سوال اس طرح ہے کہ الله عرش پر ہے یا مخلوق کے ساتھ انکی شہہ رگ کے پاس ہے
دوسرا سوال ہے کہ اللہ کن فیکون کہتا ہے تو اسکو فرشتوں کی ضرورت کیوں ہے
جواب
الله عرش پر ہے مخلوق کے پاس نہیں ہے اس کی ذات کو یہ زمین اٹھا نہیں سکتی ایسا اس نے خود بتایا ہے کہ موسی نے درخواست کی کہ وہ الله کو دیکھنا چاہتے ہیں الله نے اپنا ظہور پہاڑ پر کرنا شروع کیا کہ پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گیا
الله عرش پر ہے مخلوق کے پاس نہیں ہے اس کی ذات کو یہ زمین اٹھا نہیں سکتی ایسا اس نے خود بتایا ہے کہ موسی نے درخواست کی کہ وہ الله کو دیکھنا چاہتے ہیں الله نے اپنا ظہور پہاڑ پر کرنا شروع کیا کہ پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گیا
وَلَمَّا جَاء مُوسَى لِمِيقَاتِنَا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ قَالَ رَبِّ أَرِنِي أَنظُرْ إِلَيْكَ قَالَ لَن تَرَانِي وَلَكِنِ انظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَانِي فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَخَرَّ موسَى صَعِقًا فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَاْ أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ
الأعراف
الأعراف
عربي لغت لسان عرب کے مطابق وَقَالَ الزَّجَّاجُ: تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ أَي ظَهَرَ وبانَ، قَالَ: وَهَذَا قَوْلُ أَهل السُّنة وَالْجَمَاعَةِ، وَقَالَ الْحَسَنُ: تَجَلَّى بَدَا لِلْجَبَلِ نُور العَرْش
زجاج کہتے ہیں تجلی کی رب نے پہاڑ پر یعنی ظاہر ہو اور نظر آئے اور یہ قول اہل سنت کا ہے اور حسن کہتے ہیں تجلی شروع کی پہاڑ پر عرش کے نور کی
یعنی الله تعالی کو یہ زمین اٹھا نہیں سکتی وہ عرش پر مستوی ہے اور اپنے علم کی وجہ سے ہر انسان کی شہہ رگ کے قریب ہے
————–
الله خلق کرتا اور امر کرتا ہے یا حکم کرتا ہے
فرشتے اس نے خلق کیے جو وہ کام کرتے ہیں جو الله تعالی ان کو حکم کرتے ہیں
یہ عالم بالا کا عموم ہے
یہ عالم بالا کا عموم ہے
لیکن جب الله کسی چیز کا ارادہ کر لے تو اس کو ان فرشتوں کی حاجت نہیں وہ کن کہتا ہے اور چیز ہو جاتی ہے
یہ الله کی قوت، قدرت اور اس کے جبروت کا منظر ہے یہ خصوص ہے
بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَإِذَا قَضَى أَمْراً فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ
زمین و آسمانوں کی ابتداء کرنے والا اور جب وہ کسی امر کا فیصلہ کر لے تو کہتا ہے ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے
إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُنْ فَيَكُون
عیسیٰ کی مثال الله کے نزدیک آدم جیسی ہے جس کو مٹی سے خلق کیا پھر کہا ہو جا اور ہو گیا
إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئاً أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ
بلا شبہ ہمارا حکم یہ ہے کہ جب ہم ارادہ کریں کسی چیز کا تو اس سے کہیں ہو جا اور وہ ہو جاتا ہے
قَالَتْ رَبِّ أَنَّى يَكُونُ لِي وَلَدٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ قَالَ كَذَلِكِ اللَّهُ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ إِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ
مریم نے کہا اے رب مجھے لڑکا کیسے ہو گا جبکہ کسی مرد نے چھوا تک نہیں کہا یہ الله ہے جو جو چاہتا ہے خلق کر دیتا ہے جب وہ کسی امر کا فیصلہ کر لے تو کہتا ہے ہو جا اور وہ ہو جاتا ہے
وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ وَيَوْمَ يَقُولُ كُنْ فَيَكُونُ قَوْلُهُ الْحَقُّ وَلَهُ الْمُلْكُ
اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو خلق کیا حق کے ساتھ اور جس روز وہ کہے ہو جا وہ ہو جاتا ہے اس کا قول حق ہے اور اسی کے لئے بادشاہی ہے
هُوَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ فَإِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ
اور وہی ہے جو زندہ و مردہ کرتا ہے پس جب کسی امر کا فیصلہ کرے تو کہتا ہے ہو جا پس ہو جاتا ہے
ان تمام آیات سے واضح ہے کہ کن فیکون الله کا وہ حکم ہوتا ہے جو نیا ہو جس میں کوئی نیا بڑا کام ہونے جا رہا ہو جیسے اس کا ذکر تخلیق زمین و آسمان تخلیق آدم تخلیق عیسیٰ کے سلسلے میں بیان ہوا ہے