R U Agree With This???

  • Work-from-home

Asif_Khan

* L0vE FoR ALL*
TM Star
Aug 9, 2013
4,804
1,987
263
In FrienDs HEART Always...
Main yahna kuch btany ki koshish kar raha hon jo main ny dekha or jo sochta hon..
jo tha main ny bta dia ap ap log btao k main theak bol raha hon ya galat .​
(2012)الحمد للہ قربانی ہوگئی


بکرے کٹے بھی اور تقسیم بھی ہوگئے۔ گھر گھر سے کلیجی اور بٹ کے پکوان کی خوشبو نے اعلان کیا کہ امّتِ ابراہیمی کے ہر فرزند نے مزے لے لے کر سنّتِ ابراہیمی کا لطف اٹھایا۔ حضرت ابراہیم کو تو بیٹھی جگہ فرشتوں نے دُنبہ پیش کر دیا اور بغیر کسی مشقّت کے انہوں نے ایک اکیلے بکرے کو ذبح کر دیا۔ لیکن فرزندانِ امتِ ابراہیمی کو دو دو اور چار چار بکرے ڈھونڈھنے، قصّاب کو لانے، اور پھرصاف صفائی میں جتنی محنت اور مشقّت سے دوچار ہونا پڑا یہ تو حضرتِ ابراہیم (علیہ السلام) کو بھی نہیں کرنا پڑا۔ اور نہ انہیں علماء سے پوچھنا پڑا کہ بکرے کی عمر کیا ہو، اسکا رنگ کیسا ہو، اسکی ٹانگ اور کان کیسے ہوں، اور نہ بی بی ہاجرہ کو گوشت صاف کرنے، اچھا والا گوشت سمدھاوے میں بھیجنے ، درمیانی گوشت رشتہ داروں میں اور کم درجے کا گوشت غریبوں کو دینے کیلئے پیاکٹس بنانے کی زحمت اٹھانی پڑی۔ اور نہ انہیں مسلمان بستیوں میں سے گزرتے ہوئے ناک پررومال رکھنے کی نوبت آئی جہاںقربانی کرکے اوجڑی ، خون اور غلاظت گلی میں پھینک دینامسلمانوں کیلئے ثواب میں شامل ہے۔ سلام ہو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر کہ جنہوں نے بیٹے کی قربانی پیش کردی اور ہمارے لئے اتنی آسان سنت چھوڑ گئے کہ ثواب کا ثواب بھی اور لذیذ گوشت کے مزے بھی۔
غیر مسلم بھی دیکھتے ہونگے تو حیرت میں پڑجاتے ہونگے کہ جس قربانی کو اللہ تعالیٰ

إن هذا لهو البلاء المبين
بے شک یہ سب سے بڑی آزمائش ہے
کہتا ہے۔ جس قربانی پر اللہ تعالیٰ

سلام على إبراهيم
یعنی ابراہیم پر سلام ہو
کہہ کر انکی قربانی کو سلام کرتا ہے۔ اور اسکو "ذبحِ عظیم" یعنی عظیم ذبیحہ قرار دیتاہے کیا وہ قربانی یہی ہیکہ اس کی یاد میں ہر سال لاکھوں جانوروں کا خون بہادیاجائے؟ ایک دو وقت کا مزے لے کردستر خوان سجایاجائے؟ جس قربانی کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

إني جاعلك للناس إماما
یعنی ہم آپ کو تمام انسانوں کی امامت اور قیادت یعنی لیڈرشپ بخشیں گے۔
اگر لاکھوں جانوروں کو ذبح کرنے سے دنیا کی قیادت مل سکتی تھی تو آج مسلمان چاہے وہ مسلم ملکوں کے تاجدار ہوں کہ دوسرے ملکوں کے خستہ حال، سارے کے سارے امریکیوں، یہودیوں یا ہندوؤں کے رحم و کرم پر نہ ہوتے۔ اگر اللہ تعالیٰ اس گوشت کی تقسیم پر سلام بھیجنے والا ہوتا تو نہ آج ہندوستانی مسلمان اخلاقی اور معاشی طور پر ہریجنوں سے بد تر ہوتے اور نہ پاکستانیوں پر دہشت گردی اور کرپٹ ہونے کے الزام ہوتے۔

اس کا سبب صرف ایک ہے ۔ وہ یہ کہ ہم جو ذبیحہ کررہے ہیں وہ تو الحمدللہ فقہی اعتبار سے مکمل سنتِ ابراہیمی پر مبنی ہے لیکن اس کی نیّت نیّتِ ابراہیمی و نیّتِ اسماعیلی نہیں۔ آپ کہیں گے یہ کون سی نئی نیّت ہے؟

جی نہیں۔ یہ کوئی نئی نیّت نہیں ہے۔ یہ قربانی کی اصل روح ہے۔ جو کچھ آپ کررہے ہیں وہ تو صرف ایک جسم ہے۔ جب تک اس میں روح نہ ہووہ جسم بے جان ہے۔ یہاں بخاری (رحمۃ اللہ علیہ) کی حکمت سمجھ میں آتی ہے جنہوں نے
"تمام اعمال کا دارومدار نیّتوں پر ہے "
والی حدیث کو سرِکتاب رکھا۔ جس وقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) چُھری پھیرنے لگے تھے اُس وقت اُن کے ، حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے اور بی بی ہاجرہ (علیہا السلام) کے ذہن میں جو عزم اور ارادہ چل رہا تھاوہ دراصل نیّت ہے جو قربانی کرنے سے پہلے آپ کے ذہن میں سچے دل سے چلنا چاہئے۔ یہ چیز اللہ تعالیٰ کے ہاں پہنچتی ہے۔ گوشت دنیا والوں کیلئے ہے اور نیّت اللہ تعالیٰ کیلئے ہے۔ اگر نیّت ہی نہ پہنچے تو زمین پر ایک جانور کا گلا کاٹ کر آپ نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے آپ کی زندگی میں کوئی انقلاب آئیگا۔

لن ينال الله لحومها ولا دماؤها ولكن يناله التقوى منكم كذلك سخرها لكم لتكبروا الله على ما هداكم وبشر المحسنين
سورہ الحج (22) ، آيت:37
یعنی "ا للہ تعالیٰ کے ہاں قربانی کا نہ گوشت پہنچتا ہے نہ اسکا خون بلکہ اسکے پاس تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے"۔

یہ تقویٰ ہی دراصل وہ نیت ہے جو چھری پھیرنے سے پہلے سچے دل سے نکلتی ہے۔ پتہ یہ چلا کہ جانور کو ذبح کرنا اصل سنّت نہیں بلکہ وہ نیت یا ارادہ اصل سنت ِ ابراہیمی یا سنّتِ اسماعیلی ہے جسکے بغیر ہم نے اگر دس دس بکرے بھی کاٹ ڈالے تو یہ اللہ کے ہاں پہنچنے والے نہیں۔ چونکہ یہ نیت فقہ کی کتابوں میں لکھی نہیں ہوتی اور نہ ہمارے مفتی سمجھاتے ہیں اسلئے یہ بات عجیب سی لگ رہی ہے۔ اصل سنت ایک مستحب بن گئی ہے۔
آیئے آئندہ سال کیلئے اس نیّت کو ابھی سے اپنے دل میں پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ جب یہ یقین ہوجائے کہ واقعی اس نیّت پر عمل کرنے کی ہمت ہے تو پھر قربانی کریں۔ قربانی صرف جانور کو ذبح کرنے کا نام نہیں۔ یہ تو اصل قربانی کے عمل کی آخری قسط یا Episode ہے ۔ قربانی کا بکرا لانے کیلئے بکرا مارکٹ جانے سے پہلے کچھ ہوم ورک بہت ضروری ہے ورنہ آپ کا حال اس طالبِ علم کا ہوگا جو اسٹیٹ کا Topper بننے کا ارمان تو رکھتا ہے لیکن بغیر اسٹڈی کیئے امتحان ہال میں پہنچ جاتا ہے۔ یہ دلیل پیش کرتا ہے کہ اسکا لباس، قلم، ہال ٹکٹ، وقت کی پابندی سب کچھ طریقے کے مطابق ہے، پرچہ بھی اسکا صاف ستھرا ہے۔ لہذا اسکو پورے نمبر ملنے چاہئے۔

بکرا خریدنے کا پہلا مرحلہ:
اگر آپ نے قربانی دینے کا تہیّہ کرلیا ہے تو گھر سے نکلنے سے پہلے ذرا گھر کے اندر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرح مانباپ کے عقیدے اور آمدنی پر نظر ڈالنی ہوگی۔اگر گھر میں ناجائز کاروبار کی آمدنی آرہی ہو، رشوت، زمینوں پہ قبضے، جھوٹ اور فریب سے کمائی میں اضافہ ہورہاہو، جہیز کا مال جو کہ لڑکی کے باپ سے سسٹم کے نام پر وصول کیاگیاہو، اللہ اور اسکے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی کھلی نافرمانی ہوتی ہو تو بکرا خریدنے سے پہلے گھر والوں کو سمجھانافرض ہے۔جب کوئی نہ مانے تو گھر چھوڑدینا سنّتِ ابراہیمی ہے۔ یہ ہے بکرا مارکٹ چلنے کا پہلا مرحلہ۔

دوسرا مرحلہ :
پھر محلے اور شہر والوں کو دینِ حنیف یعنی ایک اللہ کی بندگی کی دعوت دینا۔ اور اس بات کیلئے تیار رہنا کہ آپ کو سزائے موت بھی دی جاسکتی ہے۔ آپ کو قدم قدم پر قانون کا خوف، گھر اور شہر سے نکال دیئے جانے کا خوف، بچوں کے مستقبل کا خوف راستہ روکیں گے۔ لیکن اگر آپ جانور کی قربانی دینے پر بضد ہیں تو یہ سب آپ کونہ صرف برداشت کرنا ہے بلکہ اسکا مقابلہ کرنا ہے۔ ضرورت پڑے تو گھر، محلہ، شہر اور ملک بھی چھوڑنا ہے۔ یہ ہے بکرا مارکٹ کے راستے کا دوسرا مرحلہ۔

تیسرا مرحلہ:
اب اولاد رکاوٹ بنے گی۔ یہ سب سے اہم مرحلہ ہے۔ انسان اولاد کی محبت میں، مانباپ کی محبت میں سب کچھ کر سکتا ہے۔ اگر ہم سوتے ہوئے اپنے اپنے اعمال کا احتساب کریں تو پتہ چلے گا کہ ہمارے %90 بداعمالیاں صرف اس اولاد کے اچھے مستقبل کی خاطرسرزد ہوی ہیںجسکی خاطر ہم اللہ اور اسکے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا کوئی بھی حکم ٹال سکتے ہیں۔ انکار تو نہیں کرتے لیکن جانتے بوجھتے وہ حکم ٹال کر دل میں یہ نیت کرلیتے ہیں کہ اللہ معاف کرنے والا ہے۔ بعد میں کوئی وظیفہ یا درود و سلام پڑھ کر، خیرات زکوٰة دے کر، نفل عمرے و حج کرکے یا کسی بزرگ کی درگاہ پر حاضری دے کر یا میلادالنبی خوب دھوم دھام سے مناکر اللہ اور اسکے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو منالیں گے۔انہیں ایسے مولوی بھی آسانی سے مل جاتے ہیں جو شفاعت اور مغفرت کے ایسے ایسے Shortcut وسیلے فراہم کرتے ہیں کہ علماءبھی دنگ رہ جاتے ہیں۔ شریعت منہ دیکھتی رہ جاتی ہے۔ ان کا ایمان اس بات پر پختہ کردیاجاتاہےکہ گنپتی یا کاشی کی پوجا کرنے والوں کی طرح جانتے بوجھتے اللہ کی نافرمانی کرو،مصلحت یا مجبوری کے بہانے جھوٹ بولو، جوڑا جہیز وصول کرو، رشوت کھاو اور کھلاو، اپنی اور اپنے خاندان کی عزت، کیلئے جیسا چاہو ذریعہ آمدنی اختیار کرو، پڑوسی، عزیز و اقارب کو اگر تکلیف ہوتی ہے تو ہونے دو۔جھوٹے سچے مقدمات جاکر بجائے علماءسے فیصلے کروانے کے، غیروں کی عدالتوں میں لڑو، سیاسی مقام پیدا کرنے کیلئے جائز ناجائزکے فرق کو فراموش کرو، پھرفلاں فلاں عمل کرلو اللہ تعالیٰ معاف فرمادیںگے۔حالانکہ قرآن و حدیث یہ خوشخبری د یتے ہیں کہ اگر بندہ سچے دل سے توبہ کرلے اور حقوق العباد کا حق ادا کردے تو اسکے بڑے سے بڑے گناہ معاف کردیئے جائینگے اور اسکو جنّت عطا کردی جائیگی۔ لیکن سچی توبہ سے فرار کے بھی کئی فلسفے لوگوں کے پاس موجود ہیں۔

بکرا خریدنے کا یہ تیسرا مرحلہ بہت سخت ہے۔ اولاد کو اللہ کے حکم کے آگے ذبح کرنا تو درکنارانسان اولاد کو ایک کانٹا بھی چبھے یہ برداشت نہیں کرسکتا۔ اور اگر کوئی عزم کربھی لے تو شیطان آکروہی کہتا ہے جو ابراہیم (علیہ السلام)، اسماعیل (علیہ السلام) اور بی بی ہاجرہ (علیہا السلام) سے کہتا تھا جسے سن کر انہوں نے کنکریاں دے ماریں ۔ آج بھی وہ ایک سچے مسلمان باپ سے کہتاہے " دوسرے سارے احکام تو پورے کرہی رہے ہیں۔ داڑھی رکھی ہے، بیوی پردہ بھی کرہی لیتی ہے۔ نماز ، روزہ، زکوٰة سب کچھ تو ادا کرتے ہی ہیںبعض معاملات میں اگر اولاد کی خاطر سمجھوتہ بھی کرنا پڑے تو برائی کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا ہے"۔ اُدھر جاکر اولاد کے دل میں یہ وسوسہ ڈالتاہےکہ "تمہارا باپ اپنی مرضی چلانا چاہتاہے چاہے اولاد کا مستقبل تباہ ہوجائے"۔ اور اُدھر بیوی کو جاکر یہ بھڑکاتاہے اور کہتا ہے "تمہارے شوہر کو بس دین معلوم ہے، دنیا کیا معلوم۔ اولاد کیلئے لوگ کیا نہیں کرتے لیکن ایک یہ آدمی ہیکہ غیر ذمہ دار اور لاپروا ہے۔ تم اسکی ایک بات بھی نہ سننا۔ وہی کرنا جو اولاد کیلئے بہتر ہو۔ اگر شوہر ناراض بھی ہوگا تو تھوڑی دیر غصّہ کرے گا اور پھر چپ ہوجائیگا"۔
شیطان کی اس طاقتورچال سے بچ کر نکلنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ اگر آپ اس سے نکل سکتے ہیں تو چلئے اب بکرا خریدیئے۔ اور چُھری چلاتے ہوئے یہ دل میں ٹھوس نیّت کیجئے۔

ایک باپ کی نیّت یوں ہوگی: اے اللہ تیرے حکم کے آگے گھر، مانباپ، شہر اور ملک ہی نہیں اگر اولاد کو بھی چھوڑنا پڑے تو چھوڑ دونگا، تیر ی مرضی کے آگے اگراولاد کو اس بکرے کی طرح قربان بھی کرنا پڑے تو کردونگا بسم اللہ اللہ اکبر۔۔۔۔

ایک بیٹے یا بیٹی کی نیّت یہ ہوگی: اے اللہ، تیری رضا کیلئے اپنی جان بھی لٹادینگے ۔ اگر تیرا حکم ہےکہ والد کی فرمانبرداری میں اپنا گلا بھی ذبح کرنے کیلئے پیش کردوتو اسماعیل (علیہ السلام) کی طرح پیش کردینگے ۔ بسم اللہ اللہ اکبر۔۔۔۔۔۔۔

ایک بیوی کی نیّت: اے اللہ تیری رضا کی خاطر شوہر کی خواہش یا حکم کے آگے سرِ تسلیم خم کردونگی۔ تیرے حکم پر اگر وہ اولاد کو بھی قربان کردینے کا ارادہ کرلے تو میں شیطان کا نہیں اسکا ساتھ دونگی۔ بسم اللہ اللہ اکبر۔۔۔۔۔۔۔

جب یہ قربانی کا گوشت گھر گھر پہنچ جائیگا تو یہ اعلان ہوجائیگا کہ اس آدمی نے عہد کرلیا ہے کہ وہ اللہ کے حکم کے آگے اولاد کو بھی قربان کرسکتاہے۔ جب اولاد کی بھی وہ پروا نہیں کرے گا تو دوسرے کس شمار میں۔ اسلئے اب اس آدمی پر اعتبار کیا جاسکتاہےکہ وہ انصاف کرے گا، کبھی جھوٹ دھوکہ فریب رشوت اور ناجائز کمائی کا سہارا نہیں لے گا۔اگر ہر باپ کا یہ اعلان گھر گھر پہنچے گا تو کیسے ممکن ہے کہ معاشرہ میں برائیاں پنپیں، لوگ اولاد کی خاطر اللہ کی نافرمانی کریں؟

جب یہ گوشت گھر گھر پہنچے گا تو لوگوں کو معلوم ہوجائے گا کہ اس شخص نے اپنے والد کی فرمانبرداری کا اعلان کر دیا ہے۔ جسطرح اسکے والد پر اعتبار کیا جاسکتاہے اس پر بھی اعتبار کیاجاسکتاہے۔ جب یہ اعلان گھر گھر ہو توپھر کیسے ممکن ہے کہ اولاد آوارہ نکلے، والدین کا دل دکھائے۔ والدین کے دین اور تہذیب کو چھوڑ کر کسی اور راستے پر نکل پڑے؟لوگ جوڑا جہیز کو جائز سمجھیں، بہویں اپنے شوہروں کو لے کر ساس سسر سے علہٰدہ ہوجائیں اور ان بوڑھوں کی عزتِ نفس کو تکلیف پہنچے؟

جب یہ گوشت دوسری عورتوں تک پہنچے گا تو یہ اعلان ہوجائیگا کہ یہ عورت اپنے شوہر کو خدا کے بعد کا درجہ دینے والی ہے۔ اسکے ہر حکم پر اپنی جان اور اپنی اولاد کو بھی قربان کرڈالنے والی ہے۔ اگر بیوی ابرا ہیم کی اہلیہ حضرت بی بی ہاجرہ (علیہا السلام) کے نقشِ قدم پر ہوکہ جب ابراہیم (علیہ السلام) نے انہیں مکہ میں جبکہ مکہ تعمیر بھی نہیں ہوا تھا ایسی جگہ تنہا چھوڑا اور واپس پلٹے تو وہ ایک بیوی کے صبر اور اللہ کی اطاعت کا عظیم ترین امتحان تھا۔
اس عظیم بیوی نے یہ بحث نہ کی کہ کس کے بھروسے چھوڑ کر جارہے ہو، اناج، پانی اور گھر کا انتظام کئے بغیر کسطرح جاسکتے ہو۔ صرف اتنا پوچھا کہ "کیا یہ اللہ کا حکم ہے؟"۔ جواب ہاں میں سننے کے بعد انہوں نے فوری سر جھکا دیا۔

ہر وہ عورت جس کے نام کی قربانی آج ہوتی ہے اگر وہ بھی بی بی ہاجرہ (علیہا السلام) کی نیت کرے اور شوہر اور اسکے خدا پر ایسا ہی اعتماد و یقین پیدا کرلے تو پھر کیسے ممکن ہے کوئی بیوی شوہر سے بحث یا حجّت کرے، اسکی مرضی جانتے ہوئے بھی اسکے خلاف کرکے بچوں کو یہ سبق دے کہ گھر میں صرف ماں کی چلتی ہے باپ کی نہیںباپ تھوڑی دیر پکارے گا اور پھر چپ ہوجائگا۔ لہٰذا باپ کی خواہش کو نظر انداز بھی کیاجا سکتا ہے ۔ جس گھر میں بیوی شوہر سے بحث کرنے والی ہو ، شوہر سے اونچی آواز میں غصہ دکھانے والی ہو، ہر بات میں شکایت اور طنز کرنے والی ہو اس گھر میں کبھی برکت نہیں ہوتی، اولاد نافرمان نکلتی ہے۔ اور پھر ان کی اولادیں بھی ان کی نافرمان نکلتی ہیں۔
شائد اسی لئے جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) مکہ تشریف لائے اور بہو سے ملے، خیر خیریت پوچھی تو بہو نے بجائے صبر و شکر و قناعت کا جواب دینے کے، شوہر اور حالات کی ناشکری بیان کی۔ طنز و شکایت بیان کرنے لگی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بیٹے کو مشورہ دیا کہ چوکھٹ بدل دیں۔ یعنی اس بیوی کو چھوڑ دیں۔ اسماعیل (علیہ السلام) نے ایسا ہی کیا۔ جب اگلی بار ابراہیم (علیہ السلام) مکہ تشریف لائے اور دوسری بہو سے خیر خیریت پوچھی تو انہوں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور ہر حال میں قناعت اور شوہر کی فرمانبرداری کا اظہار کیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے انہیں دعا دی۔ اور آپ جانتے ہیں کہ بی بی ہاجرہ (علیہا السلام) اور ان کی فرمانبردار بہو کی کوکھ سے پیغمبروں کی نسل چلی۔ یہی اللہ تعالیٰ کا انعام ہوتا ہیکہ جب بیویاں ہر معروف میں اپنے شوہر کی بلا چوں و چرا اطاعت کرتی ہیں وہ جن حالات میں رکھیں خوش رہ کر شوہر کو بھی خوش رکھتی ہیں اللہ تعالیٰ ان کے گھروں میں نہ صرف برکتیں نازل فرماتا ہے بلکہ ان کی گودوں سے صالحین پیدا ہوتے ہیں۔

مختصر یہ ہیکہ بکرے کی قربانی تو محض ایک علامت یا Symbol ہے اس قربانی کے جذبے کا جسکے نتیجے میں پورا گھر، معاشرہ اور ملک بدل جاتاہے۔ ایک انقلاب آجاتاہے۔ دنیا خود آگے بڑھ کر ایسے باپ، ایسی اولاد اور ایسی بیوی کو قیادت پیش کرتی ہے۔یہی لوگ سیاست، سماج، معیشت اور تہذیب کے اصلی قائد کہلانے کے لائق ہوتے ہیں۔ اور اگر اس نیتِ ابراہیمی اور نیتِ اسماعیل (علیہ السلام) اور نیتِ ہاجرہ کے بغیر ذبیحے ہوتے رہے تو انقلاب تو کوئی نہیں آئیگا۔ البتہ اس قوم کا سیاسی ، سماجی، معاشی اور تہذیبی وجود آج جتنا بدتر ہے اسکی بدتری میں اور اضافہ ہوتاجائیگا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے۔ آیئے ہم عہد کریں کہ آئندہ سال کے بکرے کی خریدی کی تیاری ہم آج ہی سے شروع کرتے ہیں۔ ان شاءاللہ۔
 

Bela

~*~A|!c3 in w0nd3r|@nd~*~
Active Member
Feb 4, 2010
5,975
3,851
1,113
Madrid, Spain
ye sab me pehle bhi parh chuki hu..... or mujhy esa lagta ha qurbani isi neyat se hoti ha
q k jb qurbani ho jati ha tb jo feeling hoti ha wo bht real hoti ha.....
or mere khayal me agr neyat thek nai ho to ye sachi si khushi nai mil sakti
 

RoOMi

TM Star
Aug 11, 2009
3,937
1,809
713
Faisalabad
JAZAK ALLAH....................../
Qurbani Dehkway Ka NAm Ni Hy...
Or Jo Dehkwa Krta Hy Us Ki Qurbani Bhi Regain Jati Hy....
Ye To Is Leye Hy K RAB k leye apni aziz tareen chez ki qurban ker dyna...
Isi leye To ALLAH PAK ko ye amal boht pasand aya tha....
Or Hamriiiiiiiiiiii Niyat Thik Ho Gi To Qurbani qabool ho gi...
 
Top