!!!سلگائی جو دیا سلائی تو میری کُٹ اُس نے لگائی۔۔۔۔۔۔
نام تو اُن کا بنتِ سلیمہ تھا لیکن محلے بھرمیں مشہور وہ آپا بنتِ کے نام سے تھیں اور بچوں کی خالہ بنتِ۔بڑی ہی سخت مزاج خاتون تھیں۔ایسی کڑک دار آواز میں بات کرتیں کہ جیسے الفاظ کو کلف لگا رکھا ہو۔صوم و صلوٰۃ کی پابند ایسی کہ اگر اُن کا بس چلتا تو پورے محلے کو ڈنڈے مار مار کر راہِ راست پر لے آتیں۔اصول پسند اور حق کہنے والی،ہاں مگر کسی کے ذاتی معاملات میں بے جا مداخلت کرنا ہرگز بھی پسند نہیں کرتی تھیں۔پورے محلے میں بس ایک ہی پابندی عائد کر رکھی تھی،سگریٹ نوشی پر۔محلے کا کوئی بوڑھا ،جوان مجال ہے کہ سگریٹ سلگا لے،پینا تو دور کی بات ہے۔۔۔
محلے بھر میں کسی کو دم نہیں بھرنے دیتی تھیں اور اگر کوئی کبھی بھولے سے یہ نادانی کرنے کی گستاخی کرتاتو اپنے ہی ہاتھوں مونسپلٹی کے ہسپتا ل میں کئی ہفتوں کے لئے بستر اپنے نام لکھواتا۔
محلے کی ساز گار فضا میں اچانک ایک نووارد کا نزول ہوا۔موصوف اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ شہر کے کسی دوسرے حصے سے یہاں منتقل ہوئے تھے کیونکہ کرائے دار بھی خانہ بدوش ہوتے ہیں اور اُن کے نصیب میں بھی آج یہاں ،کل وہاں در در کی خاک چھاننا ہی لکھا ہوتا ہے۔
محترم نے آ تے ہی گھر کے صدر دروازے پر اپنے نام لالہ اُفق علی خٹک کی تختی آویزاں کی ۔یوں اہلِ محلہ نے جناب کے نامِ نامی اسمِ گرامی سے بخوبی واقفیت حاصل کی۔گھر میں بہت زیادہ افراد نہیں تھے۔بس لالہ افق علی اور اُن کے بڑے بھائی تھے،جن میں سے بڑے بھائی کے اہل و عیال موجود تھے جبکہ خود موصوف تاحال آزادی کی سانسیں بڑے ہی اطمینان سے نہ صرف بھر رہے تھے بلکہ کھا پی بھی رہے تھے ،سکھ کی روٹی اور چین کا شربت۔
محلے کے شرارتی بچوں نے مل کر محترم کا نام لالہ فق خَٹ کُندہ رکھ دیا،کیونکہ دِکھتے بھی کچھ فق سے تأثرات کے ساتھ ہی تھے۔نووارد ہونے کی وجہ سے موصوف اہلِ محلہ خصوصاََ خالہ بنتِ اور اُن کی پابند ئِ سگریٹ نوشی سے اور اہلیانِ محلہ موصوف کی عادات و اطوار سے قطعی ناواقف تھے۔۔۔
ایک انتہائی سہانی شام تھی ۔بچے کھیل رہے تھے،مرد ملکی حالات پر لا حاصل تبصروں اور تذکروں میں اورنوجوان اپنی خوش گپیوں میں مصروف تھے ۔خواتین پردوں کی اوٹ سے جھانک کرایک دوسرے سے مہنگائی اور گھریلو اخراجات کا رونا رو رہی تھیں۔پرندے چہچہا رہے تھے۔ٹھنڈی ہوائیں گنگنا رہی تھیں۔ہر طرف سکون ہی سکون پھیلا ہواتھا کہ اچانک فضا ء میں ایک زور دار چیخ بلند ہوئی۔
سب نے سہم کر آواز کی سمت جانچی اور ماجرا جاننے کی کوشش کی۔معلوم ہوا خالہ بنتِ بھرپور ایکشن میں ہیں اور ان کے ایکشن کے ری ایکشن کی زد پر ہیں لالہ فق خَٹ کُندہ۔
اِس سے پہلے کہ کوئی آگے بڑھ کر لالہ فق کی مدد کو پہنچتا خالہ بنتِ نے لالہ کے دونوں ہاتھوں کو پکڑ کر انھیں ایک گول چکر کھلایا،پھر اپنے آگے دو زانو جھکا کر گھٹنے کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے لالہ کے پیٹ میں ایک جڑاؤ گھٹنا عطا کیا۔اُس کے بعد لالہ فق کو اٹھا کر اِس زور سے
ہمسایوں کے چبوترے پر پٹخا کہ موصوف کے اٹھائیس طبق روشن ہوگئے۔ساتھ ہی چبوترے پر موجود گرد وغبار کا صفایا تو ہوا ہی وہاں موجود سینکڑوں چیوٹیاں بھی دارِ فانی کوچ کرگئیں۔۔۔
اب منظر کچھ یوں تھا کہ لالہ فق چبوترے پر چت پڑے تھے اور اُن کا دایاں ہاتھ خالہ بنتِ کی مضبوط اور آہنی گرفت میں تھا۔خالہ نے آؤ دیکھا نہ تاؤلگاتار تھپڑ ،گھونسے ،مکے ،لاتیں سب لالہ کو جڑنے شروع کردیئے ۔کوئی گھونسا منہ پر پڑا،کوئی لات ماتھے پر،کسی نے کمر کو سلامی دی تو کوئی گردن اور پھیپھڑوں کی خدمت میں آداب بجا لائی۔اِ س سے پہلے کہ لالہ سنبھلتے خالہ بنتِ نے انھیں لٹو کی طرح گول گھمایاْ ؑ اور کمر پر ایک پینلٹی اسٹروک دھری۔جس کے سبب لالہ فق گھمن گھیریاں کھاتے ہوئے سیدھے شبو کے ابا کے ریڑھے کے گندے غلیظ پہییوں کے ساتھ سجدہ ریز ہوگئے۔۔۔
شبوکے ابا جو پہلے دن ہی سے لالہ فق کو اپنا داماد بنانے کے چکروں میں تھے،یوں سرِعام اپنے ہونے والے داماد کی دُرگت بنتے دیکھ کر لپک کر مدد کوآئے۔لیکن خالہ بنتِ ٹھہریں جیکی چین کی نانی،شبو کے ابا کے پلپلے پیٹ پر دو فلائنگ ککس رسید کیں،جس سے وہ آٹے کی بوری کی طرح سڑک کے عین بیچوں بیچ کچھ یوں ڈھیر ہوگئے کہ جیسے اب کے اٹھے تو اٹھ ہی جائیں گے۔شبو کے ابا کا حال دیکھ کر اہلِ محلہ کے مدد کو بڑھتے قدم جہاں کے تہاں جم گئے۔۔۔
اِس دھلائی پریڈ کے بعد لالہ فق کا حال انتہائی سنگین اور احوال بگڑم بگڑائی کا اعلیٰ شاہکار بن چکا تھا۔ماتھے پر دائیں جانب ایک وسیع و عریض گھومڑ نکل آیا تھا جس کی سرخی سے یوں لگتا تھا کہ اب لال رنگ کا ڈبا کھلا کہ تب کھلا ۔بائیں جانب نیل کا نشان بھی سانولے ماتھے کی رونق بڑھا رہا تھا۔چہرے اور ہاتھوں پر جا بجا خراشیں موجود تھیں۔کپڑے گرد اور بال شبو کے ابا کے ریڑھے کی مرہونِ منت کیچڑ آلود ہوچکے تھے۔ایک آستین کف سے آدھی اُدھڑ چکی تھی اور کسی ناقدرے کی چھت پر پورے سال لہراتے رہنے کے بعد باقی ماندہ پرچم کی صورت لہلہا رہی تھی،لیکن شاباش ہے لالہ فق کی سگریٹ سے محبت کوجو اب تک ٹوٹی ہوئی حالت ہی میں سہی ،ہونٹوں تلے بے حد احترام سے دبی ہوئی تھی۔۔۔
چند لمحے میسر آنے پر لالہ فق اپنے گھومتے سر کو دونوں ہاتھوں سے تھامتے ہوئے شبو کے ابا کے اس ریڑھے کو سہارا بنا کر کھڑے ہو نے کی کوشش کے متعلق سوچ ہی رہے تھے ،جو خود اگر رسیوں اور کترنوں سے باندھا نہ گیا ہوتا تو بڑا ہی بے سہارا ہوکر اپنے کل پرزہ جات سارے جہاں میں دان کر چکا ہوتاکہ خالہ بنتِ نے عقاب کی طرح جھپٹ کر انھیں گردن سے اِس زور سے دبوچا کہ دوچار مہروں کے کڑکنے کی آواز سنائی دی اور اپنی گرج دار آواز کا جادو جگاتی ہوئی گویا ہوئیں’’ آج تو سگریٹ منہ میں رکھ کر دیا سلائی سلگا لی ہے اگر آئندہ اِس محلے میں سگریٹ لے کر داخل بھی ہوئے تو برا حشر کرونگی۔۔۔‘‘
اتنا فرمان جاری کر کے لالہ کو اپنی آہنی گرفت سے آزاد کیا اور لیفٹ رائٹ کرتی اپنے کاشانۂِ عالیہ میں قدم رنجہ فرما گئیں جبکہ لالہ فق وہیں کسی سوکھے تنکے کی طرح ڈھیر ہوگئے ،جنھیں اہلِ محلہ نے اٹھا کر ہسپتال منتقل کیا۔۔۔
اب سنا ہے کہ ایک ہفتہ ہسپتا ل میں زیرِ علاج رہنے کے بعد لالہ فق اپنے لئے نیا مکان ڈھونڈ رہے ہیں۔کیونکہ موصوف سگریٹ نوشی ہی
اب منظر کچھ یوں تھا کہ لالہ فق چبوترے پر چت پڑے تھے اور اُن کا دایاں ہاتھ خالہ بنتِ کی مضبوط اور آہنی گرفت میں تھا۔خالہ نے آؤ دیکھا نہ تاؤلگاتار تھپڑ ،گھونسے ،مکے ،لاتیں سب لالہ کو جڑنے شروع کردیئے ۔کوئی گھونسا منہ پر پڑا،کوئی لات ماتھے پر،کسی نے کمر کو سلامی دی تو کوئی گردن اور پھیپھڑوں کی خدمت میں آداب بجا لائی۔اِ س سے پہلے کہ لالہ سنبھلتے خالہ بنتِ نے انھیں لٹو کی طرح گول گھمایاْ ؑ اور کمر پر ایک پینلٹی اسٹروک دھری۔جس کے سبب لالہ فق گھمن گھیریاں کھاتے ہوئے سیدھے شبو کے ابا کے ریڑھے کے گندے غلیظ پہییوں کے ساتھ سجدہ ریز ہوگئے۔۔۔
شبوکے ابا جو پہلے دن ہی سے لالہ فق کو اپنا داماد بنانے کے چکروں میں تھے،یوں سرِعام اپنے ہونے والے داماد کی دُرگت بنتے دیکھ کر لپک کر مدد کوآئے۔لیکن خالہ بنتِ ٹھہریں جیکی چین کی نانی،شبو کے ابا کے پلپلے پیٹ پر دو فلائنگ ککس رسید کیں،جس سے وہ آٹے کی بوری کی طرح سڑک کے عین بیچوں بیچ کچھ یوں ڈھیر ہوگئے کہ جیسے اب کے اٹھے تو اٹھ ہی جائیں گے۔شبو کے ابا کا حال دیکھ کر اہلِ محلہ کے مدد کو بڑھتے قدم جہاں کے تہاں جم گئے۔۔۔
اِس دھلائی پریڈ کے بعد لالہ فق کا حال انتہائی سنگین اور احوال بگڑم بگڑائی کا اعلیٰ شاہکار بن چکا تھا۔ماتھے پر دائیں جانب ایک وسیع و عریض گھومڑ نکل آیا تھا جس کی سرخی سے یوں لگتا تھا کہ اب لال رنگ کا ڈبا کھلا کہ تب کھلا ۔بائیں جانب نیل کا نشان بھی سانولے ماتھے کی رونق بڑھا رہا تھا۔چہرے اور ہاتھوں پر جا بجا خراشیں موجود تھیں۔کپڑے گرد اور بال شبو کے ابا کے ریڑھے کی مرہونِ منت کیچڑ آلود ہوچکے تھے۔ایک آستین کف سے آدھی اُدھڑ چکی تھی اور کسی ناقدرے کی چھت پر پورے سال لہراتے رہنے کے بعد باقی ماندہ پرچم کی صورت لہلہا رہی تھی،لیکن شاباش ہے لالہ فق کی سگریٹ سے محبت کوجو اب تک ٹوٹی ہوئی حالت ہی میں سہی ،ہونٹوں تلے بے حد احترام سے دبی ہوئی تھی۔۔۔
چند لمحے میسر آنے پر لالہ فق اپنے گھومتے سر کو دونوں ہاتھوں سے تھامتے ہوئے شبو کے ابا کے اس ریڑھے کو سہارا بنا کر کھڑے ہو نے کی کوشش کے متعلق سوچ ہی رہے تھے ،جو خود اگر رسیوں اور کترنوں سے باندھا نہ گیا ہوتا تو بڑا ہی بے سہارا ہوکر اپنے کل پرزہ جات سارے جہاں میں دان کر چکا ہوتاکہ خالہ بنتِ نے عقاب کی طرح جھپٹ کر انھیں گردن سے اِس زور سے دبوچا کہ دوچار مہروں کے کڑکنے کی آواز سنائی دی اور اپنی گرج دار آواز کا جادو جگاتی ہوئی گویا ہوئیں’’ آج تو سگریٹ منہ میں رکھ کر دیا سلائی سلگا لی ہے اگر آئندہ اِس محلے میں سگریٹ لے کر داخل بھی ہوئے تو برا حشر کرونگی۔۔۔‘‘
اتنا فرمان جاری کر کے لالہ کو اپنی آہنی گرفت سے آزاد کیا اور لیفٹ رائٹ کرتی اپنے کاشانۂِ عالیہ میں قدم رنجہ فرما گئیں جبکہ لالہ فق وہیں کسی سوکھے تنکے کی طرح ڈھیر ہوگئے ،جنھیں اہلِ محلہ نے اٹھا کر ہسپتال منتقل کیا۔۔۔
اب سنا ہے کہ ایک ہفتہ ہسپتا ل میں زیرِ علاج رہنے کے بعد لالہ فق اپنے لئے نیا مکان ڈھونڈ رہے ہیں۔کیونکہ موصوف سگریٹ نوشی ہی
ترک کرسکتے ہیں اور نہ ہی خالہ بنتِ کے ہاتھوں مزید کھاسکتے ہیں ،ٹھڈے اور لاتیں کہ چھٹتی نہیں ہے یہ سگریٹ منہ کو لگی ہوئی۔منہ سے گری تو اُس وقت بھی نہیں تھی جب خالہ کے ہاتھوں دُرگت بن رہی تھی ،سو ایک بار پھر رختِ سفر باندھنے کی تیاریوں میں ہیں کہ
ہیں اور بھی دنیا میں محلے بہت اچھے
!!!!جہاں ہے سگریٹ نوشی کا مزہ ہی کچھ اور۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مامن مرزا