یہ ہے کہ اس میں عموم اس حیثیت سے خصوص ہے کہ حمد کا لفظ جس پر واقع ہو وہ عام طور پر شکر کے معنوں میں آتا ہے۔ اس لئے کہ وہ لازم اور متعدی دونوں اوصاف پر آتا ہے شہ سواری اور کرم دونوں پر حمد تہ کہہ سکتے ہیں لیکن اس حیثیت سے وہ صرف زبان سے ادا ہو سکتا ہے یہ لفظ خاص اور شکر کا لفظ عام ہے کیونکہ وہ قول، فعل اور نیت تینوں پر بولا جاتا ہے اور صرف متعدی صفتوں پر بولے جانے کے اعتبار سے شکر کا لفظ خاص ہے۔ شہ سواری کے حصول پر شکرتہ نہیں کہہ سکتے البتہ شکرتہ علی کرمہ واحسانہ الی کہہ سکتے ہیں۔ یہ تھا خلاصہ متاخرین کے قول کا ماحصل واللہ اعلم۔ ابو نصر اسماعیل بن حماد جوہری کہتے ہیں “حمد” مقابل ہے “ذم” کے۔ لہٰذا یوں کہتے ہیں کہ حمدت الرجل احمدہ حمداو و محمدۃ فھو حمید و محمود تحمید میں حمد سے زیادہ مبالغہ ہے۔ حمد شکر سے عام ہے۔ کسی محسن کی دی ہوئی نعمتوں پر اس کی ثنا کرنے کو شکر کہتے ہیں۔ عربی زبان میں شکرتہ اور شکرت لہ دونوں طرح کہتے ہیں لیکن لام کے ساتھ کہنا زیادہ فصیح ہے۔ مدح کا لفظ حمد سے بھی زیادہ عام ہے اس لئے کہ زندہ مردہ بلکہ جمادات پر بھی مدح کا لفظ بول سکتے ہیں۔ کھانے اور مکان کی اور ایسی اور چیزوں کی بھی مدح کی جاتی ہے احسان سے پہلے ، احسان کے بعد، لازم صفتوں پر، متعدی صفتوں پر بھی اس کا اطلاق ہو سکتا ہے تو اس کا عام ہونا ثابت ہوا واللہ اعلم۔
 

Zia_Hayderi

TM Star
Mar 30, 2007
2,468
1,028
1,213
حمد کی تفسیر اقوال سلف سے

حضرت عمر نے ایک مرتبہ فرمایا کہ سبحان اللہ اور لا الہ الا اللہ اور بعض روایتوں میں ہے کہ اللہ اکبر کو تو ہم جانتے ہیں لیکن یہ الحمد للہ کا کیا مطلب؟ حضرت علی نے جواب دیا کہ اس کلمہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے پسند فرما لیا ہے اور بعض روایتوں میں ہے کہ اس کا کہنا اللہ کو بھلا لگتا ہے۔ ابن عباس فرماتے ہیں یہ کلمہ شکر ہے اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میرا شکر کیا۔ اس کلمہ میں شکر کے علاوہ اس کی نعمتوں، ہدایتوں اور احسان وغیرہ کا اقرار بھی ہے۔ کعب احبار کا قول ہے کہ یہ کلمہ اللہ تعالیٰ کی ثنا ہے۔ ضحاک کہتے ہیں یہ اللہ کی چادر ہے۔ ایک حدیث میں بھی ایسا ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں جب تم الحمد للہ رب العلمین کہہ لو گے تو تم اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کر لو گے اب اللہ تعالیٰ تمہیں برکت دے گا اسود بن سریع ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ میں نے ذات باری تعالیٰ کی حمد میں چند اشعار کہے ہیں اگر اجازت ہو تو سناؤں فرمایا اللہ تعالیٰ کو اپنی حمد بہت پسند ہے۔ (مسند احمد و نسائی) ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ میں حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ افضل ذکر لا الہ الا اللہ ہے اور افضل دعا الحمد للہ ہے۔ امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن غریب کہتے ہیں۔ ابن ماجہ کی ایک حدیث ہے کہ جس بندے کو اللہ تعالیٰ نے کوئی نعمت دی اور وہ اس پر الحمد للہ کہے تو دی ہوئی نعمت لے لی ہوئی سے افضل ہو گی۔ فرماتے ہیں اگر میری امت میں سے کسی کو اللہ تعالیٰ تمام دنیا دے دے اور وہ الحمد للہ کہے تو یہ کلمہ ساری دنیا سے افضل ہو گا۔ قرطبی فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ساری دنیا دے دینا اتنی بڑی نعمت نہیں٠ جتنی الحمد للہ کہنے کی توفیق دینا ہے اس لئے کہ دنیا تو فانی ہے اور اس کلمہ کا ثواب باقی ہی باقی ہے۔ جیسے کہ قرآن پاک میں ہے المال والبنون الخ یعنی مال اور اولاد دنیا کی زینت ہے اور نیک اعمال ہمیشہ باقی رہنے والے ، ثواب والے اور نیک امید والے ہیں۔ ابن ماجہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ایک شخص نے ایک مرتبہ کہا یا رب لک الحمد کما ینبغی لجلال وجھک وعظیم سلطانک تو فرشتے گھبرا گئے کہ ہم اس کا کتنا اجر لکھیں۔ آخر اللہ تعالیٰ سے انہوں نے عرض کی کہ تیرے ایک بندے نے ایک ایسا کلمہ کہا ہے کہ ہم نہیں جانتے اسے کس طرح لکھیں، پروردگار نے باوجود جاننے کے ان سے پوچھا کہ اس نے کیا کہا ہے ؟ انہوں نے بیان کیا کہ اس نے یہ کلمہ کہا ہے ، فرمایا تم یونہی اسے لکھ لو میں آپ اسے اپنی ملاقات کے وقت اس کا اجر دے دوں گا۔ قرطبی ایک جماعت علماء سے نقل کرتے ہیں کہ لا الہ الا اللہ سے بھی الحمد للہ رب العلمین افضل ہے کیونکہ اس میں توحید اور حمد دونوں ہیں۔ اور علماء کا خیال ہے کہ لا الہ الا اللہ افضل ہے اس لئے کہ ایمان و کفر میں یہی فرق کرتا ہے ، اس کے کہلوانے کے لئے کفار سے لڑائیاں کی جاتی ہیں۔ جیسے کہ صحیح بخاری مسلم حدیث میں ہے ایک اور مرفوع حدیث میں ہے کہ جو کچھ میں نے اور مجھ سے پہلے کے تمام انبیاء کرام نے کہا ہے ان میں سب سے افضل لا الہ الا اللہ وحدہٗ لا شریک لہٗ ہے۔ حضرت جابر کی ایک مرفوع حدیث پہلے گذر چکی ہے کہ افضل ذکر لا الہ الہ اللہ ہے اور افضل دعا الحمد للہ ہے۔ ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے ، الحمد میں الف لام استغراق کا ہے یعنی حمد کی تمام تر قسمیں سب کی سب صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ثابت ہیں۔ جیسے کہ حدیث میں ہے کہ باری تعالیٰ تیرے ہی لئے تمام تعریفیں ہیں اور تمام ملک ہے۔ تیرے ہی ہاتھ تمام بھلائیاں ہیں اور تمام کام تیری ہی طرف لوٹتے ہیں۔ رب کہتے ہیں مالک اور متصرف کو لغت میں اس کا اطلاق سردار اور اصلاح کے لئے تبدیلیاں کرنے والے پر بھی ہوتا ہے اور ان سب معانی کے اعتبار سے ذات باری تعالیٰ کے لئے یہ خوب جچتا ہے۔ رب کا لفظ بھی سوائے اللہ تعالیٰ کے دوسرے پر نہیں کہا جا سکتا ہاں اضافت کے ساتھ ہو تو اور بات ہے جیسے رب الدار یعنی گھر والا وغیرہ۔ بعض کا تو قول ہے کہ اسم اعظم یہی ہے۔

عالمین سے مراد

عالمین جمع ہے عالم کی اللہ تعالیٰ کے سوا تمام مخلوق کو عالم کہتے ہیں۔ لفظ عالم بھی جمع ہے اور اس کا واحد لفظ ہے ہی نہیں۔ آسمان کی مخلوق خشکی اور تری کی مخلوقات کو بھی عوالم یعنی کئی عالم کہتے ہیں۔ اسی طرح ایک ایک زمانے ، ایک ایک وقت کو بھی عالم کہا جاتا ہے۔ ابن عباس سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ اس سے مراد کل مخلوق ہے خواہ آسمانوں کی ہو یا زمینوں کی یا ان کے درمیان کی، خواہ ہمیں اس کا علم ہو یا نہ ہو۔ علی ہذا القیاس۔ اس سے جنات اور انسان بھی مراد لئے گئے ہیں۔ سعید بن جیر مجاہد اور ابن جریح سے بھی یہ مروی ہے۔ حضرت علی سے بھی غیر معتبر سند سے یہی منقول ہے اس قول کی دلیل قرآن کی آیت لیکون للعالمین نذیرا بھی جاتی ہے یعنی تاکہ وہ عالمین یعنی جن اور انس کے لئے ڈرانے والا ہو جائے۔ فرا اور ابو عبید کا قول ہے کہ سمجھدار کو عالم کہا جاتا ہے۔ لہٰذا انسان، جنات، فرشتے ، شیاطین کو عالم کہا جائے گا۔ جانوروں کو نہیں کہا جائے گا۔ زید بن اسلم، ابو محیص فرماتے ہیں کہ ہر روح والی چیز کو عالم کہا جاتا ہے۔ قتادہ کہتے ہیں۔ ہر قسم کو ایک عالم کہتے ہیں ابن مروان بن حکم عرف جعد جن کا لقب حمار تھا جو بنو امیہ میں سے اپنے زمانے کے خلیفہ تھے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سترہ ہزار عالم پیدا کئے ہیں۔ آسمانوں والے ایک عالم، زمینوں والے سب ایک عالم اور باقی کو اللہ ہی جانتا ہے مخلوق کو ان کا علم نہیں۔ ابو العالیہ فرماتے ہیں انسان کل ایک عالم ہیں، سارے جنات کا ایک عالم ہے اور ان کے سوا اٹھارہ ہزار یا چودہ ہزار عالم اور ہیں۔ فرشتے زمین پر ہیں اور زمین کے چار کونے ہیں، ہر کونے میں ساڑھے تین ہزار عالم ہیں۔ جنہیں اللہ تعالیٰ نے صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ یہ قول بالکل غریب ہے اور ایسی باتیں جب تک کسی صحیح دلیل سے ثابت نہ ہوں ماننے کے قابل نہیں ہوتیں۔ جمیری کہتے ہیں ایک ہزار امتیں ہیں، چھ سو تری میں اور چار سو خشکی میں۔ سعید بن مسیب سے یہ بھی مروی ہے۔ ایک ضعیف روایت میں ہے کہ حضرت عمر فاروقکی خلافت کے زمانے میں ایک سال ٹڈیاں نہ نظر آئیں بلکہ تلاش کرنے کے باوجود پتہ نہ چلا۔ آپ غمگین ہو گئے یمن، شام اور عراق کی طرف سوار دوڑائے کہ کہیں بھی ٹڈیاں نظر آتی ہیں یا نہیں تو یمن والے سوار تھوڑی سی ٹڈیاں لے کر آئے اور امیرالمومنین کے سامنے پیش کیں آپ نے انہیں دیکھ کر تکبیر کہی اور فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے ، آپ فرماتے تھے اللہ تعالیٰ نے ایک ہزار امتیں پیدا کی ہیں جن میں سے چھ سو تری میں ہیں اور چار سو خشکی میں ان میں سے سب سے پہلے جو امت ہلاک ہو گی وہ ٹڈیاں ہوں گی بس ان کی ہلاکت کے بعد پے درپے اور سب امتیں ہلاک ہو جائیں گی جس طرح کہ تسبیح کا دھاگا ٹوٹ جائے اور ایک کے بعد ایک سب موتی جھڑ جاتے ہیں۔ اس حدیث کے راوی محمد بن عیسیٰ ہلالی ضعیف ہیں۔ سعید بن میب رحمہ اللہ سے بھی یہ قول مروی ہے۔ وہب بن منبہ فرماتے ہیں اٹھارہ ہزار عالم ہیں، دنیا کی ساری کی ساری مخلوق ان میں سے ایک عالم ہے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں چالیس ہزار عالم ہیں ساری دنیا ان میں سے ایک عالم ہے۔ زجاج کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے دنیا آخرت میں جو کچھ پیدا کیا ہے وہ سب عالم ہے۔ قرطبی کہتے ہیں کہ یہ قول صحیح ہے اس لئے کہ یہ تمام عالمین پر مشتمل لفظ ہے۔ جیسے فرعون کے اس سوال کے جواب میں رب العالمین کون ہے ؟ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ آسمانوں زمینوں اور دونوں کے درمیان جو کچھ ہے ان سب کا رب۔ عالم کا لفظ علامت سے مشتق ہے اس لئے کہ عالم یعنی مخلوق اپنے پیدا کرنے والے اور بنانے والے پر نشان اور اس کی وحدانیت پر علامت ہے جیسے کہ ابن معتز شاعر کا قول ہے۔

فیا عجبا کیف یعصی الا لہ

ام کیف یجحدہ الجاحد

وفی کل شی لہ ایتہ

تدل علی انہ واحد

یعنی تعجب ہے کس طرح اللہ کی نافرمانی کی جاتی ہے اور کس طرح اس سے انکار کیا جاتا ہے حالانکہ ہر چیز میں نشانی ہے جو اس کی وحدانیت پر دلالت کرتی ہے الحمد کے بعد اب الرحمن الرحیم کی تفسیر سنئے۔”

۳۔

بہت بخشش کرنے والا بڑا مہربان

اس کی تفسیر پہلے پوری گزر چکی ہے اب اعادہ کی ضرورت نہیں۔ قرطبی فرماتے ہیں آیت(رب العلمین کے وصف کے بعد آیت(الرحمن الرحیم کا وصف ترہیب یعنی ڈراوے کے بعد ترغیب یعنی امید ہے۔ جیسے فرمایا آیت(نبی عبادی الخ یعنی میرے بندوں کو خبر دو کہ میں ہی بخشنے والا مہربان ہوں اور میرے عذاب بھی دردناک عذاب ہیں۔ اور فرمایا تیرا رب جلد سزا کرنے والا اور مہربان اور بخشش بھی کرنے والا ہے۔ رب کے لفظ میں ڈراوا ہے اور رحمن اور رحیم کے لفظ میں امید ہے۔ صحیح مسلم شریف میں بروایت حضرت ابو ہریرہ مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر ایماندار اللہ کے غضب و غصہ سے اور اس کے سخت عذاب سے پورا وقف ہوتا تو اس کے دل سے جنت کی طمع ہٹ جاتی اور اگر کافر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کی رحمتوں کو پوری طرح جان لیتا تو کبھی ناامید نہ ہوتا۔”

۴۔

حقیقی وارث مالک کون ہے ؟

بعض قاریوں نے ملک پڑھا ہے اور باقی سب نے مالک اور دونوں قراتیں صحیح اور متواتر ہیں اور سات قراتوں میں سے ہیں اور مالک نے لام کے زیر اور اس کے سکون کے ساتھ۔ اور ملیک اور ملکی بھی پڑھا گیا ہے پہلے کی دونوں قراتیں معانی کی رو ترجیح ہیں اور دونوں صحیح ہیں اور اچھی بھی۔ زمخشری نے ملک کو ترجیح دی ہے اس لئے کہ حرمین والوں کی یہ قرات ہے۔ اور قرآن میں بھی آیت(لمن الملک الیوم اور قولہ الحق ولہ الملک ہے۔ امام ابو حنیفہ سے بھی حکایت بیان کی گئی ہے کہ انہوں نے ملک پڑھا اس بنا پر کہ فعل اور فاعل اور مفعول آتا ہے لیکن یہ شاذ اور بے حد غریب ہے۔ ابو بکر بن داؤد نے اس بارے میں ایک غریب روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے تینوں خلفاء اور حضرت معاویہ اور ان کے لڑکے مالک پڑھتے تھے۔ ابن شہاب کہتے ہیں کہ سب سے پہلے مروان نے ملک پڑھا۔ میں کہتا ہوں مروان کو اپنی اس قرات کی صحت کا علم تھا۔ راوی حدیث ابن شہاب کو علم نہ تھا واللہ اعلم۔ ابن مردویہ نے کئی سندوں سے بیان کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم مالک پڑھتے تھے۔ مالک کا لفظ ملک سے ماخوذ ہے جیسے کہ قرآن میں ہے آیت(انا نحن نرث الارض) الخ یعنی زمین اور اس کے اوپر کی تمام مخلوق کے مالک ہم ہی ہیں اور ہماری ہی طرف سب لوٹا کر لائے جائیں گے۔ اور فرمایا آیت(قل اعوذ برب الناس ملک الناس) یعنی کہہ کہ میں پناہ پکڑتا ہوں لوگوں کے رب اور لوگوں کے مالک کی۔ اور ملک کا لفظ ملک سے ماخوذ ہے جیسے فرمایا آیت(لمن الملک الیوم) الخ یعنی آج ملک کس کا ہے صرف اللہ واحد غلبہ والے کا۔ اور فرمایا آیت(قولہ الحق الخ اسی کا فرمان ہے اور اسی کا سب ملک ہے۔ اور فرمایا آج ملک رحمن ہی کا ہے اور آج کا دن کافروں پر بہت سخت ہے۔ اس فرمان میں قیامت کے دن ساتھ ملکیت کی تخصیص کرنے سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے ، اس لئے کہ پہلے اپنا وصف رب العالمین ہونا بیان کر چکا ہے دنیا اور آخرت دونوں شامل ہیں۔ قیامت کے دن کے ساتھ اس کی تخصیص کی وجہ یہ ہے کہ اس دن تو کوئی ملکیت کا دعویدار بھی نہ ہو گا۔ بلکہ بغیر اس حقیقی مالک کی اجازت کے زبان تک نہ ہلا سکے گا۔ جیسے فرمایا جس دن روح القدس اور فرشتے صف بستہ کھڑے ہوں گے اور کوئی کلام نہ کر سکے گا۔ یہاں تک کہ رحمن اسے اجازت دے اور وہ ٹھیک بات کہے گا۔ دوسری جگہ ارشاد ہے سب آوازیں رحمن کے سامنے پست ہوں گی اور گنگناہٹ کے سوا کچھ نہ سنائی دے گا اور فرمایا جب قیامت آئے گی اس دن بغیر اللہ تبارک و تعالیٰ کی اجازت کے کوئی شخص نہ بول سکے گا۔ بعض ان میں سے بد بخت ہوں گے اور بعض سعادت مند۔ ابن عباس فرماتے ہیں اس دن اس کی بادشاہت میں اس کے سوا کوئی بادشاہ نہ ہو گا جیسے کہ دنیا میں مجازاً تھے۔ آیت(یوم الدین سے مراد مخلوق کے حساب کا یعنی قیامت کا دن ہے جس دن تمام بھلے برے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا ہاں اگر رب کسی برائی سے درگزر کر لے یا اس کا اختیاری امر ہے۔ صحابہ تابعین اور سلف صالحین سے بھی یہی مروی ہے۔ بعض سعادت مند۔ ابن عباس فرماتے ہیں اس دن اس کی بادشاہت میں اس کے سوا کوئی بادشاہ نہ ہو گا جیسے کہ دنیا میں مجازاً تھے۔ آیت(یوم الدین) سے مراد مخلوق کے حساب کا یعنی قیامت کا ہے جس دن تمام بھلے برے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا ہاں اگر رب کسی برائی سے درگزر کر لے یہ اس کا اختیاری امر ہے۔ صحابہ، تابعین اور سلف صالحین سے بھی یہی مروی ہے۔ بعض سے یہ بھی منقول ہے کہ مراد اس سے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت قائم کرنے پر قادر ہے۔ ابن جریر نے اس قول کو ضعیف قرار دیا ہے لیکن بظاہر ان دونوں اقوال میں کوئی تضاد نہیں، ہر ایک قول کا قائل دوسرے کے قول کی تصدیق کرتا ہے ہاں پہلا قول مطلب پر زیادہ دلالت کرتا ہے۔ جیسے کہ فرمان ہے آیت(الملک یومئذ الخ اور دوسرا قول اس آیت کے مشابہ ہے جیسا کہ فرمایا آیت(ویوم یقول کن فیکون) یعنی جس دن کہے گا “ہو جا” بس اسی وقت “ہو جائے گا” واللہ اعلم۔ حقیقی بادشاہ اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ جیسے فرمایا آیت(ھواللہ الذی لا الہ الا ھو الملک الخ صحیحین میں حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ “رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بد ترین نام اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس شخص کا ہے جو شہنشاہ کہلائے حقیقی بادشاہ اللہ کے سوا کوئی نہیں۔ ” ایک اور حدیث میں ہے کہ “اللہ تعالیٰ زمین کو قبضہ میں لے لے گا اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے پھر فرمائے گا میں بادشاہ ہوں کہاں گئے زمین کے بادشاہ کہاں ہیں تکبر والے۔ ” قرآن عظیم میں ہے کس کی ہے آج بادشاہی؟ فقط اللہ اکیلے غلبہ والے کی اور کسی کو ملک کہہ دینا یہ صرف مجازاً ہے جیسے کہ قرآن میں طالتون کو ملک کہا گیا اور آیت(وکان ورائھم ملک) کا لفظ آیا۔ اور بخاری مسلم میں ملوک کا لفظ آیا ہے اور قرآن کی آیت میں آیت(اذ جعل فیکم انبیاء وجعلکم ملوکا) یعنی تم میں انبیاء کئے اور تمہیں بادشاہ بنایا، آیا ہے۔ دین کے معنی بدلے جزا اور حساب کے ہیں۔ جیسے قرآن پاک میں ہے اس دن اللہ تعالیٰ انہیں پورا پورا بدلہ دے گا اور وہ جان لیں گے اور جگہ ہے آیت(ائنا لمدینون) کیا ہم کو بدلہ دیا جائے گا؟ حدیث میں ہے “دانا وہ ہے جو اپنے نفس سے خود حساب لے اور موت کے بعد کام آنے والے اعمال کرے۔ ” جیسے کہ حضرت عمر فاروق اعظم کا قول ہے کہ تم خود اپنی جانوں سے حساب لو اس سے پہلے کہ تمہارا حساب لیا جائے اور اپنے اعمال کو خود وزن کر لو اس سے پہلے کہ وہ ترازو میں رکھے جائیں اور اس بڑی پیشی کے لئے تیار ہو جاؤ جب تم اس اللہ کے سامنے پیش کئے جاؤ گے جس سے تمہارا کوئی عمل پوشیدہ نہیں جیسے خود رب عالم نے فرما دیا جس دن تم پیش کئے جاؤ گے کوئی چھپی ڈھکی بات چھپے گی نہیں۔”
 

Zia_Hayderi

TM Star
Mar 30, 2007
2,468
1,028
1,213
۵

عبادت کا مفہوم

ساتوں قاریوں اور جمہور نے اسے “ایاک” پڑھا ہے۔ عمرو بن فائد نے ایاک پڑھا ہے۔ لیکن یہ قراۃ شاذ اور مردود ہے۔ اس لئے کہ “ایا” کے معنی سورج کی روشنی کے ہیں اور بعض نے ایاک پڑھا ہے اور بعض نے ایاک پڑھا ہے اور بعض نے ھیاک پڑھا ہے۔ عرب شاعروں کے شعر میں بھی ھیاک ہے۔ نستعین کی یہی قرات تمام کی ہے۔ سوائے یحییٰ بن وہاب اور اعمش کے۔ یہ دونوں پہلے نون کو زیر سے پڑھتے ہیں۔ قبیلہ بنو اسد، ربیعہ بنت تمیم کی لغت اسی طرح پر ہے۔ لغت میں عبادت کہتے ہیں ذلت اور پستی کو طریق معبد اس راستے کو کہتے ہیں جو ذلیل ہو۔ اسی طرح بغیر معبد اس اونٹ کو کہتے ہیں جو بہت دبا اور جھکا ہوا ہو اور شریعت میں عبادت نام ہے محبت، خشوع، خضوع اور خوف کے مجموعے کا۔ لفظ ایاک کو جو مفعول ہے پہلے لائے اور پھر اسی کو دہرایا تاکہ اس کی اہمیت ہو جائے اور عبادت اور طلب مدد اللہ تعالیٰ ہی کے لئے مخصوص ہو جائے تو اس جملہ کے معنی یہ ہوئے کہ ہم تیرے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے اور نہ کریں گے اور تیرے سوا کسی پر بھروسہ نہیں کرتے اور نہ کریں گے۔ کامل اطاعت اور پورے دین کا حل صرف یہی دو حیزیں ہیں۔ بعض سلف کا فرمان ہے کہ سارے قرآن کا راز سورہ فاتحہ میں ہے اور پوری سورت کا راز اس آیت آیت(ایاک نعبد و ایاک نستعین میں ہے۔ آیت کے پہلے حصہ میں شرک سے بیزاری کا اعلان ہے اور دوسرے جملہ میں اپنی طاقتوں اور قوتوں کے کمال کا انکار ہے اور اللہ عزوجل کی طرف اپنے تمام کاموں کی سپردگی ہے۔ اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں قرآن پاک میں موجود ہیں۔ جیسے فرمایا آیت(فاعبدوہ وتوکل علیہ الخ یعنی اللہ ہی کی عبادت کرو اور اسی پر بھروسہ کرو تمہارا رب تمہارے اعمال سے غافل نہیں۔ فرمایا آیت(قل ھو الرحمن الخ کہہ دے کہ وہی رحمان ہے ہم اس پر ایمان لے آئے اور اسی پر ہم نے توکل کیا فرمایا آیت(رب المشرق والمغرب لا الہ الا ھو فاتحذہ وکیلا) یعنی مشرق مغرب کا رب وہی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں تو اسی کو اپنا کارساز سمجھ۔ یہی مضمون اس آیۃ کریمہ میں ہے اس سے پہلے کی آیات میں تو خطاب نہ تھا لیکن اس آیت میں اللہ تعالیٰ سے خطاب کیا گیا ہے جو نہایت لطافت اور مناسبت رکھتا ہے اس لئے کہ جب بندے نے اللہ تعالیٰ کی صفت و ثنا بیان کی تو قرب الٰہی میں حاضر ہو گیا اللہ جل جلالہ کے حضور میں پہنچ گیا، اب اس مالک کو خطاب کر کے اپنی ذلت اور مسکینی کا اظہار کرنے لگا اور کہنے لگا کہ “الہ” ہم تو تیرے ذلیل غلام ہیں اور اپنے تمام کاموں میں تیرے ہی محتاج ہیں۔ اس آیت میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ اس سے پہلے کے تمام جملوں میں خبر تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی بہترین صفات پر اپنی ثناء آپ کی تھی اور بندوں کو اپنی “ثناء” انہی الفاظ کے ساتھ بیان کرنے کا ارشاد فرمایا تھا اسی لئے اس شخص کی نماز صحیح نہیں جو اس سورت کو پڑھنا جانتا ہو اور پھر نہ پڑھے۔ جیسے کہ بخاری مسلم کی حدیث میں حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس شخص کی نماز نہیں جو نماز میں سورہ فاتحہ نہ پڑھے۔ صحیح مسلم شریف میں حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان (نصف نصف) بانٹ لیا ہے اس کا آدھا حصہ میرا ہے اور آدھا حصہ میرے بندے کے لئے ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو وہ طلب کرے۔ جب بندہ آیت(الحمد للہ رب العلمین) کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری حمد بیان کی۔ جب کہتا ہے آیت(الرحمن الرحیم) اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری ثنا کی۔ جب وہ کہتا ہے آیت(مالک یوم الدین اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی۔

عبادت اور طلب مدد

جب وہ آیت(ایاک نعبد و ایاک نستعین) کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو وہ مانگے۔ پھر وہ آخر سورت تک پڑھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ میرے بندے کے لئے ہے اور میرا بندہ جو مجھ سے مانگے اس کے لئے ہے۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں (ایاک نعبد) کے معنی یہ ہیں کہ اے ہمارے رب ہم خاص تیری ہی توحید مانتے ہیں اور تجھ سے ڈرتے ہیں اور تیری اسی ذات سے امید رکھتے ہیں تیرے سوا کسی اور کی نہ ہم عبادت کریں، نہ ڈریں، نہ امید رکھیں۔ اور آیت(ایاک نستعین) سے یہ مراد ہے کہ ہم تیری تمام اطاعت اور اپنے تمام کاموں میں تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ قتادہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا حکم ہے کہ تم سب اسی کی خالص عبادت کرو اور اپنے تمام کاموں میں اسی سے مدد مانگو آیت(ایاک نعبد کو پہلے لانا اس لئے ہے کہ اصل مقصود اللہ تعالیٰ کی عبادت ہی ہے اور مدد کرنا یہ عبادت کا وسیلہ اور اہتمام اور اس پر پختگی ہے اور یہ ظاہر ہے کہ زیادہ اہمیت والی چیز کو مقدم کیا جاتا ہے اور اس سے کمتر کو اس کے بعد لایا جاتا ہے۔ واللہ اعلم۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہاں جمع کے صیغہ کو لانے کی یعنی ہم کہنے کی کیا ضرورت ہے ؟ اگر یہ جمع کے لئے ہے تو کہنے والا تو ایک ہے اور اگر تعظیم کے لئے ہے تو اس مقام پر نہایت نامناسب ہے کیونکہ یہاں تو مسکینی اور عاجزی ظاہر کرنا مقصود ہے اس کا جواب یہ ہے کہ گویا ایک بندہ تمام بندوں کی طرف سے خبر دے رہا ہے۔ بالخصوص جبکہ وہ جماعت میں کھڑا ہو یا امام بنا ہوا ہو۔ پس گویا وہ اپنی اور اور اپنے سب مومن بھائیوں کی طرف سے اقرار کر رہا ہے کہ وہ سب اس کے بندے ہیں اور اسی کی عبادت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور یہ ان کی طرف سے بھلائی کے لئے آگے بڑھا ہوا ہے بعض نے کہا ہے کہ یہ تعظیم کے لئے ہے گویا کہ بندہ جب عبادت میں داخل ہوتا ہے تو اسی کو کہا جاتا ہے کہ تو شریف ہے اور تیری عزت ہمارے دربار میں بہت زیادہ ہے تو اب آیت(ایاک نعبد و ایاک نستعین) کہا یعنی اپنے تئیں عزت سے یاد کر۔ ہاں اگر عبادت سے الگ ہو تو اس وقت ہم نہ کہے چاہے ہزاروں لاکھوں میں ہو کیونکہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کے محتاج اور اس کے دربار کے فقیر ہیں۔ بعض کا قول ہے کہ آیت(ایاک نعبد) میں جو تواضع اور عاجزی ہے وہ ایاک عبدنا میں نہیں اس لئے کہ اس میں اپنے نفس کی بڑائی اور اپنی عبادت کی اہلیت پائی جاتی ہے حالانکہ کوئی بندہ اللہ تعالیٰ کی پوری عبادت اور جیسی چاہے ویسی ثنا و صفت بیان کرنے پر قدرت ہی نہیں رکھتا۔ کسی شاعر کا قول ہے (ترجمہ) کہ مجھے اس کا غلام کہہ کر ہی پکارو کیونکہ میرا سب سے اچھا نام یہی ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا نام عبد یعنی غلام ان ہی جگہوں پر لیا جہاں اپنی بڑی بڑی نعمتوں کا ذکر کیا جیسے قرآن نازل کرنا، نماز میں کھڑے ہونا، معراج کرانا وغیرہ۔ فرمایا آیت(الحمد للہ الذی انزل علی عبدہ) الخ فرمایا آیت(وانہ لما قام عبد اللہ )الخ فرمایا آیت(سبحان الذی اسری بعبدہ) ساتھ ہی قرآن پاک نے یہ تعلیم دی کہ اے نبی جس وقت تمہارا دل مخالفین کے جھٹلانے کی وجہ سے تنگ ہو تو تم میری عبادت میں مشغول ہو جاؤ۔ فرمان ہے آیت(ولقد نعلم یعنی ہم جانتے ہیں کہ مخالفین کی باتیں تیرا دل دکھاتی ہیں تو ایسے وقت اپنے رب کی تسبیح اور حمد بیان کر اور سجدہ کر اور موت کے وقت تک اپنے رب کی عبادت میں لگا رہ۔ رازی نے اپنی تفسیر میں بعض لوگوں سے نقل کیا ہے کہ عبودیت کا مقام رسالت کے مقام سے افضل ہے کیونکہ عبادت کا تعلق مخلوق سے خالق کی طرف ہوتا اور رسالت کا تعلق حق سے خلق کی طرف ہوتا ہے اور اس دلیل سے بھی کہ عبد کی کل اصلاح کے کاموں کا متولی خود اللہ تبارک و تعالیٰ ہوتا ہے اور رسول اپنی امت کی مصلحتوں کا والی ہوتا ہے لیکن یہ قول غلط ہے اور اس کی یہ دونوں دلیلیں بھی بودی اور لاحاصل ہیں۔ افسوس رازی نے نہ تو اس کو ضعیف کہا نہ اسے رد کیا۔ بعض صوفیوں کا قول ہے کہ عبادت یا تو ثواب حاصل کرنے کے لئے ہوتی ہے یا عذاب دفع کرنے کے لئے۔ وہ کہتے ہیں یہ کوئی فائدے کی بات نہیں اس لئے کہ اس وقت مقصود خود اپنی مراد کا حاصل کرنا ٹھہرا۔ اس کی تکالیف کے لئے آمادگی کرنا یہ بھی ضعیف ہے۔ اعلیٰ مرتبہ عبادت یہ ہے کہ انسان اس مقدس ذات کی جو تمام کامل صفتوں سے موصوف ہے محض اس کی ذات کے لئے عبادت کرے اور مقصود کچھ نہ ہو۔ اسی لئے نمازی کی نیت نہ نماز پڑھنے کی ہوتی ہے اگر وہ ثواب پانے اور عذاب سے بچنے کے لئے ہو تو باطل ہے۔ دوسرا گروہ ان کی تردید کرتا ہے اور کہتا ہے کہ عبادت کا اللہ تعالیٰ کے لئے ہونا کچھ اس کے خلاف نہیں کہ ثواب کی طلب اور عذاب کا بچاؤ مطلوب نہ ہو اس کی دلیل یہ ہے کہ ایک اعرابی نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم میں نہ تو آپ جیسا پڑھنا جانتا ہوں نہ حضرت معاذ جیسا میں تو اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کرتا ہوں اور جہنم سے نجات چاہتا ہوں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اسی کے قریب قریب ہم بھی پڑھتے ہیں۔”

۶

حصول مقصد کا بہترین طریقہ

جمہور نے صراط پڑھا ہے۔ بعض نے سراط کہا ہے اور زے کی بھی ایک قراۃ ہے۔ فرا کہتے ہیں بنی عذرہ اور بنی کلب کی قراۃ یہی ہے چونکہ پہلے ثنا و صفت بیان کی تو اب مناسب تھا کہ اپنی حاجت طلب کرے۔ جیسے کہ پہلے حدیث میں گزر چکا ہے کہ اس کا آدھا حصہ میرے لئے ہے اور آدھا میرے بندے کے لئے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو وہ طلب کرے۔ خیال کیجئے کہ اس میں کس قدر لطافت اور عمدگی ہے کہ پہلے پروردگار عالم کی تعریف و توصیف کی، پھر اپنی اور اپنے بھائیوں کی حاجت طلب کی۔ یہ وہ لطیف انداز ہے جو مقصود کو حاصل کرنے اور مراد کو پا لینے کے لئے تیر بہدف ہے ، اس کامل طریقہ کو پسند فرما کر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کی ہدایت کی۔ کبھی سوال اس طرح ہوتا ہے کہ سائل اپنی حالت اور حاجت کو ظاہر کر دیتا ہے جیسے موسیٰ علیہ السلام نے کہا تھا آیت(رب انی لما انزلت الی من خیر فقیر) پروردگار جو بھلائیاں تو میری طرف نازل فرمائے میں اس کا محتاج ہوں۔ حضرت یونس علیہ السلام نے بھی اپنی دعا میں کہا آیت(لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین) الٰہی تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے میں ظالموں میں سے ہوں کبھی سوال اس طرح بھی ہوتا ہے کہ سائل صرف تعریف اور بزرگی بیان کر کے چپ ہو جاتا ہے جیسے کسی شاعر کا قول ہے کہ مجھے اپنی حاجت کے بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تیری مہربانیوں بھری بخشش مجھے کافی ہے میں جانتا ہوں کہ داد و دہش تیری پاک عادتوں میں داخل ہے لیکن تیری پاکیزگی بیان کر دینا، تیری حمد و ثنا کرنا ہی مجھے اپنی حاجت پوری کرنے کے لئے کافی ہے۔ ہدایت کے معنی یہاں پر ارشاد اور توفیق کے ہیں۔ کبھی تو ہدایت بنفسہ متعدی ہوتی ہے جیسے یہاں ہے تو معنی حدیث(الھمنا وفقنا ارزقنا اور اعطنا) یعنی ہمیں عطا فرمائے ہوں گے اور جگہ ہے آیت(وھدیناہ النجدین) یعنی ہم نے اسے دونوں راستے دکھا دئیے بھلائی اور برائی دونوں کے۔ اور کبھی ہدایت “الی” کے ساتھ متعدی ہوتی ہے جیسے فرمایا آیت(اجتباہ وھداہ الی صراط مستقیم) اور فرمایا آیت(فاھدوھم الی صراط الحجیم) یہاں “ہدایت” ارشاد اور دلالت کے معنی میں ہے۔ اسی طرح فرمان ہے آیت(وانک لتھدی) الخ یعنی تو البتہ سیدھی راہ دکھاتا ہے اور کبھی ہدایت لام کے ساتھ متعدی ہوتی ہے جیسے جنتیوں کا قول قرآن کریم میں ہے آیت(الحمد للہ الذی ھدانا لھذا) یعنی اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اس کی راہ دکھائی یعنی توفیق دی اور ہدایت والا بنایا۔ صراط مستقیم کے معنی سنئے۔ امام ابو جعفر ابن جریر فرماتے ہیں مراد اس سے واضح اور صاف راستہ ہے جو کہیں سے ٹیڑھا نہ ہو۔ عرب کی لغت میں اور شاعروں کے شعر میں یہ معنی صاف طور پر پائے جاتے ہیں اور اس پر بے شمار شواہد موجود ہیں۔ صراط کا استعمال بطور استعارہ کے قول اور فعل پر بھی آتا ہے اور پھر اس کا وصف استقامت اور ٹیڑھا پن کے ساتھ بھی آتا ہے۔ سلف اور متاخرین مفسرین سے اس کی بہت سی تفسیریں منقول ہیں اور ان سب کا خلاصہ ایک ہی ہے اور وہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع اور تابعداری ہے۔

صراط مستقیم کیا ہے ؟

ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ صراط مستقیم کتاب اللہ ہے۔ ابن ابی حاتم اور ابن جریر نے بھی روایت کی ہے فضائل قرآن کے بارے میں پہلے حدیث گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مضبوط رسی، حکمتوں والا ذکر اور سیدھی راہ یعنی صراط مستقیم یہی اللہ کی کتاب قرآن کریم ہے۔ مسند احمد ترمذی حضرت علی کا قول بھی یہی ہے اور مرفوع حدیث کا بھی موقوف ہونا ہی زیادہ مشابہ ہے واللہ اعلم۔ حضرت عبد اللہ سے بھی یہی روایت ہے ابن عباس کا قول ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم آیت(اھدنا الصراط مستقیم) کہئے یعنی ہمیں ہدایت والے راستہ کا الہام کر اور اس دین قیم کی سمجھ دے جس میں کوئی کجی نہیں۔ آپ سے یہ قول بھی مروی ہے کہ اس سے مراد اسلام ہے۔ ابن عباس، ابن مسعود اور بہت سے صحابہ سے بھی یہی تفسیر منقول ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں صراط مستقیم سے مراد اسلام ہے جو ہر اس چیز سے جو آسمان اور زمین کے درمیان ہے زیادہ وسعت والا ہے۔ ابن حنفیہ فرماتے ہیں اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا وہ دین ہے جس کے سوا اور دین مقبول نہیں۔ عبدالرحمن بن زید بن اسلم کا قول ہے کہ صراط مستقیم اسلام ہے۔ مسند احمد کی ایک حدیث میں بھی مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مثال بیان کی کہ صراط مستقیم کے دونوں طرف دو دیواریں ہیں، ان میں کئی ایک کھلے ہوئے دروازے اور دروازوں پر پردے لٹک رہے ہیں، صراط مستقیم کے دروازے پر ایک پکارنے والا مقرر ہے ، جو کہتا ہے کہ اے لوگو! تم سب کے سب اسی سیدھی راہ پر چلے جاؤ، ٹیڑھی ترچھی ادھر ادھر کی راہوں کو نہ دیکھو نہ ان پر جاؤ۔ اور اس راستے سے گزرنے والا کوئی شخص جب ان دروازوں میں سے کسی ایک کو کھولنا چاہتا ہے تو ایک پکارنے والا کہتا ہے خبردار اسے نہ کھولنا۔ اگر کھولا تو اس راہ لگ جاؤ گے اور صراط مستقیم سے ہٹ جاؤ گے۔ پس صراط مستقیم تو اسلام ہے اور دیواریں اللہ کی حدیں ہیں اور کھلے ہوئے دروازے اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزیں ہیں اور دروازے پر پکارنے والا قرآن کریم ہے اور راستے کے اوپر سے پکار نے والا زندہ ضمیر ہے جو ہر ایماندار کے دل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور واعظ کے ہوتا ہے۔ یہ حدیث ابن ابی حاتم ابن جریر ترمذی اور نسائی میں بھی ہے اور اس کی اسناد حسن صحیح ہیں واللہ اعلم۔ مجاہد فرماتے ہیں اس سے مراد حق ہے۔ ان کا قول سب سے زیادہ مقبول ہے اور مذکورہ اقوال کا کوئی مخالف نہیں۔ ابو العالیہ فرماتے ہیں اس سے مراد نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے بعد کے آپ کے دونوں خلیفہ ہیں۔ ابو العالیہ اس قول کی تصدیق اور تحسین کرتے ہیں دراصل یہ سب اقوال صحیح ہیں اور ایک دوسرے سے ملے جلے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے دونوں خلفاء صدیق و فاروق کا تابعدار حق کا تابع ہے اور حق کا تابع اسلام کا تابع ہے اور اسلام کا تابع قرآن کا مطیع ہے اور قرآن اللہ کی کتاب اس کی طرف کی مضبوط رسی اور اس کی سیدھی راہ ہے۔ لہٰذا صراط مستقیم کی تفسیر میں یہ تمام اقوال صحیح ہیں اور ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں۔ فالحمد للہ۔ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں۔ صراط مستقیم وہ ہے جس پر ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے چھوڑا۔ امام ابو جعفر بن جریر رحمۃ اللہ علیہ کا فیصلہ ہے کہ میرے نزدیک اس آیت کی تفسیر میں سب سے اولیٰ یہ ہے کہ ہم کو توفیق دی جائے اس کی جو اللہ کی مرضی کی ہو اور جس پر چلنے کی وجہ سے اللہ اپنے بندوں سے راضی ہوا ہو اور ان پر انعام کیا ہو، صراط مستقیم یہی ہے۔ اس لئے کہ جس شخص کو اس کی توفیق مل جائے جس کی توفیق اللہ کے نیک بندوں کو تھی جن پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہوا تھا جو نبی، صدیق، شہید اور صالح لوگ تھے انہوں نے اسلام کی اور رسولوں کی تصدیق کی، کتاب اللہ کو مضبوط تھام رکھا، اللہ تعالیٰ کے احکام کو بجا لائے۔ اس کے منع کئے ہوئے کاموں سے رک گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے چاروں خلیفوں اور تمام نیک بندوں کی راہ کی توفیق مل جائے گی تو یہی صراط مستقیم ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ مومن کو تو اللہ کی طرف سے ہدایت حاصل ہو چکی ہے پھر نماز اور غیر نماز میں ہدایت مانگنے کی کیا ضرورت ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ مراد اس سے ہدایت پر ثابت قدمی اور رسوخ اور بینائی اور ہمیشہ کی طلب ہے اس لئے کہ بندہ ہر ساعت اور ہر حالت میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا محتاج ہے وہ خود اپنی جان کے نفع نقصان کا مالک نہیں بلکہ دن رات اپنے اللہ کا محتاج ہے اسی لئے اسے سکھایا کہ ہر وقت وہ اللہ تعالیٰ سے ہدایت طلب کرتا رہے اور ثابت قدمی اور توفیق چاہتا رہے۔ بھلا اور نیک بخث انسان وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ اپنے در کا بھکاری بنا لے وہ اللہ ہر پکارنے والے کی پکار کے قبول کرنے کا کفیل ہے۔ بالخصوص بے قرار محتاج اور اس کے سامنے اپنی حاجت دن رات پیش کرنے والے کی ہر پکار کو قبول کرنے کا وہ ضامن ہے۔ اور جگہ قرآن کریم میں ہے۔ آیت(یاایھا الذین امنوا امنوا باللہ) الخ اے ایمان والو اللہ پر، اس کے رسولوں پر اس کی اس کتاب پر، جو اس نے اپنے رسول کی طرف نازل فرمائی اور جو کتابیں اس سے پہلے نازل ہوئیں، سب پر ایمان لاؤ۔ اس آیت میں ایمان والوں کو ایمان لانے کا حکم دینا اور ہدایت والوں کو ایمان لانے کا حکم دینا ایسا ہی ہے جیسے یہاں ہدایت والوں کو ہدایت کی طلب کرنے کا حکم دینا۔ مراد دونوں جگہ ثابت قدمی اور اور استمرار ہے اور ایسے اعمال پر ہمیشگی کرنا جو اس مقصد کے حاصل کرنے میں مدد پہنچائیں۔ اس پر یہ اعتراض وارد ہو بھی نہیں سکتا کہ یہ حاصل شدہ چیز کا حاصل کرنا ہے۔ واللہ اعلم۔ اور دیکھئے اللہ رب العزت نے اپنے ایمان دار بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ کہیں آیت(ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذ ھدیتنا وھب لنا میں لدنک) رحمۃ انک انت الوھاب یعنی اے ہمارے رب ہمارے دلوں کو ہدایت کے بعد ٹیڑھا نہ کر اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما تو بہت بڑا دینے والا اور عطا کرنے والا ہے۔ یہ بھی وارد ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز مغرب کی تیسری رکعت سورہ فاتحہ کے بعد اس آیت کو پوشیدگی سے پڑھا کرتے تھے پس آیت(اھدنا الصراط المستقیم) کے معنی یہ ہوئے کہ الٰہ ہمیں صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھ اور اس سے ہمیں نہ ہٹا۔”
 

Zia_Hayderi

TM Star
Mar 30, 2007
2,468
1,028
1,213
۷

انعام یافتہ کون؟

اس کا بیان پہلے گزر چکا ہے کہ بندے کے اس قول پر اللہ کریم فرماتا ہے یہ میرے بندے کے لئے ہے اور میرے بندے کے لئے ہے جو کچھ وہ مانگے یہ آیت صراط مستقیم کی تفسیر ہے اور نحویوں کے نزدیک یہ اس سے بدل ہے اور عطف بیان بھی ہو سکتی ہے واللہ اعظم۔ اور جن پر اللہ کا انعام ہوا ان کا بیان سورہ نساء میں آچکا ہے فرمان ہے آیت(ومن یطع اللہ والرسول فاؤلئک مع الذین انعم اللہ علیھم) الخ یعنی اللہ اور اس رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے کہے پر عمل کرنے والے ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ کا انعام ہے جو نبی، صدیق، شہید، صالح لوگ ہیں، یہ بہترین ساتھی اور اچھے رفیق ہیں۔ یہ فضل ربانی ہے اور اللہ جاننے والا کافی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ اللہ جل شانہ تو مجھے ان فرشتوں، نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور صالحین کی راہ پر چلا جن پر تو نے اپنی اطاعت و عبادت کی وجہ سے انعام نازل فرمایا۔ یہ آیت ٹھیک آیت(ومن یطع اللہ) کی طرح ہے۔ ربیع بن انس کہتے ہیں اس سے مراد انبیاء ہیں۔ ابن عباس اور مجاہد فرماتے ہیں مومن ہیں۔ وکیع کہتے ہیں مسلمان۔ عبدالرحمن فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے صحابہ مراد ہیں۔ ابن عباس کا قول زیادہ معقول اور قابل تسلیم ہے واللہ اعلم۔ جمہور کی قرات میں غیرے کے زیر کے ساتھ ہے اور صفت ہے۔ زمحشری کہتے ہیں رے کی زبر کے ساتھ پڑھا گیا ہے اور حال ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت عمر بن خطاب کی قرات یہی ہے اور ابن کثیر سے بھی یہی روایت کی گئی ہے۔ علیھم میں جو ضمیر ہے وہ اس کا ذوالحال ہے اور انعمت عامل ہے۔ معنی یہ ہوئے کہ اللہ جل شانہ تو ہمیں سیدھا راستہ دکھا ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا۔ جو ہدایت اور استقامت والے تھے اور اللہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے اطاعت گزار، اس کے حکموں پر عمل کرنے والے ، اس کے منع کئے ہوئے کاموں سے رک رہنے والے تھے۔

مغضوب کون؟

ان کی راہ سے بچا، جن پر غضب و غصہ کیا گیا، جن کے ارادے فاسد ہو گئے ، حق کو جان کر پھر اس سے ہٹ کر اور گم گشتہ راہ لوگوں کے طریقے سے بھی ہمیں بچا لے جو سرے سے علم نہیں رکھتے مارے مارے پھرتے ہیں راہ سے بھٹکے ہوئے حیران و سرگرداں ہیں اور راہ حق کی طرف رہنمائی نہیں کئے جانے کو دوبارہ لا کر کلام کی تاکید کرنا اس لئے ہے کہ معلوم ہو جائے کہ یہاں دو غلط راستے ہیں، ایک یہود کا دوسرا نصاریٰ کا۔ بعض نحوی کہتے ہیں کہ غیر کا لفظ یہاں پر استثناء کے لئے ہے تو استثناء منقطع ہو سکتا ہے کیونکہ جن پر انعام کیا گیا ہے ان میں سے استثناء ہونا تو درست ہے۔ مگر یہ لوگ انعام والوں میں داخل ہی نہ تھے لیکن ہم نے جو تفسیر کی ہے یہ بہت اچھی ہے۔ عرب شاعروں کے شعر میں ایسا پایا جاتا ہے کہ وہ موصوف کو حذف کر دیتے ہیں اور صرف صفت بیان کر دیا کرتے ہیں۔ اسی طرح اس آیت میں بھی صفت کا بیان ہے اور موصوف محذوف ہے۔ غیر المغضوب سے مراد غیر صراط المغضوب ہے۔ مضاف الیہ کے ذکر سے کفایت کی گئی اور مضاف بیان نہ کیا گیا اس لئے کہ نشست الفاظ ہی اس پر دلالت کر رہی ہے۔ پہلے دو مرتبہ یہ لفظ آچکا ہے۔ بعض کہتے ہیں آیت(ولا الضالین) میں لا زائد ہے اور ان کے نزدیک تقدیر کلام اس طرح ہے آیت(غیر المغضوب علیھم والضالحین) اور اس کی شہادت عرب شاعروں کے شعر سے بھی ملتی ہے لیکن صحیح بات وہی ہے جو ہم پہلے لکھ چکے ہیں۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آیت(غیر المغضوب علیھم وغیر الضالین) پڑھنا صحیح سند سے مروی ہے اور اسی طرح حضرت ابی بن کعب سے بھی روایت ہے اور یہ محمول ہے اس پر کہ ان بزرگوں سے یہ بطور تفسیر صادر ہوا۔ تو ہمارے قول کی تائید ہوئی کہ لا نفی کی تاکید کے لئے ہی لایا گیا ہے تاکہ یہ وہی نہ ہو کہ یہ انعمت علیھم پر عطف ہے اور اس لئے بھی کہ دونوں راہوں کا فرق معلوم ہو جائے تاکہ ہر شخص ان دونوں سے بھی بچتا رہے۔ اہل ایمان کا طریقہ تو یہ ہے کہ حق کا علم بھی ہو اور حق پر عمل بھی ہو۔ یہودیوں کے ہاں علم نہیں اور نصاریٰ کے ہاں علم نہیں اسی لئے یہودیوں پر غضب ہوا اور نصرانیوں کو گمراہی ملی۔ اس لئے کہ علم کے باوجود عمل کو چھوڑنا غضب کا سبب ہے اور نصرانی گو ایک چیز کا قصد کرنے کے باوجود صحیح راستہ کو نہیں پا سکتے اس لئے کہ ان کا طریقہ کار غلط ہے اور اتباع حق سے ہٹے ہوئے ہیں یوں تو غضب اور گمراہی ان دونوں جماعتوں کے حصہ میں ہے لیکن یہودی غضب کے حصہ میں پیش پیش ہیں۔ جیسے کہ اور جگہ قرآن کریم میں ہے آیت(من لعنہ اللہ وغضب علیہ) اور نصرانی ضلالت میں بڑھے ہوئے ہیں۔ فرمان الٰہی ہے۔ آیت(قدضلوا من قبل واضلوا کثیرا وضلوا عن سواء السببیل) یعنی یہ پہلے ہی سے گمراہ ہیں اور بہتوں کو گمراہ کر بھی چکے ہیں اور سیدھی راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں۔ اس کی تائید میں بہت سی حدیثیں اور روایتیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ مسند احمد میں ہے۔ حضرت عدی بن حاتم فرماتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے لشکر نے میری پھوپھی اور چند لوگوں کو گرفتار کر کے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں پیش کیا تو میری پھوپھی نے کہا میری خبر گیری کرنے والا غائب ہے اور میں عمر رسیدہ بڑھیا ہوں جو کسی خدمت کے لائق نہیں آپ مجھ پر احسان کیجئے اور مجھے رہائی دیجئے۔ اللہ تعالیٰ آپ پر بھی احسان کرے گا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے دریافت کیا کہ تیری خیر خبر لینے والا کون ہے اس نے کہا عدی بن حاتم آپ نے فرمایا وہی جو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے بھاگتا پھرتا ہے ؟ پھر آپ نے اسے آزاد کر دیا۔ جب لوٹ کر آپ آئے تو آپ کے ساتھ ایک شخص تھے اور غالباً وہ حضرت علی تھے آپ نے فرمایا لو ان سے سواری مانگ لو۔ میری پھوپھی نے ان سے درخواست کی جو منظور ہوئی اور سواری مل گئی۔ وہ یہاں سے آزاد ہو کر میرے پاس آئیں اور کہنے لگیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی سخاوت نے تیرے باپ حاتم کی سخاوت کو بھی ماند کر دیا۔ آپ کے پاس جو آتا ہے وہ خالی ہاتھ واپس نہیں جاتا۔ یہ سن کر میں بھی حضور کی خدمت میں حاضر ہوا میں نے دیکھا کہ چھوٹے بچے اور بڑھیا عورتیں بھی آپ کی خدمت میں آتی جاتی ہیں اور آپ ان سے بھی بے تکلفی کے ساتھ بولتے ہیں۔ اس بات نے مجھے یقین دلایا دیا کہ آپ قیصر و کسریٰ کی طرح بادشاہت اور وجاہت کے طلب کرنے والے نہیں۔ آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا عدی آیت(لا الہ الا اللہ) کہنے سے کیوں بھاگتے ہو؟ کیا اللہ کے سوا اور کوئی عبادت کے لائق ہے ؟ آیت(اللہ اکبر) کہنے سے کیوں منہ موڑتے ہو؟ کیا اللہ عزوجل سے بھی بڑا کوئی ہے ؟ مجھ پر ان کلمات نے آپ کی سادگی اور بے تکلفی کا ایسا اثر کیا کہ میں فوراً کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا۔ جس سے آپ بہت خوش ہوئے اور فرمانے لگے آیت(مغضوب علیھم) سے مراد یہود ہیں اور آیت(الضالین) سے مراد نصاریٰ ہیں۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ حضرت عدی کے سوال پر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ تفسیر ارشاد فرمائی تھی۔ اس حدیث کی بہت سی سندیں ہیں اور مختلف الفاظ سے مروی ہے۔ بنوقین کے ایک شخص نے وادی القریٰ میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے یہی سوال کیا آپ نے جواب میں یہی فرمایا۔ بعض روایتوں میں ان کا نام عبد اللہ ابن عمرو ہے واللہ اعلم۔ ابن مردویہ میں ابو ذر سے بھی یہی روایت ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس حضرت ابن مسعود اور بہت سے صحابیوں سے بھی یہ تفسیر منقول ہے۔ ربیع بن انس، عبدالرحمن بن زید بن اسلم وغیرہ بھی یہی فرماتے ہیں بلکہ ابن ابی حاتم تو فرماتے ہیں مفسرین میں اس بارے میں کوئی اختلاف ہی نہیں۔ ان ائمہ کی اس تفسیر کی دلیل ایک تو وہ حدیث ہے جو پہلے گزری۔ دوسری سورہ بقرہ کی یہ آیت جس میں بنی اسرائیل کو خطاب کر کے کہا گیا ہے آیت(بئس ما اشتروابہ) الخ اس آیت میں کہ اس پر غضب پر غضب نازل ہوا۔ اور سورہ مائدہ کی آیت (قل ھل انبئکم بشر) الخ میں بھی ہے کہ ان پر غضب الٰہی نازل ہوا اور جگہ فرمان الٰہی ہے آیت(لعن الذین کفروا) یعنی بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کیا ان پر لعنت کی گئی۔ دواؤد علیہ السلام اور عیسیٰ بن مریم علیھما السلام کی زبانی یہ ان کی نافرمانی اور حد سے گزر جانے کی وجہ سے ہے۔ یہ لوگ کسی برائی کے کام سے آپس میں روک ٹوک نہیں کرتے تھے یقیناً ان کے کام بہت برے تھے اور تاریخ کی کتابو ں میں ہے کہ زید بن عمرو بن نفیل جبکہ دین خالص کی تلاش میں اپنے ساتھیوں سمیت نکلے اور ملک شام میں آئے تو ان سے یہودیوں نے کہا کہ آپ ہمارے دین میں تب تک داخل نہیں ہو سکتے جب تک غضب الٰہی کا ایک حصہ نہ پا لو۔ انہوں نے جواب دیا کہ اس سے بچنے کے لئے تو دین حق کی تلاش میں نکلے ہیں پھر اسے کیسے قبول کر لیں؟ پھر نصرانیوں سے ملے انہوں نے کہا جب تک اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا مزا نہ چکھ لو تب تک آپ ہمارے دین میں نہیں آ سکتے۔ انہوں نے کہا ہم یہ بھی نہیں کر سکتے چنانچہ وہ اپنی فطرت پر ہی رہے۔ بتوں کی عبادت اور قوم کا دین چھوڑ دیا لیکن یہودیت یا نصرانیت اختیار نہ کی۔ البتہ زید کے ساتھیوں نے عیسائی مذہب قبول کر لیا۔ اس لئے کہ یہودیوں کے مذہب سے یہ ملتا جلتا تھا۔ انہی میں حضرت ورقہ بن نوفل تھے انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت کا زمانہ ملا اور ہدایت الٰہی نے ان کی رہبری کی اور یہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لائے اور جو وحی اس وقت تک اتری تھی اس کی تصدیق کی رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔

مسئلہ

ضاد اور ظے کی قرات میں بہت باریک فرق ہے اور ہر ایک کے بس کا نہیں۔ اس لئے علمائے کرام کا صحیح مذہب یہ ہے کہ یہ فرق معاف ہے ، ضاد کا صحیح مخرج تو یہ ہے کہ زبان کا اول کنارہ اور اس کے پاس کی داڑھیں اور ظے کا مخرج زبان کا ایک طرف اور سامنے والے اوپر کے دو دانت کے کنارے۔ دوسرے یہ کہ یہ دونوں حرف مجہورہ اور رخوہ اور مطبقہ ہیں پس اس شخص کو جسے ان دونوں میں تمیز کرنی مشکل معلوم ہو، اسے معاف ہے کہ ضاد کو ظے کی طرح پڑھ لے۔ ایک حدیث میں ہے کہ میں ضاد کو سب سے زیادہ صحیح پڑھنے والا ہوں لیکن یہ حدیث بالکل بے اصل اور لاپتہ ہے۔

الحمد کا تعارف و مفہوم

یہ مبارک سورت نہایت کار آمد مضامین کا مجموعہ ہے ان سات آیتوں میں اللہ تعالیٰ کی حمد، اس کی بزرگی، اس کی ثنا و صفت اور اس کے پاکیزہ ناموں اور اس کی بلند و بالا صفتوں کا بیان ہے ساتھ ہی قیامت کے دن کا ذکر ہے اور بندوں کو ارشاد ہے کہ وہ اس مالک سے سوال کریں اس کی طرف تضرع و زاری کریں اپنی مسکینی اور بے کسی اور بے بسی کا اقرار کریں اور اس کی عبادت خلوص کے ساتھ کریں اور اس کی توحید الوہیت کا اقرار کریں۔ تاکہ یہی ہدایت انہیں قیامت والے دن پل صراط سے بھی پار اتارے اور نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور صالحوں کے پڑوس میں جنت الفردوس میں جگہ دلائے۔ ساتھ ہی اس سورت میں نیک اعمال کی ترغیب ہے تاکہ قیامت کے دن نیکوں کا ساتھ ملے اور باطل راہوں پر چلنے سے ڈراوا پیدا ہو تاکہ قیامت کے دن بھی یہ باطل پرست یہودو نصاریٰ کی جماعت سے دور ہی رہیں۔ اس باریک نکتہ پر بھی غور کیجئے کہ انعام کی اسناد تو اللہ تعالیٰ کی طرف کی گئی اور انعمت کہا گیا لیکن غضب کی اسناد اللہ کی طرف نہیں کی گئی یہاں فاعل حذف کر دیا اور آیت(مغضوب علیھم کہا گیا اس میں پروردگار عالم کی جناب میں ادب کیا گیا ہے۔ دراصل حقیقی فاعل اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ جیسے اور جگہ ہے آیت(غضب اللہ علیھم) اور اسی طرح ضلالت کی اسناد بھی ان کی طرف کی کئی جو گمراہ ہیں حالانکہ اور جگہ ہے آیت(من یہد اللہ فھوالمھتد ومن یضلل) الخ یعنی اللہ جسے راہ دکھائے وہ راہ یافتہ ہے اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کا رہنما کوئی نہیں۔ اور جگہ فرمایا آیت(من یضلل اللہ فلا ھادی لہ) الخ یعنی جسے اللہ گمراہ کر دے اس کا ہادی کوئی نہیں وہ تو اپنی سرکشی میں بہکے رہتے ہیں۔ اسی طرح کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں جن سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ راہ دکھانے والا گمراہ کرنے والا صرف سبحانہ و تعالیٰ ہی ہے قدریہ فرقہ جو ادھر ادھر کی متشابہ آیتوں کو دلیل بنا کر کہتا ہے کہ بندے خود مختار ہیں وہ خود پسند کرتے ہیں وہی کرتے ہیں۔ یہ غلط ہے صریح اور صاف صاف آیتیں ان کے رد میں موجود ہیں لیکن باطل پرست فرقوں کا یہی قاعدہ ہے کہ صراحت کو چھوڑ کر متشابہ کے پیچھے لگا کرتے ہیں۔ صحیح حدیث میں ہے کہ جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو متشابہ آیتوں کے پیچھے لگتے ہیں تو سمجھ لو کہ انہی لوگوں کا اللہ تعالیٰ نے نام لیا ہے تم ان کو چھوڑ دو۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا اشارہ اس فرمان میں اس آیت شریف کی طرف ہے۔ آیت(فاماالذین فی قلوبھم زیغ) یعنی جن لوگوں کے دل میں کجی ہے وہ متشابہ ہے کے پیچھے لگتے ہیں فتنوں اور تاویل کو ڈھونڈنے کے لئے آیت(الحمد للہ) بدعتیوں کے لئے قرآن پاک میں صحیح دلیل کوئی نہیں۔ قرآن کریم تو حق و باطل ہدایت و ضلالت میں فرق کرنے کے لئے آیا ہے اس میں تناقض اور اختلاف نہیں۔ یہ تو اللہ حکیم و حمید کا نازل کردہ ہے۔

آمین اور سورہ فاتحہ

سورہ فاتحہ کو ختم کر کے آمین کہنا مستحب ہے۔ آمین مثل یاسین کے ہے اور آمین بھی کہا گیا ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ اے اللہ تو قبول فرما۔ آمین کہنے کے مستحب ہونے کی دلیل وہ حدیث ہے جو مسند احمد، ابو داؤد اور ترمذی میں وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آیت(غیرالمغضوب علیھم ولا الضالین) کہہ کر آمین کہتے تھے اور آواز دراز کرتے تھے۔ ابو داؤد میں ہے آواز بلند کرتے تھے۔ امام ترمذی اس حدیث کو حسن کہتے ہیں۔ حضرت علی حضرت ابن مسعود حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی آمین پہلی صف والے لوگ جو آپ کے قریب ہوتے سن لیتے۔ ابو داؤد اور ابن ماجہ میں یہ حدیث ہے۔ ابن ماجہ میں یہ بھی ہے کہ آمین کی آواز سے مسجد گونج اٹھتی تھی۔ دارقطنی میں بھی یہ حدیث ہے اور دارقطنی بتاتے ہیں کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہتے تھے۔ مجھ سے پہلے آمین نہ کہا کیجئے (ابو داؤد) حسن بصریٰ اور جعفر صادق سے آمین کہنا مروی ہے۔ جیسے کہ آیت(امین البیت الحرام) قرآن میں ہے۔ ہمارے اصحاب وغیرہ کہتے ہیں جو نماز میں نہ ہو اسے بھی آمین کہنا چاہئے۔ ہاں جو نماز میں ہو اس پر تاکید زیادہ ہے۔ نمازی خود اکیلا ہو، خواہ مقتدی ہو، خواہ امام ہو، ہر حالت میں آمین کہے۔ صحیحین میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب امام آمین کہے تم بھی آمین کہو جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل جائے اس کے تمام سابقہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ مسلم شریف میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنی نماز میں آمین کہتا ہے اور فرشتے آسمان میں آمین کہتے ہیں اور ایک کی آمین دوسرے کی آمین سے مل جاتی ہے تو اس کے تمام پہلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اس کی آمین کا اور فرشتوں کی آمین کا وقت ایک ہی ہو جائے یا موافقت سے مراد قبولیت میں موافق ہونا ہے یا اخلاص میں۔ صحیح مسلم میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ جب امام ولاالضالین کہے تو آمین کہو اللہ قبول فرمائے گا۔ ابن عباس نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا آمین کے کیا معنی ہیں۔ آپ نے فرمایا اے اللہ تو کر۔ جوہری کہتے ہیں اس کے معنی “اسی طرح ہو” ہیں۔ ترمذی کہتے ہیں اس کے معنی ہیں کہ ہماری امیدوں کو نہ توڑ۔ اکثر علماء فرماتے ہیں اس کے معنی “اے اللہ تو ہماری دعا قبول فرما” کے ہیں۔ مجاہد، جعفر صادق ہلال بن سیاف فرماتے ہیں کہ آمین اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ ابن عباس سے مرفوعاً بھی یہ مروی ہے لیکن صحیح نہیں۔ امام مالک کے اصحاب کا مذہب ہے کہ امام آمین نہ کہے مقتدی آمین کہے کیونکہ موطا مالک کی حدیث میں ہے کہ جب امام ولاالضالین کہے تو تم آمین کہو۔ اسی طرح ان کی دلیل کی تائید میں صحیح مسلم والی ابو موسیٰ اشعری کی یہ روایت بھی آتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب امام ولاالضالین کہے تو تم آمین کہو۔ لیکن بخاری مسلم کی حدیث پہلے بیان ہو چکی کہ جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو۔ اور یہ بھی حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پڑھ کر آمین کہتے تھے۔

“آمین” با آواز بلند

جہری نمازوں میں مقتدی اونچی آواز سے آمین کہے یا نہ کہے ، اس میں ہمارے ساتھیوں کا اختلاف ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر امام آمین کہنی بھول گیا ہو تو مقتدی با آواز بلند آمین کہیں۔ اگر امام نے خود اونچی آواز سے آمین کہی ہو تو نیا قول یہ ہے کہ مقتدی با آواز بلند نہ کہیں۔ امام ابو حنیفہ کا یہی مذہب ہے۔ اور ایک روایت میں امام مالک سے بھی مروی ہے اس لئے کہ نماز کے اور اذکار کی طرح یہ بھی ایک ذکر ہے تو نہ وہ صرف بلند آواز سے پڑھے جاتے ہیں نہ یہ بلند آواز سے پڑھا جائے۔ لیکن پہلا قول یہ ہے کہ آمین بلند آواز سے کہی جائے۔ حضرت امام احمد بن حنبل کا بھی یہی مذہب ہے اور حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا بھی دوسری روایت کے اعتبار سے یہی مذہب ہے اور اس کی دلیل وہی حدیث ہے جو پہلے بیان ہو چکی کہ آمین کی آواز سے مسجد گونج اٹھتی تھی۔ ہمارے یہاں پر ایک تیسرا قول بھی ہے کہ اگر مسجد چھوٹی ہو تو مقتدی با آواز بلند آمین نہ کہیں اس لئے کہ وہ امام کی قرات سنتے ہیں اور اگر بڑی ہو تو اونچی آواز سے آمین کہیں تاکہ مسجد کے کونے کونے میں آمین پہنچ جائے واللہ اعلم۔ صحیح مسئلہ یہ ہے کہ جن نمازوں میں اونچی آواز سے قرات پڑھی جاتی ہے ان میں اونچی آواز سے آمین کہنی چاہئے۔ خواہ مقتدی ہو خواہ امام ہو، خواہ منفرد، مترجم، مسند احمد میں صرف عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس یہودیوں کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ ہماری تین چیزوں پر یہودیوں کو اتنا بڑا حسد ہے کہ کسی اور چیز پر نہیں۔ ایک تو جمعہ کو اللہ نے ہمیں اس کی ہدایت کی اور یہ بہک گئے دوسرے قبلہ، تیسرے ہمارا امام کے پیچھے آمین کہنا۔ ابن ماجہ کی حدیث میں یوں ہے کہ یہودیوں کو سلام پر اور آمین پر جتنی چڑ ہے اتنی کسی اور چیز پر نہیں۔ اور حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت میں ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ تمہارا جس قدر حسد یہودی آمین پر کرتے ہیں اس قدر حسد اور امر پر نہیں کرتے تم بھی آمین بکثرت کہا کرو۔ اس کی اسناد میں طلحہ بن عمرو راوی ضعیف ہیں۔ ابن مردویہ میں بروایت حضرت ابو ہریرہ مروی ہے کہ آپ نے فرمایا آمین اللہ تعالیٰ کی مہر ہے اپنے مومن بندوں پر۔ حضرت انس والی حدیث میں ہے کہ نماز میں آمین کہنی اور دعا پر آمین کہنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے عطا کی گئی ہے جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئی۔ ہاں اتنا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کی ایک خاص دعا پر حضرت ہارون علیہ السلام آمین کہتے تھے۔ تم اپنی دعاؤں کو آمین پر ختم کیا کرو۔ اللہ تعالیٰ انہیں تمہارے حق میں قبول فرمایا کرے گا۔ اس حدیث کو پیش نظر رکھ کر قرآن کریم کے ان الفاظ کو دیکھئے جن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا آیت(ربنا انک اتیت فرعون) الخ ہے یعنی الٰہی تو نے فرعون اور فرعونیوں کو دنیا کی زینت اور مال دنیا زندگانی میں عطا فرمایا ہے جس سے وہ تیری راہ سے دوسروں کو بہکا رہے ہیں۔ اللہ ان کے مال برباد کر اور ان کے دل سخت کر، جب تک درد ناک عذاب نہ دیکھ لیں یہ ایمان نہ لائیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اس دعا کی قبولت کا اعلان ان الفاظ میں ہوتا ہے آیت(قداجیبت دعوتکما) الخ یعنی تم دونوں کی دعا قبول کی گئی۔ تم مضبوط رہو اور بے علموں کی راہ نہ جاؤ۔ دعا صرف حضرت موسیٰ کرتے تھے اور حضرت ہارون صرف آمین کہتے تھے لیکن قرآن نے دعا کی نسبت دونوں کی طرف کی۔ اس سے بعض لوگوں نے استدلال کیا ہے کہ جو شخص کسی دعا پر آمین کہے وہ گویا خود وہ دعا کر رہا ہے۔ اب اس استدلال کو سامنے رکھ کر وہ قیاس کرتے ہیں کہ مقتدی قرات نہ کرے ، اس لئے کہ اس کا سورہ فاتحہ کے بعد آمین کہنا پڑھنے کے قائم مقام ہے اور اس حدیث کو بھی دلیل میں لاتے ہیں کہ جس کا امام ہو تو اس کے امام کی قرات اس کی قرات ہے۔ (مسند احمد) حضرت بلال کہا کرتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم آمین میں مجھ سے سبقت نہ کیا کیجئے۔ اس کھینچا تانی سے مقتدی پر جہری نمازوں میں الحمد کا نہ پڑھنا ثابت کرنا چاہتے ہیں واللہ اعلم۔ (یہ یاد رہے کہ اس کی مفصل بحث پہلے گزر چکی ہے ) حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب امام آیت(غیر المغضوب علیھم ولاالضالین) کہہ کر آمین کہتا ہے آسمان والوں کی آمین زمین والوں کی آمین سے مل جاتی ہے اللہ تعالیٰ بندے کے تمام پہلے گناہ معاف فرما دیتا ہے۔ آمین نہ کہنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص ایک قوم کے ساتھ مل کر غزوہ کرے ، غالب آئے مالِ غنیمت جمع کرے ، اب قرعہ ڈال کر حصہ لینے لگے تو اس شخص کے نام قرعہ نکلے ہی نہیں اور کوئی حصہ نہ ملے وہ کہے “یہ کیوں۔ ” تو جواب ملے تیرے آمین نہ کہنے کی وجہ سے۔ !”A
 

Zia_Hayderi

TM Star
Mar 30, 2007
2,468
1,028
1,213
تفسیر سورۃ بقرۃ

اس مبارک سورت کے فضائل کا بیان

حضرت معقل بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔” سورہ بقرہ قرآن کا کوہان ہے اور اس کی بلندی کا یہ عالم ہے کہ اس کی ایک ایک آیت کے ساتھ اسی اسی (۸۰) فرشتے نازل ہوتے تھے اور بالخصوص آیت الکرسی تو خاص عرش تلے نازل ہوئی اور اس سورت میں شامل کی گئی۔ ” سورہ یٰسین قرآن کا دل ہے جو شخص اسے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور آخرت طلبی کے لئے پڑھے اسے بخش دیا جاتا ہے۔ “اس سورت کو مرنے والوں کے سامنے پڑھا کرو” (مسند احمد) اس حدیث کی سند میں ایک جگہ عن رجل ہے تو یہ نہیں معلوم ہوتا تھا کہ اس سے مراد کون ہے ؟ لیکن مسند احمد ہی کی دوسری روایت میں اس کا نام ابو عثمان آیا ہے۔ یہ حدیث اسی طرح ابو داؤد نسائی اور ابن ماجہ میں بھی ہے۔ ترمذی کی ایک ضعیف سند والی حدیث ہے کہ ہر چیز کی ایک بلندی ہوتی ہے اور قرآن پاک کی بلندی سورہ بقرہ ہے۔ اس سورت میں ایک آیت ہے جو تمام آیتوں کی سردار ہے اور وہ آیت “آیت الکرسی” ہے۔ مسند احمد، صحیح مسلم، ترمذی اور نسائی میں حدیث ہے کہ اپنے گھروں کو قبریں نہ بناؤ۔ جس گھر میں سورہ بقرہ پڑھی جائے وہاں شیطان داخل نہیں ہو سکتا۔ امام ترمذی اسے حسن صحیح بتلاتے ہیں۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ جس گھر میں سورہ بقرہ پڑھی جائے وہاں سے شیطان بھاگ جاتا ہے۔ اس حدیث کے ایک راوی کو امام یحییٰ بن معین تو ثقہ بتاتے ہیں لیکن امام احمد وغیرہ ان کی حدیث کو منکر کہتے ہیں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی اسی طرح کا قول منقول ہے۔ اسے نسائی نے عمل الیوم واللیلہ میں اور حاکم نے مستدرک میں روایت کیا ہے اور اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔ ابن مردویہ میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میں تم میں سے کسی کو ایسا نہ پاؤں کہ وہ پیر پر پیر چڑھائے پڑھتا چلا جائے لیکن سورہ بقرہ نہ پڑھے۔ سنو! جس گھر میں یہ مبارک سورت پڑھی جاتی ہے وہاں سے شیطان بھاگ کھڑا ہوتا ہے ، سب گھروں میں بد ترین اور ذلیل ترین گھر وہ ہے جس میں کتاب اللہ کی تلاوت نہ کی جائے امام نسائی نے عمل الیوم واللیلہ میں بھی اسے وارد کیا ہے مسند دارمی میں حضرت ابن مسعود سے روایت ہے کہ جس گھر میں سورہ بقرہ پڑھی جائے اس گھر سے شیطان گوز مارتا ہوا بھاگ جاتا ہے۔ ہر چیز کی اونچائی ہوتی ہے اور قرآن کی اونچائی سورہ بقرہ ہے۔ ہر چیز کا ما حصل ہوتا ہے اور قرآن کا ما حصل مفصل سورتیں ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے کہ جو شخص سورہ بقرہ کی پہلی چار آیتیں اور آیت الکرسی اور دو آیتیں اس کے بعد کی اور تین آیتیں سب سے آخر کی، یہ سب دس آیتیں رات کے وقت پڑھ لے اس گھر میں شیطان اس رات نہیں جا سکتا اور اسے اور اس کے گھر والوں کو اس دن شیطان یا کوئی اور بری چیز ستا نہیں سکتی۔ یہ آیتیں مجنون پر پڑھی جائیں تو اس کا دیوانہ پن بھی دور ہو جاتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں “جس طرح ہر چیز کی بلندی ہوتی ہے ، قرآن کی بلندی سورہ بقرہ ہے جو شخص رات کے وقت اسے اپنے گھر میں پڑھے تین راتوں تک شیطان اس گھر میں نہیں جا سکتا اور دن کو اگر گھر میں پڑھ لے تو تین دن تک شیطان اس گھر میں قدم نہیں رکھ سکتا۔ ” (طبرانی۔ ابن حبان۔ ابن مردویہ) ترمذی۔ نسائی اور ابن ماجہ میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک چھوٹا سا لشکر ایک جگہ بھیجا اور اس کی سرداری آپ نے انہیں دی جنہوں نے فرمایا تھا کہ مجھے سورہ بقرہ یاد ہے ، اس وقت ایک شریف شخص نے کہا میں بھی اسے یاد کر لیتا لیکن ڈرتا ہوں کہیں ایسا نہ ہو کہ میں اس پر عمل نہ کر سکوں۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا قرآن سیکھو، قرآن پڑھو جو شخص اسے سیکھتا ہے ، پڑھتا ہے پھر اس پر عمل بھی کرتا ہے ، اس کی مثال ایسی ہے جیسے مشک بھرا ہوا برتن جس کی خوشبو ہر طرف مہک رہی ہے۔ اسے سیکھ کر سو جانے والے کی مثال اس برتن کی سی ہے جس میں مشک تو بھرا ہوا ہے لیکن اوپر سے منہ بند کر دیا گیا ہے۔ (امام ترمذی اسے حسن کہتے ہیں اور مرسل روایت بھی ہے ) واللہ اعلم۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ رات کو سورہ بقرہ کی تلاوت شروع کی، ان کا گھوڑا جو ان کے پاس ہی بندھا ہوا تھا، اس نے اچھلنا کودنا اور بد کنا شروع کیا۔ آپ نے قرات چھوڑ دی گھوڑا بھی سیدھا ہو گیا۔ آپ نے پھر پڑھنا شروع کیا۔ گھوڑے نے بھی پھر بد کنا شروع کیا۔ آپ نے پھر پڑھنا موقوف کیا۔ گھوڑا بھی ٹھیک ٹھاک ہو گیا۔ تیسری مرتبہ بھی یہی ہوا چونکہ ان کے صاحبزادے یحییٰ گھوڑے کے پاس ہی لیٹے ہوئے تھے اس لئے ڈر معلوم ہوا کہ کہیں بچے کو چوٹ نہ آ جائے ، قرآن کا پڑھنا بند کر کے اسے اٹھا لیا۔ آسمان کی طرف دیکھا کہ جانور کے بد کنے کی کیا وجہ ہے ؟ صبح حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں آ کر واقعہ بیان کرنے لگے آپ سنتے جاتے اور فرماتے جاتے ہیں پھر “اسید پڑھے چلے جاؤ” حضرت اسید نے کہا حضور صلی اللہ علیہ و سلم تیسری مرتبہ کے بعد تو یحییٰ کی وجہ سے میں نے پڑھنا بالکل بند کر دیا۔ اب جو نگاہ اٹھی تو دیکھتا ہوں کہ ایک نورانی چیز سایہ دار ابر کی طرح ہے اور اس میں چراغوں کی طرح کی روشنی ہے بس میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ اوپر کو اٹھ گئی۔ آپ نے فرمایا جانتے ہو یہ کیا چیز تھی؟ یہ فرشتے جو تمہاری آواز کو سن کر قریب آ گئے تھے اگر تم پڑھنا موقوف نہ کرتے تو وہ صبح تک یونہی رہتے اور ہر شخص انہیں دیکھ لیتا، کسی سے نہ چھپتے۔ یہ حدیث کئی کتابو ں میں کئی سندوں کے ساتھ موجود ہے۔ واللہ اعلم۔ اس کے قریب قریب واقعہ حضرت ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے کہ ایک مرتبہ لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا کہ گزشتہ رات ہم نے دیکھا، ساری رات حضرت ثابت کا گھر نور کا بقعہ بنا رہا اور چمکدار روشن چراغوں سے جگمگاتا رہا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا شاید انہوں نے رات کو سورہ بقرہ پڑھی ہو گی۔ جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا “سچ ہے رات کو میں سورہ بقرہ کی تلاوت میں مشغول تھا”۔ اس کی اسناد تو بہت عمدہ ہے مگر اس میں ابہام ہے اور یہ مرسل بھی ہے۔ واللہ اعلم۔

سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران کی فضیلت

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں۔ ” سورہ بقرہ سیکھو، اس کو حاصل کرنا برکت ہے اور اس کا چھوڑنا حسرت ہے۔ جادوگر اس کی طاقت نہیں رکھتے ” پھر کچھ دیر چپ رہنے کے بعد فرمایا۔ ” سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران سیکھو، یہ دونوں نورانی سورتیں ہیں اپنے پڑھنے والے پر سائبان یا بادل یا پرندوں کے جھنڈ کی طرح قیامت کے روز سایہ کریں گی، قرآن پڑھنے والا جب قبر سے اٹھے گا تو دیکھے گا کہ ایک نوجوان نورانی چہرے والا شخص اس کے پاس کھڑا ہوا کہتا ہے کہ کیا آپ مجھے جانتے ہیں یہ کہے گا نہیں تو وہ جواب دے گا کہ میں قرآن ہوں جس نے دن کو تجھے بھوکا پیاسا رکھا تھا اور راتوں کو بستر سے دور بیدار رکھا تھا۔ ہر تاجر اپنی تجارت کے پیچھے ہے لیکن آج سب تجارتیں تیرے پیچھے ہیں” اب اس کے رہنے کے لئے سلطنت اس کے داہنے ہاتھ میں دی جائے گی اور ہمیشہ کے فائدے اس کے بائیں ہاتھ میں، اس کے سر پر وقار و عزت کا تاج رکھا جائے گا، اس کے ماں باپ کو دو ایسے عمدہ قیمتی حلے پہنائے جائیں گے کہ ساری دنیا بھی اس کی قیمت کے سامنے ہیچ ہو گی، وہ حیران ہو کر کہیں گے کہ آخر اس رحم و کرم اور اس انعام و اکرام کی کیا وجہ ہے ؟ تو انہیں جواب دیا جائے گا کہ تمہارے بچے کے قرآن حفظ کرنے کی وجہ سے تم پر یہ نعمت انعام کی گئی۔ پھر اسے کہا جائے گا پڑھتا جا اور جنت کے درجے چڑھتا جا، چنانچہ وہ پڑھتا جائے گا اور درجے چڑھتا جائے گا۔ خواہ ترتیل سے پڑھے یا بے ترتیل۔ ” ابن ماجہ میں بھی اس حدیث کا بعض حصہ مروی ہے اس کی اسناد حسن ہیں اور شرط مسلم پر ہیں۔ اس کے راوی بشر، ابن ماجہ سے امام مسلم بھی روایت لیتے ہیں اور امام ابن معین اسے ثقہ کہتے ہیں۔ نسائی کا قول ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ ہاں امام احمد اسے منکر الحدیث بتاتے ہیں اور فرماتے ہیں میں نے تلاش کی تو دیکھا کہ وہ عجب عجب حدیثیں لاتا ہے۔ امام بخاری فرماتے ہیں اس کی بعض احادیث سے اختلاف کیا جاتا ہے۔ ابو حاتم رازی کا فیصلہ ہے کہ اس کی حدیثیں لکھی جاتی ہیں لیکن ان سے دلیل نہیں پکڑی جا سکتی۔ ابن عدی کا قول ہے کہ ان کی ایسی روایتیں بھی ہیں جن کی متابعت نہیں کی جاتی۔ دارقطنی فرماتے ہیں یہ قوی نہیں ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ اس کی اس روایت کے بعض مضمون دوسری سندوں سے بھی آئے ہیں۔ مسند احمد میں ہے۔ قرآن پڑھا کرو یہ اپنے پڑھنے والوں کی قیامت کے دن شفاعت کرے گا۔ دو نورانی سورتوں بقرہ اور آل عمران کو پڑھتے رہا کرو۔ یہ دونوں قیامت کے دن اس طرح آئیں گی کہ گویا یہ دو سائبان ہیں یا دو ابر ہیں یا پر کھولے پرندوں کی دو جماعتیں ہیں۔ اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے اللہ تعالیٰ سے سفارش کریں گی۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ “سورہ بقرہ پڑھا کرو۔ اس کا پڑھنا برکت ہے اور چھوڑنا حسرت ہے۔ اس کی طاقت باطل والوں کو نہیں صحیح مسلم شریف میں بھی یہ حدیث ہے۔ مسند احمد کی ایک اور حدیث میں ہے ” قرآن اور قرآن پڑھنے والوں کو قیامت کے دن بلوایا جائے گا۔ آگے آگے سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران ہوں گی، بادل کی طرح یا سائے اور سائبان کی طرح یا پر کھولے پرندوں کے جھرمٹ کی طرح۔ یہ دونوں پروردگار سے ڈٹ کر سفارش کریں گی۔ ” مسلم اور ترمذی میں بھی یہ حدیث ہے۔ امام ترمذی اسے حسن غریب کہتے ہیں۔ ایک شخص نے اپنی نماز میں سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران پڑھی اس کے فارغ ہونے کے بعد حضرت کعب نے فرمایا الہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ان میں اللہ کا وہ نام ہے کہ اس نام کے ساتھ جب کبھی اسے پکارا جائے وہ قبول فرماتا ہے۔ اب اس شخص نے حضرت کعب سے عرض کی کہ مجھے بتائیے وہ نام کونسا ہے ؟ حضرت کعب نے اس سے انکار کیا اور فرمایا اگر میں بتا دوں تو خوف ہے کہ کہیں تو اس نام کی برکت سے ایسی دعا نہ مانگ لے جو میری اور تیری ہلاکت کا سبب بن جائے۔ حضرت ابو امامہ فرماتے ہیں تمہارے بھائی کو خواب میں دکھلایا گیا کہ گویا لوگ ایک بلند و بالا پہاڑ پر چڑھ رہے ہیں۔ پہاڑ کی چوٹی پر دو سرسبز درخت ہیں اور ان میں سے آوازیں آ رہی ہیں کہ کیا تم میں کوئی سورہ بقرہ کا پڑھنے والا ہے ؟ کیا تم میں سے کوئی سورہ آل عمران کا پڑھنے والا ہے ؟ جب کوئی کہتا ہے کہ “ہاں” تو وہدونوں درخت اپنے پھلوں سمیت اس کی طرف جھک جاتے ہیں اور یہ اس کی شاخوں پر بیٹھ جاتا ہے اور وہ اسے اوپر اٹھا لیتے ہیں۔ حضرت ام درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتی ہیں کہ ایک قرآن پڑھے ہوئے شخص نے اپنے پڑوسی کو مار ڈالا پھر قصاص میں وہ بھی مارا گیا۔ پس قرآن کریم ایک ایک سورت ہو ہو کر الگ ہونا شروع ہوا یہاں تک کہ اس کے پاس سورہ آل عمران اور سورۂ بقرہ رہ گئیں۔ ایک جمعہ کے بعد سورہ آل عمران چلی گئی پھر ایک جمعہ گذرا تو آواز آئی کہ میری باتیں نہیں بدلا کرتیں اور میں اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا چنانچہ یہ مبارک سورت یعنی سورہ بقرہ بھی اس سے الگ ہو گئی مطلب یہ ہے کہ یہ دونوں سورتیں اس کی طرف سے بلاؤں اور عذاب کی آڑ بنی رہیں اور اس کی قبر میں اس کی دلجوئی کرتی رہیں اور سب سے آخر اس کے گناہوں کی زیادتی کے سبب ان کی سفارش نہ چلی۔ یزید بن اسود جرشی کہتے ہیں کہ ان دونوں سورتوں کو دن میں پڑھنے والا دن بھر میں نفاق سے بری رہتا ہے اور رات کو پڑھنے والا ساری رات نفاق سے بری رہتا ہے خود حضرت یزید اپنے معمولی وظیفہ قرآن کے علاوہ ان دونوں سورتوں کو صبح شام پڑھا کرتے تھے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جو شخص ان دونوں سورتوں کو رات بھر پڑھتا رہے گا۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ فرمانبرداروں میں شمار ہو گا۔ اس کی سند منقطع ہے ، بخاری و مسلم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں مجھ کو سات لمبی سورتیں توریت کی جگہدی گئی ہیں اور انجیل کی جگہ مجھ کو دو سو آیتوں والی سورتیں ملی ہیں اور زبور کے قائم مقام مجھ کو دو سو سے کم آیتوں والی سورتیں دی گئی ہیں اور پھر مجھے فضیلت میں خصوصاً سورہ ق سے لے کر آخر تک کی سورتیں ملی ہیں یہ حدیث غریب ہے اور اس کے ایک راوی سعید بن ابو بشیر کے بارہ میں اختلاف ہے۔ ابو عبید نے اسے دوسری سند سے بھی نقل کیا ہے۔ واللہ اعلم۔ ایک اور حدیث میں ہے جو شخص ان سات سورتوں کو حاصل کر لے وہ بہت بڑا عالم ہے۔ یہ روایت بھی غریب ہے۔ مسند احمد میں بھی یہ روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک لشکر بھیجا اور ان کا امیر انہیں بنایا، جنہیں سورہ بقرہ یاد تھی حالانکہ وہ ان سب میں چھوٹی عمر کے تھے۔ حضرت سعید بن جبیر تو ولقد اتیناک سبعا من المثانی کی تفسیر میں بھی فرماتے ہیں کہ اس سے مراد یہی سات سورتیں ہیں۔ سورہ بقرہ، سورہ آل عمران، سورہ نسائ، سورہ مائدہ، سورہ انعام، سورہ اعراف اور سورۂ یونس، حضرت مجاہد مکحول، عطیہ بن قیس، ابو محمد فارسی، شداد بن اوس، یحییٰ بن حارث ذماری سے بھی یہی منقول ہے۔

مقام نزول

سورہ بقرہ ساری کی ساری مدینہ شریف میں نازل ہوئی ہے اور شروع شروع جو سورتیں نازل ہوئیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے البتہ اس کی ایک آیت واتقوا یوما ترجعون فیہ الی اللہ یہ سب سے آخر نازل شدہ بتائی جاتی ہے یعنی قرآن کریم میں سب سے آخر یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ ممکن ہے کہ نازل بعد میں ہوئی ہو لیکن اسی میں ہے۔ اور اسی طرح سود کی حرمت کی آیتیں بھی آخر میں نازل ہوئی ہیں۔ حضرت خالد بن معدان سورۂ بقرہ کو فسطاط القرآن یعنی قرآن کا خیمہ کہا کرتے تھے۔ بعض علماء کا فرمان ہے کہ اس میں ایک ہزار خبریں ہیں اور ایک ہزار حکم ہیں اور ایک ہزار کاموں سے ممانعت ہے۔ اس کی آیتیں دو سو ستاسی ہیں۔ اس کے کلمات چھ ہزار دو سو اکیس ہیں۔ اس کے حروف ساڑھے پچیس ہزار ہیں۔ واللہ اعلم۔ ابن عباس فرماتے ہیں یہ سورت مدنی ہے۔ حضرت عبد بن زبیر اور حضرت زید بن ثابت اور بہت سے ائمہ علماء اور مفسرین سے بھی بلا اختلاف یہی مروی ہے۔ ابن مردویہ کی ایک حدیث میں ہے کہ سورہ بقرہ سورہ آل عمران، سورہ النساء وغیرہ نہ کہا کرو بلکہ یوں کہو کہ وہ سورت جس میں بقرہ کا ذکر ہے۔ وہ سورت جس میں آل عمران کا بیان ہے اور اسی طرح قرآن کی سب سورتوں کے نام لیا کرو۔ لیکن یہ حدیث غریب ہے بلکہ اس کا فرمان رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہونا ہی صحیح نہیں۔ اس کے راوی عیسیٰ بن میمون ابو سلمہ خواص ضعیف ہیں۔ ان کی روایت سے سند نہیں لی جا سکتی۔ اس کے برخلاف بخاری و مسلم میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے بطن وادی سے شیطان پر کنکر پھینکے۔ بیت اللہ ان کی بائیں جانب تھا اور منیٰ دائیں طرف۔ اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جن پر سورہ بقرہ اتری ہے۔ اسی جگہ سے کنکر پھینکے تھے گو اس حدیث سے صاف ثابت ہو گیا ہے کہ سورہ بقرہ وغیرہ کہنا جائز ہے لیکن مزید سنئے۔ ابن مردویہ میں ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے اصحاب میں کچھ سستی دیکھی تو انہیں یا اصحاب سورہ بقرہ کہہ کر پکارا۔ غالباً یہ غزوہ حنین والے دن کا ذکر ہے جب لشکر کے قدم اکھڑ گئے تھے تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم سے حضرت عباس نے انہیں درخت والو یعنی اے بیعت الرضوان کرنے والو اور اے سورہ بقرہ والو کہہ کر پکارا تھا تاکہ ان میں خوشی اور دلیری پیدا ہو۔ چنانچہ اس آواز کے ساتھ ہی صحابہ ہر طرف سے دوڑ پڑے۔ مسیلمہ جس نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا، اس کے ساتھ لڑنے کے وقت بھی جب قبیلہ بنو حنفیہ کی چیرہ دستیوں نے پریشان کر دیا اور قدم ڈگمگا گئے تو صحابہ نے اسی طرح لوگوں کو پکارا یا اصحاب سورہ البقرہ، اے سورہ بقرہ والو۔ اس آواز پر سب کے سب جمع ہو گئے اور جم کر لڑے یہاں تک کہ ان مرتدوں پر اللہ تعالیٰ نے اپنے لشکر کو فتح دی۔ اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے سب صحابہ سے خوش ہو۔
 

Zia_Hayderi

TM Star
Mar 30, 2007
2,468
1,028
1,213
حروف مقطعات اور ان کے معنی

الم جیسے حروف مقطعات ہیں جو سورتوں کے اول میں آئے ہیں ان کی تفسیر میں مفسرین کا اختلاف ہے بعض تو کہتے ہیں ان کے معنی صرف اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہیں اور کسی کو معلوم نہیں۔ اس لئے وہ ان حروف کی کوئی تفسیر نہیں کرتے۔ قرطبی نے حضرت ابو بکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے ہی نقل کیا ہے۔ عامر، شعبی، سفیان ثوری، ربیع بن خیثم رحمہم اللہ بھی یہی کہتے ہیں ابو حاتم بن حبان کو بھی اسی سے اتفاق ہے بعض لوگ ان حروف کی تفسیر بھی کرتے ہیں لیکن ان کی تفسیر میں بہت کچھ اختلاف ہے۔ عبدالرحمن بن زید بن اسلم فرماتے ہیں یہ سورتوں کے نام ہیں۔ علامہ ابو القاسم محمود بن عمر زمحشری اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں اکثر لوگوں کا اسی پر اتفاق ہے۔ سیبویہ نے بھی یہی کہا ہے اور اس کی دلیل بخاری و مسلم کی وہ حدیث ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جمعہ کے دن صبح کی نماز میں الم السجد اور ہل اتی علی الانسان پڑھتے تھے۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں الم اور حم اور المص اور ص یہ سب سورتوں کی ابتداء ہے جن سے یہ سورتیں شروع ہوتی ہیں۔ انہی سے یہ بھی منقول ہے کہ الم قرآن کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ حضرت قتادہ اور حضرت زید بن اسلم کا قول بھی یہی ہے کہ اور شاید اس قول کا مطلب بھی وہی ہے جو حضرت عبدالرحمن بن زید اسلم فرماتے ہیں کہ یہ سورتوں کے نام ہیں اس لئے کہ ہر سورت کو قرآن کہہ سکتے ہیں اور یہ نہیں ہو سکتا کہ سارے قرآن کا نام المص ہو کیونکہ جب کوئی شخص کہے کہ میں نے سورہ المص پڑھی تو ظاہر یہی سمجھا جاتا ہے کہ اس نے سورہ اعراف پڑھی نہ کہ پورا قرآن واللہ اعلم۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے نام ہیں۔ حضرت شعب سالم بن عبد اللہ اسماعیل بن عبدالرحمن سدی کبیر یہی کہتے ہیں۔ حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ الم اللہ تعالیٰ کا بڑا نام ہے۔ اور روایت میں ہے کہ حم ، طس اور الم یہ سب اللہ تعالیٰ کے بڑے نام ہیں۔ حضرت علی اور حضرت ابن عباس دونوں سے یہ مروی ہے۔ ایک اور روایت میں ہے یہ اللہ تعالیٰ کی قسم ہے اور اس کا نام بھی ہے۔ حضرت عکرمہ فرماتے ہیں یہ قسم ہے۔ ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ اس کے معنی انا اللہ اعلم ہیں یعنی میں ہی ہوں اللہ زیادہ جاننے والا۔ حضرت سعید بن جبیر سے مروی ہے۔ ابن عباس، ابن مسعود اور بعض دیگر صحابہ سے روایت ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ناموں کے الگ الگ حروف ہیں۔ ابو العالیہ فرماتے ہیں کہ یہ تین حرف الف اور لام اور میم انتیس حرفوں میں سے ہیں جو تمام زبانوں میں آتے ہیں۔ ان میں سے ہر ہر حرف اللہ تعالیٰ کی نعمت اور اس کی بلا کا ہے اور اس میں قوموں کی مدت اور ان کے وقت کا بیان ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے تعجب کرنے پر کہا گیا تھا کہ وہ لوگ کیسے کفر کریں گے ان کی زبانوں پر اللہ تعالیٰ کے نام ہیں۔ اس کی روزیوں پر وہ پلتے ہیں۔ الف سے اللہ کا نام اللہ شروع ہوتا ہے اور لام سے اس کا نام لطیف شروع ہوتا ہے اور میم سے اس کا نام مجید شروع ہوتا ہے اور الف سے مراد آلا یعنی نعمتیں ہیں اور لام سے مراد اللہ تعالیٰ کا لطف ہے اور میم سے مراد اللہ تعالیٰ کا مجد یعنی بزرگی ہے۔ الف سے مراد ایک سال ہے لام سے تیس سال اور میم سے چالیس سال (ابن ابی حاتم) امام ابن جریر نے ان سب مختلف اقوال میں تطبیق دی ہے یعنی ثابت کیا ہے کہ ان میں ایسا اختلاف نہیں جو ایک دوسرے کے خلاف ہو۔ ہو سکتا ہے یہ سورتوں کے نام بھی ہوں اور اللہ تعالیٰ کے نام بھی، سورتوں کے شروع کے الفاظ بھی ہوں اور ان میں سے ہر ہر حرف سے اللہ تعالیٰ کے ایک ایک نام کی طرف اشارہ، اور اس کی صفتوں کی طرف اور مدت وغیرہ کی طرف بھی ہو۔ ایک ایک لفظ کئی کئی معنی میں آتا ہے۔ جیسے لفظ امتہ کہ اس کے ایک معنی ہیں۔ دین جیسے قرآن میں ہے آیت(انا وجدنا ابائنا علی امتہ) ہم نے اپنے باپ دادوں کو اسی دین پر پایا۔ دوسرے معنی ہیں۔ اللہ کا اطاعت گزار بندہ۔ جیسے فرمایا آیت(ان ابراھیم کان امتہ) یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے مطیع اور فرمانبردار اور مخلص بندے تھے اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے۔ تیسرے معنی ہیں جماعت، جیسے فرمایا آیت(وجد علیہ امتہ) یعنی ایک جماعت کو اس کنویں پر پانی پلاتے ہوئے پایا۔ اور جگہ ہے آیت(ولقد بعثنا فی کل امتہ رسولا) یعنی ہم نے ہر جماعت میں کوئی رسول یقیناً بھیجا۔ چوتھے معنی ہیں مدت اور زمانہ۔ فرمان ہے آیت(وادکر بعد امتہ) یعنی ایک مدت کے بعد اسے یاد آیا۔ پس جس طرح یہاں ایک لفظ کے کئی معنی ہوئے اسی طرح ممکن ہے کہ ان حروف مقطعہ کے بھی کئی معنی ہوں۔ امام ابن جریر کے اس فرمان پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ابو العالیہ نے جو تفسیر کی ہے اس کا مطلب تو یہ ہے کہ یہ ایک لفظ، ایک ساتھ، ایک ہی جگہ ان سب معنی میں ہے اور لفظ امت وغیرہ جو کئی کئی معنی میں آئے ہیں جنہیں اصطلاح میں الفاظ مشترکہ کہتے ہیں۔ ان کے معنی ہوتے ہیں جو عبارت کے قرینے سے معلوم ہو جاتے ہیں ایک ہی جگہ سب کے سب معنی مراد نہیں ہوتے اور سب کو ایک ہی جگہ محمول کرنے کے مسئلہ میں علماء اصول کا بڑا اختلاف ہے اور ہمارے تفسیری موضوع سے اس کا بیان خارج ہے واللہ اعلم۔ دوسرے یہ کہ امت وغیرہ الفاظ کے معنی ہی بہت سارے ہیں اور یہ الفاظ اسی لئے بنائے گئے ہیں کہ بندش کلام اور نشست الفاظ سے ایک معنی ٹھیک بیٹھ جاتے ہیں ایک حرف کی دلالت ایک ایسے نام پر ممکن ہے جو دوسرے ایسے نام پر بھی دلالت کرتا ہو اور ایک کو دوسرے پر کوئی فضیلت نہ ہو تو مقدر ماننے سے نہ ضمیر دینے سے نہ وضع کے اعتبار سے اور نہ کسی اور اعتبار سے ایسی بات علمی طور پر تو نہیں سمجھی جا سکتی البتہ اگر منقول ہو تو اور بات ہے لیکن یہاں اختلاف ہے اجماع نہیں ہے اس لئے یہ فیصلہ قابل غور ہے۔ اب بعض اشعار عرب کے جو اس بات کی دلیل میں پیش کئے جاتے ہیں ایک کلمہ کو بیان کرنے کے لئے صرف اس کا پہلا حرف بول دیتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے لیکن ان شعروں میں خود عبارت ایسی ہوتی ہے جو اس پر دلالت کرتی ہے۔ ایک حرف کے بولتے ہی پورا کلمہ سمجھ میں آ جاتا ہے لیکن یہاں ایسا بھی نہیں واللہ اعلم قرطبی کہتے ہیں ایک حدیث میں ہے کہ جو مسلمان قتل پر آدھے کلمہ سے بھی مدد کرے مطلب یہ ہے کہ اقتل پورا نہ کہے بلکہ صرف اق کہے مجاہد کہتے ہیں۔ سورتوں کے شروع میں جو حروف ہیں مثلاً ق، ص، حم، طسم الر وغیرہ یہ سب حروف ہجا ہیں۔ بعض عربی دان کہتے ہیں کہ یہ حروف الگ الگ جو اٹھائیس ہیں ان میں سے چند ذکر کر کے باقی کو چھوڑ دیا گیا ہے جیسے کوئی کہے کہ میرا بیٹا اب ت ث لکھتا ہے تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ تمام اٹھائیس حروف لکھتا ہے لیکن ابتدا کے چند حروف ذکر کر دئیے اور باقی کو چھوڑ دیا۔ سورتوں کے شروع میں اس طرح کے کل چودہ حروف آئے ہیں۔ ا ل م ص و ک ہ ی ع ط س ح ق ن ان سب کو اگر ملا لیا جائے تو یہ عبارت بنتی ہے۔ نص حکیم قاطع لہ سر تعداد کے لحاظ سے یہ حروف چودہ ہیں اور جملہ حروف اٹھائیس ہیں اس لئے یہ آدھے ہوئے بقیہ جن حروف کا ذکر نہیں کیا گیا ان کے مقابلہ میں یہ حروف ان سے زیادہ فضیلت والے ہیں اور یہ صناعت تصریف ہے ایک حکمت اس میں یہ بھی ہے کہ جتنی قسم کے حروف تھے اتنی قسمیں باعتبار اکثریت کے ان میں آ گئیں یعنی مہموسہ مجہورہ وغیرہ۔ سبحان اللہ ہر چیز میں اس مالک کی حکمت نظر آتی ہے یہ یقینی بات ہے کہ اللہ کا کلام لغو، بیہودہ، بیکار، بے معنی الفاظ سے پاک ہے جو جاہل لوگ کہتے ہیں کہ سرے سے ان حروف کے کچھ معنی ہی نہیں وہ بالکل خطا پر ہیں۔ اس کے کچھ نہ کچھ معنی یقیناً ہیں اگر نبی معصوم صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کے معنی کچھ ثابت ہوں تو ہم وہ معنی کریں گے اور سمجھیں گے ورنہ جہاں کہیں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے کچھ معنی بیان نہیں کئے ہم بھی نہ کریں گے اور ایمان لائیں گے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے تو اس بارہ میں ہمیں کچھ نہیں ملا اور علماء کا بھی اس میں بے حد اختلاف ہے۔ اگر کسی پر کسی قول کی دلیل کھل جائے تو خیر وہ اسے مان لے ورنہ بہتر یہ ہے کہ ان حروف کے کلام اللہ ہونے پر ایمان لائے اور یہ جانے کہ اس کے معنی ضرور ہیں جو اللہ ہی کو معلوم ہیں اور ہمیں معلوم نہیں ہوئے۔ دوسری حکمت ان حروف کے لانے میں یہ بھی ہے کہ ان سے سورتوں کی ابتداء معلوم ہو جائے لیکن یہ وجہ ضعیف ہے اس لئے کہ اس کے بغیر ہی سورتوں کی جدائی معلوم ہو جاتی ہے جن سورتوں میں ایسے حروف ہی نہیں کیا ان کی ابتداء انتہا معلوم نہیں؟ پھر سورتوں سے پہلے بسم اللہ کا پڑھنے اور لکھنے کے اعتبار سے موجود ہونا کیا ایک سورت کو دوسری سے جدا نہیں کرتا ؟ امام ابن جریر نے اس کی حکمت یہ بھی بیان کی ہے کہ چونکہ مشرکین کتاب اللہ کو سنتے ہی نہ تھے اس لئے انہیں سنانے کے لئے ایسے حروف لائے گئے تاکہ جب ان کا دھیان کان لگ جائے تو باقاعدہ تلاوت شروع ہو لیکن یہ وجہ بھی بودی ہے اس لئے اگر ایسا ہوتا تو تمام سورتوں کی ابتدا انہی حروف سے کی جاتی حالانکہ ایسا نہیں ہوا۔ بلکہ اکثر سورتیں اس سے خالی ہیں پھر جب کبھی مشرکین سے کلام شروع ہو یہی حروف چاہئیں۔ نہ کہ صرف سورتوں کے شروع میں ہی یہ حروف ہوں۔ پھر اس پر بھی غور کر لیجئے کہ یہ سورت یعنی سورہ بقرہ اور اس کے بعد کی سورت یعنی سورہ آل عمران یہ تو مدینہ شریف میں نازل ہوتی ہیں اور مشرکین مکہ ان کے اترنے کے وقت وہاں تھے ہی نہیں پھر ان میں یہ حروف کیوں آئے ؟ ہاں یہاں پر ایک اور حکمت بھی بیان کی گئی ہے کہ ان حروف کے لانے میں قرآن کریم کا ایک معجزہ ہے جس سے تمام مخلوق عاجز ہے باوجود یہ کہ یہ حروف بھی روزمرہ کے استعمالی حروف کے لانے میں قرآن کریم کا ایک معجزہ ہے جس سے تمام مخلوق عاجز ہے باوجود یہ کہ یہ حروف بھی روزمرہ کے استعمالی حروف سے ترکیب دئیے گئے ہیں لیکن مخلوق کے کلام سے بالکل نرالے ہیں۔ مبرد اور محققین کی ایک جماعت اور فراء اور قطرب سے بھی یہی منقول ہے زمخشری نے تفسیر کشاف میں اس قول کو نقل کر کے اس کی بہت کچھ تائید کی ہے۔ شیخ امام علامہ ابو العباس حضرت ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور حافظ مجتہد ابو الحاج مزی نے بھی یہی حکمت بیان کی ہے۔ زمحشری فرماتے ہیں یہی وجہ ہے کہ تمام حروف اکٹھے نہیں آئے ہاں ان حروف کو مکرر لانے کی یہ وجہ ہے کہ بار بار مشرکین کو عاجز اور لاجواب کیا جائے اور انہیں ڈانٹا اور دھمکایا جائے جس طرح قرآن کریم میں اکثر قصے کئی کئی مرتبہ لائے گئے ہیں اور بار بار کھلے الفاظ میں بھی قرآن کے مثل لانے میں ان کی عاجزی کا بیان کیا گیا ہے۔ بعض جگہ تو صرف ایک حرف آیا ہے جیسے ص ن ق کہیں دو حروف آئے ہیں جیسے حم کہیں تین حروف آئے ہیں جیسے الم کہیں چار آئے ہیں جیسے المر اور المص اور کہیں پانچ آئے ہیں جیسے کھیعص اور حمعسق اس لئے کہ کلمات عرب کے کل کے کل اسی طرح پر ہیں یا تو ان میں ایک حرفی لفظ ہیں یا دو حرفی یا سہ حرفی یا چار حرفی یا پانچ حرفی کے پانچ حرف سے زیادہ کے کلمات نہیں۔ جب یہ بات ہے کہ یہ حروف قرآن شریف میں بطور معجزے کے آئے ہیں تو ضروری تھا کہ جن سورتوں کے شروع میں یہ حروف آئے ہیں وہاں ذکر بھی قرآن کریم کا ہو اور قرآن کی بزرگی اور بڑائی بیان ہو چنانچہ ایسا ہی انتیس سورتوں میں یہ واقع ہوا ہے سنئے فرمان ہے آیت(الم ذالک الکتاب لا ریب فیہ) یہاں بھی ان حروف کے بعد ذکر ہے کہ اس قرآن کے اللہ جل شانہ کا کلام ہونے میں کوئی شک نہیں اور جگہ فرمایا آیت(الم اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم نزل علیک الکتاب بالحق مصدقا لما بین یدیہ) وہ اللہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو زندہ اور دائم قائم ہے جس نے تم پر حق کے ساتھ یہ کتاب تھوڑی تھوڑی نازل فرمائی ہے جو پہلے کی کتابو ں کی بھی تصدیق کرتی ہے یہاں بھی ان حروف کے بعد قرآن کریم کی عظمت کا اظہار کیا گیا۔ اور جگہ فرمایا آیت(المص کتاب انزل الیک) الخ یعنی یہ کتاب تیری طرف اتاری گئی ہے تو اپنا دل تنگ نہ رکھ اور جگہ فرمایا آیت (الر کتاب انزلنا الیک) الخ یہ کتاب ہم نے تیری طرف نازل کی تاکہ تو لوگوں کو اپنے رب کے حکم سے اندھیروں سے نکال کر اجالے میں لائے۔ ارشاد ہوتا ہے آیت(الم تنزیل الکتاب لا ریب فیہ من رب العلمین) اس کتاب کے رب العالمین کی طرف سے نازل شدہ ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ فرماتا ہے آیت(حم تنزیل من الرحمن الرحیم) بخششوں اور مہربانیوں والے اللہ نے اسے نازل فرمایا ہے آیت(حمعسق کذلک یوحی الیک) الخ یعنی اسی طرح وحی کرتا ہے اللہ تعالیٰ غالب حکمتوں والا تیری طرف اور ان نبیوں کی طرف جو تجھ سے پہلے تھے ، اسی طرح اور ایسی سورتوں کے شروع کو بہ غور دیکھئے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان حروف کے بعد کلام پاک کی عظمت و عزت کا ذکر ہے جس سے یہ بات قوی معلوم ہوتی ہے کہ یہ حروف اس لئے لائے گئے ہیں کہ لوگ اس کے لئے معارضے اور مقابلے میں عاجز ہیں۔ واللہ اعلم۔ بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ان حروف سے مدت معلوم کرائی گئی ہے اور فتنوں لڑائیوں اور دوسرے ایسے ہی کاموں کے اوقات بتائے گئے ہیں۔ لیکن یہ قول بھی بالکل ضعیف معلوم ہوتا ہے اس کی دلیل میں ایک حدیث بھی بیان کی جاتی ہے۔ لیکن اول تو وہ ضعیف ہے دوسرے اس حدیث سے اس قول کی پختگی کا ایک طرف اس کا باطل ہونا زیادہ ثابت ہوتا ہے۔ وہ حدیث محمد بن اسحاق بن یسار نے نقل کی ہے جو تاریخ کے مصنف ہیں۔ اس حدیث میں ہے کہ ابو یاسر بن اخطب یہودی اپنے چند ساتھیوں کو لے کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوا آپ اس وقت سورہ بقرہ کی شروع آیت (الم ذلک الکتاب لا ریب فیہ) الخ تلاوت فرما رہے تھے وہ اسے سن کر اپنے بھائی حی بن اخطب کے پاس آیا اور کہا میں نے آج حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو اس آیت کی تلاوت کرتے ہوئے سنا ہے۔ وہ پوچھتا ہے تو نے خود سنا؟ اس نے کہا ہاں میں نے خود سنا ہے۔ حی ان سب یہودیوں کو لے کر پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کیا یہ سچ ہے کہ آپ اس آیت کو پڑھ رہے تھے۔ آپ نے فرمایا ہاں سچ ہے۔ اس نے کہا سنئے ! آپ سے پہلے جتنے نبی آئے کسی کو بھی نہیں بتایا گیا تھا۔ کہ اس کا ملک اور مذہب کب تک رہے گا لیکن آپ کو بتا دیا گیا پھر کھڑا ہو کر لوگوں سے کہنے لگا سنو! الف کا عدد ہوا ایک ، لام کے تیس، میم کے چالیس۔ کل اکہتر ہوئے۔ کیا تم اس نبی کی تابعداری کرنا چاہتے ہو جس کے ملک اور امت کی مدت کل اکہتر سال ہو پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف متوجہ ہو کر دریافت کیا کہ کیا کوئی اور آیت بھی ایسی ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں المص۔ کہنے لگا یہ بڑی بھاری اور بہت لمبی ہے۔ الف کا ایک، لام کے تیس، میم کے چالیس، صواد کے نوے یہ سب ایک سو اکسٹھ سال ہوئے۔ کہا اور کوئی بھی ایسی آیت ہے۔ آپ نے فرمایا ہاں۔ “الر” کہنے لگا یہ بھی بہت بھاری اور لمبی ہے۔ الف کا ایک ، لام کے تیس اور رے کے دو سو۔ جملہ دو سو اکتیس برس ہوئے۔ کیا اس کے ساتھ کوئی اور بھی ایسی ہے۔ آپ نے فرمایا “المر” ہے کہا یہ تو بہت ہی بھاری ہے الف کا ایک، لام کے تیس، میم کے چالیس ، رے کے دو سو، سب مل کر دو سو اکہتر ہو گئے۔ اب تو کام مشکل ہو گیا اور بات خلط ملط ہو گئی۔ لوگو اٹھو۔ ابو یاسر نے اپنے بھائی سے اور دوسرے علماء یہود سے کہا۔ ” کیا عجب کہ ان سب حروف مجموعہ کی مدت حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو ملا ہو اکہتر ایک، سو ایک، سو اکتیس ایک، دو سو اکتیس ایک، دو سو اکہتر ایک، یہ سب مل کر سات سو چار برس ہوئے۔ انہوں نے کہا اب کام خلط ملط ہو گیا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ آیتیں انہی لوگوں کے حق میں نازل ہوئیں آیت(ھوالذی انزل علیک الکتاب منہ ایات محکمات) الخ یعنی وہی اللہ جس نے تجھ پر یہ کتاب نازل فرمائی جس میں محکم آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اور دوسری آیتیں مشابہت والی بھی ہیں۔ اس حدیث کا دارومدار محمد بن سائب کلبی پر ہے اور جس حدیث کا یہ اکیلا راوی ہو محدثین اس سے حجت نہیں پکڑتے اور پھر اس طرح اگر مان لیا جائے اور ہر ایسے حرف کے عدد نکالے جائیں تو جن پر چودہ حروف کو ہم نے بیان کیا ان کے عدد بہت ہو جائیں گے اور جو حروف ان میں سے کئی کئی بار آئے ہیں اگر ان کے عدد کا شمار بھی کئی کئی بار لگایا جائے تو بہت ہی بڑی گنتی ہو جائے گی۔ واللہ اعلم”

تحقیقات کتاب

حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یہاں ذالک معنی میں “ھذا” کے ہیں۔ مجاہد، عکرمہ، سعید، جیبہ سدی، مقاتل بن حباب، زید بن اسلم اور ابن جریج کا بھی یہی قول ہے۔ یہ دونوں لفظ ایک دوسرے کے قائم مقام عربی زبان میں اکثر آتے رہتے ہیں۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ابو عبیدہ سے بھی یہی نقل کیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ذالک اصل میں ہے تو دور کے اشارے کے لۓ جس کے معنی ہیں “وہ” لیکن کبھی نزدیک کے لئے بھی لاتے ہیں اس وقت اس کے معنی ہوتے ہیں “یہ” یہاں بھی اس معنی میں ہے۔ زمخشری کہتے ہیں اس سے اشارہ الم کی طرف ہے۔ جیسے اس آیت میں ہے آیت(لا فارض ولا بکر عوان بین ذالک) یعنی نہ تو وہ گائے بڑھیا ہے نہ بچہ ہے بلکہ اس کے درمیانی عمر کی جوان ہے۔ دوسری جگہ فرمایا آیت(ذالکم حکم اللہ یحکم بینکم) یہ ہی ہے اللہ کا حکم جو تمہارے درمیان حکم کرتا ہے۔ اور جگہ فرمایا آیت(ذالکھم اللہ) یہ ہی ہے اللہ تعالیٰ اور اس کی مثال اور مواقع پہلے گزر چکے۔ واللہ اعلم۔ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہ اشارہ قرآن کریم کی طرف ہے جس کے اتارنے کا وعدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ہوا تھا۔ بعض نے توراۃ کی طرف کسی نے انجیل کی طرف بھی اشارہ بتایا ہے اور اسی طرح کے دس قول ہیں لیکن ان کو اکثر مفسرین نے ضعیف کہا ہے۔ واللہ اعلم۔ کتاب سے مراد قرآن کریم ہے جن لوگوں نے کہا ہے کہ آیت(ذلک الکتاب) کا اشارہ توراۃ اور انجیل کی طرف ہے انہوں نے انتہائی بھول بھلیوں کا راستہ اختیار کیا، بڑی تکلیف اٹھائی اور خواہ مخواہ بلا وجہ وہ بات کہی جس کا انہیں علم نہیں۔ ریب کے معنی ہیں شک و شبہ۔ حضرت ابن عباس، حضرت ابن مسعود اور کئی ایک صحابہ سے یہی معنی مروی ہیں۔ ابو درداء، ابن عباس، مجاہد، سعید بن جبیر، ابو مالک نافع جو ابن عمر کے مولا ہیں، عطا، ابو العالیہ، ربیع بن انس، مقاتل بن حیان، سدی، قتادہ، اسماعیل بن ابو خالد سے بھی یہی مروی ہے۔ ابن ابی حاتم فرماتے ہیں مفسرین میں اس میں اختلاف نہیں۔ ریب کا لفظ عرب شاعروں کے شعروں میں تہمت کے معنی میں بھی آیا ہے اور حاجت کے معنی میں بھی اس کا استعمال ہوا ہے۔ اس جملہ کے معنی یہ ہوئے کہ اس قرآن کو اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہونے میں کچھ شک نہیں۔ جیسے سورۂ سجدہ میں ہے۔ آیت(الم تنزیل الکتاب لا ریب فیہ من رب العلمین) یعنی بے شک یہ قرآن کریم تمام جہانوں کے پالنے والے اللہ کی طرف سے ہے یعنی اس میں شک نہ کرو بعض قاری لا ریب پر وقف کرتے ہیں اور آیت(فیہ ھدی للمتقین) کو الگ جملہ پڑھتے ہیں۔ لیکن آیت(لاریب فیہ) پر ٹھہرنا بہت بہتر ہے کیونکہ یہی مضمون اسی طرح سورہ سجدہ کی آیت میں موجود ہے اور اس میں بہ نسبت فیہ ھدی کے زیادہ مبالغہ ہے۔ ھدی نحوی اعتبار سے صفت ہو کر مرفوع ہو سکتا ہے اور حال کی بنا پر منصوب بھی ہو سکتا ہے۔ اس جگہ ہدایت کو متقیوں کے ساتھ مخصوص کیا گیا جیسے دوسری جگہ فرمایا آیت(قل ھو للذین امنوا ھدی وشفاء) الخ یعنی یہ قرآن ہدایت اور شفا ہے ایمان والوں کے لئے اور بے ایمانوں کے کان بوجھل ہیں اور آنکھیں اندھی ہیں یہ بہت دور سے پکارتے ہیں اور فرمایا آیت(وننزل من القران ماھو شفا ورحمۃ للمومنین) الخ یعنی یہ قرآن ایمان داروں کے لئے شفا اور رحمت ہے اور ظالم لوگ تو اپنے خسارے میں ہی بڑھتے جاتے ہیں۔ اسی مضمون کی اور آیتیں بھی ہیں ان سب کا مطلب یہ ہے کہ گو قرآن کریم خود ہدایت اور محض ہدایت ہے اور سب کے لیے ہے لیکن اس ہدایت سے نفع اٹھانے والے صرف نیک بخت لوگ ہیں۔ جیسے فرمایا آیت(یایھا الناس قد جاءتکم موعظتہ من ربکم) الخ تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی نصیحت اور سینے کی بیماریوں کی شفاء آ چکی جو مومنوں کے لئے شفا اور رحمت ہے اور ابن عباس ابن مسعود اور بعض دیگر صحابہ سے مروی ہے کہ ہدایت سے مراد نور ہے ابن عباس فرماتے ہیں۔

 

Zia_Hayderi

TM Star
Mar 30, 2007
2,468
1,028
1,213
متقین کی تعریف

متقی وہ ہیں جو ایمان لا کر شرک سے دور رہ کر اللہ تعالیٰ کے احکام بجا لائیں۔ ایک اور روایت میں ہے متقی وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے عذابو ں سے ڈر کر ہدایت کو نہیں چھوڑتے اور اس کی رحمت کی امید رکھ کر اس کی طرف سے جو نازل ہوا اسے سچا جانتے ہیں۔ حضرت حسن بصری فرماتے ہیں “متقی وہ ہے جو حرام سے بچے اور فرائض بجا لائے۔ ” حضرت اعمش حضرت ابو بکر بن عیاش سے سوال کرتے ہیں۔ “متقی کون ہے ؟ ” آپ یہی جواب دیتے ہیں پھر میں نے کہا “ذرا حضرت کلبی سے بھی تو دریافت کر لو!” وہ کہتے ہیں متقی وہ ہیں جو کبیرہ گناہوں سے بچیں۔ اس پر دونوں کا اتفاق ہوتا ہے۔ قتادہ فرماتے ہیں متقی وہ ہے جس کا وصف اللہ تعالیٰ نے خود اس آیت کے بعد بیان فرمایا کہ آیت(الذین یومنون بالغیب۔ الخ امام ابن جریر فرماتے ہیں کہ یہ سب اوصاف متقیوں میں جمع ہوتے ہیں۔ ترمذی اور ابن ماجہ کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں بندہ حقیقی متقی نہیں ہو سکتا جب تک کہ ان چیزوں کو نہ چھوڑ دے جن میں حرج نہیں اس خوف سے کہ کہیں وہ حرج میں گرفتار نہ ہو جائے۔ امام ترمذی اسے حسن غریب کہتے ہیں ابن ابی حاتم میں ہے۔ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جبکہ لوگ ایک میدان میں قیامت کے دن روک لئے جائیں گے ، اس وقت ایک پکارنے والا پکارے گا کہ متقی کہاں ہیں؟ اس آواز پر وہ کھڑے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ اپنے بازو میں لے لے گا اور بے حجاب انہیں اپنے دیدار سے مشرف فرمائے گا۔ ابو عفیف نے پوچھا حضرت متقی کون لوگ ہیں؟ آپ نے فرمایا جو لوگ شرک اور بت پرستی سے بچیں اور اللہ کی خالص عبادت کریں وہ اسی عزت کے ساتھ جنت میں پہنچائے جائیں گے۔

ہدایت کی وضاحت

ہدایت کے معنی کبھی تو دل میں ایمان پیوست ہو جانے کے آتے ہیں ایسی ہدایت پر تو سوائے اللہ جل و علا کی مہربانی کے کوئی قدرت نہیں رکھتا فرمان ہے آیت(انک لا تھدی من اجبت) یعنی اے نبی جسے تو چاہے ہدایت نہیں دے سکتا۔ فرماتا ہے آیت(لیس علیک ھدھم) تجھ پر ان کی ہدایت لازم نہیں۔ فرماتا ہے آیت(من یضلل اللہ فلا ھادی لہ جسے اللہ گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت پر لانے والا نہیں۔ فرمایا آیت(من یھد اللہ) الخ یعنی جسے اللہ ہدایت دے وہی ہدایت والا ہے اور جسے وہ گمراہ کرے تم ہرگز اس کا نہ کوئی ولی پاؤ گے نہ مرشد۔ اس قسم کی اور آیتیں بھی ہیں اور ہدایت کے معنی کبھی حق کے اور حق کو واضح کر دینے کے اور حق پر دلالت کرنے اور حق کی طرف راہ دکھانے کے بھی آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت(وانک لتھدی الی صراط مستقیم) یعنی تو یقیناً سیدھی راہ کی رہبری کرتا ہے۔ اور فرمایا آیت(انما انت منذر ولکل قوم ھاد) یعنی تو صرف ڈرانے والا ہے اور ہر قوم کے لیے کوئی ہادی ہے۔ اور جگہ فرمان ہے آیت(واما ثمود فھدیناھم) الخ یعنی ہم نے ثمودیوں کو ہدایت دکھائی لیکن انہوں نے اندھے پن کو ہدایت پر ترجیح دے کر۔ فرماتا ہے آیت(وھدیناہ النجدین) ہم نے اسے دونوں راہیں دکھائیں٠ یعنی بھلائی اور برائی کی۔ تقویٰ کے اصلی معنی بری چیزوں سے بچنے کے ہیں۔ اصل میں یہ “وقوی” ہے وقایت سے ماخوذ ہے نابغہ وغیرہ کے اشعار میں بھی آیا ہے۔ حضرت ابی بن کعب سے حضرت عمر بن خطاب نے پوچھا کہ تقویٰ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کبھی کانٹے دار راستے میں چلے ہو ؟ جیسے وہاں کپڑوں کو اور جسم کو بچاتے ہو ایسے ہی گناہوں سے بال بال بچنے کا نام تقویٰ ہے۔ ابن معتز شاعر کا قول ہے۔

خل الذنوب صغیرھا

وکبیرھا ذاک التقی

واصنع کماش فوق ارض

الشوک یحدذر مایری

لا تحقرن صغیرۃ

ان الجبال من الحصی

یعنی چھوٹے اور بڑے اور سب گناہوں کو چھوڑ دو یہی تقویٰ ہے۔ ایسے رہو جیسے کانٹوں والی راہ پر چلنے والا انسان۔ چھوٹے گناہ کو بھی ہلکا نہ جانو۔ دیکھو پہاڑ کنکروں سے ہی بن جاتے ہیں۔ ابو درداء اپنے اشعار میں فرماتے ہیں انسان اپنی تمناؤں کا پورا ہونا چاہتا ہے اور اللہ کے ارادوں پر نگاہ نہیں رکھتا حالانکہ ہوتا وہی ہے جو اللہ کا ارادہ ہو۔ وہ اپنے دینوی فائدے اور مال کے پیچھے پڑا ہوا ہے حالانکہ اس کا بہترین فائدہ اور عمدہ مال اللہ سے تقویٰ ہے۔ ابن ماجہ کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں سب سے عمدہ فائدہ جو انسان حاصل کر سکتا ہے وہ اللہ کا ڈر ہے۔ اس کے بعد نیک بیوی ہے کہ خاوند جب اس کی طرف دیکھے وہ اسے خوش کر دے اور جو حکم دے اسے بجا لائے اور اگر قسم دے دے تو پوری کر دکھائے اور جب وہ موجود نہ ہو تو اس کے مال کی اور اپنے نفس کی حفاظت کرے۔
 

Zia_Hayderi

TM Star
Mar 30, 2007
2,468
1,028
1,213
۳

ایمان کی تعریف

حضرت عبد اللہ فرماتے ہیں۔ ایمان کسی چیز کی تصدیق کرنے کا نام ہے۔ حضرت ابن عباس بھی یہی فرماتے ہیں۔ حضرت زہری فرماتے ہیں “ایمان کہتے ہیں عمل کو “ربیع بن انس کہتے ہیں۔ یہاں ایمان لانے سے مراد ڈرنا ہے۔ ابن جریر فرماتے ہیں۔ یہ سب اقوال مل جائیں تو مطلب یہ ہو گا کہ زبان سے ، دل سے ، عمل سے ، غیب پر ایمان لانا اور اللہ سے ڈرنا۔ ایمان کے مفہوم میں اللہ تعالیٰ پر، اس کی کتابو ں پر، اس کے اصولوں پر، ایمان لانا شامل ہے اور اس اقرار کی تصدیق عمل کے ساتھ بھی کرنا لازم ہے۔ میں کہتا ہوں لغت میں ایمان کہتے ہیں صرف سچا مان لینے کو، قرآن میں بھی ایمان اس معنی میں استعمال ہوا ہے۔ جیسے فرمایا حدیث(یومن باللہ ویومن من للمومنین) یعنی اللہ کو مانتے ہیں اور ایمان والوں کو سچا جانتے ہیں۔ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اپنے باپ سے کہا تھا۔ آیت(وما انت بمومن لنا ولو کنا صادقین) یعنی تو ہمارا یقین نہیں کرے گا اگرچہ ہم سچے ہوں۔ اس طرح ایمان یقین کے معنی میں آتا ہے جب اعمال کے ذکر کے ساتھ ملا ہوا ہو۔ جیسے فرمایا آیت(الا الذین امنوا وعملوا الصلحت) ہاں جس وقت اس کا استعمال مطلق ہو تو ایمان شرعی جو اللہ کے ہاں مقبول ہے وہ اعتقاد قول اور عمل کے مجموعہ کا نام ہے۔ اکثر ائمہ کا یہی مذہب ہے بلکہ امام شافعی امام احمد اور امام ابو عبیدہ وغیرہ نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ ایمان نام ہے زبان سے کہنے اور عمل کرنے کا۔ ایمان بڑھتا گھٹتا رہتا ہے اور اس کے ثبوت میں بہت سے آثار اور حدیثیں بھی آئی ہیں جو ہم نے بخاری شریف کی شرح میں نقل کر دی ہیں۔ فالحمد للہ۔ بعض نے ایمان کے معنی اللہ سے ڈر خوف کے بھی کئے ہیں۔ جیسے فرمان ہے آیت(ان الذین یخشون ربھم بالغیب) جو لوگ اپنے رب سے در پردہ ڈرتے رہتے ہیں۔ اور جگہ فرمایا آیت(من خشی الرحمن بالغیب) الخ یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ سے بن دیکھے ڈرے اور جھکنے والا دل لے کر آئے۔ حقیقت میں اللہ کا خوف ایمان کا اور علم کا خلاصہ ہے۔ جیسے فرمایا آیت(انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء) جو بندے ذی علم ہیں صرف اللہ سے ہی ڈرتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں وہ غیب پر بھی ایسا ہی ایمان رکھتے ہیں جیسا حاضر پر اور ان کا حال منافقوں جیسا نہیں کہ جب ایمان والوں کے سامنے ہوں تو اپنا ایماندار ہونا ظاہر کریں لیکن جب اپنے والوں میں ہوتے ہیں تو ان سے کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں ہم تو ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ان منافقین کا حال اور جگہ اس طرح بیان ہوا ہے آیت(اذا جاءک المنافقون) الخ یعنی منافق جب تیرے پاس آئیں گے تو کہیں گے کہ ہماری تہہ دل سے شہادت ہے کہ تو اللہ کا رسول ہے اللہ خوب جانتا ہے کہ تو اس کا رسول ہے لیکن اللہ کی گواہی ہے کہ یہ منافق تجھ سے جھوٹ کہتے ہیں۔ اس معنی کے اعتبار سے بالغیب حال ٹھہرے گا یعنی وہ ایمان لاتے ہیں در آنحالیکہ لوگوں سے پوشیدہ ہوتے ہیں۔ غیب کا لفظ جو یہاں ہے ، اس کے معنی میں بھی مفسرین کے بہت سے اقوال ہیں اور وہ سب صحیح ہیں اور جمع ہو سکتے ہیں۔ ابو العالیہ فرماتے ہیں اس سے مراد اللہ تعالیٰ پر، فرشتوں پر، کتابو ں پر، رسولوں پر، قیامت پر، جنت دوزخ پر، ملاقات اللہ پر، مرنے کے بعد جی اٹھنے پر، ایمان لانا ہے۔ قتادہ ابن دعامہ کا یہی قول ہے۔ ابن عباس، ابن مسعود اور بعض دیگر اصحاب سے مروی ہے کہ اس سے مراد وہ پوشیدہ چیزیں ہیں جو نظروں سے اوجھل ہیں جیسے جنت، دوزخ وغیرہ۔ وہ امور جو قرآن میں مذکور ہیں۔ ابن عباس فرماتے ہیں اللہ کی طرف سے جو کچھ آیا ہے وہ سب غیب میں داخل ہے۔ حضرت ابو ذر فرماتے ہیں اس سے مراد قرآن ہے۔ عطا ابن ابو رباح فرماتے ہیں اللہ پر ایمان لانے والا، غیب پر ایمان لانے والا ہے۔ اسماعیل بن ابو خالد فرماتے ہیں اسلام کی تمام پوشیدہ چیزیں مراد ہیں۔ زید بن اسلم کہتے ہیں مراد تقدیر پر ایمان لانا ہے۔ پس یہ تمام اقوال معنی کی رو سے ایک ہی ہیں اس لئے کہ سب چیزیں پوشیدہ ہیں اور غیب کی تفسیر ان سب پر مشتمل ہے اور ان سب پر ایمان لانا واجب ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود کی مجلس میں ایک مرتبہ صحابہ کے فضائل بیان ہو رہے ہوتے ہیں تو آپ فرماتے ہیں “حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے دیکھنے والوں کو تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لانا ہی تھا لیکن اللہ کی قسم ایمانی حیثیت سے وہ لوگ افضل ہیں جو بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں۔ پھر آپ نے الم سے لے کر مفلحون تک آیتیں پڑھیں۔ (ابن ابی حاتم۔ ابن مردویہ۔ مستدرک۔ حاکم) امام حاکم اس روایت کو صحیح بتاتے ہیں۔ مسند احمد میں بھی اس مضمون کی ایک حدیث ہے۔ ابو جمع صحابی سے ابن محریز نے کہا کہ کوئی ایسی حدیث سناؤ جو تم نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنی ہو۔ فرمایا میں تمہیں ایک بہت ہی عمدہ حدیث سناتا ہوں، ہم نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ایک مرتبہ ناشتہ کیا، ہمارے ساتھ ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے ، انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! کیا ہم سے بہتر بھی کوئی اور ہے ؟ ہم آپ پر اسلام لائے ، آپ کے ساتھ جہاد کیا، آپ نے فرمایا ہاں وہ لوگ جو تمہارے بعد آئیں گے ، مجھ پر ایمان لائیں گے حالانکہ انہوں نے مجھے دیکھا بھی نہ ہو گا۔ تفسیر ابن مردویہ میں ہے۔ صالح بن جبیر کہتے ہیں کہ ابو جمعہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمارے پاس بیت المقدس میں آئے۔ رجاء بن حیوہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ہمارے ساتھ ہی تھے ، جب وہ واپس جانے لگے تو ہم انہیں چھوڑنے کو ساتھ چلے ، جب الگ ہونے لگے تو فرمایا تمہاری ان مہربانیوں کا بدلہ اور حق مجھے ادا کرنا چاہئے۔ سنو! میں تمہیں ایک حدیث سناتا ہوں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنی ہے ہم نے کہا اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے ضرور سناؤ۔کہا سنو! ہم رسول اللہ صلی علیہ و سلم کے ساتھ تھے ، ہم دس آدمی تھے ، حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ان میں تھے ، ہم نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کیا ہم سے بڑے اجر کا مستحق بھی کوئی ہو گا؟ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور آپ کی تابعداری کی۔ آپ نے فرمایا تم ایسا کیوں نہ کرتے ؟ اللہ کا رسول تم میں موجود ہے ، وحی الٰہی آسمان سے تمہارے سامنے نازل ہو رہی ہے۔ ایمان تو ان لوگوں کا افضل ہو گا جو تمہارے بعد آئیں گے دو گتوں کے درمیان یہ کتاب پائیں گے ، اس پر ایمان لائیں گے اور اس پر عمل کریں گے ، یہ لوگ اجر میں تم سے گنے ہوں گے۔ اس حدیث میں “وجاوہ” کی قبولت کی دلیل ہے جس میں محدثین کا اختلاف ہے۔ میں نے اس مسئلہ کو بخاری شریف میں خوب واضح کر دیا ہے بعد والوں کی تعریف اسی بنا پر ہو رہی ہے اور ان کا بڑے اجر والا ہونا اسی حیثیت کی وجہ سے ہے ورنہ علی الاطلاق ہر طرح سے بہتر اور افضل تو صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم ہی ہیں۔ ایک اور حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مرتبہ صحابہ سے پوچھا، تمہارے نزدیک ایمان لانے میں کون زیادہ افضل ہے ، انہوں نے کہا، فرشتے۔ فرمایا وہ ایمان کیوں نہ لائیں وہ تو اپنے رب کے پاس ہی ہیں، لوگوں نے پھر کہا انبیاء، فرمایا وہ ایمان کیوں نہ لائیں ان پر تو وحی نازل ہوتی ہے۔

کہا پھر ہم۔ فرمایا تم ایمان کو قبول کیوں نہ کرتے ؟ جب کہ میں تم میں موجود ہوں سنو! میرے نزدیک سب سے زیادہ افضل ایمان والے وہ لوگ ہوں گے جو تمہارے بعد آئیں گے۔ صحیفوں میں لکھی ہوئی کتاب پائیں گے اس پر ایمان لائیں گے۔ اس کی سند میں مغیرہ بن قیس ہیں۔ ابو حاتم رازی انہیں منکر الحدیث بتاتے ہیں لیکن اسی کے مثل ایک اور حدیث ضعیف سند ہے۔ مسند ابو یعلی تفسیر ابن مردویہ مستدرک حاکم میں بھی مروی ہے اور حاکم اسے صحیح بتاتے ہیں۔ حضرت انس بن مالک سے بھی اسی کے مثل مرفوعاً مروی ہے۔ واللہ اعلم۔ ابن ابی حاتم میں ہے حضرت بد یلہ بنت اسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتی ہیں۔ بنو حارثہ کی مسجد میں ہم ظہر یا عصر کی نماز میں تھے اور بیت المقدس کی طرف ہمارا منہ تھا دو رکعت ادا کر چکے تھے کہ کسی نے آ کر خبر دی کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بیت اللہ شریف کی طرف منہ کر لیا ہے ہم سنتے ہی گھوم گئے۔ عورتیں مردوں کی جگہ آ گئیں اور مرد عورتوں کی جگہ چلے گئے اور باقی کی دو رکعتیں ہم نے بیت اللہ شریف کی طرف ادا کیں۔ جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا یہ لوگ ہیں جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔ یہ حدیث اس اسناد سے غریب ہے۔

قیام صلوٰۃ کیا ہے

ابن عباس فرماتے ہیں فرائض نماز بجا لانا۔ رکوع سجدہ تلاوت خشوع اور توجہ کو قائم رکھنا نماز کو قائم رکھنا ہے۔ قتادہ کہتے ہیں وقتوں کا خیال رکھنا، وضو اچھی طرح کرنا، رکوع سجدہ پوری طرح کرنا، اقامت صلوٰۃ ہے۔ مقاتل کہتے ہیں وقت کی نگہبانی کرنا۔ مکمل طہارت کرنا، رکوع، سجدہ پورا کرنا، تلاوت اچھی طرح کرنا۔ التحیات اور درود پڑھنا اقامت صلوٰۃ ہے۔ ابن عباس فرماتے ہیں آیت(مما رزقناھم ینفقون) کے معنی زکوٰۃ ادا کرنے کے ہیں۔ ابن عباس بن مسعود اور بعض صحابہ نے کہا ہے اس سے مراد آدمی کا اپنے بال بچوں کو کھلانا پلانا ہے۔ خرچ میں قربانی دینا جر قرب الٰہی حاصل کرنے کے لئے دی جاتی ہے۔ اپنی استعداد کے مطابق بھی شامل ہے جو زکوٰۃ کے حکم سے پہلے کی آیت ہے۔ حضرت ضحاک فرماتے ہیں کہ زکوٰۃ کی سات آیتیں جو سورہ برات میں ہیں ان کے نازل ہونے سے پہلے یہ حکم تھا کہ اپنی اپنی طاقت کے مطابق تھوڑا بہت جو میسر ہو دیتے رہیں۔ قتادہ فرماتے ہیں یہ مال تمہارے پاس اللہ کی امانت ہے عنقریب تم سے جدا ہو جائے گا۔ اپنی زندگی میں اسے اللہ کی راہ میں لگا دو۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں کہ یہ آیت عام ہے زکوٰۃ میں اہل و عیال کا خرچ اور جن لوگوں کو دینا ضروری ہے ان سب کو دنیا بھی شامل ہے اس لئے کہ پروردگار نے ایک عام وصف بیان فرمایا اور عام تعریف کی ہے۔ لہٰذا ہر طرح کا خرچ شامل ہو گا۔ میں کہتا ہوں قرآن کریم میں اکثر جگہ نماز کا اور مال خرچ کرنے کا ذکر ملا جلا آتا ہے اس لئے کہ نماز اللہ کا حق اور اس کی عبادت ہے جو اس کی توحید، اس کی ثناء اس کی بزرگی، اس کی طرف جھکنے ، اس پر توکل کرنے ، اس سے دعا کرنے کا نام ہے اور خرچ کرنا مخلوق کی طرف احسان کرنا ہے جس سے انہیں نفع پہنچے۔ اس کے زیادہ حقدار اہل و عیال اور غلام ہیں، پھر دور والے اجنبی۔ لہٰذا تمام واجب خرچ اخراجات اور فرض زکوٰۃ اس میں داخل ہیں۔ صحیحین میں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اسلام کی بنیادیں پانچ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی توحید اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت کی گواہی دینا۔ نماز قائم رکھنا، زکوٰۃ دینا، رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اللہ کا حج کرنا، اس بارے میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں۔ عربی لغت میں صلوٰۃ کے معنی دعا کے ہیں۔ عرب شاعروں کے شعر پر شاہد ہیں۔ پھر شریعت میں اس لفظ کا استعمال نماز کے لئے ہونے لگا جو رکوع سجود اور دوسرے خاص افعال کا نام ہے جو مخصوص اوقات میں جملہ شرائط صفات اور اقسام کے ساتھ بجا لائی جاتی ہے۔ ابن جریر فرماتے ہیں۔ صلوٰۃ کو نماز اس لئے کہا جاتا ہے کہ نمازی اللہ تعالیٰ سے اپنے عمل کا ثواب طلب کرتا ہے اور اپنی حاجتیں اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ جو دو رگیں پیٹھ سے لے کر ریڑھ کی ہڈی کی دونوں طرف آتی ہیں انہیں عربی میں صلوین کہتے ہیں چونکہ صلوٰۃ میں یہ ہلتی ہیں اس لئے اسے صلوٰۃ کہا گیا ہے۔ لیکن یہ قول ٹھیک نہیں بعض نے کہا یہ ماخوذ ہے صلی سے ، جس کے معنی ہیں جھک جانا اور لازم ہو جانا۔ جیسے قرآن میں آیت(لا یصلاھا) الخ یعنی جہنم میں ہمیشہ نہ رہے گا مگر بد بخت۔ بعض علماء کا قول ہے کہ جب لکڑی کو درست کرنے کے لئے آگ پر رکھتے ہیں تو عرب تصلیہ کہتے ہیں چونکہ مصلی بھی اپنے نفس کی کجی کو نماز سے درست کرتا ہے اس لئے اسے صلوٰۃ کہتے ہیں۔ جیسے قرآن میں ہے آیت(ان الصلوٰۃ تنھی عن الفحشاء والمنکر) الخ یعنی نماز ہر بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے لیکن اس کا دعا کے معنی میں ہونا ہی زیادہ صحیح اور زیادہ مشہور ہے واللہ اعلم۔ لفظ زکوٰۃ کی بحث انشاء اللہ اور جگہ آئے گی۔”

۴

اعمال مومن

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ جو کچھ اللہ کی طرف سے تم پر نازل ہوا اور تجھ سے پہلے کے انبیاء پر نازل ہوا وہ ان سب کی تصدیق کرتے ہیں ایسا نہیں کہ وہ کسی کو مانیں اور کسی سے انکار کریں بلکہ اپنے رب کی سب باتوں کو مانتے ہیں اور آخرت پر بھی ایمان رکھتے ہیں یعنی بعث و قیامت، جنت و دوزخ، حساب و میزان سب کو مانتے ہیں۔ قیامت چونکہ دنیا کے فنا ہونے کے بعد آئے گی اس لئے اسے آخرت کہتے ہیں۔ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ جن کی پہلے ایمان بالغیب وغیرہ کے ساتھ صفت بیان کی گئی تھی انہی کی دوبارہ یہ صفتیں بیان کی گئی ہیں۔ یعنی ایماندار خواہ عرب مومن ہوں خواہ اہل کتاب وغیرہ۔ مجاہد ابو العالیہ، ربیع بن انس اور قتادہ کا یہی قول ہے۔ بعض نے کہا ہے یہ دونوں٠ ہیں تو ایک مگر مراد اس سے صرف اہل کتاب ہی نہیں۔ ان دونوں صورتوں میں واؤ عطف کا ہو گا اور صفتوں کا عطف صفتوں پر ہو گا جیسے سبح اسم الخ میں صفتوں کا عطف صفتوں پر ہے اور شعراء کے شعروں میں بھی آیا ہے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ پہلی صفتیں تو ہیں عرب مومنوں کی اور آیت(والذین یومنون بما انزل الیک) الخ سے مراد اہل کتاب مومنوں کی صفتیں ہیں۔ سدی نے حضرت ابن عباس، ابن مسعود اور بعض دیگر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نقل کیا ہے اور ابن جریر نے بھی اسی سے اتفاق کیا ہے اور اس کی شہادت میں یہ آیت لائے ہیں آیت(وان من اھل الکتاب لمن یومن باللہ وما انزل الیکم وما انزل الیھم) الخ یعنی اہل کتاب میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اور اس وحی پر جو تمہاری طرف نازل ہوئی اور اس وحی پر جو اس سے پہلے ان کی طرف اتاری گئی ایمان لاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہتے ہیں۔ اور جگہ ارشاد ہے آیت(الذین اتیناھم الکتاب من قبلہ) الخ یعنی جنہیں اس سے پہلے ہم نے کتاب دی تھی وہ اس کے ساتھ ایمان رکھتے اور جب ان کو (یہ قرآن) پڑھ کر سنایا جاتا ہے تو کہتے ہیں۔ ہم اس پر بھی ایمان لائے اور اور اسے اپنے رب کی طرف سے حق جانا۔ ہم تو اس سے پہلے ہی مسلمان تھے۔ انہیں ان کے صبر کرنے اور برائی کے بدلے بھلائی کرنے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی وجہ سے دوہرا اجر ملے گا۔ بخاری مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں۔ تین شخصوں کو دوہرا اجر ملے گا، ایک اہل کتاب جو اپنے نبی پر ایمان لائیں اور مجھ پر ایمان رکھیں۔ دوسرا وہ غلام جو اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرے اور اپنے مالک کا بھی۔ تیسرا وہ شخص جو اپنی لونڈی کو اچھا ادب سکھائے پھر اسے آزاد کر کے اس سے نکاح کر لے۔ امام جریر کے اس فرق کی مناسبت اس سے بھی معلوم ہوتی ہے کہ سورت کے شروع میں مومنوں اور کافروں کا بیان ہوا ہے تو جس طرح کفار کی دو قسمیں ہیں کافر اور منافق۔ اسی طرح مومنوں کی بھی دو قسمیں ہیں۔ عربی مومن اور کتابی مومن۔ میں کہتا ہوں ظاہراً یہ ہے کہ حضرت مجاہد کا یہ قول ٹھیک ہے کہ سورہ بقرہ کی اول چار آیتیں مومنوں کے اوصاف کے بیان میں ہیں اور دو آیتیں اس کے بعد کی کافروں کے بارے میں ہیں اور ان کے بعد کی تیرہ آیتیں منافقوں سے متعلق ہیں پس یہ چاروں آیتیں ہر مومن کے حق میں عام ہیں۔ عربی ہو یا عجمی، کتابی ہو یا غیر کتابی، انسانوں میں سے ہو یا جنات میں سے۔ اس لئے کہ ان میں سے ہر ایک وصف دوسرے کو لازم اور شرط ہے ایک بغیر دوسرے کے نہیں ہو سکتا۔ غیب پر ایمان لانا، نماز قائم کرنا، اور زکوٰۃ دینا اس وقت تک صحیح نہیں جب تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر اور اگلے انبیاء پر جو کتابیں اتری ہیں۔ ان پر ایمان نہ ہو اور ساتھ ہی آخرت کا یقین کامل نہ ہو جس طرح پہلی تین چیزیں بغیر پچھلی تین چیزوں کے غیر معتبر ہیں۔ اسی طرح پچھلی تینوں بغیر پہلی تینوں کے صحیح نہیں۔ اسی لئے ایمان والوں کو حکم الٰہی ہے آیت(یا ایھا الذین امنوا امنوا باللہ ورسولہ والکتاب الذی نزل علی رسولہ والکتاب الذی انزل من قبل) الخ یعنی ایمان والو اللہ پر، اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر اور جو کتاب اس پر اتری ہے اس پر اور جو کتابیں ان سے پہلے اتری ہیں ان پر ایمان لاؤ۔ اور فرمایا آیت(ولا تجادلوا اھل الکتاب) الخ یعنی اہل کتاب سے جھگڑنے میں بہترین طریقہ برتو اور کہو کہ ہم ایمان لائے ہیں اس پر جو ہم پر نازل کیا گیا اور جو تمہاری طرف اتارا گیا ہے ہمارا اور تمہارا معبود ایک ہی ہے۔ ارشاد ہے اے اہل کتاب جو ہم نے اتارا ہے اس پر ایمان لاؤ اس کو سچا کرنے والا ہے جو تمہارے پاس ہے۔ اور جگہ فرمایا۔

اے اہل کتاب تم کسی چیز پر نہیں ہو جب تک توراۃ، انجیل اور جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے اتارا گیا ہے۔ قائم نہ رکھو۔ دوسری جگہ تمام ایمان والوں کی طرف سے خبر دیتے ہوئے قرآن پاک نے فرمایا آیت(امن الرسول بما انزل الیہ) الخ یعنی ہمارے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ایمان لائے اس پر جو ان کی طرف ان کے رب کی طرف سے نازل ہوا اور تمام ایمان والے بھی ہر ایک ایمان لایا اللہ تعالیٰ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابو ں پر اور اس کے رسولوں پر۔ ہم رسولوں میں فرق اور جدائی نہیں کرتے۔ اسی طرح ارشاد ہوتا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں اور رسولوں میں سے کسی میں تفریق نہیں کرتے۔ اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں جن میں ایمان والوں کا اللہ تعالیٰ پر اس کے تمام رسولوں اور سب کتابو ں پر ایمان لانے کا ذکر کیا گیا ہے۔ اور یہ بات ہے کہ اہل کتاب کے ایمان والوں کی ایک خاص خصوصیت ہے کیونکہ ان کا ایمان اپنے ہاں کتابو ں میں تفصیل کے ساتھ ہوتا ہے اور پھر جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ پر وہ اسلام قبول کرتے ہیں تو قرآن کریم پر بھی تفصیل کے ساتھ ایمان لاتے ہیں۔ اسی لئے ان کو دوہرا اجر ملتا ہے اور اس امت کے لوگ بھی اگلی کتابو ں پر ایمان لاتے ہیں لیکن ان کا ایمان اجمالی طور پر ہوتا ہے۔ جیسے صحیح حدیث میں ہے کہ جب تم سے اہل کتاب کوئی بات کریں تو تم نہ اسے سچ کہو نہ جھوٹ بلکہ کہہ دیا کرو کہ ہم تو جو کچھ ہم پر اترا اسے بھی مانتے ہیں اور جو کچھ تم پر اترا اس پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔ بعض موقع پر ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو لوگ حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لاتے ہیں ان کا ایمان بہ نسبت اہل کتاب کے زیادہ پورا زیادہ کمال والا زیادہ راسخ اور زیادہ مضبوط ہوتا ہے اس حیثیت سے ممکن ہے کہ انہیں اہل کتاب سے بھی زیادہ اجر ملے چاہے وہ اپنے پیغمبر اور پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لانے کے سبب دوہرا اجر پائیں لیکن یہ لوگ کمال ایمان کے سبب اجر میں ان سے بھی بڑھ جائیں۔ واللہ اعلم۔”
 

Zia_Hayderi

TM Star
Mar 30, 2007
2,468
1,028
1,213
۵

ہدایت یافتہ لوگ

یعنی وہ لوگ جن کے اوصاف پہلے بیان ہوئے مثلاً غیب پر ایمان لانا، نماز قائم رکھنا، اللہ کے دئیے ہوئے سے دینا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر جو اترا اس پر ایمان لانا، آپ سے پہلے جو کتابیں اتریں ان کو ماننا، دار آخرت پر یقین رکھ کر وہاں کام آنے کے لئے نیک اعمال کرنا۔ برائیوں اور حرام کاریوں سے بچنا۔ یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں جنہیں اللہ کی طرف سے نور ملا، اور بیان و بصیرت حاصل ہوا اور انہی لوگوں کے لئے دنیا اور آخرت میں فلاح و نجات ہے۔ ابن عباس نے ہدایت کی تفسیر “نور” اور “استقامت” سے کی ہے اور “فلاح” کی تفسیر اپنی چاہت کو پا لینے اور برائیوں سے بچ جانے کی ہے۔ ابن جریر فرماتے ہیں کہ یہ لوگ اپنے رب کی طرف سے نور، دلیل، ثابت قدمی، سچائی اور توفیق میں حق پر ہیں اور یہی لوگ اپنے ان پاکیزہ اعمال کی وجہ سے نجات، ثواب اور دائمی جنت پانے کے مستحق ہیں اور عذاب سے محفوظ ہیں۔ ابن جریر یہ بھی فرماتے ہیں کہ دوسرے اولئک کا اشارہ اہل کتاب کی طرف ہے جن کی صفت اس سے پہلے بیان ہو چکی ہے جیسے پہلے گزر چکا۔ اس اعتبار سے آیت(والذین یومنون بما انزل الیک) الخ پہلے کی آیت سے جدا ہو گا اور مبتدا بن کر مرفوع ہو گا اور اس کی خبر آیت(اولئک ھم المفلحون) ہو گی لیکن پسندیدہ قول یہی ہے کہ اس کا اشارہ پہلے کے سب اوصاف والوں کی طرف ہے اہل کتاب ہوں یا عرب ہوں۔ حضرت ابن عباس، حضرت ابن مسعود اور بعض صحابہ سے مروی ہے کہ آیت(یومنون بالغیب) سے مراد عرب ایمان دار ہیں اس کے بعد کے جملہ سے مراد اہل کتاب ایماندار ہیں۔ پھر دونوں کے لئے یہ بشارت ہے کہ یہ لوگ ہدایت اور فلاح والے ہیں۔ اور یہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ یہ آیتیں عام ہیں اور یہ اشارہ بھی عام ہے واللہ اعلم۔ مجاہد، ابو العالیہ، ربیع بن انس، اور قتادہ سے یہی مروی ہے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال ہوا کہ حضور قرآن پاک کی بعض آیتیں تو ہمیں ڈھاریں دیتی ہیں اور امید قائم کرا دیتی ہیں اور بعض آیتیں کمر توڑ دیتی ہیں اور قریب ہوتا ہے کہ ہم نامید ہو جائیں۔ آپ نے فرمایا لو میں تمہیں جنتی اور جہنمی کی پہچان صاف صاف بتا دوں۔ پھر آپ نے الم سے مفلحون تک پڑھ کر فرمایا یہ تو جنتی ہیں صحابہ نے خوش ہو کر فرمایا “الحمد للہ ہمیں امید ہے کہ ہم انہی میں سے ہوں” پھر آیت(ان الذین کفروا) سے عظیم تک تلاوت کی اور فرمایا یہ جہنمی ہیں۔ انہوں نے کہا ہم ایسے نہیں آپ نے فرمایا ہاں۔ (ابن ابی حاتم)”

۶۔

بدقسمت لوگ

یعنی جو لوگ حق کو پوشیدہ کرنے یا چھپا لینے کے عادی ہیں اور ان کی قسمت میں یہی ہے کہ انہیں آپ کا ڈرانا سود مند ہے اور نہ ہی ڈرانا۔ یہ کبھی اللہ تعالیٰ کی اس وحی کی تصدیق نہیں کریں گے جو آپ پر نازل ہوئی ہے۔ جیسے اور جگہ فرمایا آیت(ان الذین حقت علیھم کلمۃ ربک لا یومنون ولو جاء تھم کل ایتہ حتی یروا العذاب الالیم) یعنی جن لوگوں پر اللہ کی بات ثابت ہو چکی ہے وہ ایمان نہ لائیں گے اگرچہ تمام آیتیں دیکھ لیں یہاں تک کہ درد ناک عذاب دیکھیں۔ ایسے ہی سرکش اہل کتاب کی نسبت فرمایا آیت(ولئن اتیت الذین اوتوالکتاب) الخ یعنی ان اہل کتاب کے پاس اگرچہ تمام دلائل لے آؤ تاہم وہ تمہارے قبلہ کو نہیں مانیں گے۔ یعنی ان بد نصیبوں کو سعادت حاصل ہی نہیں ہو گی۔ ان گمراہوں کو ہدایت کہاں؟ تو اے نبی ان پر افسوس نہ کر، تیرا کام صرف رسالت کا حق ادا کر دینا اور پہنچا دینا ہے۔ ماننے والے نصیب ور ہیں وہ مالا مال ہو جائیں گے اور اگر کوئی نہ مانے تو نہ سہی۔ تیرا فرض ادا ہو گیا ہم خود ان سے حساب لے لیں گے۔ تو صرف ڈرانے والا ہے۔ ہر چیز پر اللہ تعالیٰ ہی وکیل ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس بات کی بڑی ہی حرص تھی کہ تمام لوگ ایمان دار ہو جائیں اور ہدایت قبول کر لیں لیکن پروردگار نے فرمایا کہ یہ سعادت ہر ایک کے حصہ نہیں۔ یہ نعمت بٹ چکی ہے جس کے حصے میں آئی ہے وہ آپ کی مانے گا اور جو بد قسمت ہیں وہ ہرگز ہرگز اطاعت کی طرف نہیں جھکیں گے۔ پس مطلب یہ ہے کہ جو قرآن کو تسلیم نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ ہم اگلی کتابو ں کو مانتے ہیں انہیں ڈرانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس لئے کہ وہ تو خود اپنی کتاب کو بھی حقیقتاً نہیں مانتے کیونکہ اس میں تیرے ماننے کا عہد موجود ہے تو جب وہ اس کتاب کو اور اس نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی نصیحت کو نہیں مانتے جس کے ماننے کا اقرار کر چکے تو بھلا وہ تمہاری باتوں کو کیا مانیں گے ؟ ابو العالیہ کا قول ہے کہ یہ آیت جنگ احزاب کے ان سرداروں کے بارے میں اتری ہے جن کی نسبت فرمان باری ہے آیت(الم ترالی الذین بدلوا نعمۃ اللہ کفرا) الخ لیکن جو معنی ہم نے پہلے بیان کئے ہیں وہ زیادہ واضح ہیں اور دوسری آیتوں کے مطابق ہیں۔ واللہ اعلم۔ اس حدیث پر جو ابن ابی حاتم کے حوالے سے ابھی بیان ہوئی ہے دوبارہ نظر ڈال جائیے لا یومنون پہلے جملہ کی تاکید ہے یعنی ڈرانا نہ ڈرانا دونوں برابر ہیں، دونوں حالتوں میں ان کا کفر نہ ٹوٹے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ لایومنون خبر ہو اس لئے کہ تقدیر کلام آیت(ان الذین کفروا لا یومنون) ہے اور آیت(سواء علیھم) جملہ معترضہ ہو جائے گا واللہ اعلم۔”

۷

مہر کیوں لگا دی گئی؟

حضرت سدی فرماتے ہیں ختم سے مراد طبع ہے یعنی مہر لگا دی حضرت قتادہ فرماتے ہیں یعنی ان پر شیطان غالب آگیا وہ اسی کی ماتحتی میں لگ گئے یہاں تک کہ مہر لگا دی حضرت قتادہ فرماتے ہیں یعنی ان پر شیطان غالب آگیا وہ اسی کی ماتحتی میں لگ گئے یہاں تک کہ مہر الٰہی ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر لگ گئی اور آنکھوں پر پردہ پڑ گیا۔ ہدایت کو نہ دیکھ سکتے ہیں نہ سن سکتے ہیں، نہ سمجھ سکتے ہیں۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ گناہ لوگوں کے دلوں میں بستے جاتے ہیں اور انہیں ہر طرف سے گھیر لیتے ہیں۔ بس یہی طبع اور ختم یعنی مہر ہے۔ دل اور کان کے لئے محاورہ میں مہر آتی ہے۔ مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں قرآن میں ران کا لفظ ہے طبع کا لفظ ہے اور اقفال کا لفظ ہے۔ ران طبع سے کم ہے اور طبع اقفال سے کم ہے ، اقفال سب سے زیادہ ہے۔ حضرت مجاہد نے اپنا ہاتھ دکھا کر کہا کہ دل ہتھیلی کی طرح ہے اور بندے کے گناہ کی وجہ سے وہ سمٹ جاتا ہے اور بند ہو جاتا ہے۔ اس طرح کہ ایک گناہ کیا تو گویا چھنگلیا بند ہو گئی پھر دوسرا گناہ کیا دوسری انگلی بند ہو گئی یہاں تک کہ تمام انگلیاں بند ہو گئیں اور اب مٹھی بالکل بند ہو گئی جس میں کوئی چیز داخل نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح گناہوں سے دل پر پردے پڑ جاتے ہیں مہر لگ جاتا ہیں مہر لگ جاتی ہے پھر اس پر کسی طرح حق اثر نہیں کرتا۔ اسے زین بھی کہتے ہیں مطلب یہ ہوا کہ تکبر کی وجہ ان کا حق سے منہ پھیر لینا بیان کیا جا رہا ہے جیسے کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص اس بات کے سننے سے بہرا بن گیا۔ مطلب یہ ہوتا ہے کہ تکبر اور بے پرواہی کر کے اس نے اس بات کی طرف دھیان نہیں دیا۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں یہ مطلب ٹھیک نہیں اس لئے کہ یہاں تو خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی۔ زمحشری نے اس کی تردید کی ہے اور پانچ تاویلیں کی ہیں لیکن سب کی سب بالکل بے معنی اور فضول ہیں اور صرف اپنے معتزلی ہونے کی وجہ سے اسے یہ تکلفات کرنے پڑے ہیں کیونکہ اس کے نزدیک یہ بات بہت بری ہے کہ کسی کے دل پر اللہ قدوس مہر لگا دے لیکن افسوس اس نے دوسری صاف اور صریح آیات پر غور نہیں کیا۔ ایک جگہ ارشاد ہے آیت(فلما زاغوا ازاغ اللہ قلوبھم) یعنی جب وہ ٹیڑھے ہو گئے تو اللہ نے ان کے دل ٹیڑھے کر دئیے اور فرمایا آیت(ونقلب افئدتھم وابصارھم الخ ہم ان کے دلوں کو اور ان کی نگاہوں کو الٹ دیتے ہیں گویا کہ وہ سرے سے ایمان ہی نہ لائے تھے اور ہم انہیں ان کی سرکشی میں بھٹکتے ہوئے ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ اس قسم کی اور آیتیں بھی ہیں۔ جو صاف بتاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے اور ہدایت کو ان سے دور کر دیا ہے۔ حق کو ترک کرنے اور باطل پر جم رہنے کی وجہ سے جو یہ سراسر عدل و انصاف ہے اور عدل اچھی چیز ہے نہ کہ بری۔ اگر زمخشری بھی بغور ان آیات پر نظر ڈالتے تو تاویل نہ کرتے۔ واللہ اعلم۔ قرطبی فرماتے ہیں۔ امت اجماع ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی ایک صفت مہر لگانا بھی بیان کی ہے جو کفار کے کفر کے بدلے ہے۔ فرمایا ہے آیت(بل طبع اللہ علیھا بکفرھم) بلکہ ان کے کفر کی وجہ سے اللہ نے ان پر مہر لگا دی۔ حدیث میں بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ دلوں کو الٹ پلٹ کرتا ہے۔ دعا میں ہے حدیث(یا مقلب القلوب ثبت قلوبنا علی دینک) یعنی اے دلوں کے پھیرنے والے ہمارے دلوں کو اپنے دین پر قائم رکھ۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا دلوں پر فتنے اس طرح پیش ہوتے ہیں جیسے ٹوٹے ہوئے بورے کا ایک ایک تنکا جو دل انہیں قبول کر لیتا ہے اس میں ایک سیاہ نکتہ ہو جاتا ہے اور جس دل میں یہ فتنے اثر نہیں کرتے ، اس میں ایک سفید نکتہ ہو جاتا ہے جس کی سفیدی بڑھتے بڑھتے بالکل صاف سفید ہو کر سارے دل کو منور کر دیتی ہے۔ پھر اسے کبھی کوئی فتنہ نقصان نہیں پہنچا سکتا اسی طرح دوسرے دل کی سیاہی (جو حق قبول نہیں کرتا) پھیلتی جاتی ہے یہاں تک کہ سارا دل سیاہ ہو جاتا ہے۔ اب وہ الٹے کوزے کی طرح ہو جاتا ہے۔ نہ اچھی بات اسے اچھی لگتی ہے نہ برائی بری معلوم ہوتی ہے۔ امام ابن جریر کا فیصلہ وہی ہے جو حدیث میں آ چکا ہے کہ مومن جب گناہ کرتا ہے اس کے دل میں ایک سیاہ نکتہ ہو جاتا ہے اگر وہ باز آ جائے توبہ کر لے اور رک جائے تو وہ نکتہ مٹ جاتا ہے اور اس کا دل صاف ہو جاتا ہے اور اگر وہ گناہ میں بڑھ جائے تو وہ سیاہی بھی پھیلتی جاتی ہے یہاں تک کہ سارے دل پر چھا جاتی ہے ، یہی وہ ران ہے جس کا ذکر اس آیت میں ہے آیت(کلا بل ران علی قلوبھم ما کانوا یکسبون) یعنی یقیناً ان کے دلوں پر ران ہے ، ان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے (ترمذی۔ نسائی۔ ابن جریر) امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو حسن صحیح کہا ہے تو معلوم ہوا کہ گناہوں کی زیادتی دلوں پر غلاف ڈال دیتی ہے اور اس کے بعد مہر الٰہی لگ جاتی ہے جسے ختم اور طبع کہا جاتا ہے۔ اب اس دل میں ایمان کے جانے اور کفر کے نکلنے کی کوئی راہ باقی نہیں رہتی۔ اسی مہر کا ذکر اس آیت آیت(ختم اللہ) الخ میں ہے ، وہ ہماری آنکھوں دیکھی حقیقت ہے کہ جب کسی چیز کا منہ بند کر کے اس پر مہر لگا دی جائے تو جب تک وہ مہر نہ ٹوٹے نہ اس میں کچھ جا سکتا ہے نہ اس سے کوئی چیز نکل سکتی ہے۔ اسی طرح جن کفار کے دلوں اور کانوں پر مہر الٰہی لگ چکی ہے ان میں بھی بغیر اس کے ہٹے اور ٹوٹے نہ ہدایت آئے ، نہ کفر جائے۔ سمعھم پر پورا وقف ہے اور آیت(علی ابصارھم غشاوۃ) الگ پورا جملہ ہے۔ ختم اور طبع دلوں اور کانوں پر ہوتی ہے اور غشاوت یعنی پردہ آنکھوں پر پڑتا ہے۔ جیسے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس، حضرت عبد اللہ بن مسعود اور دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔ قرآن میں ہے آیت(فان یشا اللہ یختم علی قبلک) اور جگہ ہے آیت(وختم علی سمعہ وقلبہ وجعل علی بصرہ غشاوۃ ان آیتوں میں دل اور کان پر ختم کا ذکر ہے اور آنکھ پر پردے کا بعض نے یہاں غشاوۃ زبر کے ساتھ بھی پڑھا ہے تو ممکن ہے کہ ان کے نزدیک فعل جعل مقصود ہو اور ممکن ہے کہ نصب محل کی اتباع سے ہو جیسے “آیت(وچورعین)” میں۔ شروع سورت کی چار آیتوں میں مومنین کے اوصاف بیان ہوئے پھر ان دو آیتوں میں کفار کا حال بیان ہوا۔ اب منافقوں کا ذکر ہوتا ہے جو بظاہر ایماندار بنتے ہیں لیکن حقیقت میں کافر ہیں چونکہ ان لوگوں کی چالاکیاں عموماً پوشیدہ رہ جاتی ہیں۔ اس لئے ان کا بیان ذرا تفصیل سے کیا گیا اور بہت کچھ ان کی نشانیاں بیان کی گئیں انہی کے بارے میں سورہ برات اتری اور انہی کا ذکر سورہ نور وغیرہ میں کیا گیا تاکہ ان سے پورا بچاؤ ہو اور ان کی مذموم خصلتوں سے مسلمان دور رہیں۔ پس فرمایا۔”

۸

منافقت کی قسمیں

دراصل نفاق کہتے ہیں بھلائی ظاہر کرنے اور برائی پوشیدہ رکھنے کو۔ نفاق کی دو قسمیں ہیں اعتقادی اور عملی۔ پہلی قسم کے منافق تو ابدی جہنمی ہیں اور دوسری قسم کے بد ترین مجرم ہیں۔ اس کا بیان تفصیل کے ساتھ انشاء اللہ کسی مناسب جگہ ہو گا۔ امام ابن جریج فرماتے ہیں “منافق کا قول اس کے فعل کے خلاف، اس کا باطن ظاہر کے خلاف اس کا آنا جانے کے خلاف اور اس کی موجودگی عدم موجودگی ہوا کرتی ہے۔ نفاق مکہ شریف میں تو تھا ہی نہیں بلکہ اس کے الٹ تھا یعنی بعض لوگ ایسے تھے جو زبردستی بہ ظاہر کافروں کا ساتھ دیتے تھے مگر دل میں مسلمان ہوتے تھے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہجرت کر کے مکہ چھوڑ کر مدینہ تشریف لائے اور یہاں پر اوس اور خزرج کے قبائل نے انصار بن کر آپ کا ساتھ دیا اور جاہلیت کے زمانہ کی مشرکانہ بت پرستی ترک کر دی اور دونوں قبیلوں میں سے خوش نصیب لوگ مشرف بہ اسلام ہو گئے لیکن یہودی اب تک اللہ تعالیٰ کی اس نعمت سے محروم تھے۔ ان میں سے صرف حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ نے اس سچے دین کو قبول کیا تب تک بھی منافقوں کا خبیث گروہ قائم نہ ہوا تھا اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ان یہودیوں اور عرب کے بعض قبائل سے صلح کر لی تھی۔ غرض اس جماعت کے قیام کی ابتدا یوں ہوئی کہ مدینہ شریف کے یہودیوں کے تین قبیلے تھے بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ، بنو قینقاع تو خزرج کے حلیف اور بھائی بند بنے ہوئے تھے اور باقی دو قبیلوں کا بھائی چارہ اوس سے تھا۔ جب جنگ بد ر ہوئی اور اس میں پروردگار نے اپنے دین والوں کو غالب کیا۔ شوکت و شان اسلام ظاہر ہوئی، مسلمانوں کا سکہ جم گیا اور کفر کا زور ٹوٹ گیا تب یہ ناپاک گروہ قائم ہوا چنانچہ عبد اللہ بن ابی بن سلول تھا تو خزرج کے قبیلے سے لیکن اوس اور خزرج دونوں اسے اپنا بڑا مانتے تھے بلکہ اس کی باقاعدہ سرداری اور بادشاہت کے اعلان کا پختہ ارادہ کر چکے تھے کہ ان دونوں قبیلوں کا رخ اسلام کی طرف پھر گیا اور اس کی سرداری یونہی رہ گئی۔ یہ خار تو اس کے دل میں تھا ہی، اسلام کی روز افزوں ترقی میں لڑائی اور کامیابی نے اسے مخبوط الحواس بنا دیا۔ اب اس نے دیکھا کہ یوں کام نہیں چلے گا اس نے بظاہر اسلام قبول کر لینے اور باطن میں کافر رہنے کی ٹھانی اور جس قدر جماعت اس کے زیر اثر تھی سب کو یہی ہدایت کی، اس طرح منافقین کی ایک جمعیت مدینہ کے آس پاس قائم ہو گئی۔ ان منافقین میں بحمدللہ مکی مہاجر ایک بھی نہ تھا بلکہ یہ بزرگ تو اپنے اہل و عیال، مال و متاع کو نام حق پر قربان کر کے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا ساتھ دے کر آئے تھے۔ (فرضی اللہ عنھم اجمعین)۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں “یہ منافق اوس اور خزرج کے قبیلوں میں سے تھے اور یہودی بھی جو ان کے طریقے پر تھے۔ قبیلہ اوس اور خزرج کے نفاق کا ان آیتوں میں بیان ہے۔ ” ابو العالیہ، حضرت حسن، قتادہ، سدی نے یہی بیان کیا ہے۔ پروردگار عالم نے منافقوں کی بہت سی بد خصلتوں کا یہاں بیان فرمایا۔ تاکہ ان کے ظاہر حال سے مسلمان دھوکہ میں نہ آ جائیں اور انہیں مسلمان خیال کر کے اپنا نہ سمجھ بیٹھیں۔ جس کی وجہ سے کوئی بڑا فساد پھیل جائے۔ یہ یاد رہے کہ بد کاروں کو نیک سمجھنا بھی بجائے خود بہت برا اور نہایت خوفناک امر ہے جس طرح اس آیت میں فرمایا گیا ہے کہ یہ لوگ زبانی اقرار تو ضرور کرتے ہیں مگر ان کے دل میں ایمان نہیں ہوتا۔ اسی طرح سورہ منافقون میں بھی کہا گیا ہے کہ آیت(اذا جاء ک المنافقون قالوا نشھدانک لرسول اللہ )الخ یعنی منافق تیرے پاس آ کر کہتے ہیں کہ ہماری گواہی ہے کہ آپ رسول اللہ ہیں اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ تو اس کا رسول ہے لیکن چونکہ حقیقت میں منافقوں کا قول ان کے عقیدے کے مطابق نہ تھا اس لئے ان لوگوں کے شاندار اور تاکیدی الفاظ کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انہیں جھٹلا دیا۔ اور سورہ منافقون میں فرمایا آیت(واللہ یشھدان المنافقین لکاذبون) یعنی اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ بالیقین منافق جھوٹے ہیں اور یہاں بھی فرمایا آیت(وما ھم بمومنین) یعنی دراصل وہ ایماندار نہیں وہ اپنے ایمان کو ظاہر کر کے اور اپنے کفر کو چھپا کر اپنی جہالت سے اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دیتے ہیں اور اسے نفع دینے والی اور اللہ کے ہاں چل جانے والی کاریگری خیال کرتے ہیں۔ جیسے کہ بعض مومنوں پر ان کا یہ مکر چل جاتا ہے۔ قرآن میں اور جگہ ہے آیت(یوم یبعثھم اللہ جمیعا فیحلفون لہ) الخ یعنی قیامت کے دن جبکہ اللہ تعالیٰ ان سب کو کھڑا کرے گا تو جس طرح وہ یہاں ایمان والوں کے سامنے قسمیں کھاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے بھی قسمیں کھائیں٠ گے اور سمجھتے ہیں کہ وہ بھی کچھ ہیں۔ خبردار یقیناً وہ جھوٹے ہیں۔ یہاں بھی ان کے اس غلط عقیدے کی وضاحت میں فرمایا کہ دراصل وہ اپنے اس کام کی برائی کو جانتے ہی نہیں۔ یہ دھوکہ خود اپنی جانوں کو دے رہے ہیں۔ جیسے کہ اور جگہ ارشاد ہوا آیت(ان المنافقین یخادعون اللہ ھو خادعھم) یعنی منافق اللہ کو دھوکہ دیتے ہیں حالانکہ وہ انہیں کو دھوکہ میں رکھنے والا ہے۔ بعض قاریوں نے یخدعون پڑھا ہے اور بعض یخادعون مگر دونوں قراتوں کے معنی کا مطلب ایک ہی ہوتا ہے۔ ابن جریر نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کو اور ایمان والوں کو منافق دھوکہ کیسے دیں گے ؟ وہ جو اپنے دل کے خلاف اظہار کرتے ہیں وہ تو صرف بچاؤ کے لیے ہوتا ہے تو جواباً کہا جائے گا کہ اس طرح کی بات کرنے والے کو بھی جو کسی خطرہ سے بچنا چاہتا ہے عربی زبان میں مخادع کہا جاتا ہے چونکہ منافق بھی قتل، قید اور دنیاوی عذابو ں سے محفوظ رہنے کے لئے یہ چال چلتے تھے اور اپنے باطن کے خلاف اظہار کرتے تھے اس لئے انہیں دھوکہ باز کہا گیا۔ ان کا یہ فعل چاہے کسی کو دنیا میں دھوکا دے بھی دے لیکن درحقیقت وہ خود اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ کیونکہ وہ اسی میں اپنی بھلائی اور کامیابی جانتے ہیں اور دراصل یہ سب ان کے لئے انتہائی برا عذاب اور غضب الٰہی ہو گا جس کے سہنے کی ان میں طاقت نہیں ہو گی پس یہ دھوکہ حقیقتاً ان پر خود وبال ہو گا۔ وہ جس کام کے انجام کو اچھا جانتے ہیں وہ ان کے حق میں برا اور بہت برا ہو گا۔ ان کے کفر، شک اور تکذیب کی وجہ سے ان کا رب ان سے ناراض ہو گا لیکن افسوس انہیں اس کا شعور ہی نہیں اور یہ اپنے اندھے پن میں ہی مست ہیں۔ ابن جریج اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ آیت(لا الہ الا اللہ) کا اظہار کر کے وہ اپنی جان اور مال کا بچاؤ کرنا چاہتے ہیں، یہ کلمہ ان کے دلوں میں جا گزریں نہیں ہوتا۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں منافقوں کی یہی حالت ہے کہ زبان پر کچھ، دل میں کچھ، عمل کچھ، عقیدہ کچھ، صبح کچھ اور شام کچھ کشتی کی طرح جو ہوا کے جھونکے سے کبھی ادھر ہو جاتی ہے کبھی ادھر۔”
 

Zia_Hayderi

TM Star
Mar 30, 2007
2,468
1,028
1,213
۱۰

شک و شبہ بیماری ہے

بیماری سے مراد یہاں شک و شبہ ہے۔ حضرت ابن عباس حضرت ابن مسعود اور چند صحابہ سے یہی مروی ہے۔ حضرت مجاہد عکرمہ، حسن بصری، ابو العالیہ، ربیع بن انس، قتادہ، کا بھی یہی قول ہے۔ حضرت عکرمہ اور طاؤس نے اس کی تفسیر سے ریا اور ابن عباس سے اس کی تفسیر نفاق بھی مروی ہے۔ زید بن اسلم فرماتے ہیں یہاں دینی بیماری مراد ہے نہ کہ جسمانی۔ انہیں اسلام میں شک کی بیماری تھی اور ان کی ناپاکی میں اللہ تعالیٰ نے اور اضافہ کر دیا۔ جیسے قرآن میں اس کا ذکر ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ ہے۔ آیت(فاما الذین امنوا فزادتھم ایمانا ناوھم یستبشرون واما الذین فی قلوبھم مرض فزادتھم رجسا الی رجسھم) یعنی ایمان والوں کے ایمان کو تقویت پہنچاتی اور وہ خوشیاں مناتے ہیں لیکن بیماری والوں کی ناپاکی اور پلیدی کو اور زیادہ کر دیتی ہے یعنی اس کی ابدی اور گمراہی بڑھ جاتی ہے ، یہ بدلہ بالکل ان کے عمل کے مطابق ہے۔ یہ تفسیر ہی درست ہے ، ٹھیک اسی کے مثل یہ فرمان بھی ہے آیت(والذین اھتدوا زادھم ھدی واتاھم تقوھم) یعنی ہدایت والوں کو ہدایت میں بڑھا دیتا ہے اور ان کو تقویٰ عطا فرماتا ہے۔ آیت(یکذبون کو یکذبون) بھی قاریوں نے پڑھا ہے یہ دونوں خصلتیں ان میں تھیں جھٹلاتے بھی تھے اور جھوٹے بھی تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعض منافقوں کو اچھی طرح جاننے کے باوجود بھی قتل نہ کرنے کیوجہ وہی ہے جو بخاری و مسلم کی روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا میں اس بات کو ناپسند کرتا ہوں کہ لوگوں میں یہ چرچے ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے ساتھیوں کو قتل کر ڈالتے ہیں، مطلب یہ ہے کہ جو اعرابی آس پاس ہیں انہیں یہ تو معلوم نہ ہو گا کہ ان منافقوں کے پوشیدہ کفر کی بنا پر انہیں قتل کیا گیا ہے ان کی نظریں تو صرف ظاہر داری پر ہوں گی جب ان میں یہ بات مشہور ہو جائے گی کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم اپنے ساتھیوں کو قتل کر ڈالتے ہیں تو خوف ہے کہ کہیں وہ اسلام کے قبول کرنے سے رک نہ جائیں۔ قرطبی فرماتے ہیں ہمارے علماء وغیرہ کا بھی یہی قول ہے۔ ٹھیک اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم آیت(مولفتہ القلوب) کو جن کے دل اسلام کی جانب مائل کئے جاتے تھے۔ مال عطا فرمایا کرتے تھے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم جانتے تھے کہ ان کے اعتقاد بد ہیں۔ حضرت امام مالک بھی منافقوں کو قتل نہ کرنے کی یہی وجہ بیان فرماتے ہیں جیسے محمد بن جہم، قاضی اسماعیل اور ابہری نے نقل کیا ہے۔ حضرت امام مالک سے بقول ابن ماجشون ایک وجہ یہ بھی نقل کی گئی ہے کہ یہ اس لئے تھا کہ آپ کی امت کو معلوم ہو جائے کہ حاکم صرف اپنے علم کی بناء پر فیصلہ نہیں کر سکتا۔ قرطبی فرماتے ہیں گو علماء کا تمام مسائل میں اختلاف ہو لیکن اس مسئلہ میں سب کا اتفاق ہے کہ قاضی صرف اپنی ذاتی معلومات کی بناء پر کسی کو قتل نہیں کر سکتا۔ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اور وجہ بھی بیان کی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا منافقین کو قتل کرنے سے رکنے کا سبب ان کا اپنی زبان سے اسلام کو ظاہر کرنا تھا گو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس کا علم تھا کہ ان کے دل اس کے الٹ ہے لیکن ظاہری کلمہ اس پہلی بات کی تردید کرتا تھا جس کی تائید میں بخاری مسلم وغیرہ کی یہ حدیث بھی پیش کی جا سکتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کہیں جب وہ اسے کہہ دیں تو وہ مجھ سے اپنی جان اور مال کی امان پا لیں گے اور ان کا حساب اللہ عزوجل پر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس کلمہ شریف کے کہتے ہی ظاہری احکام اسلام ان پر جاری ہو جائیں گے۔ اب اگر ان کا عقیدہ بھی اس کے مطابق ہے تو آخرت والے دن نجات کا سبب ہو گا ورنہ وہاں کچھ بھی نفع نہ ہو گا لیکن دنیا میں تو مسلمانوں کے احرام ان پر جاری رہیں گے گو یہ لوگ یہاں مسلمانوں کی صفوں میں اور ان کی فہرست میں نظر آئیں گے لیکن آخرت میں عین پل صراط پر ان سے دور کر دئیے جائیں گے اور اندھیروں میں حیران و پریشان ہوتے ہوئے با آواز بلند مسلمانوں کو پکار کر کہیں گے کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے ؟ لیکن انہیں جواب ملے گا کہ تھے تو سہی مگر تم فتنوں میں پڑ گئے اور انتظار میں ہی رہ گئے اور اپنی من مانی خواہشوں کے چکر میں پڑ گئے یہاں تک کہ حکم الٰہی آ پہنچا۔ غرض دار آخرت میں بھی مسلمانوں کے پیچھے پڑے لپٹے رہیں گے لیکن بالآخر ان سے الگ کر دئیے جائیں گے اور ان کی امیدوں پر پانی پھر جائے گا وہ چاہیں گے کہ مسلمانوں کے ساتھ سجدے میں گر پڑیں لیکن سجدہ نہیں کر سکیں گے۔ جیسے کہ احادیث میں مفصل بیان آ چکا ہے۔ بعض محققین نے کہا ہے کہ ان کے قتل نہ کئے جانے کی یہ وجہ تھی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی موجودگی میں ان کی شرارتیں چل نہیں سکتی تھیں۔ مسلمانوں کو باری تعالیٰ اپنی وحی کے ذریعہ ان کی برائیوں سے محفوظ کر لیتا تھا لیکن حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد اگر اللہ نہ کرے ایسے لوگ ہوں گے ان کا نفاق کھل جائے اور مسلمان بخوبی معلوم کر لیں تو وہ قتل کر دئیے جائیں گے۔ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ ہے کہ نفاق حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں تھا لیکن آج کل وہ بے دینی اور زندیقیت ہے یہ بھی یاد رہے کہ زندیق جو لوگوں کو بھی اس کی تعلیم دیتا ہو اور وہ زندیق جو معلم نہ ہو ان دونوں میں فرق کیا جائے گا یا نہیں ؟ اور یہ ارتداد کئی کئی مرتبہ ہوا تب یہ حکم ہے یا صرف ایک مرتبہ ہونے پر ہی؟ پھر اس میں بھی اختلاف ہے کہ اسلام لانا اور رجوع کرنا خود اس کی اپنی طرف سے ہو یا اس پر غلبہ پا لینے کے بعد بھی یہی حکم ہے ؟ غرض اس باتوں میں اختلاف ہے لیکن اس کے بیان کی جگہ احکام کی کتابیں ہیں نہ کہ تفسیریں۔ چودہ شخصوں کے نفاق کا تو آپ کو قطعی علم تھا، یہ وہ بد باطن لوگ تھے جنہوں نے غزوہ تبوک میں مشورہ کر کے یہ امر طے کر لیا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ دغابازی کریں اور آپ کے قتل کی پوری سازش کر چکے تھے طے ہوا تھا کہ رات کے اندھیرے میں جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم فلاں گھاٹی کے قریب پہنچیں تو آپ کی اونٹنی کو بد کا دیں اور بھڑک کر بھاگے گی تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم گھاٹی میں گر پڑیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف اسی وقت وحی بھیج کر ان کی اس ناپاک سازش کا علم عطا کر دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حضور حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلا کر اس واقعہ کی خبر دی اور ان غداروں کے نام بھی بتلا دئیے پھر بھی آپ نے ان کے قتل کے احکام صادر نہ فرمائے۔ ان کے سوا اور منافقوں کے ناموں کا آپ کو علم نہ تھا۔ چنانچہ قرآن کہتا ہے آیت(وممن حولکم من الاعراب منافقون ومن اھل المدینۃ مردواعلی النفاق لا تعلمھم نحن نعلمھم) الخ یعنی تمہارے آس پاس کے بعض اعرابی منافق ہیں اور بعض سرکش منافق مدینہ میں بھی ہیں تم انہیں نہیں جانتے لیکن ہم جانتے ہیں۔ اور دوسری جگہ فرمایا آیت(لئن لم ینتہ المنافقون) الخ اگرچہ منافق گندے دل والے اور فساد و تکبر والے اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے تو ہم بھی انہیں نہ چھوڑیں گے اور مدینہ میں بہت کم باقی رہ سکیں گے بلکہ ان پر لعنت کی جائے گی جہاں پائے جائیں گے ، پکڑے جائیں گے اور ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے جائیں گے۔ ان آیتوں سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو ان منافقوں کا علم نہ تھا کہ کون کون ہے ؟ ہاں ان کی مذموم خصلتیں جو بیان ہوئی تھیں یہ جس میں پائی جاتی تھیں اس پر نفاق صادق آتا تھا۔ جیسے اور جگہ ارشاد فرمایا آیت(ولو نشاء لا ریناکھم) یعنی اگر ہم چاہیں تو ہم تمہیں ان کو دکھا دیں لیکن تم ان کی نشانیوں اور ان کی دبی بچی زبان سے ہی انہیں پہچان لو گے ان منافقوں میں سب سے زیادہ مشہور عبد اللہ بن ابی بن سلول تھا۔ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی منافقانہ خصلتوں پر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے گواہی بھی دی تھی باوجود اس کے جب وہ مر گیا تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے جنازے کی نماز پڑھائی اور اس کے دفن میں شرکت کی۔ ٹھیک اسی طرح اور مسلمان صحابیوں کے ساتھ بلکہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو ذرا زور سے یاد دلایا تو آپ نے فرمایا میں نہیں چاہتا کہ لوگ چہ میگوئیاں کریں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اپنے صحابیوں کو مار ڈالا کرتے ہیں اور ایک صحیح روایت میں ہے استغفار کرنے یا نہ کرنے کا مجھے اختیار دیا گیا۔ تو میں نے استغفار کو پسند کیا۔ ایک اور روایت میں ہے “اگر ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کرنے میں بھی اس کی بخشش جانتا تو یقیناً اس سے زیادہ مرتبہ استغفار کرتا۔ “”

۱۱

سینہ زور چور

حضرت عبد اللہ بن عباس حضرت عبد اللہ بن مسعود اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بعض اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ یہ بیان بھی منافقوں سے ہی متعلق ہے ان کا فساد، کفر اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی تھی مطلب یہ ہے کہ زمین میں اللہ کی نافرمانی کرنا یا نافرمانی کا حکم دینا زمین میں فساد کرنا ہے اور زمین و آسمان میں اصلاح سے مراد اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ انہیں جب اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے روکا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو ہدایت و اصلاح پر ہیں۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اس خصلت کے لوگ اب تک نہیں آئے۔ مطلب یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں یہ بد خصلت لوگ تھے تو سہی لیکن اب جو آئیں گے وہ ان سے بھی بد تر ہوں گے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ اس وصف کا کوئی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں تھا ہی نہیں۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں ان منافقوں کا فساد برپا کرنا یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں کرتے تھے جس کام سے اللہ تعالیٰ منع فرماتا تھا، اسے کرتے تھے۔ فرائض ربانی ضائع کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے سچے دین میں شک و شبہ کرتے تھے۔ اس کی حقیقت اور صداقت پر یقین کامل نہیں رکھتے تھے۔ مومنوں کے پاس آ کر اپنی ایمانداری کی ڈینگیں مارتے تھے حالانکہ دل میں طرح طرح کے وسوسے ہوتے تھے موقع پا کر اللہ کے دشمنوں کی امداد و اعانت کرتے تھے اور اللہ کے نیک بندوں کے مقابلہ میں ان کی پاسداری کرتے تھے اور باوجود اس مکاری اور مفسدانہ چلن کے اپنے آپ کو مصلح اور صلح کل کے حامی جانتے تھے۔ قرن کریم نے کفار سے موالات اور دوستی رکھنے کو بھی زمین میں فساد ہونے سے تعبیر کیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے آیت(والذین کفروا بعضھم اولیاء بعض الا تفعلوہ تکن فتنۃ فی الارض و فساد کبیر) یعنی کفار آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اگر تم ایسا نہ کرو گے یعنی آپس میں دوستی نہ کرو گے تو اس زمین میں بھاری فتنہ اور بڑا فساد پھیل جائے گا۔ اس آیت نے مسلمان اور کفار کے دوستانہ تعلقات منقطع کر دے اور جگہ فرمایا اے ایمان والو! مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست نہ بناؤ کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کی تم پر کھلی حجت ہو جائے یعنی تمہاری دلیل نجات کٹ جائے۔ پھر فرمایا منافق لوگ تو جہنم کے نچلے طبقے میں ہوں گے اور ہرگز تم ان کے لئے کوئی مددگار نہ پاؤ گے۔ چونکہ منافقوں کا ظاہر اچھا ہوتا ہے ، اس لئے مسلمانوں سے حقیقت پوشیدہ رہ جاتی ہے وہ ایمانداروں کو اپنی چکنی چپڑی باتوں سے دھوکہ دے دیتے ہیں اور ان کے بے حقیقت کلمات اور کفار سے پوشیدہ دوستیوں سے مسلمانوں کو خطرناک مصائب جھیلنے پڑتے ہیں پس بانی فساد یہ منافقین ہوئے۔ اگر یہ اپنے کفر پر ہی رہتے تو ان کی خوفناک سازشوں اور گہری چالوں سے مسلمانوں کو اتنا نقصان ہرگز نہ پہنچتا اور اگر پورے مسلمان ہو جاتے اور ظاہر باطن یکساں کر لیتے تب تو دنیا کے امن و امان کے ساتھ آخرت کی نجات و فلاح بھی پا لیتے باوجود اس خطرناک پالیسی کے جب انہیں یکسوئی کی نصیحت کی جاتی تو جھٹ کہ اٹھتے کہ ہم تو صلح کل ہیں ہم کسی سے بگاڑنا نہیں چاہتے ، ہم فریقین کے ساتھ اتفاق رکھتے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ وہ کہتے تھے “ہم ان دونوں جماعتوں یعنی مومنوں اور اہل کتاب کے درمیان صلح کرانے والے ہیں۔ ” لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ ان کی نری جہالت ہے جسے یہ صلح سمجھتے ہیں وہ عین فساد ہے لیکن انہیں شعور ہی نہیں۔”

۱۳

خود فریبی کے شکار لوگ

مطلب یہ ہے کہ جب ان منافقوں کو صحابہ کی طرح اللہ تعالیٰ پر، اس کے فرشتوں، کتابو ں اور رسولوں صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لانے ، موت کے بعد جی اٹھنے ، جنت دوزخ کی حقانیت کے تسلیم کرنے ، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی تابعداری کر کے نیک اعمال بجا لانے اور برائیوں سے رکے رہنے کو کہا جاتا ہے تو یہ فرقہ ایسے ایمان والوں کو بے وقوف قرار دیتا ہے۔ ابن عباس، ابن مسعود اور بعض دیگر صحابہ، ربیع، انس، عبدالرحمن بن زید بن اسلم وغیرہ نے یہی تفسیر بیان کی ہے۔ سفھاء سفیہ کی جمع ہے جیسے حکماء حکیم کی اور حلماء حلیم کی۔ جاہل، کم عقل اور نفع نقصان کے پوری طرح نہ جاننے والے کو سفیہ کہتے ہیں۔ قرآن میں اور جگہ ہے آیت(ولا توتوا السفھاء) الخ بیوقوفوں کو اپنے وہ مال نہ دے بیٹھو جو تمہارے قیام کا سبب ہیں۔ عام مفسرین کا قول ہے کہ اس آیت میں سفہاء سے مراد عورتیں اور بچے ہیں۔ ان منافقین کے جواب میں یہاں بھی خود پروردگار عالم نے جواب دیا اور تاکیداً حصر کے ساتھ فرمایا کہ بیوقوف تو یہی ہیں لیکن ساتھ ہی جاہل بھی ایسے ہیں کہ اپنی بیوقوفی کو جان بھی نہیں سکتے۔ نہ اپنی جہالت و ضلالت کو سمجھ سکتے ہیں، اس سے زیادہ ان کی برائی اور کمال اندھا پن اور ہدایت سے دوری اور کیا ہو گی؟”

۱۴

فریب زدہ لوگ

مطلب یہ ہے کہ یہ بد باطن مسلمانوں کے پاس آ کر اپنی ایمان دوستی اور خیر خواہی ظاہر کر کے انہیں دھوکے میں ڈالنا چاہتے ہیں تاکہ مال و جان کا بچاؤ بھی ہو جائے ، بھلائی اور غنیمت کے مال میں حصہ بھی قائم ہو جائے۔ اور جب اپنے ہم مشربوں میں ہوتے ہیں تو ان ہی کی سی کہنے لگتے ہیں۔ خلوا کے معنی یہاں ہیں انصرفوا اذھبوا خلصوا اور مضوا یعنی لوٹتے ہیں اور پہنچتے ہیں اور تنہائی میں ہوتے ہیں۔ اور جاتے ہیں پس خلوا جو کہ الیٰ کے ساتھ متعدی ہے اس کے معنی لوٹ جانے کے ہیں۔ فعل مضمر اور ملفوظ دونوں پر یہ دلالت کرتا ہے۔ بعض کہتے ہیں الیٰ معنی میں مع کے مترادف ہے مگر اول ہی ٹھیک ہے ، ابن جریر کے کلام کا خلاصہ بھی یہ ہے کہ شیاطین سے مراد رؤسا بڑے اور سردار ہیں جیسے یہود علماء اور سرداران کفار قریش و منافقین۔ حضرت ابن عباس اور ابن مسعود اور دیگر صحابہ کا قول ہے کہ یہ شیاطین ان کے امیر امراء اور سرداران کفر تھے اور ان کے ہم عقیدہ لوگ بھی۔ شیاطین یہود بھی انہیں پیغمبری کے جھٹلانے اور قرآن کی تکذیب کرنے کا مشورہ دیا کرتے تھے۔ مجاہد کہتے ہیں شیاطین سے مراد ان کے وہ ساتھی ہیں جو یا تو مشرک تھے یا منافق۔ قتادہ فرماتے ہیں۔ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو برائیوں میں اور شرک میں ان کے سردار تھے۔ ابو العالیہ، سدی، ربیع بن انس بھی یہی تفسیر کرتے ہیں۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں “ہر بہکانے اور سرکشی کرنے والے کو شیطان کہتے ہیں۔ جنوں میں سے ہو یا انسانوں میں سے۔ ” قرآن میں بھی آیت(شیاطین الانس والجن) آیا ہے حدیث شریف میں ہے کہ “ہم جنوں اور انسانوں کے شیطانوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں۔ ” ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا یا رسول اللہ کیا انسان کے شیطان بھی ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں جب یہ منافق مسلمان سے ملتے تو کہتے ہیں “ہم تمہارے ساتھ ہیں” یعنی جیسے تم ہو ویسے ہی ہم ہیں۔ اور اپنوں سے کہتے ہیں کہ ہم تو ان کے ساتھ ہنسی کھیل کرتے ہیں۔ حضرت ابن عباس ربیع بن انس اور قتادہ کی یہی تفسیر ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو جواب دیتے ہوئے ان کے اس مکروہ فعل کے مقابلہ میں فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی ان سے ٹھٹھا کرے گا اور انہیں ان کی سرکشی میں بہکنے دے گا جیسے دوسری جگہ ہے ، کہ قیامت کے روز منافق مرد و عورت ایمان والوں سے کہیں گے ذرا ٹھہر جاؤ ہم بھی تمہارے نور سے فائدہ اٹھائیں۔ کہا جائے گا اپنے پیچھے لوٹ جاؤ اور نور کی تلاش کرو۔ اس کے لوٹتے ہی درمیان میں ایک اونچی دیوار حائل کر دی جائے گی جس میں دروازہ ہو گا، اس طرف تو رحمت ہو گی اور دوسری طرف عذاب ہو گا۔ فرمان الٰہی ہے کافر ہماری ڈھیل کو اپنے حق میں بہتر نہ جانیں۔ اس تاخیر میں وہ اپنی بد کرداریوں میں اور بڑھ جاتے ہیں پس قرآن میں جہاں استہزاء مسخریت یعنی مذاق، مکر، خدیعت یعنی دھوکہ کے الفاظ آئے ہیں وہاں یہی مراد ہے۔ ایک اور جماعت کہتی ہے کہ یہ الفاظ صرف ڈانٹ ڈپٹ اور تنبیہہ کے طور پر استعمال کئے گئے ہیں ان کی بد کرداریوں اور کفرو شرک پر انہیں ملامت کی گئی ہے۔ اور مفسرین کہتے ہیں یہ الفاظ صرف جواب میں لائے گئے ہیں جیسے کوئی بھلا آدمی کسی مکار کے فریب سے بچ کر اس پر غالب آ کر کہتا ہے کہو میں نے کیسا فریب دیا حالانکہ اس کی طرف سے فریب نہیں ہوتا۔ اسی طرح یہ فرمان الٰہی ہے کہ آیت(ومکروا ومکر اللہ) الخ اور آیت(اللہ یستھزی بھم) ورنہ اللہ کی ذات مکر اور مذاق سے پاک ہے مطلب یہ ہے کہ ان کا فن فریب انہی کو برباد کرتا ہے۔ ان الفاظ کا یہ بھی مطلب بیان کیا گیا ہے کہ اللہ ان کی ہنسی، دھوکہ، تمسخر اور بھول کا ان کو بدلہ دیگا تو بدلے میں بھی وہی الفاظ استعمال کئے گئے دونوں لفظوں کے دونوں جگہ معنی جدا جدا ہیں۔ دیکھئے قرآن کریم میں ہے آیت(جزاء سیئۃ سیئۃ مثلھا) یعنی برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے آیت(فمن اعتدی علیکم فاعتدوا علیہ) جو تم پر زیادتی کرے تم بھی اس پر زیادتی کرو تو ظاہر ہے کہ برائی کا بدلہ لینا حقیقتاً برائی نہیں۔ زیادتی کے مقابلہ میں بدلہ لینا زیادتی نہیں۔ لیکن لفظ دونوں جگہ ایک ہی ہے حالانکہ پہلی برائی اور زیادتی “ظلم” ہے اور دوسری برائی اور زیادتی “عدل” ہے لیکن لفظ دونوں جگہ ایک ہی ہے۔ اسی طرح جہاں جہاں کلام اللہ میں ایسی عبارتیں ہیں وہاں یہی مطلب ہے۔ ایک اور مطلب بھی سنئے دنیا میں یہ منافق اپنی اس ناپاک پالیسی سے مسلمانوں کے ساتھ مذاق کرتے تھے اللہ نے بھی ان کے ساتھ یہی کیا کہ دنیا میں انہیں امن و امان مل گیا اور یہ مست ہو گئے حالانکہ یہ عارضی امن ہے ، قیامت والے دن انہیں کوئی امن نہیں ملے گا گو یہاں ان کے مال اور جانیں بچ گئیں لیکن اللہ کے ہاں یہ دردناک عذاب کا شکار بنیں گے۔ امام ابن جریر نے اسی قول کو ترجیح دی ہے اور اس کی بہت تائید کی ہے اس لئے کہ مکر، دھوکہ اور مذاق جو بلاوجہ ہو اس سے تو اللہ کی ذات پاک ہے ہاں انتقام، مقابلے اور بدلے کے طور پر یہ الفاظ اللہ کی نسبت کہنے میں کوئی حرج نہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عباس بھی یہی فرماتے ہیں کہ یہ ان کا بدلہ اور سزا ہے۔ یمدھم کا مطلب ڈھیل دینا اور بڑھانا بیان کیا گیا ہے۔ جیسے فرمایا آیت(ایحسبون انما نمدھم بہ) الخ یعنی کیا یہ یوں سمھ بیٹھے ہیں کہ ان کے مال اور اولاد کی کثرت ان کے لئے باعث خیر ہے نہیں!نہیں! نہیں! صحیح شعور ہی نہیں اور آیت(سنستدرجھم من حیث لا یعلمون) اس طرح ہم انہیں آہستہ آہستہ پکڑیں گے کہ انہیں پتہ بھی نہ چلے غرض کہ ادھر یہ گناہ کرتے ہیں ادھر دنیوی نعمتیں زیادہ ہوتی ہیں جن پر یہ پھولے نہیں سماتے حالانکہ وہ حقیقت میں عذاب ہی کی ایک صورت ہوتی ہے۔ قرآن پاک نے اور جگہ فرمایا آیت(فلما نسوا ما ذکروا بہ فتحنا علیھم ابو اب کل شی حتی اذا فرحوا بما اوتوا اخذناھم بغتتہ فاذا ھم مبلسون فقطع دابر القوم الذین ظلموا والحمد للہ رب العلمین) یعنی جب لوگوں نے نصیحت بھلا دی ہم نے ان پر تمام چیزوں کے دروازے کھول دئیے یہاں تک کہ وہ اپنی چیزوں پر اترانے لگے تو ہم نے انہیں اچانک پکڑ لیا، اب گھبرا گئے ، ظالموں کی بربادی ہوئی اور کہہ دیا گیا کہ تعریفیں رب العالمین کے لئے ہی ہیں۔ ابن جریر فرماتے ہیں کہ انہیں ڈھیل دینے اور انہیں اپنی سرکشی اور بغاوت میں بڑھنے کے لئے ان کو مہلت دی جاتی ہے۔ جیسے اور جگہ فرمایا آیت(ونقلب افئدتھم) الخ طغیان کہتے ہیں کسی چیز میں گھس جانے کو۔ جیسے فرمایا آیت(لما طغی الماء) ابن عباس فرماتے ہیں وہ اپنے کفر میں گرے جاتے ہیں۔ عمہ کہتے ہیں گمراہی کو۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ضلالت و کفر میں ڈوب گئے اور اس ناپاکی نے انہیں گھیر لیا اب یہ اسی دلدل میں اترتے جاتے ہیں، اسی ناپاکی میں پھنسے جاتے ہیں اور اس سے نجات کی تمام راہیں ان پر بند ہو جاتی ہیں۔ بھلا ایسی دلدل میں جو ہو اور پھر اندھا بہرا اور بیوقوف ہو وہ کیسے نجات پا سکتا ہے۔ آنکھوں کے اندھے پن کے لئے عربی میں “عمی” کا لفظ آتا ہے اور دل کے اندھاپے کے لئے “عمہ” کا لیکن کبھی دل کے اندھے پن کے لئے بھی “عمی” کا لفظ آتا ہے جیسے قرآن میں ہے آیت(ولکن تعمی القلوب اللتی فی الصدور)”
 

Zia_Hayderi

TM Star
Mar 30, 2007
2,468
1,028
1,213
۱۶

ایمان فروش لوگ

حضرت ابن عباس، ابن مسعود اور بعض دیگر صحابہ رضوان اللہ علیہم سے مروی ہے کہ انہوں نے ہدایت چھوڑ دی اور گمراہی لے لی۔ حضرت عبد اللہ فرماتے ہیں انہوں نے ایمان کے بدلے کفر قبول کیا۔ مجاہد فرماتے ہیں ایمان لائے پھر کافر ہو گئے۔ قتادہ فرماتے ہیں “ہدایت پر گمراہی کو پسند کرتے ہیں۔ ” جیسے اور جگہ قوم ثمود کے بارے میں ہے آیت(فاما ثمود فھدینا ھم فاستحبوا العمی علی الھدی) یعنی باوجود اس کے کہ ہم نے قوم ثمود کو ہدایت سے روشناس کر دیا مگر پھر بھی انہوں نے اس رہنمائی کی جگہ اندھے پن کو پسند کیا۔ مطلب یہ ہوا کہ منافقین ہدایت سے ہٹ کر گمراہی پر آ گئے اور ہدایت کے بدلے گمراہی لے لی گویا ہدایت کو بیچ کر گمراہی خرید لی۔ اب ایمان لا کر پھر کافر ہوئے ہوں خواہ سرے سے ایمان ہی نصیب نہ ہوا ہو اور ان منافقین میں دونوں قسم کے لوگ تھے۔ چنانچہ قرآن میں ہے آیت(ذالک بانھم امنوا ثم کفروا فطبع علی قلوبھم) یہ اس لئے ہے کہ یہ لوگ ایمان لا کر پھر کافر ہو گئے پس ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی اور ایسے بھی منافق تھے جنہیں ایمان نصیب ہی نہ ہوا پس نہ تو انہیں اس سودے میں فائدہ ہوا، نہ راہ ملی، بلکہ ہدایت کے چمنستان سے نکل کر گمراہی کے خارزار میں، جماعت کے مضبوط قلعہ سے نکل کر تنہائیوں کی تنگ جیل میں، امن کے وسیع میدان سے نکل کر خوف کی اندھیری کوٹھری میں اور سنت کے پاکیزہ گلشن سے نکل کر بدعت کے سنسان جنگل میں آ گئے۔”

۱۷

شک، کفر اور نفاق کیا ہے ؟

مثال کو عربی میں مثیل بھی کہتے ہیں اس کی جمع امثال آتی ہے۔ جیسے قرآن میں ہے آیت(وتلک الامثال) یعنی یہ مثالیں ہم لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں جنہیں صرف عالم ہی سمجھتے ہیں۔ اس آیت شریف کا مطلب یہ ہے کہ جو منافق گمراہی کو ہدایت کے بدلے اور اندھے پن کو بینائی کے بدلے مول لیتے ہیں ان کی مثال اس شخص جیسی ہے جس نے اندھیرے میں آگ جلائی اس کے دائیں بائیں کی چیزیں اسے نظر آنے لگیں، اس کی پریشانی دور ہو گئی اور فائدے کی امید بندھی کہ دفعتہً آگ بجھ گئی اور سخت اندھیرا چھا گیا نہ تو نگاہ کام کر سکے ، نہ راستہ معلوم ہو سکے اور باوجود اس کے وہ شخص خود بہرا ہو۔ کسی کی بات کو نہ سن سکتا ہو۔ گونگا ہو کسی سے دریافت نہ کر سکتا ہو، اندھا ہو جو روشنی سے کام نہ چلا سکتا ہو۔ اب بھلا یہ راہ کیسے پا سکے گا؟ ٹھیک اسی طرح یہ منافق بھی ہیں کہ ہدایت چھوڑ کر راہ گم کر بیٹھے اور بھلائی چھوڑ کر برائی کو چاہنے لگے۔ اس مثال سے پتہ چلتا ہے کہ ان لوگوں نے ایمان قبول کر کے کفر کیا تھا۔ جیسے قرآن کریم میں کئی جگہ یہ صراحت موجود ہے واللہ اعلم۔ امام رازی نے اپنی تفسیر میں سدی سے یہی نقل کیا ہے۔ پھر کہا ہے کہ یہ تشبیہ بہت ہی درست اور صحیح ہے ، اس لئے کہ اولاً تو ان منافقوں کو نور ایمان حاصل ہوا پھر ان کے نفاق کی وجہ سے وہ چھن گیا اور یہ حیرت میں پڑ گئے اور دین گم ہو جانے کی حیرت سے بڑی حیرت اور کیا ہو گی؟ امام ابن جریر فرماتے ہیں کہ جن کی یہ مثال بیان کی گئی ہے انہیں کسی وقت بھی ایمان نصیب ہی نہ ہوا تھا کیونکہ پہلے فرمان الٰہی گزر چکا ہے کہ آیت(وماھم بمومنین) یعنی گو یہ زبان سے اللہ تعالیٰ پر اور قیامت پر ایمان لانے کا اقرار کرتے ہیں مگر حقیقتاً یہ ایماندار نہیں۔ درحقیقت اس آیۃ مبارکہ میں ان کے کفرو نفاق کے وقت کی خبر دی گئی ہے اس سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ اس حالت کفرو نفاق سے پہلے کبھی انہیں ایمان حاصل ہی نہیں ہوا۔ ممکن ہے ایمان لائے ہوں، پھر اس سے ہٹ گئے ہوں اور اب دلوں میں مہریں لگ گئی ہوں دیکھئے دوسری جگہ قرآن کریم میں ہے آیت(ذالک بانھم امنوا ثم کفروا الخ یہ اس لئے ہے کہ انہوں نے ایمان کے بعد کفر کیا، پھر ان کے دلوں پر مہر لگ گئی۔ اب وہ کچھ نہیں سمجھتے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مثال میں روشنی اور اندھیرے کا ذکر ہے یعنی کلمہ ایمان کے ظاہر کرنے کی وجہ سے دنیا میں کچھ نور ہو گیا، کفر کے چھپانے کی وجہ سے پھر آخرت کے اندھیروں نے گھیر لیا۔ ایک جماعت کی مثال شخص واحد سے اکثر دی جاتی ہے۔ قرآن پاک میں اور جگہ ہے آیت(رایتھم ینظرون الیک تدورا عینھم کالذی یغشی علیہ من الموت) تو دیکھے گا کہ وہ تیری طرف آنکھیں پھیر پھیر کر اس طرح دیکھتے ہیں جس طرح وہ شخص جو سکرات موت میں ہو۔ اور اس آیت کو بھی دیکھئے آیت(ما خلقکم ولا بعثکم الا کنفس واحدۃ) تم سب کا پیدا کرنا اور مار ڈالنے کے بعد پھر زندہ کر دینا ایسا ہی ہے جیسے ایک جان کو دوبارہ زندہ کرتا۔ تیسری جگہ توراۃ سیکھ کر عملی عقیدہ اس کے مطابق نہ رکھنے والوں کی مثال میں کہا گیا ہے آیت(کمثل الحمار یحمل اسفارا) گدھے کی مانند ہیں جو کتابیں لادے ہوئے ہو۔ سب آیتوں میں جماعت کی مثال ایک ہی دی گئی ہے۔ اسی طرح مذکورہ بالا آیت میں منافقوں کی جماعت کی مثال ایک شخص سے دی گئی۔ بعض کہتے ہیں تقدیر کلام یوں ہے۔ آیت(مثل قصتھم کمثل قصۃ الذین استو قدوا نارا) یعنی ان کے واقعہ کی مثال ان لوگوں کے واقعہ کی طرح ہے جو آگ روشن کریں۔ بعض کہتے ہیں کہ آگ جلانے والا تو ایک ہے۔ لیکن مجموعی طور پر پوری جماعت اس سے محظوظ ہوتی ہے جو اس کے ساتھ ہے اور اس قسم کا اور الذی یہاں الذین کے معنی میں ہیں جیسے کہ شاعروں کے شعروں میں بھی میں کہتا ہوں اس مثال میں بھی واحد کے صیغہ کے بعد ہی جمع کے صیغہ بھی ہیں بنورھم اور ترکھم اور لا یرجعون ملاحظہ ہوں۔ اس طرح کلام میں اعلیٰ فصاحت اور بہترین خوبی بھی آ گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی روشنی لے گیا اس سے مطلب یہ ہے کہ جو نور نفع دینے والا تھا وہ تو ان سے ہٹا لیا اور جس طرح آگ کے بجھ جانے کے بعد تپش اور دھواں اور اندھیرا رہ جاتا ہے اسی طرح ان کے پاس نقصان پہنچانے والی چیز یعنی شک و کفرو نفاق رہ گیا تو راہ راست کو نہ خود دیکھ سکیں نہ دوسرے کی بھلی بات سن سکیں نہ کسی سے بھلائی کا سوال کر سکیں۔ اب پھر لوٹ کر ہدایت پر آنا محال ہو گیا۔ اس کی تائید میں مفسرین کے اقوال سنئے۔ حضرت ابن عباس، ابن مسعود اور بعض اور صحابہ رضوان اللہ علیہم فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے مدینہ تشریف لانے کے بعد کچھ لوگ اسلام لے آئے مگر پھر منافق بن گئے۔ ان کی مثال اس شخص جیسی ہے جو اندھیرے میں ہو پھر آگ جلا کر روشنی حاصل کرے اور آس پاس کی بھلائی برائی کو سمجھنے لگے اور معلوم کرے کہ کس راہ میں کیا ہے ؟ کہ اچانک آگ بجھ جائے روشنی جاتی رہے۔ اب معلوم نہیں ہو سکتا کہ کس راہ میں کیا کیا ہے ؟ اسی طرح منافق شرک و کفر کی ظلمت میں تھے پھر اسلام لا کر بھلائی برائی یعنی حلال حرام وغیرہ سمجھنے لگے مگر پھر کافر ہو گئے اور حرام و حلال خیرو شر میں کچھ تمیز نہ رہی۔ حضرت عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں نور سے مراد ایمان اور ظلمت سے مراد ضلالت و کفر ہے یہ لوگ ہدایت پر تھے لیکن پھر سرکشی کر کے بہک گئے۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں ایمانداری اور ہدایت کی طرف رخ کرنے کو اس مثال میں آس پاس کی چیز کے روشنی کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ حضرت عطا خراسانی کا قول ہے کہ منافق کبھی کبھی بھلائی کو دیکھ لیتا ہے اور پہچان بھی لیتا ہے لیکن پھر اس کے دل کی کور چشمی اس پر غالب آ جاتی ہے۔ عکرمہ، عبدالرحمن، حسن، سدی اور ربیع سے بھی یہی منقول ہے۔ عبدالرحمن بن زید بن اسلم فرماتے ہیں منافقوں کی یہی حالت ہے کہ ایمان لاتے ہیں اور اس کی پاکیزہ روشنی سے ان کے دل جگمگا اٹھتے ہیں جیسے آگ کے جلانے سے آس پاس کی چیزیں روشن ہو جاتی ہیں لیکن پھر کفر اس روشنی کو کھو دیتا ہے جس طرح آگ کا بجھ جانا پھر اندھیرا کر دیتا ہے۔ مندرجہ بالا اقوال تو ہماری اس تفسیر کی تائید میں تھے کہ جن منافقوں کی یہ مثال بیان کی گئی ہے وہ ایمان لا چکے تھے پھر کفر کیا۔ اب امام ابن جریر کی تائید میں جو تفسیر ہے اسے بھی سنئے۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ یہ مثال منافقوں کی ہے کہ وہ اسلام کی وجہ سے عزت پا لیتے ہیں۔ مسلمانوں میں نکاح، ورثہ اور تقسیم مال غنیمت میں شامل ہوتے ہیں لیکن مرتے ہی یہ عزت چھن جاتی ہے جس طرح آگ کی روشنی آگ بجھتے ہی جاتی رہتی ہے۔ ابو العالیہ فرماتے ہیں جب منافق آیت(لا الہ الا اللہ) پڑھتا ہے تو دل میں نور پیدا ہوتا ہے پھر جہاں شک کیا وہ نور گیا، جس طرح لکڑیاں جب تک جلتی رہیں روشنی رہی، جہاں بجھ گئیں نور گیا۔ ضحاک فرماتے ہیں نور سے مراد یہاں ایمان ہے جو ان کی زبانوں پر تھا۔ قتادہ کہتے ہیں آیت(لا الہ الا اللہ) ان کے لئے روشنی کر دیتا تھا امن و امان، کھانا پینا، بیوی بچے سب مل جاتے تھے لیکن شک و نفاق ان سے یہ تمام راحتیں چھین لیتا ہے جس طرح آگ کا بجھنا روشنی دور کر دیتا ہے۔ حضرت قتادہ کا قول ہے کہ آیت(لا الہ الا اللہ) کہنے سے منافق کو (دنیوی نفع مثلاً مسلمانوں میں لڑکے لڑکی کا لین دین، ورثہ کی تقسیم، جان و مال کی حفاظت وغیرہ) مل جاتا ہے لیکن چونکہ اس کے دل میں ایمان کی جڑ اور اس کے اعمال میں خلوص نہیں ہوتا اس لئے موت کے وقت وہ سب منافع سلب ہو جاتے ہیں جیسے آگ کی روشنی بجھ جائے۔ ابن عباس فرماتے ہیں اندھیروں میں چھوڑ دینا سے مراد مرنے کے بعد عذاب پانا ہے۔ یہ لوگ حق کو دیکھ کر زبان سے اس کا اس کا اقرار ہیں اور ظلمت کفر سے نکل جاتے ہیں لیکن پھر اپنے کفرو نفاق کی وجہ سے ہدایت اور حق پر قائم رہنا ان سے چھن جاتا ہے۔ سدی کا قول ہے کہ اندھیرے سے مراد ان کا نفاق ہے۔ حسن بصری فرماتے ہیں موت کے وقت منافقین کی بد اعمالیاں اندھیروں کی طرح ان پر چھا جاتی ہیں اور کسی بھلائی کی روشنی ان کے لئے باقی نہیں رہتی جس سے ان کی توحید کی تصدیق ہو۔ وہ بہرے ہیں، حق کے سننے اور راہ راست کو دیکھنے اور سمجھنے سے اندھے ہیں۔ ہدایت کی طرف لوٹ نہیں سکتے۔ نہ انہیں توبہ نصیب ہوتی ہے نہ نصیحت حاصل کر سکتے ہیں۔”

۱۹

منافقین کی ایک اور پہچان

یہ دوسری مثال ہے جو دوسری قسم کے منافقوں کے لئے بیان کی گئی ہے۔ یہ وہ قوم ہے جن پر کبھی حق ظاہر ہو جاتا ہے اور کبھی پھر شک میں پڑ جاتے ہیں تو شک کے وقت ان کی مثال برسات کی سی ہے۔ صیب کے معنی مینہ اور بارش کے ہیں۔ بعض نے بادل کے معنی بھی بیان کئے ہیں لیکن زیادہ مشہور معنی بارش کے ہی ہیں جو اندھیرے میں برسے۔ ظلمات سے مراد شک، کفرو نفاق ہے اور رعد سے مراد یعنی گرج ہے جو اپنی خوفناک آواز سے دل دہلا دیتی ہے۔ یہی حال منافق کا ہے کہ اسے ہر وقت ڈر خوف گھبراہٹ اور پریشانی ہی رہتی ہے۔ جیسے کہ اور جگہ فرمایا آیت(یحسبون کل صیحۃ علیھم) یعنی ہر آواز کو اپنے اوپر ہی سمجھتے ہیں ایک اور جگہ ارشاد ہے کہ یہ منافقین اللہ کی قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ وہ تمام میں سے ہیں دراصل وہ ڈرپوک لوگ ہیں اگر وہ کوئی جائے پناہ یا راستہ پا لیں تو یقیناً اس میں سمٹ کر گھس جائیں۔ بجلی کی مثال سے مراد وہ نور ایمان ہے جو ان کے دلوں میں کسی وقت چمک اٹھتا ہے ، اس وقت وہ اپنی انگلیاں موت کے ڈر سے کانوں میں ڈال لیتے ہیں لیکن ایسا کرنا انہیں کوئی نفع نہ دے گا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی ارادے کے ماتحت ہیں، یہ بچ نہیں سکتے۔ جیسا کہ اور جگہ فرمایا آیت(ھل اتاک حدیث الجنود فرعون وثمود) الخ یعنی کیا تمہیں لشکر کی۔ فرعون اور ثمود کی روایتیں نہیں پہنچیں بے شک پہنچی تو ہیں لیکن یہ کافر پھر بھی تکذیب ہی کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی انہیں ان کے پیچھے سے گھیر رہا ہے۔ بجلی کا آنکھوں کو اچک لینا، اس کی قوت اور سختی کا اظہار ہے اور منافقین کی بینائی کی کمزوری اور ضعف ایمان ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ قرآن کی مضبوط آیتیں ان منافقوں کی قلعی کھول دیں گی اور ان کے چھپے ہوئے عیب ظاہر کر دیں گی اور اپنی نورانیت سے انہیں مبہوت کر دیں گی جب ان پر اندھیرا ہو جاتا ہے تو کھڑے ہو جاتے ہیں یعنی جب ایمان ان پر ظاہر ہو جاتا ہے تو ذرا روشن دل ہو کر پیروی بھی کرنے لگتے ہیں لیکن پھر جہاں شک و شبہ آیا، دل میں کدورت اور ظلمت بھر گئی اور بھونچکے ہو کر کھڑے رہ گئے۔ اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ اسلام کو ذرا عروج ملا تو ان کے دل میں قدرے اطمینان پیدا ہوا لیکن جہاں اس کے خلاف نظر آیا یہ الٹے پیروں کفر کی طرف لوٹنے لگے۔ جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے آیت(ومن الناس من یعبد اللہ علی حرف) الخ یعنی بعض لوگ وہ بھی ہیں جو کنارے پر ٹھہر کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں اگر بھلائی ملے تو مطمئن ہو جائیں اور اگر برائی پہنچے تو اسی وقت پھر گئے۔ حضرت ابن عباسیہ بھی فرماتے ہیں کہ ان کا روشنی میں چلنا حق کو جان کر کلمہ اسلام پڑھنا ہے اور اندھیرے میں ٹھہر جانا کفر کی طرف لوٹ جانا ہے۔ دیگر بہت سے مفسرین کا بھی یہی قول ہے اور زیادہ صحیح اور ظاہر بھی یہی قول ہے واللہ اعلم۔ روز قیامت بھی ان کا یہی حال رہے گا کہ جب لوگوں کو ان کے ایمان کے اندازے کے مطابق نور ملے گا بعض کو کئی کئی میلوں تک کا، بعض کو اس سے بھی زیادہ، کسی کو اس سے کم، یہاں تک کہ کسی کو اتنا نور ملے گا کہ کبھی روشن ہو اور کبھی اندھیرا کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جو ذرا سی دور چل سکیں گے پھر ٹھہر جائیں گے پھر ذرا سی دور کا نور ملے گا پھر بجھ جائے گا اور بعض وہ بے نصیب بھی ہوں گے کہ ان کا نور بالکل بجھ جائے گا یہ پورے منافق ہوں گے جن کے بارے میں فرمانِ الٰہی ہے آیت(یوم یقول المنافقون والمنافقات للذین امنوا انظرونا) الخ یعنی جس دن منافق مرد اور منافق عورتیں ایمان والوں کو پکاریں گے اور کہیں گے ذرا رکو! ہمیں بھی آ لینے دو تاکہ ہم بھی تمہارے نور سے فائدہ اٹھائیں تو کہا جائے گا کہ اپنے پیچھے لوٹ جاؤ اور نور ڈھونڈ لاؤ۔ مومنوں کے بارے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت(یوم تری المومنین والمومنات بسعی نورھم) الخ یعنی اس دن تو دیکھے گا کہ مومن مرد اور عورتوں کے آگے آگے اور دائیں جانب نور ہو گا اور کہا جائے گا تمہیں آج باغات کی خوشخبری دی جاتی ہے جن کے نیچے نہیں بہہ رہی ہیں۔ اور فرمایا جس دن نہ رسوا کرے گا اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو اور ان لوگوں کو جو ان کے ساتھ ایمان لائے ، ان کا نور ان کے آگے اور دائیں ہو گا۔ وہ کہہ رہے ہوں گے اے ہمارے رب! ہمارے لئے ہمارا نور پورا کر اور ہمیں بخش یقیناً تو ہر چیز پر قادر ہے۔ ان آیتوں کے بعد اب اس مضمون کی حدیثیں بھی سنئے۔

احادیث میں تذکرۂ نور

نبی صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں “بعض مومنوں کو مدینہ سے لے کر عدن تک نور ملے گا۔ بعض کو اس سے کم یہاں تک کہ بعض کو اتنا کم کہ صرف پاؤں رکھنے کی جگہ ہی روشن ہو گی” (ابن جریر) حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں “ایمان والوں کو ان کے اعمال کے مطابق نور ملے گا بعض کو کھجور کے درخت جتنا، کسی کو قد آدم جتنا، کسی کو صرف اتنا ہی کہ اس کا انگوٹھا ہی روشن ہو، کبھی بجھ جاتا ہو، کبھی روشن ہو جاتا ہو” (ابن ابی حاتم) حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں “انہیں نور ملے گا ان کے اعمال کے مطابق جس کی روشنی میں وہ پل صراط سے گزریں گے۔ بعض لوگوں کا نور پہاڑ جتنا ہو گا، بعض کا کھجور جتنا اور سب سے کم نور والا وہ ہو گا جس کا نور اس کے انگوٹھے پر ہو گا کبھی چمک اٹھے گا اور کبھی بجھ جائے گا” (ابن ابی حاتم) حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں “کہ تمام اہل توحید کو قیامت کے دن نور ملے گا۔ جب منافقوں کا نور بجھ جائے گا تو موحد ڈر کر کہیں گے آیت(ربنا اتمم لنا نورنا) یا رب ہمارے نور کو پورا کر” (ابن ابی حاتم) ضحاک بن مزاحم کا بھی یہی قول ہے۔ ان احادیث سے معلوم ہوا کہ قیامت والے دن لوگ کئی قسم کے ہوں گے۔ خالص مومن وہ جن کا بیان اگلی چار آیتوں میں ہوا، خالص کفار جن کا ذکر اس کے بعد کی دو آیتوں میں ہے اور منافق جن کی دو قسمیں ہیں۔ ایک تو خالص منافق جن کی مثال آگ کی روشنی سے دی گئی۔ دوسرے وہ منافق جو تردد میں ہیں کبھی تو ایمان چمک اٹھتا ہے کبھی بجھ جاتا ہے ، ان ہی کی مثال بارش سے دی گئی ہے یہ پہلی قسم کے منافقوں سے کچھ کم ہیں۔ ٹھیک اسی طرح سورہ نور میں بھی اللہ تبارک و تعالیٰ نے مومن کی اور اس کے دل کے نور کی مثال اس منور چراغ سے دی ہے جو روشن فانوس میں ہو اور خود فانوس بھی چمکتے ہوئے تارے کی طرح ہو۔ چنانچہ ایمان دار کا ایک تو خود دل روشن، دوسرے خالص شریعت کی اسے امداد، بس روشنی پر روشنی، نور پر نور ہو جاتا ہے۔ اسی طرح دوسری جگہ کافروں کی مثال بھی بیان کی جو اپنی نادانی کی وجہ سے اپنے آپ کو کچھ سمجھتے ہیں اور حقیقت میں وہ کچھ نہیں ہوتے۔ فرمایا کافروں کے اعمال کی مثال ریت کے چمکیلے ٹیلوں کی طرح ہے جنہیں پیاسا پانی سمجھتا ہے یہاں تک کہ پاس آ کر دیکھتا ہے تو کچھ بھی نہیں پاتا۔ ایک اور جگہ پر ان جاہل کافروں٠ کی مثال بیان کی جو جہل بسیط میں گرفتار ہیں۔ فرمایا مانند سخت اور اندھیروں کے جو گہرے سمندر میں ہوں جو موجوں پر موجیں مار رہا ہو پھر ابر سے ڈھکا ہوا ہو اور اندھیروں پر اندھیرے چھائے ہوئے ہوں، ہاتھ نکالے تو دیکھ بھی نہیں سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ جس کے لئے اللہ کی طرف بلانے والے دوسرے ان کی تقلید کرنے والے۔ جیسے سورہ حج کے شروع میں ہے آیت(ومن الناس من یجادل فی اللہ بغیر علم) الخ بعض وہ لوگ ہیں جو اللہ کے بارے میں بغیر علم کے جھگڑتے ہیں اور ہر سرکش شیطان کی پیروی کرتے ہیں۔ ایک اور جگہ فرمایا آیت(ومن الناس من یجادل فی اللہ بغیر علم ولا ھدی ولا کتاب منیر) بعض لوگ علم ہدایت اور روشن کتاب کے بغیر اللہ کی بارے میں لڑتے جھگڑتے ہیں۔ سورہ واقعہ کے شروع اور آخر میں اور سورہ انسان میں مومنوں کی بھی دو قسمیں بیان کی ہیں۔ سابقین اور اصحاب یمین یعنی مقربین بارگاہ ربانی اور پرہیزگار و نیک کار لوگ۔ پس ان آیتوں سے معلوم ہوا کہ مومنوں کی دو جماعتیں ہیں مقرب اور ابرار۔ اور کافروں کی بھی دو قسمیں ہیں کفر کی طرف لانے والے اور ان کی تقلید کرنے والے۔ منافقوں کی بھی دو قسمیں ہیں خالص اور پکے منافق اور وہ منافق جن میں نفاق کی ایک آدھ شاخ ہے۔ صحیحین میں حدیث ہے حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ “تین خصلتیں ایسی ہیں جس میں یہ تینوں ہوں وہ پختہ منافق ہے اور جس میں ایک ہو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے جب تک اسے نہ چھوڑے۔ بات کرنے میں جھوٹ بولنا، وعدہ خلافی کرنا، امانت میں خیانت کرنا، اس سے ثابت ہوا کہ انسان میں کبھی نفاق کا کچھ حصہ ہوتا ہے خواہ وہ نفاق عملی ہو خواہ اعتقادی جیسے کہ آیت و حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ سلف کی ایک جماعت اور علماء کرام کے ایک گروہ کا یہی مذہب ہے اس کا بیان پہلے بھی گزر چکا ہے اور آئندہ بھی آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا “دل چار قسم کے ہیں ایک تو صاف دل جو روشن چراغ کی طرح چمک رہا، ہو دوسرے وہ دل جو غلاف آلود ہیں، تیسرے وہ دل جو الٹے ہیں، چوتھے وہ دل جو مخلوط ہیں پہلا دل مومن کا ہے جو پوری طرح نورانی ہے ، دوسرا کافر کا دل ہے جس پر پردے پڑے ہوئے ہیں، تیسرا دل خالص منافقوں کا ہے جو جانتا ہے اور انکار کرتا ہے ، چوتھا دل اس منافق کا ہے جس میں ایمان و نفاق دونوں جمع ہیں۔ ایمان کی مثال اس سبزے کی طرح ہے جو پاکیزہ پانی سے بڑھ رہا ہو اور نفاق کی مثال اس پھوڑے کی طرح ہے جس میں پیپ اور خون بڑھتا ہی جاتا ہو اب جو مادہ بڑھ جائے وہ سرے پر غالب آ جاتا ہے۔ اس حدیث کی اسناد بہت ہی عمدہ ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اگر اللہ چاہے تو ان کے کان اور آنکھیں برباد کر دے۔ مطلب یہ ہے کہ جب انہوں نے حق کو جان کر اسے چھوڑ دیا تو اللہ ہر چیز پر قادر ہے یعنی اگر چاہے تو عذاب و سزا دے چاہے تو معاف کر دے۔ یہاں قدرت کا بیان اس لئے کیا کہ پہلے منافقوں کو اپنے عذاب، اپنی جبروت سے ڈرایا اور کہہ دیا کہ وہ انہیں گھیر لینے پر قادر ہے اور ان کے کانوں کو بہرا کرنے اور آنکھوں کو اندھا کرنے پر قادر ہے۔ قدیر کے معنی قادر کے ہیں جیسے علیم کے معنی عالم کے ہیں۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں یہ دو مثالیں ایک ہی قسم کے منافقوں کی ہیں او معنی میں و کے ہے جیسے فرمایا آیت(ولا تطع منھم اثما او کفورا) یا لفظ او اختیار کے لئے ہے یعنی خواہ یہ مثال بیان کرو، خواہ وہ مثال بیان کرو اختیار ہے۔ قرطبی فرماتے ہیں اور یہاں پر تساوی یعنی برابری کے لئے ہے جیسے عربی زبان کا محاورہ ہے جالس الحسن او ابن سیرین زمخشری بھی یہی توجیہ کرتے ہیں تو مطلب یہ ہو گا کہ ان دونوں مثالوں میں سے جو مثال چاہو بیان کرو دونوں ان کے مطابق ہیں۔ میں کہتا ہوں یہ باعتبار منافقوں کی اقسام کے ہے ، ان کے احوال و صفات طرح طرح کے ہیں۔ جیسے کہ سورہ برات میں ومنھم ومنھم ومنھم کر کے ان کی بہت سی قسمیں بہت سے افعال اور بہت سے اقوال بیان کئے ہیں۔ تو یہ دونوں مثالیں دو قسم کے منافقوں کی ہیں جو ان کے احوال اور صفات سے بالکل مشابہ ہیں۔ واللہ اعلم۔ جیسے کہ سورہ نور میں دو قسم کے کفار کی مثالیں بیان کیں۔ ایک کفر کی طرف بلانے والے دوسرے مقلد۔ فرمایا آیت(والذین کفروا اعمالھم کسراب بقیعۃ) پھر فرمایا آیت(اوکظلمات) پس پہلی مثال یعنی ریت کے تودے کی کفر کی طرف بلانے والوں کی ہے جو جہل مرکب میں پھنسے ہوئے ہیں۔ دوسری مثال مقلدین کی ہے جو جہل بسیط میں مبتلا ہیں۔ واللہ اعلم۔”
 

Zia_Hayderi

TM Star
Mar 30, 2007
2,468
1,028
1,213
۲۱

تعارف الٰہ بزبان الٰہ

یہاں سے اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی الوہیت کا بیان شروع ہوتا ہے وہی اپنے بندوں کو عدم سے وجود میں لایا، اسی نے ہر طرح کی ظاہری و باطنی نعمتیں عطا فرمائیں، اسی نے زمین کو فرش بنایا اور اس میں مضبوط پہاڑوں کی میخیں گاڑ دیں اور آسمان کو چھت بنایا۔ جیسے کہ دوسری آیت میں آیا کہ آیت(وجعلنا السماء سقفا محفوظا) الخ یعنی آسمان کو محفوظ چھت بنایا اس کے باوجود وہ نشانیوں سے منہ موڑ لیتے ہیں، آسمان سے پانی اتارنے کا مطلب بادل نازل فرمانا ہے۔ اس وقت جبکہ لوگ اس کے پورے محتاج ہوں۔ پھر اس پانی سے طرح طرح کے پھل پھول پیدا کرنا ہے جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں اور ان کے جانور بھی۔ جیسے کہ قرآن مجید میں جگہ جگہ اس کا بیان آیا ہے۔ ایک جگہ فرمایا ہے آیت(اللہ الذی جعل لکم الارض قرارا) الخ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا اور تمہیں پیاری پیاری صورتیں عطا فرمائیں اور طرح طرح کی غذائیں پہنچائیں یہی اللہ ہے جو برکتوں والا اور تمام عالم کو پالنے والا ہے پس سب کا خالق، سب کا رازق، سب کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے اور اس لئے شرک سے مبرا ہر قسم کی عبادت کا وہی مستحق ہے۔ اور فرمایا “اللہ تعالیٰ کے شریک نہ ٹھہراؤ جبکہ تم جانتے ہو۔ صحیحین میں حدیث ہے “حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ پوچھتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ و سلم سب سے بڑا گناہ کونسا ہے۔ فرمایا اللہ تعالیٰ کے ساتھ جو تمہارا خالق ہے کسی کو شریک ٹھہرانا” حضرت معاذ والی حدیث میں ہے “جانتے ہو کہ اللہ کا حق بندوں پر کیا ہے ؟ یہ کہ اسی کی عبادت کریں اور کسی کو اس کی عبادت میں شریک نہ کریں” دوسری حدیث میں ہے “تم میں سے کوئی یہ نہ کہے کہ جو اللہ چاہے اور فلاں چاہے بلکہ یوں کہے جو کچھ اللہ اکیلا چاہے۔ طفیل بن سنجرہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سوتیلے بھائی فرماتے ہیں میں نے خواب میں چند یہودیوں کو دیکھا اور ان سے پوچھا تم کون ہے ؟ انہوں نے کہا تم بھی اچھے لوگ ہو لیکن افسوس تم کہتے ہو جو اللہ چاہے اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم چاہیں پھر میں نصرانیوں کی جماعت کے پاس گیا اور ان سے بھی اسی طرح پوچھا انہوں نے بھی یہی جواب دیا۔ میں نے ان سے کہا افسوس تم بھی مسیح علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا مانتے ہو۔ انہوں نے بھی یہی جواب دیا۔ میں نے ان سے کہا افسوس تم بھی مسیح علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا مانتے ہو۔ انہوں نے بھی یہی جواب دیا میں نے صبح اپنے اس خواب کا ذکر کچھ لوگوں سے کیا پھر دربار نبوی میں حاضر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے بھی یہی خواب بیان کیا۔ آپ نے پوچھا کیا کسی اور سے بھی تم نے اس کا ذکر کیا ہے ؟ میں نے کہا ہاں حضور صلی اللہ علیہ و سلم اب آپ کھڑے ہو گئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا طفیل نے ایک خواب دیکھا اور تم میں سے بعض کو بیان بھی کیا میں چاہتا تھا کہ تمہیں اس کلمہ کے کہنے سے روک دوں لیکن فلاں فلاں کاموں کی وجہ سے میں اب تک نہ کہہ سکا۔ یاد رکھو “اب ہرگز ہرگز اللہ چاہے اور اس کا رسول” کبھی نہ کہنا بلکہ یوں کہو کہ صرف اللہ تعالیٰ اکیلا جو چاہے (ابن مردویہ) ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا جو اللہ تعالیٰ چاہے اور آپ چاہیں۔ آپ نے فرمایا کیا تو مجھے اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتا ہے یوں کہہ جو اللہ تعالیٰ اکیلا چاہے (ابن مردویہ) ایسے تمام کلمات توحید کے سراسر خلاف ہیں۔ توحید باری کی اہمیت کے بارے میں یہ سب احادیث بیان ہوئی ہیں۔ واللہ اعلم۔ تمام کفار اور منافقوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کا حکم دیا اور فرمایا اللہ کی عبادت کرو یعنی اس کی توحید کے پابند ہو جاؤ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو جو نہ نفع دے سکے نہ نقصان پہنچا سکے اور تم جانتے ہو کہ اس کے سوا کوئی رب نہیں جو تمہیں روزی پہنچا سکے اور تم جانتے ہو کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم تمہیں اس توحید کی طرف بلا رہے ہیں جس کے حق اور سچ ہونے میں کوئی شک نہیں۔ شرک اس سے بھی زیادہ پوشیدہ ہے جیسے چیونٹی جو رات کے اندھیرے میں کسی صاف پتھر پر چل رہی ہو، قسم ہے اللہ کی اور قسم ہے آپ کی حیات کی، یہ بھی شرک ہے انسان کا یہ کہنا اگر یہ کتیا نہ ہوتی تو چور رات کو ہمارے گھر میں گھس آتے یہ بھی شرک ہے۔ آدمی کا یہ قول کہ اگر بطخ گھر میں نہ ہوتی تو چوری ہو جاتی یہ بھی شرک کا کلمہ ہے کسی کا یہ قول کہ جو اللہ چاہے اور آپ یہ بھی شرک ہے کسی کا یہ کہنا کہ اگر اللہ نہ ہوتا اور فلاں نہ ہوتا۔ یہ سب کلمات شرک ہیں صحیح حدیث میں ہے کہ کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا جو اللہ چاہے اور جو آپ چاہیں تو آپ نے فرمایا کیا تو مجھے اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتا ہے ؟ دوسری حدیث میں ہے تم اچھے لوگ ہوتے اگر تم شرک نہ کرتے تم کہتے ہو جو اللہ چاہے اور فلاں چاہے۔ ابو العالیہ فرماتے ہیں انداد کے معنی شریک اور برابر کے ہیں۔ مجاہد فرماتے ہیں تم توراۃ و انجیل پڑھتے ہو اور جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ ایک اور لا شریک ہے ، پھر جانتے ہوئے کیوں اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہو؟

پانچ احکام

مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ عزوجل نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کو پانچ چیزوں کا حکم دیا کہ ان پر عمل کرو اور بنی اسرائیل کو بھی ان پر عمل کرنے کا حکم دو، قریب تھا کہ وہ اس میں غفلت کریں تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے انہیں یاد دلایا کہ آپ کو پروردگار عالم کا حکم تھا کہ ان پانچ چیزوں پر خود کاربند ہو کر دوسروں کو بھی حکم دو۔ لہٰذا یا تو آپ کہہ دیجئے یا میں پہنچا دوں۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام نے فرمایا مجھے ڈر ہے کہ اگر آپ سبقت لے گئے تو کہیں مجھے عذاب نہ دیا جائے یا زمین میں دھنسا نہ دیا جاؤں پس یحییٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو بیت المقدس کی مسجد میں جمع کیا، جب مسجد بھر گئی تو آپ اونچی جگہ پر بیٹھ گئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کر کے کہا اللہ تعالیٰ نے مجھے پانچ باتوں کا حکم کیا ہے کہ خود بھی عمل کریں تم سے بھی ان پر عمل کراؤں۔ ایک یہ کہ اللہ ایک کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص خاص اپنے مال سے کسی غلام کو خریدے اور غلام کام کاج کرے لیکن جو کچھ حاصل ہوا ہے اسے کسی اور کو دے دے کیا۔ تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا غلام ایسا ہو؟ ٹھیک اسی طرح تمہارا پیدا کرنے والا، تمہیں روزی دینے والا، تمہارا حقیقی مالک اللہ تعالیٰ وحدہ لا شریک ہے۔ پس تم اسی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ دوسری یہ کہ نماز کو ادا کرو اللہ تعالیٰ کی نگاہ بندے کی طرف ہوتی ہے۔ جب تک کہ وہ نماز میں ادھر ادھر منہ پھیرے جب تم نماز میں ہو تو خبردار ادھر ادھر الفتات نہ کرنا۔ تیسرا حکم یہ ہے کہ روزے رکھا کرو اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص کے پاس مشک کی تھیلی بھری ہوئی ہو جس سے اس کے تمام ساتھیوں کے دماغ معطر رہیں۔ یاد رکھو روزے دار کے منہ کی خوشبو اللہ تعالیٰ کو مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پسند ہے۔ چوتھا حکم یہ ہے کہ صدقہ دیتے رہا کرو، اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص کو دشمنوں نے قید کر لیا اور گردن کے ساتھ اس کے ساتھ باندھ دئیے گردن مارنے کے لئے لے جانے لگے تو وہ کہنے لگا کہ تم مجھ سے فدیہ لے اور مجھے چھوڑ دو چنانچہ جو کچھ تھا کم زیادہ دے کر اپنی جان چھڑا لی۔ پانچواں اس کا حکم یہ ہے کہ بہ کثرت اس کے نام کا ذکر کیا کرو اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس کے پیچھے تیزی کے ساتھ دشمن دوڑتا آتا ہے اور وہ ایک مضبوط قلعہ میں گھس جاتا ہے اور وہاں امن و امان پا لیتا ہے اسی طرح بندہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے وقت شیطان سے بچا ہوا ہوتا ہے یہ فرما کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اب میں بھی تمہیں پانچ باتوں کا حکم کرتا ہوں جن کا حکم جناب باری نے مجھے دیا ہے مسلمانوں کی جماعت کو لازم پکڑے رہنا اللہ اور اس کے رسول اور مسلمان حاکم وقت کے احکام سننا۔ اور جاننا ہجرت کرنا اور جہاد کرنا جو شخص جماعت سے ایک بالشت بھر نکل جائے گویا وہ اسلام کے پٹے کو اپنے گلے سے اتار پھینکے گا ہاں یہ اور بات ہے کہ رجوع کر لے جو شخص جاہلیت کی پکار پکارے وہ جہنم کا کوڑا کرکٹ ہے لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ و سلم اگرچہ وہ روزے دار اور نمازی ہو فرمایا اگرچہ نماز پڑھتا ہو اور روزے بھی رکھتا ہو اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہو۔ مسلمانوں کو ان کے ان ناموں کے ساتھ پکارتے رہو جو خود اللہ تبارک و تعالیٰ نے رکھے ہیں مسلمین مومنین اور عباد اللہ یہ حدیث حسن ہے اس آیت میں بھی یہی بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی نے تمہیں پیدا کیا ہے وہی تمہیں روزی دیتا ہے پس عبادت بھی اسی کی کرو۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ عبادت میں توحید باری تعالیٰ کا پورا خیال رکھنا چاہیے کسی اور کی عبادت نہ کرنی چاہئے ہر ایک عبادت کے لائق صرف وہی ہے۔

اثبات وجود الہ العلمین

امام رازی وغیرہ نے اللہ تعالیٰ کے وجود پر بھی اس آیت سے استدلال کیا ہے۔ اور فی الواقع یہ آیت اللہ تعالیٰ کے وجود پر بہت بڑی دلیل ہے زمین اور آسمان کی مختلف شکل و صورت مختلف رنگ مختلف مزاج اور مختلف نفع کی موجودات ان میں سے ہر ایک کا نفع بخش ہونا اور خاص حکمت کا حامل ہونا ان کے خالق کے وجود کا اور اس کی عظیم الشان قدرت، حکمت، زبردست سطوت اور سلطنت کا ثبوت ہے کسی بد وی سے پوچھا گیا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی موجودگی کی کیا دلیل ہے ؟ تو اس نے کہا دعا(یا سبحان اللہ ان البعر لیدل علی البعیر۔ وان اثر الا قدام لیدل علی المسیر۔ فسماء ذات ابراج وارض ذات فجاج۔ وبحار ذات امواج الا یدل ذالک علی وجود اللطیف الخبیر۔) یعنی مینگنی سے اونٹ معلوم ہو سکے اور پاؤں کے نشان زمین پر دیکھ کر معلوم ہو جائے کہ کوئی آدمی گیا ہے تو کیا یہ برجوں والا آسمان یہ راستوں والی زمین یہ موجیں مارنے والے سمندر اللہ تعالیٰ باریک بین اور باخبر کے وجود پر دلیل نہیں ہو سکتے ؟ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے ہارون رشید نے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کے وجود پر کیا دلیل ہے آپ نے فرمایا زبانوں کا مختلف ہونا، آوازوں کا جداگانہ ہونا، نغموں کا الگ ہونا، ثابت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے بھی یہی سوال ہوتا ہے تو آپ جواب دیتے ہیں کہ چھوڑو میں کسی اور سوچ میں ہوں۔ لوگوں نے مجھ سے کہا ہے کہ ایک بہت بڑی کشتی جس میں طرح طرح کی تجارتی چیزیں ہیں نہ کوئی اس کا نگہبان ہے نہ چلانے والا ہے باوجود اس کے وہ برابر آ جا رہی ہے اور بڑی بڑی موجوں کو خود بخود چیرتی پھاڑتی گزر جاتی ہے ٹھہرنے کی جگہ پر ٹھہر جاتی ہے چلنے کی جگہ چلتی رہتی ہے نہ اس کا کوئی ملاح ہے نہ منتظم۔ سوال کرنے والے دہریوں نے کہا آپ کس سوچ میں پڑ گئے کوئی عقلمند ایسی بات کہہ سکتا ہے کہ اتنی بڑی کشتی اتنے بڑے نظام کے ساتھ تلاطم والے سمندر میں آئے جائے اور کوئی اس کا چلانے والا نہ ہو آپ نے فرمایا افسوس تمہاری عقلوں پر ایک کشتی تو بغیر چلانے والے کے نہ چل سکے لیکن یہ ساری دنیا آسمان و زمین کی سب چیزیں ٹھیک اپنے کام پر لگی رہیں اور ان کا مالک حاکم خالق کوئی نہ ہو؟ یہ جواب سن کر وہ لوگ ہکا بکا ہو گئے اور حق معلوم کر کے مسلمان ہو گئے حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی یہی سوال ہوا تو آپ نے جواب دیا کہ توت کے پتے ایک ہی ہیں ایک ہی ذائقہ کے ہیں کیڑے اور شہد کی مکھی اور گائیں بکریاں ہرن وغیرہ سب اس کو چباتے کھاتے اور چرتے چگتے ہیں اسی کو کھا کر ریشم کا کیڑا ریشم تیار کرتا ہے مکھی شہد بناتی ہے ، ہرن میں مشک پیدا ہوتا ہے اور گائیں بکریاں مینگنیاں دیتی ہیں۔ کیا یہ اس امر کی صاف دلیل نہیں کہ ایک پتے میں یہ مختلف خواص پیدا کرنے والا کوئی ہے ؟ اور اسی کو ہم اللہ تبارک و تعالیٰ مانتے ہیں وہی موجد اور صانع ہے۔ حضرت امام احمد بن حنل رحمۃ اللہ علیہ سے بھی ایک مرتبہ وجود باری تعالیٰ پر دلیل طلب کی گئی تو آپ نے فرمایا۔ سنو یہاں ایک نہایت مضبوط قلعہ ہے جس میں کوئی دروازہ نہیں نہ کوئی راستہ ہے بلکہ سوراخ تک نہیں باہر سے چاندی کی طرح چمک رہا ہے اور اندر سے سونے کی طرح دمک رہا ہے اوپر نیچے دائیں بائیں چاروں طرف سے بالکل بند ہے ہوا تک اس میں نہیں جا سکتی اچانک اس کی ایک دیوار گرتی ہے اور ایک جاندار آنکھوں کانوں والا خوبصورت شکل اور پیاری بولی والا چلتا پھرتا نکل آتا ہے۔ بتاؤ اس بند اور محفوظ مکان میں اسے پیدا کرنے والا کوئی ہے یا نہیں؟ اور وہ ہستی انسانی ہستیوں سے بالاتر اور اس کی قدرت غیر محدود ہے یا نہیں؟ آپ کا مطلب یہ تھا کہ انڈے کو دیکھو چاروں طرف سے بند ہے پھر اس میں پروردگار خالق یکتا جاندار بچہ پیدا کر دیتا ہے۔ یہی دلیل ہے اللہ کے وجود پر اور اس کی توحید پر۔ حضرت ابو نواس سے جب یہ مسئلہ پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا آسمان سے بارش برسنا، اس سے درختوں کا پیدا ہونا اور ان ہری ہری شاخوں پر خوش ذائقہ میووں کا لگنا ہی اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی وحدانیت کی کافی دلیل ہے ابن المعتز فرماتے ہیں افسوس اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اس کی تکذیب پر لوگ کیسے دلیر ہو جاتے ہیں حالانکہ ہر چیز اس پروردگار کی موجود اور لاشریک ہونے پر گواہ ہے بزرگوں کا مقولہ ہے کہ آسمانوں کو دیکھو ان کی بلندی ان کی وسعت، ان کے چھوٹے بڑے چمکیلے اور روشن ستاروں پر نظریں ڈالو۔ ان کے چمکنے دمکنے ان کے چلنے پھرنے ، ٹھہر جانے ، ظاہر ہونے اور چھپ جانے کا مطالعہ کرو۔ سمندروں کو دیکھو، جو موجیں مارتے ہوئے زمین کو گھیرے ہوئے ہیں۔ اونچے نیچے مضبوط پہاڑوں کو دیکھو جو زمین میں گڑے ہوئے ہیں اور اسے ہلنے نہیں دیتے ، جن کے رنگ، جن کی صورتیں مختلف ہیں۔ قسم قسم کی دوسری مخلوقات پر نظر ڈالو، ادھر سے ادھر پھر جانے والی کھیتیوں اور باغوں کو شاداب کرنے والی خوشنما نہروں کو دیکھو۔ کھیتوں، باغوں کی سبزیوں٠ اور ان کے طرح طرح کے پھل پھول مزے مزے کے میووں پر غور کرو زمین ایک پانی ایک، لیکن شکلیں صورتیں، خوشبوئیں، رنگ ذائقہ، فائدہ الگ الگ۔ کیا یہ تمام مصنوعات تمہیں نہیں بتاتیں کہ ان کا صانع کوئی ہے ؟ کیا یہ تمام موجودات با آواز بلند نہیں کہہ رہیں کہ ان کا موجد کوئی ہے ؟ کیا یہ ساری مخلوق اپنے خالق کی ہستی اس کی ذات اور اس کی توحید پر دلالت نہیں کرتی۔ یہ ہیں وہ زور دار دلائل جو اللہ جل و علا نے اپنی ذات کے منوانے کے لئے ہر نگاہ کے سامنے پیش کر دئیے ہیں جو اس کی زبردست قدرتوں ، اس کی پرزور حکمتوں، اس کی لاثانی رحمتوں، اس کے بے نظیر انعاموں، اس کے لازوال احسانوں پر دلالت کرنے کے لئے کافی وافی ہیں۔ ہم اقرار کرتے ہیں کہ نہ اس کا کوئی پالنے والا ہے ، نہ اس کے سوا کوئی پیدا کرنے اور حفاظت کرنے والا، نہ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہ اس کے سوا کوئی مسجود لاشک۔ ہاں دنیا کے لوگو! سن لو میرا توکل اور بھروسہ اسی پر ہے میری انابت اور التجا اسی کی طرف ہے ، میرا جھکنا اور پست ہونا اسی کے سامنے ہے ، میری تمناؤں کا مرکز، میری امیدوں کا آسرا، میرا ماویٰ، ملجا وہی ایک ہے اس کے دست رحمت کو تکتا ہوں اور اسی کا نام جپتا ہوں۔”
 

Zia_Hayderi

TM Star
Mar 30, 2007
2,468
1,028
1,213
۲۳تصدیق نبوت اعجاز قرآن

توحید کے بعد اب نبوت کی تصدیق کی جا رہی ہے کفار مکہ کو خطاب کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ ہم نے جو قرآن پاک اپنے بندے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر اتارا ہے اسے اگر تم ہمارا کلام نہیں مانتے تو تم اور تمہارے مددگار سب مل کر پورا قرآن نہیں صرف ایک سورت تو اس جیسی بنا لاؤ۔ جب تم ایسا نہیں کر سکتے اور اس سے عاجز ہو تو پھر اس قرآن کے کلام اللہ ہونے میں کیوں شک کرتے ہو؟ اپنے ہم فکر اور مددگار سب کو جمع کرو تو بھی تم سب ناکام رہو گے۔ مطلب یہ ہے کہ جنہیں تم نے اپنا معبود بنا رکھا ہے انہیں بھی بلا لو اور ان سے بھی مدد چاہو پھر اس جیسی ایک سورت ہی تو بنا لاؤ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ تم اپنے حاکموں اور اپنے زباں دان فصیح و بلیغ لوگوں سے بھی مدد لے لو۔ قرآن پاک کے اس معجزے کا اظہار اور ایسا انداز خطاب کئی جگہ ہے سورہ قصص میں ہے آیت(فاتوا بکتاب من عند اللہ ھو اھدی منھما اتبعہ ان کنتم صادقین) یعنی اگر تم سچے ہو تو ان دونوں سے (یعنی توریت و قرآن سے ) زیادہ ہدایت والی کوئی اور اللہ کی کتاب لاؤ تو میں بھی اس کی تابعداری کروں گا۔ سورہ سبحان میں فرمایا آیت(قل لئن اجتمعت الانس والجن علی ان یاتوا بمثل ھذا القران لا یاتون بمثلہ ولو کان بعضھم لبعض ظھیرا) یعنی اگر تمام جنات اور انسان جمع ہو کر اور ہر ایک دوسرے کی مدد کے ساتھ یہ چاہیں کہ اس جیسا قرآن بنائیں تو بھی ان کے امکان میں نہیں سورہ ہود میں فرمایا آیت(ام یقولون افتراہ قل فاتوا بعشر سور مثلہ مفتریات وادعوا من استطعتم من دون اللہ ان کنتم صادقین) یعنی کیا یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ قرآن کو خود اس پیغمبر نے گھڑ لیا تم کہو کہ اگر تم سچے ہو تو تم سب مل کر اور اللہ کے سوا جنہیں تم بلا سکتے ہو بلا کر اس جیسی دس سورتیں ہی بنا لاؤ۔ سورہ یونس میں ہے آیت(وما کان ھذا القرآن ان یفتری من دون اللہ ولکن تصدیق الذی بین یدیہ وتفصیل الکتاب لا ریب فیہ من رب العلمین امن یقولون افتراہ قل فاتوا بسورۃ من مثلہ وادعوا من استطعتم من دون اللہ ان کنتم صادقین) یعنی یہ قرآن اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کی طرف سے گھڑا ہوا نہیں بلکہ یہ اگلی کتابو ں کی تصدیق کرنے والا اور کتاب تفصیل ہے جس کے اللہ کا کلام ہونے میں کوئی شک نہیں جو رب العالمین کی طرف سے ہے کیا یہ لوگ اسے خود ساختہ کہتے ہیں ان سے کہو کہ اللہ کے سوا ہر شخص کو بلا کر اس قرآن کی سینکڑوں سورتوں میں سے ایک چھوٹی سی سورت جیسی سورت تو بنا لاؤ تاکہ تمہارا سچ ظاہر ہو۔ یہ تمام آیتیں مکہ مکرمہ میں نازل ہوئیں اور اہل مکہ کو اس کے مقابلہ میں عاجز ثابت کر کے پھر مدینہ شریف میں بھی اس مضمون کو دہرایا گیا اوپر کی آیت مثلہ کی ضمیر کو بعض نے قرآن کی طرف لوٹایا ہے یعنی کوئی سورت اس قرآن جیسی لاؤ۔ بعض نے یہ ضمیر محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف لوٹائی ہے یعنی آپ جیسا کوئی امی ایسا ہو ہی نہیں سکتا ہے کہ کچھ پڑھا ہوا نہ ہونے کے باوجود وہ کلام کہے جس کا مثل کسی سے نہ بن سکے لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے۔ مجاہد قتادہ عمرو بن مسعود ابن عباس حسن بصری اور اکثر محققین کا یہی قول ہے امام ابن جریر طبری زمحشری رازی نے بھی اسی کو پسند کیا ہے اس کی ترجیح کی وجوہات بہت سی ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس میں سب کو ڈانٹ ڈپٹ بھی ہے اجتماعی اور الگ الگ بھی۔ خواہ وہ امی اور ان پڑھ ہوں یا اہل کتاب اور پڑھے لکھے ہوں اس میں اس معجزے کا کمال ہے اور بہ نسبت اس کے کہ صرف ان پڑھ لوگوں کو عاجز کیا جائے اس میں زیادہ مبالغہ ہے پھر دس سورتوں کا مطالبہ کرنا اس کی مثل نہ لا سکنے کی پیشین گوئی کرنا بھی اسی حقیقت کو ثابت کرتا ہے کہ اس سے مراد قرآن ہے نہ کہ ذات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پس اس عام اعلان سے جو بار بار کیا گیا اور ساتھ ہی پیشین گوئی بھی کر دی گئی کہ یہ لوگ اس پر قادر نہیں۔ مکہ میں اور مدینہ میں بارہا اس کا اعادہ کیا گیا اور وہ لوگ جن کی مادری زبان عربی تھی جنہیں اپنی فصاحت اور بلاغت پر ناز تھا جو لوگ آپ کی اور آپ کے دین کی دشمنی پر ادھار کھا بیٹھے تھے وہ درحقیقت اس سے عاجز آ گئے نہ پورے قرآن کا جواب دے سکے نہ دس سورتوں کا، نہ ایک سورت کا، پس ایک معجزہ تو یہ ہے کہ اس جیسی ایک چھوٹی سی سورت بھی وہ نہ بنا سکے دوسرا معجزہ یہ ہے کہ پیشین گوئی سچ ثابت ہوئی کہ یہ ہرگز اس جیسا نہیں بنا سکتے چاہے سب جمع ہو جائیں اور قیامت تک محنت کر لیں۔ پس ایسا ہی ہوا نہ تو اس زمانہ میں کسی کی یہ جرات ہوئی نہ اس کے بعد سے آج تک اور نہ قیامت تک کسی سے یہ ہو سکے گا اور بھلا کیسے ہو سکتا؟ جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات بے مثل اسی طرح اس کا کلام بھی۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ قرآن پاک کو بیک نظر دیکھنے سے ہی اس کے ظاہری اور باطنی لفظی اور معنوی ایسے ایسے کمالات ظاہر ہوتے ہیں جو مخلوق کے بس کے نہیں خود رب العالمین فرماتا ہے آیت(الر کتاب احکمت ایاتہ ثم فصلت) الخ یعنی اس کتاب کی آیتیں جو حکمت والے ہر طرح کی خبریں جاننے والے اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے محکم مضبوط اور مفصل الگ الگ ہیں۔ پس الفاظ محکم اور معانی مفصل یا الفاظ مفصل اور معانی محکم پس قرآن اپنے الفاظ میں اور اپنے مضامین میں بے نظیر ہے جس کے مقابلے ، معارضے اور مثل سے دنیا عاجز اور بے بس ہے اس پاک کلام میں اگلی خبریں جو دنیا سے پوشیدہ تھیں وہ ہو بہو بیان کی گئیں آنے والے امور کے تذکرے کئے گئے جو لفظ بہ لفظ پورے اترے۔ تمام بھلائیوں کا حکم تمام برائیوں سے ممانعت اس میں ہے۔ سچ ہے آیت(وتمت کلمۃ ربک صدقا وعدلا) یعنی خبروں میں صداقت اور احکام میں عدل تیرے رب کے کلام میں پورا پورا ہے۔ پاکیزہ قرآن تمام تر حق و صداقت و ہدایت سے پر ہے نہ اس میں واہی تواہی باتیں ہیں نہ ہنسی مذاق نہ کذب و افترا جو شاعروں کے کلام میں عموماً پایا جاتا ہے بلکہ ان کے اشعار کی قدرو قیمت ہی اسی پر مقولہ مشہور ہے کہ اعذبہ اکذبہ جوں جھوٹ زیادہ اتنا ہی مزید سر تم دیکھو گے کہ لمبے لمبے پر زور قصیدے مبالغہ اور کذب آمیز یا تو عورتوں کی تعریف و توصیف میں ہوں گے یا گھوڑوں کی اور شراب کی ستائش میں ہوں گے یا کسی انسان کی بڑھی چڑھی مدح و تعریف میں ہوں گے یا اونٹنیوں کی آرائش و زیبائش یا بہادری کے مبالغہ آمیز گیت یا لڑائیوں کی چالبازیوں یا ڈر خوف کے خیالی منظروں کے بیان میں ہوں گے جن سے کوئی فائدہ نہیں۔ نہ دین کا نہ دنیا کا صرف شاعر کی زبان دانی اور اس کی قدرت کلام ظاہر ہوتی ہے۔ نہ اخلاق پر ان سے کوئی عمدہ اثر نہ اعمال۔ پر پھر نفس مضمون کے ساتھ پورے قصیدے میں بمشکل دو ایک شعر ہوتے ہیں۔ باقی سب بھرتی کے اور ادھر ادھر کی لایعنی اور فضول بکواس برخلاف اس کے قرآن پاک کے اس پر نظر ڈالو تو دیکھو گے کہ اس کا ایک ایک لفظ فصاحت و بلاغت سے دین و دنیا کے نفع سے ، خیرو برکت سے پر ہے۔ پھر کلام کی ترتیب و تہذیب الفاظ کی بندش، عبارت کی روانی، معانی کی نورانیت، مضمون کی پاکیزگی، سونے پر سہاگہ ہے۔ اس کی خبروں کی حلاوت، اس کے بیان کردہ واقعات کی سلاست، مردہ دلوں کی زندگی ہے۔ اس کا اختصار کمال کا اعلیٰ نمونہ اور اس کی تفصیل معجزے کی جان ہے اس کا کسی چیز کا دوہرانا قند مکرر کا مزہ دیتا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے گویا سچے موتیوں کی بارش برس رہی ہے۔ بار بار پڑھو دل نہ اکتائے ، مزے لیتے جاؤ اور ہر وقت نیا مزہ پاؤ۔ مضامین سمجھتے جاؤ اور ختم نہ ہوں۔ یہ قرآن پاک کا ہی خاصہ ہے اس چاشنی کا ذائقہ، اس مٹھاس کا مزہ کوئی اس سے پوچھے جنہیں عقل و حواس علم و فضل کا کچھ حصہ قدرت نے عطا فرمایا۔ اس کی تنذیر دھمکاوا تعذیب اور پکڑ دھکڑ کا بیان مضبوط پہاڑوں کو ہلا دے۔ انسانی دل کیا ہیں اس کے وعدے اور خوشخبریاں، نعمتوں اور رحمتوں کا بیان دلوں کی پژمردہ کلی کو کھلا دینے والا، شوق و تمنا کے دبے جذبات کو ابھار دینے والا جنتوں اور راحتوں کے پیارے پیارے مناظر کو آنکھوں کے سامنے لانے والا ہے۔ دل کھل جاتے ہیں کان لگ جاتے ہیں اور آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ رغبت دیتے ہوئے وہ فرماتا ہے آیت(فلا تعلم نفس ما اخفی لھم من قرۃ اعین )الخ اس دائمی جنت میں ہر وہ چیز ہے جو دل کو بھائے اور آنکھوں میں اتر جائے۔ ڈراتے اور دھمکاتے ہوئے فرمایا آیت(افامنتم ان یخسف بکم جانب البر فرمایا امنتم من فی السماء ان یخسف بکم الارض فاذا ھی تمورام امنتم من فی السماء ان یرسل علیکم حاصبا فستعلمون کیف نذیر) کیا تم اپنے دھنسائے جانے یا آسمان سے پتھر برسائے جانے سے نڈر ہو گئے ہو؟ کیا آسمانوں والا اس پر قادر نہیں؟ اسے محض دھمکی ہی نہ سمجھو بلکہ اس کی حقیقت عنقریب تم پر کھل جائے گی۔ زجرو تو پیخ ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے۔ آیت(فکلا اخذنا بذنبہ) ایک ایک کو ہم نے اس کی بد کرداریوں میں پکڑ لیا۔ بطور وعظ و نصیحت بیان ہوتا ہے آیت(افرایت ان متعناھم سنین ثم جاء ھم ما کانوا یوعدون ما اغنی عنھم ما کانوا یمتعون) اگر ہم نے کچھ سال انہیں فائدہ نہیں دیا تو کیا ہوا؟ آخر وعدے کی گھڑی آ پہنچی اور اس جاہ و جلال نے کوئی نفع نہ بخشا۔ غرض کوئی کہاں تک بیان کرے جس مضمون کا ذکر کیا۔ اسے کمال تک پہنچا کر چھوڑا اور طرح طرح کی فصاحت و بلاغت، حلاوت و حکمت سے معمور کر دیا احکام کے حکم اور روک ٹوک کو دیکھئے ہر حکم اچھائی بھلائی نفع اور پاکیزگی کا جامع ہے۔ ہر ممانعت قباحت رذالت اور خباثت کی قاطع ہے۔ ابن مسعود وغیرہ اسلاف امت کا قول ہے کہ جب قرآن میں آیت(یا ایھا الذین امنوا) آئے تو کان لگا دو یا تو کسی اچھائی کا حکم ہو گا یا کسی برائی سے منع کیا جائے گا خود پروردگار عالم فرماتا ہے آیت(یامرھم بالمعروف وینھی ھم عن المنکر ویحل لھم الطیبات ویحرم علیھم الخبائث ویضع عنھم اصرھم والاغلال التی کانت علیھم) الخ یعنی بھلائیوں کا حکم دیتا ہے برائیوں سے روکتا ہے پاکیزہ چیزیں حلال قرار دیتا ہے خبیث چیزیں حرام کرتا ہے وہ بوجھل بیڑیاں جو پاؤں میں تھیں وہ سخت طوق جو گلوں میں تھے اتار پھینکتا ہے قیامت کے بیان کی آیتیں ہیں کہ ہولناک مناظر جنت و دوزخ کا بیان رحمتوں اور زحمتوں کا پورا پورا وصف۔ اولیاء اللہ کے لئے طرح طرح کی نعمتیں۔ دشمنان اللہ کے لئے طرح طرح کے عذاب۔ کہیں بشارت ہے کہیں ڈراوا ہے کہیں نیکیوں کی طرف رغبت ہے۔ کہیں بد کاریوں سے ممانعت ہے۔ کہیں دنیا کی طرف سے زہد کرنے کی، کہیں آخرت کی طرف رغبت کرنے کی تعلیم ہے۔ یہی وہ تمام آیتیں ہیں جو راہ راست دکھاتی ہیں اور بہتر رہنمائی کرتی ہیں اللہ کی پسندیدہ شریعت کی طرف جھکاتی ہیں اور دلوں کو جلا دیتی ہیں اور شیطانی دروازوں کو بند کر دیتی ہے اور برے اثرات کو زائل کرتی ہیں۔ صحیح بخاری مسلم میں بروایت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہر نبی کو ایسے معجزے دئیے گئے کہ جنہیں دیکھ کر لوگ اس پر ایمان لائے اور میرا معجزہ اللہ کی وحی یعنی قرآن پاک ہے اس لئے مجھے امید ہے کہ میرے تابعدار بہ نسبت اور نبیوں کے بہت زیادہہوں گے اس لئے کہ اور انبیاء کے معجزے ان کے ساتھ چلے گئے لیکن حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ معجزہ قیامت تک باقی رہے گا۔ لوگ اسے دیکھتے جائیں گے اور اسلام میں داخل ہوتے جائیں گے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمان کہ میرا معجزہ وحی ہے جو مجھ کو دی گئی ہے کا مطلب یہ ہے کہ مجھ کو اس کے ساتھ مخصوص کیا گیا ہے اور قرآن کریم مجھی کو ملا ہے جو اپنے معارضے اور مقابلے میں تمام دنیا کو عاجز کر دینے والا ہے۔ بخلاف دوسری آسمانی کتابو ں کے وہ اکثر علماء کے نزدیک اس وصف سے خالی ہیں واللہ اعلم۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت آپ کی صداقت اور دین اسلام کی حقانیت پر اس معجزے کے علاوہ بھی اس قدر دلائل ہیں جو گنے بھی نہیں جا سکتے۔ للہ الحمد والمنتہ۔

بعض متکلمین نے قرآن کریم کے اعجاز کو ایسے انداز سے بیان کیا ہے جو اہل سنت کے اور معزلہ کے قول پر مشترک ہے وہ کہتے ہیں کہ یا تو یہ قرآن فی نفسہ معجزہ ہے جو انسان کے امکان میں ہی نہیں کہ اس جیسا بنا لا سکے انہیں اس کا معارضہ کرنے کی قدرت و طاقت ہی نہیں۔ یا یہ کہ گو اس کا معارضہ ممکن ہے اور انسانی طاقت سے باہر نہیں لیکن باوجود اس کے انہیں معارضہ کا چیلنج دیا جاتا ہے اس لئے کہ وہ عداوت اور دشمنی میں بڑھے ہوئے ہیں دین حق کو مٹانے ، ہر وقت ہر طاقت کے خرچ کرنے اور ہر چیز کے برباد کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن تاہم قرآن کا معارضہ اور مقابلہ ان سے نہیں ہو سکتا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن اللہ کی جانب سے ہے اگر قدرت و طاقت ہو بھی تو بھی وہ انہیں روک دیتا ہے اور وہ قرآن کی مثل پیش کرنے سے عاجز ہو جاتے ہیں۔ گو یہ پچھلی وجہ اتنی پسندیدہ نہیں تاہم اگر اسے بھی مان لیا جائے تو اس سے بھی قرآن پاک کا معجزہ ہونا ثابت ہوے جو بطریق تنزل حمایت حق اور مناظرے کی خاطر صلاحیت رکھتا ہے امام رازی نے بھی چھوٹی چھوٹی سورتوں کے سوال کے جواب میں یہی طریقہ اختیار کیا ہے۔

جہنم کا ایندھن

وقود کے معنی ایندھن کے ہیں جس سے آگ جلائی جائے۔ جیسے چپٹیاں لکڑیاں وغیرہ قرآن کریم میں ایک جگہ ہے آیت(واما القاسطون فکانوا لجھنم حطبا) ظالم لوگ جہنم کی لکڑیاں ہیں اور جگہ فرمایا تم اور تمہارے معبود جو اللہ کے سوا ہیں جہنم کی لکڑیاں ہیں تم سب اس میں وارد ہو گے اگر وہ سچے معبود ہوتے تو وہاں وارد نہ ہوتے دراصل یہ سب کے سب اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں اور حجارہ کہتے ہیں پتھر کو یہاں مراد گندھک کے سخت سیاہ اور بڑے بڑے اور بد بو دار پتھر ہیں جن کی آگ بہت تیز ہوتی ہے اللہ تعالیٰ ہمیں محفوظ رکھے حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں ان پتھروں کو زمین و آسمان کی پیدائش کے ساتھ ہی آسمان اول پر پیدا کیا گیا ہے۔ (ابن جریر ابن ابی حاتم مستدرک حاکم) ابن عباس ابن مسعود اور چند اور صحابہ سے سدی نے نقل کیا ہے کہ جہنم میں یہ سیاہ گندھک کے پتھر بھی ہیں جن کی سخت آگ سے کافروں کو عذاب کیا جائے گا۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں ان پتھروں کی بد بو مردار کی بو سے بھی زیادہ ہے محمد بن علی اور ابن جریج بھی کہتے ہیں کہ مراد گندھک کے بڑے بڑے اور سخت پتھر ہیں۔ بعض نے کہا ہے مراد وہ پتھر جن کی مورتیاں بنائی جاتی ہیں اور پھر ان کی پرستش کی جاتی تھی جیسے اور جگہ ہے آیت(انکم وما تعبدون من دون اللہ حصب جہنم) الخ تم اور تمہارے وہ معبود جو اللہ کے سوا ہیں جہنم کی لکڑیاں ہیں قرطبی اور رازی نے اسی قول کو ترجیح دی ہے اور کہا ہے کہ گندھک کے پتھر جو کسی شکل میں بھی اللہ کے سوا پوجے جاتے ہوں لیکن یہ وجہ کوئی قوی وجہ نہیں اس لئے کہ جب آگ گندھک کے پتھروں سے سلگائی جائے تو ظاہر ہے کہ اس کی تیزی اور حرارت معمولی آگ سے بہت زیادہ ہو گی اس کا بھڑکنا جلنا سوزش اور شعلے بھی بہت زیادہ ہوں گے علاوہ اس کے پھر سلف سے بھی اس کی تفسیر یہی مروی ہے اسی طرح ان پتھروں میں آگ کا لگنا بھی ظاہر ہے۔ اور آیت کا مقصود آگ کی اور اس کی سوزش کا بیان کرنا ہے اور اس کے بیان کے لئے بھی یہاں پتھر سے مراد گندھک کے پتھر لینا زیادہ مناسب ہے تاکہ وہ آگ تیز ہو اور اس سے بھی عذاب میں سختی ہو قرآن کریم میں ہے آیت(کلما خبت زدناھم سعیرا) جہاں شعلے ہلکے ہوئے کہ ہم نے اور بھڑکا دیا۔ ایک حدیث میں ہے ہر موذی آگ میں ہے لیکن یہ حدیث محفوظ اور معروف نہیں۔ قرطبی فرماتے ہیں اس کے دو معنی ہیں ایک یہ کہ ہر وہ شخص جو دوسروں کو ایذا دے جہنمی ہے دوسرے یہ کہ ہر ایذا دہندہ چیز جہنم کی آگ میں موجود ہو گی جو جہنمیوں کو عذاب دے گی۔ اعدت یعنی تیار کی گئی ہے مراد بظاہر یہی معلوم ہوتی ہے کہ وہ آگ کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مراد پتھر ہوں یعنی وہ پتھر جو کافروں کے لئے تیار کئے گئے ہیں۔ ابن مسعود کا یہی قول ہے اور فی الحقیقت دونوں معنی میں کوئی اختلاف نہیں اس لئے کہ پتھروں کا تیار کیا جانا آگ کے جلانے کے لئے ہے۔ لہٰذا آگ کی تیاری کے لئے پتھروں کا تیار کیا جانا ضروری ہے۔ پس دونوں ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ہر وہ شخص جو کفر پر ہو اس کے لیے وہ آگ تیار ہے۔ اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے کہ جہنم اب موجود اور پیدا شدہ ہے کیونکہ “اعدت” کا لفظ ہی اس کی دلیل میں آیا ہے بہت سی حدیثیں بھی ہیں۔ ایک مطول حدیث میں ہے جنت اور دوزخ میں جھگڑا ہوا، دوسری حدیث میں ہے جہنم نے اللہ تعالیٰ سے دو سانس لینے کی اجازت چاہی اور اسے سردی میں ایک سانس لینے اور گرمی میں دوسرا سانس لینے کی اجازت دے دی گئی۔ تیسری حدیث میں ہے صحابہ کہتے ہیں ہم نے ایک مرتبہ بڑے زور کی ایک آواز سنی حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا یہ کس چیز کی آواز ہے آپ نے فرمایا ستر سال پہلے ایک پتھر جہنم میں پھینکا گیا تھا آج وہ تہ کو پہنچا۔ چوتھی حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے سورج گرہن کی نماز پڑھتے ہوئے جہنم کو دیکھا۔ پانچویں حدیث میں ہے کہ آپ نے شب معراج میں جہنم کو اس میں عذابو ں کے سلسلے کو ملاحظہ فرمایا اسی طرح اور بہت سی صحیح متواتر حدیثیں مروی ہیں معتزلہ اپنی جہالت کی وجہ سے انہیں نہیں مانتے قاضی اندلس منذر بن سعید بلوطی نے بھی ان سے اتفاق کیا ہے۔ مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہاں اور سورہ یونس میں جو کہا گیا ہے کہ ایک ہی سورت کے مانند لاؤ اس میں ہر چھوٹی بڑی آیت شامل ہے اس لئے عربیت کے قاعدے کے مطابق جو اسم نکرہ ہو اور شرط کے طور پر لایا گیا ہو وہ عمومیت کا فائدہ دیتا ہے جیسے کہ نکرہ نفی کی تحت میں استغراق کا فائدہ دیتا ہے پس لمبی سورتوں اور چھوٹی سورتوں سب میں اعجاز ہے اور اس بات پر سلف و خلف کا اتفاق ہے امام رازی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اگر کوئی کہے کہ سورت کا لفظ سورہ کوثر اور سورۃ العصر اور سورہ آیت(قل یاایھا الکفرون جیسی چھوٹی سورتوں پر بھی مشتمل ہے اور یہ بھی یقین ہو کہ اس جیسی یا اس کے قریب قریب کسی سورت کا بنا لینا ممکن ہے تو اسے انسانی طاقت سے خارج کہنا نری ہٹ دھرمی اور بے جا طرف داری ہے تو ہم جواب دیں گے کہ ہم نے اس کے معجز نما ہونے کے دو طریقے بیان کر کے دوسرے طریقہ کو اسی لئے پسند کیا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر یہ چھوٹی سورتیں بھی فصاحت و بلاغت میں میں اسی پایہ کی ہیں کہ وہ معجزہ کہی جا سکیں اور انکار تعارض ممکن نہ ہو تو مقصود حاصل ہو گیا اور اگر یہ سورتیں ایسی نہیں تو بھی ہمارا مقصود حاصل ہے اس لئے کہ ان جیسی سورتوں کو بنانے کی انسانی قدرت ہونے پر بھی سخت دشمنی اور زبردست کوششوں کے باوجود ناکام رہنا ہے۔ اس بات کی صاف دلیل ہے کہ یہ قرآن مع اپنی چھوٹی چھوٹی سورتوں کے سراسر معجزہ ہے یہ تو رازی کا کہنا ہے۔ لیکن صحیح قول یہ ہے کہ قرآن پاک کی ہر بڑی چھوٹی سورت فی الواقع معجزہ ہے اور انسان اس کی مانند بنانے سے محض عاجز اور بالکل بے بس ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اگر لوگ غور و تدبر سے عقل و ہوش سے سورہ والعصر کو سمجھ لیں تو انتہائی کافی ہے۔ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب وفد میں شامل مسیلمہ کذاب کے پاس گئے (تب یہ خود بھی مسلمان نہیں ہوئے تھے ) تو مسیلمہ نے ان سے پوچھا کہ تم مکہ سے آ رہے ہو بتاؤ تو آج کل کوئی تازہ وحی بھی نازل ہوئی ہے ؟ انہوں نے کہا ابھی ابھی ایک مختصر سی سورت نازل ہوئی ہے جو بے حد فصیح و بلیغ اور جامع اور مانع ہے پھر سورہ والعصر پڑھ کر سنائی تو مسلیمہ نے کچھ دیر سوچ کر اس کے مقابلے میں کہا۔ مجھ پر بھی ایک ایسی ہی سورت نازل ہوئی ہے انہوں نے کہا ہاں تم بھی سناؤ تو اس نے کہا یاوبریا وبرانما انت اذنان وصدر وسائک حقر فقر یعنی اے جنگلی چوہے اے جنگلی چوہے تیرا وجود سوائے دو کانوں اور سینے کے اور کچھ بھی نہیں باقی تو سراسر بالکل ناچیز ہے پھر فخریہ کہنے لگا کہو اے عمرو کیسی کہی؟ انہوں نے کہا مجھ سے کیا پوچھتے ہو تو خود جانتا ہے کہ یہ سراسر کذب و بہتان ہے بھلا کہاں یہ فضول کلام اور کہاں حکمتوں سے بھرپور وہ کلام؟”

 

Zia_Hayderi

TM Star
Mar 30, 2007
2,468
1,028
1,213
‏۲۵

اعمال وجہ بشارت

چونکہ پہلے کافروں اور دشمنان دین کی سزا عذاب اور رسوائی کا ذکر ہوا تھا اس لئے یہاں ایمانداروں اور نیک صالح لوگوں کی جزا ثواب اور سرخروئی کا بیان کیا گیا ہے۔ قرآن کے مثانی ہونے کے ایک معنی یہ بھی ہیں جو صحیح تر قول بھی ہے کہ اس میں ہر مضمون تقابلی جائزہ کے ساتھ ہوا ہے اس کا مفصل بیان بھی کسی مناسب جگہ آئے گا مطلب یہ ہے کہ ایمان کے ساتھ ہی کفر کا۔ کفر کے ساتھ ایمان کا۔ نیکوں کے ساتھ بد وں کا۔ اور بد وں کے ساتھ نیکوں کا ذکر ضرور آتا ہے جس چیز کا بیان ہوتا ہے اس کے مقابلہ کی چیز کا بھی ذکر کر دیا جاتا ہے چاہے معنی میں متشابہ ہوں، یہ دونوں لفظ قرآن کے اوصاف میں وارد ہوئے ہیں اسے مثانی بھی کہا گیا ہے اور متشابہ بھی فرمایا گیا ہے۔ جنتوں میں نہریں بہنا اس کے درختوں اور بالاخانوں کے نیچے بہنا ہے حدیث شریف میں ہے کہ نہریں بہتی ہیں لیکن گڑھا نہیں اور حدیث میں ہے کہ نہر کوثر کے دونوں کنارے سچے موتیوں کے قبے ہیں اس کی مٹی مشک خالص ہے اور اس کی کنکریاں لولو اور جواہر ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہمیں بھی یہ نعمتیں عطا فرمائے وہ احسان کرنے والا بڑا رحیم ہے حدیث میں ہے جنت کی نہریں مشکی پہاڑوں کے نیچے سے جاری ہوتی ہیں۔ (ابن ابی حاتم) حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی یہ مروی ہے جنتیوں کا یہ قول کہ پہلے بھی ہم کو یہ میوے دئے گئے تھے اس سے مراد یہ ہے کہ دنیا میں بھی یہ میوے ہمیں ملے تھے صحابہ اور ابن جریر نے بھی اس کی تائید کی ہے بعض کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ہم اس سے پہلے یعنی سابقہ کل بھی یہی تھے صحابہ اور ابن جریر نے بھی اس کی تائید کی ہے بعض کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ہم اس سے پہلے یعنی سابقہ کل بھی یہی تھے صحابہ اور ابن جریر نے بھی اس کی تائید کی ہے بعض کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ہم اس سے پہلے یعنی سابقہ کل بھی یہی دئیے گئے تھے یہ اس لئے کہیں گے کہ ظاہری صورت و شکل میں وہ بالکل مشابہ ہوں گے۔ یحییٰ بن کثیر کہتے ہیں کہ ایک پیالہ آئے گا کھائیں گے پھر دوسرا آئے گا تو کہیں گے یہ تو ابھی کھایا ہے فرشتے کہیں گے کھائیے تو اگرچہ صورت شکل میں یکساں ہیں لیکن مزہ اور ہے۔ فرماتے ہیں جنت کی گھاس زعفران ہے اس کے ٹیلے مشک کے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے خوبصورت غلمان ادھر ادھر سے میوے لا لا کر پیش کر رہے ہیں وہ کھا رہے ہیں وہ پھر پیش کرتے ہیں تو یہ کہتے ہیں اسے تو ابھی کھایا ہے وہ جواب دیتے ہیں حضرت رنگ روپ ایک ہے لیکن ذائقہ اور ہی ہے چکھ کر دیکھئے کھاتے ہیں تو اور ہی لطف پاتے ہیں یہی معنی ہیں کہ ہم شکل لائیں جائیں گے۔ دنیا کے میووں سے بھی اور نام شکل اور صورت میں بھی ملتے جلتے ہوں گے لیکن مزہ کچھ دوسرا ہی ہو گا۔ حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ صرف نام میں مشابہت ہے ورنہ کہاں یہاں کی چیز کہاں وہاں کی؟ یہاں تو فقط نام ہی ہے عبدالرحمن کا قول ہے دنیا کے پھلوں جیسے پھل دیکھ کر کہہ دیں گے کہ یہ تو دنیا میں کھا چکے ہیں مگر جب چکھیں گے تو لذت کچھ اور ہی ہو گی۔ وہاں جو بیویاں انہیں ملیں گی وہ گندگی ناپاکی حیض و نفاس پیشاب، پاخانہ، تھوک، رینٹ، منی وغیرہ سے پاک صاف ہوں گی حضرت حوا علیہما السلام بھی حیض سے پاک تھیں لیکن نافرمانی سرزد ہوتے ہی یہ بلا آ گئی یہ قول سنداً غریب ہے ایک غریب مرفوع حدیث میں ہے کہ حیض پاخانہ تھوک رینٹ سے وہ پاک ہیں۔ اس حدیث کے راوی عبدالرزاق بن عمر یزیعی ہیں مستدرک حاکم میں بیان کیا جنہیں ابو حاتم البستی نے احتجاج کے قابل نہیں سمجھا۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مرفوع حدیث نہیں بلکہ حضرت قتادہ کا قول ہے واللہ اعلم۔ ان تمام نعمتوں کے ساتھ اس زبردست نعمت کو دیکھئے کہ نہ یہ نعمتیں فنا ہوں۔ نہ نعمتوں والے فنا ہوں نہ نعمتیں ان سے چھنیں نہ یہ نعمتوں سے الگ کئے جائیں۔ نہ موت ہے نہ خاتمہ ہے نہ آخر ہے نہ ٹوٹنا اور کم ہونا ہے اللہ رب العالمین جواد و کریم برورحیم سے التجا ہے کہ وہ مالک ہمیں بھی اہل جنت کے زمرے میں شامل کرے اور انہیں کے ساتھ ہمارا حشر کرے۔ آمین۔”

۲۶

اللہ جل شانہ کی مثالیں اور دنیا

ابن عباس ابن مسعود اور چند صحابہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ جب اوپر کی تین آیتوں میں منافقوں کی دو مثالیں بیان ہوئیں یعنی آگ اور پانی کی تو وہ کہنے لگے کہ ایسی ایسی چھوٹی مثالیں اللہ تعالیٰ ہرگز بیان نہیں کرتا۔ اس پر یہ دونوں آیتیں نازل ہوئیں۔ حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جب قرآن پاک میں مکڑی اور مکھی کی مثال بیان ہوئی تو مشرک کہنے لگے بھلا ایسی حقیر چیزوں کے بیان کی قرآن جیسی اللہ کی کتاب میں کیا ضرورت تو جواباً یہ آیتیں اتریں اور کہا گیا کہ حق کے بیان سے اللہ تعالیٰ نہیں شرماتا خواہ وہ کم ہو یا زیادہ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت مکہ میں اتری حالانکہ ایسا نہیں واللہ اعلم۔ اور بزرگوں سے بھی اس طرح کا شان نزول مروی ہے۔ ربیع بن انس فرماتے ہیں یہ خود ایک مستقل مثال ہے جو دنیا کے بارے میں بیان کی گئی۔ مچھر جب تک بھوکا ہوتا ہے زندہ رہتا ہے جہاں موٹا تازہ ہوا مرا۔ اسی طرح یہ لوگ ہیں کہ جب دنیاوی نعمتیں دل کھول کر حاصل کر لیتے ہیں وہیں اللہ کی پکڑ آ جاتی ہے جیسے اور جگہ فرمایا آیت(فلما نسوا ما ذکروا بہ) الخ جب یہ ہماری نصیحت بھول جاتے ہیں تو ہم ان پر تمام چیزوں کے دروازے کھول دیتے ہیں یہاں تک کہ اترانے لگتے ہیں اب دفعتہً ہم انہیں پکڑ لیتے ہیں (ابن جریر ابن ابی حاتم) امام ابن جریر نے پہلے قول کو پسند فرمایا ہے اور مناسبت بھی اسی کی زیادہ اچھی معلوم ہوتی ہے واللہ اعلم۔ تو مطلب یہ ہوا کہ مثال چھوٹی سے چھوٹی ہو یا بڑی سے بڑی بیان کرنے سے اللہ تعالیٰ نہ رکتا ہے نہ جھجکتا ہے۔ لفظ ما یہاں پر کمی کے معنی بتانے کے لئے ہے اور بعوضۃ کا زیربدلیت کی بنا پر عربی قاعدے کے مطابق ہے جو ادنیٰ سے ادنیٰ چیز پر صادق آ سکتا ہے یا “ما” نکرہ موصوفہ ہے اور “بعوضہ” صفت ہے ابن جریر “ما” کا موصولہ ہونا اور “بعوضہ” کا اسی اعراب سے معرب ہونا پسند فرماتے ہیں اور کلام عرب میں یہ بکثرت رائج ہے کہ وہ ما اور من کے صلہ کو انہی دونوں کا اعراف دیا کرتے ہیں اس لئے کہ کبھی یہ نکرہ ہوتے ہیں اور کبھی معرفہ جیسے حسان بن ثابت کے شعروں میں ہے۔

یکفی بنا فضلا علی من غیرنا

حب النبی محمدا یانا

ہمیں غیروں پر صرف یہی فضیلت کافی ہے کہ ہمارے دل جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے پر ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ “بعوضہ” منصوب ہو حذف جار کی بنا پر اور اس سے پہلے اور بین کا لفظ مقدر مانا جائے۔ کسائی اور قرا اسی کو پسند کرتے ہیں ضحاک اور ابراہیم بن عبلہ”بعوضہ” پڑھتے ہیں۔ ابن جنبی کہتے ہیں یہ “ما” کا صلہ ہو گا اور عائد حذف مانی جائے گی جیسے آیت(تمام علی الذی احسن میں فما فوقھا) کے دو معنی بیان کئے ہیں ایک تو یہ کہ اس سے بھی ہلکی اور ردی چیز۔ جیسے کسی شخص کی بخیلی کا ایک شخص ذکر کرے تو دوسرا کہتا ہے وہ اس سے بھی بڑھ کر ہے تو مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ اس سے بھی زیادہ گرا ہوا ہے۔ کسائی اور ابو عبیدہ یہی کہتے ہیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ اگر دنیا کی قدر اللہ کے نزدیک ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو کسی کافر کو ایک گھونٹ پانی بھی نہ پلاتا۔ دوسرے یہ معنی ہیں کہ اس سے زیادہ بڑی اس لئے کہ بھلا مچھر سے ہلکی اور چھوٹی چیز اور کیا ہو گی؟ قتادہ بن وعامہ کا یہی قول ہے۔ ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں۔ صحیح مسلم میں حدیث ہے کہ جس کسی مسلمان کو کانٹا چبھے یا اس سے زیادہ تو اس پر بھی اس کے درجے بڑھتے ہیں اور گناہ مٹتے ہیں اس حدیث میں بھی یہی لفظ فوقھا ہے تو مطلب یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ ان چھوٹی بڑی چیزوں کے پیدا کرنے سے شرماتا نہیں اور نہ رکتا ہے۔ اسی طرخ انہیں مثال کے طور پر بیان کرنے سے بھی اسے عار نہیں۔ ایک جگہ قرآن میں کہا گیا ہے کہ اے لوگو ایک مثال بیان کی جاتی ہے کان لگا کر سنو جنہیں اللہ کے سوا پکار سکتے ہو وہ سارے کے سارے جمع ہو جائیں تو بھی ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے بلکہ مکھی اگر ان سے کچھ چھین لے جائے تو یہ اس سے واپس نہیں لے سکتے۔ عابد اور معبود دونوں ہی بے حد کمزور ہیں۔ دوسری جگہ فرمایا ان لوگوں کی مثال جو اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو مددگار بناتے ہیں مکڑی کے جالے جیسی ہے جس کا گھر تمام گھروں سے زیادہ بودا اور کمزور ہے اور جگہ فرمایا اللہ تعالیٰ نے کلمہ طیبہ کی مثال پاک درخت سے دی جس کی جڑ مضبوط ہو اور جس کی شاخیں آسمان میں ہوں جو بحکم اللہ ہر وقت پھل دیتا ہو۔ ان مثالوں کو اللہ تعالیٰ لوگوں کے غورو تدبر کے لئے بیان فرماتا ہے اور ناپاک کلام کی مثال ناپاک درخت جیسی ہے جو زمین کے اوپر اوپر ہی ہو اور جڑیں مضبوط نہ ہوں اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو مضبوط بات کے ساتھ دنیا اور آخرت میں برقرار رکھتا ہے اور ظالموں کو گمراہ کرنا ہے اللہ جو چاہے کرے۔ دوسری جگہ فرمایا اللہ تعالیٰ اس مملوک غلام کی مثال پیش کرتا ہے جسے کسی چیز پر اختیار نہیں۔ اور جگہ فرمایا۔ دو شخصوں کی مثال اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے جن میں سے ایک تو گونگا اور بالکل گرا پڑا بے طاقت ہے جو اپنے آقا پر بوجھ ہے جہاں جائے برائی ہی لے کر آئے اور دوسرا وہ جو عدل و حق کا حکم کرے ، کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ دوسری جگہ ہے اللہ تعالیٰ تمہارے لئے خود تمہاری مثال بیان فرماتا ہے کیا تم اپنی چیزوں میں اپنے غلاموں کو بھی اپنا شریک اور برابر کا حصہ دار سمجھتے ہو؟ اور جگہ ارشاد ہے ان مثالوں کو ہم لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں اور انہیں (پوری طرح) صرف علم والے ہی سمجھتے ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی مثالیں قرآن پاک میں بیان ہوئی ہیں۔ بعض سلف صالحین فرماتے ہیں جب میں قرآن کی کسی مثال کو سنتا ہوں اور سمجھ نہیں سکتا تو مجھے رونا آتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ ان مثالوں کو صرف عالم ہی سمجھ سکتے ہیں۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں مثالیں خواہ چھوٹی ہوں خواہ بڑی ایماندار ان پر ایمان لاتے ہیں اور انہیں حق جانتے ہیں اور ان سے ہدایت پاتے ہیں۔ قتادہ کا قول ہے کہ وہ انہیں اللہ کا کلام سمجھتے ہیں۔ “انہ” کی ضمیر کا مرجع مثال ہے یعنی مومن اس مثال کو اللہ کی جانب سے اور حق سمجھتے ہیں اور کافر باتیں بناتے ہیں جیسے سورہ مدثر میں آیت(وما جعلنا اصحاب النار) الخ یعنی ہم نے آگ والے فرشتوں کی گنتی کو کفار کی آزمائش کا سبب بنایا ہے۔ اہل کتاب یقین کرتے ہیں اور ایماندار ایمان میں بڑھ جاتے ہیں۔ ان دونوں جماعتوں کو کوئی شک نہیں رہتا لیکن بیمار دل اور کفار کہہ اٹھتے ہیں کہ اس مثال سے کیا مراد؟ اسی طرح اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ یہاں بھی اسی ہدایت و ضلالت کو بیان کیا۔

ایک ہی مثال کے دو رد عمل کیوں؟

صحابہ کرام سے مروی ہے کہ اس سے گمراہ منافق ہوتے ہیں اور مومن راہ پاتے ہیں۔ گمراہ اپنی گمراہی میں بڑھ جاتے ہیں کیونکہ اس مثال کے درست اور صحیح ہونے کا علم ہونے کے باوجود اسے جھٹلاتے ہیں اور مومن اقرار کر کے ہدایت ایمان کو بڑھا لیتے ہیں۔ فاسقین سے مراد منافق ہیں۔ بعض نے کہا ہے کافر مراد ہیں جو پہچانتے ہیں اور انکار کرتے ہیں۔ حضرت سعد کہتے ہیں مراد خوارج ہیں۔ اگر اس قول کی سند حضرت سعد بن ابی وقاص تک صحیح ہو تو مطلب یہ ہو گا کہ یہ تفسیر معنوی ہے اس سے مراد خوارج نہیں ہیں بلکہ یہ ہے کہ یہ فرقہ بھی فاسقوں میں داخل ہے۔ جنہوں نے نہرو ان میں حضرت علی پر چڑھائی کی تھی تو یہ لوگ گو نزول آیت کے وقت موجود نہ تھے لیکن اپنے بد ترین وصف کی وجہ سے معناً فاسقوں میں داخل ہیں۔ انہیں خارجی اس لئے کہا گیا ہے کہ امام کی اطاعت سے نکل گئے تھے اور شریعت اسلام کی پابندی سے آزاد ہو گئے تھے۔ لغت میں فاسق کہتے ہیں اطاعت اور فرمانبرداری سے نکل جانے کو۔ جب چھلکا ہٹا کر خوشہ نکلتا ہے تو عرب کہتے ہیں فسقت چوہے کو بھی فویسقہ کہتے ہیں کیونکہ وہ اپنے بل سے نکل کر فساد کرتا ہے۔ صحیحین کی حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا پانچ جانور فاسق ہیں حرم میں اور حرم سے باہر کے قتل کر دئیے جائیں۔ کوا، چیل، بچھو، چوہا اور کالا کتا۔ پس لفظ فاسق کافر کو اور ہر نافرمان کو شامل ہے لیکن کافر فسق زیادہ سخت اور زیادہ برا ہے اور آیت میں مراد فاسق سے کافر ہے واللہ اعلم۔ اس کی بڑی دلیل یہ ہے کہ بعد میں ان کا وصف یہ بیان فرمایا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا عہد توڑتے ہیں۔ اس کے فرمان کاٹتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اور یہ سب اوصاف کفار کے ہیں۔ مومنوں کے اوصاف تو اس کے برخلاف ہوتے ہیں جیسے سورہ رعد میں بیان ہے کہ آیت(افمن یعلم) الخ کیا پس وہ شخص جو جانتا ہے کہ جو کچھ تیرے رب کی طرف سے تجھ پر اترا وہ حق ہے کیا اس شخص جیسا ہو سکتا ہے جو اندھا ہو؟ نصیحت تو صرف عقلمند حاصل کرتے ہیں جو اللہ کے وعدوں کو پورا کرتے ہیں اور میثاق نہیں توڑتے اور اللہ تعالیٰ نے جن کاموں کے جوڑنے کا حکم دیا ہے انہیں جوڑتے ہیں اپنے رب سے ڈرتے رہتے ہیں اور حساب کی برائی سے کانپتے رہتے ہیں۔ آگے چل کر فرمایا۔ جو لوگ اللہ کے عہد کو اس کی مضبوطی کے بعد توڑ دیں اور جس چیز کو ملانے کا اللہ کا حکم ہو وہ اسے نہ ملائیں اور زمین میں فساد پھیلائیں ان کے لئے لعنتیں ہیں اور ان کے لئے برا گھر ہے۔ یہاں عہد سے مراد وہ وصیت ہے جو اللہ نے بندوں کو کی تھی جو اس کے تمام احکام بجا لانے اور تمام نافرمانیوں سے بچنے پر مشتمل ہے۔ اس کا توڑ دینا اس پر عمل نہ کرنا ہے۔ بعض کہتے ہیں عہد توڑنے والے اہل کتاب کے کافر منافق اور ہیں اور عہد وہ ہے جو ان سے تورات میں لیا گیا تھا کہ وہ اس کی تمام باتوں پر عمل کریں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع کریں جب بھی آپ تشریف لے آئیں آپ کی نبوت کا اقرار کریں اور جو کچھ آپ اللہ کی جانب سے لے کر آئیں اس کی تصدیق کریں اور اس عہد کو توڑ دینا یہ ہے کہ انہوں نے آپ کی نبوت کا علم ہونے کے باوجود الٹا اطاعت سے انکار کر دیا اور باوجود عہد کا علم ہونے کے اسے چھپایا دنیاوی مصلحتوں کی بنا پر اس کا الٹ کیا۔ امام ابن جریر اس قول کو پسند کرتے ہیں اور مقاتل بن حیان کا بھی یہی قول ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد کوئی خاص جماعت نہیں بلکہ شک و کفر و نفاق والے سب کے سب مراد ہیں۔ عہد سے مراد توحید اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت کا اقرار کرانا ہے جن کی دلیل میں کھلی ہوئی نشانیاں اور بڑے بڑے معجزے موجود ہیں اور اس عہد کو توڑ دینا توحید و سنت سے منہ موڑنا اور انکار کرنا ہے یہ قول اچھا ہے زمحشری کا میلان بھی اسی طرح ہے وہ کہتے ہیں عہد سے مراد اللہ تعالیٰ کی توحید ماننے کا اقرار ہے جو فطرت انسان میں داخل ہونے کے علاوہ روز میثاق بھی منوایا گیا ہے۔ فرمایا گیا تھا کہ آیت(الست بربکم) کیا میں تمہارا رب ہوں؟ تو سب نے جواب دیا تھا بلیٰ بیشک تو ہمارا رب ہے۔ پھر وہ کتابیں دی گئیں ان میں بھی اقرار کرایا گیا جیسے فرمایا آیت(واوفوا بعھدی) الخ میرے عہد کو نبھاؤ میں بھی اپنے وعدے پورے کروں گا۔ بعض کہتے ہیں وہ عہد مراد ہے جو روحوں سے لیا گیا تھا جب وہ حضرت آدم علیہ السلام کی پیٹھ سے نکالی گئی تھیں جیسے فرماتا ہے آیت(واذا خذ ربک) الخ جب تیرے رب نے اولاد آدم سے وعدہ لیا کہ میں ہی تمہارا رب ہوں اور ان سب نے اقرار کیا۔ اور اس کا توڑنا اس سے انحراف ہے۔ یہ تمام اقوال تفسیر ابن جریر میں منقول ہیں۔ ابو العالیہ فرماتے ہیں عہد اللہ کو توڑنا منافقوں کا کام ہے جن میں یہ چھ خصلتیں ہوتی ہیں۔ بات کرنے میں جھوٹ بولنا، وعدہ خلافی کرنا، امانت میں خیانت کرنا، اللہ کے عہد کو مضبوطی کے بعد توڑ دینا، اللہ تعالیٰ نے جن رشتوں کے ملانے کا حکم دیا ہے ، انہیں نہ ملانا، زمین میں فساد پھیلانا۔ یہ چھ خصلتیں ان کی اس وقت ظاہر ہوتی ہیں جب کہ ان کا غلبہ ہو اور جب وہ مغلوب ہوتے ہیں تو تین اگلے کام کرتے ہیں۔ سدی فرماتے ہیں قرآن کے احکام کو پڑھنا جاننا سچ کہنا پھر نہ ماننا بھی عہد کو توڑنا تھا اللہ تعالیٰ نے جن کاموں کے جوڑنے کا حکم دیا ہے ان سے مراد صلہ رحمی کرنا، قرابت کے حقوق ادا کرنا وغیرہ ہے جیسے اور جگہ قرآن مجید میں ہے آیت(فھل عسیتم ان تولیتم ان تفسدوا فی الارض وتقطوا ارحامکم) قریب ہے کہ تم اگر لوٹو تو زمین میں فساد کرو اور رشتے ناتے توڑ دو۔ ابن جریر اسی کو ترجیح دیتے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آیت عام ہے یعنی جسے ملانے اور ادا کرنے کا حکم دیا تھا انہوں نے اسے توڑا اور حکم عدولی کی۔ خاسرون سے مراد آخرت میں نقصان اٹھانے والے ہیں٠ جیسے فرمان باری ہے۔ آیت(اولئک لھم اللغنۃ ولھم سوء الدار) ان لوگوں کے لئے لعنت ہے اور ان کے لئے برا گھر ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ اہل اسلام کے سوا جہاں دوسروں کے لئے یہ لفظ آیا ہے وہاں مراد گنہگار ہیں۔ خاسرون جمع ہے خاسر کی۔ چونکہ ان لوگوں نے نفسیاتی خواہشوں اور دنیوی لذتوں میں پڑ کر رحمت اللہ سے علیحدگی کر لی اس لئے انہیں نقصان یافتہ کہا گیا جیسے وہ شخص جسے اپنی تجارت میں گھاٹا آئے اسی طرح یہ کافرو منافق ہیں یعنی قیامت والے دن جب رحم و کرم کی بہت ہی حاجت ہو گی اس دن رحمت الٰہی سے محروم رہ جائیں گے۔
 

Zia_Hayderi

TM Star
Mar 30, 2007
2,468
1,028
1,213

۲۸

ٹھوس دلائل پر مبنی دعوت

اس بات کا ثبوت دیتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ موجود ہے وہ قدرتوں والا ہے۔ وہی پیدا کرنے والا اور اختیار والا ہے۔ اس آیت میں فرمایا تم اللہ تعالیٰ کے وجود سے انکار کیسے کر سکتے ہو؟ یا اس کے ساتھ دوسرے کو عبادت میں شریک کیسے کر سکتے ہو؟ جبکہ تمہیں عدم سے وجود میں لانے والا ایک وہی ہے۔ دوسری جگہ فرمایا کیا یہ بغیر کسی چیز کے پیدا کئے گئے ؟ یا یہ خود پیدا کرنے والے ہیں؟ انہوں نے زمین و آسمان بھی پیدا کیا ہے ؟ ہرگز نہیں بلکہ یہ بے یقین لوگ ہیں۔ اور جگہ ارشاد ہوتا ہے آیت(ھل اتی علی الانسان حین من الدھر لم یکن شیأ مذکورا) یقیناً انسان پر وہ زمانہ بھی آیا ہے جس وقت یہ قابل ذکر چیز ہی نہ تھا۔ اور بھی اس طرح کی بہت سی آیتیں ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کفار جو کہیں گے آیت(ربنا امتنا اتنتین) الخ اے اللہ دو دفعہ تو نے ہمیں مارا اور دو دفعہ جلایا ہمیں اپنے گناہوں کا اقرار ہے۔ اس سے مراد یہی ہے جو اس آیت(وکنتم امواتا) الخ میں ہے مطلب یہ ہے کہ تم اپنے باپوں کی پیٹھ میں مردہ تھے یعنی کچھ بھی نہ تھے۔ اس نے تمہیں زندہ کیا یعنی پیدا کیا پھر تمہیں مارے گا یعنی موت ایک روز ضرور آئے گی پھر تمہیں قبروں سے اٹھائے گا۔ پس ایک حالت مردہ پن کی دنیا میں آنے سے پہلے پھر دوسری دنیا میں مرنے اور قبروں کی طرف جانے کی پھر قیامت کے روز اٹھ کھڑے ہونے کی۔ دو زندگیاں اور دو موتیں۔ ابو صالح فرماتے ہیں کہ قبر میں انسان کو زندہ کر دیا جاتا ہے۔ عبدالرحمن بن زید کا بیان ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی پیٹھ میں انہیں پیدا کیا پھر ان سے عہد و پیمان لے کر بے جان کر دیا پھر ماں کے پیٹ میں انہیں پیدا کیا پھر دنیوی موت ان پر آئی پھر قیامت والے دن انہیں زندہ کرے گا لیکن یہ قول غریب ہے۔ پہلا قول ہی درست ہے۔ ابن مسعود، ابن عباس اور تابعین کی ایک جماعت کا یہی قول ہے۔ قرآن میں اور جگہ ہے آیت(قل اللہ یحییکم ثم یمیتکم ثم یجمعکم الی یوم القیمۃ) الخ اللہ ہی تمہیں پیدا کرتا ہے پھر مارتا ہے پھر تمہیں قیامت کے دن جمع کرے گا۔ ان پتھروں اور تصویروں کو جنہیں مشرکین پوجتے تھے قرآن نے مردہ کہا۔ فرمایا اموات غیر احیاء وہ سب مردہ ہیں زندہ نہیں۔ زمین کے بارے میں فرمایا آیت(وایتہ لھم الارض المیتۃ) الخ ان کے لئے مردہ زمین بھی ہماری صداقت کی نشانی ہے جسے ہم زندہ کرتے ہیں اور اس سے دانے نکالتے ہیں جسے یہ کھاتے ہیں۔”

۲۹

کچھ اور دلائل

اوپر کی آیات میں ان دلائل قدرت کا بیان تھا جو خود انسان کے اندر ہیں اب اس مبارک آیت میں ان دلائل کا بیان ہو رہا ہے جو روز مرہ آنکھوں کے سامنے ہیں۔ “استوا” یہاں قصد کرنے اور متوجہ ہونے کے معنی میں ہے اس لئے کہ اس کا صلہ “الی” ہے “سوھن” کے معنی درست کرنے اور ساتوں آسمان بنانے کے ہیں سماء اسم جنس ہے۔ پھر بیان فرمایا کہ اس کا علم محیط کل ہے جیسے ارشاد آیت(الا یعلم من خلق) وہ بے علم ہو کیسے سکتا ہے جو خالق ہو؟ سورہ سجدہ کی آیت(ائنکم لتکفرون) گویا اس آیت کی تفصیل ہے جس میں فرمایا ہے کیا تم اس اللہ کے ساتھ کفر کرتے ہو؟ جس نے زمین کو صرف دو دن میں پیدا کیا تم اس کے لئے شریک ٹھہراتے ہو؟ جو رب العالمین ہے جس نے زمین میں مضبوط پہاڑ اوپر سے گاڑ دئیے جس نے زمین میں برکتیں اور روزیاں رکھیں اور چار دن میں زمین کی سب چیزیں درست کر دیں۔ جس میں دریافت کرنے والوں کی تشفی ہے پھر آسمانوں کی طرف متوجہ ہو کر جو دھویں کی شکل میں تھے فرمایا کہ اے زمینو اور آسمانو خوشی یا ناخوشی سے آؤ تو دونوں نے کہا باری تعالیٰ ہم تو برضا و خوشی حاضر ہیں۔ دو دن میں ان ساتوں آسمانوں کو پورا کر دیا اور ہر آسمان میں اس کا کام بانٹ دیا اور دنیا کے آسمان کو ستاروں کے ساتھ مزین کر دیا اور انہیں (شیطانوں سے ) بچاؤں کا سبب بنایا۔ یہ ہے اندازہ اس اللہ کا جو بہت بڑا غالب اور بہت بڑے علم والا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ پہلے زمین پیدا کی پھر ساتوں آسمان۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر عمارت کا یہی قاعدہ ہے کہ پہلے نیچے کا حصہ بنایا جائے پھر اوپر کا مفسرین نے بھی اس کی تصریح کی ہے جس کا بیان بھی ابھی آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ لیکن یہ سمجھ لینا چاہیے کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے۔آیت(ءانتم اھد خلقا ام السماء) الخ تمہاری پیدائش مشکل ہے یا آسمانوں کی؟ اللہ تعالیٰ نے اس کے خلا کو بلند کر کے اسے ٹھیک ٹھاک کیا اور ان میں سے رات دن پیدا کئے پھر اس کے بعد زمین پھیلائی اس سے پانی اور چارہ نکالا اور پہاڑوں کو گاڑا جو سب تمہارے اور تمہارے جانوروں کے کام کی چیزیں ہیں۔ اس آیت میں یہ فرمایا ہے کہ زمین کی پیدائش آسمان کے بعد ہے تو بعض بزرگوں نے تو فرمایا ہے کہ مندرجہ بالا آیت میں “ثم” صرف عطف خبر کے لئے ہے عطف فعل کے لئے نہیں یعنی یہ مطلب نہیں کہ زمین کے بعد آسمان کی پیدائش شروع کی بلکہ صرف خبر دینا مقصود ہے کہ آسمانوں کو بھی پیدا کیا اور زمینوں کو بھی۔ عرب شاعروں کے اشعار میں یہ موجود ہے کہ کہیں “ثم” صرف خبر کا خبر پر عطف ڈالنے کے لئے ہوتا ہے تقدیم تاخیر مراد نہیں ہوتی۔ اور بعض بزرگوں نے فرمایا ہے کہ آیت “ءانتم” میں آسمانوں کی پیدائش کے بعد زمین کا پھیلانا اور بچھانا وغیرہ بیان ہوا ہے نہ کہ پیدا کرنا۔ تو ٹھیک یہ ہے کہ پہلے زمین کو پیدا کیا پھر آسمان کو پھر زمین کو ٹھیک ٹھاک کیا اس طرح دونوں آیتیں ایک دوسرے کے مخالف نہ رہیں گی۔ اس عیب سے اللہ کا کلام بالکل محفوظ ہے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہی معنی بیان فرمائے ہیں (یعنی پہلے زمین کی درستی وغیرہ یہ بعد کی چیز ہے ) حضرت ابن مسعود حضرت ابن عباس اور دیگر صحابہ سے مروی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا اور کسی چیز کو پیدا نہیں کیا تھا جب اور مخلوق کو پیدا کرنا چاہا تو پانی سے دھواں بلند کیا وہ اونچا چڑھا اور اس سے آسمان بنائے پھر پانی خشک ہو گیا اور اس کی زمین بنائی پھر اس کو الگ الگ کر کے سات زمینیں بنائیں اتوار اور پیر کے دو دن میں یہ ساتوں زمینیں بن گئیں۔ زمین مچھلی پر ہے اور مچھلی وہ ہے جس کا ذکر قرآن مجید کی اس آیت میں ہے آیت(ن والقلم مچھلی پانی میں ہے اور پانی صفاۃ پر ہے اور صفاۃ فرشتے پر اور فرشتے پتھر پر زمین کانپنے لگی تو اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کو گاڑ دیا اور وہ ٹھہر گئی یہی معنی میں اللہ تعالیٰ کے فرمان آیت(وجعلنا فی الارض رواسی ان تمیدبھم) الخ زمین نہ ہلے اس لئے ہم نے اس میں پہاڑ جما دئیے ہیں۔ پہاڑ زمین کی پیداوار درخت وغیرہ زمین کی کل چیزیں منگل اور بد ھ کے دو دنوں میں پیدا کیں اسی کا بیان آیت(قل ائنکم لتکفرون) والی آیت میں ہے پھر آسمان کی طرف توجہ فرمائی جو دھواں تھا آسمان بنایا پھر اسی میں ساتھ آسمان بنائے جمعرات اور جمعہ کے دو دنوں میں جمعہ کے دن کو اس لئے جمعہ کہا جاتا ہے کہ اس میں زمین و آسمان کی پیدائش جمع ہو گئی ہر آسمان میں اس نے فرشتوں کو پیدا کیا اور ان ان چیزوں کو جن کا علم اس کے سوا کسی کو نہیں کہ دنیا آسمان کو ستاروں کے ساتھ زینت دی اور انہیں شیطان سے حفاظت کا سبب بنایا ان تمام چیزوں کو پیدا کر کے پروردگار نے عرش عظیم پر قرار پکڑا جسے فرماتا ہے۔ آیت(خلق السموت والارض فی ستتہ ایام ثم استوی علی العرش) یعنی چھ دن میں آسمانوں اور زمین کو پیدا کر کے پھر عرش پر مستوی ہو گیا اور جگہ فرمایا آیت(کانتا رتقا) الخ یعنی یہ دونوں دھواں سے تھے ہم نے انہیں پھاڑا اور پانی سے ہر چیز کو زندگی دی (تفسیر سدی) یہ موقوف قول جس میں کئی قسم کا احتمال ہے بہ ظاہراً ایسی اہم بات میں حجت تامہ نہیں ہو سکتا۔ واللہ اعلم) ابن جریر میں ہے حضرت عبد اللہ بن سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اتوار سے مخلوق کی پیدائش شروع ہوئی۔ دو دن میں زمینیں پیدا ہوئیں دو دن میں ان میں موجود تمام چیزیں پیدا کیں اور دو دن میں آسمانوں کو پیدا کیا جمعہ کے دن آخری وقت ان کی پیدائش ختم ہوئی اور اسی وقت حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور اسی وقت میں قیامت قائم ہو گی۔ مجاہد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو آسمان سے پہلے پیدا کیا اس سے جو دھواں اوپر چڑھا اس کے آسمان بنائے جو ایک پر ایک اس طرح سات ہیں اور زمینیں ایک نیچے ایک اوپر اس طرح سات ہیں۔ اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ زمین کی پیدائش آسمانوں سے پہلے ہے جیسے سورہ سجدہ کی آیت میں ہے۔ علماء کی اس پر متفق ہیں۔ صرف قتادہ فرماتے ہیں کہ آسمان زمین سے پہلے پیدا ہوئے ہیں۔ قرطبی اس میں توقف کرتے ہیں آیت(والنازعات) کی آیت کی وجہ سے یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہاں آسمان کی پیدائش کا ذکر زمین سے پہلے ہے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت ابن عباس سے جب یہ سوال ہوا تو آپ نے جواب دیا کہ زمین پیدا تو آسمانوں سے پہلے کی گئی ہے لیکن بعد میں پھیلائی گئی ہے۔ یہی جواب اگلے پچھلے علماء کا ہے۔ سورہ نازعات کی تفسیر میں بھی اس کا بیان آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ۔ حاصل امر یہ ہے کہ زمین کا پھیلانا اور بچھانا بعد میں ہے اور دحھا کا لفظ قرآن میں ہے اور اس کے بعد جو پانی چارہ پہاڑ وغیرہ کا ذکر ہے یہ گویا اس لفظ کی تشریح ہے جن جن چیزوں کی نشوونما کی قوت اس زمین میں رکھی تھی ان سب کو ظاہر کر دیا اور زمین کی پیداوار طرح طرح کی مختلف شکلوں اور مختلف قسموں میں نکل آئی۔ اسی طرح آسمان میں بھی ٹھہرے رہنے والے چلنے والے ستارے وغیرہ بنائے۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔ صحیح مسلم اور نسائی میں حدیث میں ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا مٹی کو اللہ تعالیٰ نے ہفتہ والے دن پیدا کیا، پہاڑوں کو اتوار کے دن، درختوں کو پیر کے دن، برائیوں کو منگل کے دن نور کو ، بد ھ کے دن، جانوروں کو جمعرات کے دن، آدم کو جمعہ کے دن اور عصر کے بعد جمعہ کی آخری ساعت میں عصر کے بعد سے رات تک۔ یہ حدیث غرائب میں سے ہے۔ امام ابن مدینی امام بخاری وغیرہ نے اس پر بحث کی ہے اور فرمایا ہے کہ کعب کا اپنا قول اور حضرت ابو ہریرہ نے کعب کا یہ قول سنا ہے اور بعض راویوں نے اسے غلطی سے مرفوع حدیث قرار دے لیا ہے۔ امام بیہقی کہتے ہیں۔
 

Zia_Hayderi

TM Star
Mar 30, 2007
2,468
1,028
1,213
۳۰

خلافت آدم کا مفہوم

اللہ تعالیٰ کے اس احسان کو دیکھو کہ اس نے آدم کو پیدا کرنے سے پہلے فرشتوں میں ان کا ذکر کیا جس کا بیان اس آیت میں ہے۔ فرماتا ہے کہ اے نبی تم یاد کرو اور اپنی امت کو یہ خبر پہنچاؤ۔ ابو عبیدہ تو کہتے ہیں کہ لفظ “اذ” یہاں زائد ہے لیکن ابن جریر وغیرہ مفسرین اس کی تردید کرتے ہیں خلیفہ سے مراد یہ ہے کہ ان کے یکے بعد دیگرے بعض کے بعض جانشین ہوں گے اور ایک زمانہ کے بعد دوسری زمانہ میں یونہی صدیوں تک یہ سلسلہ رہے گا۔ جیسے اور جگہ ارشاد ہے۔ آیت(ھوالذی جعلکم خلاءف فی الارض) دوسری جگہ فرمایا آیت ( ویجعلکم خلفاء الارض) یعنی تمہیں اس نے زمین کا خلیفہ بنا دیا اور ارشاد ہے کہ ان کے بعد ان کے خلیفہ یعنی جانشین برے لوگ ہوئے۔ ایک شاذ قرات میں خلیفہ بھی ہے۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ خلیفہ سے مراد صرف حضرت آدم ہیں لیکن اس بارے میں تفسیر رازی کے مفسر نے اختلاف کو ذکر کیا ہے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مطلب نہیں۔ اس کی ایک دلیل تو فرشتوں کا یہ قول ہے کہ وہ زمین میں فساد کریں گے اور خون بہائیں گے تو ظاہر ہے کہ انہوں نے اولاد آدم کی نسبت یہ فرمایا تھا نہ کہ خاص حضرت آدم کی نسبت۔ یہ اور بات ہے کہ اس کا علم فرشتوں کو کیونکر ہوا؟ یا تو کسی خاص ذریعہ سے انہیں یہ معلوم ہوا یا بشری طبیعت کے اقتضا کو دیکھ کر انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہو گا کیونکہ یہ فرما دیا گیا تھا کہ اس کی پیدائش مٹی سے ہو گی یا لفظ خلیفہ کے مفہوم سے انہوں نے سمجھ لیا ہو گا کہ وہ فیصلے کرنے والا مظالم کی روک تھام کرنے والا اور حرام کاموں اور گناہوں کی باتوں سے روکنے والا ہو گا یا انہوں نے پہلی مخلوق کو دیکھا تھا اسی بنا پر اسے بھی قیاس کیا ہو گا۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ فرشتوں کی یہ عرض بطور اعتراض نہ تھی نہ بنی آدم سے حسد کے طور پر تھی۔ جن لوگوں کا یہ خیال ہے وہ قطعی غلطی کر رہے ہیں۔ فرشتوں کی شان میں قرآن فرماتا ہے آیت(لا یسبقونہ بالقول) یعنی جس بات کے دریافت کرنے کی انہیں اجازت نہ ہو اس میں وہ لب نہیں ہلاتے (اور یہ بھی ظاہر ہے کہ فرشتوں کی طبیعت حسد سے پاک ہے ) بلکہ صحیح مطلب یہ ہے کہ یہ سوال صرف اس حکمت معلوم کرنے کے لئے اور اس راز کے ظاہر کرانے کے لئے تھا جو ان کی سمجھ سے بالاتر تھا۔ یہ تو جانتے تھے کہ اس مخلوق میں فسادی لوگ بھی ہوں گے تو اب با ادب سوال کیا کہ پروردگار ایسی مخلوق کے پیدا کرنے میں کونسی حکمت ہے ؟ اگر عبادت مقصود ہے تو عبادت تو ہم کرتے ہی ہیں، تسبیح و تقدیس و تحمید ہر وقت ہماری زبانوں پر ہے اور پھر فساد وغیرہ سے پاک ہیں تو پھر اور مخلوق جن میں فسادی اور خونی بھی ہوں گے کس مصلحت پر پیدا کی جا رہی ہے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے ان کے سوال کا جواب دیا کہ باوجود اس کے فساد کے اسے جن مصلحتوں اور حکمتوں کی بنا پر میں پیدا کر رہا ہوں انہیں میں ہی جانتا ہوں تمہارا علم ان تک حکمتوں نہیں پہنچ سکتا میں جانتا ہوں کہ ان میں انبیاء اور رسول ہوں گے ان میں صدیق اور شہید ہوں گے۔ ان میں عابد، زاہد، اولیاء ، ابرار، نیکوکار، مقرب بارگاہ، علماء، صلحاء، متقی، پرہیزگار، خوف الٰہی، حب باری تعالیٰ رکھنے والے بھی ہوں گے۔ میرے احکام کی بسر و چشم تعمیل کرنے والے ، میرے نبیوں کے ارشاد پر لبیک پکارنے والے بھی ہوں گے۔ صحیحین کی حدیث میں ہے کہ دن کے فرشتے صبح صادق کے وقت آتے ہیں اور عصر کو چلے جاتے ہیں۔ تب رات کے فرشتے آتے ہیں اور صبح کو جاتے ہیں۔ آنے والے جب آتے ہیں تب بھی اور جب جاتے ہیں تب بھی صبح کی اور عصر کی نماز میں لوگوں کو پاتے ہیں اور دربار الٰہی میں پروردگار کے سوال کے جواب میں دونوں جماعتیں یہی کہتی ہیں کہ گئے تو نماز میں پایا اور آئے تو نماز میں چھوڑ کر آئے یہی وہ مصلحت اللہ ہے جسے فرشتوں کو بتایا گیا کہ میں جانتا ہوں اور تم نہیں جانتے۔ ان فرشتوں کو اسی چیز کو دیکھنے کے لئے بھیجا جاتا ہے اور دن کے اعمال رات سے پہلے اور رات کے دن سے پہلے الہ العالمین کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں۔ غرض تفصیلی حکمت جو پیدائش انسان میں تھی اس کی نسبت فرمایا کہ یہ میرے مخصوص علم میں ہے۔ جو تمہیں معلوم نہیں بعض کہتے ہیں یہ جواب فرشتوں کے اس قول کا ہے کہ ہم تیری تسبیح وغیرہ کرتے رہتے ہیں تو انہیں فرمایا گیا کہ میں ہی جانتا ہوں تم جیسا سب کو یکساں سمجھتے ہو ایسا نہیں بلکہ تم میں ایک ابلیس بھی ہے۔ ایک تیسرا قول یہ ہے کہ فرشتوں کا یہ سب کہنا دراصل یہ مطلب رکھتا تھا کہ ہمیں زمین میں بسایا جائے تو جواباً کہا گیا کہ تمہاری آسمانوں میں رہنے کی مصلحت میں ہی جانتا ہوں اور مجھے علم ہے کہ تمہارے لائق جگہ یہی ہے واللہ اعلم۔ حسن قتادہ وغیرہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو خبر دی۔ سدی کہتے ہیں مشورہ لیا۔ لیکن اس کے معنی بھی خبر دینے کے ہو سکتے ہیں۔ اگر نہ ہوں تو پھر یہ بات بے وزن ہو جاتی ہے۔ ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جب مکہ سے زمین پھیلائی اور بچھائی گئی تو بیت اللہ شریف کا طواف سب سے پہلے فرشتوں نے کیا اور زمین میں خلیفہ بنانے سے مراد مکہ میں خلیفہ بنانا ہے۔ یہ حدیث مرسل ہے پھر اس میں ضعف ہے اور مدرج ہے یعنی زمین سے مراد مکہ لینا راوی کا اپنا خیال ہے واللہ اعلم۔ بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ زمین سے ساری زمین مراد ہے۔ فرشتوں نے جب یہ سنا تو پوچھا تھا کہ وہ خلیفہ کیا ہو گا؟ اور جواب میں کہا گیا تھا کہ اس کی اولاد میں ایسے لوگ بھی ہوں گے جو زمین میں فساد کریں، حسد و بغض کریں، قتل و خون کریں ان میں وہ عدل و انصاف کرے گا اور میرے احکام جاری کرے گا تو اس سے مراد حضرت آدم ہیں۔ جو ان کے قائم مقام اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور مخلوق میں عدل و انصاف کرنے کی بنا پر فساد پھیلانے اور خون بہانے والے خلیفہ نہیں۔ لیکن یہ یاد رہے کہ یہاں مراد خلافت سے ایک زمانہ جو دوسرے زمانہ کے بعد آتا ہے۔ خلیفہ فعیلہ کے وزن پر ہے۔ جب ایک کے بعد دوسرا اس کے قائم مقام ہو تو عرب کہتے ہیں۔ خلف فلان فلانا فلاں شخص کا خلیفہ ہوا جیسے قرآن میں ہے کہ ہم ان کے بعد تمہیں زمین کا خلیفہ بنا کر دیکھتے ہیں کہ تم کیسے عمل کرتے ہو اور اسی لئے سلطان اعظم کو خلیفہ کہتے ہیں اس لئے کہ وہ اگلے بادشاہ کا جانشین ہوتا ہے محمد بن اسحٰق کہتے ہیں مراد یہ ہے کہ زمین کا ساکن اس کی آبادی کرنے والا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں پہلے زمین میں جنات بستے تھے۔ انہوں نے اس میں فساد کیا اور خون بہایا اور قتل و غارت کیا ابلیس کو بھیجا گیا اس نے اور اس کے ساتھیوں نے انہیں مار مار کر جزیروں اور پہاڑوں میں بھگا دیا حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کر کے زمین میں بسایا تو گویا یہ ان پہلے والوں کے خلیفہ اور جانشین ہوئے۔ پس فرشتوں کے قول سے مراد اولاد آدم ہیں جس وقت ان سے کہا گیا کہ میں زمین کو اور اس میں بسنے والی مخلوق کو پیدا کرنا چاہتا ہوں۔ اس وقت زمین تھی لیکن اس میں آبادی نہ تھی۔ بعض صحابہ سے یہ بھی مروی ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں معلوم کروا دیا تھا کہ اولاد آدم ایسے ایسے کام کرے گی تو انہوں نے یہ پوچھا اور یہ بھی مروی ہے کہ جنات کے فساد پر انہوں نے بنی آدم کے فساد کو قیاس کر کے یہ سوال کیا۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آدم علیہ السلام سے دو ہزار سال پہلے سے جنات زمین میں آباد تھے۔ ابو العالیہ فرماتے ہیں فرشتے بد ھ کے دن پیدا ہوئے اور جنات کو جمعرات کے دن پیدا کیا اور جمعہ کے دن آدم علیہ السلام پیدا ہوئے حضرت حسن اور حضرت قتادہ کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں خبر دی تھی کہ ابن آدم ایسا ایسا کریں گے اس بنا پر انہوں نے سوال کیا ابو جعفر محمد بن علی فرماتے ہیں سجل نامی ایک فرشتہ ہے جس کے ساتھی ہاروت ماروت تھے۔ اسے ہر دن تین مرتبہ لوح محفوظ پر نظر ڈالنے کی اجازت تھی۔ ایک مرتبہ اس نے آدم علیہ السلام کی پپدائش اور دیگر امور کا جب مطالعہ کیا تو چپکے سے اپنے ان دونوں ساتھیوں کو بھی اطلاع کر دی۔ اب جو اللہ تعالیٰ نے اپنا ارادہ ظاہر فرمایا تو ان دونوں نے یہ سوال کیا لیکن یہ روایت غریب ہے اور صبح مان لینے پر بھی ممکن ہے کہ ابو جعفر نے اسے اہل کتاب یہود و نصاریٰ سے اخذ کیا ہو۔ بہر صورت یہ ایک واہی تواہی روایت ہے اور قابل تردید ہے۔ واللہ اعلم۔ پھر اس روایت میں ہے کہ دو فرشتوں نے یہ سوال کیا۔ یہ قرآن کی روانی عبارت کے بھی خلاف ہے۔ یہ بھی روایت مروی ہے کہ یہ کہنے والے فرشتے دس ہزار تھے اور وہ سب کے سب جلا دئیے گئے۔ یہ بھی بنی اسرائیلی روایت ہے اور بہت ہی غریب ہے امام ابن جریر فرماتے ہیں اس سوال کی انہیں اجازت دی گئی تھی اور یہ بھی معلوم کرا دیا گیا تھا کہ یہ مخلوق نافرمان بھی ہو گی تو انہوں نے نہایت تعجب کے ساتھ اللہ کی مصلحت معلوم کرنے کے لئے یہ سوال کیا نہ کہ کوئی مشورہ دیا یا انکار کیا یا اعتراض کیا ہو۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جب آدم علیہ السلام کی پیدائش شروع ہوئی تو فرشتوں نے کہا ناممکن ہے کہ کوئی مخلوق ہم سے زیادہ بزرگ اور عالم ہو تو اس پر یہ امتحان اللہ کی طرف سے آیا اور کوئی مخلوق ہم سے زیادہ بزرگ اور عالم ہو تو اس پر یہ امتحان اللہ کی طرف سے آیا اور کوئی مخلوق امتحان سے نہیں چھوٹی۔ زمین اور آسمان پر بھی امتحان آیا تھا اور انہوں نے سرخم کر کے اطاعت الٰہیہ کے لئے آمادگی ظاہر کی فرشتوں کی تسبیح و تقدیس سے مراد اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرنا نماز پڑھنا بے ادبی سے بچنا، بڑائی اور عظمت کرنا ہے۔ فرماں برداری کرنا سبوح قدوس وغیرہ پڑھنا ہے۔ قدس کے معنی پاک کے ہیں۔ پاک زمین کو مقدس کہتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال ہوتا ہے کہ کونسا کلام افضل ہے جواب دیتے ہیں وہ جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کے لئے پسند فرمایا سبحان اللہ وبحمدہ (صحیح مسلم) حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے معراج والی رات آسمانوں پر فرشتوں کی یہ تسبیح سنی سبحان العلی الاعلی سبحانہ

خلیفہ کے فرائض اور خلافت کی نوعیت

امام قرطبی وغیرہ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ خلیفہ کا مقرر کرنا واجب ہے تاکہ وہ لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کرے ، ان کے جھگڑے چکائے ، مظلوم کا بدلہ ظالم سے لے ، حدیں قائم کرے ، برائیوں کے مرتکب لوگوں کو ڈانٹے ڈپٹے وغیرہ، وہ بڑے بڑے کام جو بغیر امام کے انجام نہیں پا سکتے۔ چونکہ یہ کام واجب ہیں اور یہ بغیر امام کے پورے نہیں ہو سکتے اور جس چیز کے بغیر واجب پورا نہ ہو وہ بھی واجب ہو جاتی ہے لہٰذا خلیفہ کا مقرر کرنا واجب ثابت ہوا۔ امامت یا تو قرآن و حدیث کے ظاہری لفظوں سے ملے گی جیسے کہ اہل سنت کی ایک جماعت کا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسبت خیال ہے کہ ان کا نام حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے خلافت کے لئے لیا تھا یا قرآن و حدیث سے اس کی جانب اشارہ ہو۔ جیسے اہل سنت ہی کی دوسری جماعت کا خلیفہ اول کی بابت یہ خیال ہے کہ اشارۃً ان کا ذکر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے خلافت کے لئے کیا۔ یا ایک خلیفہ اپنے بعد دوسرے کو نامزد کر جائے جیسے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا جانشین مقرر کر دیا تھا۔ یا وہ صالح لوگوں کی ایک کمیٹی بنا کر انتخاب کا کام ان کے سپرد کر جائے جیسے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا تھا یا اہل حل و عقد (یعنی با اثر سرداران لشکر علماء و صلحاء وغیرہ) اس کی بیعت پر اجماع کر لیں یا ان میں سے کوئی اس کی بیعت کر لے تو جمہور کے نزدیک اس کا لازم پکڑنا واجب ہو جائے گا۔ امام الحرمین نے اس پر اجماع نقل کیا ہے واللہ العلم۔ یا کوئی شخص لوگوں کو بزور و جبر اپنی ماتحتی پر بے بس کر دے تو بھی واجب ہو جاتا ہے کہ اس کے ہاتھ پر بیعت کر لیں تاکہ پھوٹ اور اختلاف نہ پھیلے۔ امام شافعی نے صاف لفظوں میں فیصلہ کیا ہے۔ اس بیعت کے وقت گواہوں کی موجودگی کے واجب ہونے میں اختلافات ہے بعض تو کہتے ہیں یہ شرط نہیں، بعض کہتے ہیں شرط ہے اور دو گواہ کافی ہیں۔ جبائی کہتا ہے بیعت کرنے والے اور جس کے ہاتھ پر بیعت ہو رہی ہے ان دونوں کے علاوہ چار گواہ چاہئیں۔ جیسے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ نے شوریٰ کے چھ ارکان مقرر کئے تھے پھر انہوں نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مختار کر دیا اور آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر باقی چاروں کی موجودگی میں بیعت کی لیکن اس استدلال میں اختلاف ہے۔ واللہ اعلم۔

امام کا مرد ہونا، آزاد ہونا، بالغ ہونا، عقلمند ہونا، مسلمان ہونا، عادل ہونا، مجتہد ہونا، آنکھوں والا ہونا، صحیح سالم اعضاء والا ہونا، فنون جنگ سے اور رائے سے خبردار ہونا، قریشی ہونا واجب ہے اور یہی صحیح ہے۔ ہاں ہاشمی ہونا اور خطا سے معصوم ہونا شرط نہیں۔ یہ دونوں شرطیں متشدد رافضی لگاتے ہیں امام اگر فاسق ہو جائے تو اسے معزول کر دینا چاہیے یا نہیں؟ اس میں اخلاف ہے اور صحیح یہ ہے کہ معزول نہ کیا جائے کیونکہ حدیث میں آ چکا ہے کہ جب تک ایسا کھلا کفر نہ دیکھ لو جس کے کفر ہونے کی ظاہر دلیل اللہ کی طرف سے تمہارے پاس ہو، اسی طرح خود امام اپنے آپ معزول ہو سکتا ہے یا نہیں؟ اس میں بھی اختلاف ہے۔ حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ خودبخود آپ ہی معزول ہو گئے تھے اور امر امامت حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سونپ دیا تھا لیکن یہ عذر کے باعث تھا جس پر ان کی تعریف کی گئی ہے۔ روئے زمین پر ایک سے زیادہ امام ایک وقت میں نہیں ہو سکتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ جب تم میں اتفاق ہو اور کوئی اگر تم میں جدائی ڈالنی چاہے تو اسے قتل کر دو خواہ کوئی بھی ہو۔ جمہور کا یہی مذہب ہے اور بہت سے بزرگوں نے اس پر اجماع نقل کیا ہے جن میں سے ایک امام الحرمین ہیں۔ کرامیہ(شیعہ) کا قول ہے کہ دو اور زیادہ بھی ایک وقت میں امام ہو سکتے ہیں جیسے کہ حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما دونوں اطاعت کے لائق تھے۔ یہ گروہ کہتا ہے کہ جب ایک وقت میں دو دو اور زیادہ نبیوں کا ہونا جائز ہے تو اماموں کا جائز ہونا جائز کیوں نہ ہو؟ نبوت کا مرتبہ تو یقیناً امامت کے مرتبے سے بہت زیادہ ہے (لیکن صحیح مسلم والی حدیث آپ ابھی اوپر چڑھ چکے ہیں کہ دوسرے کو قتل کر ڈالو۔ اس لئے صحیح مذہب وہی ہے جو پہلے بیان ہوا) امام الحرمین نے استاذ ابو اسحاق سے بھی حکایت کی ہے کہ وہ دو اور زیادہ اماموں کا مقرر کرنا اس وقت جائز جانتے ہیں جب مسلمانوں کی سلطنت بہت بڑی وسیع ہو اور چاروں طرف پھیلی ہوئی ہو اور دو اماموں کے درمیان کئی ملکوں کا فاصلہ ہو۔ امام الحرمین اس میں ترود میں ہیں، خلفائے بنی عباس کا عراق میں اور خلفائے بنی فاطمہ کا مصر میں اور خاندان بنی امیہ کا مغرب میں میرے خیال سے یہی حال تھا۔ اس کی بسط و تفصیل انشاء اللہ کتاب الاحکام کی کسی مناسب جگہ ہم کریں گے۔

۳۱

آدم علیہ السلام کی وجہ فضیلت

یہاں سے اس بات کا بیان ہو رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک خاص علم میں حضرت آدم علیہ السلام کو فرشتوں پر بھی فضیلت دی۔ یہ واقعہ فرشتوں کے سجدہ کرنے کے بعد کا ہے لیکن اللہ کی جو حکمت آپ کے پیدا کرنے میں تھی اور جس کا علم فرشتوں کو نہ تھا اور اس کا اجمالی بیان اوپر کی آیت میں گزرا ہے اس کی مناسبت کی وجہ سے اس واقعہ کو پہلے بیان کیا اور فرشتوں کا سجدہ کرنا جو اس سے پہلے واقعہ ہوا تھا بعد میں بیان کر دیا تاکہ خلیفہ کے پیدا کرنے کی مصلحت اور حکمت ظاہر ہو جائے اور یہ معلوم ہو جائے کہ یہ شرافت اور فضیلت حضرت آدم کو اس لئے ملی کہ انہیں وہ علم حاصل ہے جس سے فرشتے خالی ہیں، فرمایا کہ حضرت آدم علیہ السلام کو تمام نام بتائے یعنی ان کی تمام اولاد کے علاوہ سب جانوروں، زمین، آسمان، پہاڑ، تری، خشکی، گھوڑے ، گدھے ، برتن، چرند، فرشتے ، تارے وغیرہ تمام چھوٹی بڑی چیزوں کے نام بتائے گئے۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں کہ فرشتوں اور انسانوں کے نام معلوم کرائے گئے تھے کیونکہ اس کے بعد عرضھم آتا ہے اور یہ ذی عقل لوگوں کے لئے آتا ہے۔ لیکن یہ کوئی ایسی معقول وجہ نہیں جہاں ذی عقل اور غیر ذی عقل جمع ہوتے ہیں وہاں جو لفظ لایا جاتا ہے وہ عقل و ہوش رکھنے والوں کے لئے ہی لایا جاتا ہے جیسے قرآن میں ہے آیت(واللہ خلق کل دابتہ من ماہ) الخ اللہ تعالیٰ نے تمام جانوروں کو پانی سے پیدا کیا جن میں سے بعض تو پیٹ کے بل گھسٹتے ہیں بعض دو پیروں پر چلتے ہیں بعض چار پاؤں پر چلتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے پس اس آیت سے ظاہر ہے کہ غیر ذی عقل بھی داخل ہیں مگر صیغے سب ذی عقل کے ہیں۔ علاوہ ازیں عرضھن بھی حضرت عبد اللہ بن مسعود کی قرات میں ہے اور حضرت ابی بن کعب کی قرات میں عرضھا بھی ہے۔ صحیح قول یہی ہے کہ تمام چیزوں کے نام سکھائے تھے ذاتی نام بھی صفاتی نام بھی اور کاموں کے نام بھی، جیسے کہ حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ گوز کا نام تک بھی بتایا گیا تھا۔ صحیح بخاری کتاب التفسیر میں اس آیت کی تفسیر میں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ حدیث لائے ہیں۔
 

Zia_Hayderi

TM Star
Mar 30, 2007
2,468
1,028
1,213
مسئلہ شفاعت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ ایمان دار قیامت کے دن جمع ہوں گے اور کہیں گے کیا اچھا ہو گا اگر کسی کو ہم اپنا سفارشی بنا کر اللہ کے پاس بھیجیں چنانچہ یہ سب کے سب حضرت آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور ان سے کہیں گے کہ آپ ہم سب کے باپ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اپنے فرشتوں سے آپ کو سجدہ کرایا آپ کو تمام چیزوں کے نام سکھائے۔ آپ اللہ تعالیٰ کے سامنے ہماری سفارش لے جائیں۔ جو ہم اس سے راحت پائیں۔ حضرت آدم علیہ السلام یہ سن کر جواب دیں گے کہ میں اس قابل نہیں۔ انہیں اپنا گناہ یاد آ جائے گا۔ تم نوح علیہ السلام کے پاس آئیں گے آپ بھی یہی جواب دیں گے اور اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف اپنے بیٹے کے لئے اپنا دعا مانگنا یاد کر کے شرما جائیں گے اور فرمائیں گے تم خلیل الرحمن حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ یہ سب آپ کے پاس آئیں گے لیکن یہاں سے بھی یہی جواب پائیں گے۔ آپ فرمائیں گے تم موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ جن سے اللہ نے کلام کیا اور جنہیں تورات عنایت فرمائی۔ یہ سن کر سب کے سب حضرت موسیٰ کے پاس آئیں گے اور آپ سے بھی یہی درخواست کریں گے لیکن یہاں سے بھی جواب پائیں گے آپ کو بھی ایک شخص کو بغیر قصاص کے مار ڈالنا یاد آ جائے گا اور شرمندہ ہو جائیں گے اور فرمائیں گے تم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول اور کلمۃ اللہ اور روح اللہ ہیں۔ یہ سب ان کے پاس بھی جائیں گے لیکن یہاں سے بھی یہی جواب ملے گا کہ میں اس لائق نہیں تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس جاؤ جن کے تمام اگلے پچھلے گناہ بخش دئیے گئے ہیں۔ اب وہ سارے کے سارے میرے پاس آئیں گے میں آمادہ ہو جاؤں گا اور اپنے رب سے اجازت طلب کروں گا۔ مجھے اجازت دے دی جائے گی میں اپنے رب کو دیکھتے ہی سجدے میں گر پڑوں گا جب تک اللہ کو منظور ہو گا سجدے میں ہی پڑا رہوں گا پھر آواز آئے گی کہ سر اٹھائیے سوال کیجئے پورا کیا جائے گا، کہئے سنا جائے گا، شفاعت کیجئے قبول کی جائے گی۔ اب میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور اللہ تعالیٰ کی وہ تعریفیں بیان کروں گا جو اسی وقت اللہ تعالیٰ مجھے سکھائے گا پھر میں شفاعت کروں گا۔ میرے لئے حد مقرر کر دی جائے گی میں انہیں جنت میں پہنچا کر پھر آؤں گا۔ پھر اپنے رب کو دیکھ کر اسی طرح سجدہ میں گر پڑوں گا۔ پھر شفاعت کروں گا پھر حد مقرر ہو گی انہیں بھی جنت میں پہنچا کر تیسری مرتبہ آؤں گا پھر چوتھی بار ضرور ہوں گا یہاں تک کہ جہنم میں صرف وہی رہ جائیں گے جنہیں قرآن نے روک رکھا ہو اور جن کے لئے جہنم کی مداومت واجب ہو گئی ہو (یعنی شرک و کفر کرنے والے ) صحیح مسلم شریف میں نسائی میں ابن ماجہ وغیرہ میں یہ حدیث شفاعت موجود ہے۔ یہاں اس کے وارد کرنے سے مقصود یہ ہے کہ اس حدیث میں یہ جملہ بھی ہے کہ لوگ حضرت آدم علیہ السلام سے کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام چیزوں کے نام سکھائے۔ پھر ان چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور ان سے فرمایا کہ لو اگر تم اپنے قول میں سچے ہو کہ تم ساری مخلوق سے زیادہ علم والے ہو یا اپنی اس بات میں سچے ہو کہ اللہ تعالیٰ زمین میں خلیفہ نہ بنائے گا تو ان چیزوں کے نام بتاؤ۔ یہ بھی مروی ہے کہ اگر تم اپنی اس بات میں کہ “بنی آدم فساد کریں گے اور خون بہائیں گے ” سچے ہو تو ان کے نام بتاؤ۔ لیکن قول پہلا ہی ہے۔ گویا اس میں انہیں ڈانٹا گیا کہ بتاؤ تمہارا قول کہ تم ہی زمین کی خلافت کے لائق ہو اور انسان نہیں۔ تم ہی میرے تسبیح خواں اور اطاعت گزار ہو اور انسان نہیں۔ اگر تم صحیح ہو تو لو یہ چیزیں جو تمہارے سامنے موجود ہیں۔ انہی کے نام بتاؤ۔ اور اگر تم نہیں بتا سکتے تو سمجھ لو کہ جب موجودہ چیزوں کے نام بھی تمہیں معلوم نہیں تو آئندہ آنے والی چیزوں کی نسبت تمہیں علم کیسے ہو گا؟ فرشتوں نے یہ سنتے ہی اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی اور بڑائی اور اپنے علم کی کمی بیان کرنا شروع کر دی اور کہہ دیا کہ جسے جتنا کچھ اے اللہ تو نے سکھا دیا اتنا ہی علم اسے حاصل ہے تمام چیزوں پر احاطہ رکھنے والا علم تو صرف تجھی کو ہے تو ہر چیز کا جاننے والا ہے اپنے تمام احکام میں حکمت رکھنے والا ہے جسے جو سکھائے وہ بھی حکمت سے اور جسے نہ سکھائے وہ بھی حکمت سے تو حکمتوں والا اور عدل والا ہے۔ ابن عباس فرماتے ہیں سبحان اللہ کے معنی اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی کے ہیں کہ وہ ہر برائی سے منزہ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت علی اور اپنے پاس کے دوسرے اصحاب سے ایک مرتبہ سوال کیا کہ آیت(لا الہ الا اللہ) تو ہم جانتے ہیں لیکن دعا(سبحان اللہ) کیا کلمہ ہے ؟ تو حضرت علی نے جواب دیا کہ اس کلمہ کو باری تعالیٰ نے اپنے نفس کے لئے پسند فرمایا ہے اور اس سے وہ خوش ہوتا ہے اور اس کا کہنا اسے محبوب ہے۔ حضرت میمون بن مہران فرماتے ہیں کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی تعظیم ہے اور تمام برائیوں سے پاکیزگی کا بیان ہے۔ حضرت آدم نے نام بتا دئے کہ تمہارا نام جبرئیل ہے تمہارا نام میکائیل ہے ، تم اسرافیل ہو یہاں تک کہ چیل کوے وغیرہ سب کے نام بھی جب ان سے پوچھے گئے تو انہوں نے بتا دئے۔ جب حضرت آدم علیہ السلام کی یہ فضیلت فرشتوں کو معلوم ہوئی تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا دیکھو میں نے تم سے پہلے نہ کہا تھا کہ میں ہر پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ہوں جیسے اور جگہ ہے آیت(وان تجھر بالقول فانہ یعلم السر واخفی) تم بلند آواز سے کہو (یا نہ کہو) اللہ تو پوشیدہ سے پوشیدہ حیز کو جانتا ہے اور ارشاد فرمایا آیت(الا یسجدوا) الخ کیوں یہ لوگ اس اللہ تعالیٰ کو سجدہ نہیں کرتے جو آسمانوں اور زمین کی چھپی چیزوں کو نکالتا ہے اور جو تمہارے ہر باطن اور ظاہر کو جانتا ہے اللہ تعالیٰ اکیلا ہی معبود ہے اور وہی عرش عظیم کا رب ہے۔ جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو چھپاتے تھے اسے بھی میں جانتا ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ ابلیس کے دل میں جر تکبر اور غرور تھا اسے میں جانتا تھا۔ فرشتوں کا یہ کہنا کہ زمین میں ایسی شخصیت کو کیوں پیدا کرتا ہے جو فساد کرے اور خون بہائے یہ تو وہ قول تھا جسے انہوں نے ظاہر کیا تھا اور جو چھپایا تھا وہ ابلیس کے دل میں غرور اور تکبر تھا۔ ابن عباس ابن مسعود اور بعض صحابہ اور سعید بن جبیر اور مجاہد اور سدی اور ضحاک اور ثوری کا یہی قول ہے۔ ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں اور ابو العالیہ ربیع بن انس حسن اور قتادہ کا قول ہے کہ ان کی باطن بات ان کا یہ کہنا تھا کہ جس مخلوق کو اللہ تعالیٰ پیدا کرے گا ہم اس سے زیادہ عالم اور زیادہ بزرگ ہوں گے لیکن بعد میں ثابت ہو گیا اور خود انہوں نے بھی جان لیا کہ آدم علیہ السلام کو علم اور فضیلت دونوں میں ان پر فوقیت حاصل ہے۔ حضرت عبدالرحمن بن زید بن اسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا جس طرح تم ان چیزوں کے ناموں سے بے خبر ہو اسی طرح تم یہ بھی نہیں جان سکتے کہ ان میں بھلے برے ہر طرح کے ہوں گے۔ فرمانبردار بھی ہوں گے اور نافرمان بھی۔ اور میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ مجھے جنت دوزخ دونوں کو بھرنا ہے لیکن تمہیں میں نے اس کی خبر نہیں دی۔ اب جب کہ فرشتوں نے حضرت آدم کو دیا ہوا علم دیکھا تو ان کی بندگی کا اقرار کر لیا۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں سب سے اولیٰ قول حضرت ابن عباس کا ہے کہ آسمان و زمین کے غیب کا علم تمہارے ظاہر و باطن کا علم مجھے ہے ان کے ظاہری قول کو اور ابلیس کے باطنی عجب و غرور کو بھی جانتا تھا۔ اس میں چھپانے والا صرف ایک ابلیس ہی تھا لیکن صیغہ جمع کا لایا گیا ہے اس لئے کہ عرب میں یہ دستور ہے اور ان کے کلام میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ ایک کے یا بعض کے ایک کام کو سب کی طرف نسبت کر دیا کرتے وہ کہتے ہیں کہ لشکر مار ڈالا گیا یا انہیں شکست ہوئی حالانکہ شکست اور قتل ایک کا یا بعض کا ہوتا ہے اور صیغہ جمع کا لاتے ہیں۔ بنو تمیم کے ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو آپ کے حجرے کے آگے سے پکارا تھا لیکن قرآن میں اس کا بیان ان لفظوں میں ہے کہ آیت(ان الذین ینادونک من وراء الحجرات) جو لوگ تمہیں اے نبی صلی اللہ علیہ و سلم حجروں کے آگے سے پکارتے ہیں تو دیکھئے کہ پکار نے والا ایک تھا اور صیغہ جمع کا لایا گیا۔ اسی طرح آیت(وماکنتم تکتمون) میں بھی اپنے دل میں بد ی کو چھپانے والا صرف ایک ابلیس ہی تھا لیکن صیغہ جمع کا لایا گیا۔”

۳۴

حضرت آدم علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ کے احسانات

حضرت آدم علیہ السلام کی اس بہت بڑی بزرگی کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ نے انسانوں پر اپنا بہت بڑا احسان فرمایا اور خبر دی کہ اس نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں۔ اس کی تصدیق میں بہت سی حدیثیں ہیں ایک تو حدیث شفاعت جو ابھی بیان ہوئی۔ دوسری حدیث میں ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ میری ملاقات حضرت آدم علیہ السلام سے کرا دیجئے جو خود بھی جنت سے نکلے اور ہم سب کو بھی نکالا۔ جب دونوں پیغمبر جمع ہوئے تو موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ تم وہ آدم ہو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور اپنی روح تم میں بھی پھونکی اور اپنے فرشتوں سے تمہیں سجدہ کرایا (آخر تک) پوری حدیث عنقریب بیان ہو گی انشاء اللہ تعالیٰ۔ ابن عباس فرماتے ہیں ابلیس فرشتوں کے ایک قبیلہ میں سے تھا جنہیں جن کہتے تھے جو آگ کے شعلوں سے پیدا ہوئے تھے۔ اس کا نام حارث تھا اور جنت کا خازن تھا۔ اس قبیلے کے سوا اور فرشتے سب کے سب نوری تھے۔ قرآن نے بھی ان جنوں کی پیدائش کا ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے آیت(من مارج من نار) آگ کے شعلے کی جو تیزی سے بلند ہوتے ہیں اسے مارج کہتے ہیں جس سے جن پیدا کئے گئے تھے اور انسان مٹی سے پیدا کیا گیا۔ زمین میں پہلے جن بستے تھے۔ انہوں نے فساد اور خون ریزی شروع کی تو اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو فرشتوں کا لشکر دے کر بھیجا انہی کو “جن” کہا جاتا تھا۔ ابلیس نے لڑ بھڑ کر مارتے اور قتل کرتے ہوئے انہیں سمندر کے جزیروں اور پہاڑوں کے دامنوں میں پہنچا دیا اور ابلیس کے دل میں یہ تکبر سما گیا کہ میں نے وہ کام کیا ہے جو کسی اور سے نہ ہو سکا۔ چونکہ دل کی اس بد ی اور اس پوشیدہ خودی کا علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو تھا۔ جب پروردگار نے فرمایا کہ زمین میں خلیفہ پیدا کرنا چاہتا ہوں تو ان فرشتوں نے عرض کیا کہ ایسے کو کیوں پیدا کرتا ہے جو اگلی قوم کی طرح فساد و خونریزی کریں تو انہیں جواب دیا گیا کہ میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے یعنی ابلیس کے دل میں جو کبر و غرور ہے اس کا مجھی کو علم ہے تمہیں خبر نہیں پھر آدم علیہ السلام کی مٹی اٹھائی گئی جو چکنی اور اچھی تھی۔ جب اس کا خمیر اٹھا تب اس سے حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور چالیس دن تک وہ یونہی پتلے کی شکل میں رہے ابلیس آتا تھا اور اس پر لاتا مار کر دیکھتا تھا تو وہ بجتی مٹی ہوتی جیسے کوئی کھوکھلی چیز ہو پھر منہ کے سوراخ سے گھس کر پیچھے کے سوراخ سے اور اس کے خلاف آتا جاتا رہا اور کہتا رہا کہ درحقیقت یہ کوئی چیز نہیں اور اگر میں اس پر مسلط کیا گیا تو اسے برباد کر کے چھوڑ دوں گا اور اسے مجھ پر مسلط کیا گیا تو اسے برباد کر کے چھوڑ دوں گا اور اسے مجھ پر مسلط کیا گیا تو میں ہرگز تسلیم نہ کروں گا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے ان میں روح پھونکی اور وہ سر کی طرف سے نیچے کی طرف آئی تو جہاں جہاں تک پہنچتی گئی خون گوشت بنتا گیا۔ جب ناف تک روح پہنچی تو اپنے جسم کو دیکھ کر خوش ہوئے اور فوراً اٹھنا چاہا لیکن نیچے کے دھڑ میں روح نہیں پہنچتی تھی اس لئے اٹھ نہ سکے اسی جلدی کا بیان اس آیت میں ہے آیت(وخلق الانسان عجولا) یعنی انسان بے صبرا اور جلد باز ہے نہ تو خوشی نہ رنج میں۔ جب روح جسم میں پہنچی اور چھینک آئی تو کہا آیت(الحمد للہ رب العلمین) اللہ تعالیٰ نے جواب دیا دعا(یرحمک اللہ) پھر صرف ابلیس کے ساتھی فرشتوں سے فرمایا کہ آدم کے سامنے سجدہ کرو تو ان سب نے سجدہ کیا لیکن ابلیس کا وہ غرور و تکبر ظاہر ہو گیا اس نے نہ مانا اور سجدے سے انکار کر دیا اور کہنے لگا میں اس سے بہتر ہوں اس سے بڑی عمر والا ہوں۔ اور اس سے قوی اور مضبوط ہوں۔ یہ مٹی سے پیدا کیا گیا ہے اور میں آگ سے بنا ہوں اور آگ مٹی سے قوی ہے۔ اس کے انکار پر اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی رحمت سے ناامید کر دیا اور اسی لئے اسے ابلیس کہا جاتا ہے۔ اس کی نافرمانی کی سزا میں اسے راندہ درگاہ شیطان بنا دیا پھر حضرت آدم علیہ السلام کو انسان جانور زمین سمندر پہاڑ وغیرہ کے نام بتا کر ان کو ان فرشتوں کے سامنے پیش کیا جو ابلیس کے ساتھی تھے اور آگ سے پیدا شدہ تھے اور ان سے فرمایا کہ اگر تم اس بات میں سچے ہو کہ میں زمین میں اسے خلیفہ نہ بناؤں تو ذرا مجھے ان چیزوں کے نام تو بتا دو۔ جب ان فرشتوں نے دیکھا کہ ہماری اگلی بات سے الہ العالمین ناراض ہے تو وہ کہنے لگے کہ اللہ عزوجل تو اس بات سے پاک ہے کہ تیرے سوا کوئی اور غیب کو جانے ہماری توبہ ہے اور اقرار ہے کہ ہم غیب داں نہیں۔ ہم تو صرف وہی جان سکتے ہیں جس کا علم تو ہمیں دے دے۔ جیسے تو نے ان کے نام صرف حضرت آدم علیہ السلام کو ہی سکھائے ہیں۔ اب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے فرمایا کہ تم انہیں ان تمام چیزوں کے نام بتا دو چنانچہ انہوں نے بتا دئیے تو فرمایا اے فرشتو! کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ آسمان و زمین کے غیب کا جاننے والا صرف میں اکیلا ہی ہوں اور کوئی نہیں۔ میں ہر پوشیدہ چیز کو بھی ویسا ہی جانتا ہوں جیسے ظاہر کو اور تم سب اس سے بے خبر ہو لیکن یہ قول بھی غریب ہے اور اس میں بہت سی باتیں ایسی ہیں جن میں خامیاں ہیں ہم اگر انہیں الگ الگ بیان کریں تو مضمون بہت بڑھ جائے گا اور ابن عباس تک اس اثر کی سند بھی وہی ہے جس سے ان کی مشہور تفسیر مروی ہے۔ ایک اور حدیث میں بھی اسی طرح مروی ہے جس کے متن میں کچھ کمی زیادتی بھی ہے اور اس میں یہ بھی ہے کہ زمین کی مٹی لینے کے لئے جب حضرت جبرئیل گئے تو زمین نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتی ہوں کہ تو مجھ میں سے کچھ گھٹائے وہ واپس چلے گئے پھر ملک الموت کو بھیجا۔ زمین نے ان سے بھی یہی کہا لیکن انہوں نے جواب دیا کہ میں بھی اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتا ہوں کہ میں اللہ کا حکم پورا کئے بغیر واپس چلا جاؤں چنانچہ انہوں نے تمام روئے زمین سے ایک ایک مٹھی مٹی لی۔ چونکہ مٹی کا رنگ کہیں سرخ تھا کہیں سفید کہیں سیاہ اسی وجہ سے انسانوں کی رنگتیں بھی طرح طرح کی ہوئیں لیکن یہ روایت بھی بنو اسرائیل کی روایات سے ماخوذ ہے غالباً اس میں بہت سی باتیں نیچے کے لوگوں کی ملائی گئی ہیں۔ صحابی کا بیان ہی نہیں اگر صحابی کا قول بھی ہو تو بھی انہوں نے بعض اگلی کتابو ں سے لیا ہو گا واللہ اعلم۔
 

Zia_Hayderi

TM Star
Mar 30, 2007
2,468
1,028
1,213
تعارف ابلیس

حاکم اپنی مستدرک میں بہت سی ایسی روایتیں لائے ہیں اور ان کی سند کو بخاری سے مشروط کیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ تم حضرت آدم کو سجدہ کرو تو اس خطاب میں ابلیس بھی داخل تھا اس لئے کہ گو وہ ان میں سے نہ تھا لیکن ان ہی جیسا اور ان ہی جیسے کام کرنے والا تھا اس لئے اس خطاب میں داخل تھا اور پھر نافرمانی کی سزا بھگتی۔ اس کی تفصیل انشاء اللہ تعالیٰ آیت(کان من الجن) کی تفسیر میں آئے گی۔ ابن عباس کہتے ہیں نافرمانی سے پہلے وہ فرشتوں میں تھا۔ عزازیل اس کا نام تھا زمین پر اس کی رہائش تھی اجتہاد اور علم میں بہت بڑا تھا اور اسی وجہ سے دماغ میں رعونت تھی اور اس کی جماعت کا اور اس کا تعلق جنوں سے تھا۔ اس کے چار پر تھے۔ جنت کا خازن تھا زمین اور آسمان دونوں کا سلطان تھا۔ حضرت حسن فرماتے ہیں۔ ابلیس کبھی فرشتہ نہ تھا اس کی اصل جنات سے ہے جیسے کہ آدم کی اصل انس سے ہے اس کی اسناد صحیح ہے۔ عبدالرحمن بن زید بن اسلم اور شہر بن حوشب کا بھی یہی قول ہے۔ سعد بن مسعود کہتے ہیں کہ فرشتوں نے جنات کو جب مارا تب اسے قید کیا تھا اور آسمان پر لے گئے تھے وہاں کی عبادت کی وجہ سے رہ پڑا۔ ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ پہلے ایک مخلوق کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا انہیں حضرت آدم کو سجدہ کرنے کو کہا۔ انہوں نے انکار کیا جس پر وہ جلا دئیے گئے پھر دوسری مخلوق پیدا کی ان کا بھی یہی حشر ہوا پھر تیسری مخلوق پیدا کی انہوں نے تعمیل ارشاد کی لیکن یہ اثر بھی غریب ہے اور اس کی اسناد بھی تقریباً غیر صحیح ہے۔ اس میں ایک راوی مبہم ہے اس وجہ سے یہ روایت قابل حجت نہیں کافرین سے مراد نافرمان ہے۔ ابلیس کی ابتداء آفرینش ہی کفر و ضلالت پر تھی کچھ دن ٹھیک ٹھاک رہا لیکن پھر اپنی اصلیت پر آ گیا۔ سجدہ کرنے کا حکم بجا لانا اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور آدم علیہ السلام کا اکرام تھا۔ بعض لوگوں کا قول ہے کہ یہ سجدہ سلام اور عزت و اکرام کا تھا جیسے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں فرمان ہے۔ کہ انہوں نے اپنے ماں باپ کو تخت پر بٹھا لیا اور سب کے سب سجدہ میں گر پڑے اور حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا ابا یہی میرے اس خواب کی تعبیر ہے جسے میرے رب نے سچا کر دکھایا۔ اگلی امتوں میں سجدہ تعظیم جائز تھا لیکن ہمارے دین میں یہ منسوخ ہو گیا۔ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے شامیوں کو اپنے سرداروں اور علماء کے سامنے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا تھا تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے گزارش کی کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم آپ اس کے زیادہ حقدار ہیں کہ آپ کو سجدہ کیا جائے تو آپ نے فرمایا کہ اگر میں کسی انسان کو کسی انسان کے سامنے سجدہ کرنے کی اجازت دینے والا ہوتا تو عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوندوں کو سجدہ کریں کیونکہ ان کا ان پر بہت بڑا حق ہے۔ امام رازی نے اسی کو ترجیح دی ہے بعض کہتے ہیں کہ سجدہ اللہ تعالیٰ ہی کے لئے تھا۔ حضرت آدم بطور قبلہ (یعنی سمت) کے تھے جیسے قرآن کریم میں ہے آیت(اقم الصلوٰۃ لدلوک الشمس) لیکن اس میں بھی اختلاف ہے اور پہلے ہی قول کا زیادہ صحیح ہونا اچھا معلوم ہوتا ہے۔ یہ سجدہ حضرت آدم کے اکرام بڑائی احترام اور سلام کے طور پر تھا اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ماتحت تھا کیونکہ اس کا حکم تھا جس کی بجا آوری ضروری تھی۔ امام رازی نے بھی اسی قول کو قوی قرار دیا ہے اور اس کے سوا دوسرے اقوال کو ضعیف قرار دیا ہے ایک تو حضرت آدم علیہ السلام کا بطور قبلہ کے ہونا جس میں کوئی بڑا شرف ظاہر نہیں ہوتا۔ دوسرے سجدے سے مراد پست عاجز ہونا نہ کہ زمین میں ماتھا ٹکا کر حقیقی سجدہ کرنا لیکن یہ دونوں تاویلیں ضعیف ہیں۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں سب سے پہلا گناہ یہی تکبر ہے جو ابلیس سے سرزد ہوا۔ صحیح حدیث میں ہے جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہو گا وہ جنت میں داخل نہ ہو گا۔ اسی تکبر کفرو عناد کی وجہ سے ابلیس کے گلے میں طوق لعنت پڑا اور رحمت سے مایوس ہو کر جناب باری سے دھتکارا گیا۔ یہاں “کان صار” کے معنی میں بتلایا گیا ہے جیسے کہ آیت(فکان من المغرقین) اور آیت(فتکونا من الظلمین) شاعروں کے شعروں میں بھی اس کا ثبوت ہے تو معنی یہ ہوئے کہ وہ کافر ہو گیا ابن فورک کہتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے علم میں کافروں میں سے تھا۔ قرطبی اسی کو ترجیح دیتے ہیں اور یہاں ایک مسئلہ بیان فرماتے ہیں کہ کسی شخص کے ہاتھ سے کچھ کرامتیں سرزد ہو جانا اس کے ولی اللہ ہونے کی دلیل نہیں گو بعض صوفی اور رافضی اس کے خلاف بھی کہتے ہیں کہ اس لئے کہ ہم اس بات کا کسی کے لئے فیصلہ نہیں کر سکتے کہ وہ ایمان ہی کی حالت میں اللہ سے جا ملے گا اسی شیطان کو دیکھئے ولی ہی نہیں بلکہ فرشتہ بنا ہوا تھا لیکن آخر سردار کفر و کفار ہو گیا۔ علاوہ ازیں ایسی خلاف عادت و عقل باتیں جو بظاہر کرامات نظر آتی ہیں اولیاء اللہ کے سوا اور لوگوں کے ہاتھوں سے بھی سرزد ہوتی ہیں بلکہ فاسق فاجر مشرک کافر سے بھی ظاہر ہو جاتی ہیں۔ مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے آیت(فارتقب یوم تاتی السماء بد خان مبین) کی آیت دل میں سوچ کر جب ابن صیاد کافر سے پوچھا کہ میں نے کیا سوچا ہے تو اس نے کہا تھا دخ۔ بعض روایات میں ہے کہ غصہ کے وقت وہ اتنا پھول جاتا کہ اس کے جسم سے تمام راستہ رک جاتا تھا۔ حضرت عبد اللہ بن عمرنے اسے مارا۔ دجال کی تو ایسی بہت سی باتیں احادیث میں وارد ہیں مثلاً اس کا آسمان سے بارش برسانا زمین سے پیداوار اگانا زمین کے خزانوں کا اس کے پیچھے لگنا ایک نوجوان کو قتل کر کے پھر جلانا وغیرہ وغیرہ۔ حضرت لیث بن سعد اور حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اگر تم کسی کو پانی پر چلتے ہوئے اور ہواؤں میں اڑتے ہوئے دیکھو تو اسے ولی نہ سمجھ بیٹھو جب تک کہ اس کے تمام اعمال و افعال قرآن و حدیث کے مطابق نہ پاؤ۔ اس سجدے کا حکم زمین و آسمان کے تمام فرشتوں کو تھا گو ایک جماعت کا قول یہ بھی ہے کہ صرف زمین کے فرشتوں کو یہ حکم تھا لیکن یہ ٹھیک نہیں قرآن کریم میں ہے آیت(فسجد الملائکۃ کلھم اجمعون الا ابلیس) یعنی ابلیس کے سوا تمام فرشتوں نے سجدہ کیا پس اول تو جمع کا صیغہ لانا پھر “کلھم” سے تاکید کرنا پھر “اجمعون” کہنا اس کے بعد صرف ابلیس کا استثناء کرنا ان چاروں وجوہات سے صاف ظاہر ہے کہ یہ حکم عام تھا واللہ اعلم۔”

۳۵

اعزاز آدم علیہ السلام

حضرت آدم علیہ السلام کی یہ اور بزرگی بیان ہو رہی ہے کہ فرشتوں سے سجدہ کرانے کے بعد انہیں جنت میں رکھا اور ہر چیز کی رخصت دے دی ابن مردویہ کی روایت کردہ حدیث میں ہے کہ حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کیا حضرت آدم نبی تھے ؟ آپ نے فرمایا ہاں! نبی بھی، رسول بھی ، بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان سے آمنے سامنے بات چیت کی اور انہیں فرمایا کہ تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو۔ عام مفسرین کا بیان ہے کہ آسمانی جنت میں انہیں بسایا گیا تھا لیکن معتزلہ اور قدریہ کہتے ہیں کہ یہ جنت زمین پر تھی۔ سورہ اعراف میں اس کا بیان آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ۔ اس عبارت قرآنی سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں رہنے سے پہلے حضرت حوا پیدا کی گئی تھیں۔ محمد بن اسحاق فرماتے ہیں کہ اہل کتاب وغیرہ کے علماء سے بروایت ابن عباس مروی ہے کہ ابلیس کے مردود قرار دینے کے بعد حضرت آدم علیہ السلام کے علم کو ظاہر کر کے پھر ان پر اونگھ کی فوقیت طاری کر دی گئی اور ان کی بائیں پسلی سے حضرت حوا کو پیدا کیا۔ جب آنکھ کھول کر حضرت آدم نے انہیں دیکھا تو اپنے خون اور گوشت کی وجہ سے ان میں انس و محبت ان کے دل میں پیدا ہوئی۔ پھر پروردگار نے انہیں ان کے نکاح میں دیا اور جنت میں رہائش کا حکم عطا فرمایا۔ بعض کہتے ہیں کہ آدم علیہ السلام کے جنت میں داخل ہو جانے کے بعد حضرت حوا پیدا کی گئیں۔ حضرت ابن عباس ابن مسعود وغیرہ صحابہ سے مروی ہے کہ ابلیس کو جنت سے نکالنے کے بعد حضرت آدم علیہ السلام کو جنت میں جگہ دی گئی۔ لیکن تن تنہا تھے اس وجہ سے ان کی نیند میں حضرت حوا کو ان کی پسلی سے پیدا کیا گیا۔ جاگے ، انہیں دیکھا تو پوچھا تم کون ہو اور کیوں پیدا کی گئی ہو؟ حضرت حوا نے فرمایا میں ایک عورت ہوں اور آپ کے ساتھ رہنے اور تسکین کا سبب بننے کے لئے پیدا کی گئی ہو تو فوراً فرشتوں نے پوچھا فرمائیے ان کا نام کیا ہے ؟ حضرت آدم نے کہا “حوا” انہوں نے کہا اس نام کی وجہ تسمیہ کیا ہے ؟ فرمایا اس لئے کہ یہ ایک زندہ سے پیدا کی گئی ہیں۔ اسی وقت اللہ تعالیٰ کی آواز آئی، اے آدم اب تم اور تمہاری بیوی جنت میں با آرام و اطمینان رہو اور جو چاہو کھاؤ۔ لیکن ایک خاص درخت سے روکنا دراصل امتحان تھا۔ بعض کہتے ہیں یہ انگور کی بیل تھی۔ کوئی کہتا ہے۔ گیہوں کا درخت تھا۔ کسی نے سنبلہ کہا ہے۔ کسی نے کھجور، کسی نے انجیر کہا ہے۔ کسی نے کہا ہے اس درخت کے کھانے سے انسانی حاجت ہوتی تھی جو جنت کے لائق نہیں۔ کسی نے کہا ہے ، اس درخت کا پھل کھا کر فرشتے ہمیشہ کی زندگی پا گئے ہیں۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں کوئی ایک درخت تھا جس سے اللہ نے روک دیا۔ نہ قرآن سے اس کا تعین ثابت ہوتا ہے نہ کسی صحیح حدیث سے۔ مفسرین میں اختلاف ہے اور اس کے معلوم ہونے سے کوئی اہم فائدہ اور نہ معلوم ہونے سے کوئی نقصان نہیں۔ لہٰذا اس کی جستجو کی کیا ضرورت؟ اللہ ہی کو اس کا بہتر علم ہے۔ امام رازی وغیرہ نے بھی یہی فیصلہ کیا ہے اور ٹھیک بات بھی یہی معلوم ہوتی ہے۔ عنھا کی ضمیر کا مرجع بعض نے جنت کہا ہے اور بعض نے شجرہ۔ ایک قرات فازالھما بھی ہے تو معنی یہ ہوئے کہ اس جنت سے ان دونوں کو بے تعلق اور الگ کر دیا اور دوسرے معنی یہ بھی ہوئے کہ اسی درخت کے سبب شیطان نے انہیں بہکا دیا۔

سفر ارضی کا آغاز

لفظ عن سبب کے معنی میں بھی آیا ہے آیت(یوفک عنہ) میں۔ اس نافرمانی کی وجہ سے جنتی لباس اور وہ پاک مکان، نفیس روزی وغیرہ سب چھن گئی اور دنیا میں اتار دئیے گئے اور کہہ دیا گیا کہ اب تو زمین میں ہی تمہارا رزق ہے ، قیامت تک یہیں پڑے رہو گے اور اس سے فائدہ حاصل کرتے رہو گے۔ سانپ اور ابلیس کا قصہ، یعنی ابلیس کس طرح جنت میں پہنچا۔ کس طرح وسوسہ ڈالا وغیرہ، اس کے بارے میں لمبے چوڑے قصے مفسرین نے لکھے ہیں لیکن وہ سب بنی اسرائیل کے ہاں کا خزانہ ہے ، تاہم ہم انہیں سورہ اعراف میں بیان کریں گے کیونکہ اس واقعہ کا بیان وہاں کسی قدر تفصیل کے ساتھ ہے۔ ابن ابی حاتم کی ایک حدیث میں ہے کہ درخت کا پھل چکھتے ہی جنتی لباس اتر گیا۔ اپنے تئیں ننگا دیکھ کر ادھر ادھر دوڑنے لگے لیکن چونکہ قد طویل تھا اور سر کے بال لمبے تھے ، وہ ایک درخت میں اٹک گئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے آدم کیا مجھ سے بھاگتے ہو؟ عرض کیا نہیں الٰہی میں تو شرمندگی سے منہ چھپائے پھرتا ہوں۔ ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے آدم! میرے پاس سے چلے جاؤ، مجھے میری عزت کی قسم میرے پاس میرے نافرمان نہیں رہ سکتے ، اگر اتنی مخلوق تم میں پیدا کروں کہ زمین بھر جائے اور پھر وہ میری نافرمانی کرے تو یقیناً میں اسے بھی نا فرمانوں کے گھر میں پہنچا دوں۔ یہ روایت غریب ہے اور ساتھ ہی اس میں انقطاع بلکہ اعضال بھی ہے۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ حضرت آدم نماز عصر کے بعد سے لے کر سورج کے غروب ہونے تک کی ایک ساعت ہی جنت میں رہے۔ حضرت حسن فرماتے ہیں یہ ایک ساعت ایک سو تیس سال کی تھی۔ ربیع بن انس فرماتے ہیں نویں یا دسویں ساعت میں حضرت آدم کا اخراج ہوا۔ ان کے ساتھ جنت کی ایک شاخ تھی اور جنت کے درخت کا ایک تاج سر پر تھا۔ سدی کا قول ہے کہ حضرت آدم ہند میں اترے ، آپ کے ساتھ حجر اسود تھا اور جنتی درخت کے پتے جو ہند میں پھیلا دئیے اور اس سے خوشبودار درخت پیدا ہوئے۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں ہند کے شہر “دھنا” میں اترے تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ مکہ اور طائف کے درمیان اترے تھے۔ حسن بصری فرماتے ہیں حضرت آدم ہند میں اور مائی حواہ جدہ میں اتریں اور ابلیس بصرہ سے چند میل کے فاصلہ پر دست میساں میں پھینکا گیا اور سانپ اصفہان میں۔ ابن عمر کا قول ہے کہ حضرت آدم صفا پر اور حضرت حوا مروہ پر اترے۔ اترتے وقت دونوں ہاتھ گھٹنوں پر تھے اور سر جھکا ہوا تھا اور ابلیس انگلیوں میں انگلیاں ڈالے آسمان کی طرف نظریں جمائے اترا۔ حضرت ابو موسیٰ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں تمام صفتیں سکھا دیں اور پھلوں کا توشہ دیا۔ ایک حدیث میں ہے کہ تمام دنوں میں بہتر دن جمعہ کا دن ہے ، اسی میں حضرت آدم پیدا کئے گئے ، اسی میں جنت میں داخل کئے گئے۔ اور اسی دن نکالے گئے ملاحظہ ہو صحیح مسلم اور نسائی۔ امام رازی فرماتے ہیں اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی ناراضی کی وجوہات مضمر ہیں۔ اول تو یہ سوچنا چاہئے کہ ذرا سی لغزش پر حضرت آدم علیہ السلام کو کس قدر سزا ہوئی۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ تم گناہوں پر گناہ کئے جاتے ہو اور جنت کے طالب ہو کیا تم بھول گئے کہ تمہارے باپ آدم علیہ السلام کو محض ایک ہلکے سے گناہ پر جنت سے نکال دیا گیا۔ ہم تو یہاں دشمن کی قید میں ہیں، دیکھئے ! کب صحت و سلامتی کے ساتھ اپنے وطن پہنچیں۔ فتح موصلی کہتے ہیں ہم جنتی تھے ، ابلیس کے بہکانے میں آ کر دنیا کی قید میں آ پھنسے ، اب سوائے غم و رنج کے یہاں کیا رکھا ہے ؟ یہ قید و بند اسی وقت ٹوٹے گی جب ہم وہیں پہنچ جائیں جہاں سے نکالے گئے ہیں۔ اگر کوئی معترض اعتراض کرے کہ جب آدم علیہ السلام آسمانی جنت میں تھے اور ابلیس راندۂ درگاہ ہو چکا تھا تو پھر وہ وہاں کیسے پہنچا؟ تو اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ وہ جنت زمین میں تھی لیکن اس کے علاوہ اور بھی بہت سے جواب ہیں کہ بطور اکرام کے اس کا داخل ہونا منع تھانہ کہ بطور اہانت اور چوری کے۔ چنانچہ توراۃ میں ہے کہ سانپ کے منہ میں بیٹھ کر جنت میں گیا اور یہ بھی جواب ہے کہ وہ جنت میں نہیں گیا تھا بلکہ باہر ہی سے اس نے وسوسہ ان کے دل میں ڈالا تھا۔ اور بعض نے کہا ہے کہ زمین سے ہی وسوسہ ان کے دل میں ڈالا۔ قرطبی نے یہاں پر سانپوں کے بارے میں اور ان کے مار ڈالنے کے حکم سے متعلق حدیثیں بھی تحریر کی ہیں جو بہت مفید اور با موقع ہیں۔

۳۷

اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ معافی نامہ کا متن

جو کلمات حضرت آدم نے سیکھے تھے ان کا بیان خود قرآن میں موجود ہے۔ آیت(قالا ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفرلنا وترحمنا لنکونن من الخاسرین) یعنی ان دونوں نے کہا اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اگر تو ہمیں نہ بخشے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو یقیناً ہم نقصان والے ہو جائیں گے۔ اکثر بزرگوں کا یہی قول ہے۔ ابن عباس سے احکام حج سیکھنا بھی مروی ہے۔ عبید بن عمیر کہتے ہیں وہ کلمات یہ تھے کہ انہوں نے کہا الٰہی جو خطا میں نے کی کیا اسے میرے پیدا کرنے سے پہلے میری تقدیر میں لکھ دیا گیا تھا؟ یا میں نے خود اس کی ایجاد کی؟ جواب ملا کہ ایجاد نہیں بلکہ پہلے ہی لکھ دیا گیا اسے سن کر آپ نے کہا پھر اے اللہ مجھے بخشش اور معافی مل جائے۔ ابن عباس سے یہ بھی روایت ہے کہ حضرت آدم نے کہا الٰہی کیا تو نے مجھے اپنے ہاتھ سے پیدا نہیں کیا؟ اور مجھ میں اپنی روح نہیں پھونکی؟ میرے چھینکنے پر یرحمک اللہ نہیں کہا؟ کیا تیری رحمت غضب پر سبقت نہیں کر گئی؟ کیا میری پیدائش سے پہلے یہ خطا میری تقدیر میں نہیں لکھی تھی؟ جواب ملا کہ ہاں۔ یہ سب میں نے کیا ہے تو کہا پھر یا اللہ میری توبہ قبول کر کے مجھے پھر جنت مل سکتی ہے یا نہیں؟ جواب ملا کہ ہاں۔ یہ کلمات یعنی چند باتیں تھیں جو آپ نے اللہ سے سیکھ لیں۔ ابن ابی حاتم ایک ایک مرفوع روایت میں ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے کہا الٰہی اگر میں توبہ کروں اور رجوع کروں تو کیا جنت میں پھر بھی جا سکتا ہوں؟ جواب ملا کہ ہاں۔ اللہ سے کلمات کی تلقین حاصل کرنے کے یہی معنی ہیں۔ لیکن یہ حدیث غریب ہونے کے علاوہ منقطع بھی ہے۔ بعض بزرگوں سے مروی ہے کہ کلمات کی تفسیر ربنا ظلمنا اور ان سب باتوں پر مشتمل ہے حضرت مجاہد سے مروی ہے کہ وہ کلمات یہ ہیں دعا(اللھم لا الہ الا انت سبحانک وبحمدک رب انی ظلمت نفسی فاغفرلی انک خیر الغافرین اللھم لا الہ الا انت سبحانک وبحمدک رب انی ظلمت نفسی فارحمنی انک خیرالراحمین اللھم لا الہ الا انت سبحانک وبحمدک رب انی ظلمت نفسی فتب علی انک انت التواب الرحیم) قرآن کریم میں اور جگہ ہے کیا لوگ نہیں جانتے کہا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے ؟ اور جگہ ہے جو شخص کوئی برا کام کر گزرے یا اپنی جان پر ظلم کر بیٹھے پھر توبہ استغفار کرے تو وہ دیکھ لے گا کہ اللہ اس کی توبہ قبول کر لے گا اور اسے اپنے رحم و کرم میں لے لے گا۔ اور جگہ ہے آیت(ومن تاب وعمل صالحا) الخ ان سب آیتوں میں ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے ، اسی طرح یہاں بھی یہی فرمان ہے کہ وہ اللہ توبہ کرنے والوں کی توبہ قبول کرنے والا اور بہت بڑے رحم و کرم والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس عام لطف و کرم، اس کے اس فضل و رحم کو دیکھو کہ وہ اپنے گنہگار بندوں کو بھی اپنے در سے محروم نہیں کرتا۔ سچ ہے اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، نہ اس سے زیادہ کوئی مہرو کرم والا نہ اس سے زیادہ کوئی خطا بخشنے والا اور رحم و بخشش عطا فرمانے والا۔”
 
Top