یادوں کی دودھ ندیا

  • Work-from-home

dr maqsood hasni

Senior Member
Aug 11, 2008
943
286
1,163
72
kasur, pakistan


یادوں کی دودھ ندیا

وہ نم صبح کی تمثال تھی
خود اپنی مثال تھی
پہلی بار جو میں نے اسے دیکھا
مری آنکھوں میں زندگی اتر گئی
دل کی ویران بستی میں
زندگی کے ڈنکے بجنے لگے
خوشی کے ترانے مچلنے لگے
ہواؤں کا لہجہ بھی بدل گیا
زیست کا گرم موسم
رخ اپنا بدل گیا
اس کے رخساروں کا عکس
شفق کے پیلے رنگ بدلنے لگا
شفق کیا‘ افق بھی
اس کی مسکان کے رنگ لینے لگا
میں نے پیار سے جو چھوا اس کے رخسار کو
اک کرنٹ سا لگا اور میں پیچھے ہٹ گیا
وہ سراپا زندگی تھی
میں صدیوں کا بےجان جسد تھا
لا سے اثبات میں آیا نہ تھا
نہ مجھ پر اپنی حقیقت کھلی تھی
کیا تھا میں کون تھا
اس کی مسرور آنکھوں میں
مرے ہونے کی دلیل تھی
مرے من آنگن میں اس نے
قدم کیا رکھا
فرشتے بھی سوچ کا بت بن گئے
میں اور یہ خوبی قسمت
سورج شاید مغرب سے نکل آیا تھا
دست قدرت سے یہ کب بعید ہے
ان ہونی‘ ہونی میں بدل جاتی ہے
اس کے مری من بستی میں
قدم دھرنے کی دیر تھی
خوشیاں ادھر بھی
ادھر بھی برسنے لگیں
میں اگلے روز جب کام پر آیا
ابھی بیٹھا بھی نہ تھا
دفتری نے
اک سرکاری کاغذ مجھے تھمایا
خوش نظروں سے مجھے دیکھنے لگا
اس کی آنکھوں میں بخشیش کی تمنا تھی
جوں ہی لفظ اس کاغذ کے
مری نظروں سے گزرے
بات ہی ایسی تھی کہ
مرا ہاتھ جیب کی جانب بڑھ گیا
جو ہاتھ لگا‘ میں نے اسے نذر کیا
خوشی سے وہ مسکرا اور چل دیا
اس کاغذ نے مجھے بتایا
ترقی نے مرے قدم لیے ہیں
پھر مٹھائی آئی
چائے بھی چلی
کچھ دوست بولے
حضرت اس سے تو نہ بات بنے گی
آج تو نان مچھلی اڑے گی
مرے دل سے
کل کی خوشیوں کا خمار کب اترا تھا
نان مچھلی کیا
جان بھی مانگتے تو حاضر تھی
خوشی کے خمار کی اپنی ہی بات تھی
خوشیوں کے اوتار نے
مجھے وہ کچھ دیا
جو مرے پاس کبھی نہ رہا تھا
کرائے کا مکاں ملکیت میں بدل گیا
میں بھی اپنا نہ رہا سب کا ہو گیا
جو آتا خالی ہاتھ نہ جاتا
کوئی مٹھی بھر
کوئی جھولی بھر کے لے جاتا
میں کون سا اپنے پلے سے دیتا رہا
مرا کیا تھا
جو مرے پاس تھا مالک کا دیا تھا
جوانی سے بڑھاپے تک
وہ پرخوش بو کنول
مرے من آنگن کی زینت بنا رہا
عجب ریت ہے اس زندگی کی
جو آتا ہے چلا جاتا ہے
میں بوڑھا ہو گیا ہوں
بس اب جانے کو ہوں
بیٹیاں کب تادیر باپ کے گھر رہتی ہیں
بس آج کل میں وہ بھی جانے کو ہے
تب اکیلا تھا اب اکیلا نہیں رہوں گا
اس کی پیار بھری مستیوں کی یاد
مرا من آنگن سونا نہ ہونے دے گی
جب تلک جیوں گا
وہ مجھے بہلاتی رہیں گی
دکھ درد بیماری میں
مجھے سہلاتی رہیں گی
تنہائی کے بھوت بھگاتی رہیں گی
مری اس بےگیاہ زندگی کو
یادوں کی دودھ ندیا سے
سیراب کرتی رہیں گی
تامرگ اسے بنجر نہ ہونے دے گی
خیر سے اپنے سسرال جائے
دودھ نہائے پوت کھیلائے
دکھ درد کا دور تک نام و نشاں نہ ہو
اس کی زیست کے ہر موڑ پر
خوشیوں کے پھول
اس کا استقبال کرتے رہیں
جس جیون کے ہر موڑ پر
یادوں کے بلاگنت دریچے کھلتے ہوں
سمجھو وہ جیون سفل رہا
کچھ ہوا یا کیا تو ہی یادیں
من آنگن میں ٹھکانہ کرتی ہیں
میں نے کیا کرنا تھا
مرے اللہ نے
مجھے کبھی تنہا نہ رہنے دیا
مری بچی مری جان
کبھی کسی کے سامنے
دست سوال دراز نہ کرنا
جب بھی مانگنا اپنے اللہ سے مانگنا
اپنے خاوند سے مخلص رہنا
جب باہر جائے خیر کی دعا کرنا
جب گھر آئے دن بھر کی تھکن بھول کر
تہ دل سے مسکرانا
سو بسم اللہ کہنا
دل میکے میں نہ رکھنا
اپنے گھر میں مست رہنا
کبھی کسی بات پر فخر تکبر نہ کرنا
سب دیا اللہ کا دیا ہے
جان رکھو سب اسی کا ہے
ہاں کبھی کبھار
اس بڈھے کو یاد کر لیا کرنا
مر گیا تو بقدر بساط مغفرت کی دعا کرنا
یہ ہی تحفہ ان مول ہو گا
مری طرح
اپنے باپ کو یاد کرکے نہ روتے رہنا
میں بےچارہ اس قابل کہاں
ہاں وہ اس قابل ضرور ہے کہ
اسے یادوں میں بسایا جائے
ہر پل اللہ اسے قبر میں پرسکوں رکھے
وہ وہاں کبھی تنہا نہ رہے
اللہ کی عطائیں اس کے ساتھ رہیں
اس کی عنائتیں قبر میں اس پر سایہ کیے رہیں
جا مری ارحا خیر سے جانے کے لیے جا
جا‘ جا کر وہاں خوشیوں کا جہان آباد کر
خوشیوں کی جینی جی
شاد رہ
مجھ کو خود کو بھول کر
سب کو شاد کر
مری بچی مری جان جا
جا خیر سے جا
اللہ تم پر مہربان رہے
 
Top