ہالوکاسٹ کیا ہے؟

  • Work-from-home

goodfrndz

"A faithful friend is the medicine of life."
VIP
Aug 16, 2008
12,849
4,072
1,113
محبت والا
ہالوکاسٹ یہودیوں سے متعلق دوسری جنگ عظیم کے دوران سبق آموز واقعات کا ایک مجموعہ ہے۔ یہودی وہ قوم ہیں جن کے بارے میں دنیا کے کسی کونے میں کوئی اچھی رائے نہیں پائی جاتی۔ شیکسپئر جیسے ڈرامہ نگار نے بھی ’’شائلاک‘‘ نامی سود خور اور ننگ انسانیت کردار کو یہودی مذہب کا پیراہن پہنایاہے۔ قرآن مجید نے یہودیوں پر جو سب سے بڑا الزام دھرا ہے کہ وہ قاتلین انبیاءعلیھم السلام ہیں اور حد تو یہ کہ ان یہودیوں نے محسن انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادہ قتل سے بھی دریغ نہ کیا۔ دنیا پر مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ دور اقتدار میں یہودی بہت عافیت میں رہے اور یہ دور ختم ہوتے ہی انہوں نے اپنی سازشوں کا نشانہ مسلمانوں کو ہی بنایا اور فلسطینیوں کی کمر میں چھرا جا گھونپا۔ دنیا کی ہرقوم ان کی پس پردہ ذہنیت سے خائف ہے اور انہیں اپنے سے دور رکھنا چاہتی ہے۔ اسی لیے مغربی اقوام نے انہیں اپنے ہاں جگہ دینے کی بجائے مسلمانوں کے سر پر لا تھونپا ہے۔ ان کی ذہنیت، انکی تاریخ، انکے عقائد اور انکا انجام اس قرآنی آیت کا مصداق ہیں کہ ’’ہم نے ان پر ذلت اور مسکنت مسلط کردی ہے‘‘۔

ہولوکاسٹ یونانی الفاظ سے ماخوذ ایک مرکب ہے جس کا مطلب ’’مکمل طور پر نذر آتش کردینا‘‘ ہے۔ اس سے مراد یہودیوں کا یہ دعوٰی ہے کہ کم و بیش ساٹھ لاکھ یورپی بنی اسرائیلیوں کو دوسری جنگ عظیم کے دوران قتل کیا گیا، جس کا الزام نسل کشی کے ضمن میں نازی جرمنوں پر لگایا جاتا ہے۔ کچھ محققین کے نزدیک ’’ہالوکاسٹ‘‘ سے مراد صرف یہودی مقتولین نہیں ہیں بلکہ وہ تمام مقتولین جنگ عظیم ثانی ہیں جو اتفاقی قتل نہیں ہوئے بلکہ جنہیں نازیوں نے کسی پروگرام کے تحت باقائدہ سے قتل کیا ہے، جن میں دوسری اقوام کے چیدہ چیدہ لوگ، مذہبی راہنما، جنگی قیدی، ہم جنسیت کے دوران معذور ہونے والے مرد اور دیگر عسکری و سیاسی مخالفین بھی شامل ہیں۔ اس تعریف کے تحت ہولوکاسٹ کے مقتولین کی تعداد ایک کروڑ تک جا پہنچتی ہے۔ ان دونوں آرا میں کون سی قرین قیاس ہے؟ یہودی سچ بولتے ہیں یا دیگر محققین؟ اور کیا یہودیوں نے دنیا کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے اور خود کو مظلوم ثابت کرنے کے لیے دوسرے مقتولین کو بھی اپنا تو نہیں بنا لیا؟ یہ اﷲ تعالی ہی بہتر جانتا ہے۔

صہیونیوں کے مطابق جنگ عظیم دوم کے سالوں قبل سے یہودیوں کو سول سوسائٹی سے نابود کرنے کی منصوبہ بندیاں ہو رہی تھیں۔ انیس سو تیس کی دھائی میں ایسے ایسے قوانین بنائے گئے کہ آہستہ آہستہ یہودیوں کے معاشی، معاشرتی اور قانونی حقوق ماند پڑنے لگے اور انہیں جرمن یورپی معاشرے میں تنہا کیا جانے لگا۔ ان قوانین کا مقصدیورپ کو غیر یورپیوں سے پاک کرنا تھا۔ انیس تینتیس میں قوانین کا ایک مجموعہ منظور کیا گیا جن کے مطابق اہم علاقے اور اہم مناصب یہودیوں سے خالی کرالیے گئے۔ چنانچہ زرعی فارموں میں یہودی مزارعین سے لے کر کچہریوں میں یہودی وکلاء اور یہودی ججوں تک کو باہر نکال دیا گیا اور انہیں بری طرح مارا پیٹا گیا۔ سکولوں، کالجوں اور اخبارات کے دفاتر اور مختلف انجمنوں سے بھی انہیں قوانین کے تحت یہودیوں کا اخراج عمل میں آیا۔ انیس سو پینتیس میں ہٹلر نے ایک تقریر کے ذریعے یہودیوں کو رہے سہے تمام سول حقوق سے بھی محروم کردیا۔ یہودیوں کے خلاف نازیوں کا یہ آغاز انجام تھا۔

اس مقصد کی خاطر ایسے کیمپس بنائے گئے جہاں یہودیوں کو غلام بنا کر لے جایا جاتا اور ان سے اتنی مشقت کرائی جاتی کہ وہ تھکا کر مار دیے جاتے یا پھر بیمار ہو کر اور بھوکے رہ رہ کر مار دیے جاتے۔ بچ جانے والوں پر طبی تجربات کر کر کے انہیں معذور کر دیا جاتا اور پھر انہیں موت کی آغوش میں پہنچا دیا جاتا۔ اس سب کے باوجود بھی اگر کچھ لوگ بچ جاتے تو نازی جرمن انہیں گیس چیمبروں میں ڈال کر ہلاک کر دیتے۔ یورپ کے بعض عجائب گھروں میں نازی جرمنوں کے گیس چیمبروں کی باقیات اب بھی زائرین کے لیے رکھی گئی ہیں۔ جنگ عظیم دوم کے دوران جرمن نازیوں نے ہالوکاسٹ کے لیے جو اصطلاح استعمال کی اس سے مراد ’’یہودیوں کے مسئلے کا آخری حل‘‘ تھا، یہ اصطلاح جرمن زبان سے متعلق تھی۔

صہیونی تاریخ دانوں کے مطابق جرمنی کا ہر ادارہ یہودیوں کے اتنے بڑے قتل کے پروگرام میں ملوث تھا۔ جرمن وزارت داخلہ اور مسیحی چرچس نے یہودیوں کا پیدائشی ریکارڈ دیا اور اس بات کا تعین کیا کہ کون کون سی بستی میں کون کون یہودی ہے۔ جرمن محکمہ ڈاک نے وہ خطوط متعلقہ حکام تک پہنچائے، جرمن وزارت خزانہ نے یہویوں کی جائدادوں کی تفصیلات مہیا کیں، جرمن کاروباری اداروں نے یہودی تاجروں، یہودی ملازموں اور یہودی مزدوروں کے بارے میں جامع معلومات فراہم کیں، جرمن محکمہ مواصلات نے یہودوں کو انکے ہلاکتی کیمپوں میں لے جانے کے لیے ٹرانسپورٹ اور ریل گاڑیاں مہیا کیں۔ یہاں تک کہ جرمن جامعات تک نے یہودی طلبہ کو داخلہ دینے سے انکار کر دیا اور یہودی تعلیمیات و اسرائیلی لٹریچر کو نذرآتش کر دیا۔

یہودیوں کا قتل عام اس تمام علاقے میں ہوا جو نازی جرمنوں کے زیر قبضہ تھے۔ جہاں اب کم و بیش پینتیس یورپی ممالک کی سلطنتیں قائم ہیں۔ اس سے قبل یہاں یہودیوں کی بستیاں آباد تھیں اور انیس سو انتالیس میں سات ملین یہودی نفوس یہاں ہنستے بستے گھروں میں آباد تھے، جن میں پانچ ملین کو یہاں قتل کر دیا گیا۔ پولینڈ اور روس میں قتل ہونے والے یہودیوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ دیگر افراد اگر اپنا مذہب یا رائے تبدیل کر لیتے تو انہیں قتل بچا لیا جاتا تھا لیکن یہودیوں کے لیے یہ رعایت بھی نہیں تھی۔ یہودیوں کے قتل میں عورتوں، بوڑھوں اور بچوں کے لیے بھی کوئی تخصیص نہیں تھی، قبائل کے قبائل کو قتل کر دیا جاتا اور انکے بچوں پر طبی تجربات کر کے تو انہیں بھی موت کی وادی میں دھکیل دیا جاتا۔

اس دوران فری میسنریزکو بھی گرفتارکر کر کے ہلاکتی کیمپوں میں بھیجا گیا۔ ہٹلر کا پختہ نظریہ تھا کہ فری میسنریز بھی یہودیوں میں سے ہیں چنانچہ ان کیمپوں میں انہیں زبردستی سرخ کپڑے پہنائے جاتے اور ایک لاکھ سے دو لاکھ تک کی تعداد میں انہیں ان ہلاکتی کیمپوں میں نازیوں نے قتل کیا۔ نازی جرمن جن جن علاقوں کو فتح کرتے وہاں وہاں سے یہودیوں کو ختم کرتے جاتے یہاں تک کہ جب پولینڈ کو فتح کیا تو اتنی بڑی تعداد کے پول یہودیوں کو قتل کرنا آسان نہ تھا چنانچہ طویل غوروحوض کے بعد کم وقت اور کم لاگت میں قتل کرنے کے لیے زہریلی گیس استعمال کی گئی۔ پولینڈ کی سرزمین قتل یہود کی بہت بڑی امین ہے۔ چھ ہلاکتی کیمپوں سے شروع ہونے والا ہولوکاسٹ کے پولینڈ سمیت مقبوضہ ممالک میں پندرہ ہزار سے زیادہ کیمپ بن گئے۔ ان کیمپوں میں یہود سے بدترین مشقت لی جاتی اور پھر ضرورت ختم ہونے پر انہیں قتل کر دیا جاتا جبکہ بے شمار یہود دوران مشقت ہی دم توڑ دیتے۔ شروع میں یہ کیمپس شہروں سے باہر تھے، لیکن ٹرانسپورٹ کے وسیع اخراجات کے باعث، بعد میں ان کیمپوں کو یہودی آبادیوں کے قریب ہی منتقل کر دیا گیا۔

اس سے شدید تر حالات روس کے مفتوحہ علاقوں میں بھی پیش آئے۔ یہاں یہودیوں کو زندہ بھی جلایا گیا اور جب گولی مارنے اور زندہ جلانے کا سامان میسر نہ آیا یا اسے مہیا کرنا مہنگا تصور کر لیا گیا تو لاکھوں یہودیوں کو روس کے شدید ترین ٹھنڈے علاقوں میں بے آب و گیاہ تنہا چھوڑ دیا گیا اور یہ لوگ یخ بستہ اور جان لیوا ٹھنڈی ہواؤں سے زندگی کی بازی ہار گئے۔ اس سب کے باوجود انیس سو اکتالیس کے آخر تک روس کے صرف پندرہ فیصد یہودی مارے گئے تھے۔ اس رفتار کو تیزکرنے کے لیے ایک بار پھر وسیع پیمانے پر زہریلی گیسوں کا تجربہ کیا گیا اور ظاہر ہے یہ تجربہ شہری علاقوں میں ممکن نہ تھا چنانچہ اس کے لیے شہر سے باہر بہت بڑی بڑی جگہیں بنائی گئیں جہاں یہودی نسل کو نیست و نابود کرنے کا عمل سالوں تک دہرایا جاتا رہا۔

یہودیوں نے اس سارے ظلم و ستم کے خلاف آواز بھی بلند کی لیکن بے سود۔ کچھ کیمپوں میں نوجوان یہودیوں نے ہتھیار تک بھی اٹھائے لیکن ظاہر ہے نازی جرمن اس وقت پوری دنیا سے کنٹرول نہ ہونے والا طاقت کا طوفان تھا تو یہود اس سے کیسے جان چھڑا سکتے تھے۔ پھر ایک پہلو یہ بھی ہے کہ دنیا کے کسی کونے سے اس وقت اور آج بھی یہودیوں کے حق میں کوئی آواز بلند نہ ہوئی۔ اس قوم نے جس برتن میں کھایا اسی میں سوراخ کیا۔ ہر قوم کو ڈسنے کی کوشش کی، ہرگروہ کو بلیک میل کیا، دولت کی خاطر انسانیت کو داؤ پر لگایا۔ دوسری جنگ عظیم کے اس المناک پہلو کا دوسرا تاریک ترین رخ یہ ہے کہ جنگ عظیم کے دونوں متحارب فریقوں کو سرمایا فراہم کرنے والی بہت بڑی فرم یہودیوں کی ہی ملکیت تھی۔ کیا اپنے ہم مذہب بلکہ ہم نسل رشتہ داروں پر اتنا بےپناہ ظلم ہوتے دیکھ کر وہ سرمائے کی فراہمی بند نہیں کر سکتے تھے؟

قریب تھا کہ یہودیوں کی نسل ہی اس دنیا سے اس کرہ ارض سے نابود ہو جاتی لیکن اﷲ تعالی نے قتل انبیاء علیھم السلام، ناشکری، ذلت و مسکنت اور عبرت کے اس نشان کو قیامت تک باقی رکھنا ہے۔ شاید اسی حکمت کے تحت مشیت ایزدی نے انہیں فلسطین میں عارضی جگہ دی تاکہ ان کی نسل قیامت تک باقی رہے۔ اگر ان میں تھوڑی سی عقل ہوتی تواس جگہ کو غنیمت سمجھ کر امن اور سکون سے رہ لیتے، فلسطینیوں نے انہیں کھا تو نہیں جانا تھا لیکن تف ہے ان کی دانش پر کہ اپنے میزبانوں پر آج بھی انہوں نے عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ ہم چڑھتے ہوئے سورج کے پیچھے اس دن کو ان آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ سرزمین فلسطین ایک بار پھر اپنے حقیقی وارثوں کے قبضہ قدرت میں ہو گی اور یہود اپنی بداعمالیوں کے باعث ایک بار پھر دنیا میں ذلت و مسکنت کا نشان عبرت ہوں گے انشاءاﷲ تعالٰی۔

 
  • Like
Reactions: nrbhayo and BanjarA
Top