بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
میں نے اپنی بہن ریڈ روز کو ایک میسیج کیا تھا لیکن تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
طلاق پر جو ٹھریڈ پہلے بنایا گیا تھا وہ بحث در بحث کا شکار ہوگیا تھا اور اس میں بہت سے دوست شامل ہوگئے تھے۔ اور میں پہلے بھی اپنا خیال پیش کرچکا ہوں کے میں ایسی بحث کا حصہ نہیں بنتا جس میں وقت کا ضیاع اور گناہ لازم ہو اور انجام سوائے افراتفری اور شور شرابے کے کچھ نہ ہو۔
اسی وجہ سے میں نے اس ٹھریڈ میں پوسٹ کی تھی کہ اس مسلہ پر دوفریقین کے درمیان بات ہو اگر کوئی فریق مجھ سے بات کرنا چاہئے تو میں تیار ہوں۔ لیکن اس وقت کسی دوست کی طرف سے جواب نہیں ملا۔
بحالت مجبوری چند دلائل پر میں نے طلاق ثلاثہ پر ایک ٹھریڈ بنایا۔ جس میں میں نے کسی بھی فرقہ کو نہ نشانہ بنایا نہ کسی دوسرے کے اختلاف پر بات کی۔
چند دن بعد وہاں چئر فل بھائی آگئے اورا ایک حدیث کے ایک راوی کو ضعیف بتاکر پورے ٹھریڈ جس میں قرآن اور صحیح احادیث موجود تھی یہ تاثر دیا بقول چئر فل صاحب کہ: آپ نے اپنی جھوٹی باتیں اور عقائد ثابت کرنے کے لئے ضعیف حدیثوں کا سہارا لیا ہے الله کی پناہ, الله سے ڈر نہیں آپ کو ؟
اس قسم الفاظ کے سہارے سے میری پوسٹ کا مذاق اڑایا گیا اور پوری پوسٹ کو جھوٹا اور من گھڑت بتایا گیا۔ یہ طریقہ بالکل اخلاقی دائرہ کار کے خلاف تھا۔
میں نے اس کا جواب اس لئے نہیں دیا کہ اس طرح یہ معاملہ بحث در بحث کی طرف چلا جائے گا۔ لہذا میں نے چئر فل بھائی کو پورا موقع دیا جو ان کا حق تھا کہ وہ میرے دلائل کے رد میں مکمل پوسٹ جاری کرے اور ساتھ اپنا دعوی اور اس پر دلیل بھی اور مجھے بھی وقت دیا جائے۔
بہرحال اس ٹھریڈ کو کلوز کردیا گیا۔
بعض مسائل فرقہ پرستی پر مبنی ہوتے ہین جن پر بحث کسی صورت جائز نہیں اس سے سوائے نفرت، شدت اور اسلام کے مزاق کے سواء کچھ حاصل نہیں ۔
بعض مسائل علمی اختلاف پر مبنی ہیں اگر ایسے مسائل میں ضد اورشدت فریقین میں نہ پائی جاتی ہو تو ضرور اس پر بات کرنی چاہئے
لیکن نہ صرف اصول اخلاقیات پیش نظر رہے بلکہ جو بات ہو وہ اپنی طرف سے نہ ہو قرآن و سنت اور علماے امت کی تشریحات کے حوالے سے پوری ایماندار اور ذمہ داری سے ہو۔
طلاق کے اس مسلہ میں ایسا اختلاف نہیں ہے۔ کیونکہ اس پر صحابہ کرام اور تابعین کا اجماع ہوچکا تھا اور چاروں آئمہ اربعہ کا بھی اس میں متفق ہیں کوئی اختلاف نہیں۔ آٹھویں صدی کے شروع میں حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ان کے شاگرد ابن قیم رحمہ اللہ نے پہلی بار اختلاف کیا اور وہ بھی ایک رد عمل کے طور پر انہیں کے چند دلائل پر ہمارے یہ دوست اختلاف کی بنیاد رکھتے ہیں۔ انشاء اللہ اس پر تفصیلی گفتگو ضرور ہوگی اگر دو فریقین کے درمیان بات کی اجازت دی گئی۔
ایڈمن اور موڈریٹر صاحبان کی نگرانی میں یہ بحث ہونی چائے اور اس کے کچھ اصول مرتب ہونے چاہئے۔ پھر دونوں فریقین کا دعوی جاری ہونا چاہئے اس کے بعد اپنے مخالف کے دعوی کی مزید وضاحت کے لے کوئی فریق سوال کرنا چاہے تو سوال کیا جائے۔ پھر دونو فریق اپنے دعوی پر دلائل پیش کرے اس کے بعد طرفین کے دلائل پر دونوں فریق بحث کا باقاعدہ آغاز کرے۔
جو فیصلہ ایڈمن اور موڈریٹر صاحبان کا ہوگا مجھے منظور ہے۔
شکریہ دعاوں کی درخواست ہے
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
میں نے اپنی بہن ریڈ روز کو ایک میسیج کیا تھا لیکن تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
طلاق پر جو ٹھریڈ پہلے بنایا گیا تھا وہ بحث در بحث کا شکار ہوگیا تھا اور اس میں بہت سے دوست شامل ہوگئے تھے۔ اور میں پہلے بھی اپنا خیال پیش کرچکا ہوں کے میں ایسی بحث کا حصہ نہیں بنتا جس میں وقت کا ضیاع اور گناہ لازم ہو اور انجام سوائے افراتفری اور شور شرابے کے کچھ نہ ہو۔
اسی وجہ سے میں نے اس ٹھریڈ میں پوسٹ کی تھی کہ اس مسلہ پر دوفریقین کے درمیان بات ہو اگر کوئی فریق مجھ سے بات کرنا چاہئے تو میں تیار ہوں۔ لیکن اس وقت کسی دوست کی طرف سے جواب نہیں ملا۔
بحالت مجبوری چند دلائل پر میں نے طلاق ثلاثہ پر ایک ٹھریڈ بنایا۔ جس میں میں نے کسی بھی فرقہ کو نہ نشانہ بنایا نہ کسی دوسرے کے اختلاف پر بات کی۔
چند دن بعد وہاں چئر فل بھائی آگئے اورا ایک حدیث کے ایک راوی کو ضعیف بتاکر پورے ٹھریڈ جس میں قرآن اور صحیح احادیث موجود تھی یہ تاثر دیا بقول چئر فل صاحب کہ: آپ نے اپنی جھوٹی باتیں اور عقائد ثابت کرنے کے لئے ضعیف حدیثوں کا سہارا لیا ہے الله کی پناہ, الله سے ڈر نہیں آپ کو ؟
اس قسم الفاظ کے سہارے سے میری پوسٹ کا مذاق اڑایا گیا اور پوری پوسٹ کو جھوٹا اور من گھڑت بتایا گیا۔ یہ طریقہ بالکل اخلاقی دائرہ کار کے خلاف تھا۔
میں نے اس کا جواب اس لئے نہیں دیا کہ اس طرح یہ معاملہ بحث در بحث کی طرف چلا جائے گا۔ لہذا میں نے چئر فل بھائی کو پورا موقع دیا جو ان کا حق تھا کہ وہ میرے دلائل کے رد میں مکمل پوسٹ جاری کرے اور ساتھ اپنا دعوی اور اس پر دلیل بھی اور مجھے بھی وقت دیا جائے۔
بہرحال اس ٹھریڈ کو کلوز کردیا گیا۔
بعض مسائل فرقہ پرستی پر مبنی ہوتے ہین جن پر بحث کسی صورت جائز نہیں اس سے سوائے نفرت، شدت اور اسلام کے مزاق کے سواء کچھ حاصل نہیں ۔
بعض مسائل علمی اختلاف پر مبنی ہیں اگر ایسے مسائل میں ضد اورشدت فریقین میں نہ پائی جاتی ہو تو ضرور اس پر بات کرنی چاہئے
لیکن نہ صرف اصول اخلاقیات پیش نظر رہے بلکہ جو بات ہو وہ اپنی طرف سے نہ ہو قرآن و سنت اور علماے امت کی تشریحات کے حوالے سے پوری ایماندار اور ذمہ داری سے ہو۔
طلاق کے اس مسلہ میں ایسا اختلاف نہیں ہے۔ کیونکہ اس پر صحابہ کرام اور تابعین کا اجماع ہوچکا تھا اور چاروں آئمہ اربعہ کا بھی اس میں متفق ہیں کوئی اختلاف نہیں۔ آٹھویں صدی کے شروع میں حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ان کے شاگرد ابن قیم رحمہ اللہ نے پہلی بار اختلاف کیا اور وہ بھی ایک رد عمل کے طور پر انہیں کے چند دلائل پر ہمارے یہ دوست اختلاف کی بنیاد رکھتے ہیں۔ انشاء اللہ اس پر تفصیلی گفتگو ضرور ہوگی اگر دو فریقین کے درمیان بات کی اجازت دی گئی۔
ایڈمن اور موڈریٹر صاحبان کی نگرانی میں یہ بحث ہونی چائے اور اس کے کچھ اصول مرتب ہونے چاہئے۔ پھر دونوں فریقین کا دعوی جاری ہونا چاہئے اس کے بعد اپنے مخالف کے دعوی کی مزید وضاحت کے لے کوئی فریق سوال کرنا چاہے تو سوال کیا جائے۔ پھر دونو فریق اپنے دعوی پر دلائل پیش کرے اس کے بعد طرفین کے دلائل پر دونوں فریق بحث کا باقاعدہ آغاز کرے۔
جو فیصلہ ایڈمن اور موڈریٹر صاحبان کا ہوگا مجھے منظور ہے۔
شکریہ دعاوں کی درخواست ہے
Don
RedRose64