JAZAKALLAH Nomi
Bht maza aya parh k
bht nice tha
Bht useful information sharing ki
Meri aik request thi @
saviou @
kool~nomi @
Abidi @
Dawn @
S_ChiragH and @
*Muslim* bro se k woh kia simple alfaaz me zakat calculate krnay ka tareeka bta sktay hain
Mein thora explain kr doon k me kia poochna chahta
Mere paas aik ghar hai jo k zaroorat hai kyon k muje uss me rehna hai! so kia ghar pe b zakat lgay ge
Issi tarah kon kon c cheezain hain k jin pe zakat lgay ge aur kin pe nahi lgay ge. Plus rate lgatay waqt kaise rate lgatay zakat ka? I mean aik cheez 10 years pehlay 100 rs ki thi tau kia zakat ussi rate k mutabik ho ge ya aj k new rate suppose 1000rs k mutabiq ho ge
Yh sb batein clear kr k Calculation ka tareeqa b bta dein
Mere samait kaafi logon ko clear ho jae ga
Me ne kai molvi hazraat se suna hai per muje abi tk clear nahi
Thanks Alot
قارئین کرام یہ احادیث دلیل ہیں کہ اموال زکواة، سونا، چاندی، مویشی، مال تجارت اور غلہ و اناج وغیرہ ہیں کہ جن میں سے حولان حول اور بلوغ نصاب کے بعد زکوٰة ادا کرنی ہو گی۔
نصاب زکوٰة:
(١) سونے کا نصاب:
درج بالا احادیث میں سے سنن ابن ماجہ کی روایت '1448 میں سونے کا نصاب 20 دینار بیان ہوا ہے۔ آج اہل علم کی تحقیق کے مطابق یہ وزن ساڑھے سات تولہ بنتا ہے۔ لہٰذا جب اتنا سونا کسی کی ملکیت میں ہو تو سال گزرنے پر اسے 2.5% کے حساب سے زکوٰة دینی چاہیئے۔ (خواہ سونا کسی بھی شکل میں ہو)
(٢) چاندی کا نصاب:
صحیح بخاری میں چاندی کا نصاب پانچ اوقیہ بیان ہوا ہے۔ جبکہ شرح معانی الآ ثار وغیرہ میں اس نصاب کو 200 درہم سے تعبیر کیا گیا ہے پانچ اوقیہ یا دو سو درہم کہیں بات ایک ہی ہے وزن برابر ہے اور آج اہل علم کے بقول اس کا وزن52½ تولہ بنتا ہے لہٰذا کسی کی ملکیت میں اگر اس مقدار کے برابر چاندی ہو ۔ (خواہ کسی بھی شکل میں ہو) تو سال گزرنے پر 2.5% کے حساب سے وہ زکوٰة ادا کرے۔
(٣) مویشی (بکری گائے ' اونٹ وغیرہ) کا نصاب:
صحیح بخاری کتاب الزکاة میں اونٹوں کا نصاب 5 اونٹ بیان ہوا ہے کہ اگر پانچ اونٹ ہوں تو ان پر ایک بکری زکوٰة ہے ، 5 سے24 اونٹ تک ہر 5 میں ایک بکری ہی ہو گی (صحیح بخاری۔ کتاب الزکاة ) 5 سے کم اونٹوں پر زکوٰة نہیں ہے۔
گائے کا نصاب سنن ابی دائود1572 اور جامع ترمذی وغیرہ میں 30 کے عدد سے بیان ہوا ہے اور یہ بھی کہ 30 گائیوں پر سال گزرنے کے حساب سے ایک سالہ بچھڑی یا بچھڑا بطور زکواة کے دیا جائے گا۔ 30 سے کم گائے پر زکواة نہیں ہے۔
بکری کی زکوٰة کا نصاب صحیح بخاری میں 40 بکریاں بیان ہوا ہے اس میں بکری زکوٰة ہے120 تک یہی نصاب رہے گا ۔ 40 سے کم بکریوں پر زکوٰة نہیں ہے۔
مویشیوں کی زکوٰة کے سلسلے میں یہ بیان ہوا ہے کہ یہ جانور ''سائمہ'' ہوں، اس سے مراد یہ ہے کہ جو ( سال کا زیادہ حصہ ) قدرتی وسائل ( چارہ گھاس وغیرہ) پر گزارا کر تے ہوں جو مویشی مستقل طور پر مالک کے خرچ پر گزارہ کر تے ہوں اور ذاتی استعمال کیلئے ہوں تو ان پر کوئی زکوٰة نہیں، خواہ تعداد میں کتنے ہی کیوں نہ ہوں۔البتہ جو مویشی تجارت کی غرض سے پالے گئے ہوں انکی آمدنی پر زکوٰة ہو گی۔
(٤) اناج اور غلہ کا نصاب:
صحیح بخاری شریف میں زرعی پیداوار کا نصاب 5 وسق بیان ہوا ہے جس کا وزن آج کے اعتبار سے 19 یا 20 من بنتا ہے۔ ( یا دوسرے لفظوں میں 725 یا 750 کلو) سنن نسائی میں بھی اسی وزن کا ذکر بطور نصاب کے کیا گیاہے۔
لہٰذا اگر زرعی پیداواری اس وزن کو پہنچ جائے تو زکوٰة ادا کرنی ہو گی بارانی پیداوار پر عشر ( یعنی دسواں حصہ) اور کنواں ، ٹیوب ویل،نہر وغیرہ سے خرید کر یا محنت شاقہ کر کے زمین سیراب کی گئی ہو تو پھر پیداوار کا پانچواں حصہ ( نصف العشر) زکواة ادا کرنی ہو گی ( صحیح بخاری، کتاب الزکاة)
یاد رہے کہ یہ عشر یا نصف العشر فصل کی کٹائی کے وقت ادا کیا جا تا ہے اور اگر فصل سال میں دو مرتبہ کٹتی ہے یا اس سے زیادہ مرتبہ زمین فصل دیتی ہے تو ہر فصل کی کٹائی پر نصف العشر یا عشر بصورت زکوٰة دینا ہو گا۔
نیز یہ بھی واضح ہو کہ ہر زرعی پیداوار پر زکوٰة ہو گی خواہ کچھ بھی ہو الایہ کہ دلیل کی بنیاد پر کسی چیز کو استثناء حاصل ہو جیسے سبزیاں وغیرہ ( کما فی الترمذی)
یا ایھا الذین آمنو انفقو ا من طیبات ما کسبتم و مما اخرجنا لکم من الارض ( البقرہ) اس آیت میں عمومی حکم ہے کہ زمین کی پیداوار میں سے خرچ کرو ( یعنی زکوٰة دو) لہٰذا عموم کا تقاضہ ہے کہ ہر قسم کے غلہ و اناج پر زکوٰة دی جائے۔ واﷲ اعلم
(٥) مال تجارت کا نصاب:
مال تجارت کا نصاب نقد کرنسی کا نصاب ہے کیونکہ کرنسی سونے چاندی کا بدل ہے لہٰذا اگر مال تجارت کا حساب کر کے سال کے آخر میں اتنا مال با اعتبار قیمت کے ہو یا اتنا پیسہ ہو کہ ساڑھے باون تولہ چاندی خریدی جا سکے تو اس پر 25% کے حساب سے زکواة دی جائے گی۔
چاندی کے نصاب کا اعتبار اس لیے کہ اس میں عوام کی منفعت زیادہ ہے کہ اقل االنصاب کو جلد پہنچنا ممکن ہے اور اس طرح غریب، غربائ، فقراء و مساکین زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔
مال تجارت ، سونا، چاندی، مویشی اور غلہ وغیرہ کے نصاب کو پہنچنے کی شرط کے ساتھ ساتھ یہ بھی (ادائیگی زکوٰة کیلئے) ضروری ہے کہ ان اشیاء پر حولان حول یعنی ایک سال کا عرصہ گزر چکا ہو۔
جیسا کہ جامع ترمذی وغیرہ میں بیان ہوا ہے کہ حاصل کر دہ مال پر ( مالک کی ملکیت میں) جب ایک سال گزر جائے تو زکوٰة ہے۔ اسکی تائید اس روایت سے بھی ہو تی ہے کہ جس میں آتا ہے کہ سیدنا عباس نے نبی علیہ السلام سے قبل الوقت زکوٰة دینے کی اجازت مانگی تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے انہیں اجازت مرحمت فرما دی ( جامع الترمذی)
تنبیہ: شہد کی پیداوار پر عشر دینے اور رکاز ( دفن شدہ خزانہ) حاصل ہونے پر خمس ( پانچواں حصہ) زکواة دینے کا ذکر احادیث مبارکہ میں ملتا ہے ۔ (دیکھئے صحیح بخاری کتاب الزکاة اور سنن ابن ماجہ)
زکوٰة سے مستثنیٰ چیزیں:
٭ بعض اشیاء پر زکوٰة نہ دینے کا ذکر ہوا ہے مثلاً صحیح بخاری شریف میں آتا ہے کہ ''مسلمان پر اس کے گھوڑے اور غلام میں زکوٰة نہیں ہے ۔ (یاد رہے اس میں ذاتی استعمال کی اشیاء مثلاً رہائشی مکان، گاڑی، فرنیچر، فریزر یا دیگر استعمال کے برتن وغیرہ بھی شامل ہیں کیونکہ ان پر زکوٰة کی کوئی دلیل نہیں ملتی)
٭ مال بر داری کے جانور یا لوڈنگ گاڑیاں اور مشینیں جو کہ آلات کسب و تجارت ہیں ان پر کوئی زکوٰة نہیں بلکہ انکی آمدنی پر شرط معلومہ کے ساتھ زکوٰة عائد ہو گی صحیح ابن خزیمہ اور سنن ابی دائود وغیرہ میں ہے کہ '' یس علی العوامل شئی أو صدقہ'' عامل (آلہ تجارت) پر کوئی زکوٰة نہیں۔
٭ زرعی پیداوارمیں سے سبزیوں پر کوئی زکوٰة نہیں۔ جیسا کہ جامع ترمذی اور دار قطنی وغیرہ میں ذکر آیا ہے۔