غم کا بادل
غم کا بادل تری زلفوں سے گھنیرا نکلا
سایۂ ابر بھی قسمت کا اندھیرا نکلا
سو گئے چاند ستارے تو اُجالا جاگا
چل دیئے ہجر کے مارے تو سویرا نکلا
اپنا گھر چھوڑ کے جانا کوئی آساں تو نہیں
ہاتھ ملتا مرے آنگن سے اندھیرا نکلا
نیند نے لوٹ لیے خواب خزانے میرے
جس کو آنکھوں میں بسایا تھا ُلٹیرا نکلا
ٹوٹ کر ظلم کی دیوار زمیں بوس ہوئی
چاند جب توڑ کے ظلمات کا گھیرا نکلا
میں تو سمجھا تھا کہ ویران ہے دل کی بستی
اس خرابے میں بھی اِک وہم کا ڈیرا نکلا
شہر چھوڑا تھا تجھے دل سے بھلانے کے لیے
قریہ قریہ تری یادوں کا بسیرا نکلا
ایک دشمن جو ملا ہے تو میں کتنا خوش ہوں
شہرِ احباب میں اِک شخص تو میرا نکلا
دل کو ہمدرد سمجھ رکھا تھا عاجزؔ میں نے
کیا قیامت ہے یہ بے درد بھی تیرا نکلا