کسی سے کیا گلہ مجھ کو
مقید بخت کا ہوں میں
جو گزرے زیست کے لمحے
نہایت کرب میں گزرے
مرے الفاظ جو لب سے نکلتے ہیں
خطاوں کی وہ اک محفل سجاتے ہیں
انہیں وہ گھر بلاتے ہیں
میری اچھائیاں مجھ کو کبھی جینے نہیں دینگی
وہ مجھ کو یوں جلاتی ہیں
کہ تانے دے کے مجھ کو وہ تڑپاتی ہیں
کسی سے کیا گلہ مجھ کو
اسیر شام تنہائی سے
اب مانوس ہوں شاید
گلہ مجھ کو نہیں شاید
وہ اک زنجیر جو پیروں کو جکڑے چنچناتی ہے
وہ قابض روح پر ہو کر جو میرا درد بڑھاتی ہے
میں اپنے بخت کا قیدی
گلہ تو کر نہیں سکتا
میرے اس شہر تنہائ میں
جگنو کم چمکتے ہیں
وہ طائر خوش صدا
فصیل شہر غم پر اب
کہاں آکرٹھہرتے ہیں
مقید بخت کا ہوں میں
کسی سے کیا گلہ مجھ کو
***
عبدالمطلب مقید
مقید بخت کا ہوں میں
جو گزرے زیست کے لمحے
نہایت کرب میں گزرے
مرے الفاظ جو لب سے نکلتے ہیں
خطاوں کی وہ اک محفل سجاتے ہیں
انہیں وہ گھر بلاتے ہیں
میری اچھائیاں مجھ کو کبھی جینے نہیں دینگی
وہ مجھ کو یوں جلاتی ہیں
کہ تانے دے کے مجھ کو وہ تڑپاتی ہیں
کسی سے کیا گلہ مجھ کو
اسیر شام تنہائی سے
اب مانوس ہوں شاید
گلہ مجھ کو نہیں شاید
وہ اک زنجیر جو پیروں کو جکڑے چنچناتی ہے
وہ قابض روح پر ہو کر جو میرا درد بڑھاتی ہے
میں اپنے بخت کا قیدی
گلہ تو کر نہیں سکتا
میرے اس شہر تنہائ میں
جگنو کم چمکتے ہیں
وہ طائر خوش صدا
فصیل شہر غم پر اب
کہاں آکرٹھہرتے ہیں
مقید بخت کا ہوں میں
کسی سے کیا گلہ مجھ کو
***
عبدالمطلب مقید