وطن کی مٹی گواہ رہنا… ام ثمامہ
’’اچھا تو ڈاکٹر صاحب! آپ نے جانے کا حتمی فیصلہ کر ہی لیا۔‘‘ سبحان جب بھی ناراض ہوتا یونہی آپ جناب سے بات کیا کرتا تھا۔ اس کی ناراضی اپنی جگہ بجا تھی۔ مگر ڈاکٹر عادل کے پاس بھی اپنے فصلے کو درست ثابت کرنے کے لیے ایک ہزار ایک جواز موجود تھے۔
ایک ہفتے بعد میری انگلینڈ کے لیے فلائٹ تھی‘ میں ڈاکٹری کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے اسکالر شپ پر جارہا تھا اور پھر میرا ارادہ وہیں سیٹل ہونے کا تھا اور میں سبحان سے ملنے کراچی آیا تھا اور ہم ایک کافی شاپ میں بیٹھے تھے۔
’’یار! اس ملک کو تیرے جیسے ڈاکٹروں کی بہت ضرورت ہے۔ ہمارے ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی عطائی ڈاکٹروں کے ہاتھوں شوگر کوٹڈ گولیاں کھاتے اور پانی سے بھرے انجکشن لگواتے زندگی کی روشنی سے دور موت کے اندھیروں میں گم ہوجاتی ہے۔ یار! اس ملک نے تجھے پہچان دی اور اب جب اس ملک کو تیری ضرورت ہے تو تُو نظریں چُرا کے دامن چھڑا کے جارہا ہے۔‘‘ سبحان اسے قائل کرنے کی بھرپور کوشش کررہا تھا۔
’’اس ملک میں اب بچا ہی کیا ہے۔ بھوک‘ بیماری‘ بے روزگاری اور بم دھماکے… ‘‘ عادل جو کب سے سن رہا تھا ایک دم پھٹ پڑا۔
’’جس ملک میںخود محافظ محفوظ نہ ہوں‘ مائیں غربت کی وجہ سے اپنے جگر گوشے فروخت کردیں‘ گیس بجلی اور پانی جیسی اہم ضروریات کے لیے لوگ ترستے ہوں‘ وہ ملک بھلا مجھے کیا دے گا۔ ان باتوں سے کچھ نہیں ہوتا پیٹ روٹی مانگتا ہے یہاں ینگ ڈاکٹرز کے مسائل کے حل کا رونا روتے پورا سال ہونے کو آیا ہے۔‘‘ وہ بولا تو بولتا چلا گیا۔
’’اچھا یار! تیری مرضی چھوڑ کوئی اور بات کرتے ہیں لیکن اتنا یاد رکھنا اس وطن میں آزادی کے چراغ ہمارے بزرگوں کے لہو سے جلے ہیں آج بُرے وقت میں اگر ہم اسے تنہا چھوڑ دیں گے تو کل ہمارے بچوں کے گلوں میں غلامی کا طوق ڈال دیا جائے گا۔‘‘
بچپن سے لے کر اب تک کی دوستی کی یادیں تازہ کرتے کرتے شام کے سائے کافی شاپ سے باہر بنی تارکول کی سڑک پر کب سایا فگن ہوئے پتا ہی نہیں چلا۔
’’سبحان! مجھے خط لکھنے کی عادت مت چھوڑنا‘ دیارِ غیر میں تیرے خط تنہائی کا مداوا ہوں گے اور سرد برفیلے موسم میں حرارت کا کام دیں گے اور پھر دھیرے دھیرے میں عادی ہوجائوں گا۔‘‘ اٹھنے سے پہلے عادل نے کہا۔ سبحان نے اس کے ہاتھ پر اپنا مضبوط ہاتھ رکھ دیا۔
میں جانتا تھا عادل نے بھی یہ فیصلہ کسی مجبوری کے تحت ہی کیا تھا۔ والد کی وفات کے بعد وہ گھر کا واحد کفیل تھا‘ بہن بھائی ابھی چھوٹے تھے‘ یہ میرے یار سے میری آخری ملاقات تھی اور پھر وہ اپنی بیس کی طرف چل دیا اور میں کراچی میں مقیم اپنے چند رشتے داروں سے ملنے چل دیا۔
…٭٭٭…
رات کا پچھلا پہر تھا کھڑکی سے چھن چھن کر آتی آماوس کے چاند کی روشنی اس شخص کے گرد ہالہ سا بنائے ہوئے تھی جو کئی گھنٹوں سے کرسی پر ساکت و جامد بیٹھا تھا‘ اس کے سامنے فائبر گلاس کی ایک ٹیبل رکھی تھی۔
ٹیبل کے سائیڈ میں ادھ جلے سگریٹ کے ٹکڑوں سے بھری ایش ٹرے دھری تھی۔ ٹیبل کے بالکل سینٹر میں ایک البم پڑی تھی اور اس کے ساتھ ایک خاکی لفافہ پڑا تھا‘ اس پر لگی ٹکٹوں کا رنگ کچھ ماند پڑچکا تھا‘ ایڈریس کی سیاہی آنسوئوں کے نمکین پانی سے جا بجا پھیلی ہوئی تھی‘ کاغذ کہیں کہیں سے اکھڑ چکا تھا اور کیوں نہ ہوتا یہ خاکی لفافہ زندگی سے موت تک کا طویل سفر طے کرنے کے بعد ڈاکٹر عادل تک پہنچا تھا۔
آج لیفٹیننٹ سبحان کو اس دنیا سے رخصت ہوئے تیسرا دن تھا‘ تین دن پہلے ہی تو وہ اپنے جگری یار کو منوں مٹی تلے پورے اعزاز کے ساتھ سلا کر آیا تھا۔
ابھی چند دن پہلے جب وہ اس سے ملنے گیا تھا تو نیوی کی بسوں پر حملے ہورہے تھے توملاقات کے دوران اس نے کہا تھا۔
’’یار عادل! دعا کرنا میں اس طرح کے کسی بم دھماکے میں بے خبری کی موت نہ مارا جائوں۔ یار! میں دشمن سے لڑتے اپنے وطن کی سلامتی کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہونا چاہتا ہوں۔‘‘ اسے لگا سارے کمرے میں سبحان کے حملے کی بارگشت گونج رہی ہو۔
عادل نے بے چین ہوکر سیاہ اور سنہری کور والا البم کھول لیا جو اسے سبحان نے ہی گفٹ کیا تھا۔ بچپن‘ لڑکپن‘ جوانی کی کئی حسین یادیں اس میں قید تھیں۔ نیوی کے سفید ڈریس میں روشن آنکھوں چوڑی پیشانی اور دمکتی رنگت والا لیفٹیننٹ سبحان کھڑا مسکرارہا تھا۔
انٹر تک وہ ساتھ ساتھ تھے پھر عادل نے میڈیکل کالج میں ایڈمیشن لے لیا اور سبحان نے نیوی جوائن کرلی اور وہ کراچی روانہ ہوگیا۔
کہتے ہیں جدائی محبت کو بڑھا دیتی ہے اور ان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔ میلوں کے فاصلے نے ان کی دوستی کو اور مضبوط سے مضبوط تر کردیا تھا۔ عادل کو اسپتال اور مریضوں سے بہت کم وقت ملتا تھا اور آج کل تو بس وہ اپنے جانے کی تیاریوں میں مصروف تھا مگر جب بھی وہ سبحان سے ملتا یا فون پر بات کرتا وہ ملک کے موجود حالات ملک کی بقا اور سلامتی کے لیے بہت ہی پریشان ہوتا تھا۔ وہ اسے بتاتا کہ حالات کس نہج پر پہنچ چکے ہیں‘ بیرونی مداخلت اور اندرونی سیاست نے کس طرح ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کردیا ہے۔
ایک سچا پاکستانی اور فوجی ہونے کی وجہ سے پریشانی اس کے لہجے اور آنکھوں سے عیاں ہوتی اور کیوں نہ ہوتی وہ اس دادا کا پوتا تھا جنہوں نے آزادی کی تحریک میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا تھا وہ اس باپ کا بیٹا تھا جو سیاچن کے برفیلے محاذ پر وطن کی سرحدوں کی حفاظت کرنے فرسٹ بائٹ کی وجہ سے اپنی دونوں ٹانگوں سے محروم ہوچکے تھے۔
عادل نے کئی بار لفافے کی طرف ہاتھ بڑھائے مگر اسے کھولنے کی ہمت نہ کرسکا۔ وہ کل سبحان کی امی کے پاس گیا تھا‘ ان کی آنکھوں میں بیٹے کے چلے جانے کی وجہ سے آنسو ضرور تھے مگر وہ اس کی شہادت پر بے حد مطمئن بھی تھیں۔ اس کے بابا‘ بہن بھائی سب اپنے بھائی کی شہادت پر فخر کررہے تھے۔ عادل کو اپنا آپ بہت چھوٹا محسوس ہونے لگا اس نے بے قرار ہوکر لفافہ کھول ڈالا۔
’’ڈئیر عادل!
السّلام علیکم!
اللہ تبارک و تعالیٰ سے تمہاری اور اپنے وطن عزیز کی سلامتی کے لیے ہر دم دعاگو رہتا ہوں۔ جب سے پتا چلا ہے میرا یار ہمیشہ کے لیے دیارِ غیر جانے والا ہے‘ دل کے کسی گوشے میں اداسی نے مستقل اپنا ڈیرہ جمالیا ہے‘ تھوڑے دنوں میں تیری فلائٹ ہے مگر یار آج کل حالات اس قدر کشیدہ ہیں کہ مجھے چھٹی نہیں مل سکے گی‘اس لیے تجھ سے ملنے نہیں آسکوں گا تو سوچا چلو آدھی ملاقات ہی کرلی جائے۔
تجھے ایک بات بتائوں میں نے تیری بھابی زرشہ کے لیے اپنی پسند کا سرخ عروسی جوڑا خریدا ہے بس اب تو چار مہینے بیس دن اور پندرہ گھنٹے رہ گئے ہیں پھر وہ ہمیشہ کے لیے میری ہوجائے گی‘ میں اپنی شادی پر تجھے بہت یاد کروں گا۔ یار! ہم نے تو مل کر بھنگڑے ڈالنے تھے مگر تُو دل چھوٹا مت کر تیرے آنے پر میں ایک اور شادی کرلوں گا۔ دیارِ غیر میں جب تجھے احساس ہوکہ ہر طرح کی سہولت سے مستفید گوروں سے زیادہ تیرے اپنے بوڑھے اور بیمار لوگوں کو تیری ضرورت ہے تو لوٹ آنا‘ وطن کی مٹی کشادہ دل اور کھلی بانہوں سے تیرا استقبال کرے گی۔ اپنا بہت خیال رکھنا‘ میری دعائیں اور دوستی ہمیشہ تیرے ساتھ رہے گی۔
والسّلام!
تمہارا پُرخلوص دوست لیفٹیننٹ سبحان احمد!‘‘
اس کے یار نے وطن عزیز کی سلامتی کے لیے اپنی جان قربان کردی تھی‘ تو کیا وہ اتنا گیا گزرا تھا کہ اپنا وقت اور اپنی مسیحائی اپنے وطن کو دان نہ کرسکے۔ عادل نے کاغذ کو احتیاط سے طے لگا کر خالی لفافے میں ڈالا اور دراز میں رکھے پی آئی اے کے ٹکٹ کے پُرزے پُرزے کردیئے۔
دور بہت دور نیول بیس پر اس کے یار کے خون سے صدا آرہی تھی جو وطن عزیز کی مٹیالی زمین کو سرخ کررہا تھا۔
وطن کی مٹی عظیم ہے تُو‘ عظیم تر ہم بنارہے ہیں
گواہ رہنا وطن کی مٹی گواہ رہنا!!
ایک سچا پاکستانی اور فوجی ہونے کی وجہ سے پریشانی اس کے لہجے اور آنکھوں سے عیاں ہوتی اور کیوں نہ ہوتی وہ اس دادا کا پوتا تھا جنہوں نے آزادی کی تحریک میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا تھا وہ اس باپ کا بیٹا تھا جو سیاچن کے برفیلے محاذ پر وطن کی سرحدوں کی حفاظت کرنے فرسٹ بائٹ کی وجہ سے اپنی دونوں ٹانگوں سے محروم ہوچکے تھے۔
عادل نے کئی بار لفافے کی طرف ہاتھ بڑھائے مگر اسے کھولنے کی ہمت نہ کرسکا۔ وہ کل سبحان کی امی کے پاس گیا تھا‘ ان کی آنکھوں میں بیٹے کے چلے جانے کی وجہ سے آنسو ضرور تھے مگر وہ اس کی شہادت پر بے حد مطمئن بھی تھیں۔ اس کے بابا‘ بہن بھائی سب اپنے بھائی کی شہادت پر فخر کررہے تھے۔ عادل کو اپنا آپ بہت چھوٹا محسوس ہونے لگا اس نے بے قرار ہوکر لفافہ کھول ڈالا۔
’’ڈئیر عادل!
السّلام علیکم!
اللہ تبارک و تعالیٰ سے تمہاری اور اپنے وطن عزیز کی سلامتی کے لیے ہر دم دعاگو رہتا ہوں۔ جب سے پتا چلا ہے میرا یار ہمیشہ کے لیے دیارِ غیر جانے والا ہے‘ دل کے کسی گوشے میں اداسی نے مستقل اپنا ڈیرہ جمالیا ہے‘ تھوڑے دنوں میں تیری فلائٹ ہے مگر یار آج کل حالات اس قدر کشیدہ ہیں کہ مجھے چھٹی نہیں مل سکے گی‘اس لیے تجھ سے ملنے نہیں آسکوں گا تو سوچا چلو آدھی ملاقات ہی کرلی جائے۔
تجھے ایک بات بتائوں میں نے تیری بھابی زرشہ کے لیے اپنی پسند کا سرخ عروسی جوڑا خریدا ہے بس اب تو چار مہینے بیس دن اور پندرہ گھنٹے رہ گئے ہیں پھر وہ ہمیشہ کے لیے میری ہوجائے گی‘ میں اپنی شادی پر تجھے بہت یاد کروں گا۔ یار! ہم نے تو مل کر بھنگڑے ڈالنے تھے مگر تُو دل چھوٹا مت کر تیرے آنے پر میں ایک اور شادی کرلوں گا۔ دیارِ غیر میں جب تجھے احساس ہوکہ ہر طرح کی سہولت سے مستفید گوروں سے زیادہ تیرے اپنے بوڑھے اور بیمار لوگوں کو تیری ضرورت ہے تو لوٹ آنا‘ وطن کی مٹی کشادہ دل اور کھلی بانہوں سے تیرا استقبال کرے گی۔ اپنا بہت خیال رکھنا‘ میری دعائیں اور دوستی ہمیشہ تیرے ساتھ رہے گی۔
والسّلام!
تمہارا پُرخلوص دوست لیفٹیننٹ سبحان احمد!‘‘
اس کے یار نے وطن عزیز کی سلامتی کے لیے اپنی جان قربان کردی تھی‘ تو کیا وہ اتنا گیا گزرا تھا کہ اپنا وقت اور اپنی مسیحائی اپنے وطن کو دان نہ کرسکے۔ عادل نے کاغذ کو احتیاط سے طے لگا کر خالی لفافے میں ڈالا اور دراز میں رکھے پی آئی اے کے ٹکٹ کے پُرزے پُرزے کردیئے۔
دور بہت دور نیول بیس پر اس کے یار کے خون سے صدا آرہی تھی جو وطن عزیز کی مٹیالی زمین کو سرخ کررہا تھا۔
وطن کی مٹی عظیم ہے تُو‘ عظیم تر ہم بنارہے ہیں
گواہ رہنا وطن کی مٹی گواہ رہنا!!
اور کچھ خواب ’’قسط نمبر 30‘‘… عشنا کوثر سردار
انائیا کی سماعتوں میں جیسے کوئی پگھلا ہوا سیسہ انڈیل رہا تھا۔ اسے کچھ دکھائی نہیں دے رہاتھا‘ کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ صرف معارج تغلق کے ہونٹ ہلتے دکھائی دے رہے تھے‘ اس کی آواز سے اس کا کوئی ربط بن نہیں پارہا تھا‘ اس کی سماعتوں میں بس ایک شور تھا‘ اس شور کے مفہوم بڑے غیر واضح تھے‘ وہ کچھ سمجھ نہیں پارہی تھی‘ محبت ایسی بے مہر ہوسکتی تھی؟
ایسی بے حس؟
محبت میں محبت کی امید نہیں رکھی جائے‘ کوئی توقع نہ رکھی جائے‘ تب بھی محبت اگر محرم نہ رہے تو اندر کہیں بہت گہری تکلیف ہوتی ہے پھر معارج تغلق ایسا کیوں کررہا تھا؟ اگر وہ اس کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکتا تھا‘ اسے کوئی صلہ نہیں دے رہاتھا‘ تو اس کا کچھ تو خیال کرسکتا تھا یا پھر اس کی توقعات ہی بہت زیادہ تھیں؟
میرے محرماں
میں نے اپنے سارے خواب سجائے تھے تیرے واسطے
ہر اک سانس میری‘ میری پلکوں کے سائے
بہت سنبھال کر رکھے تھے
تیرے سارے کرم
تیرے سارے بھرم
میرے ہم سفر
میری جان میں جو جنوں ہے
جو افسوں ہے میری سانسوں میں
اس کا سبب تمہی تو ہو
میری سمت تم جو نظر کرو
میرے سارے اسباب جان لو
میرے مہرباں‘ میرے محرماں
میرے اندر جتنے سوال ہیں
جتنے وسوسے یا ملال ہیں
یا ہم میں جو ایک ڈور ہے
جو دل کو باندھے بیٹھی ہے
اس الجھن کا میں کیا کروں؟
اس محبت کا میں کیا کروں؟
’’انائیا! بہت سے نقصان ناقابل تلافی ہوتے ہیں‘ میں سبھی کیے کا ازالہ نہیں کرسکتا مگر میں محسوس کرتا ہوں میرے اندر جو تمہارے لیے کینہ تھا‘ ایک سختی تھی‘ وہ اب نہیں ہے‘ جانے کب… کیسے وہ سب میرے اندر سے جاتا رہا مگر اب مجھے تم سے کوئی عداوت نہیں ہے ‘ تم نے ٹھیک کہا تھا میں اگر تمہارے ساتھ سب غلط کرتا ہوں تو پھر مجھ میں اور اس شخص میں کوئی فرق نہیں‘ میں خوف زدہ تھا۔ میں مسلسل اسی کیفیت میں ہوں۔ میں کسی نئی انائیا تغلق کو جنم نہیں دینا چاہتا۔ انائیا تغلق کی تکلیف کا مجھے احساس ہے کیونکہ اس کے ساتھ میرا دل جڑا ہے۔ اس کے لیے میرے اندر بہت گنجائشٍ ہے اور دکھ بھی۔ اس کی ہر تکلیف کو میں اپنے دل سے محسوس کرسکتا ہوں‘ تبھی شاید تمہارے ساتھ سب کرنا ناروا لگا‘ میںجانتا ہوں تم فی الفور مجھے معاف نہیں کرسکتیں شاید کبھی معاف بھی نہ کرسکو مگر میں اپنے خود پر اپنے بُرے کیے کا ہر ممکن ازالہ کرنے کی پوری کوشش کروںگا۔ میں ایسا کرنے کی ٹھان چکا ہوں‘ تم میرے ساتھ رہو یا نہ رہو‘ میں تمہارا لیے ہمیشہ خیر خواہ رہوں گا اور اپنے طور پر تمہارے حق میں ہر اچھا کرنے کا ارادہ رکھوں گا۔‘‘ وہ پرسکون انداز میں کہہ رہا تھا۔
انائیا ملک اسے خاموشی سے ساکت سی دیکھ رہی تھی۔ اسے اس طرح اپنی طرف دیکھتا پاکر جانے کیوں وہ مسکرایا تھا۔ پھر ہاتھ بڑھا کر اس کے چہرے کو ملائمت سے چُھوا تھا۔
’’تم نے کوشش نہیں کی نا اگر محبت ہوجاتی تو پھر اتنے گلے نہیں ہوتے۔‘‘
وہ کیا سمجھ رہا تھا؟ یا انائیا کی نظریں اس سے کیا کہہ رہی تھیں؟ کیا وہ اسے‘ یا اس کی نظروں کو پڑھ رہا تھا؟ وہ جان گیا تھا کہ اس کی نگاہوں میں شکوہ ہے ۔
یا کوئی شکایت؟
’’مرد بہت سی چیزوں پر کورا ہوتا ہے‘ شاید اس سفر کا آغاز تمہاری طرف سے ہوتا تو مجھے اچھا لگتا۔ مگر تم بھی ایک کائیاں ہو‘ محبت کرنا تو شاید تمہیں بھی نہیں آتی‘ ہے نا؟ اچھا سنو! محبت ہو بھی جاتی تو؟کیا تم مجھے معاف کردیتیں؟‘‘ وہ پوچھنے لگا تھا پھر اس کا جواب سنے بنا مسکرادیا تھا۔
’’شاید تم مجھے معاف نہیں کرسکو گی‘ محبت کے لیے سوچنا تو بہت دور کی بات ہے اور میں آج اچانک محبت کے بارے میں کیوں سوچ رہا ہوں؟‘‘ وہ آپ چونکا تھا۔ انائیا ملک تب بھی کچھ نہیں بولی تھی۔
’’تمہاری آنکھیں… شاید یہ تمہاری آنکھیں ہیں جو مجھے ایسا سوچنے پر مجبور کررہی ہیں۔‘‘ معارج تغلق کی مدہم سی سرگوشی فضا میں ابھری تھی۔
’’اگر ان آنکھوں کو جیتنے کا ہنر آتا تو میرا دل کب کا فتح ہوچکا ہوتا۔ میں مفتوح بننے میں ہچکچاتا نا کوئی تعرض برتتا۔ ایک بات کہوں؟‘‘ وہ مسکرایا تھا۔ ’’مجھے فاتح بننے کا غرور کبھی درکار نہیں رہا۔ مجھے ان کھیلوں سے کوئی شغف نہیں سو میں ہار جیت کے معاملات میں کبھی نہیں پڑا تبھی تو آج تمہاری نظروں کو بغو دیکھ رہا ہوں اور کہیں کچھ تلاش کررہا ہوں۔‘‘ وہ بہت بے فکر سا مسکرارہاتھا کیا یہ وہی معارج تغلق تھا؟
وہ ہی سخت گیر
وہ موقع پرست… سخت دل انسان… یا وہ اصول پرست انسان جسے اپنا کیا سب ٹھیک لگتا تھا؟
انائیا ملک کی نظریں اسے جانچ رہی تھیں اور معارج تغلق کی آواز اس کی سماعتوں میں پڑ رہی تھی۔
’’ان آنکھوں کو ضد ہے‘ یہ خواب دیکھنا نہیں چاہتیں اور مجھے یہ ضد ہے کہ کہیں کوئی عکس ہو۔ یہ آنکھیں بات نہیں کرتیں اور مجھے خو ہے یہ بولیں میرا ذکر کریں‘ میری بات کریں۔‘‘ کتنی مدہم سرگوشی تھی انائیا کی سماعتوں میں سارا ماحول ایک دھڑکن کی طرح تھم گیا تھا۔
معارج تغلق نے اس کی کمر کے گرد بازو حمائل کرکے اسے خود سے قریب کیا تھا اور اس کے چہرے کو بغوردیکھا تھا۔ جیسے وہ ان نظروں‘ ان آنکھوں‘ اس چہرے کو پہلی بار دیکھ رہا تھا یا وہ کوئی خواہش اندر رکھتا تھا۔
’’اگر کوئی خواہش کروں تو اسے شاید تم پورا نہ کرو۔ سمجھ نہیں آتا کیسے بسر ہوگی اب۔ مگر یہ تو طے ہے کہ تمہاری یاد بہت آئے گی۔ بات عشق کی نہیں نا کوئی جنوں ہے مگر کچھ ایسا ہے کہ دل تھوڑا بہت عادی ہوگیا تھا سو کچھ دن تو کچھ قلق ہوگا پھر سب کچھ معمول پر آجائے گا۔ شاید ایسا کچھ تمہاری طرف بھی ہو۔‘‘ مدہم لہجے میں عجیب خواہشیں بول رہی تھیں۔ ان نگاہوں کی حدت سے اس کا چہرہ جلنے لگا تھا۔ وہ اس کی سمت زیادہ دیر دیکھ نہیں پائی تھی‘ نظریں جھکاگئی تھی۔ معارج تغلق ان قربتوں کو طول دینے کی سوچ رہا تھا یا کوئی اور خواہش اس کے دل میں تھی‘ وہ جان نہیں پائی تھی وہ صرف اتنا جانتی تھی کہ وہ سارے لمحے سمیٹ رہا تھا اور تمام معاملات کو منفی انجام دے رہا ہے پھر ان قربتوں کی کہانی آغاز کرنے سے کیا فائدہ تھا‘ ان لمحوں میں کوئی جادو تھا۔
وہ اس کی گرفت سے باہر نکل جانا چاہتی تھی۔ اسے پرے دھکیل دینا چاہتی تھی‘ مگر اس لمحے اس نے خود کو کتنا بے بس سا محسوس کیا تھا۔
یہ محبت تھی؟
اس کی آنکھوں میں
اس کے چہرے پر
وہ محبت ہی تھی؟ یا کچھ اور
انائیا اس کی آنکھوں میں دیکھنے کا ارادہ رکھتے ہوئے بھی دیکھ نہیں سکتی تھی۔
’’ان آنکھوں کو دیکھ کر جانے کیوں لگتا ہے یہ اپنے اندر عجیب بھید رکھتی ہیں باندھ سکتی ہیں اپنے ساتھ۔ خود میں ضم کرسکتی ہیں مجھ میں خواہشوں کا انبار لگنے لگتا ہے نا چاہتے ہوئے بھی ان آنکھوں کا تابع ہونے لگتا ہوں۔ تم کچھ سمجھو نہ سمجھو مگر کچھ تو بھید ہے۔ شاید میں ہی بہت نا سمجھ ہوں یا پھر ان کاموں میں عقل سے سابقہ ہی نہیں ہوتا۔ میں حیران ہوں بہرحال‘ میرے معمولات میں کسی کے لیے دنیا تیاگ دینا کبھی نہیں تھا۔‘‘ وہ دھیمے لہجے میں اس کے کان کے قریب سرگوشی کرتے ہوئے مسکرایا تھا۔ انائیا ملک کی ساری جان مٹھی میں آگئی تھی‘ وہ ساحر تھا جو عجیب سُر پھونک رہا تھا۔ لمحوں کو اپنے ساتھ باندھ رہا تھا‘ دھڑکنوں کو اپنا معمول کررہا تھاا ور پھر ایک دم سے سارے خوابوں کی ڈور کھینچ کر توڑ دیتا تھا۔ انائیا ملک کے لیے اس جادو سے باہر آنا ناممکن تھا مگر وہ اپنے گرد سے اس کی گرفت ہٹا کر اس کے حصار سے باہر نکلی تھی اور دو قدم دور جا کھڑی ہوئی۔
وہ اپنی طے شدہ راہوں پر چلنے کا ارادہ باندھ چکا تھا تو وہ اس کے سامنے اپنی انا کو روندنے کے لیے مزید نہیں جھک سکتی تھی۔
محبت ہی تھی نا
ہوگئی تھی مگر اس خودداری کو وہ نہیں گنوا سکتی تھی
وہ شخص اب بھی اتنا ہی دور تھا اتنا ہی اجنبی
انائیا ملک کی نظروں نے اسے دیکھا تھا۔ جانے کیوں آنکھیں پانیوں سے بھرنے لگی تھیں۔
’’سچ تو یہ ہے معارج تغلق تم کسی کا معمول بن نہیں سکتے‘ تم محبت کا معمول کیا بنو گے۔ تم جیسا شخص محبت کے الجھائوں میں نہیں الجھ سکتا۔ تم آج بھی اتنے ہی الجھے ہوئے ہو مگر ایک بات ہے‘ تم جیسا بندہ کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرسکتا۔ اس سارے کھیل میں جس کا نقصان ہوا ہے وہ میں ہوں اور حقیقت تو یہ ہے کہ تم میرا وہ نقصان کبھی پورا نہیں کرسکتے۔ چاہے تم کھربوں میرے نام لکھوادو۔ میرا وہ نقصان تمہارے لیے ناقابل تلافی ہی رہے گا۔‘‘ انائیا ملک نے دھندلی آنکھوں سے اس لمبے چوڑے شخص کو دیکھا جو پل میں کسی بھی دنیا کو زیرو زبر کرسکتا تھا۔
’’تم اختیارات کے حصول میں جنون پسند ہو مگر میرا حصول ان اختیارات سے باہر کی چیز ہے‘ میں تمہارا جنوں نہیں‘ تمہاری خواہشوں میں نہیں سو تم یہ کہانی بھی سمجھ نہیں سکتے۔‘‘ وہ کہہ کر پلٹی تھی اور وہاں سے نکل آئی۔
معارج تغلق خاموشی سے اسے جاتا دیکھتا رہا تھا۔
’’مرد بہت سی چیزوں پر کورا ہوتا ہے‘ شاید اس سفر کا آغاز تمہاری طرف سے ہوتا تو مجھے اچھا لگتا۔ مگر تم بھی ایک کائیاں ہو‘ محبت کرنا تو شاید تمہیں بھی نہیں آتی‘ ہے نا؟ اچھا سنو! محبت ہو بھی جاتی تو؟کیا تم مجھے معاف کردیتیں؟‘‘ وہ پوچھنے لگا تھا پھر اس کا جواب سنے بنا مسکرادیا تھا۔
’’شاید تم مجھے معاف نہیں کرسکو گی‘ محبت کے لیے سوچنا تو بہت دور کی بات ہے اور میں آج اچانک محبت کے بارے میں کیوں سوچ رہا ہوں؟‘‘ وہ آپ چونکا تھا۔ انائیا ملک تب بھی کچھ نہیں بولی تھی۔
’’تمہاری آنکھیں… شاید یہ تمہاری آنکھیں ہیں جو مجھے ایسا سوچنے پر مجبور کررہی ہیں۔‘‘ معارج تغلق کی مدہم سی سرگوشی فضا میں ابھری تھی۔
’’اگر ان آنکھوں کو جیتنے کا ہنر آتا تو میرا دل کب کا فتح ہوچکا ہوتا۔ میں مفتوح بننے میں ہچکچاتا نا کوئی تعرض برتتا۔ ایک بات کہوں؟‘‘ وہ مسکرایا تھا۔ ’’مجھے فاتح بننے کا غرور کبھی درکار نہیں رہا۔ مجھے ان کھیلوں سے کوئی شغف نہیں سو میں ہار جیت کے معاملات میں کبھی نہیں پڑا تبھی تو آج تمہاری نظروں کو بغو دیکھ رہا ہوں اور کہیں کچھ تلاش کررہا ہوں۔‘‘ وہ بہت بے فکر سا مسکرارہاتھا کیا یہ وہی معارج تغلق تھا؟
وہ ہی سخت گیر
وہ موقع پرست… سخت دل انسان… یا وہ اصول پرست انسان جسے اپنا کیا سب ٹھیک لگتا تھا؟
انائیا ملک کی نظریں اسے جانچ رہی تھیں اور معارج تغلق کی آواز اس کی سماعتوں میں پڑ رہی تھی۔
’’ان آنکھوں کو ضد ہے‘ یہ خواب دیکھنا نہیں چاہتیں اور مجھے یہ ضد ہے کہ کہیں کوئی عکس ہو۔ یہ آنکھیں بات نہیں کرتیں اور مجھے خو ہے یہ بولیں میرا ذکر کریں‘ میری بات کریں۔‘‘ کتنی مدہم سرگوشی تھی انائیا کی سماعتوں میں سارا ماحول ایک دھڑکن کی طرح تھم گیا تھا۔
معارج تغلق نے اس کی کمر کے گرد بازو حمائل کرکے اسے خود سے قریب کیا تھا اور اس کے چہرے کو بغوردیکھا تھا۔ جیسے وہ ان نظروں‘ ان آنکھوں‘ اس چہرے کو پہلی بار دیکھ رہا تھا یا وہ کوئی خواہش اندر رکھتا تھا۔
’’اگر کوئی خواہش کروں تو اسے شاید تم پورا نہ کرو۔ سمجھ نہیں آتا کیسے بسر ہوگی اب۔ مگر یہ تو طے ہے کہ تمہاری یاد بہت آئے گی۔ بات عشق کی نہیں نا کوئی جنوں ہے مگر کچھ ایسا ہے کہ دل تھوڑا بہت عادی ہوگیا تھا سو کچھ دن تو کچھ قلق ہوگا پھر سب کچھ معمول پر آجائے گا۔ شاید ایسا کچھ تمہاری طرف بھی ہو۔‘‘ مدہم لہجے میں عجیب خواہشیں بول رہی تھیں۔ ان نگاہوں کی حدت سے اس کا چہرہ جلنے لگا تھا۔ وہ اس کی سمت زیادہ دیر دیکھ نہیں پائی تھی‘ نظریں جھکاگئی تھی۔ معارج تغلق ان قربتوں کو طول دینے کی سوچ رہا تھا یا کوئی اور خواہش اس کے دل میں تھی‘ وہ جان نہیں پائی تھی وہ صرف اتنا جانتی تھی کہ وہ سارے لمحے سمیٹ رہا تھا اور تمام معاملات کو منفی انجام دے رہا ہے پھر ان قربتوں کی کہانی آغاز کرنے سے کیا فائدہ تھا‘ ان لمحوں میں کوئی جادو تھا۔
وہ اس کی گرفت سے باہر نکل جانا چاہتی تھی۔ اسے پرے دھکیل دینا چاہتی تھی‘ مگر اس لمحے اس نے خود کو کتنا بے بس سا محسوس کیا تھا۔
یہ محبت تھی؟
اس کی آنکھوں میں
اس کے چہرے پر
وہ محبت ہی تھی؟ یا کچھ اور
انائیا اس کی آنکھوں میں دیکھنے کا ارادہ رکھتے ہوئے بھی دیکھ نہیں سکتی تھی۔
’’ان آنکھوں کو دیکھ کر جانے کیوں لگتا ہے یہ اپنے اندر عجیب بھید رکھتی ہیں باندھ سکتی ہیں اپنے ساتھ۔ خود میں ضم کرسکتی ہیں مجھ میں خواہشوں کا انبار لگنے لگتا ہے نا چاہتے ہوئے بھی ان آنکھوں کا تابع ہونے لگتا ہوں۔ تم کچھ سمجھو نہ سمجھو مگر کچھ تو بھید ہے۔ شاید میں ہی بہت نا سمجھ ہوں یا پھر ان کاموں میں عقل سے سابقہ ہی نہیں ہوتا۔ میں حیران ہوں بہرحال‘ میرے معمولات میں کسی کے لیے دنیا تیاگ دینا کبھی نہیں تھا۔‘‘ وہ دھیمے لہجے میں اس کے کان کے قریب سرگوشی کرتے ہوئے مسکرایا تھا۔ انائیا ملک کی ساری جان مٹھی میں آگئی تھی‘ وہ ساحر تھا جو عجیب سُر پھونک رہا تھا۔ لمحوں کو اپنے ساتھ باندھ رہا تھا‘ دھڑکنوں کو اپنا معمول کررہا تھاا ور پھر ایک دم سے سارے خوابوں کی ڈور کھینچ کر توڑ دیتا تھا۔ انائیا ملک کے لیے اس جادو سے باہر آنا ناممکن تھا مگر وہ اپنے گرد سے اس کی گرفت ہٹا کر اس کے حصار سے باہر نکلی تھی اور دو قدم دور جا کھڑی ہوئی۔
وہ اپنی طے شدہ راہوں پر چلنے کا ارادہ باندھ چکا تھا تو وہ اس کے سامنے اپنی انا کو روندنے کے لیے مزید نہیں جھک سکتی تھی۔
محبت ہی تھی نا
ہوگئی تھی مگر اس خودداری کو وہ نہیں گنوا سکتی تھی
وہ شخص اب بھی اتنا ہی دور تھا اتنا ہی اجنبی
انائیا ملک کی نظروں نے اسے دیکھا تھا۔ جانے کیوں آنکھیں پانیوں سے بھرنے لگی تھیں۔
’’سچ تو یہ ہے معارج تغلق تم کسی کا معمول بن نہیں سکتے‘ تم محبت کا معمول کیا بنو گے۔ تم جیسا شخص محبت کے الجھائوں میں نہیں الجھ سکتا۔ تم آج بھی اتنے ہی الجھے ہوئے ہو مگر ایک بات ہے‘ تم جیسا بندہ کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرسکتا۔ اس سارے کھیل میں جس کا نقصان ہوا ہے وہ میں ہوں اور حقیقت تو یہ ہے کہ تم میرا وہ نقصان کبھی پورا نہیں کرسکتے۔ چاہے تم کھربوں میرے نام لکھوادو۔ میرا وہ نقصان تمہارے لیے ناقابل تلافی ہی رہے گا۔‘‘ انائیا ملک نے دھندلی آنکھوں سے اس لمبے چوڑے شخص کو دیکھا جو پل میں کسی بھی دنیا کو زیرو زبر کرسکتا تھا۔
’’تم اختیارات کے حصول میں جنون پسند ہو مگر میرا حصول ان اختیارات سے باہر کی چیز ہے‘ میں تمہارا جنوں نہیں‘ تمہاری خواہشوں میں نہیں سو تم یہ کہانی بھی سمجھ نہیں سکتے۔‘‘ وہ کہہ کر پلٹی تھی اور وہاں سے نکل آئی۔
معارج تغلق خاموشی سے اسے جاتا دیکھتا رہا تھا۔
…٭٭٭…