Waqeyat

  • Work-from-home

AJMERI11

Active Member
Apr 6, 2011
189
46
178
آج کا زمانہ سائنس کا زمانہ ہے . اس زمانے میں ہر چیز کی اصلیت جانچی پرکھی جاتی ہے . اسکی اجتمآیی طاقت پر نظر رکھی جاتی ہے . لیکن اس دور میں ایسے نادانوں کی کمی نہیں کہ جو سورج کی روشنی سے چمکنے والی ہر چیز کو سورج سمجھ لیتے ہیں . بیشک یہ نادان ہیں . لیکن پھر بھی ان سے عمید وابستہ ہے . یقین ہیں کہ یہ کبھی نہ کبھی ان چمکتی چیزوں کے ذریعے سورج تک رسایی کر ہی جیئے . لیکن سب سے زیادہ ناداں ، شاید کبھی بھی حق تک نہ پہنچنے والے وہ لوگ ہیں جو ان چمکتی اور صاف چیزوں کو دیکھ کر بھی نہیں دیکھتے . لہٰذا ضروری ہے کہ ان لوگوں کو یہ چمکتی ہی چیزیں دکھا کر انکی آنکھیں سورج کی طرف فیر دی جائے . اور سورج کا نور جب انکی آنکھوں کو بے نور کر دے یانی آنکھیں چندھیاں جائے تو شاید انہیں سورج کی موجودگی اور اسکی تابندگی کا احساس ہو سکے .

یہ بات عقل کے کچے اور ضد کے پکّے ایسے لوگوں پر صادق آتی ہے جو رسول-ا-پاک کی عظمتوں رفعتوں پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے آپکو اپنے جیسا بشر کہنے سے بعض نہیں آتے . ایسے لوگوں کو انو سے پرمانو کی طرف لے جانے کی ضرورت ہے . ایسے لوگوں کو جس دن رسول-ا-پاک کی غلامی میں بادشاہت نظر آنے لگ جائے گی اس دن وہ خود اپنے دل کی زبان سے که اٹھیں گے -
"محتاج کا جب یہ عالم ہے ،مختار کا عالم کیا ہوگا "

تو آئیے مختار کے عالم کا تصوّر کرنے سے پہلے محتاجوں کا عالم دیکھا جائے . اور دو تین چھوٹی چھوٹی مسالوں سے اسکی وضاحت کی کوشش کی جائے.

بات حضرت-ا-ابراہیم ادھم کے زمانے کی ہے . ایک خوںخار شیر نے لوگوں کو پریشان کر رکھا تھا . ایک دن وہ راستے پر ایسا آ کے بیٹھا کہ اٹھنا ہی بھول گیا . لوگ گھروں میں کید ہوکر رہ گئے . کچھ نے حمت کی اور چھپتے چھپتے حضرت ابراہیم ادھم کے پاس حاضر ہو کر سارا وقیہ بیان کیا . آپ فورن اٹھ گئے اور اس سمت روانہ ہو گئے جہاں شیر بیٹھا ہوا اپنے شکار کا انتظار کر رہا تھا . آپ بلا خوف-و-خطر شیر کے نزدیک پہنچے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالی اور فرمایا اے ! شیر اگر خدا کی طرف سے کسی پر حملہ کرنے کا حکم تجھے مل چکا ہے تو اپنا کام کر اور روانہ ہو جا . اور اگر ایسا نہیں ہے تو یہاں سے اٹھ اور اپنی راہ لے . یہ بات سنتے ہی شیر اپنی جگہ سے اٹھا . ایک نظر آپ پر ڈالی اور ایسا گیا کہ پھر کبھی واپس نہیں آیا .


شیروں کو گیدڑ بنانے والے اس قسم کے ہزارہا واقعات ہیں . فلحال صرف ایک وقیہ اور سن لیجئے . کسی ولی کو بادشاہ-ا-وقت نے شیر کے پنجرے میں ڈال دیا . ناظرین کانپ اٹھے . سوچا کام تمام ہوا . لیکن یہ کیا ؟ پنجرے میں عجیب منظر تھا . شیر خوشی سے اچھلتا کودتا آپکے قریب آیا . ادب سے سر جھکایا اور آپ کے تلوے چاٹنے لگا . بادشاہ کی آنکھیں کھل گی اور اسی کے ساتھ ہی پنجرے کی کنڈی بھی . ایک پل میں بادشاہ کو اپنی غلامی کا احساس ہو گیا . اور غلامانہ انداز میں وہ بادشاہ اپنے حقیقی بادشاہ کے قدموں میں لوٹتے ہوئے معافیاں مانگنے لگا . جب اسے معافی مل گی تو اسنے پوچھا کہ حضور ! جب شیر آپکے تلوے چاٹ رہا تھا اس وقت آپ کیا سوچ رہے تھے ؟ اور آپکے دل میں کیا خیال آ رہا تھا ؟

اپنے فرمایا - میں یہ سوچ رہا تھا کہ شیر کا تھوک پاک ہے یا ناپاک ؟ اور کیا اسکے چاٹنے سے میرے پیر ناپاک تو نہیں ہو گئے ؟


یہ تو ہوئی جانداروں کی بات . بیجان چیز کی غلامی اور فرماں برداری کا تذکرہ بھی ہو جائے . وقیہ حضرت-ا-فاروق-ا-عازم کے زمانے کا ہے . مصر فتح ہو چکا تھا . گویا مسلمان اس پر قبضہ کر چکے تھے . وہاں بہنے والی نیل ندی برسات کے موسم میں بڑی خطرناک ثابت ہوتی . اسمیں باڑھ آ جاتی تھی. پانی رک جاتا اور اس وقت تک آگے نہیں بڑھتا جب تک مصر والے کسی غیر شادی شدہ (کنواری ) لڑکی کی بلی نہیں چڑھا دیتے . فتح کے بعد جب حضرت امر بن آس کو اس بات کی آگاہی ہوئی اور پتا چلا کہ اس سال بھی کنواری لڑکی کو سجا سنوار کر ندی میں پھینکنے کی تیاری چل رہی ہے تو وہ بچیں ہو اٹھے . انہونیں فورن امیرل مومنین کو اسکی اتلا دی اپنے فرمایا شریعت کے خلاف کوئی کام نہیں ہونا چاہئے . ہم تمھیں ایک خط بھیج رہے ہیں . جب نیل ندی کا پانی ایک جگہ ٹھہر جائے اور کسی طرح آگے نہ بڑھ پے تو یہ خط اسمیں ڈال دینا . انشاء الله دریا کا پانی کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچاے بغیر آگے بڑھ جایگا ، اور پھر آپکے کہے مطابق ایسا ہی ہوا . برسات برسی . باڑھ آیی پانی رکا . افرا تفری مچی کنواری لڑکی سجایی سنواری گی . لڑکی کی چیخ پکار . ماں باپ کی ھاے توبہ . بہن بھائیوں کا رونا بلکھنا . رشتےداروں کی آہیں ، کراہیں ،فریادیں . سب نظر انداز کر دی گی . کچھ پتھر دل انسانوں نے ایک دوسرے کو اشارہ کیا . وہ آگے بڑھے لڑکی کے ہاتھ پیر پکڑے اور دریا کی طرف چل پڑے . لیکن دریا پر پہنچتے ہی روک دے گئے . امر بن آس وہاں موجود تھے ہاتھ میں بوسیدہ سے کاغذ کا ایک ٹکڑا . کیا ہے یہ ؟ خط . کسکے نام ؟ دریا کے نام . کیا ہوگا اس سے ؟ دریا کا پانی اتر جایگا . خطرہ ٹل جایگا . لوگ ہنسنے لگے . سوچا انکی دماغی حالت ٹھیک نہیں ہے یا پھر کوئی مزاک کر رہے ہیں .انہونیں پھر لڑکی کے ہاتھ پکڑے . دریا کی طرف اپنے کدم بڑھاے . لیکن یہ کیا امر بن آس نے لپک کر خط دریا میں ڈالا . دریا کے پانی میں ہلچل ہوئی . پانی نیچے اترنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ سازگار ہو گیا . سب حیران . پریشان . پوچھا آخر اس خط میں ایسا کیا لکھا تھا ہمارے امیرل مومنین نے ؟ آپنے عبارت کی نکل دکھایی . اسمیں لکھا تھا کہ اے ! نیل ندی کے پانی اگر تو خود ٹھہر گیا ہے تو یہ ٹھیک نہیں ہے . اور اگر تیرا چلنا خدا کے فرمانے سے ہے تو ہمیں تیری پرواہ نہیں . اور میں الله سے تیری درخواست کرتا ہوں کہ تو اپنے کدم کو سر بناے اور اپنا چہرہ زمین پر .مل کر پہلے کی طرح چلنا شروع کر دے

اب فرمائے ! جب رسول-ا-پاک کے غلاموں اور انسے وابستگی رکھنے والوں کی کرامات ، کمالات اور اختیارات کا یہ عالم ہے تو پھر رسول-ا-اکرم کے اختیارتو درجات کی حد کیا ہو سکتی ہے ؟


تعظیم کرنا سیکھو اپنے نبی سے ورنہ
کچھ بھی کرو رہوگے شیطان ہی کے چیلے
 
Top