جنگل کے باسی

  • Work-from-home

Mahen

Alhamdulillah
VIP
Jun 9, 2012
21,845
16,877
1,313
laнore

فلاسفی کے نئے پروفیسر جب اپنی کلاس لینے کمرے میں داخل ہوئے تو صرف ایک ہی طالبہ کو حاضر دیکھ کر حیران رہ گئے۔ بیٹا باقی طلبہ نظر نہی آرہے ۔۔۔
سر میں اکیلی ہی فلاسفی کی طالبہ ہوں۔ سر میرا نام ردا ہے۔
پروفیسر صاحب سرکھجاتے ہوئے بولے۔۔۔۔ میرا اتنی دور سے یہاں تبادلہ صرف ایک طالبہکے لئے کیا گیا۔ چلو خیر یہ بھی کسی فلاسفی سے کم نہی ۔۔
ردا نے پریشان ہوتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔ سر آپ اپنا تبادلہ تو نہی کروائیں گے ؟
ارے نہی ردا۔ ایسا نہی ہوگا۔ آپ اگر علم حاصل کرنے کی طلب رکھتی ہیں تو ایک شاگرد بھی کافی ہے۔
سر ایک بات پوچھوں۔
ہاں پوچھو۔
آپ کہاں رہ رہے ہیں۔
یہیں قریب لالوکھیت میں۔
سر میں بھی وہیں رہتی ہوں۔ یہ پچھلی گلی کی نکر پر پیلے رنگ کا گھر۔ لال رنگ کا گیٹ۔
اچھا تو وہ آپ کا گھر ہے۔ دو گھر چھوڑ کر ہم آپ کےپڑوسی ہیں۔ اچھا برا نہی منانا۔ میں کل آپ کے گھر کے رنگوں کے امتزاج کی فلاسفی کوسمجھنے کی کوشش کررہا تھا۔۔۔ خیر چھوڑیں۔۔۔۔ آج تعارف ہی کافی ہے۔ کل کتاب کے پہلےصفحے سے شروعات کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارے کون ہے ۔ کمبختی مارا۔ دروازہ تو جیسے انہوں نے خرید کر لگایا ہے۔ ہلا کر رکھد یا ہے دروازہ۔ آرہی ہوں۔ خالہ نے دروازہ کھولا تو ردا نے خالہ کو فورا گلے سے لگالیا۔۔
ارے آج تو بٹیا کو بڑا پیار آرہا ہے۔ ضرور کوئی کام پڑ گیا ہوگا۔
ارے نہی خالہ ۔ بس دن اچھا گزرا آج ۔ سکون میں ہوں۔ آج فلاسفی کے نئے پروفیسر صاحب آئے ہیں۔ خالہ بڑی دور سے تبادلہ ہوا ہے انکا۔ اور مزے کی بات وہ آپ کے پڑوسی ہیں اور آپ کو خبر بھی نہی۔ بڑی اچھی اچھی باتیں کرتے ہیں وہ۔ فرشتہ لگتے ہیں قسم سے۔
ارے میں بھی کہوں یہ ساتھ والے گھر میں کیا ٹھک ٹھک ہو رہی ہے۔ ارے بٹیا کون ہے وہ۔ تم نے میرا اسے بتایا ؟
ارے خالہ وقت ہی نہی ملا۔ خیر کل آپ کے بارے بھی بتاوں گی۔
ارے بٹیا کافی اچھا اچھا بتانا میرےبارے۔ اور اسے بتانا ہمارے محلے کی سب سے پڑھی لکھی خاتوں ہوں میں۔ ارے ہمارے زمانے کا میٹرک تو آج کے بی اے کے برابر ہوتا تھا۔ اچھا یہ بتا یہ ہےکون۔ اپنے لوگوں میں سے ہے یا کہیں باہر سے آیا ہے؟
خالہ لگتے تو باہر کے ہی ہیں۔ ویسے خالہ ہمیں اس سے کیا لینا۔ میں نے شکر کیا ہےہمارے کالج کو فلاسفی کا پروفیسر مل گیا۔ اپنا کوئی اتنا علم رکھتا تو باہر سے کسی کو بلوانے کی کیا ضرورت تھی۔
بٹیا اگر اسے یہاں رہنا ہوگا تو اپنوں کی طرح۔ وہ اقبال گجر بھی تو رہ رہا ہے نا۔ وہ نکڑ پر جس کی دودھ کی دکان ہے۔ الطاف بھائی کی تصویر بھی دکان پر لگا رکھی ہے اس نے۔
ارے بٹیا میں تو کہتی ہو اس سے سارا علم حاصل کرکے اسی کالج میں پروفیسر لگ جا۔ اور یہ جہاں سےآیا ہے وہاں چلا جائے۔ خامخواہ ایک بچی کے لئے اتنی تنخواہ لے رہا ہے۔
اچھا خالہ میں چلتی ہوں۔ آپا جویریہ کو بھی رپورٹ دینی ہے ۔ کہیں اور سے اسے پتہ چل گیا تو ناراض ہو جائے گی۔ ارے خالہ ہاں یاد آیا۔ یہ سامنے جو جیوری چچا سبزی کی رہڑی لگاتے تھے ۔ وہ آج کل نظر نہی آرہے۔
ارے بٹیا اب ہرکوئی ہماری طرح گلی سڑی سبزیاں کم ریٹ پر خریدنے سے تو رہا۔ بس لوگوں نے خریدنا چھوڑ دیا۔ آج کل مندا جا رہا ہے بچارے کا۔۔۔اور بتا وہ سامنے والوں کا منا آج کل گلی میں نظر نہی آرہا ۔ روز دروازہ کھول کر دیکھتی ہوں ہڈن ہوگیا ہے۔ ۔ سامنے ہو تو اس سے ملتانی مٹی منگوانی تھی۔عرصہ ہوا کھائے ہوئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پروفیسر صاحب کو حجام کی دکان کے سامنے کافی دیر سوچتے دیکھ کر حجام نے خود ہی ان سے آ کر پوچھ لیا۔ صاحب جی کیا سوچ رہے ہیں۔ بال بنانے ہیں تو آجائیں۔ ہئر کٹ کے ساتھ شیو و فری ہے۔
پروفیسر صاحب نے حجام کو دیکھا اور پوچھا۔ یہ دکان پر لگا سائین۔ مرنڈا حجام۔ بھئی یہ کیا فلاسفی ہے ؟
صاحب جی پہلے میں یہاں ٹھنڈی بوتلیں بیچتا تھا۔ اس میں مندا ہو گیا۔ پھر اپنا جدی پشتی پیشہ شروع کرلیا۔ مرنڈا کی ڈیلر شپ تھی اپن کےپاس صاحب ۔ بس نام پڑ گیا۔ سب ا سی نا م سے جانتے تھے اپن کو۔ بس پھر اسی وجہ سے سائین بورڈ پر ٹھنڈی بوتل کو مٹا کر حجام لکھ دیا۔۔۔۔
پروفیسر صاحب مسکرا دئے۔ ۔ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن کالج میں ردا نے پروفیسر صاحب کو کسی سوچ میں گم دیکھا تو اس سے پوچھے بنا رہا ناگیا۔۔۔۔
سر کسی گہری سوچ لگتے ہیں۔
ہاں۔ میں کچھ سوچرہا تھا اس شہر کے بارے۔ یہ روشنیوں کاشہر تھا۔ آج روزانہ کسی نا کسی گھر میں شام گریباں ہوتی ہے۔ اس ماتم کدہ شہر کے باسی آخر کیوں ان حالات کے عادی ہوتے جارہے ہیں۔ لگتا ہے انہوں نے قتل و غارت اور حق تلقی کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ وہ اس میں راضی خوش ہوں۔ ردا کیا آپ کے آس پاس جو ہو رہا ہے ۔اس سے آپ آشنا ہو ؟
سر میں نے آنکھ ہی انہی حالات میں کھولی ہے۔ اب تو پڑوس میں کوئی مر جائے تو افسوس نہی ہوتا۔
ردا کیا آپ چاہو گی کہ آنے والی نسل بھی انہی حالات میں آنکھ کھولے ؟
کبھی نہی سر۔لیکن ہم کر بھی کیا سکتے ہیں۔ اگرکوئی بولے تو غدار کہہ کر اس کی بوری بنادی جاتی ہے۔
ردا۔ ایک بولے گا تو کمزور ہوگا۔ پچاس بولیں گے توپانچ سو ہو جائیں گے۔ جہاں اتقاق نہ ہو وہاں کا ہجوم بھیڑ بکریاں کہلاتا ہے۔ آپ لوگوں کو جانوروں میں اور خود کے فرق بارے صلاحیت ختم ہو جائے تو بیٹا جانوروں سےجنگل بستے ہیں۔ اور انسان کا ضمیر مردہ ہوجائے، انسانیت کا جذبہ ناپید ہوجائے۔ اچھے اور برے کی تمیز ختم ہوجائے تو انسان میں اور جانور میں کوئی فرق نہی۔ بلکہ میں تو کہوں گا وہ جانور ایسے انسان سے بہتر ہے جو قدرت کے تابع ہے۔
سر آپ کی باتوں نے تو مجھے ۔۔۔ بہت شرمندگی ہے۔ کیسے ہم کو آرڈر ملتا ہے۔ کل جلسہ ہے پہنچ جانا۔ سب وقت سے پہلے وہاں پہنچ جاتے ہیں۔اور پھر گھنٹو ں ۔۔۔۔ واقعی ہم کسی جنگل کے باسی ہیں۔
ہاں ہم جنگل کےباسی ہیں۔ ۔ہم جانوروں سے بھی بد تر ہیں۔۔۔۔۔ ہماری کوئی آواز نہی۔ کوئی رائے نہی ۔۔۔۔کوئی احتجاج نہی ۔۔۔اخلاقی اور ذہنی طور پردیوالیہ ہیں۔ پتہ نہی سر ہم کہاں جارہے ہیں۔ ۔۔۔۔
ردا کو جذباتی ہوتا دیکھ کر پروفیسر صاحب نے کلا س کو کل تک ختم کردیا۔۔۔۔
راستے میں پروفیسر صاحب سوچ رہے تھے۔ ذہن میں ایک شعر آگیا۔۔۔۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہی بدلی
نہ ہو جس میں شوق اپنی حالت کے بدلنے کا
 
Top