ہارون الرشید کا اپنے بیٹے کو مشورہ

  • Work-from-home

Blue_Sky

PrèÇìõÙs
Super Star
Sep 25, 2010
11,172
4,646
713
بیان کیا جاتا ہے کہ بنو عباس کے مشہور خلیفہ ہارون الرشید کا ایک بیٹا ایک دن اس کے پاس ایسی حالت میں آیا کہ غصے اور رنج سے اس کا چہرہ تمتمایا ہوا تھا۔ خلیفہ نے بیٹے کی یہ حالت دیکھ تو اس سے پوچھا جان پدر! کیا بات ہے ؟ تم پریشان کیوں نظر آرہے ہو؟ شہزادے نے کہا، فلاں سپاہی کے بیٹے نے مجھے ماں کی گالی دی ہے۔ بیٹے کی یہ بات سن کر خلیفہ نے اپنے درباریوں سے پوچھا، بتاؤ ایسے مجرم کو کیا سزادی جائے؟
ایک نے کہا، ایسے ناہنجار کو قتل کر دینا چاہیے، دوسرا بولا، اس کی زبان کٹوا دینی چاہیے، تیسرے نے مشورہ دیا کہ اس سے باپ کی ساری جائیداد ضبط کر لی جائے، ہارون نے سب کے مشورے پوری توجہ سے سنے پھر اپنے بیٹے کی طرف دیکھ کر بولا، بیٹا! خدا نے ہمیں یہ اختیار دیا ہے کہ مجرم کو سخت سے سخت سزادے سکتے ہیں۔ لیکن ہمارے نزدیک سب سے اچھی بات یہ ہے کہ تم اسے معاف کر دو۔ یا پھر زیادہ سے زیادہ یہ کرو کہ تم بھی اسے ماں کی گالی دے دو، لیکن یہ بات اچھی طرح سمجھ لو کہ اس سلسلے میں معمولی سی زیادتی بھی نہیں ہونی چاہیے۔ خدا ان لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو زیادتی کرتے ہیں۔
مرد اس کو نہیں کہتے جو لڑے ہاتھی سے
یہ بڑی بات خرد مندوں کے نزدیک نہیں
ہاں مگر طیش میں رکھے جو حواس اپنے درست
اس کی عزت کرو مل جائے اگر تم کو کہیں---
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں نہایت دلکش اور موثر انداز میں صاحب اقتدار طبقے کو یہ بات سمجھانے کی کوشش فرمائی ہے کہ اگر کمزوروں اور زیردستوں سے کسی قسم کی خطا سرزد ہو جائے تو عفو و درگزر ان کے شایان شان ہے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ سپاہی زادے نے شہزادے کو ماں کی گالی دی تھی جسے سن کر غریب اور کمزور شخص بھی آپے سے باہر ہو جاتا ہے لیکن ہارون الرشید نے اپنے بیٹے کو مشورہ دیا کہ وہ مجرم کو معاف کر دے۔
(حکایات سعدی)
 

Bird-Of-Paradise

TM ki Birdie
VIP
Aug 31, 2013
23,935
11,040
1,313
ώόήȡέŕĻάήȡ
بیان کیا جاتا ہے کہ بنو عباس کے مشہور خلیفہ ہارون الرشید کا ایک بیٹا ایک دن اس کے پاس ایسی حالت میں آیا کہ غصے اور رنج سے اس کا چہرہ تمتمایا ہوا تھا۔ خلیفہ نے بیٹے کی یہ حالت دیکھ تو اس سے پوچھا جان پدر! کیا بات ہے ؟ تم پریشان کیوں نظر آرہے ہو؟ شہزادے نے کہا، فلاں سپاہی کے بیٹے نے مجھے ماں کی گالی دی ہے۔ بیٹے کی یہ بات سن کر خلیفہ نے اپنے درباریوں سے پوچھا، بتاؤ ایسے مجرم کو کیا سزادی جائے؟
ایک نے کہا، ایسے ناہنجار کو قتل کر دینا چاہیے، دوسرا بولا، اس کی زبان کٹوا دینی چاہیے، تیسرے نے مشورہ دیا کہ اس سے باپ کی ساری جائیداد ضبط کر لی جائے، ہارون نے سب کے مشورے پوری توجہ سے سنے پھر اپنے بیٹے کی طرف دیکھ کر بولا، بیٹا! خدا نے ہمیں یہ اختیار دیا ہے کہ مجرم کو سخت سے سخت سزادے سکتے ہیں۔ لیکن ہمارے نزدیک سب سے اچھی بات یہ ہے کہ تم اسے معاف کر دو۔ یا پھر زیادہ سے زیادہ یہ کرو کہ تم بھی اسے ماں کی گالی دے دو، لیکن یہ بات اچھی طرح سمجھ لو کہ اس سلسلے میں معمولی سی زیادتی بھی نہیں ہونی چاہیے۔ خدا ان لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو زیادتی کرتے ہیں۔
مرد اس کو نہیں کہتے جو لڑے ہاتھی سے
یہ بڑی بات خرد مندوں کے نزدیک نہیں
ہاں مگر طیش میں رکھے جو حواس اپنے درست
اس کی عزت کرو مل جائے اگر تم کو کہیں---
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں نہایت دلکش اور موثر انداز میں صاحب اقتدار طبقے کو یہ بات سمجھانے کی کوشش فرمائی ہے کہ اگر کمزوروں اور زیردستوں سے کسی قسم کی خطا سرزد ہو جائے تو عفو و درگزر ان کے شایان شان ہے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ سپاہی زادے نے شہزادے کو ماں کی گالی دی تھی جسے سن کر غریب اور کمزور شخص بھی آپے سے باہر ہو جاتا ہے لیکن ہارون الرشید نے اپنے بیٹے کو مشورہ دیا کہ وہ مجرم کو معاف کر دے۔
(حکایات سعدی)
Nyc
 
  • Like
Reactions: Blue_Sky

saviou

Moderator
Aug 23, 2009
41,203
24,155
1,313
بیان کیا جاتا ہے کہ بنو عباس کے مشہور خلیفہ ہارون الرشید کا ایک بیٹا ایک دن اس کے پاس ایسی حالت میں آیا کہ غصے اور رنج سے اس کا چہرہ تمتمایا ہوا تھا۔ خلیفہ نے بیٹے کی یہ حالت دیکھ تو اس سے پوچھا جان پدر! کیا بات ہے ؟ تم پریشان کیوں نظر آرہے ہو؟ شہزادے نے کہا، فلاں سپاہی کے بیٹے نے مجھے ماں کی گالی دی ہے۔ بیٹے کی یہ بات سن کر خلیفہ نے اپنے درباریوں سے پوچھا، بتاؤ ایسے مجرم کو کیا سزادی جائے؟
ایک نے کہا، ایسے ناہنجار کو قتل کر دینا چاہیے، دوسرا بولا، اس کی زبان کٹوا دینی چاہیے، تیسرے نے مشورہ دیا کہ اس سے باپ کی ساری جائیداد ضبط کر لی جائے، ہارون نے سب کے مشورے پوری توجہ سے سنے پھر اپنے بیٹے کی طرف دیکھ کر بولا، بیٹا! خدا نے ہمیں یہ اختیار دیا ہے کہ مجرم کو سخت سے سخت سزادے سکتے ہیں۔ لیکن ہمارے نزدیک سب سے اچھی بات یہ ہے کہ تم اسے معاف کر دو۔ یا پھر زیادہ سے زیادہ یہ کرو کہ تم بھی اسے ماں کی گالی دے دو، لیکن یہ بات اچھی طرح سمجھ لو کہ اس سلسلے میں معمولی سی زیادتی بھی نہیں ہونی چاہیے۔ خدا ان لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو زیادتی کرتے ہیں۔
مرد اس کو نہیں کہتے جو لڑے ہاتھی سے
یہ بڑی بات خرد مندوں کے نزدیک نہیں
ہاں مگر طیش میں رکھے جو حواس اپنے درست
اس کی عزت کرو مل جائے اگر تم کو کہیں---
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں نہایت دلکش اور موثر انداز میں صاحب اقتدار طبقے کو یہ بات سمجھانے کی کوشش فرمائی ہے کہ اگر کمزوروں اور زیردستوں سے کسی قسم کی خطا سرزد ہو جائے تو عفو و درگزر ان کے شایان شان ہے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ سپاہی زادے نے شہزادے کو ماں کی گالی دی تھی جسے سن کر غریب اور کمزور شخص بھی آپے سے باہر ہو جاتا ہے لیکن ہارون الرشید نے اپنے بیٹے کو مشورہ دیا کہ وہ مجرم کو معاف کر دے۔
(حکایات سعدی)
maaf karna bohot badi deleri ka kaam hai aur ye har kisi k bas ki baat nahi
aur islam hame sikhata hai maaf karna subhan Allah
 
  • Like
Reactions: Seap and Blue_Sky

Umm-e-ahmad

Super Star
Feb 22, 2010
11,352
5,314
1,313
home
بیان کیا جاتا ہے کہ بنو عباس کے مشہور خلیفہ ہارون الرشید کا ایک بیٹا ایک دن اس کے پاس ایسی حالت میں آیا کہ غصے اور رنج سے اس کا چہرہ تمتمایا ہوا تھا۔ خلیفہ نے بیٹے کی یہ حالت دیکھ تو اس سے پوچھا جان پدر! کیا بات ہے ؟ تم پریشان کیوں نظر آرہے ہو؟ شہزادے نے کہا، فلاں سپاہی کے بیٹے نے مجھے ماں کی گالی دی ہے۔ بیٹے کی یہ بات سن کر خلیفہ نے اپنے درباریوں سے پوچھا، بتاؤ ایسے مجرم کو کیا سزادی جائے؟
ایک نے کہا، ایسے ناہنجار کو قتل کر دینا چاہیے، دوسرا بولا، اس کی زبان کٹوا دینی چاہیے، تیسرے نے مشورہ دیا کہ اس سے باپ کی ساری جائیداد ضبط کر لی جائے، ہارون نے سب کے مشورے پوری توجہ سے سنے پھر اپنے بیٹے کی طرف دیکھ کر بولا، بیٹا! خدا نے ہمیں یہ اختیار دیا ہے کہ مجرم کو سخت سے سخت سزادے سکتے ہیں۔ لیکن ہمارے نزدیک سب سے اچھی بات یہ ہے کہ تم اسے معاف کر دو۔ یا پھر زیادہ سے زیادہ یہ کرو کہ تم بھی اسے ماں کی گالی دے دو، لیکن یہ بات اچھی طرح سمجھ لو کہ اس سلسلے میں معمولی سی زیادتی بھی نہیں ہونی چاہیے۔ خدا ان لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو زیادتی کرتے ہیں۔
مرد اس کو نہیں کہتے جو لڑے ہاتھی سے
یہ بڑی بات خرد مندوں کے نزدیک نہیں
ہاں مگر طیش میں رکھے جو حواس اپنے درست
اس کی عزت کرو مل جائے اگر تم کو کہیں---
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں نہایت دلکش اور موثر انداز میں صاحب اقتدار طبقے کو یہ بات سمجھانے کی کوشش فرمائی ہے کہ اگر کمزوروں اور زیردستوں سے کسی قسم کی خطا سرزد ہو جائے تو عفو و درگزر ان کے شایان شان ہے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ سپاہی زادے نے شہزادے کو ماں کی گالی دی تھی جسے سن کر غریب اور کمزور شخص بھی آپے سے باہر ہو جاتا ہے لیکن ہارون الرشید نے اپنے بیٹے کو مشورہ دیا کہ وہ مجرم کو معاف کر دے۔
(حکایات سعدی)
JazakALLAH NICE
 
Top