کاروان محبت… نادیہ فاطمہ رضوی
وہ بد حواسی کے عالم میں دیوانہ وار بھاگتی ہوئی دروازہ کھولتے ہی کارپٹ پر ڈھے گئی اور پھولی پھولی سانسوں کو متوازن کرنے لگی۔
’’اللہ خیر کرے فاطمہ کیا پولیس پیچھے لگی ہوئی ہے جو پاگلوں کی طرح دوڑ کر آئی ہو۔‘‘ ڈائجسٹ پڑھتے ہوئے علیشبہ نے فاطمہ کو یوں آتے دیکھا تو بے زار کن لہجے میں بولی۔
’’بات ہی کچھ ایسی ہے بہنا دیکھو‘ ابھی ابھی کوریئر والا دے کر گیا ہے۔‘‘ اس نے سرخ رنگ کا کارڈ فرط جوش و مسرت سے اپنے دائیں ہاتھ سے لہرایا۔
’’یہ کیا ہے؟‘‘ علیشبہ نے اشتیاق بھرے لہجہ میں پوچھا۔
’’پھوپھو کی طرف سے آیا ہے اگلے مہینے کی سات تاریخ کو ظہیر بھائی کی بارات ہے۔‘‘
’’وائو۔ کیا واقعی؟بہت مزا آئے گا مجھے بھی تو دیکھائو یہ کارڈ۔‘‘ علیشبہ ایکسائیٹڈ ہو کر بولی اور پھر دونوں کارڈ پر جھک گئیں۔
’’ایبٹ آباد میں پھوپھو کاگھر کتنا خوب صورت ہے وہاں مہمان بن کر جائیں گے میں تو ہل کر پانی بھی نہیں پیوں گی۔ یہاں تو سارا دن کام کام بس کام۔‘‘ علیشبہ آخر میں منہ بنا کر بولی وہ اول درجے کی کاہل اور سست الوجود تھی۔
’’ہاں‘ ہاں تم تو حبیسے یہاں کولہو کے بیل کی طرح جتی رہتی ہو نا۔‘‘ فاطمہ اس کے کاہل پن کی عادت سے چڑ کر بولی تو علیشبہ کو پتنگے لگ گئے۔
’’خود تو بڑی کام کرنے والی ہو۔‘‘
’’تم لڑ بعد میں لینا پہلے یہ سوچو کہ ہم پندرہ دن پہلے پھوپھو کے گھر کیسے جائیں گے۔‘‘ فاطمہ پریشان کن انداز میں گویا ہوئی۔
’’کیوں بھئی ہم باذل بھائی کے ساتھ جائیں گے اور کس کے ساتھ جائیں گے؟‘‘
’’تمہاری اطلاع کے لیے عرض ہے کہ باذل بھائی کو آفس سے اتنی لمبی چھٹی ہر گز نہیں ملنے والی اور وہ تو ویسے بھی اتنے دن پہلے وہاں ڈیرا ڈالنے کے حق میں ہر گز نہیں ہوں گے۔ اور امی ابا بھی شادی سے چار دن پہلے ہی جائیں گے کیونکہ بڑی خالہ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اگلے ہفتے ان کے پتے کا آپریشن جو ہونے والا ہے۔‘‘ فاطمہ تفصیلاً بولی تو علیشبہ کے ارمانوں پر اوس پڑ گئی۔
’’ہائے تو پھر کیا ہوگا۔ پر ہمارا دماغ رک جاتا ہے تو پھر یشب بی بی کا دماغ چلنا شروع ہوتا ہے۔‘‘ فاطمہ ڈرامائی انداز میں بولی۔
’’ارے ہاں میں تو بھول ہی گئی یہ یشب کس مرض کی دوا ہے۔‘‘ علیشبہ خوشی سے اچھلتے ہوئے بولی۔
’’میں اسے فون کرتی ہوں کہ فوراً یہاں آجائے اور خبردار یہ بات باذل بھائی کو معلوم نہ ہو کہ ہم نے یشب کو سفارش کے لیے بلایا ہے۔‘‘ فاطمہ اسے تنبیہ کرتے ہوئے بولی تو علیشبہ نے اثبات میں سر ہلایا۔
…٭٭٭…
’’بالکل نہیں میں تم تین جوان جہان لڑکیوں کو ہر گز یوں اکیلے ایبٹ آباد نہیں جانے دوں گی۔‘‘ اماں نے واضح لفظوں میں انکار کیا تو دونوں بہنوں کے منہ لٹک گئے مگر یشب نے ہمت بالکل نہیں ہاری وہ اب صحیح معنوں میں کمر کس کر میدان میں اتر آئی۔
’’تائی اماں مانا کہ آپ کی دونوں لڑکیاں کافی بونگی اور بد حواس ہیں مگر میں ہوں نا ان لوگوں کے ساتھ۔ آپ بالکل اس بات کی فکر مت کریں۔ میں ان پر کڑی نظر رکھوں گی کہ سفر کے دوران یہ کسی سے کچھ لے کر نہ کھائیں بس آپ مجھ پر بھروسا رکھیں۔‘‘
’’یشب کی بچی۔‘‘ دونوں لڑکیاں اپنی اس عزت افزائی پر دانت پیس کر رہ گئیں مگر مجبوراً خاموش رہیں۔ اماں سے اجازت بھی تو لینی تھی۔
’’ارے بچی میں تو سخت پریشان رہتی ہوں ان لوگوں کی بے وقوفیاں دیکھ دیکھ کر۔‘‘
’’تائی اماں میری محبت کے سائے میں رہیں گی تو کچھ عقل آ ہی جائے گی۔‘‘ یشب صاحبہ نے انتہائی مدبرانہ انداز میں سر ہلا کر کہا تو اب دونوں کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔
’’یشب تم جیسی دو چار بھابیاں ہم جیسی بے چاری نندوں کو مل جائیںتو میرے خیال میں پھر کسی اور دشمن کی ضرورت باقی نہ رہے۔‘‘ فاطمہ غصہ سے بولی۔
فاطمہ نے بھی حساب ایک ہی پل میں بے باق کر ڈالا جبکہ یشب بس آنکھیں دکھاتی رہ گئی۔
’’اف اللہ میں کیا کروں ان تینوں کا۔‘‘ اماں نے اپنا سر دونوں ہاتھوں میں تھام کر کہا۔
’’کیا ہوا امی آپ یوں سر پکڑے کیوں بیٹھی ہیں؟‘‘ باذل کمرے میں داخل ہوا تو اماں کو سر پکڑے دیکھ کر حیرت سے استفسار کیا۔ باذل کو دیکھ کر تینوں نے کورس میں اسے سلام کیا۔ تینوں کی اس سے جان جاتی تھی۔
’’ثریا کے بیٹے کی شادی کا کارڈ آیا ہے اور یہ تینوں پندرہ دن پہلے سے جانے کی ضد کر رہی ہیں مجھے بھیجنے میں کوئی اعتراض نہیں ہے مگر یوں تنہا میں انہیں بھیجنا نہیں چاہ رہی۔‘‘ اماں گویا ہوئیں تو حسب معمول باذل کی تیوروں پر بل پڑ گئے۔
’’کوئی ضرورت نہیں ہے امی تینوں کو اکیلا بھیجنے کی‘ فاطمہ اور علیشبہ تو احمق ہیں ہی مگر یہ یشب بی بی عقل سے بالکل پیدل ہیں سیر پر سوا سیر ہیں یہ موصوفہ۔‘‘
’’آپ میری بے عزتی کر رہے ہیں۔ اب میں اتنی بھی بونگی نہیں ہوں۔‘‘یشب منمنائی تھی۔
’’آپ کیا ہیں یہ میں اچھی طرح سے جانتا ہوں مجھے بتانے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔‘‘ باذل نے گردن موڑ کر اسے گہرے طنزیہ لہجے میں کہا پھر اماں سے بولا۔
’’آپ شادی سے چار دن پہلے ہی ان تینوں کو اپنے ساتھ لے کر جائیے گا۔‘‘
’’بھائی جان پلیز۔‘‘ دونوں بہنیں منت کرتے ہوئے بولیں مگر باذل ان کی فریاد کو نظر انداز کرکے وہاں سے چلا گیا۔
’’ہونہہ خود کو بڑا عقل مند سمجھتے ہیں۔‘‘ یشب باذل کے کڑے انداز سے خائف ہو کر بڑ بڑائی پھر احتجاجاً وہاں سے واک آئوٹ کر گئی۔
تینوں لڑکیاں سر جوڑے بیٹھی تھیں کہ آخر کس طرح سے گھر والوں کو راضی کیا جائے کہ وہ انہیں ریل گاڑی کے ذریعے ایبٹ آؓباد جانے کی اجازت دے دیں۔
یشب‘ فاطمہ اور علیشبہ کی چچا زاد ہونے کے ساتھ ساتھ باذل کی منگیتر بھی تھی دونوں کے گھر برابر تھے لہٰذا یشب صاحبہ دن کا آدھے سے زیادہ وقت یہیں پر ہی گزارتی تھیں۔ یشب اور باذل کی منگنی دادی کی ایماء پر پانچ سال پہلے کر دی گئی تھی۔ جب یشب انٹر میں تھی اور پھر ٹھیک ایک سال بعد وہ دار فانی سے کوچ کر گئیں۔ ان کے دو بیٹے باذل کے والد احسان گردیزی اور یشب کے والد محسن گردیزی تھے اور ایک بیٹی ثریا جو ایبٹ آباد بیاہ کر چلی گئی تھی احسان گردیزی کی دو بیٹیاں فاطمہ‘ علیشبہ اور بیٹا باذل تھے۔ جبکہ ثریا کے دو بیٹے ظہیر اور اظہر اور دو بیٹیاں ثانیہ اور دانیہ تھیں۔ جبکہ محسن گردیزی کی اکلوتی بیٹی یشب تھی۔
’’تم لوگ فکر مت کرو ان شاء اللہ ہم لوگ ایبٹ آباد ضرور جائیں گے وہ بھی ٹرین کے ذریعے۔‘‘ یشب فیصلہ کن لہجے میں بولی تو فاطمہ طنزاً گویا ہوئی۔
’’بالکل جائیں گے خوابوں میں‘ خیالوں میں۔‘‘
’’افوہ‘ تم یونہی ڈر ڈر کر فوت ہوجائو مگر ہمیں تو مت ڈرائو اگر میرا کمپیوٹر ٹھیک ہوتا تو کیا مجھے فاطمہ نے کاٹا تھا جو تمہارے بھائی کے کمپیوٹر سے چھیڑ خانی کرتی۔‘‘ یشب اپنے مخصوص انداز میں بولی۔
’’اللہ کرے باذل بھائی تجھے رنگے ہاتھوں عمران ہاشمی کی فلم دیکھتے ہوئے پکڑیں۔‘‘ فاطمہ دانت پیس کر بولی۔
’’فلم اسٹارٹ ہوگئی اب خاموشی سے فلم دیکھو۔‘‘ اچانک اسکرین روشن ہونے پر یشب جوش و مسرت سے بولی اور پھر واقعی تینوں فلم میں بری طرح محو ہوگئیں۔
’’ہائے اللہ کتنا ہینڈسم ہے نا عمران ہاشمی کاش باذل کی بھی ایسے ہی مونچھیں… مونچھیں… موں… مون…!‘‘
’’ہاہاہا‘ تم تو یوں اٹک گئیں جیسے مونچھیں تمہارے منہ میں آگئیں۔‘‘ فاطمہ اسکرین پر نگاہیں جمائے یشب کی زبان کو مونچھوں پر اٹکتا دیکھ کر تمسخر سے بولی مگر اچانک ہی یشب نے کمپیوٹر کی تاریں بے دردی سے کھینچ کر کمپیوٹر بند کردیا۔
’’یشب کی بچی یہ کیا حرکت ہے…؟‘‘ علیشبہ بے مزا ہو کر اتنا ہی بولی تھی کہ اس کی نگاہوں میں بھی وہ منظر آگیا جسے دیکھ کر یشب کی سٹی گم ہوگئی۔
’’باذل بھائی آپ… آپ آج اتنی جلدی کیسے؟‘‘ باذل کو دروازے پر خشمگیں نگاہوں سے ایستادہ دیکھ کر علیشبہ پھیکے پھیکے انداز میںبولی۔
’’کیا ہوا امی آپ یوں سر پکڑے کیوں بیٹھی ہیں؟‘‘ باذل کمرے میں داخل ہوا تو اماں کو سر پکڑے دیکھ کر حیرت سے استفسار کیا۔ باذل کو دیکھ کر تینوں نے کورس میں اسے سلام کیا۔ تینوں کی اس سے جان جاتی تھی۔
’’ثریا کے بیٹے کی شادی کا کارڈ آیا ہے اور یہ تینوں پندرہ دن پہلے سے جانے کی ضد کر رہی ہیں مجھے بھیجنے میں کوئی اعتراض نہیں ہے مگر یوں تنہا میں انہیں بھیجنا نہیں چاہ رہی۔‘‘ اماں گویا ہوئیں تو حسب معمول باذل کی تیوروں پر بل پڑ گئے۔
’’کوئی ضرورت نہیں ہے امی تینوں کو اکیلا بھیجنے کی‘ فاطمہ اور علیشبہ تو احمق ہیں ہی مگر یہ یشب بی بی عقل سے بالکل پیدل ہیں سیر پر سوا سیر ہیں یہ موصوفہ۔‘‘
’’آپ میری بے عزتی کر رہے ہیں۔ اب میں اتنی بھی بونگی نہیں ہوں۔‘‘یشب منمنائی تھی۔
’’آپ کیا ہیں یہ میں اچھی طرح سے جانتا ہوں مجھے بتانے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔‘‘ باذل نے گردن موڑ کر اسے گہرے طنزیہ لہجے میں کہا پھر اماں سے بولا۔
’’آپ شادی سے چار دن پہلے ہی ان تینوں کو اپنے ساتھ لے کر جائیے گا۔‘‘
’’بھائی جان پلیز۔‘‘ دونوں بہنیں منت کرتے ہوئے بولیں مگر باذل ان کی فریاد کو نظر انداز کرکے وہاں سے چلا گیا۔
’’ہونہہ خود کو بڑا عقل مند سمجھتے ہیں۔‘‘ یشب باذل کے کڑے انداز سے خائف ہو کر بڑ بڑائی پھر احتجاجاً وہاں سے واک آئوٹ کر گئی۔
تینوں لڑکیاں سر جوڑے بیٹھی تھیں کہ آخر کس طرح سے گھر والوں کو راضی کیا جائے کہ وہ انہیں ریل گاڑی کے ذریعے ایبٹ آؓباد جانے کی اجازت دے دیں۔
یشب‘ فاطمہ اور علیشبہ کی چچا زاد ہونے کے ساتھ ساتھ باذل کی منگیتر بھی تھی دونوں کے گھر برابر تھے لہٰذا یشب صاحبہ دن کا آدھے سے زیادہ وقت یہیں پر ہی گزارتی تھیں۔ یشب اور باذل کی منگنی دادی کی ایماء پر پانچ سال پہلے کر دی گئی تھی۔ جب یشب انٹر میں تھی اور پھر ٹھیک ایک سال بعد وہ دار فانی سے کوچ کر گئیں۔ ان کے دو بیٹے باذل کے والد احسان گردیزی اور یشب کے والد محسن گردیزی تھے اور ایک بیٹی ثریا جو ایبٹ آباد بیاہ کر چلی گئی تھی احسان گردیزی کی دو بیٹیاں فاطمہ‘ علیشبہ اور بیٹا باذل تھے۔ جبکہ ثریا کے دو بیٹے ظہیر اور اظہر اور دو بیٹیاں ثانیہ اور دانیہ تھیں۔ جبکہ محسن گردیزی کی اکلوتی بیٹی یشب تھی۔
’’تم لوگ فکر مت کرو ان شاء اللہ ہم لوگ ایبٹ آباد ضرور جائیں گے وہ بھی ٹرین کے ذریعے۔‘‘ یشب فیصلہ کن لہجے میں بولی تو فاطمہ طنزاً گویا ہوئی۔
’’بالکل جائیں گے خوابوں میں‘ خیالوں میں۔‘‘
…٭٭٭…
’’یشب کی بچی آج تم ضرور بھائی کے ہاتھوں ہمیں بھری جوانی میں شہید کروائو گی وہ انڈین فلمز کے سخت خلاف ہیں۔‘‘ یشب کو باذل کے کمپیوٹر میں سی ڈی لگاتے دیکھ کر علیشبہ خوف زدہ سی ہو کر بولی۔ ’’افوہ‘ تم یونہی ڈر ڈر کر فوت ہوجائو مگر ہمیں تو مت ڈرائو اگر میرا کمپیوٹر ٹھیک ہوتا تو کیا مجھے فاطمہ نے کاٹا تھا جو تمہارے بھائی کے کمپیوٹر سے چھیڑ خانی کرتی۔‘‘ یشب اپنے مخصوص انداز میں بولی۔
’’اللہ کرے باذل بھائی تجھے رنگے ہاتھوں عمران ہاشمی کی فلم دیکھتے ہوئے پکڑیں۔‘‘ فاطمہ دانت پیس کر بولی۔
’’فلم اسٹارٹ ہوگئی اب خاموشی سے فلم دیکھو۔‘‘ اچانک اسکرین روشن ہونے پر یشب جوش و مسرت سے بولی اور پھر واقعی تینوں فلم میں بری طرح محو ہوگئیں۔
’’ہائے اللہ کتنا ہینڈسم ہے نا عمران ہاشمی کاش باذل کی بھی ایسے ہی مونچھیں… مونچھیں… موں… مون…!‘‘
’’ہاہاہا‘ تم تو یوں اٹک گئیں جیسے مونچھیں تمہارے منہ میں آگئیں۔‘‘ فاطمہ اسکرین پر نگاہیں جمائے یشب کی زبان کو مونچھوں پر اٹکتا دیکھ کر تمسخر سے بولی مگر اچانک ہی یشب نے کمپیوٹر کی تاریں بے دردی سے کھینچ کر کمپیوٹر بند کردیا۔
’’یشب کی بچی یہ کیا حرکت ہے…؟‘‘ علیشبہ بے مزا ہو کر اتنا ہی بولی تھی کہ اس کی نگاہوں میں بھی وہ منظر آگیا جسے دیکھ کر یشب کی سٹی گم ہوگئی۔
’’باذل بھائی آپ… آپ آج اتنی جلدی کیسے؟‘‘ باذل کو دروازے پر خشمگیں نگاہوں سے ایستادہ دیکھ کر علیشبہ پھیکے پھیکے انداز میںبولی۔
’’کیا ہو رہا ہے میرے کمرے میں؟‘‘ باذل اچانک دہاڑا تو تینوں باقاعدہ کانپنے لگی تھیں۔
’’وہ… وہ ایکچوئیلی مجھے اسائمنٹ بنانا تھا میرا نیٹ کام نہیں کررہا تھا تو میں نے سوچا کہ میں آپ کے کمپیوٹر سے کچھ عمران ہاشمی کی ڈیٹیلز لے لوں۔‘‘ وہ عالم بد حواسی میں نجانے کیا بول گئی جبکہ اسے خود بھی معلوم نہیں ہوا کہ اس نے کچھ غلط کہہ دیا ہے۔ دونوں بہنوں کا مارے شرمندگی و خفت کے برا حال تھا۔
’’فاطمہ‘ علیشبہ تم دونوں جائو یہاں سے۔‘‘ باذل کا حکم سن کر وہ دونوں بھاگیں۔ جبکہ یشب بے بسی کے عالم میں کھڑی رہ گئی۔
’’اچھا تو تمہیں اسائمنٹ بنانا تھا۔‘‘ باذل اس کے قریب آکر کاٹ دار لہجے میں بولا۔
’’جی… جی بالکل۔‘‘ اس نے زور زور سے اثبات میں سر ہلایا۔
’’کس موضوع پر؟‘‘
’’موضوع یہ ہے کہ عمران ہا…!‘‘ اب یشب کو احساس ہوا کہ عمران ہاشمی ابھی تک اس کے حواسوں پر چھایا ہوا ہے۔ اس نے جلدی سے اس کے تصور کو جھٹک کر لعنت بھیجی اور مودٔبانہ انداز میں بولی۔
’’موضوع یہ ہے کہ بھینس چوبیس گھنٹے بنا وقفہ کے دم کیوں ہلاتی ہے۔ چار ٹانگوں والے جانور کھڑے کھڑے تھکتے کیوں نہیں اور یہ کہ بندر کے سر میں جوئیں پڑ جاتی ہیں تو مٹی کا تیل کیوں نہیں ڈال دیا جاتا اور بھینس رات کو شاید دم ہلانے کا سلسلہ موقف کر کے…!‘‘
’’شٹ اپ۔‘‘ باذل درشت لہجے میں زور سے بولا تو روانی سے چلتی یشب کی زبان یک دم رک گئی۔
’’اف میرے خدا آخر کس عمل کی پاداش میں تم جیسی عقل سے فارغ البال لڑکی میری تقدیر میں لکھ دی… دیکھو یشب ابھی بھی وقت ہے اپنے اندر سے یہ بچپنا ختم کر کے سنجیدگی و بردباری پیدا کرو۔‘‘
’’باطل… اوہ آئی ایم سوری باذل آپ نہیں جانتے میں اندر سے اس قدر سنجیدہ ہوں کہ کچھ حد نہیں میرے ننھیال والے تو میری سنجیدہ طبیعت سے بہت متاثر ہیں سچی۔‘‘ یشب انتہائی جوش سے ہاتھ نچا کر بولی۔
’’اچھا وہ نادیدہ سنجیدگی مجھے تو کبھی دکھائی نہیںدی جو انہیں نظر آگئی۔‘‘ باذل اسے دیکھ کر طنز سے بولا۔
’’نہیں باذل میرا یقین کریں یہ تو میں محض اوپر سے یونہی غیر سنجیدگی کا خول چڑھائے رکھتی ہوں ورنہ…!‘‘
’’اچھا‘ اچھا مجھے یقین آگیا اب پلیز میری جان چھوڑو اور خبردار جو آئندہ تم نے میرے کمپیوٹر کو ہاتھ بھی لگایا اور یہ فضول…!‘‘ کہتے کہتے باذل نے کمپیوٹر سے سی ڈی نکال کر یشب کے ہاتھ میں تھمائی۔
’’تھرڈ کلاس فلمیں خود دیکھیں اور فاطمہ اور علیشبہ کو دکھائیں۔‘‘
یوں رنگے ہاتھوں پکڑے جانے پر پہلے یشب تو بری طرح حفیف ہوئی پھر فاطمہ کی بد دعا اچانک یاد آئی۔
’’دیکھو لوں گی فاطمہ تجھے۔‘‘
وہ بڑ بڑائی اور کمرے سے نکل گئی۔
…٭٭٭…
یشب نے چچا جان کو شیشے میں اتارنے کا سوچا اور اب تینوں احسان گردیزی کے سر ہوگئی تھیں۔
’’چچا جان آپ مجھ پر بھروسا کیجیے میں انتہائی سمجھ داری کے سات پھوپھو جان کے گھر پہنچ جائوں گی۔ فاطمہ اور علیشبہ کو بھی پہنچا دوں گی۔ دیکھیے نا چچا جان پھوپھو آپ کی اکلوتی بہن ہیں اور ان کے گھر کی اتنی بڑی خوشی ہے ظہیر بھائی گھوڑی بننے والے…مم… میرا مطلب ہے گھوڑی چڑھنے والے ہیں۔ اب اس موقع پر ہمیں کم از کم پندرہ دن پہلے تو جانا چاہیے نا۔‘‘ یشب زور و شور سے دلائل دیتے ہوئے بولی تو احسان گردیزی سوچ میں گم ہوگئے۔ یشب نے فاتحانہ انداز میں فاطمہ اور علیشبہ کو دیکھا اور فرضی کالر جھاڑا۔
’’ثریا اس بات کا یقیناً برا نہیں مانے گی کہ ہم عین شادی کے دن پہنچے وہ ہماری مجبوریوں سے واقف ہے کل رات میری فون پر بات ہوئی تھی۔‘‘
’’کیا…؟‘‘ یہ سن کر یشب کے ساتھ ساتھ فاطمہ اور علیشبہ کے چہرے بھی اتر گئے۔
’’مگر چچا جان کچھ ہمارے دلوں کا بھی خیال کیجیے۔ ہم ظہیر بھائی کی شادی کا سوچ کر بہت خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہم تینوں پندرہ دن پہلے جائیں۔ پلیز چچا جان ہمیں ایبٹ آباد جانے کی اجازت دے دیجیے نا۔‘‘ یشب منت آمیز لہجے میں بولی۔
’’ہوں ٹھیک ہے تم تینوں کے ٹکٹ کنفرم کروا دیتا ہوں۔‘‘
’’کیا…؟‘‘ تینوں خوشی سے چلا اٹھیں۔
’’تھینک یو سو مچ چچا جان۔ مجھے ٹرین کے سفر کا سوچ کر ہی خوشی ہو رہی ہے۔‘‘
’’ٹرین سے… میں نے ٹرین کی ٹکٹس نہیں جہاز کے ٹکٹس کی بات کی ہے۔‘‘ احسان گردیزی نے یشب کی غلط فہمی دور کی تو تینوں کے چہرے ایک بار پھر اتر گئے۔
’’مگر پاپا آپ پھول گئے کہ پچھلی بار یشب کی جہاز میں طبیعت خراب ہوگئی تھی۔‘‘
’’چچا جان پلیز مان جائیے نا ورنہ میں پورا ایک دن کھانا نہیں کھائوں گی۔ بس میں بھوک ہڑتال پر ہوں۔‘‘ یشب نے آخری حربہ آزمایا۔
’’کیا یشب واقعی تم بھوک ہڑتال کرو گی۔ یعنی کہ تم…!‘‘ علیشبہ حیرت سے بولی تو احسان گردیزی پریشان سے ہوگئے۔
’’اچھا بھئی چلی جائو ٹرین کے ذریعے مگر احتیاط اور خیال کے ساتھ۔‘‘ احسان گردیزی کو ماننا ہی پڑی جبکہ تینوں خوشی سے اچھلتی ہوئی لائونج سے باہر چلی گئیں۔
…٭٭٭…
ٹرین کی بوگی کے مخصوص ماحول کو تینوں بہت انجوائے کر رہی تھیں۔ ابھی ابھی باذل تینوں کے کانوں میں ہزاروں نصیحتیں اور ہدایتیں انڈیل کر گیا تھا جسے بظاہر تینوں نے کافی توجہ سے سنا تھا۔ جب وسل بجی تب ہی باذل انہیں خدا حافظ کہہ کر رخصت ہوا تھا اور اب رفتہ رفتہ ٹرین نے رفتار پکڑ لی تھی۔
’’فاطمہ کی بچی مجھے کھڑکی کی طرف بیٹھنے دو نا میرا بھی باہر دیکھنے کا دل چاہ رہا ہے۔‘‘ فاطمہ کے برابر میں بیٹھی یشب اشتیاق و جوش سے بولی مگر فاطمہ سنی ان سنی کر گئی تو یشب برا سا منہ بنا کر جیسے ہی سیدھی بیٹھی اس کی نگاہ ایک نو بیاہتاجوڑے پر پڑی مگر عجیب بات یہ تھی کہ اتنے کیوٹ سے جوڑے کے درمیان ایک پہاڑ کی مانند وجود ایستادہ تھا۔ بے چارے دونوں ایک دوسرے کو کن انکھیوں سے بھی دیکھنے کی کوشش میں بھی ناکام ہو رہے تھے۔ یشب کچھ سوچ کر ان لوگوں کے سامنے کی سیٹ پر جا کر بیٹھ گئی۔
’’السّلام علیکم آنٹی میرا نام یشب ہے ہم لوگ اسلام آباد جا رہے ہیں پھر وہاں سے ایبٹ آباد جائیں گے ہمارے کزن کی شادی ہے نا۔‘‘ یشب صاحبہ نے خوش اخلاقی کا مظاہرہ کیا۔ خاتون نے انتہائی ناگواری سے دیکھا پھر رخ کھڑکی کی جانب موڑ لیا۔
’’آپ نے بتایا نہیں آپ کہاں جا رہی ہیں۔‘‘ یشب پھر بولی۔
تو وہ خاتون طوعاً کرہاً یشب کی جانب متوجہ ہوئیں اور انتہائی پاٹ دار آواز میں بولیں۔
’’ہنی مون۔‘‘
’’ک… کیا… ہن… ہن… میرا مطلب ہے آپ اس عمر میں ہنی مون پر جا رہی ہے۔‘‘ یشب بہ مشکل حیرت سے باہر آئی اپنی آنکھوں کو واپس جگہ پر لاتے ہوئے بولی۔
’’میں نہیں بلکہ اپنے بیٹے اور بہو کو ہنی مون پر لے کر جا رہی ہوں۔‘‘ وہ ہنوز بگڑے لہجے میں بولی تو یشب نے بہ مشکل اپنے قہقہہ کا گلا گھونٹا۔
’’مگر آنٹی ہنی مون آپ کو معلوم ہے کیا بلا ہے؟‘‘ یشب بڑی بردباری سے بولی۔
’’لو بھلا مجھے جاہل سمجھ رکھا ہے کیا‘ اے گھومنا پھرنا تو ہنی مون ہوتا ہے۔‘‘ خاتون چڑ کر بولیں۔
’’ہوں وہ تو ٹھیک ہے مگر آپ کو ذرا چوکس رہنا پڑے گا۔ بھائی صاحب کہاں جا رہے ہیں آپ لوگ؟‘‘ یشب اچانک اس لڑکے سے مخاطب ہوئی تھی۔
’’مری اور نتھیا گلی وغیرہ…!‘‘ وہ مختصراً بولا۔