Namaz نماز

  • Work-from-home

shahla_88

Newbie
Jul 14, 2010
60
10
0
35
Bahrain
نماز

اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰبًا مَّوْقُوْتًا
(النساء ٤: ١٠٣)
بے شک، نماز مسلمانوں پر وقت کی پابندی کے ساتھ فرض کی گئی ہے۔



اسلام کی عبادات میں اہم ترین عبادت نماز ہے۔ دین کی حقیقت، اگر غور کیجیے تو معبود کی معرفت اور اُس کے حضور میں خوف و محبت کے جذبات کے ساتھ خضوع و تذلل ہی ہے ۔ اِس حقیقت کا سب سے نمایاں ظہور پرستش ہے۔ تسبیح و تحمید، دعا و مناجات اور رکوع و سجود اِس پرستش کی عملی صورتیں ہیں۔ نماز یہی ہے اور اِن سب کو غایت درجہ حسن توازن کے ساتھ اپنے اندر جمع کر لیتی ہے۔

دین میں اِس عبادت کی اہمیت غیر معمولی ہے۔ اِس کو سمجھنے کے لیے چند باتیں پیش نظر رہنی چاہییں

پہلی یہ کہ ایمانیات میں جو حیثیت توحید کی ہے، وہی اعمال میں نماز کی ہے۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ آیات الٰہی کی تذکیر سے خدا کی جو معرفت حاصل ہوتی اور اُس سے اللہ تعالیٰ کے لیے محبت اور شکرگزاری کے جو جذبات انسان کے اندر پیدا ہوتے ہیں یا ہونے چاہییں، اُن کا پہلا ثمرہ یہی نماز ہے۔ ارشاد فرمایا ہے

اِنَّمَا یُؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِّرُوْا بِھَا خَرُّوْا سُجَّدًا وَّ سَبَّحُوْا بِحَمْدِ رَبِّھِمْ وَھُمْ لَا یَسْتَکْبِرُوْنَ
تَتَجَافٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ، یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا وَّمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ

(السجدہ٣٢ :١٥-١٦)

پس ہماری آیتوں پر وہی لوگ ایمان لاتے ہیں جنہیں اُن (آیتوں) کے ذریعے نصیحت کی جاتی ہے تو وہ سجدہ کرتے ہوئے گر جاتے ہیں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور وہ تکبّر نہیں کرتے
ان کے پہلو اُن کی خواب گاہوں سے جدا رہتے ہیں اور اپنے رب کو خوف اور امید (کی مِلی جُلی کیفیت) سے پکارتے ہیں اور ہمارے عطا کردہ رزق میں سے (ہماری راہ میں) خرچ کرتے ہیں


یہی بات سورۂ روم کی اِن آیات سے بھی واضح ہوتی ہے

فَاَقِمْ وَجْھَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا، فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا، لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ، ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ
مُنِیْبِیْنَ اِلَیْہِ، وَاتَّقُوْہُ وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَلاَ تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ

(٣٠: ٣٠-٣١)
پس آپ اپنا رخ اللہ کی اطاعت کے لئے کامل یک سُوئی کے ساتھ قائم رکھیں۔ اللہ کی (بنائی ہوئی) فطرت (اسلام) ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا فرمایا ہے (اسے اختیار کر لو)، اللہ کی پیدا کردہ (سرِشت) میں تبدیلی نہیں ہوگی، یہ دین مستقیم ہے لیکن اکثر لوگ (ان حقیقتوں کو) نہیں جانتے
اسی کی طرف رجوع و اِنابت کا حال رکھو اور اس کا تقوٰی اختیار کرو اور نماز قائم کرو اور مشرکوں میں سے مت ہو جاؤ


نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسے اسلام کا ستون قرار دیا ہے۔
(ترمذی، رقم ٢٦١٦)

چنانچہ قرآن میں جہاں اجمال کا اسلوب ملحوظ ہے، وہاں تو بے شک، ایمان کے بعد ' عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ' کے الفاظ آئے ہیں، لیکن جہاں اِس اجمال کی تفصیل پیش نظر ہے، وہاں سب سے پہلے نماز ہی کا ذکر کیا گیا ہے

الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ
(البقرہ٢: ٣)
یہ جو بن دیکھے مان رہے ہیں اور نماز کا اہتمام کر رہے ہیں۔


اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ
(البقرہ ٢: ٢٧٧)
ہاں، جو لوگ ایمان لائے اور اُنھوں نے نیک عمل کیے اور نماز کا اہتمام کیا۔

تزکیہ جسے قرآن میں دین کا مقصد قرار دیا گیا ہے، اُس تک پہنچنے کے لیے بھی سب سے پہلے اِسی کی ہدایت ہوئی ہے

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی
وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہ فَصَلّٰی

(الاعلیٰ ٨٧: ١٤-١٥)
بیشک وہی بامراد ہوا جو (نفس کی آفتوں اور گناہ کی آلودگیوں سے) پاک ہوگیا
اور وہ اپنے رب کے نام کا ذکر کرتا رہا اور (کثرت و پابندی سے) نماز پڑھتا رہا


اِسی طرح قرآن نے جن مقامات پر اُن اعمال کا ذکر کیا ہے جو قیامت میں فوز و فلاح کے لیے ضروری ہیں، وہاں بھی ابتدا نماز ہی سے کی ہے۔



سورۂ مومنون میں ہے

قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ , الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلَاتِھِمْ خٰشِعُوْنَ , وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ , وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِلزَّکوٰۃِ فٰعِلُوْنَ , وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِفُرُوْجِھِمْ حٰفِظُوْنَ

وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ , وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَلٰی صَلَوٰتِھِمْ یُحَافِظُوْنَ

(23:1--5/ 8-9)
بیشک ایمان والے مراد پا گئے , جو لوگ اپنی نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیں , اور جو بیہودہ باتوں سے (ہر وقت) کنارہ کش رہتے ہیں , اور جو (ہمیشہ) زکوٰۃ ادا (کر کے اپنی جان و مال کو پاک) کرتے رہتے ہیں , اور جو (دائماً) اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے رہتے ہیں , اور جو لوگ اپنی امانتوں اور اپنے وعدوں کی پاسداری کرنے والے ہیں , اور جو اپنی نمازوں کی (مداومت کے ساتھ) حفاظت کرنے والے ہیں


سورۂ معارج میں ہے

اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ ھَلُوْعًا , اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوْعًا , وَّاِذَا مَسَّہُ الْخَیْرُ مَنُوْعًا اِلَّا الْمُصَلِّیْنَ , الَّذِیْنَ ھُمْ عَلٰی صَلَاتِھِمْ دَآئِمُوْنَ , وَالَّذِیْنَ فِیْۤ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ , لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ , وَالَّذِیْنَ یُصَدِّقُوْنَ بِیَوْمِ الدِّیْنِ , وَالَّذِیْنَ ھُمْ مِّنْ عَذَابِ رَبِّھِمْ مُّشْفِقُوْنَ , اِنَّ عَذَابَ رَبِّھِمْ غَیْرُ مَاْمُوْنٍ , وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِفُرُوْجِھِمْ حٰفِظُوْنَ

وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمٰنٰتِھِمْ وَعَہْدِھِمْ رَاعُوْنَ , وَالَّذِیْنَ ھُمْ بِشَھٰدٰتِھِمْ قَآئِمُوْنَ , وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَلٰیصَلاَتِھِمْ یُحَافِظُوْنَ , اُولٰۤئِکَ فِیْ جَنّٰتٍ مُّکْرَمُوْنَ

(70:19--29/ 32--35)
بے شک انسان بے صبر اور لالچی پیدا ہوا ہے , جب اسے مصیبت (یا مالی نقصان) پہنچے تو گھبرا جاتا ہے , اور جب اسے بھلائی (یا مالی فراخی) حاصل ہو تو بخل کرتا ہے , مگر وہ نماز ادا کرنے والے
جو اپنی نماز پر ہمیشگی قائم رکھنے والے ہیں , اور وہ (ایثار کیش) لوگ جن کے اَموال میں حصہ مقرر ہے , مانگنے والے اور نہ مانگنے والے محتاج کا , اور وہ لوگ جو روزِ جزا کی تصدیق کرتے ہیں , اور وہ لوگ جو اپنے رب کے عذاب سے ڈرنے والے ہیں , بے شک ان کے رب کا عذاب ایسا نہیں جس سے بے خوف ہوا جائے , اور وہ لوگ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں

اور وہ لوگ جو اپنی امانتوں اور اپنے وعدوں کی نگہداشت کرتے ہیں , اور وہ لوگ جو اپنی گواہیوں پر قائم رہتے ہیں , اور وہ لوگ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں , یہی لوگ ہیں جو جنتوں میں معزّز و مکرّم ہوں گے


ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اعمال میں کیا چیز اللہ کو سب سے زیادہ پسند ہے؟ آپ نے فرمایا: وقت کی پابندی کے ساتھ نماز ادا کرنا۔
(بخاری، رقم ٥٢٧)

سیدنا عمر نے اپنے عمال کے نام ایک خط میں لکھا ہے: تمھارے دینی معاملات میں میرے نزدیک سب سے اہم نماز ہے۔ جو اِس کی حفاظت کرے گا، وہ پورے دین کی حفاظت کرے گا، اور جو اِسے ضائع کر دے گا، وہ باقی دین کو سب سے بڑھ کر ضائع کر دے گا۔
(الموطا، رقم ٦)


دوسری یہ کہ نماز آدمی کے مسلمان سمجھے جانے کے شرائط میں سے ہے۔ قرآن نے یہ بات پوری صراحت کے ساتھ واضح کر دی ہے کہ مسلمانوں کی ریاست میں صرف وہی لوگ مسلمان کی حیثیت سے حقوق کا مطالبہ کر سکیں گے جو نماز ادا کریں گے اور زکوٰۃ دیں گے۔ سورۂ توبہ میں مشرکین عرب کے خلاف کارروائی کے موقع پر اعلان فرمایا ہے


فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکوٰۃَ فَاِخْوَانُکُمْ فِی الدِّیْنِ
(٩ :١١)
پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز کا اہتمام کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو دین میں تمھارے بھائی ہوں گے۔


اِس سے یہ بات نکلتی ہے کہ قیامت میں بھی لوگوں کے ساتھ یہی معاملہ ہونا چاہیے ۔ سورۂ قیامہ میں قرآن نے نہایت بلیغ اسلوب میں اِسے واضح کر دیا ہے​


فَلاَ صَدَّقَ وَلَا صَلّٰی , وَلٰکِنْ کَذَّبَ وَتَوَلّٰی , ثُمَّ ذَھَبَ اِلٰۤی اَھْلِہ یَتَمَطّٰی , اَوْلٰی لَکَ فَاَوْلٰی , ثُمَّ اَوْلٰی لَکَ فَاَوْلٰی
(٧٥ :٣١-٣٥)
تو (کتنی بد نصیبی ہے کہ) اس نے نہ (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باتوں کی) تصدیق کی نہ نماز پڑھی , بلکہ وہ جھٹلاتا رہا اور رُوگردانی کرتا رہا , پھر اپنے اہلِ خانہ کی طرف اکڑ کر چل دیا , تمہارے لئے (مرتے وقت) تباہی ہے، پھر (قبر میں) تباہی ہے , پھر تمہارے لئے (روزِ قیامت) ہلاکت ہے، پھر (دوزخ کی) ہلاکت ہے


إِنَّ الَّذِينَ كَذَّبُواْ بِآيَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُواْ عَنْهَا لاَ تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلاَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُجْرِمِينَ​

(الاعراف ٧: ٤٠)
بیشک جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان سے سرکشی کی ان کے لئے آسمانِ (رحمت و قبولیت) کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے اور نہ ہی وہ جنت میں داخل ہو سکیں گے یہاں تک کہ سوئی کے سوراخ میں اونٹ داخل ہو جائے (یعنی جیسے یہ ناممکن ہے اسی طرح ان کا جنت میں داخل ہونا بھی ناممکن ہے)، اور ہم مجرموں کو اسی طرح سزا دیتے ہیں

اِس میں 'صَلّٰی' کے مقابل میں 'تَوَلّٰی' اور 'ثُمَّ ذَھَبَ اِلٰۤی اَھْلِہ یَتَمَطّٰی' کے الفاظ سے ضمناً یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ نماز کو یہ حیثیت اِس لیے دی گئی ہے کہ اللہ کے نزدیک نماز نہ پڑھنا درحقیقت بندے کا خدا کے مقابلے میں استکبار ہے اور قرآن نے دوسری جگہ بتا دیا ہے کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل ہو سکتا ہے، لیکن مستکبرین جنت میں داخل نہیں ہو سکتے۔​



نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے

بین الرجل و بین الشرک والکفر ترک الصلٰوۃ
آدمی کے کفر و شرک اور ایمان کے درمیان حد فاصل نماز چھوڑ دینا ہے۔
(مسلم ، رقم٢٤٧)


اِسی طرح آپ کا ارشاد ہے

خمس صلوٰت افترضھن اللّٰہ تعالٰی عز وجل: من احسن وضوء ھن وصلاھن لوقتھن واتم رکوعھن وخشوعھن کان لہ علی
اللّٰہ عھد ان یغفر لہ، ومن لم یفعل فلیس لہ علی اللّٰہ عھد، ان شاء غفر لہ وان شاء عذبہ
یہ پانچ نمازیں ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر فرض کیا ہے: جس نے اِن کے لیے اچھے طریقے سے وضو کیا، اِنھیں وقت پر ادا کیا اور اپنا ظاہر و باطن اِن میں پوری طرح اپنے پروردگار کے سامنے جھکا دیا، اُس کے لیے اللہ کا عہد ہے کہ اُسے بخش دے گا اور جس نے یہ نہیں کیا، اُس کے لیے اللہ کا کوئی عہد نہیں ہے۔ اللہ چاہے گا تو اُسے بخشے گا اور چاہے گا تو عذاب دے گا۔
(ابوداؤد، رقم ٤٢٥)


تیسری یہ کہ نماز دین پر قائم رہنے کا ذریعہ ہے۔ قرآن نے بتایا ہے کہ جو لوگ خدا کی یاد سے غافل ہو جاتے اور اُس سے اعراض کر لیتے ہیں، اُن پر ایک شیطان مسلط کر دیا جاتا ہے جو شب و روز کے لیے اُن کا ساتھی بن جاتا ہے


وَمَن يَعْشُ عَن ذِكْرِ الرَّحْمَنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطَانًا فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ(الزخرف ٤٣: ٣٦)
اور جو شخص (خدائے) رحمان کی یاد سے صرف نظر کر لے تو ہم اُس کے لئے ایک شیطان مسلّط کر دیتے ہیں جو ہر وقت اس کے ساتھ جڑا رہتا ہے


نماز اِسی غفلت اور اعراض سے انسان کو بچاتی اور شیطان سے اُس کی حفاظت کرتی ہے ۔ سورۂ مومنون اور سورۂ معارج کی جو آیات اوپر نقل ہوئی ہیں، اُن میں دیکھ لیجیے، جن باتوں کی ابتدا نماز سے ہوئی ہے، اُن کا خاتمہ بھی نماز ہی پر ہوا ہے۔ اِس سے یہ اشارہ صاف نکلتا ہے کہ درحقیقت نمازوں کی حفاظت ہی ہے جو انسان کے دین پر قائم رہنے کی ضمانت ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ شیطان کے حملے اِس کے بعد بھی جاری رہتے ہیں، لیکن نماز پر مداومت کے نتیجے میں اُس کے لیے مستقل طور پر انسان کے دل میں ڈیرے ڈال دینا ممکن نہیں ہوتا۔ نماز اُسے مسلسل دور بھگاتی اور ایک حصار کی طرح اُس کے حملوں سے انسان کے دل و دماغ کی حفاظت کرتی رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خطرے کی حالت میں بھی تاکید کی گئی ہے کہ پیدل یا سواری پر، جس طرح ممکن ہو، اِسے لازماً ادا کیا جائے۔ سورۂ بقرہ میں قانون و شریعت کی فصل کے خاتمے پر یہ حقیقت اِس طرح بیان فرمائی ہے​



حَافِظُواْ عَلَى الصَّلَوَاتِ والصَّلاَةِ الْوُسْطَى وَقُومُواْ لِلّهِ قَانِتِينَ
فَإنْ خِفْتُمْ فَرِجَالاً أَوْ رُكْبَانًا فَإِذَا أَمِنتُمْ فَاذْكُرُواْ اللّهَ كَمَا عَلَّمَكُم مَّا لَمْ تَكُونُواْ تَعْلَمُونَ

(٢٣٨ -٢٣٩ :٢ )
سب نمازوں کی محافظت کیا کرو اور بالخصوص درمیانی نماز کی، اور اللہ کے حضور سراپا ادب و نیاز بن کر قیام کیا کرو , پھر اگر تم حالتِ خوف میں ہو تو پیادہ یا سوار (جیسے بھی ہو نماز پڑھ لیا کرو)، پھر جب تم حالتِ امن میں آجاؤ تو انہی طریقوں پر اللہ کی یاد کرو جو اس نے تمہیں سکھائے ہیں جنہیں تم (پہلے) نہیں جانتے تھے

سورۂ مریم میں قرآن نے اِسی بنا پر, شہوات کی پیروی کا ذکر اِس طرح کیا ہے کہ گویا وہ نمازیں ضائع کر دینے کا لازمی نتیجہ ہے

فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِہِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوۃَ وَاتَّبَعُوا الشَّہَوٰتِ
(مریم ١٩: ٥٩)
پھر ان کے بعد وہ ناخلف جانشین ہوئے جنہوں نے نمازیں ضائع کردیں اور خواہشاتِ (نفسانی) کے پیرو ہو گئے

سورۂ عنکبوت میں اِس سے واضح تر الفاظ میں فرمایا ہے

وَأَقِمِ الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ
(٢٩ :٤٥)
اور نماز کا اہتمام کرو، اِس لیے کہ نماز بے حیائی اور برائی کی باتوں سے روکتی ہے۔


یعنی ایک واعظ کی طرح نماز آدمی کو متنبہ کرتی ہے کہ جذبات کے غلبے، شہوات کی یورش اور خواہشوں کے ہجوم میں اُسے یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ایک دن خدا کو منہ دکھانا ہے اور اُس کے روبرو کھڑے ہو کر اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اِس کی وضاحت میں لکھا ہے

...جو لوگ نماز اُس کے آداب و شرائط کے ساتھ ادا کرتے ہیں، خواہ خلوت کی نماز ہو یا جلوت کی، اُن کی نماز اپنے ظاہر و باطن ، دونوں سے ، اُن کو اُن حقائق کی یاددہانی کرتی رہتی ہے جن کی یاددہانی زندگی کو صحیح راہ پر قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ خاص طور پر خلوت کی نمازیں انسان کی زندگی پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں۔ اگر کوئی شخص نماز نہیں پڑھتا تو اُس کی مثال اُس ڈرائیور کی ہے جو اپنی زندگی کی گاڑی پوری رفتار سے چلا تو رہا ہے، لیکن اُس کی رہنمائی کے لیے داہنے بائیں جو نشانات اُس کو صحیح راہ بتانے اور خطرات سے آگاہ کرنے کے لیے لگے ہوئے ہیں، اُن سے بالکل بے پروا اور بے خبر ہے۔ ایسا ڈرائیور، کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اپنی گاڑی کس کھڈ میں گرائے۔
(تدبر قرآن ٦/٥٣)


چوتھی یہ کہ نماز گناہوں کو مٹا دیتی ہے
بندہ جب صحیح شعور کے ساتھ نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو خدا کے ساتھ اپنے عہد کی تجدید کرتا ہے کہ وہ اُس کی معصیت سے اجتناب کرے گا۔ اِس کے نتیجے میں وہ ایک نماز سے دوسری نماز تک کی لغزشوں پر لازماً ندامت محسوس کرتا اور اُن سے بچنے کے لیے ایک نئے عزم اور ارادے کے ساتھ زندگی کی مصروفیتوں کی طرف لوٹتا ہے۔ غور کیجیے تو توبہ کی حقیقت بھی یہی ہے اور توبہ کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ بندے کو گناہوں سے پاک کر دیتی ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا ہے


وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّھَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ، اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّاٰتِ، ذٰلِکَ ذِکْرٰی لِلذّٰکِرِیْنَ
(ہود ١١ :١١٤)
اور آپ دن کے دونوں کناروں میں اور رات کے کچھ حصوں میں نماز قائم کیجئے۔ بیشک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ یہ نصیحت قبول کرنے والوں کے لئے نصیحت ہے


ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ بتاؤ کہ اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر ایک نہر ہو جس میں وہ روزانہ پانچ مرتبہ نہائے تو کیا اُس کے جسم پر میل نام کی کوئی چیز باقی رہ جائے گی؟ لوگوں نے عرض کیا: اِس صورت میں تو یقینا میل کا کوئی شائبہ باقی نہ رہے گا۔ آپ نے فرمایا: یہ پانچ نمازوں کی مثال ہے۔ اللہ اِن کے ذریعے سے بالکل اِسی طرح گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔
سورۂ مریم میں قرآن نے اِسی بنا پر, شہوات کی پیروی کا ذکر اِس طرح کیا ہے کہ گویا وہ نمازیں ضائع کر دینے کا لازمی نتیجہ ہے

فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِہِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوۃَ وَاتَّبَعُوا الشَّہَوٰتِ
(مریم ١٩: ٥٩)
پھر ان کے بعد وہ ناخلف جانشین ہوئے جنہوں نے نمازیں ضائع کردیں اور خواہشاتِ (نفسانی) کے پیرو ہو گئے

سورۂ عنکبوت میں اِس سے واضح تر الفاظ میں فرمایا ہے

وَأَقِمِ الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ
(٢٩ :٤٥)
اور نماز کا اہتمام کرو، اِس لیے کہ نماز بے حیائی اور برائی کی باتوں سے روکتی ہے۔


یعنی ایک واعظ کی طرح نماز آدمی کو متنبہ کرتی ہے کہ جذبات کے غلبے، شہوات کی یورش اور خواہشوں کے ہجوم میں اُسے یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ایک دن خدا کو منہ دکھانا ہے اور اُس کے روبرو کھڑے ہو کر اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اِس کی وضاحت میں لکھا ہے

...جو لوگ نماز اُس کے آداب و شرائط کے ساتھ ادا کرتے ہیں، خواہ خلوت کی نماز ہو یا جلوت کی، اُن کی نماز اپنے ظاہر و باطن ، دونوں سے ، اُن کو اُن حقائق کی یاددہانی کرتی رہتی ہے جن کی یاددہانی زندگی کو صحیح راہ پر قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ خاص طور پر خلوت کی نمازیں انسان کی زندگی پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں۔ اگر کوئی شخص نماز نہیں پڑھتا تو اُس کی مثال اُس ڈرائیور کی ہے جو اپنی زندگی کی گاڑی پوری رفتار سے چلا تو رہا ہے، لیکن اُس کی رہنمائی کے لیے داہنے بائیں جو نشانات اُس کو صحیح راہ بتانے اور خطرات سے آگاہ کرنے کے لیے لگے ہوئے ہیں، اُن سے بالکل بے پروا اور بے خبر ہے۔ ایسا ڈرائیور، کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اپنی گاڑی کس کھڈ میں گرائے۔
(تدبر قرآن ٦/٥٣)


چوتھی یہ کہ نماز گناہوں کو مٹا دیتی ہے
بندہ جب صحیح شعور کے ساتھ نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو خدا کے ساتھ اپنے عہد کی تجدید کرتا ہے کہ وہ اُس کی معصیت سے اجتناب کرے گا۔ اِس کے نتیجے میں وہ ایک نماز سے دوسری نماز تک کی لغزشوں پر لازماً ندامت محسوس کرتا اور اُن سے بچنے کے لیے ایک نئے عزم اور ارادے کے ساتھ زندگی کی مصروفیتوں کی طرف لوٹتا ہے۔ غور کیجیے تو توبہ کی حقیقت بھی یہی ہے اور توبہ کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ بندے کو گناہوں سے پاک کر دیتی ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا ہے


وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّھَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ، اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّاٰتِ، ذٰلِکَ ذِکْرٰی لِلذّٰکِرِیْنَ
(ہود ١١ :١١٤)
اور آپ دن کے دونوں کناروں میں اور رات کے کچھ حصوں میں نماز قائم کیجئے۔ بیشک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ یہ نصیحت قبول کرنے والوں کے لئے نصیحت ہے


ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ بتاؤ کہ اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر ایک نہر ہو جس میں وہ روزانہ پانچ مرتبہ نہائے تو کیا اُس کے جسم پر میل نام کی کوئی چیز باقی رہ جائے گی؟ لوگوں نے عرض کیا: اِس صورت میں تو یقینا میل کا کوئی شائبہ باقی نہ رہے گا۔ آپ نے فرمایا: یہ پانچ نمازوں کی مثال ہے۔ اللہ اِن کے ذریعے سے بالکل اِسی طرح گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔

پانچویں یہ کہ نماز مشکل کشا ہے۔

یہود کو جب قرآن نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا عہد ازسرنو استوار کرنے کی دعوت دی تو اُس کی ذمہ داریوں کے تحمل کے لیے نماز ہی کے ذریعے سے مدد چاہنے کی ہدایت فرمائی۔


وَاسْتَعِينُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلاَّ عَلَى الْخَاشِعِينَ
(البقرہ ٢: ٤٥)
اور صبر اور نماز سے مدد چاہو اور بیشک نماز ضرور بھاری ہے مگر ان پر (نہیں) جو دل سے میری طرف جھکتے ہیں


بعینہ یہی معاملہ بنی اسمٰعیل کے اہل ایمان کے ساتھ ہوا۔

چنانچہ فرمایا


يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اسْتَعِينُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ إِنَّ اللّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ
(البقرہ ٢ :١٥٣)
اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے (مجھ سے) مدد چاہا کرو، یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ (ہوتا) ہے


نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی معاندین اور اشرار کی دل آزاریوں اور شرارتوں کے مقابلے میں صبر و استقامت کے لیے اِسی کی تلقین کی گئی


فَاصْبِرْعَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَ قَبْلَ الْغُرُوْبِ , وَمِنَ الَّیْلِ فَسَبِّحْہُ وَاَدْبَارَ السُّجُوْدِ
(ق ٥٠ : ٣٩-٤٠)
سو آپ اُن باتوں پر جو وہ کہتے ہیں صبر کیجئے اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیجئے طلوعِ آفتاب سے پہلے اور غروبِ آفتاب سے پہلے , اور رات کے بعض اوقات میں بھی اس کی تسبیح کیجئے اور نمازوں کے بعد بھی


اِس کے معنی یہ ہیں کہ نماز اللہ تعالیٰ کی رحمت کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا سب سے موثر ذریعہ ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو جب کوئی اہم معاملہ درپیش ہوتا تو آپ نماز کے لیے کھڑے ہو جاتے۔ لوگوں نے بارش کے لیے درخواست کی تو آپ نماز پڑھ کر اِس کے لیے دست بدعا ہوئے۔ سورج اور چاند گرہن کے موقع پر اللہ کی گرفت کا اندیشہ محسوس ہوا تو آپ نے نماز پڑھی۔ بدر و احزاب کے معرکوں میں مسلمان اپنے دشمنوں کے مقابلے میں صف آرا ہوئے تو آپ نے اِسی کا سہارا لیا اور اِسی کے ذریعے سے اپنے پروردگار کی مدد چاہی۔
(تفسیر القرآن العظیم، ابن کثیر١/٨٧)


چھٹی یہ کہ نماز دعوت حق کی پہچان ہے۔

قرآن نے بتایا ہے کہ اُس کے نزدیک مصلحین وہی ہیں جو کتاب الٰہی کو اللہ تعالیٰ کے میثاق اور حق و باطل کے لیے میزان کی حیثیت سے پوری مضبوطی کے ساتھ تھامتے اور نماز کا اہتمام کرتے ہیں ۔ ارشاد فرمایا ہے


وَالَّذِیْنَ یُمَسِّکُوْنَ بِالْکِتٰبِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ، اِنَّا لَا نُضِیْعُ اَجْرَ الْمُصْلِحِیْنَ
(الاعراف ٧: ١٧٠)
اور جو لوگ کتابِ (الٰہی) کو مضبوط پکڑے رہتے ہیں او ر نماز (پابندی سے) قائم رکھتے ہیں (تو) بیشک ہم اصلاح کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتے


استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اِس کی وضاحت میں لکھا ہے

قرآن حکیم کا یہ بیان تجدید دین و اصلاح ملت کی تمام تحریکات اور تمام دعوتوں کے جانچنے کے لیے ایک کسوٹی فراہم کرتا ہے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف وہ دعوت یا تحریک اصلاح ملت کی صحیح دعوت یا تحریک ہے جس کے مبدأ و معاد، جس کی ابتدا اور انتہا، جس کے عقیدہ اور عمل، جس کے نصب العین اور پروگرام، دونوں میں نماز اور اقامت نماز کو وہی اولیت اور اہمیت حاصل ہو جو اللہ کے عہد اور اُس کی اقامت کی جدوجہد میں فی الواقع ازروے قرآن اُس کو حاصل ہے۔ جس دعوت یا تحریک میں نماز کو یہ اولیت و اہمیت حاصل نہ ہو، وہ تجدید دین اور اصلاح ملت کے نقطۂ نظر سے ایک بے برکت، بلکہ لاحاصل کام ہے، کیونکہ وہ اُس ریڑھ کی ہڈی سے بھی محروم ہے جس پر تجدید دین کی دعوت کا قالب کھڑا ہوتا ہے اور اُس روح سے بھی محروم ہے جس سے اِس قالب کو زندگی حاصل ہوتی ہے۔
(تدبر قرآن ١/٢٠٣)


ساتویں یہ کہ نماز راہ حق میں استقامت کا ذریعہ ہے۔

اِس راہ کے سالکین جانتے ہیں کہ اِس میں استقامت خدا کی معیت سے حاصل ہوتی ہے اور نماز خدا سے اِس درجہ قریب ہے کہ وہ دنیا میں گویا ہمارے لیے خدا کی قائم مقام ہے۔ سورۂ علق کی آیت

وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ
(العلق ٩٦ : ١٩)
سجدہ ریز رہو اور اِس طرح میرے قریب ہو جاؤ

میں یہی حقیقت واضح فرمائی ہے۔ لہٰذا اللہ کی راہ میں جدوجہد کے لیے اللہ کی معیت اگر حاصل ہو سکتی ہے تو اُس کی کتاب اور اُس کے حضور میں نماز ہی سے حاصل ہو سکتی ہے۔ اِس مقصد کے لیے سب سے زیادہ اہمیت قیام اللیل، یعنی نماز تہجد کی ہے۔ چنا نچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب انذار عام کا حکم ہوا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اِس قول ثقیل کا تحمل اور اِس کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا مقصود ہے تو رات کی نمازوں میں قرآن کی تلاوت کی جائے۔ اِس کی وجہ یہ بتائی کہ یہ وقت دل و دماغ کے فراغ اور فہم قرآن کے لیے سب سے زیادہ موزوں ہے۔ استاذ امام کے الفاظ میں یہ وقت چونکہ دماغ کے سکون اور دل کی بیداری کا خاص وقت ہے، اِس وجہ سے زبان سے جو بات نکلتی ہے، تیر بہ ہدف اور 'ازدل خیزد بردل ریزد' کا مصداق بن کر نکلتی ہے۔ آدمی خود بھی اُس کو اپنے دل کی گواہی کی طرح قبول کرتا ہے اور دوسرے سننے والوں کے دلوں پر بھی اُس کی تاثیر بے خطا ہوتی ہے۔
(تدبر قرآن ٩/٢٥)

ارشاد فرمایا ہے


, یٰۤاَیُّھَا الْمُزَّمِّلُ , قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلاً , نِّصْفَہۤ اَوِ انْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلاً , اَوْ زِدْ عَلَیْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلاً
, اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلاً ثَقِیْلاً , اِنَّ نَاشِئَۃَ الَّیْلِ ھِیَ اَشَدُّ وَطْاً وَّاَقْوَمُ قِیْلاً
, اِنَّ لَکَ فِی النَّھَارِ سَبْحًا طَوِیْلاً , وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ وَتَبَتَّلْ اِلَیْہِ تَبْتِیْلاً
(المزمل ٧٣ :١-٨)
اے کملی کی جھرمٹ والے (حبیب!) , آپ رات کو (نماز میں) قیام فرمایا کریں مگر تھوڑی دیر (کے لئے) , آدھی رات یا اِس سے تھوڑا کم کر دیں , یا اس پر کچھ زیادہ کر دیں اور قرآن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کریں , ہم عنقریب آپ پر ایک بھاری فرمان نازل کریں گے , بے شک رات کا اُٹھنا (نفس کو) سخت پامال کرتا ہے اور (دِل و دِماغ کی یک سُوئی کے ساتھ) زبان سے سیدھی بات نکالتا ہے , بے شک آپ کے لئے دن میں بہت سی مصروفیات ہوتی ہیں , اور آپ اپنے رب کے نام کا ذِکر کرتے رہیں اور (اپنے قلب و باطن میں) ہر ایک سے ٹوٹ کر اُسی کے ہو رہیں


بعض روایتوں میں ہے کہ اِس دنیا کی طرف اللہ تعالیٰ کی خاص توجہ کا وقت بھی یہی ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ہر رات ہمارے قریبی آسمان کی طرف نزول فرماتے ہیں، یہاں تک کہ جب ایک تہائی رات باقی رہ جاتی ہے تو ارشاد ہوتا ہے: کون دعا کر رہا ہے کہ میں اُسے قبول کروں؟ کون مانگتا ہے کہ اُسے دوں؟ کون مغفرت چاہتا ہے کہ اُسے بخش دوں؟
(بخاری، رقم ١١٤٥)


آٹھویں یہ کہ نماز کائنات کی فطرت ہے۔

انسان کی آنکھیں ہوں اور وہ اُن سے دیکھتا بھی ہو تو اِس حقیقت کو سمجھنے میں اُسے کوئی تردد نہیں ہوتا کہ اِس عالم کا ذرہ ذرہ فی الواقع اپنے پروردگار کی تسبیح و تحمید کرتا اور اُس کے سامنے سجدہ ریز رہتا ہے۔ وہ اگرچہ اِس تسبیح و تحمید کو نہیں سمجھتا، مگر دیکھ تو سکتا ہے کہ دنیا کی سب چیزوں کا ظاہر جس طرح ہر لحظہ خدا کے سامنے سرافگندہ اور اُس کے حکم کی تعمیل میں سرگرم ہے، اُن کا باطن بھی اِس سے مختلف نہیں ہو سکتا۔ زمین پر چلتے ہوئے جانور، باغوں میں لہلہاتے ہوئے درخت، فضاؤں میں چہکتے ہوئے پرندے، سمندروں میں تیرتی ہوئی مچھلیاں اور آسمان پر چمکتے ہوئے تارے اور سورج اور چاند، سب اپنے وجود سے اِس بات کی گواہی دیتے ہیں


تُسَبِّحُ لَہُ السَّمٰوٰتُ السَّبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْھِنَّ، وَاِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہ وَلٰکِنْ لَّا تَفْقَہُوْنَ تَسْبِیْحَھُمْ
(بنی اسرائیل ١٧: ٤٤)
ساتوں آسمان اور زمین اور وہ سارے موجودات جو ان میں ہیں اللہ کی تسبیح کرتے رہتے ہیں، اور (جملہ کائنات میں) کوئی بھی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ تسبیح نہ کرتی ہو لیکن تم ان کی تسبیح (کی کیفیت) کو سمجھ نہیں سکتے،


یہ سب اپنی اپنی نماز اور تسبیح سے پوری طرح واقف ہیں اور ایک لمحے کے لیے بھی اُس سے غافل نہیں ہوتے۔ انسان دیکھے تو دیکھ سکتا ہے کہ پرندے جب پر پھیلائے ہوئے فضاؤں میں محو پرواز ہوتے ہیں تو خدا کے سامنے کمال عجز کے ساتھ گویا بچھے ہوئے ہوتے ہیں

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یُسَبِّحُ لَہ، مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالطَّیْرُ صٰۤفّٰتٍ، کُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَہ، وَ تَسْبِیْحَہ، وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ بِمَا یَفْعَلُوْنَ
(النور ٢٤: ٤١)
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جو کوئی بھی آسمانوں اور زمین میں ہے وہ (سب) اللہ ہی کی تسبیح کرتے ہیں اور پرندے (بھی فضاؤں میں) پر پھیلائے ہوئے (اسی کی تسبیح کرتے ہیں)، ہر ایک (اللہ کے حضور) اپنی نماز اور اپنی تسبیح کو جانتا ہے، اور اللہ ان کاموں سے خوب آگاہ ہے


استاذ امام لکھتے ہیں

اِس کائنات کی ہر چیز اپنی تکوینی حیثیت میں ابراہیمی مزاج رکھتی ہے۔ سورج، چاند، ستارے، پہاڑ اور چوپائے، سب خدا کے امر و حکم کے تحت مسخر ہیں۔ اِن میں سے کوئی چیز بھی سرمو خدا کے مقرر کیے ہوئے قوانین سے انحراف نہیں اختیار کرتی۔ سورج، جس کو نادانوں نے معبود بنا کر سب سے زیادہ پوجا ہے، خود اپنے وجود سے گواہی دے رہا ہے کہ وہ شب و روز اپنے رب کے آگے قیام، رکوع اور سجدے میں ہے۔ طلوع کے وقت وہ سجدے سے سر اٹھاتا ہے، دوپہر تک وہ قیام میں رہتا ہے، زوال کے بعد وہ رکوع میں جھک جاتا ہے اور غروب کے وقت وہ سجدے میں گر جاتا ہے اور رات بھر اِسی سجدے کی حالت میں رہتا ہے۔ اِسی حقیقت کا مظاہرہ چاند اپنے عروج و محاق سے اور ستارے اپنے طلوع و غروب سے کرتے ہیں۔ پہاڑوں، درختوں اور چوپایوں کا بھی یہی حال ہے۔ اِن میں سے ہر چیز کا سایہ ہر وقت قیام، رکوع اور سجود میں رہتا ہے اور غور کیجیے تو یہ حقیقت بھی نظر آئے گی کہ اِس سایے کی فطرت ایسی ابراہیمی ہے کہ یہ ہمیشہ آفتاب کی مخالف سمت میں رہتا ہے۔ اگر سورج مشرق کی سمت میں ہے تو سایہ مغرب کی جانب پھیلے گا اور اگر مغرب کی جانب ہے تو ہر چیز کا سایہ مشرق کی طرف پھیلے گا۔ گویا ہر چیز کا سایہ اپنے وجود سے ہمیں اِس بات کی تعلیم دے رہا ہے کہ سجدہ کا اصل سزاوار آفتاب نہیں ، بلکہ
خالق آفتاب ہے۔

(تدبر قرآن ٥/٢٢٩)


ارشاد فرمایا ہے


اَوَ لَمْ یَرَوْا اِلٰی مَا خَلَقَ اللّٰہُ مِنْ شَیْئٍ، یَّتَفَیَّؤُا ظِلٰلُہ، عَنِ الْیَمِیْنِ وَالشَّمَآئِلِ سُجَّدًا لِّلّٰہِ وَھُمْ دٰخِرُوْنَ
وَلِلّٰہِ یَسْجُدُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ مِنْ دَآبَّۃٍ وَّالْمَلٰۤئِکَۃُ وَھُمْ لَا یَسْتَکْبِرُوْنَ

(النحل ١٦: ٤٨-٤٩)
کیا انہوں نے ان (سایہ دار) چیزوں کی طرف نہیں دیکھا جو اللہ نے پیدا فرمائی ہیں (کہ) ان کے سائے دائیں اور بائیں اَطراف سے اللہ کے لئے سجدہ کرتے ہوئے پھرتے رہتے ہیں اور وہ (درحقیقت) طاعت و عاجزی کا اظہار کرتے ہیں
اور جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے جملہ جاندار اور فرشتے، اللہ (ہی) کو سجدہ کرتے ہیں اور وہ (ذرا بھی) غرور و تکبر نہیں کرتے


چنانچہ انسان جب نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو گویا پورے عالم کی طرف سے تسبیح و تحمید اور رکوع و سجود کی اِس دعوت پر لبیک کہتا ہے۔ وہ اپنی فطرت کا ساز اِس ساز سے ہم آہنگ کر دیتا ہے اور اپنے اِس عمل سے اعلان کرتا ہے کہ وہ بھی کسی سے پیچھے نہ رہے گا اور اپنا جسم ہی نہیں، اپنی روح بھی اُس پروردگار کے حضور میں جھکا دے گا جس نے اُسے پیدا کیا ہے۔ ساری کائنات سے الگ ہو کر وہ ایسی کوئی راہ نہیں نکالے گا جس میں اُس کا کوئی ہم سفر نہیں ہے اور اگر ہیں تو وہی ہیں جن کے لیے خدا کا عذاب لازم ہو چکا ہے


اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یَسْجُدُ لَہ، مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِیالْاَرْضِ، وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُوْمُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَآبُّ وَکَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ
وَکَثِیْرٌ حَقَّ عَلَیْہِ الْعَذَابُ

(الحج ٢٢ :١٨)
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہﷲ ہی کے لئے (وہ ساری مخلوق) سجدہ ریز ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے اور سورج (بھی) اور چاند (بھی) اور ستارے (بھی) اور پہاڑ (بھی) اور درخت (بھی) اور جانور (بھی) اور بہت سے انسان (بھی)، اور بہت سے (انسان) ایسے بھی ہیں جن پر (ان کے کفر و شرک کے باعث) عذاب ثابت ہو چکا ہے


نویں یہ کہ نماز ہی حقیقی زندگی ہے۔

انبیا علیہم السلام جو دعوت لے کر آتے ہیں، اُسے قرآن میں زندگی سے تعبیر کیا گیا ہے


'یٰۤاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا، اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِاِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ
(الانفال ٨: ٢٤)
اے ایمان والو! جب (بھی) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں کسی کام کے لئے بلائیں جو تمہیں (جاودانی) زندگی عطا کرتا ہے تو اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرمانبرداری کے ساتھ جواب دیتے ہوئے (فوراً) حاضر ہو جایا کرو


اِس کی وجہ یہ ہے کہ جینے کو تو سب جیتے ہیں، لیکن وہ حقیقی زندگی جسے نور، سکینت اور ایمان کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے، صرف اللہ کی یاد سے ملتی ہے۔ انبیا علیہم السلام اِسی کی دعوت دیتے ہیں اور اُس میں سب سے پہلے نماز کے لیے بلاتے ہیں۔ نماز کیا ہے؟ خدا کی معرفت، اُس کا ذکر و فکر اور اُس کی قربت کا احساس جب اپنے منتہاے کمال کو پہنچتا ہے تو نماز بن جاتا ہے۔ دنیا کے سب عارفوں کا فیصلہ ہے کہ اصل زندگی دل کی زندگی ہے اور دل کی زندگی یہی معرفت، ذکر و فکر اور قربت الٰہی ہے۔ یہ زندگی انسان کو صرف نماز سے حاصل ہوتی ہے اور نماز ہی سے باقی رہتی ہے۔ قرآن نے ایک جگہ نماز کے مقابل میں زندگی اور قربانی کے مقابل میں موت کو رکھ کر یہی حقیقت واضح کی ہے۔ ارشاد فرمایا ہے


قُلْ اِنَّ صَلاَتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
(الانعام ٦ :١٦٢)
فرما دیجئے کہ بیشک میری نماز اور میرا حج اور قربانی (سمیت سب بندگی) اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے

انسان اِس حقیقت کو پالے تو اپنے شب و روز میں وہ نماز کے لیے اِسی طرح منتظر رہتا ہے، جس طرح صبح و شام کے کھانے اور پینے کا منتظر رہتا ہے اور اِسی طرح بے تاب ہوتا ہے، جس طرح پیاسا پانی کے لیے اور بھوکا روٹی کے لیے بے تاب ہوتا ہے۔ نماز اُس کے لیے خداوند عالم کا رزق بن جاتی ہے۔ وہ اِسی سے آسودہ ہوتا اور اِسی سے قوت پاتا ہے۔ سیدنا مسیح علیہ السلام نے فرمایا ہے: انسان صرف روٹی سے نہیں جیتا، بلکہ ہر ایک بات سے جو خدا کے منہ سے نکلتی ہے۔
(متی ٤:٤)

لوگ جس طرح انواع و اقسام کے کھانوں سے لذت کام و دہن کا سامان کرتے ہیں، وہ اِسی طرح قرآن کے مختلف مقامات اور متنوع تسبیحات اور دعاؤں سے اپنی روح کے لیے لذت کا سامان کرتا ہے۔ مصائب کے حبس میں نماز ہی نسیم جاں فزا، گناہ کی آلایشوں میں نماز ہی ہواے عطر بیز، مایوسیوں کی پت جھڑ میں نماز ہی نوید بہار اور مخالفتوں کے ہجوم میں نماز ہی اُس کے لیے پناہ کی چٹان ہوتی ہے۔ اِسے شاعری نہ سمجھیے۔ نماز سے متعلق
یہ اُسی مقام کی کیفیات ہیں جنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے

' قم یا بلال ، فأرحنا بالصلٰوۃ '
(ابوداؤد، رقم ٤٩٨٦)
(بلال، اٹھو اور ہمیں نماز کے ذریعے سے راحت پہنچاؤ)

اور

' جعلت قرۃ عینی فی الصلٰوۃ '
(نسائی ، رقم ٣٣٩٢)
( میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے)

جیسے الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔
 
  • Like
Reactions: saviou and yoursks

yoursks

Always different.., Confirm
VIP
Jul 22, 2008
17,222
8,013
1,113
دعاؤں میں
mashaAllah bohat zabardast sharing hai...

Allah ta'laa hamaen namaaz ki baqayidgi naseeb farmaye, ameen...

jazaakAllah Khair
 

saviou

Moderator
Aug 23, 2009
41,203
24,155
1,313
subhan Allah :)

kaafi wazahat se dalail k sath apne namaz k fawaid duniya aur akhirat k liye bayan kiye hain

Allah apko jazaye khair de Aameen
 
Top