شہادت سیدنا حمزہؓ امام بخاری ؒ کی نظر میں

  • Work-from-home

Qalandar

Active Member
Aug 8, 2011
323
477
63
37
شہادت سیدنا حمزہؓ امام بخاری ؒ کی نظر میں

شہادت سیدنا حمزہؓ رضی اللہ عنہ
امام بخاری کی نظر میں

سب صحابہ سے عیاں ہے رنگ وبوئے مصطفی
برگ گل میں جس طرح سے بوئے گل پوشیدہ
اس نے کہا #
میں ایک چٹان کے پیچھے ”حمزہ“ کی گھات میں چھپا ہوا تھا‘وہ میرے قریب سے گزرے تو میں نے اپنا حربہ ان پر پھینکا‘ جو ان کی ناف میں لگ کر پشت سے باہر نکل گیا“۔ (صحیح بخاری)
یہ بات حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قاتل وحشی نے عم النبی سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کی تفصیل پوچھنے پر عبید اللہ بن عدی بن خیار کو خود بتائی۔
سیدنا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ جناب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا بھی تھے‘ مادری رشتے سے خالہ زاد (والدہ سیدہ آمنہ کی چچازاد بہن ہالہ بنت اُہیب کے بیٹے) ایک روایت کے مطابق رضائی بھائی بھی تھے‘ عمر میں صرف چھ ماہ بڑے تھے ‘نہایت بہادر اور شجاع‘ ایک بار جب ابوجہل نے نبی پاک ا کے ساتھ دست درازی کی تو یہی اللہ کا شیر ابو جہل پر نہایت جرأت سے حملہ آور ہوا تھا اور اپنی کمان سے اسے لہو لہان کردیا تھا‘ پھر اسے سنا کر اعلان کردیا تھا کہ لے میں بھی کلمہ پڑھتا ہوں ”لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ“ سابقون الاولون میں سے تھے۔ ہم عمر بھی تھے‘ نبی پاک ا اور سیدنا حمزہرضی اللہ عنہ کو ایک دوسرے کے ساتھ نہایت پیار اور انس تھا۔
غزوہٴ بدر میں قریش مشرکین کے خلاف سب سے پہلے نکل کر داد شجاعت دے رہے تھے‘ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبیدہ بن حارث بن مطلب بن عبد مناف پہلی مبارزت پر نکلے تھے‘ سیدنا عبیدہ رضی اللہ عنہ ضعیف عمر تھے‘ مقابل کو خوب ضربیں لگائیں‘ تاہم خود بھی زخمی ہوئے۔انہی زخموں میں جام شہادت نوش کیا‘ تینوں مشرکین عتبہ‘ شیبہ اور ولید کو ان غازیوں نے جہنم رسید کیا تھا۔ بدر کے ستر مقتولین قریش میں سے تقریباًہر شخص اپنے قبیلے کا سردار یا سردار زادہ تھا‘ یہی انتقامی جذبات اسلام دشمنی کے علاوہ مشرکین مکہ کو احد کی لڑائی میں لانے کا سبب بنے تھے۔ بنی ہاشم یعنی خاندان نبوت کی رشتے داریاں تمام قبائل قریش کے ساتھ تھیں‘ مگر بنی مناف کی دوسری شاخ یعنی بنی عبد شمس کے ساتھ تو خصوصی تعلقات تھے‘ مثلاً چار میں سے تین بیٹیوں کا نکاح نبی پاک ا نے بنی امیہ ہی میں کیا تھا‘ خود اپنا نکاح مدینہ سے حبشہ پیغام بھیج کر نجاشی بادشاہ (جو مسلمان ہوچکا تھا) کے ذریعے سیدہ رملہ بنت ابی سفیان سے کیا تھا ،سابقون اولون میں سے سیدنا عثمان ذی النورین سیدنا ابو حذیفہ‘ سیدنا خالد بن ابی العاص اور سیدنا سعید بن ابی العاص کے علاوہ سیدہ رملہ ام حبیبہ شامل تھیں‘ جبکہ بلاتقابل بنی ہاشم میں سے سیدنا حمزہاور سیدنا علی ہی داخل اسلام ہوئے تھے‘ بنی مخزوم میں سے سیدنا ارقم بن ابی ارقم اور بنی عدی میں سے سیدنا سعید بن زید اور سیدنا عمر فاروق ایمان لائے تھے‘ بنی تیم میں سے سیدنا عبد اللہ کا تو نام ہی ابوبکر اسی لئے پڑا کہ اس کا معنی ہے (اسلام کا) سب سے پہلا پھل۔
غزوہٴ احد کفار مکہ کے جس انتقامی جذبے کے تحت وقوع پذیر ہوا، اس میں بڑے بڑے قریشی سردار اپنی بیبیوں کو بھی میدان جنگ میں ساتھ لے گئے تھے‘ چنانچہ عکرمہ بن ابی جہل کے ساتھ ام حکیم بنت حارث بن ہشام‘ حارث بن ہشام کے ساتھ فاطمہ بنت ولید بن مغیرہ‘ اسی طرح بہت سی عورتوں کا ذکر سیرة وتاریخ کی کتابوں میں موجود ہے۔ مذکورہ بالا عورتوں کا تعلق ابوجہل کے خاندان بنی مخزوم کے ساتھ ہے‘ سیدنا ابوسفیان کے ساتھ ان کی اہلیہ سیدہ ہند بنت عتبہ ‘ صفوان بن امیہ بن خلف کے ساتھ ان کی اہلیہ برزہ‘ عمرو بن عاص کے ساتھ بریطہ بنت منبہ بن الحجاج اور اسی طرح برہ بنت مسعود‘ سلافہ بنت سعد‘ خناس بنت مالک اور عمرہ بنت علقمہ میدان احد میں موجود تھیں‘ یہ آٹھ عورتیں تو سرداران قریش کے ہمراہ تھیں‘ ان کے علاوہ اور بھی تھیں ۔ عرب میں مثلہ کا عام رواج تھا اور یہ اپنی فتح کی دھاک بٹھانے کا ایک نشان سمجھا جاتا تھا ۔ غزوہٴ احد میں کسی حد تک فتح پانے پر مخالفین اسلام کے سربراہ ابوسفیان جو ابھی داخل اسلام نہ ہوئے تھے، انہوں نے اعلان کردیا تھا: ”ہمارے کچھ لوگوں نے مثلہ کیا ہے‘ میں نے نہ اس کا حکم دیا ہے ،نہ ہی میں اسے برا سمجھتا ہوں“۔ (صحیح بخاری ‘ ج:۲)
جبیر بن مطعم کا وحشی نام کا ایک حبشی غلام تھا‘ جو نیزہ پھینکنے میں ماہر تھا ،اس جبیر بن مطعم کا چچا غزوہٴ بدر میں سیدنا حمزہ کے ہاتھوں مارا گیا تھا‘ اس نے وحشی سے کہا کہ: اگر وہ حمزہ بن عبد المطلب کو قتل کردے تو وہ آزاد ہے ۔ (سیرة النبی از علامہ شبلی نعمانی) اسلم جیراجپوری نے بھی وحشی کو جبیر بن مطعم کا غلام لکھا ہے‘ جس کا سیدنا ابوسفیان یا ان کی اہلیہ سے کسی قسم کا تعلق نہیں تھا‘ آقا نے ہی اپنے چچا کے بدلے اسے آزادی کا وعدہ دیا تھا، مذکورہ بالا آٹھ خواتین کے علاوہ بھی بہت ساری عورتیں جنگ میں موجود رجزیہ اشعار پڑھتی نظر آتی ہیں اور بخاری شریف میں مذکورہ بالا اعلان جو سیدنا ابوسفیان نے کیا تھا‘ مثلہ کرنے میں گویا مرد بھی شریک تھے‘ حاضرین احد میں سے سیدنا عکرمہ‘ سیدنا خالد‘ حارث بن ہشام (برادر ابو جہل) عمرو بن العاص‘ صفوان بن امیہ‘ ابوسفیان بن حرب‘ ابوسفیان بن حارث بن عبد المطلب اور وحشی قاتل سیدنا حمزہ) کے علاوہ سیدہ ام حکیم بنت حارث بن ہشام‘ سیدہ فاطمہ بنت ولید بن مغیرہ اور سیدہ ہند بنت عتبہ زوجہ ابی سفیان مرد وخواتین بعد میں مشرف بہ اسلام ہوکر اصحاب رسول کی مقدس صف میں شامل ہوئے۔ یہ سارے کے سارے میدان احد میں مخالف اسلام کیمپ میں چشم دید گواہ ہیں۔ اس موقع پر اصحاب رسول جو موجود تھے اور پریشانی کے عالم میں رسول پاک کے لئے اور خود اپنے لئے محفوظ جگہ اور جنگی حکمت عملی کے تحت پہاڑ کی چوٹی کی طرف بڑھ رہے تھے‘ ان اپنوں اور اس وقت کے دشمن کیمپ کے چشم دید گواہان میں سے کسی کو معلوم نہیں کہ سیدنا حمزہ ودیگر بعض شہداء کامثلہ کس نے کیا۔ جبیر بن مطعم نے وحشی سے آزادی دینے کا وعدہ اور اس نے کار گزاری دکھائی‘ اس کا ر گرازی کا ذکر خود اس کی زبانی بخاری شریف میں موجود ہے جو اولین سطور میں عرض کر دیا۔ موقع کے گواہوں‘ اپنے پرایوں میں سے کوئی سیدہ ہند کا نام نہیں لیتا‘ ابن اسحاق جو ائمہ حدیث کے نزدیک کذاب‘ مدلس‘ مجوسی شیعہ اور منکر تقدیر الٰہی ہے‘ اسے ایک راوی صالح بن کیسان ملا ہے جو اپنی پیدائش سے ستر سال پہلے کی بات بیان کرتا ہے کہ سیدہ ہند نے وحشی کو انعام دینے اور آزادی دینے کا لالچ دے کر سیدنا حمزہ کو شہید کرنے کا ٹارگٹ دیا (جبکہ وہ اس کا غلام نہیں تھا تو آزاد کرنے کا کیا سوال؟) پھر صالح بن کیسان ان سے اوپر یہ روایت منقطع ہے اور دیگر تمام راوی ایرانی مجوسی ہیں‘ محدثین کے نزدیک ناقابل اعتبار۔ ۷۰ھ سے پہلے اس کہانی سے کوئی واقف نہ تھا‘ بس ایک مجوسی سے دوسرے مجوسی کو سینہ گزٹ کہانی پہنچی‘ ممکن ہے ابن اسحاق نے یہ کہانی خود گھڑ کر صالح بن کیسان سے منسوب کردی ہو۔ بخاری شریف میں خود سیدنا وحشی نے جو واقعہ بیان کیا ہے ،اس میں بھی سیدہ ہند کا کوئی ذکر نہیں کیا‘ بخاری جلد دوم میں ہے کہ : ”حضرت حمزہ نے بدر میں طعیمہ بن عدی بن الخیار کو قتل کردیا تھا‘ میرے آقا جبیر بن مطعم نے مجھ سے کہا اگر تو حمزہ کو قتل کردے تو آزاد ہے“۔ (صحیح بخاری )
وحشی کہتے ہیں : ”جب مکہ مکرمہ فتح ہوگیا تو میں طائف چلا گیا، پھر طائف سے جب قافلے اور وفود نبی پاک کی خدمت میں جارہے تھے‘ لوگوں نے کہا کہ آنحضور اقاصدوں سے تعرض نہیں فرماتے‘ چنانچہ میں بھی قاصدوں کے ساتھ ہوکر مدینہ روانہ ہوا“۔نبی پاک ا نے مجھے دیکھا تو فرمایا: ”تو وحشی ہے؟“ عرض کیا ”جی ہاں“ پوچھا ”کیا تم نے حمزہ کو قتل کیا تھا“؟ عرض کیاجو خبر آپ کوپہنچی ہے‘ درست ہے“ فرمایا: کیا تم اپنے چہرے کو مجھ سے چھپا سکتے ہو (میرے سامنے نہ آیا کرو)“ پھر میں وہاں سے چلا آیا‘ یہ واقعہ وحشی نے اپنی زبانی بدر کے مقتول طعیمہ بن عدی کے بھائی عبید اللہ بن عدی کو سنایا۔ وحشی نے اپنے اقبال جرم کے سوا اس واقعہ میں سیدہ ہند کے کسی کردار کا ذکر نہیں کیا۔ یہ تو بخاری کی روایت ہے۔ ابن اسحاق نے سیدہ ہند کی طرف سے آزادی دینے کا ذکر کیا ہے‘ اس کے علاوہ اگر سیدہ ہند نے اپنا ہار اتار کر بطور انعام وحشی کو دیا تھا‘ اس انعام کا ذکر کرنے میں حضرت وحشی  کو کیا چیز مانع تھی؟
سید الشہداء حضرت حمزہ کے شہید کرنے میں تین افراد شریک جرم بتائے گئے ۔ جبیر بن مطعم نے آزادی کا لالچ دیا‘ وحشی نے شہید کیا ‘ جبیر بن مطعم کو معاف کردیا گیا‘ وحشی کو بھی معاف کرکے سامنے نہ آنے کا حکم دیا گیا‘ ہند بنت عتبہ کا جرم قتل سے بھی سنگین ترتھا‘ شہید کی لاش کا مثلہ کرنا‘ کلیجہ نکال کر چبانا‘ اگر ان سے یہ جرم سرزد ہوا جس پر روایتی طور پر بحث ہوچکی کہ ستر سال کے بعد ابن اسحاق نے صالح بن کیسان کے نام سے ایک منقطع روایت پیش کی تو اس مجرم سے بھی اظہار نفرت ہونا چاہئے تھا ‘وحشی کو سامنے آنے سے منع کرنا اور مکہ مکرمہ میں فاتحانہ داخلہ کے موقع پر کئی مجرموں کے قتل کا حکم جاری فرمانا اور عملاً کعبہ کے پردوں سے چمٹے ہونے کے باوجود حرم کعبہ میں ان کا قتل کردیا جانا جبکہ محبوب عم محترم کے مقدس جسد کا مثلہ کرنے والی کے گھر کو ”من دخل دار ابی سفیان فہو اٰمن“ دار ابی سفیان کو مثل حرم جائے پناہ چہ معنی دارد؟ مزید برآں فتح مکہ کے بعد نبی مکرم کے دست مقدس پر بیعت کرنے کے بعد سیدہ ہندہ کا عرض کرنا کہ :
یا رسول اللہ! آج سے پہلے روئے زمین پر آپ سے زیادہ مجھے مبغوض کوئی نہ تھا اور آج آپ سے زیادہ محبوب کوئی نہیں“ یہ تو الفاظ تھے سیدہ ہندہ کے۔ جواب میں نبی الانبیاء علیہم السلام نے کیا فرمایا ِ؟دیکھئے بخاری جلد اول ص:۵۳۹ ”وایضاً والذی نفسی بیدہ“ اس ذات کی قسم جن کے قبضہ میں میری جان ہے، میرا بھی یہی حال ہے (یعنی سیدہ ہندہ کی عزت وحرمت محبوب ہے) عام محبت نہیں بلکہ ایسی شدید محبت کہ نبی دوعالم اقسم کھا کر اس کا ذکر فرمارہے ہیں‘ یہ نہیں فرمایا: ”تو نے میرے محبوب چچا کا کلیجہ چبایا ہے‘ میرے سامنے نہ آیا کر ۔ بس تیرا اسلام قبول ہے“ یہ نہیں فرمایا‘ بلکہ قسم کھاکر محبت کا اظہار فرمایا۔ ام المؤمنین کی ماں بھی تھیں ناں‘ فتح مکہ کے بعد بہت لوگ ایمان لائے جن میں نبی ہاشمی ا کے بہت قریبی عزیز بھی تھے مثلاً عقیل بن ابی طالب‘ ام ہانی بنت ابی طالب‘ ابوسفیان بن حارث بن عبد المطلب‘ عتبہ بن ابی لہب‘ متعب بن ابی لہب ۔ یہ پانچوں نبی اکرم ا کے چچازاد تھے اور ان کے علاوہ دوسرے کئی لوگ مثلاً سیدہ ام حکیم‘ سیدنا عکرمہ بن ابی جہل اور دوسرے مگر محبت وعقیدت سے بھر پور وہ الفاظ ”وایضا والذی نفسی بیدہ“ کسی اور ذکر وانثی کو نصیب نہ ہوسکے۔ امام بخاری نے یہاں عنوان قائم کیا ہے: ”باب فضل ہند بنت عتبہ“ اورشاعر صحابہ انجم نیازی نے خوشدامن رسول‘ ام ام المؤمنین کو یوں خراج عقیدت پیش کیا ہے:
دیے اسلام کو دو نامور اس نے جگر گوشے ہے اس امت کے ہر اک فرد پر شکوہ حرام اس کا
بہت سادہ تھا لہجہ بات کرنے کا مگر پھر بھی
 
  • Like
Reactions: Tooba Khan
Top