Video پاک معاشرے کے محرک اول

  • Work-from-home

arifmaqsood1125

Regular Member
Jul 13, 2012
128
177
43
Karachi
نبوت سے قبل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف حمیدہ
اور معاشعرے پر اس کے اثرات - پروفیسر ڈاکٹر سید وقار احمد رضوی

قبل نبوت پیغمبر رحمت، محسن انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے
اوصاف حمیدہ میں سب سے بڑی صفت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم
معاملات میں دیانت داری اور حسن معاملہ سے کام لیتے تھے۔ اسی وجہ سے
منصب نبوت پر فائز ہونے سے قبل ہی آپ کو "امین" کے لقب سے یاد کیا جاتا
تھا کیوں کہ آپ امانت میں خیانت نہیں کرتے تھے سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو
قرض کو خوش معاملگی سے ادا کرتے ہیں (ترمزی

اس حدیث سے جو بات واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ قرض خواہ کا قرض نہ
چکانا بھی بد دیانتی ہے امانت و دیانت کا تعلق براہ راست گفتاری سے ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو امین مانا جاتا تھا اس کا سبب یہی تھا کہ
آپ صادق القول تھے ابو جہل کہا کرتا تھا کہ اے محمد! میں تمھیں جھوٹا
نہیں کہتا ضمیر کی بیداری انسانیت کی نفسیاتی کیفیت کا وہ زندہ احساس ہے
جس کے ذریعے وہ برائی اور بھلائی میں تمیز کرتا ہے جس کے سبب اس
کے دل کے اندر سے خود نیکی کی دعوت کی آواز اٹھتی ہے

یہ وہ آواز ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل سے قبل از نبوت بلند
ہوتی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبل از نبوت ہی سچائی راست بازی اور عفت
و پاکیزگی کے اوصاف حمیدہ سے متصف تھے۔ طبرانی‘ نے "کنزالعمال" میں
حدیث ذکر کی ہے اس کا مفہوم یہ ہے " ہر بری چیز‘ بری چیز کا کفارہ نہیں ہو
سکتی البتہ اچھی چیز، اچھی چیز کا کفارہ ہو سکتی ہے"۔ اس سے جو نتیجہ
نکلتا ہےوہ یہ کہ اچھی چیز کے لیے دل کا درست ہونا ضروری ہے۔

امانت و دیانت کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں قبل ازنبوت جو اوصاف
حمیدہ پائی جاتی تھیں وہ یہ ہیں۔ حق پسندی، نیک نیتی، انکساری، بلند ہمتی، ایثار
و قربانی، فرض شناسی اور استغناء۔ یہ وہ صفات ہیں جو انسان کے اندر اخلاق
حسنہ اور ملکات فاضلہ پیدا کرتی ہیں۔ اور انسان کی عملی صلاحیتوں کو بے
دار کرتی ہیں۔ یہ وہ اوصاف حمیدہ ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے آگے چل کر دنیا میں خیر و سعادت کے چراغ روشن کیے۔ آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کے بلند اخلاق، مثالی سیرت و کردار اور اوصاف حمیدہ
کی بدولت معاشرے میں ایسا ہمہ گیرانقلاب برپا ہوا جس نے دنیا کو توحید کے
نور سے منور کیا اور مثالی تہذیب و تمدن کا آغاز ہوا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف حمیدہ میںایک وصف ایفائے عہد بھی ہے
اس کا مطلب یہ ہے کہ تجارت اور لین دین میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایفائے
عہد سے کام لیا کرتے تھے عہد کی پابندی صرف وعدہ کرنے کا نام نہیں بلکہ
اس میں ناپ تول میں کمی لین دین میں بد دیانتی اور تجارت میں بے ایمانی نہ
کرنا بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت خدیجۃ الکبرٰی رضی اللہ عنھا قبل از
نبوت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو شادی کی اس کا سبب یہی تھا کہ آپ
صلی اللہ علیہ وسلم سچے تھے اور وعدہ خلاف نہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کے اخلاق حمیدہ صبر و رضا عزم و حوصلہ ہمت و استقلال شجاعت
و بہادری جوش و ولولہ اور جواں مردی بھی تھی۔ جس پر عمل پیرا ہو کر
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے چل کر باطل کی طاقتوں اور ظلم و استبداد
کا مقابلہ کیا۔ فراغ دلی صفات حمیدہ میں سے ہے جس طرح بخل اور حرص
و طمع سے نفس کی پستی ظاہر ہوتے ہے اسیطرح فراغ دلی نفس کی عظمت
اور بلندی پر دلالت کرتی ہے۔ یہ وصف بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں قبل
از نبوت تھی۔ دراصل فراغ دلی ایک شریفانہ فعل ہے اس سے عزت و عظمت
میں اضافہ ہوتا ہے اسیطرح عدل و انصاف عفو و درگزر، برائی کے بدلے
نیکی کرنا سخاوت، احسان، ایثار نفس بھی اوصاف حمیدہ ہیں۔ جو آپ صلی
اللہ علیہ وسلم میں قبل از نبوت تھیں۔ دنیا مکافات عمل ہے زنداگی عمل اور
رد عمل کا نام ہے پس اچھے عمل کا نتیجہ اچھا ہو گا اور برے عمل کا نتیجہ
برائی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبل از نبوت اچھے عمل کیے اس لیے
آپ پر آنے والی زندگی میں رہنمائی کا تاج رکھا گیا۔

غرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم اخلاق حمیدہ کا پیکر مجسم تھے آپ کی ایک
خوبی یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غیبت نہیں کرتے تھے فضول باتوں
ذاتی رنجسوں یعنی بغض حسد اور کینہ نہیں رکھتے تھے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبدالمطلب نے مرتے وقت آنحضرت
صلی اللہ علیہ وسلم کو ابو طالب کی آغوش تربیت میں دیا اس کے بعد چچا ابو
طالب نے بہ حسن خوبی یہ فریضہ سر انجام دیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم
چچا ابو طالب کےساتھ شام کے سفر تجارت پر روانہ ہوئے تو وہاں بحیرہ
راہب کا واقعہ پیش آیا۔ مورخیںنے اس واقعہ کی تفصیل یوں بیان کی ہے کہ
جب ابو طالب وہاں پہنچے تو ایک عسائی راہب کی خانقاہ میں قیام کیا جس کا
نام بحیرہ تھا اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر کہا یہ سید
المرسلین ہیں۔ لوگوں نے پوچھا کہ تم نے کیسے پہچانا تو اس نے جواب میں
یہ کہا کہ جب تم لوگ پہاڑ سے اتر رہے تھے تو جس قدر درخت اور پتھر
تھے سب تعظیم کے لیے جھک گئے۔

بعثت سے قبل ایک اور واقع تعمیر کعبہ کا ہے کعبہ کی عمارت صرف قد آمد
تھی اوردیواروں پر چھت نہ تھی جس طرح ہماری ملک میں عید گاہیں ہوتی
ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعمیر کعبہ میں بہ نفس نفیس حصہ لیا لیکن جب
حجر اسود کی تنصیب کا موقع آیا تو سخت جھگڑا پیدا ہوا ہر شخص چاہتا تھا
کہ یہ خدمت اس کے ہاتھ سےانجام پائے چات دن تک یہ جھگڑا برپا رہا آخر یہ
فیصلہ ہوا کہ کل صبح سب سے پہلے جو شخص آئے وہی ثالث قرار دے دیا
جائے سب نے یہ رائے تسلیم کر لی۔ قدرت کا کرنا یہ ہوا کہ صبح سب سے
پہلے جو شخص آیا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک تھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا کہ جوقبائل دعوے دار ہیں ان میں
سے ایک ایک سردار چن لیا جائے پھر آپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک
چادر بچھائی اس میں حجر اسود کو رکھ دیا اور سرداروں سے کہا کہ چاروں
کونوں کو تھام لیں جب چادر موقع کے برابر آ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے حجر اسود کو اٹھا کر نصب فرمایا۔ مورخین نے لکھا ہے کہ یہ گویا اس
بات کی طرف اشارہ تھا کہ آئندہ آنے والے دنوں میں دین اسلام کا آخری تکمیلی
پتھر بھی ان ہی کے ہاتھوں نصب ہوگا

بعثت سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف حمیدہ میں سے یہ بات بھی
ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مراسم شرک سے اجتناب کرتے تھے۔ چنانچہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ بتوں کے چڑھاوے کا کھانا کھانے سے
انکار کر دیا تھا یہ حقیقت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت سے پہلے
ہی بت پرستی کی مزمت شروع کر دی تھی۔ بعثت سے قبل آپ کے ساتھ جو
لوگ تجارت میں شریک تھے ان کا بیان ہے کہ شرکاء کے ساتھ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کا معاملہ نہایت صاف رہتا تھا اور کبھی کوئی جھگڑایا مناقشہ پیش
نہیں آتا تھا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دعائے خلیل ونوید مسیحا ہیں۔ دعائے خلیل یہ
ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جب تعمیر کعبہ سے فارغ ہوئے تو انھوں
نے یہ دعا کی کہ اے پروردگار ان ہی میں ایک پیغمبر مبعوث کر جو انھیں
تری آیتیں پڑھ کر سنائے اور کتاب و حکمت سکھائے اور انکا تزکیہ کرے
(سورہ البقرہ)
اس دعا کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالٰی نے نسل اسماعیل علیہ السلام سے آنحضرت
صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ میں پیدا کیا۔ جہاں ان کی بعد میں بعثت ہوئی اسی
طرح حضرت عیسی علیہ السلام نے خوشخبری سنائی تھی۔ "میں تمہیں خوش
خبری دیتا ہوں کہ میرے بعد ایک رسول آئینگے ان کا نام احمد ہوگا۔ سورۃ صف
زہیر بن ابی سلمی جاہلیت کے مشہور شاعر تھے انھوں نے پیش گوئی کی تھی
کہ ایک نبی آنےوالے ہیں جو ہدایت کا سرچشمہ ہوں گے۔ انھوں نے اپنے بیٹے
کعب بن زہیر کو نصیحت کی تھی کہ تم ان پر ایمان لے آنا چنانچہ کعب بن زہیر
نے اسی سے متاثر ہو کر اپنا مشہور قصیدہ لکھا۔ ورقہ بن نوفل نے بھی آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی پیش گوئی کی تھی
_____________________________________________________________​
آج ہمارہ معاشرہ کس موڑ پر آ گیا? صرف میرے محبوب آقا کے اسوہ حسنہ سے دوری کے سبب. طالب دعا: عارف مقصود مسافر چند روزہ
 
Top