کلّیوں کا تبسّم ہو
کلّیوں کا تبسّم ہو، کہ تم ہو، کہ صَبا ہو
اِس رات کے سنّاٹے میں، کوئی تو صدا ہو
دُنیا ہَمہ تن گوش ہے، آہستہ سے بولو
کچھ اور قریب آؤ ، کوئی سُن نہ رہا ہو
یہ رنگ، یہ اندازِ نوازش تو ___ وہی ہے
شاید کہ کہیں پہلے بھی توُ مجھ سے مِلا ہو
یوں رات کو ہوتا ہے گُماں دِل کی صدا پر
جیسے کوئی دِیوار سے سر پھوڑ رہا ہو
دُنیا کو خبر کیا ہے مِرے ذوقِ نظر کی
تم میرے لیے رنگ ہو، خوشبو ہو، ضیا ہو
یُوں تیری نِگاہوں میں اثر ڈُھونڈ رہا ہُوں
جیسے کہ تجھے دِل کے دَھڑکنے کا پتا ہو
اِس درجہ محبّت میں تغافل نہیں اچھّا
ہم بھی جو کبھی تم سے گُریزاں ہوں تو کیا ہو
ہم خاک کے ذرّوں میں ہیں اختر بھی، گُہر بھی
تم بامِ فلک سے _ کبھی اُترو تو پتہ ہو