دھنک دھنک
دھنک دھنک مری پوروں کو خواب کر دے گا
وو لمس میرے بدن کو گلاب کر دے گا
قبائے جسم کے ہر تار سے گزرتا ہوا
کرن کا پیار مجھے آفتاب کر دے گا
جنوں پسند ھے دل اور تجھ تک آنے میں
بدن کو لہو ناؤ کو چناب کر دے گا
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا
انا پرست ھے اتنا کہ بات سے پہلے
وہ اٹھ کے بند مری ہر کتاب کر دے گا
اسی طرح سےاگر چاہتا رہا پیہم
سخنوری میں مجھے آفتاب کر دے گا
مری طرح سے کوئی ھے جو زندگی اپنی
تمہاری یاد کے نام سے انتساب کر دے گا