ﺁﮒ ﻟﮕﺘﯽ

  • Work-from-home

Zia_Hayderi

TM Star
Mar 30, 2007
2,468
1,028
1,213
تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا
کبھی تُو نہ توڑ سکتا---- اگر استوار ہوتا
 
  • Like
Reactions: minaahil

Zia_Hayderi

TM Star
Mar 30, 2007
2,468
1,028
1,213
مرزا اسد اللہ غالب، استاد داغ دہلوی، اور امیر مینائی نے اس زمین میں غزلیں کہی ہیں- ان کا تقابلی جائزہ پیش کررہا ہوں- امید ہے کہ باعث دلچسپی ہو گا-

غالب

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے،یہی انتطار ہوتا

داغ

عجب حال اپنا ہوتا ، جو وصال یار ہوتا
کبھی جاں صدقے ہوتی، کبھی دل نثار ہوتا

غالب

تیرے وعدے پر مٹے ہم ، تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے ،گر اعتبار ہوتا

داغ
کوئی فتنہ تا قیامت نہ پھر آشکار ہوتا
تیرے دل پہ کاش ظالم مجھے اعتبار ہوتا

غالب

کوئی میرے دل سے پو چھے تیرے تیر نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی ، جو جگر کے پار ہوتا

داغ

جو تمہاری طرح تم سے کوئی جھوٹے وعدے کرتا
تمہی منصفی سے کہدو، تمہیں اعتبار ہوتا


غالب
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا ، کوئی غم گسار ہوتا

داغ

یہ مزہ تھا دل لگی کا کہ برابر آگ لگتی
نہ تجھے قرار ہوتا نہ مجھے فرار ہوتا

غالب
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے شب غم، بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا

داغ
نہ مزہ ہے دشمنی میں ، نہ ہے لطف دوستی میں
کوئی غیر غیر ہوتا، کوئی یار یار ہوتا

غالب
ہوئے ہم جو مر کے رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا
نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا

داغ
تیرے وعدے پر ستمگر ابھی اور صبر کرتے
گر اپنی زندگی کا ہمیں اعتبار ہوتا

غالب
یہ مسائل تصوف یہ تیرا بیان غالب

تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا

داغ

تمہیں ناز ہو نہ کیوں کہ لیا ہے داغ دل کا

یہ رقم نہ ہاتھ لگتی، نہ یہ افتخار ہوتا​
 
Top