ملا عمر اور امن مذاكرات كی حمایت

  • Work-from-home

Shakil-A

Regular Member
Jun 6, 2011
140
28
1,128
تو دا ہول كنٹری آف دا سیستم یہ ہے كہ حسب معمول ، ملا عمر نے عید الفطر کی مناسبت پر ایک پیغام جاری كیا . مگر اس بار اس كی پیغام میں كچھ فرق آیا ہے یعنی ملا عمر نے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی حمایت کردی ہے اور كہا ہے کہ مذہبی اصولوں کے تناظر میں دشمنوں سے امن مذاکرات پر پابندی نہیں اور طالبان كی سیاسی کوششوں کا مقصد افغانستان میں غیر ملکی قبضے کو ختم کرنا اور وہاں اسلامی نظام لانا ہے . اس نے یہ بھی كہا كہ طالبان نے سیاسی امور کے لیے ’سیاسی دفتر‘ قائم کیا ہے جس کو سیاسی سرگرمیوں کی نگرانی کا کام سونپا گیا ہے اور تمام لوگوں کو یقین ہونا چاہیے کہ اس عمل میں وہ اپنے قانونی حق اور موقف سے دستبردار نہیں ہوں گے .

اب سؤال یہ ہے كہ اتنی سالوں كی بعد ، ملا عمر كے بہیجے میں اتنا عقل كہاں سے آیا كہ وہ امن مذاكرات كو خیر مقدم كہے اور افغانستان كو دن بہ دن جنگ لڑائی سے بچا دے . اس سؤال كا جواب ایك نام ہے جو ساڑے دنیا میں خوف اور ہراس پہلایا ہے ، «داعش» . اب جب داعش كا سایہ افغانستان پر پڑا ہے ، ملا عمر جانتا ہے كہ اگر یہ گروہ افغانستان میں گہوس گیا تو طالبان تو كیا ، ان كی نام بھی نہیں رہ جائیگا . مگر اچہی خبر تو یہ ہے كہ اگر امن مذاكرات كامیاب ہوے ، تو ساڑے منطقہ میں جنگبندی پہیل جائیگا اور اس سے فائدہ ہوگا افغان اور پاكستانی عوام كا جو اتنے سالوں كی لڑائی سے تہگ گئے ہیں . ایك اور فائدہ یہ ہوگا كہ اگر امن قائم ہوا تو ساڑے جنگجو گروہیں ختم ہو سكتے ہیں . تو چلیں ، امن مذاكرات كی كامیابی كے لئے ایك دعا كرتے ہیں
 
Top