78- بَاب الْمَشْيِ فِي النَّعْلِ بَيْنَ الْقُبُورِ
۷۸-باب: قبروں کے درمیان جو تا پہن کر چلنے کا بیان
3230- حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ بَكَّارٍ، حَدَّثَنَا الأَسْوَدُ بْنُ شَيْبَانَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ سُمَيْرٍ السَّدُوسِيِّ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ، عَنْ بَشِيرٍ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ -وَكَانَ اسْمُهُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ زَحْمَ بْنُ مَعْبَدٍ، فَهَاجَرَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: < مَا اسْمُكَ؟ > قَالَ: زَحْمٌ، قَالَ: < بَلْ أَنْتَ بَشِيرٌ >- قَالَ: بَيْنَمَا أَنَا أُمَاشِي رَسُولَ اللَّهِ ﷺ مَرَّ بِقُبُورِ الْمُشْرِكِينَ، فَقَالَ: < لَقَدْ سَبَقَ هَؤُلاءِ خَيْرًا كَثِيرًا > ثَلاثًا، ثُمَّ مَرَّ بِقُبُورِ الْمُسْلِمِينَ فَقَالَ: < لَقَدْ أَدْرَكَ هَؤُلاءِ خَيْرًا كَثِيرًا > وَحَانَتْ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ نَظْرَةٌ فَإِذَا رَجُلٌ يَمْشِي فِي الْقُبُورِ عَلَيْهِ نَعْلانِ فَقَالَ: < يَا صَاحِبَ السِّبْتِيَّتَيْنِ، وَيْحَكَ! أَلْقِ سِبْتِيَّتَيْكَ > فَنَظَرَ الرَّجُلُ، فَلَمَّا عَرَفَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ خَلَعَهُمَا فَرَمَى بِهِمَا۔
* تخريج: ن/الجنائز ۱۰۷ (۲۰۵۰)، ق/الجنائز ۴۶ (۱۵۶۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۱)، وقد أخرجہ: حم (۵/۸۳، ۸۴، ۲۲۴) (حسن)
۳۲۳۰- رسول اللہ ﷺ کے غلام بشیر رضی اللہ عنہ (جن کانام زمانہ جاہلیت میں زحم بن معبد تھاوہ ہجرت کر کے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو آپ ﷺ نے ان سے پوچھا :''تمہاراکیانام ہے؟''، انہوں نے کہا: زحم، آپ ﷺ نے فرمایا: ''زحم نہیں بلکہ تم بشیر ہو'') کہتے ہیں: اسی اثناء میں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جا رہا تھا کہ آپ کا گزر مشرکین کی قبروں پرسے ہوا، آپ ﷺ نے تین با ر فرمایا: ''یہ لو گ خیر کثیر (دین اسلام) سے پہلے گزر (مر) گئے''، پھر آپ ﷺ مسلمانوں کی قبروں پر سے گزرے تو آپ نے فرمایا:'' ان لوگوں نے خیر کثیر (بہت زیادہ بھلائی) حاصل کی ''، اچانک آپ ﷺ کی نظر ایک ایسے شخص پر پڑی جو جوتے پہنے قبروں کے درمیان چل رہا تھا آپ ﷺ نے فرمایا: '' اے جو تیوں والے !تجھ پر افسوس ہے، اپنی جو تیاں اتا ر دے''،اس آدمی نے (نظر اٹھا کر) دیکھا اور رسول اللہ ﷺ کو پہچانتے ہی انہیں اتار پھینکا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : غالباً یہ ہدایت جو تیوں میں نجاست لگی رہنے کی وجہ سے ہو گی کیوں کہ جوتیاں پہن کر قبروں کے درمیان سے گزرنے کے جواز پر اگلی حدیث دلالت کررہی ہے ۔
۷۸-باب: قبروں کے درمیان جو تا پہن کر چلنے کا بیان
3230- حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ بَكَّارٍ، حَدَّثَنَا الأَسْوَدُ بْنُ شَيْبَانَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ سُمَيْرٍ السَّدُوسِيِّ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ، عَنْ بَشِيرٍ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ -وَكَانَ اسْمُهُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ زَحْمَ بْنُ مَعْبَدٍ، فَهَاجَرَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: < مَا اسْمُكَ؟ > قَالَ: زَحْمٌ، قَالَ: < بَلْ أَنْتَ بَشِيرٌ >- قَالَ: بَيْنَمَا أَنَا أُمَاشِي رَسُولَ اللَّهِ ﷺ مَرَّ بِقُبُورِ الْمُشْرِكِينَ، فَقَالَ: < لَقَدْ سَبَقَ هَؤُلاءِ خَيْرًا كَثِيرًا > ثَلاثًا، ثُمَّ مَرَّ بِقُبُورِ الْمُسْلِمِينَ فَقَالَ: < لَقَدْ أَدْرَكَ هَؤُلاءِ خَيْرًا كَثِيرًا > وَحَانَتْ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ نَظْرَةٌ فَإِذَا رَجُلٌ يَمْشِي فِي الْقُبُورِ عَلَيْهِ نَعْلانِ فَقَالَ: < يَا صَاحِبَ السِّبْتِيَّتَيْنِ، وَيْحَكَ! أَلْقِ سِبْتِيَّتَيْكَ > فَنَظَرَ الرَّجُلُ، فَلَمَّا عَرَفَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ خَلَعَهُمَا فَرَمَى بِهِمَا۔
* تخريج: ن/الجنائز ۱۰۷ (۲۰۵۰)، ق/الجنائز ۴۶ (۱۵۶۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۱)، وقد أخرجہ: حم (۵/۸۳، ۸۴، ۲۲۴) (حسن)
۳۲۳۰- رسول اللہ ﷺ کے غلام بشیر رضی اللہ عنہ (جن کانام زمانہ جاہلیت میں زحم بن معبد تھاوہ ہجرت کر کے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو آپ ﷺ نے ان سے پوچھا :''تمہاراکیانام ہے؟''، انہوں نے کہا: زحم، آپ ﷺ نے فرمایا: ''زحم نہیں بلکہ تم بشیر ہو'') کہتے ہیں: اسی اثناء میں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جا رہا تھا کہ آپ کا گزر مشرکین کی قبروں پرسے ہوا، آپ ﷺ نے تین با ر فرمایا: ''یہ لو گ خیر کثیر (دین اسلام) سے پہلے گزر (مر) گئے''، پھر آپ ﷺ مسلمانوں کی قبروں پر سے گزرے تو آپ نے فرمایا:'' ان لوگوں نے خیر کثیر (بہت زیادہ بھلائی) حاصل کی ''، اچانک آپ ﷺ کی نظر ایک ایسے شخص پر پڑی جو جوتے پہنے قبروں کے درمیان چل رہا تھا آپ ﷺ نے فرمایا: '' اے جو تیوں والے !تجھ پر افسوس ہے، اپنی جو تیاں اتا ر دے''،اس آدمی نے (نظر اٹھا کر) دیکھا اور رسول اللہ ﷺ کو پہچانتے ہی انہیں اتار پھینکا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : غالباً یہ ہدایت جو تیوں میں نجاست لگی رہنے کی وجہ سے ہو گی کیوں کہ جوتیاں پہن کر قبروں کے درمیان سے گزرنے کے جواز پر اگلی حدیث دلالت کررہی ہے ۔