ذکر اُن کا اور بیان اپنا

  • Work-from-home

Hans_Mukh

~~ Catch Me if u Can~~
VIP
Dec 1, 2008
30,406
14,989
713
Logon Ki Soch May
صبح بخیر…ڈاکٹر صفدر محمود
میں پاکستان کی تاریخ و سیاست کا طالبعلم ہوں اس لئے مجھے ”حسن ظن“ ہے کہ میں گزشتہ تریسٹھ سالہ قومی تاریخ سے تھوڑا بہت آگا ہ ہوں۔ کسی جیالے کا جی چاہے تو وہ غصے میں آکر مجھے حافظے کی کمزوری کا طعنہ بھی دے سکتا ہے جس طرح آج کل مشرف کے چند جیالے کالم میں مشرف کا اصلی چہرہ دیکھ کر گالیاں بھرے ایس ایم ایس بھجواتے ہیں اور اس مقصد کے لئے انہوں نے جعلی ”سمیں“ حاصل کی ہوئی ہیں، البتہ پی پی پی اور مشرف کے جیالوں میں ایک بڑا واضح فرق ہے اور وہ یہ کہ پی پی پی کے جیالے لڑائی مارکٹائی پر ہمہ وقت تیار رہتے ہیں جبکہ مشرفی جیالے صرف زبان کا استعمال کرتے ہیں۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ پی پی پی کے جیالوں کی زبان درازی یا ”قمیص پھٹائی“ میں بھٹو اور بینظیر کے خون کا غصہ بولتا ہے جبکہ مشرفی جیالوں کی گالیوں کے پس پردہ ڈالرز بولتے ہیں جو انہیں صرف گالیاں دینے کے لئے دئیے جاتے ہیں۔ خدا پناہ ہماری طرح کا ایک سرکاری ملازم جو بقول جنرل ضیاء الدین بٹ ایک ایک ڈالر پر مرتا تھا، صدر مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان بننے کے بعد اتنا ”ریئس اعظم“ ہوگیا ہے کہ نہ صرف امریکہ، انگلستان، ترکی اور دبئی میں قیمتی جائیدادوں کا مالک بن بیٹھا ہے بلکہ اپنے دوروں، تقریبات اور اپنے جیالوں پر بھی ڈالروں کی بارش کررہا ہے اور یہ بارش ہے کہ تھمتی ہی نہیں۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے زمانے کا میرا سینئر اور دیرینہ کرم فرما احمد رضا قصوری مشرف کو جنرل ڈیگال اور جنرل آئزن ہاور سے تشبیہ دے رہا ہے جبکہ میرا خیال ہے کہ جنرل مشرف تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ بن چکا ہے۔ ایک ٹی وی چینل پر میرا دوست احمد رضا قصوری جنرل ڈیگال اور جنرل آئزن ہاور کی مانند مشرف کی آمد کا ذکر کررہا تھا تو میں سوچ رہا تھاکہ میرا دوست یہ بھول گیا کہ یہ حضرات جرنیلی کارنامے سرانجام دینے کے بعد انتخابات کے ذریعے صدارت تک پہنچے تھے جبکہ ان کا ہیرو مشرف شب خون مار کر اقتدار پر قابض ہوا اور آئین توڑنے کا مجرم ٹھہرا۔ حیرت ہے کہ احمد رضا قصوری جیسا جمہوری اور آئینی شخص ایک آئین پامال کرنے والے جنرل پر عقیدت کے پھول نچھاور کررہا ہے۔ ہاں تو آپ مجھے حافظے کی کمزوری کا طعنہ دے سکتے ہیں لیکن مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کبھی کوئی جرنیل ملکی آئین کی لاش پر کھڑا ہوکر اقتدار میں آنے کے بعد اقتدار سے نکل کر کبھی دوبارہ منتخب ہو کر صدارت پر فائز ہوا ہو۔ اب تو حالات کا تقاضا یہ ہے کہ آئین کے تقدس اور قانون کی حکمرانی کو مضبوط بنانے کے لئے آئین شکنی کرنے والے حضرات کو عبرت کا نمونہ بنایا جائے نہ کہ انہیں ووٹ دے کر اور اسی آئین کے تحت حلف اٹھا کر تخت پر بٹھایا جائے جس آئین کا انہوں نے مذاق اڑایا اور حلیہ بگاڑا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ میرے ملک کے عوام کبھی بھی ایسے شخص کی حمایت نہیں کریں گے اور ہاں میں عوام کی بات کررہا ہوں، خواص کی نہیں۔ خواص کی فہرست احمد رضا قصوری، طاہرہ سید، عتیقہ اوڈھو، فواد چوہدری اور بیرسٹر سیف تک محدود ہے۔ دوستو! سچ تو یہ ہے کہ آئین کی بالا دستی اور قانون کی حکمرانی ایثار اور کمٹ منٹ مانگتی ہے اگر ہم خلوص نیت سے آئین کی حکمرانی چاہتے ہیں اور آئندہ فوج کا اقتدار میں راستہ بند کرنے کی آرزو رکھتے ہیں تو یہ قربانی، بہرحال دینا ہوگی اور وہ قربانی ہے آئین کے سیکشن چھ کے تحت آئین شکن کو ”سنگین غداری“ (High treason)کی سزادینا۔ آئین کے مردہ سیکشن چھ میں جان ڈالے بغیر اور اس پر عمل کئے بغیر فوجی مداخلت کا راستہ ہرگز بند نہیں ہوگا اور وکی لیکس والے نہ صرف ایسے منصوبوں کی خبریں سناتے رہیں گے بلکہ ادھورے خوابوں اور تشنہ آرزووٴں کا بھی رونا روتے رہیں گے۔
میں ٹی وی کم کم دیکھتا ہوں لیکن یہ محض اتفاق ہے کہ چند روز قبل احمد رضا قصوری کو ٹی وی پر گفتگو کے دریا بہاتے دیکھ کر رک گیا ۔احمد رضا قصوری کو دیکھ کر مجھے بہت کچھ یاد آگیا۔ ا س سے آپ اندازہ لگالیں کہ اللہ کے فضل و کرم سے ماضی کی ساری تصویر میری نگاہوں کے سامنے ہے۔ مجھے حافظے کی کمزوری کا طعنہ اس وقت ملتا ہے جب کسی کو اس کی اوقات یاد دلاتا ہوں۔ مثلاً میں خلوص نیت سے کہتا ہوں کہ مجھے پاکستان کی تاریخ میں کوئی ایسی حکومت یاد نہیں پڑتی جس کے اتنے مختصر عرصے میں کرپشن کے اتنے زیادہ اسیکنڈلز سامنے آئے ہوں جتنے موجودہ حکومت کے آئے ہیں۔ شاید ہی کوئی ہفتہ ایسا گزرا ہو کہ کسی اسیکنڈل نے ہمارے دروازے پر دستک نہ دی ہو۔ حج اسیکنڈل کی سپریم کورٹ میں شنوائی کے دوران چیف جسٹس کو بھی یہ کہنا پڑا ہے کہ آپ نئے سے نئے اسیکنڈل لیتے آئیں ہم تھکیں گے نہیں۔ ظاہر ہے کہ اگر میں ان اسیکنڈلز کی تہہ در تہہ کہانیوں کا ذکر کروں تو پی پی پی کے جیالے مجھے حافظے کی کمزوری کا طعنہ دے کر میاں نواز شریف کے دور حکومت کے اسیکنڈلز کو اچھالنا شروع کردیں گے اور یہ بھول جائیں گے کہ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ کوئی حکومت بھی کرپشن اسیکنڈلز سے پاک تھی میں تو فقط یہ کہہ رہا ہوں کہ اتنے مختصر سے عرصے میں اتنی بڑی تعداد میں اسیکنڈلز کا اعزاز صرف موجودہ حکومت کو حاصل ہوا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے کہ ہماری قومی نفسیات بھی دلچسپ ہے اول تو ہمیں ہر بات ہر واقعے میں سازش نظر آتی ہے جس طرح وزیر مذہبی امورحج اسیکنڈل کو اپنے خلاف سازش قرار دے رہیں ہیں، دوم جب کوئی حکومتی اسیکنڈلز کی بات کرتا ہے تو جیالے ایک دم آستینیں چڑھا کر میدان میں اترآتے ہیں اور کرپشن اسیکنڈلز کو غلط یا بے بنیاد ثابت کرنے کی بجائے حافظے پر حملہ آور ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کیا آپ کو یاد نہیں کہ میاں صاحب کے دور میں کیا ہوا تھا؟ جب ان کی خدمت میں یہ عرض کیا جائے کہ حضور میاں صاحب کے دور حکومت کے بارے میں ہم ان کے ترجمانوں سے پوچھیں گے آپ اپنا جواب دیں تو وہ ایک دم سیاسی لاشوں پر ماتم شروع کردیتے ہیں اور جذبات کو آگ لگاکر مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں۔ کچھ چینلز ایسے ہی مباحثوں کے قیدی بن چکے ہیں۔
دوستو !معاف کرنا بات ذرا دور نکل گئی ،میں کہہ یہ رہا تھا کہ مشرف کے ترجمان اور حمایتی برادرم احمد رضا قصوری کے ساتھ میری کئی یادیں وابستہ ہیں جو انہیں ٹی وی پر دیکھ کر تازہ ہوگئی ہیں۔ میں گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوا تو قصوری صاحب بی اے فائنل کے طالبعلم تھے۔ ایک روز صبح صبح کالج پہنچا تو ایک عجیب سا منظر دیکھا جو گورنمنٹ کالج کے مزاج کے بالکل برعکس تھا۔ کالج کی چڑھائی چڑھتے ہوئے سامنے نظر پڑی تو پرنسپل کے دفتر کے سامنے طلبہ کا ہجوم نظر آیا جو تالیاں بجا رہے تھے اور قہقہے لگارہے تھے۔ یہ بات نہایت انہونی تھی، چنانچہ میں بے چینی اور حیرت سے اس طرف بڑھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ احمد رضا قصوری صاحب نے ایک بندریا کندھے پر بٹھا رکھی ہے اور سرکس کی مانند گول دائرے میں سائیکل چلارہے ہیں۔ لڑکے دائرے میں کھڑے تالیاں پیٹ رہے ہیں، زندہ دلی کے مظاہرے کررہے ہیں اور قصوری صاحب کو داد دے رہے ہیں۔ اتنے میں کالج کے پرنسپل ڈاکٹر نذیر احمد شور سن کر آئے ا ن کے آتے ہی مجمع چھٹ گیا۔ انہوں نے احمد رضا قصوری کو پیارسے ڈانٹا اور کلاس میں جانے کو کہا پھر میں نے اپنی گنہگار آنکھوں سے دیکھا کہ احمد رضا قصوری اس بندریا کو کندھے پر بٹھائے کلاس روم میں چلے گئے۔میں جب احمد رضا قصوری کو ٹی وی پر پرویز مشرف کی محبت میں لہولہان دیکھ رہا تھا تو مجھے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے انہوں نے پرویز مشرف کو کندھے پر اسی طرح اور اسی جگہ پر بٹھا رکھا ہے جہاں کبھی وہ بندریا کو بٹھایا کرتے تھے۔
 
Top