اردوئے معلّیٰ
نجم الدولہ، دبیر الملک، مرزا نوشہ اسد اللہ خان بہادر نظام جنگ المتخلص بہ غالب
۱۹۰۸ء
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نجم الدولہ، دبیر الملک، مرزا نوشہ اسد اللہ خان بہادر نظام جنگ المتخلص بہ غالب
۱۹۰۸ء
بسم اللہ الرحمن الرحیم
---1
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟
“نماز مومن کی معراج ہے ” یہ جملہ کچھ اتنے تواتر اور تسلسل سے دہرایا جاتا ہے کہ کبھی کسی نے اس کے مطلب پر غور کرنے کی کوشش نہیں کی۔ غور کیا ہوتا تو شاید میری طرح کسی اور نے بھی وہی سوچا ہوتا جو میں نے سوچا۔ یہاں اپنے نمازی ہونے کا ڈھنڈورا پیٹنا مقصود نہیں ، صرف یہ واضح کرنا ہے کہ میں نے بھی بہت عرصہ نمازیں پڑھیں۔ مگر آج تک مجھے تو کوئی معراج نصیب نہ ہو سکی۔ اور تقریباً جتنے نمازیوں کو میں جانتا ہوں ان کے بارے میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ان کا دامن بھی میری طرح خالی ہے۔ پھر یہ جملہ گھڑنے والے کو کیا سوجھی۔۔۔۔ ؟؟ اس نے کس برتے پر اتنی لمبی چھوڑی۔۔۔۔ ؟؟
مگر جب غیر جانبداری سے سوچا اور اپنے گریبان میں جھانکا۔ تو مجھ پر اس جملے کی سچائی اور اپنی نمازوں کا کھوکھلا پن خوب واضح ہو گیا۔
حدیث نبوی ﷺ کے مطابق احسن نماز وہ ہے۔ جو اس طرح ادا کی جائے کہ” نمازی کو پختہ یقین ہو کہ میں اللہ کی بارگاہ میں ہوں اور اللہ مجھے دیکھ رہا ہے۔ میں اسے دیکھ رہا ہوں۔ ” انسان بہت جلد باز ہے ، اور اس پر مستزاد اپنے عقیل ہونے کے زعم میں مبتلا ہے۔ میری ہی مثال لے لیجیئے۔ میں نے اپنی نمازوں کی کیفیت و حقیقت پر نظر ڈالے بغیر فوراً سے بھی پیشتر اس معراج والے جملے کو جھٹلانے پر کمر باندھ لی۔
جیسے نماز ایک تحفہ ہے جو اللہ نے اپنے مسلمان بندوں کو عطا کیا ہے۔ اسی طرح غالب بھی ایک انمول تحفہ ہے جو اللہ نے اپنے اردو بولنے والے بندوں کو دیا۔ اس تحفے کی جامعیت اور ہمہ گیری دیکھیئے۔ یہ صرف مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ ہر اس انسان کے لئے ہے جو اردو بولتا ہے یا کم از کم اردو سمجھ سکتا ہے۔ صرف اردو ہی کیوں غالب تو خود فرماتے ہیں :۔ “بنی آدم کو، مسلمان ہو یا ہندو یا نصرانی عزیز رکھتا ہوں اور اپنا بھائی گنتا ہوں۔ دوسرا مانے یا نہ مانے۔ ” لیکن یہاں چونکہ بات اردوئے معلیٰ ٰ کی ہے تو ہم صرف اردو والا پہلو مد نظر رکھتے ہیں۔ جب لارڈ میکالے نے مشرقی ادبیات کا مذاق اڑایا کہ مغربی ادب کے شاہکاروں سے بھری الماری کا ایک تختہ مشرقی ادبیات کی پوری لائبریری سے زیادہ وقیع ہے۔ تو اس وقت مشرق کے وقار اور پندار کا سہارا بنا دیوانِ غالبؔ۔
جب اقبال اور ڈاکٹر بجنوری نے غالب کو گوئٹے کے مقابل نہ صرف کھڑا کیا بلکہ غالب کا قد گوئٹے سے کچھ نکلتا ہوا ثابت کیا۔ اور شیکسپئر مشرق کے حیوانِ ظریف سے پیچھے رہ گیا تھا۔ یہ وقار صرف غالب کو ہی نہیں بلکہ غالب کے ذریعے پورے غلام مشرق کو ملا۔ اس کی پوری تہذیب کو ملا۔ گویا غالب ہمارے قومی پندار کا محافظ اور غلام مشرق کی سرفرازی کا نشان ہے۔
اور ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری کہہ اٹھے :۔ “ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہیں۔ ایک مقدس وید دوسرا دیوانِ غالب۔ “
مذکورہ بالا سطور کو بہت آسانی سے صرف “غالب کے طرفدار ” کہہ کر جھٹلایا جا سکتاہے۔ اور اسی آسانی سے اپنی سطحیت اور جہولت کا ثبوت دیا جا سکتا ہے۔
میں یہ نہیں کہتا کہ دیوانِ غالب یا اردوئے معلیٰ کسی نے نہیں پڑھے۔ مگر جیسا پڑھنے کا حق ہے ویسا یقیناً بہت کم لوگوں نے پڑھے۔ وہی فرق جو نماز والی مثال میں مَیں واضح کر آیا ہوں یہاں بھی ملحوظِ خاطر رہے تو کوئی بعید نہیں کہ کسی کو وہ غالبیانہ معراج نصیب نہ ہو جو مجھے یہ پڑھنے سے نصیب ہوئی۔
خود جنابِ مرزا نوشہ فرماتے ہیں
بخشے ہے جلوہ گل ذوقِ تماشا غالب
چشم کو چاہیے ہر رنگ میں وا ہو جانا
قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے ، اور جزو میں کُل
کھیل لڑکوں کا ہوا، دیدہ بینا نہ ہو ا
اس کتاب کو پڑھنے کا احسن طریقہ یہ ہے کہ آپ محسوس کریں کہ آپ غالب کے سامنے بیٹھے ہیں۔ وہ آپ کو دیکھ رہے ہیں اور آپ انہیں دیکھ اور سن رہے ہیں۔ پھر یہ خاکسار گارنٹی اور ضمانت دیتا ہے کہ آپ کی بہت سی غلط فہمیاں دور ہوں گی۔ آپ پر غالب کے بہت سے ان دیکھے اور ان سنے رنگ آشکار ہوں گے۔ دل کے صنم خانے میں دھرے بہت سے بت منہ کے بل گر جائیں گے۔ اور کوئی بعید نہیں کہ آپ بھی خود کو انا الحق کا نعرہ لگانے پر مجبور پائیں۔ لیکن اگر آپ محض اپنی مطالعہ شدہ کتب کی فہرست میں اضافے کی خاطر پڑھ رہے تو آپ ناحق اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ اس کتاب میں آپ کے کام کی کوئی چیز نہیں ہے۔
اس کتاب کو کمپوز کرتے وقت میں متن میں اپنی طرف سے کوئی کمی بیشی کرنے کا گناہگار نہیں ہوا۔ ہاں البتہ بعض الفاظ کی جدید املا قوسین میں ساتھ ہی لکھ دی۔ اور قارئین کو حواشی کے اضافی بوجھ سے سبکدوش کرنے کی کوشش کی ہے۔ جہاں جہاں مجھے غلطیاں نظر آئیں ان کا تذکرہ میں نے کتاب کے آخر میں کرنے کی بجائے “انصاف دہلیز پر ” کے اصول کے تحت وہیں قوسین میں ذکر کر دیا ہے۔
شہادت ہے مطلوب و مقصود ِ مومن
نہ مالِ غنیمت، نہ کشور کشائی
یہ کتاب بھی اسی جذبے کے تحت کمپوز کی گئی۔ اس سے کسی قسم کی نمود و نمائش یا ذاتی مفاد مطلوب نہیں۔ یہ صرف ایک عظیم زبان اور ایکعظیم انسان اور استاد کو ایک ہیچمداں شاگردی کے دعوے دار کا چھوٹا سا خراجِ تحسین ہے۔ اور اپنے جیسے بے شمار قتیلانِ غالب کی خدمت میں ایک برادرانہ نذرانہ ہے۔
گر قبول افتد زہے عز و شرف
احقر العباد:۔ سید اویس قرنی المعروف بہ چھوٹا غالب
دیباچہ
من تصنیف شاعر شیریں مقال ناثر عدیم المثال جناب میر مہدی صاحب المتخلص بہ مجروح شاگرد رشید جناب مرزا اسد اللہ خان غالب مد ظلہم
ستایش داور جہاں آفرین آسان نہیں کیونکر بیان ہو اور نعت سید المرسلینﷺ مشکل ہے زبان کیا مرد میدان ہو وہ دریائے ذخار ہے یہ محیط ناپیدا کنار ہے۔ وہاں ذہن نا رسا اور فہم بے سروپا یہاں عقل معترف بعجز و قصور و خرد ناچار و مجبور۔ پھر اس صورت میں قلم مقطوع اللسان کیا نگارش کرے سوائے اس کے کہ اصل مطلب گزارش کرے اور وہ یہ ہے کہ سخنورانِ خرد پیشہ اور خرد مندانِ درست اندیشہ خوب جانتے ہیں کہ ہمیشہ سے کلام عرب کی شیرینی اور زبان عجم کی نمکینی گوش زد خاص و عام ہے اور ہر عقیل و فہیم اسی بات پر متفق الکلام ہے۔ مگر یہ جو زبانِ اردو نے ہندوستان میں رواج پایا ہے یہ بھی ترکیب کی خوبی اور حسن کی اسلوبی میں انہی زبانوں کے ہم پایہ ہے۔ اگر فصحائے عرب و عجم کماحقہ اس زبان کی ماہیت پر عبور پائیں تو اپنی زبان سے زیادہ اس کی تحسین فرمائیں ہر چند ابتدائے رواج سے ہر عہد میں کاملانِ عصر اس معشوقہ خرد فریب کی آراستگی و پیراستگی میں سعی فراواں اور کوشش بے پایاں کرتے آئے ہیں مگر بفعل اس زمانہ میں اس زبان کی خوبی کا یہ مرتبہ پہنچا ہے کہ بیان سے باہر ہو گیا ہے اب یہ بدرِ انور بدرجہ کمال ہے آگے بیمِ زوال ہے خصوصاً زبانِ اہلِ دہلی کہ اردوئے معلی بولنا ان کا حصہ ہے۔ ہر چند بعض حضرات کو اس بات کا غصہ ہے مگر جو صاحب کہ فہمِ سلیم و ذہنِ مستقیم و طبع رسا و مزاجِ آشنا رکھتے ہیں وہ اس امر کو مان جانتے ہیں معوج الذہن و کج رائے یوں ہی باتیں بتاتے ہیں بھلا دہلی کا اس قدر کیونکر نہ مرتبہ ہو جب اس عدیم النظیر کا یہ شہر مینو بہر مسکن و ماوا ہو جس کی طبع و قاد نے عقدہائے معانی کو وا کیا ہے جس کے ذہن نقاد نے پست٭ (کتاب میں پُشت لکھا ہے :۔ چھوٹا غالب) و بلند شاہراہِ سخن کو ہموار و مصفا کیا ہے۔ فصاحت اگر لعل ناب ہے تو وہ اس کی آب و تاب ہے اور بلاغت اگر گوہر بے بہا ہے تو وہ اس کی آبروئے گوہر فزا ہے۔ معنی اگر گل ہے تو وہ اس کی شمیم روح فزا ہے اور سخن اگر آئینہ ہے تو وہ اس کی صیقل جلوہ نما ہے۔ اس کا سینہ بے کینہ نکات حکمیہ کا گنجینہ اس کا قلب با صفا اسرارِ علمیہ کا دفینہ شعرو شاعری کی اس ذات نے رونق بڑھائی ہے اردو نے اس کی زبان پر گزر کر عزت پائی ہے جس قدر تعریف کہ برمز و ایما ہے یہ جناب نجم الدولہ دبیر الملک نواب اسد اللہ خان صاحب غالب تخلص کی ذاتِ با برکات کی خوبیوں کا ایک ادنی شمّہ ہے
؎ میرا اُ ستاد کہ ہے جس کا سخن عالمگیر
ہے ظہوری کا ظہور اور نظیری کا نظیر
حضرت کا جو سخن ہے وہ دُرِ عدن ہے جو بات ہے از رہِ معنی کرامات ہے۔ یہ نثر کی رنگینی، یہ نظم کی شیرینی، یہ غزل کی فصاحت، یہ قصیدہ کی متانت، یہ لفظوں کی محبوبی، یہ ترکیب کی خوش اسلوبی، یہ جدتِ معانی، یہ طلاقتِ لسانی، یہ سلاستِ عبارت، یہ روانی مطالب دیکھی نہ سنی سطریں ہیں کہ موتی کی لڑیاں ہیں۔ یہ باتیں ہیں کہ مصری کی ڈلیاں ہیں۔ نثر نثرہ نثار پر نظم انجم قربان۔ حسن تقریر پر تحریر شعاع سے نثار کرنے کو آفتاب زر بداماں۔ گفتارِ شکر بار کو جادو کہوں سحر کہوں حیران ہوں کیا کہوں۔ لاحول ولاقوۃ کیا سودائیوں کی باتیں کرتا ہوں کیا جادو ہے کیا سحر کا اثر ہے۔ گفتار اعجاز طراز کے رشک سے ہندوستان میں نہ جادو ہے نہ سحر ہاں بابل کے کسی کونے میں چھپا ہو تو کیا خبر ہے بھلا اس عبارتِ فصاحت نشان کا کیا وصف بیان ہو جس کی صفائی استعارات کی خجلت سے دُرِ شہوار پانی پانی۔ جس کی رنگینی فقرات سے جگر خون لعل رمانی۔ نہیں نہیں یہ ستایش کچھ سرمایہ نازش نہیں۔ کیا موتی کیا لعل ان کی وجہ قدر و مقدار یعنی آب و تاب اندک تغیر میں نایاب ہے۔ اور یہ قیامت تک یکساں۔ تہیدستانِ سرمایہ سخن کو فیض رسانِ عبارتِ متین کی کیفیت دیکھ کر جامی تو کیا افلاطون خم نشین کے نشے ہرن ہوتے ہیں اور اس کے ادراکِ غوامض میں اپنی عقل و خرد کھوتے ہیں جہاں ایسے ایسے سرخوشان خمستانِ معنی جرعہ خوار بادہ گفتار اور نشہ حسنِ بیان سے سرشار ہوں پھر ہم سے نارسیدہ اس پختگی مطالب کو کیا پائیں کہاں سے ایسی قوتِ متخیلہ لائیں سوائے اس کے کہ یہ راہِ باریک دیکھ کر قدم لڑکھڑائیں اور اپنی نا فہمی پر عرقِ انفعال میں غوطہ کھائیں۔ مگر افسوس کہ اس جنسِ گراں ارز کا کوئی خریدار نہ ہوا اور اس یوسفِ مصرِ سخندانی کا کوئی طالبِ دیدار نہ ہوا۔ حضرت کا ظہور حضرت اکبر شاہ کے عہد میں ہوتا شاہ عباس دارائے ایران کے عصر میں ہوتا۔ نظیری اپنا نظیر دیکھ لیتا۔ ظہوری کو فنِ شعر میں اپنا حریفِ غالب نظر آ جاتا۔ خیر اب ہم یوں دل خوش کرتے ہیں کہ اگر حضرت اس وقت میں زینت بخشِ جہان ہوتے تو ہم کہاں ہوتے یہ ہمارے طالع کی خوبی یہ ہماری خوش نصیبی کہ ایسے منتخب روزگار کے جمالِ با کمال سے مقتبنس انوارِ فیض ہوئے اور شرفِ قدم بوسی سے بہرہ اندوز۔ جب حضرت کو دیکھ لیا گویا سب سخندانِ پیشینیہ کو دیکھ لیا۔ جب حضرت کا کلام سن لیا سب کا کلام سن لیا۔ مبیّن میرے قول کی یہ اردو کی تحریر ہے کہ سہل الممتنع کیا بلکہ ممتنع النظیر ہے۔ اس اردو کا نیا انداز ہے کہ جس کے دیکھنے سے روح کو اہتزاز ہے جو کہ بعد تکمیل ہو جانے کلیاتِ نظم و نثر فارسی کہ وہ ہر ایک آویزہ گوشِ فصاحت و پیرایہ گلوئے بلاغت ہے اور ہندوستان سے ایران تک یہ ایک نکتہ سنج کے وردِ زبان ہے مدت سے حضرت کو اس طرزِ نو ایجادِ اردو سے لگاؤ ہے اور خط و کتابت میں اسی کا برتاؤ ہے۔ جب شائقینِ ہنر دوست نے اس نمک ہندی کا مزہ چکھا ہر ایک سرمایہ لذت مائدہ سخن سمجھ کر طلبگار خواستگار ہوا۔ اس واسطے منشی جواہر سنگھ صاحب جوہر ؔ نے کہ یہ صاحب اخلاق و مروت میں یکتا اور علم دوست و ہنر آشنا ملازمیں معززین سرکار سے ہیں۔ اور اب پنشن دار ہیں۔ علم فارسی کو خوب جانتے ہیں اشعار بھی اسی زبان میں فرماتے ہیں منشی صاحب کے اشعار قابل دید ہیں جناب مرزا صاحب کے شاگرد رشید ہیں۔ چنانچہ خود جناب مرزا صاحب فرماتے ہیں ؎ در معرکہ تیغیم کہ جوہر داریم۔
ان کی طبع والا نے یہ اقتضا کیا یہ گہر ہائے شب افروز سلکِ تحریر میں منسلک ہو کر زینت بخشِ عروسِ سخن ہوں اور یہ گلہائے پراگندہ جمع ہو کر ایک جا گلدستہ ہوں تا اس کی روائح روح پرور سے دماغ نکتہ سرایاں غیرتِ چمن ہو۔ اس واسطے میر فخر الدین صاحب مہتمم اکمل المطابع دہلی نے سعی بے پایاں اور لالہ بہاری لال صاحب منشی مطبع مذکور نے کوششِ فراوان سے اکثر خطوط جمع کیے اور قصد انطباع کیا اور اردوئے معلیٰ نام رکھا گیا اور ان خطوں کو دو حصوں پر منقسم کیا۔ پہلے حصہ میں صاف صاف عبارت کے خط تحریر کیے تا طلبائے مدرسہ فائدہ اٹھائیں۔ دوسرے حصہ مطالب مشکلہ کی تحریر اور تقریظ وغیرہ لکھی تا سخنوران معنی یاب اس کے دیکھنے سے مزہ پائیں اور منشی صاحب موصوف نے اس ہیچمدان خاکسار مجروح دل افگار سے اس کا دیباچہ لکھنے کو فرمایا۔ بندہ یہ سن کر حیران ہوا یہ یارب دُرِ شاہوار کے سامنے خزف ریزوں کا کیا اعتبار اور لعل و زمرد میں پتھر کے ٹکڑوں کا کیا وقار مگر “الامر فوق الادب”سمجھ کر اپنے کو اسی خوانِ نعمت کا ذُلّہ چین جان کر یہ چند سطریں لکھیں۔ بقول عرفی؎
چو ذرہ گر حقیریم نسبتیم ایں بس
کہ آفتاب بود نقطہ مقابل ما