دوسرے سے ان کی کوئی بات چھپی ہوئی نہیں تھی۔ طوبیٰ اکثر اس پر بہت رعب جماتی تھی حالانکہ انس سے چار‘ پانچ سال چھوٹی تھی۔ انس بھی اس کی ہر بات مانتا‘ ہر فرمائش پوری کرتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان دونوں کی یہ دوستی پیار میں بدل گئی تھی۔ طوبیٰ تو انس کو دل و جان سے چاہتی تھی لیکن انس کبھی کبھی بے پروا اور روڈ ہو جاتا تھا۔ وہ ناراض ہوجاتی تو پھر بے چین ہوجاتا اور سو سو بہانے کرکے اسے منایا کرتا۔ اسے دیکھے بنا انس کی صبح ہوتی تھی نا رات۔ صبح صبح طوبیٰ کا چہرہ دیکھ لیتا تو اس کا سارا دن خوش گوار گزرتا اور جس صبح وہ اسے ٹیرس پر نظر نہ آتی وہ سارا دن منہ پھلائے رہتا۔
طوبیٰ کو بڑا ناز تھا انس کی محبت پر۔ بہت مان تھا اس کے اپنے لیے ایسے لطیف جذبات کو محسوس کرکے وہ اس کی سنگت میں ہمیشہ خوش رہتی تھی۔ ان کے بیچ لڑائی جھگڑے بھی ہوتے تھے لیکن چند گھنٹوں سے زیادہ وہ ایک دوسرے سے ناراض نہیں رہ سکتے تھے۔ دن گزرنے سے پہلے ہی روٹھے کو منانا ان کی محبت اور دوستی کا اصول تھا… مگر اس بار بات کافی بڑھ گئی تھی۔ انس نے جس طرح طوبیٰ کی شرارت پر ردعمل کا اظہار کیا تھا‘ وہ طوبیٰ کے لیے نا صرف یہ کہ حیران کن تھا بلکہ ہتک آمیز بھی تھا لہٰذا وہ پہلی بار انس سے دل سے ناراض ہوئی تھی کیونکہ انس نے اس بار اس کا دل دکھایا تھا۔ اس کی عزتِ نفس مجروح کی تھی۔ وہ بہت روئی تھی انس کے جانے کے بعد اور پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ پورے چوبیس گھنٹے گزر گئے تھے اور ان کے بیچ کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔ بات تو دور کی بات ہے ان کا آمنا سامنا بھی نہیں ہوا تھا۔ انس نے کئی بار اپنے کمرے کے سامنے والے گھر یعنی ’’راحیل ولا‘‘ کے ٹیرس پر نگاہ دوڑائی تھی لیکن دیدارِ یار سے خالی لوٹ آئی تھی۔ انس کے اندر بے چینی و بے قراری سرائیت کرگئی تھی۔ وہ بہت اضطراری کیفیت میں تیار ہوکر آفس گیا تھا۔
’’طوبیٰ! تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا۔‘‘ صبح کے دس بجے وہ نیند سے بیدار فریش ہوکر ناشتہ کررہی تھی تو طیبہ نے قدرے متفکر نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’جی امی! میں ٹھیک ہوں‘ کیوں کیا ہوا؟‘‘
’’آج تم دیر تک سوتی رہیں ناں۔‘‘
’’رات دیر تک جاگتی جو رہی تھی۔‘‘
’’ہوں اور انس کی طرف بھی نہیں گئیں‘ نا ہی وہ ادھر آیا۔ بنا تمہیں دیکھے اس کی صبح کیسے ہوگئی؟‘‘ طیبہ نے اس کے چہرے کو بغور دیکھتے ہوئے استفسار کیا۔
’’میرے بنا اس کی صبح بھی ہوسکتی ہے اور باقی سب کام بھی وہ میرے بنا بخوبی کرسکتا ہے۔‘‘ طوبیٰ نے سپاٹ لہجے میں کہا۔
دل کی چوٹ ابھی تک تکلیف دے رہی تھی‘ اس کی آنکھیں گرم پانیوں سے بھرنے لگی تھیں۔
’’اوہ سمجھی تو دونوں میں پھر سے جھگڑا ہوا ہے۔‘‘
’’جی!‘‘
’’میری سمجھ میں نہیں آتا کہ تم دونوں کا بچپنا کب ختم ہوگا‘ ہر روز جھگڑے ہوتے ساری زندگی ایک ساتھ کیسے گزارو گے؟‘‘ طیبہ نے فکر مندی سے سوال کیا تو طوبیٰ نے گہری اور سنجیدہ لہجے میں جواب دیا۔
’’امی! ضروری تو نہیں ہے کہ ہم ساری زندگی ایک ساتھ گزاریں‘ گزارہ تو کسی کے ساتھ بھی کیا جاسکتا ہے۔ ہاں مگر زندگی بسر کرنا خوشی کے ساتھ جینا ہر کسی کے ساتھ نہیں ہوتا۔‘‘
’’لگتا ہے اس بار معاملہ کچھ زیادہ ہی گڑبڑہے۔‘‘
’’جی اور اس بار انس کو اتنی آسانی سے معافی نہیں ملے گی اس نے میرا دل دکھایا ہے۔‘‘ طوبیٰ نے جوس کا گھونٹ بھر کر سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔
’’ایسا کیا کردیا اس نے وہ تو بڑا اچھا بچہ ہے۔‘‘
’’وہ بگڑا ہوا بچہ ہے‘ اسے اپنے جذبات و احساسات پر کنٹرول ہے اور نا ہی اپنے غصے اور زبان پر قابو ہے۔ وہ کبھی بھی کچھ بھی کرسکتا ہے‘ کسی بھی قسم کا نقصان پہنچا سکتا ہے اور امی! کچھ نقصانات ایسے ہوتے ہیں جن کی تلافی عمر بھر نہیں ہوسکتی۔‘‘ طوبیٰ نے سنجیدہ اور دلگیر لہجے میں کہا اور اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’بات کیا ہے تم صاف صاف کہو نا؟‘‘
’’بات تو آپ اپنے لاڈلے سے خود ہی پوچھ لیجیے گا اگر وہ سچ بولنا پسند کرے تو۔‘‘ طوبیٰ یہ کہہ کر وہاں رکی نہیں تھی۔ طیبہ کے دل میں ہول اٹھنے لگے‘ طرح طرح کے خیالات و وسوسے پریشان کرنے لگے تو وہ سائرہ کی طرف چلی آئیں تاکہ ان سے صورت حال کی نوعیت معلوم کرسکیں۔
انس کا دل کسی کام میں نہیں لگ رہا تھا۔ اسے احساس ہورہا تھاکہ اس نے اس بار طوبیٰ کو بہت ہرٹ کیا ہے۔ بہت غلط حرکت کی ہے اس نے۔ اسے بیچ سڑک اتار کے‘ پیسوں پر تو وہ کبھی بھی اتنا ناراض نہیں ہوا تھا‘ غصے میں نہیں آیا تھا بلکہ جب بھی طوبیٰ اس کے پرس سے پیسے نکالتی یا نکلواتی تو وہ خوش ہوتا تھا اس پر خرچ کرکے بس بظاہر اپنے لٹنے‘ کنگال ہونے کی اداکاری کرتا تھا اور طوبیٰ اس کی شکل دیکھ کر ہنسا کرتی تھی۔ پتا نہیں وہ کہاں الجھا ہوا تھا‘ نیند پوری نہیں ہوئی تھی یا کوئی اور مسئلہ اس کی اپنی سمجھ میں بھی اپنا رویہ نہیں آیا تھا۔ اب سوچنے بیٹھا تھا تو سوائے ندامت کے کچھ ہاتھ نہیں آرہا تھا۔
آج ایک ضروری میٹنگ بھی تھی اور وہ طوبیٰ کے خیالوں میں گم بیٹھا تھا۔ آج اسے دیکھے بنا آفس آگیا تھا تو یوں لگ رہا تھا کہ جیسے دن نکلا ہی نہیں ہے۔ اس نے کئی بار اپنا موبائل چیک کیا تھا کہ شاید طوبیٰ کا کوئی میسج آیا ہو مگر آج تو اس کا موبائل بھی اداس‘ ویران اور خالی تھا طوبیٰ کے ایس ایم ایس کے بنا۔ ورنہ اب تک کئی گڈ مارننگ کے ایس ایم ایس اسے موصول ہوچکے ہوتے تھے۔
میٹنگ اور ڈنر کے لیے وہ تیار تھا مگر دماغ الجھا ہوا تھا۔ اس کی سیکریٹری اسے میٹنگ کا یاد دلانے آئی تو وہ بولا۔
’’اوکے آپ چلیں میں آتا ہوں۔‘‘
انس نے لہجے کو رعب دار بناکر مس زبیری سے کہا تو وہ ’’اوکے سر‘‘ کہہ کر اس کے آفس روم سے باہر چلی گئیں۔
اوروہ اپنی تمام تر توجہ میٹنگ کے ایجنڈے پر مرکوز کرتے ہوئے ضروری فائلز لے کر میٹنگ ہال کی جانب بڑھ گیا۔
انس گھر آیا تو اس کی متلاشی نظریں طوبیٰ کو ہی دیکھنا چاہ رہی تھیں مگر طوبیٰ آج ’’رحمان لاج‘‘ آئی ہی نہیں تھی۔ اسے شدید مایوسی ہوئی تھی اسے نہ پاکر وہ اپنے کمرے میں چلا آیا اور سیدھا ٹیرس کی طرف گیا لیکن اسے وہاں بھی طوبیٰ کو نہ پاکر مایوسی ہوئی تھی۔ وہ چینج کرکے ٹیرس پر آگیا۔ سامنے طوبیٰ کے کمرے کی لائٹ آن تھی‘ انس کے بدن میں کرنٹ سا دوڑ گیا۔ اس نے طوبیٰ کو دیکھنے کی کوشش مگر کھڑکیوں پر پڑے پردے اس کی راہ میں حائل ہوگئے تھے حالانکہ عموماً وہ پردے سوتے وقت برابر کیا کرتی تھی۔ انس نے کچھ دیر ادھر اُدھر نگاہ دوڑائی اور ایک بڑا سا کنکر اٹھا کر سامنے طوبیٰ کے کمرے کی کھڑکی پر دے مارا۔ آواز طوبیٰ کے کانوں تک آئی تھی‘ اسے لگا تھا کہ انس آچکا ہے اور ٹیرس پر اس کا منتظر ہے لیکن وہ اس کے سامنے نہیں آنا چاہتی تھی سو لائٹ آف کرکے سونے کے لیے لیٹ گئی ویسے بھی رات کے سوا گیارہ بج رہے تھے اور خلافِ معمول اسے آج نیند بھی ابھی سے آرہی تھی۔ ورنہ وہ بارہ‘ ایک بجے تک ہی سونے کے لیے لیٹتی تھی۔ انس کو اس کے لائٹ آف کرنے پر شدید تائو آیا تھا۔
’’ہونہہ! نہیں بات کرنا چاہتی تو نہ کرے میں بھی کوئی مرا نہیں جارہا اس سے بات کرنے کو۔‘‘ انس نے بآواز غصیلے لہجے میں کہا اور واپس کمرے میں آگیا۔
’’مرنے نہیں جارہے تو بار بار موبائل کیوں چیک کرتے رہے؟ اس کے کمرے کی کھڑکی پر کنکر کیوں مارا؟ تمہاری آنکھیں کیوں صبح سے طوبیٰ کو تلاش کررہی ہیں؟ دل کام میں کیوں نہیں لگا؟ انس کے اندر سے سوالات کی بوچھاڑ ہوگئی۔
’’ظاہر ہے اس کی عادت جو ہوگئی ہے مجھے۔‘‘ انس نے صفائی پیش کی تو دل سے آواز آئی۔
’’عادت ہوگئی ہے یا محبت ہوگئی ہے اس سے جو اس کی ناراضی برداشت نہیں ہورہی؟‘‘
’’محبت‘ ہاہاہا! محبت تو طوبیٰ راحیل مجھ سے کرتی ہے اور یہ محبت اسے مجھ سے زیادہ دن ناراض نہیں رہنے دے گی‘ دیکھنا وہ کل میرے سامنے موجود ہو گی۔‘‘ انس نے خوش فہم انداز میں سوچتے ہوئے آنکھیں بند کی تھیں۔ اس کے ہونٹوں پر بڑی دلفریب مسکراہٹ سجی ہوئی تھی۔ طوبیٰ کا دیدار اسے دوسرے دن بھی نصیب نہیں ہوا تھا تو وہ باقاعدہ تلملا اٹھا تھا۔
’’سمجھتی کیا ہے خود کو میں اس کے بغیر مرجائوں گا۔‘‘
’’طوبیٰ کو تمہارے متعلق اب کوئی خوش فہمی یا غلط فہمی نہیں رہی۔ وہ سمجھ دار ہے تمہارے غیر ذمے دارانہ رویئے نے اسے بہت کچھ سمجھادیا ہے۔ اگر معافی مانگنے اور غلطی تسلیم کرنے کا ظرف رکھتے ہو تو جائو‘ جاکر طوبیٰ سے معافی مانگو۔‘‘ سائرہ نے اس کی بات سن کر کہا تو وہ بے چین ہوکر بولا۔
’’وہ سامنے آئے تب نا وہ تو پردہ نشین ہوکر بیٹھ گئی ہے۔‘‘
’’تو تم اسے فون کیوں نہیں کرلیتے‘ معافی مانگتے ہوئے شرم آتی ہے تو میسج کردو۔ ویسے بھی تو ہر وقت تم دونوں ایس ایم ایس کرتے رہتے ہو۔‘‘ سائرہ نے اسے راہ دکھاتے ہوئے جتایا بھی۔
’’دو دن سے ایس ایم ایس بھی نہیں کررہے ہم۔‘‘
’’تو اب کرلو‘ اگر صلح کرنی ہے اس سے۔‘‘
’’کرتا ہوں۔‘‘ انس نے بے بسی سے کہا تو اس کے چہرے پر پھیلی بے بسی دیکھ کر سائرہ نے بمشکل اپنی ہنسی روکی تھی۔ وہ جانتی تھیں کہ انس لاکھ طوبیٰ سے بے پروا سہی مگر دل میں وہ اس سے پیار کرتا ہے۔ جبھی تو اس کے نظر نہ آنے پر بوکھلایا بوکھلایا پھررہا تھا۔
’’تو کیا ہوا امی! وہ کوئی بچہ تو نہیں ہے بھوک لگے گی تو کھالے گا کھانا‘ اسے ہمیشہ اپنی من مانی کرنے کی عادت ہے کبھی اس نے میری فیلنگز کا خیال نہیں رکھا‘ اس کی ہر بات تو نظر انداز نہیں کی جاسکتی نا۔‘‘ طوبیٰ نے سنجیدگی سے جواب دیا حالانکہ دل انس کو دیکھنے کے لیے مچل رہا تھا۔ اس سے شکوہ کررہا تھا کہ اب تک وہ اسے منانے کیوں نہیں آیا۔
’’ہر وقت تو وہ تمہارے آگے پیچھے پھرتا ہے بے چارہ اور کیا کرے؟‘‘ طیبہ نے آنکھوں دیکھی حقیقت بیان کی تھی۔ یہ بھی سچ تھا۔
’’ہونہہ! مگر رویہ کتنا خراب ہے۔‘‘ طوبیٰ نے کہا اس وقت اس کے موبائل پر میسج ٹون بجی۔ طوبیٰ کا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔ اسے انس کا ہی خیال آیا تھا کہ ضرور اس نے میسج کیا ہوگا۔ میسج اوپن کیا تو اس کا خیال درست نکلا اس نے ایک نظم بھیجی تھی۔
’’تم خفا کیوں ہو؟‘‘
’’اوکے آپ چلیں میں آتا ہوں۔‘‘
انس نے لہجے کو رعب دار بناکر مس زبیری سے کہا تو وہ ’’اوکے سر‘‘ کہہ کر اس کے آفس روم سے باہر چلی گئیں۔
اوروہ اپنی تمام تر توجہ میٹنگ کے ایجنڈے پر مرکوز کرتے ہوئے ضروری فائلز لے کر میٹنگ ہال کی جانب بڑھ گیا۔
انس گھر آیا تو اس کی متلاشی نظریں طوبیٰ کو ہی دیکھنا چاہ رہی تھیں مگر طوبیٰ آج ’’رحمان لاج‘‘ آئی ہی نہیں تھی۔ اسے شدید مایوسی ہوئی تھی اسے نہ پاکر وہ اپنے کمرے میں چلا آیا اور سیدھا ٹیرس کی طرف گیا لیکن اسے وہاں بھی طوبیٰ کو نہ پاکر مایوسی ہوئی تھی۔ وہ چینج کرکے ٹیرس پر آگیا۔ سامنے طوبیٰ کے کمرے کی لائٹ آن تھی‘ انس کے بدن میں کرنٹ سا دوڑ گیا۔ اس نے طوبیٰ کو دیکھنے کی کوشش مگر کھڑکیوں پر پڑے پردے اس کی راہ میں حائل ہوگئے تھے حالانکہ عموماً وہ پردے سوتے وقت برابر کیا کرتی تھی۔ انس نے کچھ دیر ادھر اُدھر نگاہ دوڑائی اور ایک بڑا سا کنکر اٹھا کر سامنے طوبیٰ کے کمرے کی کھڑکی پر دے مارا۔ آواز طوبیٰ کے کانوں تک آئی تھی‘ اسے لگا تھا کہ انس آچکا ہے اور ٹیرس پر اس کا منتظر ہے لیکن وہ اس کے سامنے نہیں آنا چاہتی تھی سو لائٹ آف کرکے سونے کے لیے لیٹ گئی ویسے بھی رات کے سوا گیارہ بج رہے تھے اور خلافِ معمول اسے آج نیند بھی ابھی سے آرہی تھی۔ ورنہ وہ بارہ‘ ایک بجے تک ہی سونے کے لیے لیٹتی تھی۔ انس کو اس کے لائٹ آف کرنے پر شدید تائو آیا تھا۔
’’ہونہہ! نہیں بات کرنا چاہتی تو نہ کرے میں بھی کوئی مرا نہیں جارہا اس سے بات کرنے کو۔‘‘ انس نے بآواز غصیلے لہجے میں کہا اور واپس کمرے میں آگیا۔
’’مرنے نہیں جارہے تو بار بار موبائل کیوں چیک کرتے رہے؟ اس کے کمرے کی کھڑکی پر کنکر کیوں مارا؟ تمہاری آنکھیں کیوں صبح سے طوبیٰ کو تلاش کررہی ہیں؟ دل کام میں کیوں نہیں لگا؟ انس کے اندر سے سوالات کی بوچھاڑ ہوگئی۔
’’ظاہر ہے اس کی عادت جو ہوگئی ہے مجھے۔‘‘ انس نے صفائی پیش کی تو دل سے آواز آئی۔
’’عادت ہوگئی ہے یا محبت ہوگئی ہے اس سے جو اس کی ناراضی برداشت نہیں ہورہی؟‘‘
’’محبت‘ ہاہاہا! محبت تو طوبیٰ راحیل مجھ سے کرتی ہے اور یہ محبت اسے مجھ سے زیادہ دن ناراض نہیں رہنے دے گی‘ دیکھنا وہ کل میرے سامنے موجود ہو گی۔‘‘ انس نے خوش فہم انداز میں سوچتے ہوئے آنکھیں بند کی تھیں۔ اس کے ہونٹوں پر بڑی دلفریب مسکراہٹ سجی ہوئی تھی۔ طوبیٰ کا دیدار اسے دوسرے دن بھی نصیب نہیں ہوا تھا تو وہ باقاعدہ تلملا اٹھا تھا۔
’’سمجھتی کیا ہے خود کو میں اس کے بغیر مرجائوں گا۔‘‘
’’طوبیٰ کو تمہارے متعلق اب کوئی خوش فہمی یا غلط فہمی نہیں رہی۔ وہ سمجھ دار ہے تمہارے غیر ذمے دارانہ رویئے نے اسے بہت کچھ سمجھادیا ہے۔ اگر معافی مانگنے اور غلطی تسلیم کرنے کا ظرف رکھتے ہو تو جائو‘ جاکر طوبیٰ سے معافی مانگو۔‘‘ سائرہ نے اس کی بات سن کر کہا تو وہ بے چین ہوکر بولا۔
’’وہ سامنے آئے تب نا وہ تو پردہ نشین ہوکر بیٹھ گئی ہے۔‘‘
’’تو تم اسے فون کیوں نہیں کرلیتے‘ معافی مانگتے ہوئے شرم آتی ہے تو میسج کردو۔ ویسے بھی تو ہر وقت تم دونوں ایس ایم ایس کرتے رہتے ہو۔‘‘ سائرہ نے اسے راہ دکھاتے ہوئے جتایا بھی۔
’’دو دن سے ایس ایم ایس بھی نہیں کررہے ہم۔‘‘
’’تو اب کرلو‘ اگر صلح کرنی ہے اس سے۔‘‘
’’کرتا ہوں۔‘‘ انس نے بے بسی سے کہا تو اس کے چہرے پر پھیلی بے بسی دیکھ کر سائرہ نے بمشکل اپنی ہنسی روکی تھی۔ وہ جانتی تھیں کہ انس لاکھ طوبیٰ سے بے پروا سہی مگر دل میں وہ اس سے پیار کرتا ہے۔ جبھی تو اس کے نظر نہ آنے پر بوکھلایا بوکھلایا پھررہا تھا۔
…٭٭٭…
’’طوبیٰ بیٹا! ختم کرو ناراضی سائرہ بتارہی تھی کہ انس نے دو دن سے کھانا بھی ٹھیک سے نہیں کھایا۔‘‘ طیبہ نے طوبیٰ کو نرمی سے کہا۔’’تو کیا ہوا امی! وہ کوئی بچہ تو نہیں ہے بھوک لگے گی تو کھالے گا کھانا‘ اسے ہمیشہ اپنی من مانی کرنے کی عادت ہے کبھی اس نے میری فیلنگز کا خیال نہیں رکھا‘ اس کی ہر بات تو نظر انداز نہیں کی جاسکتی نا۔‘‘ طوبیٰ نے سنجیدگی سے جواب دیا حالانکہ دل انس کو دیکھنے کے لیے مچل رہا تھا۔ اس سے شکوہ کررہا تھا کہ اب تک وہ اسے منانے کیوں نہیں آیا۔
’’ہر وقت تو وہ تمہارے آگے پیچھے پھرتا ہے بے چارہ اور کیا کرے؟‘‘ طیبہ نے آنکھوں دیکھی حقیقت بیان کی تھی۔ یہ بھی سچ تھا۔
’’ہونہہ! مگر رویہ کتنا خراب ہے۔‘‘ طوبیٰ نے کہا اس وقت اس کے موبائل پر میسج ٹون بجی۔ طوبیٰ کا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔ اسے انس کا ہی خیال آیا تھا کہ ضرور اس نے میسج کیا ہوگا۔ میسج اوپن کیا تو اس کا خیال درست نکلا اس نے ایک نظم بھیجی تھی۔
’’تم خفا کیوں ہو؟‘‘
اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
طوبیٰ نے نظم کا پہلا مصرعہ بآواز پڑھ کر طیبہ کو سناتے ہوئے جواباً یہ شعر بھی پڑھ دیا۔
’’اللہ ہی ہدایت دیتا ہے تم دونوں کو۔‘‘ طیبہ نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا اور اس کی توجہ موبائل کی جانب دیکھ کر مسکرا دیں۔
وہ نظم پڑھنے لگی۔
تم خفا کیوں ہو؟
تمہیں مجھ سے گلہ کیا ہے؟
اچانک بے رخی اتنی
بتائو تو ہوا کیا ہے؟
منائوں کس طرح تم کو؟
مجھے اتنا تو بتلادو
اگر اب ہوسکے تم سے
تو یہ احسان فرمادو
میری منزل محبت ہے
مجھے منزل پہ پہنچادو
تمہاری آنکھ میں آنسو مجھے اچھے نہیں لگتے
تمہارے نرم ہونٹوں پر گلے اچھے نہیں لگتے
تمہارے مسکرانے سے میرا دل مسکراتا ہے
تمہارے روٹھ جانے سے میرا دل ٹوٹ جاتا ہے
’’اب آیا نہ دل ٹھکانے پہ‘ اتنی جلدی تو میں بھی تمہیں معاف کرنے والی نہیں۔ ابھی تم بھی تڑپو جیسے مجھے تڑپایا ہے‘ روئو جیسے مجھے رلایا ہے۔ جب دل سے تم اپنی اس حرکت پر ندامت محسوس نہیں کرو گے معذرت نہیں کرو گے‘ تمہیں معافی نہیں ملے گی۔‘‘ طوبیٰ نے مسکراتے ہوئے اسے اپنے دل میں مخاطب کرکے کہا اور اس کے میسج کا کوئی جواب نہیں دیا۔ کچھ دیر بعد انس کی طرف سے ’’سوری‘‘ کا میسج آیا۔ طوبیٰ نے پڑھ کر ڈیلیٹ کردیا۔ جواب نہیں دیا اور سیل آف کردیا کیونکہ اسے یقین تھا کہ انس کوئی جواب نہ پاکر اس کے نمبر پر کال ضرور کرے گا اور اگر موبائل بند پائے گا تو مزید بے قرار ہوگا اور ایسا ہی ہوا تھا۔ انس نے کچھ دیر تو اس کے جواب کا انتظار کیا پھر کال کے ارادے سے نمبر ملایا تو نمبر بند پایا۔
’’اوہ شٹ!‘‘ انس نے غصے میں موبائل بیڈ پر پٹخ دیا اور بے قراری و بے چینی کے عالم میں ٹہلنے لگا۔ اتنا پریشان تو طوبیٰ نے اسے کبھی نہیں کیا تھا۔ وہ بے بسی سے مٹھیاں اور لب بھینچنے لگا۔
رات کا آنچل پھیل چکا تھا۔ چاندنی چار سو پھیلی تھی اور فضا میں نیازبُو اور چنبیلی کی خوشبو تحلیل ہوکر ماحول کو بہت خوابناک بنا رہی تھی۔ انس کی بے چینی و بے قرار ایسے میں اپنے جوبن پر تھی۔ طوبیٰ کی ناراضی نے اسے کانٹوں کے بستر پر لاپھینکا تھا۔ اس نے ٹیرس کی جانب نگاہ کی‘ طوبیٰ کے کمرے کی لائیٹس آف تھیں۔ رات کے پونے دو بج رہے تھے شاید وہ سوگئی تھی۔
’’ادھر میں تڑپ رہا ہوں اور وہ محترمہ مزے سے محوخواب ہیں‘ بس بہت ہوگیا اب اور نہیں۔‘‘ انس نے خود کلامی کرتے ہوئے کہا اور تیزی سے اپنے کمرے سے باہر نکلا‘ لان کے راستے دونوں گھروں کو ملانے والے گیٹ کو کھولا اور طوبیٰ کے کمرے میں داخل ہوگیا۔ طوبیٰ سورہی تھی۔ سبز رنگ کا آنچل سینے پر پھیلائے ہوئے زلفوں کے ہالے میں اس کا حسین صبیح چہرہ انس کو مبہوت کرگیا۔ وہ بس ایک ٹک اسے دیکھے جارہا تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر دھیرے سے اس کی پیشانی پر آئے بالوں کو اپنے ہاتھ سے پیچھے کیا تو طوبیٰ نے کسمسا کر آنکھیں کھول دیں۔ اس سے پہلے کہ حیرت کے مارے اس کے حلق سے چیخ نکلتی انس نے اس کے منہ پر اپنا بھاری ہاتھ رکھ دیا۔
’’شی… چیخنا مت‘ میں ہوں۔‘‘ وہ آہستگی سے بولا۔
’’یہ کیا طریقہ ہے میرے کمرے میں آنے کا۔ وقت دیکھا ہے تم نے۔‘‘ طوبیٰ نے اس کا ہاتھ اپنے منہ سے ہٹا کر ناگواریت سے کہا اس کے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ کبھی اس طرح آدھی رات کو اس کے کمرے میں آسکتا ہے۔ وہ سٹپٹا گئی تھی اس کی اس حرکت پر۔
’’بہت اچھا وقت ہے کیونکہ تم میرے سامنے ہو‘ میں تمہیں دیکھ سکتا ہوں‘ محسوس کرسکتا ہوں۔‘‘ انس نے اس کے چاند چہرے کو اپنے ہاتھوں کے حصار میں لے کر محبت سے پُر لہجے میں کہا‘ طوبیٰ کی
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
طوبیٰ نے نظم کا پہلا مصرعہ بآواز پڑھ کر طیبہ کو سناتے ہوئے جواباً یہ شعر بھی پڑھ دیا۔
’’اللہ ہی ہدایت دیتا ہے تم دونوں کو۔‘‘ طیبہ نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا اور اس کی توجہ موبائل کی جانب دیکھ کر مسکرا دیں۔
وہ نظم پڑھنے لگی۔
تم خفا کیوں ہو؟
تمہیں مجھ سے گلہ کیا ہے؟
اچانک بے رخی اتنی
بتائو تو ہوا کیا ہے؟
منائوں کس طرح تم کو؟
مجھے اتنا تو بتلادو
اگر اب ہوسکے تم سے
تو یہ احسان فرمادو
میری منزل محبت ہے
مجھے منزل پہ پہنچادو
تمہاری آنکھ میں آنسو مجھے اچھے نہیں لگتے
تمہارے نرم ہونٹوں پر گلے اچھے نہیں لگتے
تمہارے مسکرانے سے میرا دل مسکراتا ہے
تمہارے روٹھ جانے سے میرا دل ٹوٹ جاتا ہے
’’اب آیا نہ دل ٹھکانے پہ‘ اتنی جلدی تو میں بھی تمہیں معاف کرنے والی نہیں۔ ابھی تم بھی تڑپو جیسے مجھے تڑپایا ہے‘ روئو جیسے مجھے رلایا ہے۔ جب دل سے تم اپنی اس حرکت پر ندامت محسوس نہیں کرو گے معذرت نہیں کرو گے‘ تمہیں معافی نہیں ملے گی۔‘‘ طوبیٰ نے مسکراتے ہوئے اسے اپنے دل میں مخاطب کرکے کہا اور اس کے میسج کا کوئی جواب نہیں دیا۔ کچھ دیر بعد انس کی طرف سے ’’سوری‘‘ کا میسج آیا۔ طوبیٰ نے پڑھ کر ڈیلیٹ کردیا۔ جواب نہیں دیا اور سیل آف کردیا کیونکہ اسے یقین تھا کہ انس کوئی جواب نہ پاکر اس کے نمبر پر کال ضرور کرے گا اور اگر موبائل بند پائے گا تو مزید بے قرار ہوگا اور ایسا ہی ہوا تھا۔ انس نے کچھ دیر تو اس کے جواب کا انتظار کیا پھر کال کے ارادے سے نمبر ملایا تو نمبر بند پایا۔
’’اوہ شٹ!‘‘ انس نے غصے میں موبائل بیڈ پر پٹخ دیا اور بے قراری و بے چینی کے عالم میں ٹہلنے لگا۔ اتنا پریشان تو طوبیٰ نے اسے کبھی نہیں کیا تھا۔ وہ بے بسی سے مٹھیاں اور لب بھینچنے لگا۔
رات کا آنچل پھیل چکا تھا۔ چاندنی چار سو پھیلی تھی اور فضا میں نیازبُو اور چنبیلی کی خوشبو تحلیل ہوکر ماحول کو بہت خوابناک بنا رہی تھی۔ انس کی بے چینی و بے قرار ایسے میں اپنے جوبن پر تھی۔ طوبیٰ کی ناراضی نے اسے کانٹوں کے بستر پر لاپھینکا تھا۔ اس نے ٹیرس کی جانب نگاہ کی‘ طوبیٰ کے کمرے کی لائیٹس آف تھیں۔ رات کے پونے دو بج رہے تھے شاید وہ سوگئی تھی۔
’’ادھر میں تڑپ رہا ہوں اور وہ محترمہ مزے سے محوخواب ہیں‘ بس بہت ہوگیا اب اور نہیں۔‘‘ انس نے خود کلامی کرتے ہوئے کہا اور تیزی سے اپنے کمرے سے باہر نکلا‘ لان کے راستے دونوں گھروں کو ملانے والے گیٹ کو کھولا اور طوبیٰ کے کمرے میں داخل ہوگیا۔ طوبیٰ سورہی تھی۔ سبز رنگ کا آنچل سینے پر پھیلائے ہوئے زلفوں کے ہالے میں اس کا حسین صبیح چہرہ انس کو مبہوت کرگیا۔ وہ بس ایک ٹک اسے دیکھے جارہا تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر دھیرے سے اس کی پیشانی پر آئے بالوں کو اپنے ہاتھ سے پیچھے کیا تو طوبیٰ نے کسمسا کر آنکھیں کھول دیں۔ اس سے پہلے کہ حیرت کے مارے اس کے حلق سے چیخ نکلتی انس نے اس کے منہ پر اپنا بھاری ہاتھ رکھ دیا۔
’’شی… چیخنا مت‘ میں ہوں۔‘‘ وہ آہستگی سے بولا۔
’’یہ کیا طریقہ ہے میرے کمرے میں آنے کا۔ وقت دیکھا ہے تم نے۔‘‘ طوبیٰ نے اس کا ہاتھ اپنے منہ سے ہٹا کر ناگواریت سے کہا اس کے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ کبھی اس طرح آدھی رات کو اس کے کمرے میں آسکتا ہے۔ وہ سٹپٹا گئی تھی اس کی اس حرکت پر۔
’’بہت اچھا وقت ہے کیونکہ تم میرے سامنے ہو‘ میں تمہیں دیکھ سکتا ہوں‘ محسوس کرسکتا ہوں۔‘‘ انس نے اس کے چاند چہرے کو اپنے ہاتھوں کے حصار میں لے کر محبت سے پُر لہجے میں کہا‘ طوبیٰ کی
گھبراہٹ بڑھتی جارہی تھی۔
’’شٹ اپ انس! پلیز جائو یہاں سے۔‘‘ وہ اس کے ہاتھ جھٹک کر غصے سے بولتی بیڈ سے نیچے اتر آئی۔
’’چلا جائوں گا پہلے ناراضی ختم کرو۔‘‘
’’انس! ہم صبح بات کریں گے۔‘‘
’’طوبیٰ! مجھے ابھی بات کرنی ہے‘ تم نے اپنا سیل کیوں آف کیا ہوا ہے؟‘‘
’’میری مرضی۔‘‘ طوبیٰ نے رخ پھیر لیا۔ آسمان پر چاندنی بکھیرتا چاند اس کے کمرے کی ادھ کھلی کھڑکی سے اندر جھانک رہا تھا۔ چاندنی طوبیٰ کے کمرے میں بھی پھیلی ہوئی تھی۔
’’میں تمہیں میسج کرکرکے تھک گیا ہوں‘ تم ہوکے پردہ نشین ہوکر بیٹھ گئیں۔ مانا غلطی ہوگئی مجھ سے معافی مانگ رہا ہوں۔‘‘
’’کب مانگی ہے تم نے معافی؟‘‘ طوبیٰ نے اسے کڑے تیوروں سے گھورا تو وہ مسکراتے ہوئے اپنے دونوں کان پکڑ کر پھر ہاتھ جوڑ کر بولا۔
’’لو میں اپنے کان پکڑتا ہوں‘ ہاتھ جوڑتا ہوں‘ مجھے معاف کردو۔‘‘
’’جائو معاف کیا‘ اب تم بھی مجھے معاف کردو اور جائو یہاں سے۔‘‘ طوبیٰ نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔ اسے ڈر تھا کہ اگر رات کے اس پہر کسی نے انس کو اس کے کمرے میں دیکھ لیا تو کیا عزت رہ جائے گی اس کی‘ سب کی نظروں میں۔ وہ لاکھ آپس میں بے تکلف دوست اور کزن سہی لیکن ہر مذہب اور معاشرے کی اقدار اور اخلاقیات کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں جنہیں پورا کرنا لازمی ہے اور طوبی کوٰ اس بات کا احساس تھا ۔
’’ایسے نہیں پیار سے کہو۔‘‘ انس نے ضد کی۔
’’انس پلیز! رات کے سوا دو بج رہے ہیں‘ کسی نے تمہیں میرے کمرے میں دیکھ لیا تو جانتے ہو کیا ہوگا؟‘‘
’’کیا ہوگا؟‘‘ انس نے مسکراتے ہوئے اس کے چہرے کو پیار سے دیکھتے ہوئے بڑے بے پروا انداز میں پوچھا۔
’’یا تو ہمارے گھر والے ہم دونوں کو گولی ماردیں گے یا پھر مولوی کو بلا کر اسی وقت ہمارا نکاح پڑھوادیں گے۔‘‘
’’او رئیلی!‘‘ وہ شوخی سے بولا۔
’’پلیز جائو یہاں سے گھر سے باہر تو میرا تماشا بنوا چکے ہو اور اب گھر میں بھی مجھے بے عزت کرنا چاہتے ہو۔‘‘ طوبیٰ کا دماغ پھر سے تپ گیا تھا اس کی اس دن والی حرکت کو یاد کرکے‘ وہ شرمندہ سا ہوگیا۔
’’یار معافی مانگ تو رہا ہوں پہلے کبھی ایسا کیا ہے تمہارے ساتھ۔ پتا نہیں کیا ہوگیا تھا مجھے‘ آئی ایم سوری پلیز معاف کردو نا۔‘‘ انس نے گھٹنوں کے بل اس کے سامنے بیٹھ کر ہاتھ جوڑے طوبیٰ کو اس پر رحم آگیا۔ وہ چھ فٹ کا لمبا چوڑا مرد اس کے سامنے گھٹنے ٹیکے بیٹھا تھااسے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا تھا اور وہ اس سے معافی مانگ رہا تھا‘ اسے اور کیا چاہیے تھا اور طوبیٰ کا دل تو انس کی محبت سے بھرا تھا۔ وہ کتنی ہی تکلیف دیتا‘ ہرٹ کرتا اسے اس کے دل میں پھر بھی انس کے لیے معافی ہی معافی تھی۔ محبت میں سزا دینا‘ محبت کے اصولوں کے منافی ہے اس کے خیال میں۔
’’اوکے معاف کیا اور وہ جو تھپڑ تم نے مجھے مارا تھا اس کا کیا؟‘‘ طوبیٰ نے اسے دیکھتے ہوئے کہا تو وہ ایک دم سے کھڑا ہوگیا اور مسکراتے ہوئے اس کا ہاتھ تھام کر بولا۔
’’لو تم بھی میرے گال پر تھپڑ مار دو‘ حساب برابر۔‘‘
’’میں تمہاری طرح سنگ دل نہیں ہوں۔‘‘
’’اچھا تو میں سنگدل ہوں۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’جی نہیں میں ثابت کرسکتا ہوں کہ میں بہت نرم دل ہوں۔‘‘وہ مسکراتے ہوئے مدہم آواز میں بولا۔
’’کیسے؟‘‘
’’ایسے؟‘‘ انس نے شوخی سے کہتے اس کے جس گال پر تھپڑ مارا تھا اس پر اپنے احمریں ہونٹ ثبت کردیئے۔ طوبیٰ کو تو ہزار وولٹ کا کرنٹ لگا تھا وہ جھٹکے سے پیچھے ہٹی تھی اور حواس باختہ سی پھٹی پھٹی آنکھوں سے انس کو دیکھ رہی تھی جو بہت دلفریب انداز میں مسکرارہا تھا۔
’’یہ… یہ کیا… حرکت ہے انس؟‘‘
’’حرکت نہیں‘ محبت ہے۔ اسی تھپڑ کا ازالہ کررہا تھا کافی ہے یا اور…؟‘‘ وہ شرارت سے مسکراتے ہوئے بولتا آگے بڑھا تو وہ دیوار سے لگ گئی اور بوکھلائی ہوئی آواز میں بولی۔
’’انس! پاگل مت بنو‘ جائو یہاں سے مرد اور عورت کا اکیلے ملنا اسی لیے ممنوع ہے کہ ا ن کے بیچ تیسرا شیطان آجاتا ہے۔‘‘
’’میں اپنے اور تمہارے بیچ کسی تیسرے کو نہیں آنے دوں گا۔‘‘ انس نے اس کے دائیں بائیں دیوار پر اپنے ہاتھ رکھ کر اس کے شرم و حیا سے سرخ گھبرائے سندر چہرے کو پیار بھری نظروں سے دیکھتے
’’شٹ اپ انس! پلیز جائو یہاں سے۔‘‘ وہ اس کے ہاتھ جھٹک کر غصے سے بولتی بیڈ سے نیچے اتر آئی۔
’’چلا جائوں گا پہلے ناراضی ختم کرو۔‘‘
’’انس! ہم صبح بات کریں گے۔‘‘
’’طوبیٰ! مجھے ابھی بات کرنی ہے‘ تم نے اپنا سیل کیوں آف کیا ہوا ہے؟‘‘
’’میری مرضی۔‘‘ طوبیٰ نے رخ پھیر لیا۔ آسمان پر چاندنی بکھیرتا چاند اس کے کمرے کی ادھ کھلی کھڑکی سے اندر جھانک رہا تھا۔ چاندنی طوبیٰ کے کمرے میں بھی پھیلی ہوئی تھی۔
’’میں تمہیں میسج کرکرکے تھک گیا ہوں‘ تم ہوکے پردہ نشین ہوکر بیٹھ گئیں۔ مانا غلطی ہوگئی مجھ سے معافی مانگ رہا ہوں۔‘‘
’’کب مانگی ہے تم نے معافی؟‘‘ طوبیٰ نے اسے کڑے تیوروں سے گھورا تو وہ مسکراتے ہوئے اپنے دونوں کان پکڑ کر پھر ہاتھ جوڑ کر بولا۔
’’لو میں اپنے کان پکڑتا ہوں‘ ہاتھ جوڑتا ہوں‘ مجھے معاف کردو۔‘‘
’’جائو معاف کیا‘ اب تم بھی مجھے معاف کردو اور جائو یہاں سے۔‘‘ طوبیٰ نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔ اسے ڈر تھا کہ اگر رات کے اس پہر کسی نے انس کو اس کے کمرے میں دیکھ لیا تو کیا عزت رہ جائے گی اس کی‘ سب کی نظروں میں۔ وہ لاکھ آپس میں بے تکلف دوست اور کزن سہی لیکن ہر مذہب اور معاشرے کی اقدار اور اخلاقیات کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں جنہیں پورا کرنا لازمی ہے اور طوبی کوٰ اس بات کا احساس تھا ۔
’’ایسے نہیں پیار سے کہو۔‘‘ انس نے ضد کی۔
’’انس پلیز! رات کے سوا دو بج رہے ہیں‘ کسی نے تمہیں میرے کمرے میں دیکھ لیا تو جانتے ہو کیا ہوگا؟‘‘
’’کیا ہوگا؟‘‘ انس نے مسکراتے ہوئے اس کے چہرے کو پیار سے دیکھتے ہوئے بڑے بے پروا انداز میں پوچھا۔
’’یا تو ہمارے گھر والے ہم دونوں کو گولی ماردیں گے یا پھر مولوی کو بلا کر اسی وقت ہمارا نکاح پڑھوادیں گے۔‘‘
’’او رئیلی!‘‘ وہ شوخی سے بولا۔
’’پلیز جائو یہاں سے گھر سے باہر تو میرا تماشا بنوا چکے ہو اور اب گھر میں بھی مجھے بے عزت کرنا چاہتے ہو۔‘‘ طوبیٰ کا دماغ پھر سے تپ گیا تھا اس کی اس دن والی حرکت کو یاد کرکے‘ وہ شرمندہ سا ہوگیا۔
’’یار معافی مانگ تو رہا ہوں پہلے کبھی ایسا کیا ہے تمہارے ساتھ۔ پتا نہیں کیا ہوگیا تھا مجھے‘ آئی ایم سوری پلیز معاف کردو نا۔‘‘ انس نے گھٹنوں کے بل اس کے سامنے بیٹھ کر ہاتھ جوڑے طوبیٰ کو اس پر رحم آگیا۔ وہ چھ فٹ کا لمبا چوڑا مرد اس کے سامنے گھٹنے ٹیکے بیٹھا تھااسے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا تھا اور وہ اس سے معافی مانگ رہا تھا‘ اسے اور کیا چاہیے تھا اور طوبیٰ کا دل تو انس کی محبت سے بھرا تھا۔ وہ کتنی ہی تکلیف دیتا‘ ہرٹ کرتا اسے اس کے دل میں پھر بھی انس کے لیے معافی ہی معافی تھی۔ محبت میں سزا دینا‘ محبت کے اصولوں کے منافی ہے اس کے خیال میں۔
’’اوکے معاف کیا اور وہ جو تھپڑ تم نے مجھے مارا تھا اس کا کیا؟‘‘ طوبیٰ نے اسے دیکھتے ہوئے کہا تو وہ ایک دم سے کھڑا ہوگیا اور مسکراتے ہوئے اس کا ہاتھ تھام کر بولا۔
’’لو تم بھی میرے گال پر تھپڑ مار دو‘ حساب برابر۔‘‘
’’میں تمہاری طرح سنگ دل نہیں ہوں۔‘‘
’’اچھا تو میں سنگدل ہوں۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’جی نہیں میں ثابت کرسکتا ہوں کہ میں بہت نرم دل ہوں۔‘‘وہ مسکراتے ہوئے مدہم آواز میں بولا۔
’’کیسے؟‘‘
’’ایسے؟‘‘ انس نے شوخی سے کہتے اس کے جس گال پر تھپڑ مارا تھا اس پر اپنے احمریں ہونٹ ثبت کردیئے۔ طوبیٰ کو تو ہزار وولٹ کا کرنٹ لگا تھا وہ جھٹکے سے پیچھے ہٹی تھی اور حواس باختہ سی پھٹی پھٹی آنکھوں سے انس کو دیکھ رہی تھی جو بہت دلفریب انداز میں مسکرارہا تھا۔
’’یہ… یہ کیا… حرکت ہے انس؟‘‘
’’حرکت نہیں‘ محبت ہے۔ اسی تھپڑ کا ازالہ کررہا تھا کافی ہے یا اور…؟‘‘ وہ شرارت سے مسکراتے ہوئے بولتا آگے بڑھا تو وہ دیوار سے لگ گئی اور بوکھلائی ہوئی آواز میں بولی۔
’’انس! پاگل مت بنو‘ جائو یہاں سے مرد اور عورت کا اکیلے ملنا اسی لیے ممنوع ہے کہ ا ن کے بیچ تیسرا شیطان آجاتا ہے۔‘‘
’’میں اپنے اور تمہارے بیچ کسی تیسرے کو نہیں آنے دوں گا۔‘‘ انس نے اس کے دائیں بائیں دیوار پر اپنے ہاتھ رکھ کر اس کے شرم و حیا سے سرخ گھبرائے سندر چہرے کو پیار بھری نظروں سے دیکھتے