میں شرارتی تو نہیں ہوں۔
میری سمجھ میں بالکل نہیں آتا کہ مجھے شرارتی کیوں کہا جاتا ہے۔میں گھر میں ہمیشہ سب کے بھلے کی سوچتا ہوں،خودغرضی اور دوسروں کو دکھ پہنچانے سے نفرت کرتا ہوں۔
اب یہ ہی دیکھئے نا،میری باجی کی رنگ گورا کرنے والی کریم ختم ہوگئی،آج کل یہ کریم بڑی مشکل سے ملتی ہے،میں نے امی کی سنگھار میز سے صابن کی ٹکیا نکالی ،باورچی خانے سے کدوکش کیا اور اس سے صابن کو خوب رگڑآ ،میری کلائی بھی چھل گئی۔اب صابن کے چورے میں امی کی پرفیوم کی آدھی شیشی احتیاط سے انڈیلی،ننھے کے دودھ کا تھوڑا سا پاؤڈر ملایا اور سب چیزاں کو گرائینڈر میں ڈال کر خوب اچھی طرح پھیٹا۔اب تڑی مڑی ٹیوب کو پیچھے کی طرف کاٹا ،فٹ رول گھما گھما کر ٹیوب کے بل نکالے اور یہ گاڑھا گاڑھا پیسٹ ٹیوب میں بھردیا ۔میں نے ذرا سی اپنی بنائی ہوئی کریم اپنی کلائی پر لگائی۔اصل کریم سے بھی اچھی مہک تھی۔مجھے یقین تھا کہ باجی خوش ہوجائیں گی اور مجھے شاباش ملے گی
مگر رات کو تو قیامت ٹوٹ پڑی جب باجی نے ٹیوب لگانے کے لئے کھولی اور اس کا معائنہ کیا اور امی کو کہا ،یہ دیکھئے آپ کے صاحب زادے کے کرتوت۔ ۔قینچی خراب دی ،آپ کے قیمتی صابن کا ملیدہ بنادیا اور ضروراس میں آپ کی پرفیوم انڈیلی گئی ہے،امی نے اتنے زور سے کان مروڑے کے آنکھوں سے آنسو نکل آئے،ہم کونے میں منہ چھپا کر خوب روئے اور باجی نے سزا کے طور پر ہمارا فیورٹ شیمپو ہتھیالیا۔
"یہ باجی لوگ ہوتی ہی ایسی ہیں ،ہمیشہ چھوٹے بھائیوں کی چیزوں ہر برے نظر جمائے رکھتی ہیں"۔
اب کچھ ہی دنوں کی بات ہے ۔ہماری دادی کی طبیعت خراب ہوگئی وہ بلڈ پریشر کی مریضہ ہیں ،سوتے وقت انہوں نے ہمیں کہا ،بیٹآ ذرا دوائی دے دینا،ہم بھی اٹھے ہوئے تھے او ویسے بھی بڑوں کی بات کو کبھی ٹال ہی نہیں سکتے،دادی نے کہا یہ لوکیپسول اور اسے کاٹ کر میری زبان کے نیچے رکھنا ۔ہم نے سوچا نیچے کیوں؟ڈاکٹر شاید نیا ہے تو کیوں نہ دوائی کو زبان کے اوپر ڈالیں کیا پتہ زیادہ افاقہ ہو اور ہم نے کیپسول کاٹ کر جیسے ہی دادی کی زبان کے اوپر ڈالا،انھوں کے زور زور سے چلانا شروع کردیا ۔ہمیں تو کچھ سمجھ میں بھی نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں۔ابو ،امی ،باجی سب بھاگے بھاگےپہنچ گئے۔وہ خود پریشان ہو رہے تھے کہ آکر ہم نے ایسی کون سی نیکی کردی،خیر انہیںبتانےکے بعد دادی کو دو جگ پانے کے پلائے گئے تب کہیں جا کر دادی نارمل ہوئیں اور اس کے بعد جو ہمارا حال ہوا ہم نے بھلائی کرنے سے ہی توبہ کرلی کہ لوگ صحیح ہی کہتے ہیں کہ
بھلائی کرنے کا زمانہ ہی نہیں رہا"منہ بسورتے ہوئے"۔
اور سنئے ایک نیکی کی سزا تو اب تک بھگت رہی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابا جی کو چھوٹی چھوٹی رنگ برنگی مچھلیاں پالنے کا بہت شوق ہے،خود اپنے ہاتھوں سے ایک ایکیوریم بنایا،کئی قسم کی مچھلیاں جمع کیں۔مجھے ان کے نام یاد ہیں ۔گپی۔،مولی،اینجل فش ،ویگ فش،نیون فش وغیرہ وغیرہ۔سردی بڑھی تو ایک دن دیکھا کہ دو مچھلیاں الٹے کروٹ سے تیر رہی ہیں۔ اباجان کو بہت دکھ ہوا۔مردہ مچھلیوں کو نکال کر باغیچے میں دفن کیا۔ابو شام کو دفتر سے واپس آئے تو چارنئی مچھلیاں لے آئے۔اگلی صبح پھرمچھلیاں مر گئی،میں نے سوچا مچھلیوں میں نزلہ زکام پھیل گیا ہے۔دل تو بہت کیا کہ کچھ نہ کریں کیونکہ اپنے پچھلے ریکارڈ کو دیکھ کر ہم توبہ کر چکے تھے۔لیکن پھر سوچا اس میں ان ننھی منی مچھلیوں کا کیا قصور اور ہم نے اپنی عادت سے مجبور ہوکر ان کی بھلائی کرنے کی تھان لی۔کالج سے واپس آتے ہی ہم نے کھانسی کے شربت کے دو بڑے چمچ بھرے اور ایکیوریم میں ڈال دیے۔سورج غروب ہونے تک ایکیوریم کی ساری مچھلیاں الٹے کروٹ تیر رہی تھیں ۔اباجان نے دیکھا تو سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ایکیوریم کا پانی سونگھا۔اب میں آپ کو آگے کیا بتاؤں آپ خود ہی سمجھ جائیں۔
اس کے بعدتو ہم نے بھلائی کرنے سے ہی توبہ کرلی
آپ ہی بتائیں کہ یہ بڑے لوگ ہمارے بھلائی کے کاموں کو شرارت کیوں کہتے ہیں ؟