یہ کیسی واپسی ہے؟

  • Work-from-home

BanjarA

Newbie
Jun 9, 2009
1,426
756
0
K.S.A.
یہ کیسی واپسی ہے؟

(یہ کیسی واپسی ہے کہ امریکی فوجیں عراق کے شہروں سے نکل کر قریبی چھائونیوں میں چلی گئی ہیں اور ایک کال پر واپس آسکتی ہیں۔)

دنیا کے ظالم حکمرانوں میں حجاج بن یوسف کانام بھی آتا ہے ۔حجا ج سنگ دل اور بے رحم حکمران تھا۔اس کی سنگ دلی اور سفا کی کا یہ عالم تھا کہ اس نے خانہ کعبہ پرحملہ کردیاتھا اور مکتہ المکرمہ پرپتھر اورآگ کے گولے برسادیے تھے۔ مورخین کہتے ہیں حجاج نے صرف عراق میں کئی ہزار لوگوں کو قتل کرایا تھا ۔حجاج بن یوسف نے اسلامی دنیا کے لیے دو بڑے کام بھی کیے تھے ۔ایک اس نے قرآن مجید پراعراب لگوائے تھے اور یہ اس کی وہ مہربانی تھی جس کی وجہ سے آج ہم جیسے غیر عربی لوگ بھی قرآن مجید پڑھ سکتے ہیں جبکہ اس کا دوسرا کام سندھ کی ایک بیٹی کی پکار پراس نے اپنے بھتیجے محمد بن قاسم کو ہندوستان بھجوایا تھا اور حجاج کی اس نیکی کے باعث آج ہم لوگ مسلمان ہیں ۔میں نے یہ ساری تمہید محض اس لیے باندھی ہے کہ ظالم چاہے دنیا کا کوئی انسان ہویا ملک۔اگرقدرت اس سے انتقام لینے کا فیصلہ کرلے تو اسے دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکتی ۔مجھے یہ واقعہ 29 جون کے اخبارات میں امریکی فوجوں کی عراق سے واپسی کی خبرپڑھ کر یاد آیا ۔مجھے محسوس ہوا حجاج بن یوسف کی طرح امریکا نے بھی عراقیوں پرظلم کے بے تحاشا پہاڑ توڑ ے۔ امریکا نے 2003ء سے لے کر 2009ء تک مسلسل چھ سال عراق کو جہنم بنائے رکھا۔اس نے معصوم عراقیوں پر ڈیزی کٹر بموں سے لے کر فاسفورس میزائلوں تک استعمال کیے ۔ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق امریکا نے ان چھ برسوں میں 1لاکھ 10ہزار 6سو عراقیوں کو شہید اور 3لاکھ 65ہزار سے زائد کو شدید زخمی کردیا۔

اس چھ سالہ جنگ میں امریکا کے 4ہزار 3 سو 16 فوجی ہلاک ہوئے۔
اسی برطانیہ کے 179،اٹلی کے 33،یوکرائن کے 18 ،اسپین کے 11،پولینڈکے 23،جارجیاکے 5،لٹویاکے 3،سلواکیہ کے 4 ، رومانیہ کے 3،تھائی لینڈکے 2،نیدر لینڈکے 2،اور فجی ،شمالی کوریا،ہنگری ،اور کرغزستان کا ایک ایک فوجی ہلک ہوا۔ اس جنگ میں عراق کے 11ہزار 5سو22فوجی ،136صحافی ،51میڈیاورکر اور 94ایڈورکرجان سے گزر گئے۔آپ یہاں چند لمحوں کے لیے رک کر سوچئے ان تمام لوگوں کی موت کا ذمہ دار کون ہے اور ان لاکھوں لوگوں کا خون کس کی گردن پر ہے ؟آج جب میں عراق سے امریکی فوجیوں کے انخلا کی خبریں ملاحظہ کرتا ہوں تو سوچتا ہوں کیا اتنے بڑے ظلم کے بعد بھی قدرت امریکا اور اس کے حواریوں کو معاف کردے گی ؟انہیں یوں ہی چھوڑ دے گی تو میرا وجدان مجھے کہتا ہے یقینا نہیں ۔قدرت اپنے بندوں کے خون کے ایک ایک قطرے کاحساب ضرور چکاتی ہے اور وہ دن زیادہ دور نہیں جب امریکا اور اس کے حواری قدرت کے انتقام کا شکار ہوں گے ۔


اب آپ عراق کی تازہ ترین صورت حال ملاحظہ کیجیے ۔جونہی عراق سے امریکی فوجیوں کا انخلا شروع ہوا ہے ۔پورے عراق میں جشن کا ساسماں ہے ۔یکم جولائی کوعراق میں عراقیوں نے “یوم خود مختاری ”منایا اور عراقی شہری سارا سارا دن اور رات خوشیاں مناتے اور آتش بازی کرتے رہے جبکہ عراقی وزیراعظم نے تمام فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کی چھٹیاں منسوخ کردیں ۔یہ حقیقت ہے عراقیوں کے لیے اس سے بڑی خوشی اورہو بھی کیاسکتی ہے لیکن اس کے باوجود عراق اور عراقی ابھی تک امریکی خطرات سے محفوظ نہیں ہیں ۔ میں یہاں آپ کو یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ امریکی فوجیوں کی واپسی سے مراد ہرگز یہ نہیں کہ امریکی فوجی اپنے ملک چلے گئے ہیں بلکہ اس وقت بھی عراق میں ایک لاکھ 31ہزار امریکی فوجی موجود ہیں ۔یہ فوجی شہروں سے اٹھ کر شہروں سے باہر اپنی چھاؤنیوں میں چلے گئے ہیں اورعراقی شہروں کا کنٹرول عراقی فورسز کو سونپ دیا ہے۔امریکن فوجی2011ءتک عراق ہی میں رہیں گے اور عراقی فورسز کی تربیت کریں گے چنانچہ یہ سمجھ لینا کہ عراق امریکیوں سے خالی ہوچکا ہے،بالکل غلط ہے بلکہ 2011ءتک امریکا نا صرف عراق میں رہے گا بلکہ اس کا اثرورسوخ بدستور جاری رہے گا کیونکہ امریکا کو عراق سے بےتحاشا مفادات وابستہ ہیں۔مثلا :امریکا دنیا کے 42ممالک سے 36لاکھ 70ہزار 4سو3بیرل تیل امپورٹ کرتا ہے اور ا س میں سے بیشتر عراق سے حاصل کرتا ہے ۔مثلا : امریکا عراق میں مسلمانوں کی نسل کشی کررہا ہے ۔کیونکہ امریکا جانتا ہے دنیا میں امریکا کے لیے اگرکوئی خطرہ ہے تو وہ عالم اسلام ہے اور اسلامی دنیا میں عراق ،ایران اور پاکستان تین ایسے ممالک ہیں جنہیں اسلامی دنیا میں بڑا مقام حاصل ہے اور ان تینوں ممالک کی اقوام امریکا سے نفرت کرتی ہیں لہذا امریکا نے ان تینوں ممالک میں کشت وخون کا بازار گرم کررکھا ہے ۔امریکا عراق کی طرح ایران میں فسادات جاری رکھے ہوئے ہے ۔ایران کے حالیہ الیکشن میں فسادات پھوٹ پڑے ہیں ۔حزب مخالف نے حکومت پر دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کردیاہے جس کے بعد پورے ایران میں خانہ جنگی شروع ہوچکی ہے ۔ماردھاڑ اوراحتجاج کا سلسلہ جاری ہے ۔خبررساں اداروں کے مطابق ان فسادات کے پیچھے بھی امریکا ہے اور امریکا نے میر حسن موسوی کے حامیوں پر 4ارب ڈالر خرچ کیے ہیں تاکہ وہ محمود احمدی نژاد کی حکومت کو کمزور کرسکیں ۔آپ جانتے ہیں ایرانی صدر علی الااعلان امریکا کو للکارتا ہے ۔یہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کھڑے ہوکر امریکا کو وارن کرتا ہے چنانچہ اس کی دوبارہ کامیابی امریکا کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہے لہذا امریکا نے اس کو ہٹانے کے لیے 4ارب ڈالر خرچ کرڈالے لیکن وہ اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ کچھ اسی طرح کی صورت حال پاکستان میں بھی ہے ۔پاکستان گزشتہ پانچ برسوں سے امریکا کی جنگ لڑ رہا ہے لیکن اس کے باوجود پورا ملک آگ کی لپیٹ میں ہے ۔ہم اب تک 45ارب اس جنگ میں جھونک چکے ہیں اورہمارے 6ہزار سے زائد شہری موت کے منہ میں چلے گئے ہیں ۔امریکا پاکستان اورعراق کے خلاف دوہری پالیسی پرعمل پیرا ہے ۔

وہ ایک طرف انہیں دلاسہ دے رہا ہے اور دوسری طرف ان کی پیٹھ میں چھری گھونپ رہا ہے ۔آپ یہ حقیقت بھی ملاحظہ کیجیے امریکن فوجیوں نے جونہی عراقی شہروں سے واپسی کا اعلان کیا عراق میں فسادات پھوٹ پڑے اور جس دن امریکن فوجی عراقی شہروں سے نکل رہے تھے اس روز بھی کرکوک میں خودکش دھماکاہوا جس میں 21عراقی مارے گئے جبکہ گزشتہ دس دنوں میں 3سو سے زائد عراقی ان حملوں کا نشانہ بن چکے ہیں لہذا ایک طرف امریکا فوجیں نکالنے کی باتیں کررہا ہے تو دوسری طرف عراق میں فسادات کو بھی ہوا دے رہا ہے لیکن اس کے باوجود اگرہم یہ تسلیم بھی کرلیں کہ امریکن فوجیں واقعتاً عراق سے واپسی کا ارادہ کرچکی ہیں تو سوال یہ ہے کیا امریکا اپنے تمام مقاصد حاصل کرچکا ہے اور کیا ہم اسے امریکا کی شکست تسلیم کریں یا کوئی خفیہ چال ۔

جہاں تک میرا خیال ہے مجھے امریکن فوجیوں کی اس واپسی میں بھی سازش کی بو آرہی ہے۔ اگر ہم تھوڑا ساغور کریں تو ہمارے لیے یہ جاننا مشکل نہیں ہوگا کہ عراق کی جنگ کی بنیاد جارج ڈبیلوبش نے رکھی تھی ۔اس وقت امریکا یہ سوچ کر عراق پرچڑھ دوڑا تھاکہ وہ چند دنوں میں عراق کوتہس نہس کردے گا اوروہ چند دنوں میں اپنے ٹارگٹ حاصل کرلے گا لیکن جب یہ جنگ شروع ہوئی تو پھیلتی چلی گئی یہاں تک کہ چھ برس بیت گئے ۔امریکا کو وہ تمام اہداف حاصل نہ ہوسکے جن کو بنیاد بنا کر اس نے یہ جنگ چھیڑی تھی جس پر امریکی عوام صدربش کے خلاف ہوگئی اور اس لمحے صدر باراک اوباما نے “تبدیلی”کا نعرہ لگادیا تھا ۔ اوباما اپنی الیکشن مہم میں بارہایہ کہتا رہا کہ وہ اقتدار میں آکر دنیا میں امن قائم کرے گا ۔وہ عراق اورافغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلائےگا ۔وہ دنیا میں چینج لائے گا چنانچہ آج جب باراک اوباما کو اقتدار سنبھالے پانچ ماہ ہوچکے ہیں ۔امریکی عوام اوباما سے تبدیلی چاہتے ہیں اور صدر اوباما کو امریکی عوام اوردنیا کی حما یت حاصل کرنے کے لیے فوجوں کی واپسی کا اعلان کرنا پڑا لیکن مجھے حیرت اس بات کی ہے کہ یہ کیسی واپسی ہے کیونکہ امریکن فوجیں تو عراق میں رہیں گی اوراگر کل کلاں عرا ق میں فسادات زور پکڑتے ہیں، خانہ جنگی شروع ہوجاتی ہے تو کیا امریکن فوجی دوبارہ شہروں میں داخل نہیں ہوں گے ؟اس بات کی گارنٹی ابھی تک کسی نے نہیں دی لہٰذا امریکی صدر ایک طرف دنیا کے سامنے خود کو سچا ثابت کرنا چاہتا ہے اور دوسری طرف بش پالیسی بھی جاری رکھنا چاہتا ہے۔

میں دوبارہ اپنی پہلی بات کی طرف جانا چاہتا ہوں ۔سوال یہ ہےکہ اگرمسلم دنیا کا ایک ایساحکمران جو قرآن پاک پراعراب لگائے ، جواسلام کی اشاعت کے لیے
اپنے بھتیجے کو ہندوستان بھیج دے وہ اگر لوگوں کو قتل کردے تو قدرت اس کا حساب لے تو کیا قدرت ان غیر مسلموں کو معاف کردے گی جنہوں نے گزشتہ سات آٹھ برسوں میں چھ لاکھ مسلمانوں کو تہ تیغ کردیا۔ جنہوں نے مسلمانوں کے خون سے زمین سرخ کردی ۔میرا یقین مجھے کہتا ہے اگردنیا میں اﷲکایہ نظام ،اﷲ کاعدل اور اﷲکاانتقام موجودہے تو وہ عراق ، افغانستان اورپاکستان میں بے گناہ لوگوں کے خون کاحساب بھی ضرور لے گا لیکن اس کے ساتھ ساتھ قدرت کایہ اصول بھی ہے کہ وہ دنیا کے ہرظالم ہرسفاک اورہرسرکش حکمران کومہلت ضرور دیتا ہے ۔اگر وہ اس مہلت سے فائدہ اٹھالے۔وہ اﷲتعالی سے معافی مانگ لے تو قدرت اس کے تمام مظالم معاف کردیتی ہے لیکن اگر وہ اس موقع کوضائع کردے تو وہ چاہے حضرت موسی یاحضرت نوح علیہ السلام کی قومیں ہی کیوں نہ ہوں وہ تباہ وبرباد ہوجاتی ہیں اورقدرت نے ابھی تک امریکا کی رسی میں ڈھیل چھوڑ رکھی ہے ۔



اثر جون پوری

 
Top