حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت حسین رضی عنہ

  • Work-from-home

طارق راحیل

Active Member
Apr 9, 2008
247
189
1,143
38
Karachi
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت حسین رضی عنہ​



حضرت فاطمہ بنت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی پرورش علم وتقویٰ کی بنیاد پر ایک پاکیزہ اور معزز گھرانے میں ہوئی تھی۔ ان کے والد گرامی قدر حضرت حسین بن علی رضی اللہ تعالی عنہ تھے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نواسہ ہونے کا شرف حاصل تھا، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوب نظر اور دنیا میں ان کی خوشبو تھے۔
ان کی والدہ ام کلثوم ایک جلیل القدر صحابی طلحہ بن عبید اللہ کی بیٹی ہیں۔
ان کی دادی اپنے دور کی تمام خواتین کی سردار، جگر گوشہ رسول، سیدہ فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھی۔
ان کے دادا اور نانا ایسے جلیل القدر صحابی ہیں جنہیں زندگی میں جنت کی بشارت ملی۔
ان کے پردادا حضرت علی بن ابی طالب تھے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے داماد، چچا کے بیٹے اور جنت کی بشارت پانے والے صحابہ کرام میں سے ایک تھے۔
اس پاکیزہ یکتائے روز گار گھرانے میں فاطمہ بنت حسین بن علی بن ابی طالب قرشیہ ہاشمیہ نے جنم لیا تھا جو سیدات، تابعیات، فاضلات میں سے ایک تھیں۔
حضرت فاطمہ بنت حسین 40 ھ میں پیدا ہوئیں۔ عبادت گزاری کی محبت، تقویٰ شعاری کی عادت اور صحابہ کرام سے حصول علم کی لگن میں جوان ہوئیں۔ حضرت فاطمہ بنت حسین حدیث نبوی کو روایت کرنے والی خواتین میں سے ایک ہیں اور یہ ان تابعی خواتین میں سے ہیں جنہوں نے کثرت کے ساتھ صحابہ کرام اور تابعین عظام سے حدیث بیان کرنے کی سعادت حاصل کی، پھر ان سے آگے کثرت کے ساتھ حدیث بیان کی گئی۔
اللہ سبحانہ وتعالی نے فاطمہ بنت حسین کو ظاھری وباطنی حسن وجمال کی نعمت سے سرفراز فرمایا تھا، وہ اخلاق وادب اور عفت وعصمت کی پیکر تھیں، ان کی بہن سیکنہ بنت حسین بھی ہو بہو اسی طرح کی تھیں۔ عربوں کے ہاں شروع سے یہ ریت چلی آرہی ہے کہ اگر کوئی شخص براہ راست اپنے لئے کسی گھر میں جاکر رشتہ مانگ لے تو اسے قطعاً معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا۔ ایک روز حسن بن حسن جو مثنیٰ کے لقب سے مشہور تھے اپنے چچا حضرت حسین بن علی رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر گئے اور عرض کی چچا جان آپ مجھے اپنا بیٹا بنالیں۔ حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا میرے بھتیجے میں تو خود چاہتا تھا کہ تم کسی دن اپنی خواہش کا اظہار کرو۔ بیٹا میری اس وقت دو بیٹیاں ہیں فاطمہ اور سکینہ، مجھے آپ سے بہتر اور کون ہوسکتا ہے جس کے بارے آپ کا دل مانے میں وہی آپ کے عقد میں دینے کا لئے برضا ورغبت تیار ہوں۔
فاطمہ بنت حسین شکل وشباہت اور عادات واطوار کے لحاظ سے اپنی دادی فاطمتہ الزھراء رضی اللہ تعالی عنہ سے ملتی جلتی تھیں۔ نظر انتخاب اسی پر پڑی اور ان دونوں کو رشتہ ازادواج میں منسلک کر دیا گیا۔
حضرت فاطمہ بنت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاں حسن بن حسن رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے بعد عبداللہ، ابراہیم، زینب اور ام کلثوم نے جنم لیا۔ یہ پہلا موقع ہے جس میں حضرت حسن اور حضرت حسین کی اولاد د رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئی تھی۔
عبداللہ بن حسن بنو ہاشم کے شیخ بنے اور ان سب میں انہیں فوقیت حاصل تھی۔ علم وفضل، شرافت وعظمت کے اعتبار سے سارے بنی ہاشم میں انہیں ممتاز مقام حاصل تھا۔
حضرت فاطمہ بنت حسین نے اپنی اولاد کی نگہداشت اور تعلیم وتربیت میں بڑا اہم اور بنیادی کردار ادا کیا۔ اولاد کو اخلاق فاضلہ سے آراستہ کیا اور علم وادب کی روحانی غذادی۔ انہیں اپنے زمانے میں علماءکا سردار ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔
حضرت فاطمہ بنت حسین نے اپنے شوہر کے ساتھ چند سال زندگی بسر کی۔ زیادہ طویل عرصہ گزارنے کا موقع نہ ملا کہ وہ داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے اپنے اللہ کو پیارے ہوگئے۔ عدت کے ایام گزارنے کے بعد عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ کو نکاح کا پیغام بھیجا جو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے بالآخر قبول کرلیا۔
دور تابعین میں حضرت فاطمہ رحمھا اللہ تعالی کا خواتین میں بڑا ہی مقام ومرتبہ تھا۔ امراءوخلفاءکے ہاں ان کی آواز سنی جاتی تھی۔ آپ کی ہر بات کو سرکاری محکموں میں بڑی اہمیت دی جاتی تھی۔ ان کے احترام اور عظمت شان کی بنا پر خلیفہ یزید بن عبدالملک نے مدینہ منورہ کے گورنر عبدالرحمٰن بن ضحاک بن قیس فہری نے عبداللہ بن عمرو کی وفات کے بعد فاطمہ بنت حسین کی طرف شادی کا پیغام بھیجا۔ آپ نے کہا بخدا اب میرا شادی کا کوئی ارادہ نہیں۔ اب میں صرف اپنے بچوں کی دیکھ بھال کروں گی۔ اس نے بڑا اصرار کیا، جب وہ مایوس ہوگیا تو اس نے دھمکی دیتے ہوئے کہا: اگر آپ نے میری پیشکش کو قبول نہ کیا تمہارے بڑے بیٹے عبداللہ بن حسن کو عبرتناک سزادوں گا۔
حضرت فاطمہ بنت حسین نے اس نازک ترین صورت حال کو دیکھتے ہوئے خلیفہ¿ وقت یزید بن عبدالملک کو شکایت لکھ بھیجی۔ انہوں نے خط میں اپنی قرابت داری اور مدینے کے گورنر ابن ضحاک کی دھمکی کا تذکرہ بھی کیا۔ جب حکمران یزید بن عبدالملک نے یہ خط پڑھا تو غصے سے آگ بگولا ہوگیا اور اپنے ہاتھوں میں پکڑا ہوا نیزہ زمین پر مار کر کہنے لگا۔ ابن ضحاک کی یہ جرا¿ت۔ کون ہے جو اس کو ایسی درد ناک سزادے سکے کہ اس کی چیخیں مجھے یہاں دمشق میں اپنے بستر پر سنائی دیں؟ اسے بتایا گیا کہ عبدالواحد بن عبداللہ نضری یہ فر یضہ سرانجام دے سکتا ہے۔
کاغذ منگوایا، اپنے ہاتھ سے عبدالواحد کو خط لکھا وہ اس وقت طائف میں تھا۔ خط میں یہ تحریر کیا:۔
السلام علیکم!
میں نے آپ کو مدینے کا گورنر مقرر کر دیا ہے جب تمہیں میرا یہ خط ملے تو مدینہ منورہ پہنچ کر ابن ضحاک کو اس کے منصب سے معزول کر دینا اور اس پر چالیس ہزار دینا جرمانہ عائد کر دینار اور اسے ایسی عبرتناک سزا دینا کہ اس کی چیخیں مجھے یہاں اپنے بستر پر سنائی دیں۔
ابن ضحاک کو یہ خبر پہنچ گئی تو وہ خوف زدہ ہو کر شام بھاگ گیا اور وہاں مسلمہ بن عبدالملک کے ہاں جاکر پناہ لے لی۔
خلیفہ وقت یزید بن عبدالملک سے مسلمہ بن عبدالملک نے ابن ضحاک کے لئے معافی طلب کی لیکن اس نے معاف نہ کیا۔ بلکہ غصے سے کہنے لگے ایک عظیم خانوادہ کی جلیل القدر اور عظیم المرتبت خاتون اور اس کے ساتھ یہ ظالمانہ سلوک، یہ گھٹیا انداز میں اسے قطعاً معاف نہیں کروں گا۔ بلکہ اسے مدینہ منورہ عبدالواحد نضری کی عدالت میں پیش ہونے کا حکم صادر کردیا، جب یہ وہاں پہنچا تو مدینے کے گورنر جناب عبدالواحد بن عبداللہ النضری نے اس پر چالیس ہزار دینار جرمانہ عائد کر دیا اور اسے اون کا کھردرا اور تکلیف دہ لباس پہنا کر گلیوں میں پھرایا گیا۔ ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں حضرت فاطمہ بنت حسین کے حوالے سے ایک واقعہ نقل کیا ہے جس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ حضرت فاطمہ کی قدرو قیمت کیا تھی۔
ہوا یہ کہ حسن بن حسن نے مسور بن مخرمہ کی بیٹی کا اپنے لئے رشتہ مانگا جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا جاچکا ہے کہ عربوں میں اس انداز کو معیوب نہیں سمجھا جاتا،حسن بن حسن کے حرم میں پہلے سے فاطمہ بنت حسین موجود تھی۔ مسور بن مخرمہ نے مسکراتے ہوئے کہا:
”اے صاحبزادہ¿ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اگر آپ مجھ سے جوتے کے ایک تسمے کے بدلے میری بیٹی سے شادی کا مطالبہ کرتے تو میں برضاءورغبت اپنی بیٹی کو تیرے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک کردیتا لیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ فرماتے ہیں کہ فاطمہ میری شاخ ہے میرے دل کا ٹکڑا ہے۔ جو اس کو خوش کرے وہ مجھے خوش کرتا ہے جو اس کو ناراض کرے وہ مجھے ناراض کرتا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ اگر ان کی زندگی میں ان کی بیٹی کے تیرے نکاح میں ہوتے ہوئے کسی اور سے شادی کرتا تو وہ یقیناً ناراضگی کا اظہار کرتیں کیونکہ کوئی ماں بھی دلی طور پر یہ پسند نہیں کرتی کہ اس کی بیٹی پر کوئی سوتن آئے۔ میں خانوادہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضگی مول نہیں لے سکتا لہٰذا آپ میری طرف سے معذرت قبول کریں۔ اس واقعہ سے حضرت فاطمہ بنت حسین کا مقام ومرتبہ از خود آشکار ہوجاتا ہے۔
 
  • Like
Reactions: nrbhayo
Top