ساؤ کے آدم خور
میری زندگی کے ناقابلِ فراموش لمحات وہی ہیں جو میں نے ساؤ کے علاقے میں بسر کیے۔ وہ زمانہ آج بھی مجھے یوں یاد ہے، جیسے کل ہی کی بات ہو۔ میں ان دنوں جوان تھا اور خطروں میں کود جانے کی اُمنگ شباب پر تھی۔ مجھے افریقہ میں جن مصائب کا مقابلہ کرنا پڑا اور جو خطرے میرے گِرد منڈلاتے رہے ان کے نقوش بالکل تازہ ہیں، جن کے تصوّر سے آج جی لرزتا ہے اور میں بعض اوقات سوچتا ہوں تو ذہن میں حیرت و تعجّب کی ایک نہ ختم ہونے والی لہر دوڑنے لگتی ہے اور میں خیال کرتا ہوں کہ کیا واقعی ساؤ کے آدم خوروں کو میں نے مارا تھا۔ جنہوں نے کی سو مزدور ہڑپ کر ڈالے تھے۔ جنہوں نے میرا دن کا چین اور رات کی نیند حرام کردی تھی اور یہ تکلیف دہ سلسلہ پورے نو ماہ تک جاری رہا تھا۔ میں خود ان کا لقمہ بنتے بنتے کئی مرتبہ بچا اور پھر کس قدر صعوبت اور مشقّت کے بعد ان موذیوں سے خلقِ خدا کو نجات دلائی۔ یہ سب واقعات میرے حافظے کی لو پر روشن ہیں۔ ساؤ کے وہ آدم خور شیر، سیاہ گینڈے، جنگلی بھینسے جو طاقت میں ہاتھی سے کم نہ تھے اور سولہ سولہ فٹ لمبے مگرمچھ جو دریائے ساؤ میں چھُپے ہوئے اپنے شکار کی آمد کے منتظر رہتے تھے اور ان مصیبتوں کے علاوہ افریقہ کے وحشی اور جنگلی قبائل کے خونخوار باشندے جو سفید فام لوگوں کے خون کے پیاسے تھے۔ ان حالات میں آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ریلوے لائن کی تعمیر کا کام کس قدر دشوار اور مشکل تھا۔ جان ہر وقت سولی پر لٹکی رہتی تھی۔ تاہم ایک شکاری کے لیے ان حالات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لینا زیادہ محنت طلب بات نہ تھی۔
کبھی کبھار ریلوے لائن کی تعمیر کا کام ضروری سامان وقت پر نہ پہنچنے کے باعث رک جاتا اور کی کی دن تک رکا رہتا۔ ان دنوں مجھے اِدھر اُدھر علاقے میں دور دور تک گھومنے کا اچھا موقع مل جاتا تھا۔ میں بچپن ہی سے ایسی طبیعت لے کر آیا تھا جو سکون اور بےحِسی سے ناآشنا تھی۔ ہر وقت کچھ نہ کچھ کرتے رہنا کا سودا سمایا ہوا تھا۔ اپنی اس عادت کے باعث میں کئی مرتبہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مصیبت میں مبتلا ہوا، لیکن یہ عادت نہ بدلی۔ انہی دنوں جب کہ کام رک گیا تھا، میں نے فیصلہ کیا کہ ساؤ کا تمام علاقہ دیکھ لیا جائے۔ خدا کی پناہ! کس قدر گھنا اور تاریک جنگل تھا اور اتنا وسیع و عریض کہ بعض اوقات احساس ہوتا کہ شاید روئے زمین پر اس جنگل کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔
ایک روز میں دریائے ساہا کے کنارے گھوم رہا تھا کہ دریائی گھوڑوں کا ایک جوڑا دکھائی دیا۔ وہ مجھ سے کوئی دو فرلانگ کے فاصلے پر دریا میں نہا رہا تھا۔ میں دیر تک اس قوی الجثہ اور عجیب الخلقت حیوان کو دیکھتا رہا۔ خدا کی پناہ! کس قدر زبردست اور طاقت ور جانور تھا۔ کبھی کبھی وہ دریا کی سطح پر آ کر سانس لینے کے لیے اپنا وسیع و فراخ منہ کھولتا تو میرے جسم پر چیونٹیاں سی رینگنے لگتیں۔ اس کا منہ اتنا بڑا تھا کہ میرے جیسا ڈیل ڈول رکھنے والا شخص آسانی سے اس میں سما سکتا تھا۔
تیرتے تیرتے اور ایک دوسرے کے ساتھ اٹھکھیلیاں کرتے ہوئے دریائی گھوڑے میرے بہت قریب آ گئے اور اب انہوں نے مجھے دیکھ لیا تھا۔ چند منٹ تک وہ حیرت سے منہ کھولے اپنی ننّھی ننّھی آنکھوں سے مجھے یوں تکتے رہے جیسے آدمی کو دیکھنے کا پہلی بار اتفاق ہوا ہے۔ پھر انہوں نے دریا میں ڈبکی لگائی اور تیزی سے اسی طرف واپس ہو گئے، جدھر سے آئے تھے۔ قوت کا بےپناہ خزانہ ان کے جسم میں چھپا ہوا تھا، لیکن ایک نخیف و کمزور آدمی کو دیکھتے ہی خوفزدہ ہو کر بھاگ گئے۔ بدقسمتی سے میرے پاس جو رائفل تھی اس سے چھوٹے موٹے جانور اور شیر چیتے تو مارے جا سکتے تھے، لیکن دریائی گھوڑے کے لیے یہ رائفل بالکل بےکار تھی۔ اس میں چھوٹے اور ہلکے کارتوس استعمال ہوتے تھے۔ بھاری رائفل کا تو فی الحال کوئی انتظام نہیں ہو سکتا تھا، البتہ اپنے مطلب کے کارتوس بنائے جا سکتے تھے۔ بارود کی وافر مقدار میرے پاس موجود تھی۔ میں نے ارادہ کیا کہ کم از کم ایک سو ایسے کارتوسوں میں بارود کی مقدار دوگنی ہو۔ پس میں نے سیسے کے بنے ہوئے خالی کارتوسوں میں بارود بھرنے کا کام شروع کر دیا۔ اگرچہ مجھے یقین نہیں تھا کہ یہ تجربہ کامیاب رہے گا، لیکن پھر بھی کوشش کر کے دیکھنے میں کیا حرج تھا۔ زیادہ سے زیادہ یہی خطرہ تھا کہ رائفل کی نالی اتنی زبردست قوّت برداشت نہ کر سکے گی اور پھٹ جائے گی۔
ایک روز میں نے رائفل میں اپنا بنایا ہوا کارتوس بھرا اور اسے ایک درخت کے تنے سے باندھ دیا، پھر رائفل کے گھوڑے کے ساتھ میں نے سو فیٹ لمبی ڈوری باندھی اور اتنے فاصلے پر ایک دوسرے درخت کے پیچھے کھڑے ہو کر جب میں نے ڈوری کھینچ کر لبلبی دبائی تو رائفل چل گئی اور یہ دیکھ کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی کہ رائفل کی نالی صحیح سلامت تھی۔ اب میں دریائی گھوڑوں سے دو دو ہاتھ کرنے کے لیے بالکل تیار تھا۔ اس کے بعد بھی میں نے کارتوس آزمانے کے لیے کئی ایک تجربے کیے اور ان کی قوّت پر پورا اطمینان ہو گیا۔ تیس گز کے فاصلے سے اگر فولاد کی چادر پر فائر کیا جاتا تو اس میں سے بھی گولی نکل جاتی تھی اور ظاہر ہے کہ دریائی گھوڑے کی کھال فولاد کی چادر کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ ایک روز انہی کارتوسوں کی وجہ سے میں مرتے مرتے بچا۔ قصّہ یہ ہوا کہ میں اپنے کمرے میں بیٹھا خالی کارتوسوں میں بارود بھر رہا تھا کہ دفعتاً ایک کارتوس پھٹ گیا اور جلتا ہوا بارود ایک دھماکے کے ساتھ میرے چہرے پر بکھر گیا۔ ایک لمحے کے لیے مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے ہزارہا سوئیاں گرم کر کے میرے چہرے میں گھونپ دی گئی ہیں۔ میں نے دونوں ہاتھوں سے اپنا منہ ڈھانپ لیا اور سب سے پہلا خیال جو میرے دل میں آیا وہ یہ تھا کہ میں اب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اندھا ہو چکا ہوں کیوں کہ میں جب بھی آنکھیں کھولتا مجھے اپنے اردگرد تاریکی معلوم ہوتی تھی، لیکن خدا کا شکر ہے یہ حالت چند گھنٹوں سے زیادہ قائم نہ رہی اور میں ایک بار پھر اسی دیکھی بھالی دنیا میں لوٹ آیا۔
جب میں ہر طرح کے کیل کانٹے سے لیس ہو چکا تو ہم پانچ چھے آدمیوں کا گروہ دریاے ساباکی کی طرف روانہ ہوا۔ اس گروہ میں میرے علاوہ ایک ہندوستانی ملازم مہینا، باورچی مبارک اور ایک سقّہ شامل تھا۔ یہ ہندوستانی مزدور نہایت محنتی، نڈر اور سخت جان ہوتے ہیں اور فطری طور پر مُہم پسند بھی ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کے علاوہ سامان اور کھانے پینے کی چیزیں اٹھانے کے لیے میں نے چند مقامی مزدور بھی ساتھ لے لیے۔ سیروشکار میں ایسے مواقع بھی آتے ہیں کہ ہمیں اپنے کیمپ سے کئی کئی روز مسلسل غیر حاضر رہنا پڑتا۔ تاہم میں نے کبھی چھوٹے بڑے خمیے اپنے ساتھ نہیں رکھے۔ میں ہمیشہ باہر کُھلی جگہ میں رات بسر کرنا اچھا سمجھتا ہوں۔ اگرچہ خوراک کا کافی ذخیرہ ہم لے کر چلے تھے ، مگر میں راستے میں تیتر، جنگلی مُرغ اور مُرغابیاں وغیرہ شکار کرتا رہا۔ دریائے ساباکی کے کنارے کے ساتھ ساتھ دونوں جانب اونچی نیچی چٹانوں کا ایک طویل سلسلہ پھیلا ہوا ہے۔ ان چٹانوں کے اندر بہت بڑی تعداد میں چوہے کی شکل و صورت کے خرگوش ملتے ہیں۔ دور سے دیکھیں تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ بڑی جسامت کے چوہے ہیں۔ ان خرگوشوں کی دم بالکل نہیں ہوتی اور یہ پھُدکتے ہوئے چلتے ہیں۔ اگرچہ ان کا گوشت لذیذ ہوتا ہے۔ تاہم مقامی باشندے انہیں پسند نہیں کرتے۔ دریائے ساباکی اور دریائے ساؤ کا درمیانی علاقہ حسن و جمال کے اعتبار سے اس سرزمین کی بہشت قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہاں ناریل کے درختوں کے جھنڈ کے جھنڈ سر اٹھائے کھڑے ہیں۔ فضا میں خوشگوار سی نمی کا احساس ہوتا ہے۔ان درختوں کے علاوہ یہاں کثرت سے خوبصورت اور رنگ برنگے جنگلی پھول اور پودے بھی اُگتے ہیں۔ سینکڑوں قسم کے چھوٹے چھوٹے پرندے ہر طرف اڑتے اور چہچہاتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے علاوہ بندر بھی ہزاروں کی تعداد میں یہاں آباد ہیں۔ لیکن یہ کسی کو نقصان نہیں پہنچاتے۔ اس سرسبز و شاداب خطّے کو عبور کرتے ہی ہمارے سامنے ایک لق و دق صحرا آ جاتا ہے۔ جس میں خود رَو اور خاردار جھاڑیوں کے سوا کوئی شے نہیں۔ کہیں کہیں درختوں سے جھُنڈ ہیں، مگر پھولوں اور پتّوں سے بے نیاز۔ بالکل ٹنڈمنڈ جیسے ان پر موت وارِد ہو چکی ہو۔ سورج کی حدّت اور تپش یہاں اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ آدمی بمشکل ایک دو گھنٹے ٹھہر سکتا ہے۔ دریائے ساؤ اس صحرا کے ایک جانب سے گزرتا ہے۔ یہاں اس کی چوڑائی کچھ زیادہ نہیں ہے۔ یوگینڈا کے دریاؤں میں ساؤ اور ساباکی بہت مشہور ہیں۔ ساؤ کا منبع کیلے منجورو کی برف پوش چوٹی ہے۔ اس چوٹی پر سال کے بارہ مہینے برف جمی رہتی ہے۔ موسمِ گرما میں یہ برف بڑی مقدار میں پگھلتی ہے تو دریا کا پاٹ حیرت انگیز طور پر وسیع ہوجاتا ہے۔ یہاں سے یہ دریا نکل کر شمال کی جانب تقریباً اسّی میل کا فاصلہ طے کر کے دریائے اتھائی میں مل جاتا ہے۔ دریاے اتھائی ساؤ اسٹیشن سے سات میل نشیب میں واقع ہے۔ اسی مقام پر دریا میں بہت سے ندی نالے آن کر ملتے ہیں اور پھر یہی دریائے ساباکی نام اختیار کر کے مشرق کی طرف بہتا ہوا مالندی کے مقام پر بحرِ ہند کی بےکراں وسعتوں میں گُم ہو جاتا ہے۔ مالندی ایک چھوٹی سی بندرگاہ ہے جو ممباسا کے شمال میں ستّر میل کے فاصلے پر واقع ہے۔
اگرچہ ہماری رفتار سست تھی، کیوں کہ قدم قدم پر جھاڑیوں اور درختوں کں کی شاخوں سے واسطہ پڑتا تھا لیکن ہم رُکے بغیر دریائے ساباکی کے ساتھ ساتھ چلتے گئے۔ دریا کے کنارے پہ کئی جگہ ہم نے مگرمچھ دیکھے جو اطمینان سے آنکھیں بند کیے اور تھوتھنیاں پانی میں ڈالے پڑے تھے لیکن ہماری آہٹ پاتے ہی وہ تیزی سے رینگتے ہوئے پانی میں غڑاپ غڑاپ کود گئے۔ کوئی دو میل اسی طرح چلنے کے بعد ہمیں ایک جگہ ریت پر دریائی گھوڑے اور گینڈے کے قدموں کے بڑے بڑے نشانات دکھائی دیے۔ یہ نشانات دیکھ کر ہمارا شوقِ جستجو اور تیز ہو گیا اور ہم زیادہ مستعدی اور ہوشیاری سے آگے بڑھنے لگے۔ یہ نشانات نصف فرلانگ تک پھیلے ہوئے تھے اور کہیں کہیں ریتیلے کنارے پر گڑھے بھی موجود تھے اور صاف پتہ چلتا تھا کہ گڑھے کسی بھاری اور قوی جسم کے گرنے سے بنے ہیں۔ شاید اس مقام پر کسی گینڈے اور دریائی گھوڑے کا آمنا سامنا ہو گیا تھا اور ان میں جنگ بھی ہوئی تھی۔ جن شکاریوں نے اپنی عمر میں کبھی کسی دریائی گھوڑے، گینڈے یا جنگلی بھینسے کو آپس میں لڑتے دیکھا ہے، وہی جان سکتے ہیں کہ یہ جنگ کس قدر خوفناک اور لرزہ خیز ہوتی ہے۔ دریائی گھوڑا فطری اعتبار سے نہایت شرمیلا اور رکھ رکھاؤ والا جانور ہے اور لڑنا بھرنا پسند نہیں کرتا لیکن ایسا موقع اگر آ بھی جائے تو پھر نہایت بہادری اور بے خوفی سے اپنے حریف کا مقابلہ کرتا ہے اور اکثر فتح یاب اور کامران ہوتا ہے۔ کرۂ ارض پر ہاتھی کو چھوڑ کر دریائی گھوڑا اس وقت سب سے زیادہ قوی اور وزنی جانور ہے۔ اس کا شمار دودھ پلانے والے حیوانوں میں ہوتا ہے۔ اس کی شکل و شباہت سؤر سے بہت ملتی ہے۔ اس کے جسم کی لمبائی عموماً چودہ فٹ اور اونچائی تین فٹ دس انچ تک ہوتی ہے اور وزن چوراسی من سے زائد ہوتا ہے۔ کان اگرچہ چھوٹے اور لچک دار ہوتے ہیں لیکن سماعت کی حس غضب کی ہوتی ہے۔ جسم موٹا، بھدّا اور پیر چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں۔ تیرتے وقت اس کی آنکھیں اور نتھنے پانی سے باہر رہتے ہیں، دریائی گھوڑے کا سب سے بڑا عجوبہ اور خطرناک ہتھیار اس کا غار نما منہ ہے۔ جس کے دونوں طرف بڑے بڑے دانت نظر آتے ہیں۔ اوپر کا ہونٹ نچلے ہونٹ کی نسبت بہت موٹا ہوتا ہے۔ کھال کی موٹائی دو انچ سے زائد ہوتی ہے۔ دریائی گھوڑے بیس بیس چالیس چالیس کے گروہوں کی شکل میں دریاوں کے کنارے یا ڈیلٹاؤں میں رہتے ہیں۔ ان کی خوراک دریائی پودے اور جنگلی گھاس پھوس ہے۔ پکی ہوئی فصلوں پر حملہ آور ہوتے ہیں اور آن کی آن میں سب کچ تہس نہس کر ڈالتے ہیں۔ جزیرہ کریٹ، مالٹا، سسلی، بھارت، برما اور افریقہ کے شمالی حصّے میں بھی دریائی گھوڑوں کی کئی قسمیں پائی جاتی ہیں۔ حال ہی میں جزیرۂ مڈغاسکر میں بھی ان کی ایک نئی اور ذرا چھوٹی قسم دریافت ہوئی ہے۔ مغربی افریقہ کے جنگلوں میں بھی دریائی گھوڑے ملتے ہیں لیکن ان کا قد و قامت سؤر سے زیادہ بڑا نہیں ہوتا۔
دریائے ساباکی کے کنارے ان گڑھوں کو دیکھ کر مجھے خود اپنا ایک چشم دید واقعہ یاد آ گیا۔ ایسا عجیب اور خوفناک واقعہ میں نے اپنی آنکھوں سے دوبارہ نہیں دیکھا۔ اس لیے میں یہاں بیان کرتا ہوں۔ یہ ایک دریائی گھوڑے اور جنگلی بھینسے کی خون ریز جنگ تھی۔ میں اس زمانے میں کانگو کے جنگل میں گھوم رہا تھا۔ ایک روز دوپہر کے وقت جنگل کے کھلے حصّے میں، جہاں سے دریائے کانگو صاف دکھائی دیتا تھا، تھرماس میں سے قہوہ نکال کر پی رہا تھا کہ یکایک ایک دریائی گھوڑا دریا میں سے نکلا اور کنارے پر آ کر جنگل کی طرف بڑھا۔ میں اسے دیکھتا رہا۔ غالباً وہ بھوکا تھا اور خس و خاشاک سے اپنا پیٹ بھرنے آیا تھا۔ آہستہ آہستہ وہ میرے نزدیک آتا گیا۔ میں درخت کی اوٹ میں بیٹھا سب تماشا دیکھ رہا تھا۔ کئی مرتبہ میں نے ارادہ کیا کہ دریائی گھوڑے پر فائر کروں لیکن وہ اتنے پرسکون اور معصومانہ انداز میں گھاس اور پودے کھا رہا تھا کہ مجھے اپنے فاسد ارادے پر شرم محسوس ہونے لگی۔ یکایک میرے دائیں ہاتھ پر جھاڑیوں میں کچھ کھڑکھڑاہٹ سی پیدا ہوئی۔ میں چونکنا ہو کر اُدھر دیکھنے لگا۔ پہلا خیال جو میرے دل میں آیا وہ کسی شیر یا چیتے کا تھا۔ کیوں کہ یہ درندہ اسی طرح جھاڑیوں میں چھُپ چھُپ کر شکار کا تعاقب کرتا ہے۔ میں لپک کر اسی درخت پر چڑھ گیا۔ ایک خیال یہ بھی تھا کہ اگر جھاڑیوں میں چھپنے والا جانور کوئی شیر ہی ہے تو دیکھیں وہ دریائی گھوڑے پر حملہ کرتا ہے یا نہیں۔ ابھی میں بمشکل درخت پر بیٹھنے کے لیے ایک محفوظ سی جگہ تلاش کر ہی پایا تھا کہ چمک دار سیاہ رنگ کا ایک قوی ہیکل جنگلی بھینسا جھاڑیوں کو چیرتا ہوا نمودار ہوا۔ اس کی آنکھیں انگاروں کی مانند دہک رہی تھیں اور گردن تکبّر اور غرور کے انداز میں تنی ہوئی تھی۔ اس جنگلی بھینسے کو دیکھ کر یوں تو خوف آنا لازمی تھا، مگر سب سے ڈرانے والی شے اس کے لمبے اور نوکیلے سینگ تھے۔ جن کی زد میں آ کر مشکل ہی کوئی حریف یا مقابل زندہ بچ سکتا تھا۔ بعض اوقات میں نے خود دیکھا ہے کہ جنگل کا بادشاہ بھی ان سینگوں سے ڈر کر بھاگ نکلتا ہے۔ دریائی گھوڑے نے بھی فوراً اپنے حریف کی موجودگی کو محسوس کر لیا۔ کیوں کہ اب وہ بےحس و حرکت کھڑا منہ اوپر اٹھائے اپنے عین سامنے دیکھ رہا تھا۔ پھر وہ اپنے موٹے اور بے ڈول پیروں سے بھد بھد کی آواز پیدا کرتا ہوا جنگلی بھینسے کی طرف بڑھا۔ میرا خیال تھا کہ جنگلی بھینسا اپنے اس زبردست مقابل کو دیکھ کر راہِ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوگا۔ لیکن نہیں۔ وہ بھی گردن جھکا کر نہایت جارہانہ انداز میں اچھالتا ہوا دوڑا اور جاتے ہی ایک ٹکّر دریائی گھوڑے کے منہ پہ ماری۔ دریائی گھوڑے نے اس حملے سے بچنے کے لیے اپنا منہ ایک طرف پھیر لیا اور بھینسے کے نوکیلے سینگ اس کی گردن میں گڑ گئے۔ بھینسا اگرچہ دریائی گھوڑے کے مقابلے میں حقیر تھا، تاہم نہایت پھرتیلا اور چست ثابت ہوا۔ چند ہی منٹ میں اس نے دریائی گھوڑے کو لہولہان کر دیا۔ اس کے جسم کے ہر حصّے پر اپنے نوکیلے سینگوں سے سوراخ کر دیے۔ جن میں سے خون فوارے کی طرح اچھلتا ہوا نکل رہا تھا۔ دریائی گھوڑا نہایت وزنی ہونے کی باعث بھینسے کے حملے کو روکنے پر قادر نہیں تھا۔ اس طرح اس کا سیروں خون بہہ گیا۔ ادھر بھینسے کا جوش و خروش بڑھتا ہی جاتا تھا۔ بار بار وہ پیچھے ہٹ کر اچھلتا ہوا آتا اور پوری قوت سے اپنے سینگ دریائی گھوڑے کے جسم میں گھونپ دیتا۔ ان دونوں کے منہ سے طرح طرح کی چیخیں نکل رہی تھیں، جن سے پورے جنگل پر ایک لرزہ سا طاری تھا اور زمین ان کے قدموں کی دھمک سے بار بار کانپ اٹھتی تھی۔ میں درخت پر سہما ہوا بیٹھا یہ عجیب و غریب اور خون ریز جنگ دیکھنے میں محو تھا اور مجھے یقین تھا کہ اس جنگ میں جنگلی بھینسا کامیاب و کامران ہوگا۔ آدھے گھنٹے کی لڑائی کے بعد دریائی گھوڑا بالکل بے بس اور لاچار ہو گیا۔ اب وہ قطعئ طور پر ادھ مؤا ہو چکا تھا۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ ڈھرام سے زمین پر گر گیا۔ اب جنگلی بھینسا اس کے چاروں طرف پھوں پھوں کی آوازیں نکالتا ہوا رقص کرنے لگا اور گھوڑے کے پیٹ میں سینگ گھونپتا رہا۔ دریائی گھوڑا ابھی تک زندہ تھا اور اس کا پہاڑ سا جسم خون میں لت پت ہو چکا تھا۔ میں سمجھا کہ بس یہ چند منٹ کا مہمان ہے لیکن اس کے بعد جو منظر میں نے دیکھا وہ مجھے زندگی بھر حیرت زدہ بنائے رکھنے کے لیے کافی ہے۔
جنگلی بھینسا دریائی گھوڑے کے جسم میں مسلسل اپنے سینگ گھونپے جا رہا تھا اور اپنی طرف سے وہ دشمن پر پوری طرح قابو پا چکا تھا۔ دریائی گھوڑا دم سادھے پڑا تھا، لیکن ایک ہی مرتبہ اس نے اپنا غار سا منہ کھول کر جنگلی بھینسے کی گردن پکڑ لی اور اسے اس زور سے بھینچا کہ بھینسے کی گردن علیحدہ ہو کر دریائی گھوڑے کے منہ میں رہ گئی اور دھڑ زمین پر گر کر تڑپنے لگا۔ چند منٹ بعد بھینسے کی سر کٹی لاش ٹھنڈی ہو چکی تھی۔ دریائی گھوڑا لوٹ پوٹ کر اٹھا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا دریا کے اندر کود کر پانی کی تہہ میں نہ جانے کدھر غائب ہو گیا۔
دریائے ساباکی کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس کا پاٹ کہیں بہت تنگ اور کہیں بہت وسیع ہو جاتا ہے کہ اسے عبور کرنا خاصا مشکل کام ہے۔ دریا کے اندر ہی اندر بعض مقامات پر چھوٹے چھوٹے جزیرے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ جن پر رات کے وقت دریائی گھوڑے آ کر لوٹ مارتے ہیں۔ میرے ملازم مہینا نے کہا کہ انہی جزیروں میں سے کسی ایک پر ہم رات کو ڈیرہ جمائیں، لیکن اس کے ساتھ ایک عظیم خطرہ یہ بھی لاحق تھا کہ دریا میں مگرمچھ بڑی تعداد میں تھے اور عین ممکن تھا کہ جب ہم پانی میں قدم رکھتے تو کوئی مگرمچھ اندر ہی اندر تیرتا ہوا آتا اور ہم میں سے کسی کی ٹانگ پکڑ کر گھسیٹ کر لے جاتا۔ آخر ہم نے دریا کے کنارے ایک بڑے درخت کے نیچے اپنا سامان رکھ دیا۔ دوپہر سر پر آ چکی تھی اور تھکن سے سب کا برا حال تھا۔ مبارک باورچی نے جلدی جلدی سب کے لیے کھانا نکالا۔ کھانے سے فارغ ہو کر میں نے بقیہ لوگوں کو وہیں ٹھہرنے کی ہدایت کی اور خود مہینا کو ساتھ لے کر کسی جزیرے کی تلاش میں آگے روانہ ہوا۔ ابھی ہم بمشکل ایک فرلانگ ہی گئے تھے کہ یکایک مہینا نے مجھے رکنے کا اشارہ کیا۔ وہ مجھ سے دس قدم آگے جا رہا تھا۔ میں رک گیا۔ وہ الٹے قدموں واپس آیا اور کہنے لگا، "وہ دیکھیے دریا کے کنارے ایک ہرن کھڑا پانی پی رہا ہے۔"
میں نے غور سے اس طرف دیکھا۔ کیا شاندار اور پلا ہوا ہرن تھا۔ اس کی سیاہ کھال شیشے کی مانند چمک رہی تھی۔ پہلے میں نے ارادہ کیا کہ ذرا قریب جا کر نشانہ بناؤں، لیکن اس خوف سے کہ ہرن میری آہٹ پا کر فرار نہ ہو جائے میں نے وہیں کھڑے کھڑے نشانہ لیا اور لبلبی دبا دی۔ فائر ہوتے ہی ہرن فضا میں اچھلا اور دریا کے اندر جا پڑا۔ ہم دونوں اس کی طرف بھاگے، مگر وہ فوراً ہی اٹھا اور پانی میں تیرتا ہوا دوسرے کنارے پر چڑھ کر جنگل میں گھس گیا۔ مجھے یقین تھا کہ گولی ہرن کو لگی ہے اور اب اسے کسی قیمت پر بھی چھوڑا نہیں جا سکتا تھا۔ پس ہم بھی مگرمچھوں کے خوف سے بےنیاز ہو کر دریا میں کود پڑے۔ خوش قسمتی سے اس مقام پر پانی زیادہ گہرا نہ تھا۔ ہم دس منٹ کے اندر اندر دوسرے کنارے پر پہنچ گئے۔ ہم نے جلد ہی ہرن کے قدموں کے نشانات تلاش کر لیے اور مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ ریت پر ان نشانات کے ساتھ ساتھ خون کے تازہ قطرے بھی موجود تھے، لیکن ہرن کو اس گھنے جنگل میں جہاں کئی کئی فٹ لمبی گھاس اور قد آدم جھاڑیاں کھڑی تھیں تلاش کرنا کارے وارد تھا۔ ہم دونوں دیوانوں کی طرح جنگل میں گھس گئے اور ہرن کو ڈھونڈنے لگے۔ مجھے خوف یہ تھا کہ ہرن زخمی ہونے کے باعث کمزور ہو کر کہیں گر پڑے گا اور کسی درندے کے منہ کا لقمہ بن جائے گا اور میں اسے ہر قیمت پر حاصل کرنا چاہتا تھا۔ ہمیں قطعاً احساس نہ ہوا کہ کتنا وقت گزر گیا اور رات کب سر پر آ گئی۔ سورج غروب ہوتے ہی تاریکی نے غلبہ پا لیا اور جنگل کی زندگی بیدار ہونے لگی۔ درختوں پر چھپے ہوئے پرندے بولنے لگے۔ بندر چیخنے لگے اور دور کہیں ہم نے کسی شیر کے دھاڑنے کی آواز بھی سنی۔
شیر کی دھاڑ سنتے ہی ہمارے ہوش اڑ گئے۔ اگرچہ میں ایک تجربہ کار شکاری ہوں اور زندگی میں بہت سے آدم خور شیروں کا مقابلہ کر چکا ہوں۔ تاہم یہ بات کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ تاریک جنگل میں رات کے وقت شیر کی دھاڑ سن کر نڈر سے نڈر آدمی کا پتّہ بھی پانی ہو جاتا ہے۔ خدا نے اس درندے کی آواز میں دبدبے اور دہشت کا ایسا عنصر رکھ دیا ہے کہ دل کانپ کانپ جاتا ہے اور یہ عجیب بات ہے کہ شیر خواہ کتنی ہی دور دھاڑ رہا ہو یہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ ہم سے بہت قریب ہے۔