بوسیدہ لاش

  • Work-from-home

dr maqsood hasni

Senior Member
Aug 11, 2008
943
286
1,163
72
kasur, pakistan

بوسیدہ لاش

شباب مرزا ایمرجنسی وارڈ میں پڑا‘ زندگی کی آخری گھڑیاں گن رہا تھا۔ ڈاکٹر اور نرسیں‘ اس کی زندگی بچانے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس پر کھل گیا تھا کہ اب کہانی‘ اپنے انجام کو پہنچ چکی ہے۔ دوا دارو دوبارہ سے‘ اسے زندگی کی شاہراہ پر لا کر‘ کھڑا نہیں کرسکتے۔ بچ بھی گیا تو وہ پہلے سی توانائی‘ میسر نہ آ سکے گی۔ وہ زندگی بھر کسی کا سہارا نہیں بنا‘ اس کا کوئی کیوں سہارا بنے گا۔ ہر کسی کا قول و فعل‘ محض دکھاوے اور اسے خوش کرکے‘ کچھ حاصل کرنے کے لیے ہو گا۔

زندگی کا ہر بیتا لمحہ‘ اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم گھوم گیا۔ ابھی وہ اتنا بڑا نہیں ہوا تھا کہ اسے لذت کا احساس ہو گیا۔ ہوا یوں کہ ان کے گھر اس کی خالہ اور اس کی بیٹی ملنے یا کسی کام سے آئیں۔ خالہ نے اسے گلے لگایا اور اس کی بلائیں لیں۔ اس کی خالہ زاد‘ جو عمر میں کوئی اس سے زیادہ بڑی نہ تھی‘ بھی اسے گلے ملی۔ خالہ کے گلے ملنے میں کوئی مزا نہ تھا لیکن خالہ زاد کے ملنے سے‘ اس کے بدن میں عجب سی لذت دوڑ گئی۔ وہ اسے بار بار ملنا چاہتا تھا۔ اس کے رونگٹے میں ان جانی سی ہلچل مچ گئی۔ کئی بار کھڑا بھی ہوا۔ شاید اس لڑکی کی استفادہ میں بھی یہ ہی کیفیت رہی ہو گی۔

اس کی اماں اور خالہ باتوں میں جھٹ گئیں۔ سسرالی خاندانوں کی خامیاں موضوع گفتگو تھیں۔ وہ تو اپنے مجازی خداؤں کو بھی لتاڑے چلی جا رہی تھیں۔ وہ اور اس کی خالہ زاد‘ اپنی ماؤں کے باہمی مذاکرات سے بےنیاز‘ رومان کی دنیا آباد کیے ہوئے تھے۔ یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہا‘ جب تک اس کی خالہ نے اپنی بیٹی کو آواز نہ دے دی۔

لذت کے اس احساس نے‘ اسے متحرک کر دیا۔ تعلیمی معاملات طے کرنے کے لیے‘ اس نے ہر جائز ناجائز حربہ اختیار کیا۔ یہ ہی طور اس نے اچھے روزگار کے لیے اپنایا۔ اچھی رہائش اور اس کے لوازمات کے لیے جائز کو مستقل طور پر‘ زندگی سے خارج ہی کر دیا۔ دنیا کی کون سی ایسی آسائش ہو گی‘ جو اسے میسر نہ آئی۔ کوٹھی‘ کار‘ بنگلہ‘ بینک بیلس‘ نوکر چاکر گویا سب کچھ اس کے کھیسے لگ چکا تھا۔ ایسے حالات میں‘ بڑے گھر کی بیٹی بھی رونق افروز ہو گئی۔ وہ ہی کیا‘ حسیناؤں کا ایک ہجوم اس کے گرد رہتا۔ اس کا قرب‘ بڑے حسن اور ناز و ادا والیوں کو ہی نصیب ہوتا۔

رونگٹا ذرا کم زور بڑتا تو دواؤں کا انبار لگ جاتا۔ اٹھنے بیٹھنے‘ آنے جانے‘ کھانے پینے‘ سونے جاگنے غرض ہر نوع کی لذت اس کے قدم لیتی رہی۔ آخر کب تک‘ معدہ اپ سٹ رہنے لگا۔ رونگٹا بھی ڈھیٹ سا ہو گیا۔ باہر تو باہر‘ اس ذیل میں گھر پر بھی ذلت اٹھانا پڑتی اور وہ وہ باتیں سنتا‘ جن کا وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ ماں کی دیکھا دیکھی‘ بچے بھی اس کی پرواہ چھوڑ گیے۔ اب وہ بااختیار افسر نہیں تھا جو اردگرد چمچے کڑچھے ہوتے۔ باہر نکلتا تو ناانصافی برداشت کرنے والوں کی غصیلی نظریں کھانے کو دوڑتیں گھر آتا تو نادیہ پاگل کتیا کی طرح‘ کاٹنے کو آتی۔ لذت نے آزار کا بھیس اختیار کر لیا تھا۔

ایک دو دن نہیں‘ پانچ سے زیادہ عرصہ‘ اس نے ذلت و عذاب میں گزارا۔ رونگٹے کی بےوفائی اس حالت تک لے آئی تھی۔ ہسپتال بھی اسے شرم کوشرمی لایا گیا تھا دوسرا سارا دن اس عذاب کو کون جھیلتا۔ یہاں سابقہ سرکاری افسر ہونے کی وجہ سے‘ کسی حد تک سہی‘ خدمت میسر آ رہی تھی۔ وہ آنکھیں بند کیے یہ ہی سوچے جا رہا تھا کہ لذت کے لمحے آخر کیوں ختم ہو جاتے ہیں۔ آخر سب کچھ برقرار کیوں نہیں رہتا۔ پھر اس نے سوچا کہ اگر زندگی کی لذت کو استحقام نہیں تو زندگی کی اذیت کو بھی بقا نہیں ہو سکتی‘ یہ بھی ختم ہو جائے گی۔ سوچوں کے گرداب میں پھنسی اذیت آمیز زندگی نے‘ آخری ہچکی لی اور پھر وہاں ایک بوسیدہ لاش کے سوا کچھ باقی نہ رہا۔
 
  • Like
Reactions: Shoaib_Nasir
Top