تقلید کی تعریف علماۓ احناف کے نزدیک

  • Work-from-home

Ghazal_Ka_Chiragh

>cRaZy GuY<
VIP
Jun 11, 2011
21,050
15,086
1,313
31
Karachi,PK
السلام علیکم
مقلدین کا مذہب ہر گز کسی حدیث و آیت کے خلاف نہیں اگرچہ بظاہر ایک حکم کسی محدث کے یہاں صحیح سند سے مروی حدیث کے موافق نہیں بھی واقع ہے مگر بعض آئمہ نے اپنے تک پہنچی برعکس صحیح روایت پر حکم بیان فرمایا اور بعض نے اسی حدیث مختلفۃ فی الحکم کے مطابق حکم بیان کیا کیونکہ صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمٰعین سے اختلاف عمل ثابت ہے.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف یہ منسوب کیا کہ حضور نے فرمایا" الوضوء مما مست النار جسے آگ نے چھوا ہو اس سے وضوء ہے" حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ روایت بیان کی تو وہاں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما بھی موجود تھے انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے سامنے یہ معارضہ پیش کیا "انتوضاءمن الدھن انتوضاء من الحمیم کیا تیل کے استعمال سے یا گرم پانی کے استعمال سے وضوء ٹوٹ جائے گا?" اس کے جواب میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے بھتیجے جب حدیث رسول بیان کروں تو مثالیں نہ دیا کرو! مگر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما قائم رہے اور آج تک یہی جمہور کا مذھب ہے کیا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما اور جمہور امت کو یہ التزام دیا جا سکتا ہے کہ انھوں نے قیاس شرعی کی بناء پر حدیث کو ترک کیا?
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے یہ حدیث بیان کی کہ "جو جنازہ اٹھائے وضوء کرے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما نے کہا ھل یلزمنا الوضوء من حمل عید ان یا بسۃ کیا سوکھی لکڑیاں اٹھانے سے ہم پر وضوء لازم ہے? حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما کے اس موخذہ پر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ خاموش ہو گئے
نزھۃ القاری شرح صحیح البخاری جلد 1
یقینا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما کے پاس اس کے برعکس حدیث کا علم ہونا بھی ممکن ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ وعمل کا علم قطعی
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عورتوں کو مسجد جانے سے روک دیا تو انھوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھما کی خدمت میں شکایت کی. آپ نے فرمایا. اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہ حالات مشاہدہ فرماتے جو حضرت عمررضی اللہ عنہ مشاہدہ کر رہے ہیں تو وہ بھی تم کو مسجد جانے کی اجازت نہ عطا فرماتے
مسلم شریف، ص 266، ج-1، باب استحباب صلاۃ النافلہ فی بیتہ، ناسر مجلس برکات
کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح حکم نہ تھا کہ عورتوں کو مسجد میں جانے سے نہ روکو!? اورکیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر حدیث رد کرنے یا چھوڑنے کا الزام بطریق تنقیص لگایا جا سکتا ہے، اور پھر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھما نے بھی خلاف حدیث امرکی تصدیق کر دی اورحدیث پر قول کو فوقیت دی? تف ایسی فتنہ پرور سوچ پر جو حدیث کے نام پر مسلمانوں کے اذہان منتشر کر کے آئمہ کے ان مسائل مختلف فیہ جو دالائل شرعیہ پر مبنی ہیں پر تنقید کرتے ہیں اور خود کو حدیث کا عامل بتاتے ہیں. ہر گز ہرگز تقلید کے بغیر حدیث پر عمل نہ کر پائیں گے.
عمل کا اختلاف خود نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھی ہوا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تہجد کی نماز بالجہر ادا فرماتے تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بالسر، اور ایسے کئی اختلافات کو نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمٰعین کی نیتوں کے موافق جائز رکھا اورصحابہ رضوان اللہ علیھم اجمٰعین کی نیتیں قرآن و سنت ہی کے پیش نظر تھیں.
حضرت ابو سعید بن معلٰی رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ میں مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا اتنے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا میں فورا حاضر بارگاہ نہ ہوا کچھ دیر بعد حاضرہو کرعرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نماز پڑھ رہا تھا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا اللہ عزوجل نے یہ حکم نہیں دیا کہ "اللہ اور رسول بلائیں تو حاضر ہو جاؤ"
صحیح بخاری، ص 642، ج 2
نماز توڑنا گناہ ہے مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پرحاضر ہونا اس سے بڑا فرض. حدیث کا نام لینے والے یہ بتائیں اگرآئمہ دالائل شرعی بیان کرکے امت کو فرض و واجب و سنت اور مستحب میں تمیز نہ بتاتے تو کس حدیث سے عمل کا صحیح ہونا پتا چلتا? فرض و واجب ومستحب جمع ہو جائیں تو کیا اپنے دل پر چلیں جو آسان لگے کر لیں?
شرعی اصول یہ ہے کہ اگر شرعی دلیل (قرآن و سنت و اجماع امت و قیاس شرعی، ضرورت شرعی، حاجت شرعی، عموم بلوٰی، عرف شرعی، تعامل شرعی، مصلحت شرعی اور ازالہء فساد) کا نا قابل عمل صحیح حدیث (کیوں کہ ہر حدیث پر عمل ممکن نہیں) سے معارضہ پیش آ جائے یعنی باہم حکم میں الگ الگ یا مختلف ہوں تو شرعی دالیل پر عمل کیا جائے گا اور معارض حکم کو چھوڑ دیا جائے گا. اک مثال
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحت کے ساتھ ثابت ہے کہ نماز کا تارک کافر ہے" صحیح مسلم، ص 232، ج 1، ناشر مجلس برکات
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت ایک نماز کا بھی ترک، عرف و علامت کفر تھا مگر مسلمان کے عمل کی وجہ سے یہ عرف و علامت بدل گیا علامت فسق و فجور بن گیا اس لیے اب اگر کسی نے جان بوجھ کر نماز ادا نہ کی تو فاسق کہلائے گا.
محدثین میں جو اختلاف ہے وہ اسناد پر ہے. کئی احادیث جو سند کے اعتبار سے ضعیف جان کر امام بخاری نے صحیح بخاری میں شامل نہیں کیں ان متروکہ احادیث میں سے کچھ امام مسلم نے صحیح مسلم میں صحیح روایت سے ذکر کیں. امام بخاری کو ایک لاکھ صحیح احادیث حظ تھیں جبکہ صحیح بخاری میں چار ہزار کے قریب صحیح احادیث ہیں. آج تک کسی نے بھی نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام احادیث کا احاطہ ء یاداشت نہیں کیا امام بخاری نے بھی بتوفیق الہی احادیث جمع کیں مگر نہ جانے کتنی احادیث ان تک نہیں پہنچی تو کوئی کیسے امام بخاری و دیگر محدثین کی چند احادیث پیش کرکے آئمہ کے مذاہب کو خلاف حدیث ٹھرا سکتا ہے? حالانکہ امام اعظم رحمۃ اللہ ان سے پہلے کے دور میں تھے جب احادیث جمع کرنے کا رواج یا ضرورت اس قدر پیش نہیں آئی تھی اگر ان پر یہ اعتراض رواں ہو سکتا ہے کہ انھوں نے صحیح احادیث کو چھوڑا تو پھریہ لوگ توصحابہ رضوان اللہ علیھم اجمٰعین پر بھی یہ الزام لگانے سے نہیں ڈریں گے
فَسـَٔلوا أَهلَ الذِّكرِ إِن كُنتُم لا تَعلَمونَ (النحل:۴۳والانبیا:۷) پس تم سوال کرو اہل علم (علماء) سے، اگر تم نہیں علم رکھتے"
اللہ علماء سے پوچھے ہوئے پر عمل کو مشروع کرتا ہے اور یہ لوگ ان علماء کے بتائے ہوئے پر تحقیق کا اضافی حکم دیتے ہیں اللہ نے تو یہ تحقیق سب پر فرض نہیں کی پوچنے کو عمل کے لیے مشروع کیا فقط تو جوصورت مذکورۃ میں اللہ کے حکم کو مانتے ہوئے بطریق تقلید مجتھد کے قول پر عمل کرتا ہے اس کے لیے اتنا ہی کافی ہے.
میں ٹی ایم سے مفرور اس لیے ہوں کہ یہاں آ کر باخدا میرا قیمتی وقت خراب ہوتا ہے یہاں کے اکثر لوگوں کی عادت ہے کہ جو وہ قرآن و حدیث کے ظاہری معنٰی سے غلط تعبیر لے کر علماء و فقہا اکرام کی تعلیمات کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں افسوس یہ کہ انہیں شرعی دلیل اور ذاتی رائے میں بھی تمیز نہیں پھران لوگوں کا سلوک یہ ہے کہ اگر کوئی بات سمجھائی جائے تو پے در پے اعتراض کرتے رہیں گے اور من مانتی کے سواء پرعمل نہیں کریں گے اور نام قرآن و حدیث کا لے لینگے، ان کے جوابات میں وقت دینا فضول ہے.
ان کے نزدیک قیاس و اجتھاد و اجماع امت شرعی دلیل نہیں ہوتے ان کا بیان ہے "شرعی دلیل صرف قرآن اور حدیث کا نام ہے" اگر کوئی مسلمان تو کیا، کافر قرآن و حدیث کی عبارت کا حوالہ دے کر اپنا مذھب ثابت کرنا چاہے تووہ بات انکے لیے دالیل شرعی ہو گی! اور سمجھیں گے ہم قرآن و حدیث پر عمل پیرا ہیں ان کا گمان ہے فقہا میں اگر کوئی کامل ہوتا تو ان میں اختلاف نہ ہوتا تو جو صحابہ رضوان اللہ علیھم میں فقہی اختلاف تھا اس کا بھی انہیں انکار کر دینا درست لگتا ہوگا. نعوذ اللہ! وہ بھی کامل نہیں! ان کی پیروی کامیابی کی ذمانت نہیں! نعوذ اللہ! ان کا وقتی مشروعیت اصول ہے " تو وقتی طور پر تو وہ صحابی، تابعی یا محدثین کرام کے قول کے مطابق فتویٰ دے سکتا ہے" افسوس! جن ستاروں کی پیروی کو نص حدیث میں ہدایت پانا فرمان ہوا اسے بھی وقتی بنا دیا! یعنی جب من منا تو قول بھی دالیل،،،، نعوذ اللہ! اگران ہستیوں کے مابین اختلاف رہا تو کسی نہ کسی شرعی دلیل کے تحت رہا اور اس کی بنیاد علمی تفاوت بنی، ہرعلم والے پر اک زیادہ علم والا ہے کما جآء فی قولہ تعالٰی.
Thread ka title tak parha nahin janaab aap ne aur
taqleed ki tareef bayan karne lage agar
aap muqallid hi ho to ooper ki janib jo
ulma ke bayanaat hain wo bhi ehl e ahnaf ke ulma hain
unse bhi zyaada ilm aapko to nahin hi hoga ??
so aap unki bi taqleed karo unhone jesa bola taqleed
ko aap qabool karo ke unhone sahi hi bola hai

ya phir inki taqleed na karke jese ke aap ne nahin hi kiya
ye saabit karo ke aalim koi bhi ho hamesha uska fatwa sahi nahin hota
kisi bhi aalim ka har ISLAMI qoul sahi nahin hota
balke sahi sirf us hi qoul ko maanna chaahiye jo QURANI ayaah aur
ahadeeth ke bilkul mutabiq hai choice is yours aur ab mauzu ke mutaliq
jawaab dijiyega ghuma phira kar nahin sirf ye batana hai aap ko ke
ooper ki janib jo ulma taqleed ke mutaliq bataae ke taqleed kya hai ??
aap use sahi maante hain ya nahin ??
 

arifmaqsood1125

Regular Member
Jul 13, 2012
128
177
43
Karachi
احناف کی مذکورہ تعریفات تقلید کے درست ہونے کا ثبوت تو صحیح البخاری شریف دے رہی ہے
عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ اہل مدینہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس عورت کے متعلق سوال کیا جوطواف زیارت کر چکی تھی پھر اس کو حیض آگیا (آیا وہ طواف و داع کیے بغیر اپنے وطن واپس جا سکتی ہے?) حضرت ابن عباس نے فرمایا ہاں وہ جاسکتی ہے
(حضرت زید بن ثابت یہ کہتے تھے کہ وہ طواف و داع کیے بغیر نہیں جاسکتی) انہوں نےکہا ہم آپ کے قول پرعمل کر کے حضرت زید کے قول کو نہیں چھوڑیں گے. حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا جب تم مدینہ جاؤ تو اس مسئلہ کو معلوم کر لینا، انہوں نے مدینہ پہنچ کر اس مسئلہ کو معلوم کیا، انہوں نے حضرت ام سلیم سے پوچھا، حضرت ام سلیم نے حضرت صفیہ کی حدیث بیان کی
صحیح البخاری، رقم الحدیث 1758، مطبوعہ دارا رقم بیروت

اہل مدینہ کے صحابہ رضوان اللہ نے معین شخص صحابی رسول حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہما کے قول کو بلا دالیل بغیر سوچے سمجھے اس اعتقاد کے ساتھ کہ جو کچھ وہ فرما رہے ہیں وہی حق ہے قبول کیا ورنہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی بات ماننے سے انکار نہ کرتے
واللہ اعلم
 

shizz

Active Member
Sep 26, 2012
157
390
113
pakistan
احناف کی مذکورہ تعریفات تقلید کے درست ہونے کا ثبوت تو صحیح البخاری شریف دے رہی ہے
عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ اہل مدینہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس عورت کے متعلق سوال کیا جوطواف زیارت کر چکی تھی پھر اس کو حیض آگیا (آیا وہ طواف و داع کیے بغیر اپنے وطن واپس جا سکتی ہے?) حضرت ابن عباس نے فرمایا ہاں وہ جاسکتی ہے
(حضرت زید بن ثابت یہ کہتے تھے کہ وہ طواف و داع کیے بغیر نہیں جاسکتی) انہوں نےکہا ہم آپ کے قول پرعمل کر کے حضرت زید کے قول کو نہیں چھوڑیں گے. حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا جب تم مدینہ جاؤ تو اس مسئلہ کو معلوم کر لینا، انہوں نے مدینہ پہنچ کر اس مسئلہ کو معلوم کیا، انہوں نے حضرت ام سلیم سے پوچھا، حضرت ام سلیم نے حضرت صفیہ کی حدیث بیان کی
صحیح البخاری، رقم الحدیث 1758، مطبوعہ دارا رقم بیروت
اہل مدینہ کے صحابہ رضوان اللہ نے معین شخص صحابی رسول حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہما کے قول کو بلا دالیل بغیر سوچے سمجھے اس اعتقاد کے ساتھ کہ جو کچھ وہ فرما رہے ہیں وہی حق ہے قبول کیا ورنہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی بات ماننے سے انکار نہ کرتے
واللہ اعلم
جزاک الله بھائی آپ نے اس حدیث کو بیان کر کے تقلید کا رد ثابت کر دیا ہے، اور وہ کس طرح سے یہ میں آپکو بتاتی ہوں
اہل مدینہ نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہما کے فتوے پر اعتماد نہیں کیا یعنی ان کی تقلید نہیں کی بلکہ تحقیق کے لیے ابن عبّاس رضی اللہ عنہما کے پاس پہنچے کیوں کہ اپنے امام کے فتوے کی تحقیق کے لیے دوسرے امام کے پاس جانا تقلید نہیں بلکہ تحقیق ہے، لہذا یہ روایت تقلید کی تردید کرتی ہے تائید نہیں
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ بھی نہیں فرمایاکہ تم مقلد ہو لہذا تمہیں تحقیق کی ضرورت نہیں بلکہ مزید تحقیق کے لیے ارشاد فرمایاگویا تقلید کے پرخچے اڑا دیے
ان حضرات نے بھی تحقیق میں کوئی کسر نہ چھوڑی بلکہ مدینہ منوّرہ پہنچتے ہی ام سلیم سے دریافت کیا اور خود ہی رجوع نہیں فرمایا بلکہ اپنے امام کی بھی اصلاح کی
جیسا کہ آپ نے اپنی دوسری پوسٹ میں حافظ ابن حجرکااس حدیث کے حوالے سے قول نقل کیا کہ
حافظ ابن حجر عسقلانی متوفی 852 ھ نے سنن ابو داؤد طیالسی کے حوالے سے لکھا ہے کہ انصار نے کہا اے ابن عباس! جب آپ زید کی مخالفت کریں گے تو ہم آپ کی اتباع نہیں کریں گے، اور سنن نسائی کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب حضرت زید بن ثابت کو حضرت صفیہ کی حدیث کا علم ہوا تو انہوں نے اپنے موقف سے رجوع کر لیا
کیا کوئی مقلد ایسا کر سکتا ہے کہ تحقیق کرتا رہے اور اس وقت تک چین سے نہ بیٹھے جب تک مسئلے کی دلیل واضح طور پر سامنے نہ آ جاۓ اور پھر تحقیق شدہ مسئلہ کو اپنے امام سے بھی منوانے کی کوشش کرے یہ سب کچھ تقلید کی تردید ہے ہمارے لیے یہ بات باعث خوشی ہے کہ آپ نے اس حدیث کو بیان کر کے لوگوں
کے علم میں اضافہ فرما یا اور حدیث سے تقلید کا رد ثابت کیا
اس حدیث کی روشنی میں اب یہ فرما دیجیے کہ کیا حنفی مقلد کسی شافعی عالم سے کسی مسئلے کی تحقیق کر کے اس مسئلے سے رجوع کر سکتا ہے؟ اگر وہ ایک مسئلے میں تحقیق کر سکتا ہے تو ہر مسئلے میں تحقیق کر سکتا ہے یا نہیں؟اگر کر سکتا ہے تو وہ مقلد رہے گا یا محقق؟
اب یہ بھی بتا دیجیے کہ کیا اہل مدینہ اب بھی زید بن ثابت رضی اللہ عنہما کی تقلید کرتے ہیں؟ اگر نہیں تو کیوں؟
[DOUBLEPOST=1356157380][/DOUBLEPOST]
Thread ka title tak parha nahin janaab aap ne aur
taqleed ki tareef bayan karne lage agar
aap muqallid hi ho to ooper ki janib jo
ulma ke bayanaat hain wo bhi ehl e ahnaf ke ulma hain
unse bhi zyaada ilm aapko to nahin hi hoga ??
so aap unki bi taqleed karo unhone jesa bola taqleed
ko aap qabool karo ke unhone sahi hi bola hai

ya phir inki taqleed na karke jese ke aap ne nahin hi kiya
ye saabit karo ke aalim koi bhi ho hamesha uska fatwa sahi nahin hota
kisi bhi aalim ka har ISLAMI qoul sahi nahin hota
balke sahi sirf us hi qoul ko maanna chaahiye jo QURANI ayaah aur
ahadeeth ke bilkul mutabiq hai choice is yours aur ab mauzu ke mutaliq
jawaab dijiyega ghuma phira kar nahin sirf ye batana hai aap ko ke
ooper ki janib jo ulma taqleed ke mutaliq bataae ke taqleed kya hai ??
aap use sahi maante hain ya nahin ??
جزاک الله بھائی بہت زبردست
 

Ghazal_Ka_Chiragh

>cRaZy GuY<
VIP
Jun 11, 2011
21,050
15,086
1,313
31
Karachi,PK
جزاک الله بھائی آپ نے اس حدیث کو بیان کر کے تقلید کا رد ثابت کر دیا ہے، اور وہ کس طرح سے یہ میں آپکو بتاتی ہوں
اہل مدینہ نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہما کے فتوے پر اعتماد نہیں کیا یعنی ان کی تقلید نہیں کی بلکہ تحقیق کے لیے ابن عبّاس رضی اللہ عنہما کے پاس پہنچے کیوں کہ اپنے امام کے فتوے کی تحقیق کے لیے دوسرے امام کے پاس جانا تقلید نہیں بلکہ تحقیق ہے، لہذا یہ روایت تقلید کی تردید کرتی ہے تائید نہیں
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ بھی نہیں فرمایاکہ تم مقلد ہو لہذا تمہیں تحقیق کی ضرورت نہیں بلکہ مزید تحقیق کے لیے ارشاد فرمایاگویا تقلید کے پرخچے اڑا دیے
ان حضرات نے بھی تحقیق میں کوئی کسر نہ چھوڑی بلکہ مدینہ منوّرہ پہنچتے ہی ام سلیم سے دریافت کیا اور خود ہی رجوع نہیں فرمایا بلکہ اپنے امام کی بھی اصلاح کی
جیسا کہ آپ نے اپنی دوسری پوسٹ میں حافظ ابن حجرکااس حدیث کے حوالے سے قول نقل کیا کہ
حافظ ابن حجر عسقلانی متوفی 852 ھ نے سنن ابو داؤد طیالسی کے حوالے سے لکھا ہے کہ انصار نے کہا اے ابن عباس! جب آپ زید کی مخالفت کریں گے تو ہم آپ کی اتباع نہیں کریں گے، اور سنن نسائی کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب حضرت زید بن ثابت کو حضرت صفیہ کی حدیث کا علم ہوا تو انہوں نے اپنے موقف سے رجوع کر لیا
کیا کوئی مقلد ایسا کر سکتا ہے کہ تحقیق کرتا رہے اور اس وقت تک چین سے نہ بیٹھے جب تک مسئلے کی دلیل واضح طور پر سامنے نہ آ جاۓ اور پھر تحقیق شدہ مسئلہ کو اپنے امام سے بھی منوانے کی کوشش کرے یہ سب کچھ تقلید کی تردید ہے ہمارے لیے یہ بات باعث خوشی ہے کہ آپ نے اس حدیث کو بیان کر کے لوگوں کے علم میں اضافہ فرما یا اور حدیث سے تقلید کا رد ثابت کیا
اس حدیث کی روشنی میں اب یہ فرما دیجیے کہ کیا حنفی مقلد کسی شافعی عالم سے کسی مسئلے کی تحقیق کر کے اس مسئلے سے رجوع کر سکتا ہے؟ اگر وہ ایک مسئلے میں تحقیق کر سکتا ہے تو ہر مسئلے میں تحقیق کر سکتا ہے یا نہیں؟اگر کر سکتا ہے تو وہ مقلد رہے گا یا محقق؟
اب یہ بھی بتا دیجیے کہ کیا اہل مدینہ اب بھی زید بن ثابت رضی اللہ عنہما کی تقلید کرتے ہیں؟ اگر نہیں تو کیوں؟
[DOUBLEPOST=1356157380][/DOUBLEPOST]
جزاک الله بھائی بہت زبردست
JAZAKALLAH khairaan bohot hi zabardast post @shizz behna bilkul hi durust kaha aap ne
kis tarah eik seedhe hadeeth ko taqleed ki taraf ghumaya ja raha hai saaf naraz aa raha hai
ALLAH bachaaye taqleed se humen Aameen

احناف کی مذکورہ تعریفات تقلید کے درست ہونے کا ثبوت تو صحیح البخاری شریف دے رہی ہے
عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ اہل مدینہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس عورت کے متعلق سوال کیا جوطواف زیارت کر چکی تھی پھر اس کو حیض آگیا (آیا وہ طواف و داع کیے بغیر اپنے وطن واپس جا سکتی ہے?) حضرت ابن عباس نے فرمایا ہاں وہ جاسکتی ہے
(حضرت زید بن ثابت یہ کہتے تھے کہ وہ طواف و داع کیے بغیر نہیں جاسکتی) انہوں نےکہا ہم آپ کے قول پرعمل کر کے حضرت زید کے قول کو نہیں چھوڑیں گے. حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا جب تم مدینہ جاؤ تو اس مسئلہ کو معلوم کر لینا، انہوں نے مدینہ پہنچ کر اس مسئلہ کو معلوم کیا، انہوں نے حضرت ام سلیم سے پوچھا، حضرت ام سلیم نے حضرت صفیہ کی حدیث بیان کی
صحیح البخاری، رقم الحدیث 1758، مطبوعہ دارا رقم بیروت
اہل مدینہ کے صحابہ رضوان اللہ نے معین شخص صحابی رسول حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہما کے قول کو بلا دالیل بغیر سوچے سمجھے اس اعتقاد کے ساتھ کہ جو کچھ وہ فرما رہے ہیں وہی حق ہے قبول کیا ورنہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی بات ماننے سے انکار نہ کرتے
واللہ اعلم
Subse pehle inhone hadeeth peish karke kaha ke isse saabit hai taqleed durust hai
lekin goya hadeeth me tehqeeq tehqeeq ka lafz dikh raha hai taqleed ka zikr tak nahin
doosri baat taqleed ka rad khud janab ne apne mazkoora bala post mein kar diya hai
wo aise ke ehl e ahnaaf ke ulma ne jo baaten taqleed ke hawale se kahin thin unhen
radd karne ki koshish me bukhaari ki hadeeth peish ki
to kya ehl e ahnaaf ke ulma se zyada inme aqal hai ?? agar ye hadeeth Bukhaari me hai
aur iska maqsad taqleed hi hai to kya ehl e ahnaaf ke wo ulma jinka mazkoora baala
zikr hai wo ahadeeth ke munkir hain ?? Sahih Bukhaari ke ahadeeth ke munkir hain
teesri baat jab Muslim bhai Star behna Shizz behna Lovely bhai ya mene ulma e ahnaaf ke
kisi baat ko ghalat kaha aur us per hadeeth di to yehi hazraat bole ke ehl e ahnaaf ko
badnaam kiya ja raha hai saada loh MUSALMAANON ke aage eik taraf hadeeth rakhi
jaa rahi hai doosri taraf imam ka qoul bola ja raha hai kis per amal karoge ??
so is post mein khud Arif mohtaram ne kya kiya hai ?? taqleed ki tareef jo ulma e ahnaaf
ne ki thi usse radd karke sahih hadeeth peish kar di ?? iska matlab ke ulma se khataen hoti hain ??
har muaamle mein wo durust nahin hote ?? unki har baat ahadeeth ke ayn mutabiq nahin hoti ??
taqleed durust nahin ?? kyunke Arif mohtaram ne yahan taqleed ka muzahira nahin kiya balke
daleel peish ki jo ke tehqeeq ki nishandahi hai taqleed ki hargiz nahin .
 

kingnomi

Doctor
Super Star
Jan 7, 2009
12,873
10,849
1,313
Owsum , Superb , Very Nice :P
Thread ka title tak parha nahin janaab aap ne aur
taqleed ki tareef bayan karne lage agar
aap muqallid hi ho to ooper ki janib jo
ulma ke bayanaat hain wo bhi ehl e ahnaf ke ulma hain
unse bhi zyaada ilm aapko to nahin hi hoga ??
so aap unki bi taqleed karo unhone jesa bola taqleed
ko aap qabool karo ke unhone sahi hi bola hai

ya phir inki taqleed na karke jese ke aap ne nahin hi kiya
ye saabit karo ke aalim koi bhi ho hamesha uska fatwa sahi nahin hota
kisi bhi aalim ka har ISLAMI qoul sahi nahin hota
balke sahi sirf us hi qoul ko maanna chaahiye jo QURANI ayaah aur
ahadeeth ke bilkul mutabiq hai choice is yours aur ab mauzu ke mutaliq
jawaab dijiyega ghuma phira kar nahin sirf ye batana hai aap ko ke
ooper ki janib jo ulma taqleed ke mutaliq bataae ke taqleed kya hai ??
aap use sahi maante hain ya nahin ??
Superb Chiragh Ab dekho goal ho gaya tumhara sawal aur post Hahahah
Allah hi hidayat day Ameen[DOUBLEPOST=1356170815][/DOUBLEPOST]
جزاک الله بھائی آپ نے اس حدیث کو بیان کر کے تقلید کا رد ثابت کر دیا ہے، اور وہ کس طرح سے یہ میں آپکو بتاتی ہوں
اہل مدینہ نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہما کے فتوے پر اعتماد نہیں کیا یعنی ان کی تقلید نہیں کی بلکہ تحقیق کے لیے ابن عبّاس رضی اللہ عنہما کے پاس پہنچے کیوں کہ اپنے امام کے فتوے کی تحقیق کے لیے دوسرے امام کے پاس جانا تقلید نہیں بلکہ تحقیق ہے، لہذا یہ روایت تقلید کی تردید کرتی ہے تائید نہیں
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ بھی نہیں فرمایاکہ تم مقلد ہو لہذا تمہیں تحقیق کی ضرورت نہیں بلکہ مزید تحقیق کے لیے ارشاد فرمایاگویا تقلید کے پرخچے اڑا دیے
ان حضرات نے بھی تحقیق میں کوئی کسر نہ چھوڑی بلکہ مدینہ منوّرہ پہنچتے ہی ام سلیم سے دریافت کیا اور خود ہی رجوع نہیں فرمایا بلکہ اپنے امام کی بھی اصلاح کی
جیسا کہ آپ نے اپنی دوسری پوسٹ میں حافظ ابن حجرکااس حدیث کے حوالے سے قول نقل کیا کہ
حافظ ابن حجر عسقلانی متوفی 852 ھ نے سنن ابو داؤد طیالسی کے حوالے سے لکھا ہے کہ انصار نے کہا اے ابن عباس! جب آپ زید کی مخالفت کریں گے تو ہم آپ کی اتباع نہیں کریں گے، اور سنن نسائی کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب حضرت زید بن ثابت کو حضرت صفیہ کی حدیث کا علم ہوا تو انہوں نے اپنے موقف سے رجوع کر لیا
کیا کوئی مقلد ایسا کر سکتا ہے کہ تحقیق کرتا رہے اور اس وقت تک چین سے نہ بیٹھے جب تک مسئلے کی دلیل واضح طور پر سامنے نہ آ جاۓ اور پھر تحقیق شدہ مسئلہ کو اپنے امام سے بھی منوانے کی کوشش کرے یہ سب کچھ تقلید کی تردید ہے ہمارے لیے یہ بات باعث خوشی ہے کہ آپ نے اس حدیث کو بیان کر کے لوگوں کے علم میں اضافہ فرما یا اور حدیث سے تقلید کا رد ثابت کیا
اس حدیث کی روشنی میں اب یہ فرما دیجیے کہ کیا حنفی مقلد کسی شافعی عالم سے کسی مسئلے کی تحقیق کر کے اس مسئلے سے رجوع کر سکتا ہے؟ اگر وہ ایک مسئلے میں تحقیق کر سکتا ہے تو ہر مسئلے میں تحقیق کر سکتا ہے یا نہیں؟اگر کر سکتا ہے تو وہ مقلد رہے گا یا محقق؟
اب یہ بھی بتا دیجیے کہ کیا اہل مدینہ اب بھی زید بن ثابت رضی اللہ عنہما کی تقلید کرتے ہیں؟ اگر نہیں تو کیوں؟
[DOUBLEPOST=1356157380][/DOUBLEPOST]
جزاک الله بھائی بہت زبردست
Behna Boht Zabardast ...

Waise Boht Se Aalim loug Talaq Kay Maslay Mien ajatay hain puchnay kay fatwa chaye 3 talaq ka :) , Dusre Maslon mien bhi aik dusre taawun karien toh yeh jhagda hi khatam ho jaye :)

Jazaka'Allah
 

i love sahabah

TM Star
Sep 17, 2008
1,108
1,572
1,313
JAZAKALLAH khairaan bohot hi zabardast post @shizz behna bilkul hi durust kaha aap ne
kis tarah eik seedhe hadeeth ko taqleed ki taraf ghumaya ja raha hai saaf naraz aa raha hai
ALLAH bachaaye taqleed se humen Aameen



Subse pehle inhone hadeeth peish karke kaha ke isse saabit hai taqleed durust hai
lekin goya hadeeth me tehqeeq tehqeeq ka lafz dikh raha hai taqleed ka zikr tak nahin
doosri baat taqleed ka rad khud janab ne apne mazkoora bala post mein kar diya hai
wo aise ke ehl e ahnaaf ke ulma ne jo baaten taqleed ke hawale se kahin thin unhen
radd karne ki koshish me bukhaari ki hadeeth peish ki
to kya ehl e ahnaaf ke ulma se zyada inme aqal hai ?? agar ye hadeeth Bukhaari me hai
aur iska maqsad taqleed hi hai to kya ehl e ahnaaf ke wo ulma jinka mazkoora baala
zikr hai wo ahadeeth ke munkir hain ?? Sahih Bukhaari ke ahadeeth ke munkir hain
teesri baat jab Muslim bhai Star behna Shizz behna Lovely bhai ya mene ulma e ahnaaf ke
kisi baat ko ghalat kaha aur us per hadeeth di to yehi hazraat bole ke ehl e ahnaaf ko
badnaam kiya ja raha hai saada loh MUSALMAANON ke aage eik taraf hadeeth rakhi
jaa rahi hai doosri taraf imam ka qoul bola ja raha hai kis per amal karoge ??
so is post mein khud Arif mohtaram ne kya kiya hai ?? taqleed ki tareef jo ulma e ahnaaf
ne ki thi usse radd karke sahih hadeeth peish kar di ?? iska matlab ke ulma se khataen hoti hain ??
har muaamle mein wo durust nahin hote ?? unki har baat ahadeeth ke ayn mutabiq nahin hoti ??
taqleed durust nahin ?? kyunke Arif mohtaram ne yahan taqleed ka muzahira nahin kiya balke
daleel peish ki jo ke tehqeeq ki nishandahi hai taqleed ki hargiz nahin .
Asalam o alikum to all muslims
Chiragh bahi ye to aap logu ki soch hay k ahnaf ne ulama ko masoom samjha hay warna koi bhi hanfi, malaki, hambli, aor shaafi ksi bhi imam ka muqalid ho wo kabhi ye nahin kehta aor samjhta k un ka koi aalim masoom hay ya ksi se ghlati nahin ho sakti............
allama ibn teymeya(RA) ka ye qoul es haqeeqat ko bayan karny k liye kaafi hay k
In the words of Imam Ibn Taimiya (r.a) :
We have explained in our risala "رفع الملام ان الائمہ الاعلام" that no Imam (Scholor) among the Aimahs (Scholors) of Islam has contradicted or gone against a Sahih Hadith without a valid reason. Infact they had nearly twenty (20) reasons for leaving a Sahih Hadith. [مجموع الفتاوى : ٢٠/٣٠٤]
ab ye aor baat hay k ALLAMA IBN TEYMYEA(ra) ne ayema karam(RA) ki tareef kar di aor un k jo aqwal ahadees k khilaf nazar aa rahy hain un ki wajah bayan kar di lakin kyun k kuch logu ko shayed ye pasand nahin k ayema karam(RA) ki koi tareef bayan ki jaye es liye yahan ALLAMA IBN TEYMYEA(ra) ki baat bhi mardood ho jay.
 

Ghazal_Ka_Chiragh

>cRaZy GuY<
VIP
Jun 11, 2011
21,050
15,086
1,313
31
Karachi,PK
Asalam o alikum to all muslims
Chiragh bahi ye to aap logu ki soch hay k ahnaf ne ulama ko masoom samjha hay warna koi bhi hanfi, malaki, hambli, aor shaafi ksi bhi imam ka muqalid ho wo kabhi ye nahin kehta aor samjhta k un ka koi aalim masoom hay ya ksi se ghlati nahin ho sakti............
allama ibn teymeya(RA) ka ye qoul es haqeeqat ko bayan karny k liye kaafi hay k
In the words of Imam Ibn Taimiya (r.a) :
We have explained in our risala "رفع الملام ان الائمہ الاعلام" that no Imam (Scholor) among the Aimahs (Scholors) of Islam has contradicted or gone against a Sahih Hadith without a valid reason. Infact they had nearly twenty (20) reasons for leaving a Sahih Hadith. [مجموع الفتاوى : ٢٠/٣٠٤]
ab ye aor baat hay k ALLAMA IBN TEYMYEA(ra) ne ayema karam(RA) ki tareef kar di aor un k jo aqwal ahadees k khilaf nazar aa rahy hain un ki wajah bayan kar di lakin kyun k kuch logu ko shayed ye pasand nahin k ayema karam(RA) ki koi tareef bayan ki jaye es liye yahan ALLAMA IBN TEYMYEA(ra) ki baat bhi mardood ho jay.


Wa'alaikumussalaam Mohsin bhai bila shuba aaiyma e karam REHMATULLAH alaehe ki tareef
karen wo bare bare aalim guzre hain aur bila shuba unhone agar koi fatwa sahi hadeeth ke khilaf
diya so wo unki ghalti rahi naa ke jaan boojh kar aur ye meri soch nahin ke ehl e ahnaaf ke ulma
ke nazdeek aisi baat hai balke ehl e ahnaaf khud apne kutub mein yahan tak likh chuke hain ke
Hadrat Abdul Qadir Jilani REHMATULLAH alaehe ki aankh ki putli loh e mehfooz me lagi huwi hai
aur ehl e Ahnaaf ke baaz lougon ke aise bhi aqwaal hain ke ulma to kya ?? AOLIA ALLAH hote hi
la khata hain so ab jiske nazariye ke hisab se kisi ke aankh ki putli loh e mehfooz me lagi ho wo
bhala us shakhs ko ghalat kese maanega ??aare bhai kuch lougon ka zikr to chhoren
kyunke kuch loug karte karte mein loug aise bhi aaengen jinhen ALLAH ke HABEEB salat o salam ki
shaan me tareef bhi pasand nahin
aur yahaan ab tak mere sawaal ka jawaab nahin diya gaya ke mazkoora baala ulma ne jo fatwe diye
taqleed ke baare mein wo aapke nazdeek durust hain ya ghalat ?? ye saaf alfaaz mein bata dein ??
sahih ya ghalat ??
umeed hai is dafa aap INSHA'ALLAH seedhi tarah jawaab dena pasand karengen naa ke
naye mauzu ki ibtida karengen
 
  • Like
Reactions: *Muslim*

فہد

Super Star
Dec 12, 2009
10,225
3,548
1,313
karachi
جزاک الله بھائی آپ نے اس حدیث کو بیان کر کے تقلید کا رد ثابت کر دیا ہے، اور وہ کس طرح سے یہ میں آپکو بتاتی ہوں
اہل مدینہ نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہما کے فتوے پر اعتماد نہیں کیا یعنی ان کی تقلید نہیں کی بلکہ تحقیق کے لیے ابن عبّاس رضی اللہ عنہما کے پاس پہنچے کیوں کہ اپنے امام کے فتوے کی تحقیق کے لیے دوسرے امام کے پاس جانا تقلید نہیں بلکہ تحقیق ہے، لہذا یہ روایت تقلید کی تردید کرتی ہے تائید نہیں
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ بھی نہیں فرمایاکہ تم مقلد ہو لہذا تمہیں تحقیق کی ضرورت نہیں بلکہ مزید تحقیق کے لیے ارشاد فرمایاگویا تقلید کے پرخچے اڑا دیے
ان حضرات نے بھی تحقیق میں کوئی کسر نہ چھوڑی بلکہ مدینہ منوّرہ پہنچتے ہی ام سلیم سے دریافت کیا اور خود ہی رجوع نہیں فرمایا بلکہ اپنے امام کی بھی اصلاح کی
جیسا کہ آپ نے اپنی دوسری پوسٹ میں حافظ ابن حجرکااس حدیث کے حوالے سے قول نقل کیا کہ
حافظ ابن حجر عسقلانی متوفی 852 ھ نے سنن ابو داؤد طیالسی کے حوالے سے لکھا ہے کہ انصار نے کہا اے ابن عباس! جب آپ زید کی مخالفت کریں گے تو ہم آپ کی اتباع نہیں کریں گے، اور سنن نسائی کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب حضرت زید بن ثابت کو حضرت صفیہ کی حدیث کا علم ہوا تو انہوں نے اپنے موقف سے رجوع کر لیا
کیا کوئی مقلد ایسا کر سکتا ہے کہ تحقیق کرتا رہے اور اس وقت تک چین سے نہ بیٹھے جب تک مسئلے کی دلیل واضح طور پر سامنے نہ آ جاۓ اور پھر تحقیق شدہ مسئلہ کو اپنے امام سے بھی منوانے کی کوشش کرے یہ سب کچھ تقلید کی تردید ہے ہمارے لیے یہ بات باعث خوشی ہے کہ آپ نے اس حدیث کو بیان کر کے لوگوں کے علم میں اضافہ فرما یا اور حدیث سے تقلید کا رد ثابت کیا
اس حدیث کی روشنی میں اب یہ فرما دیجیے کہ کیا حنفی مقلد کسی شافعی عالم سے کسی مسئلے کی تحقیق کر کے اس مسئلے سے رجوع کر سکتا ہے؟ اگر وہ ایک مسئلے میں تحقیق کر سکتا ہے تو ہر مسئلے میں تحقیق کر سکتا ہے یا نہیں؟اگر کر سکتا ہے تو وہ مقلد رہے گا یا محقق؟
اب یہ بھی بتا دیجیے کہ کیا اہل مدینہ اب بھی زید بن ثابت رضی اللہ عنہما کی تقلید کرتے ہیں؟ اگر نہیں تو کیوں؟
[DOUBLEPOST=1356157380][/DOUBLEPOST]
جزاک الله بھائی بہت زبردست
woww kya javab dya hai actually agr dekha jai to yeh log pehle to ahadeesen sunate hi nhi or agar suna b den woh ahadeesen sunate hain jin se inki apni baat ki hi naffi horhi hoti hai lekin inko yeh ahadeesen batane wale molviyon ne in ahadeeson ko logic hi change krdi hoti hai to yeh log bs andhi taqleed ka shikar ho ker un ahadeeson ka sirf wohi matlb samjh rhe hote hain jo matlab inke molviyon ne logic change kar ke batayi hoti hai
jabke un ahadeeson ke alfaazon se jo matlab saaf saaf nazar arha hota hai us matlab ko yeh log sirf or sirf apne apne imaamon or molviyon ke Muqallid hone ki wajah se ignore kar rhe hote hain or yehi masla inke saath Quran pak ki ayaton main b hota hai thats y har Qurani ayat jo inke khilaf jati hai woh ya to kafiron ke liye hoti hai ya phir us ayat ke tarjume ka matlab woh nahi hota jo inke molviyon ne logic change kar ke bataya hota hai kher jazakaAllah kher ap kafi behtreen javab de deti hain Allah apko jazai kher ata farmaye or ham sab ko deen ki sahi samjh ata farmaye Ameen[DOUBLEPOST=1356240894][/DOUBLEPOST]
Asalam o alikum to all muslims
Chiragh bahi ye to aap logu ki soch hay k ahnaf ne ulama ko masoom samjha hay warna koi bhi hanfi, malaki, hambli, aor shaafi ksi bhi imam ka muqalid ho wo kabhi ye nahin kehta aor samjhta k un ka koi aalim masoom hay ya ksi se ghlati nahin ho sakti............
allama ibn teymeya(RA) ka ye qoul es haqeeqat ko bayan karny k liye kaafi hay k
In the words of Imam Ibn Taimiya (r.a) :
We have explained in our risala "رفع الملام ان الائمہ الاعلام" that no Imam (Scholor) among the Aimahs (Scholors) of Islam has contradicted or gone against a Sahih Hadith without a valid reason. Infact they had nearly twenty (20) reasons for leaving a Sahih Hadith. [مجموع الفتاوى : ٢٠/٣٠٤]
ab ye aor baat hay k ALLAMA IBN TEYMYEA(ra) ne ayema karam(RA) ki tareef kar di aor un k jo aqwal ahadees k khilaf nazar aa rahy hain un ki wajah bayan kar di lakin kyun k kuch logu ko shayed ye pasand nahin k ayema karam(RA) ki koi tareef bayan ki jaye es liye yahan ALLAMA IBN TEYMYEA(ra) ki baat bhi mardood ho jay.
yr yeh post apne muje nasir bhai ke thread main b ki hi thi ap muje Allama ibn e Teyemea ke bare main to batain woh kya sahabi e Rasool SAW the ya unka jo Qoul ap bata rahe ho woh kya Muhammad SAW ke farmaan se b zyada important hai ya woh insaan baqi insaanon se differnt or ghaltiyon se pak the aap log aqwaal hi sunate rehte ho or aqwaal per hi amal karte rehte ho phir jab yeh kaha jata hai ke apke nazdeek Qoul ki importance Hadees se b barh kr hoti hai to ap inkaar kr dete ho yeh ek hi masle pr duhra rawaiyya nahi?
 
  • Like
Reactions: *Muslim* and shizz

i love sahabah

TM Star
Sep 17, 2008
1,108
1,572
1,313
woww kya javab dya hai actually agr dekha jai to yeh log pehle to ahadeesen sunate hi nhi or agar suna b den woh ahadeesen sunate hain jin se inki apni baat ki hi naffi horhi hoti hai lekin inko yeh ahadeesen batane wale molviyon ne in ahadeeson ko logic hi change krdi hoti hai to yeh log bs andhi taqleed ka shikar ho ker un ahadeeson ka sirf wohi matlb samjh rhe hote hain jo matlab inke molviyon ne logic change kar ke batayi hoti hai
jabke un ahadeeson ke alfaazon se jo matlab saaf saaf nazar arha hota hai us matlab ko yeh log sirf or sirf apne apne imaamon or molviyon ke Muqallid hone ki wajah se ignore kar rhe hote hain or yehi masla inke saath Quran pak ki ayaton main b hota hai thats y har Qurani ayat jo inke khilaf jati hai woh ya to kafiron ke liye hoti hai ya phir us ayat ke tarjume ka matlab woh nahi hota jo inke molviyon ne logic change kar ke bataya hota hai kher jazakaAllah kher ap kafi behtreen javab de deti hain Allah apko jazai kher ata farmaye or ham sab ko deen ki sahi samjh ata farmaye Ameen[DOUBLEPOST=1356240894][/DOUBLEPOST]
yr yeh post apne muje nasir bhai ke thread main b ki hi thi ap muje Allama ibn e Teyemea ke bare main to batain woh kya sahabi e Rasool SAW the ya unka jo Qoul ap bata rahe ho woh kya Muhammad SAW ke farmaan se b zyada important hai ya woh insaan baqi insaanon se differnt or ghaltiyon se pak the aap log aqwaal hi sunate rehte ho or aqwaal per hi amal karte rehte ho phir jab yeh kaha jata hai ke apke nazdeek Qoul ki importance Hadees se b barh kr hoti hai to ap inkaar kr dete ho yeh ek hi masle pr duhra rawaiyya nahi?

Asalam o alikum to all muslims
Muhtaram mie ne yehi kaha tha k wesy to ALLAMA IBN TEYMEYA(ra) ki baat tasleem kar li jati hay lakin jab un ki baat ahnaf k haq mien aa jaye to phir en ka bhi inkaar kar diya jata hay????????
itna bata dain k kiya aap ALLAMA IBN TEYMEYA(ra) se zayda muhaqiq hain jo quran aor hadees ki baat samjh gye k wo ayema(RA) k khilaf hain lakin allama ibn teymeya(RA) nahin samjh saky aor ayema karam(RA) ka difa karty rahy???????
 
  • Like
Reactions: Tooba Khan

فہد

Super Star
Dec 12, 2009
10,225
3,548
1,313
karachi
Asalam o alikum to all muslims
Muhtaram mie ne yehi kaha tha k wesy to ALLAMA IBN TEYMEYA(ra) ki baat tasleem kar li jati hay lakin jab un ki baat ahnaf k haq mien aa jaye to phir en ka bhi inkaar kar diya jata hay????????
itna bata dain k kiya aap ALLAMA IBN TEYMEYA(ra) se zayda muhaqiq hain jo quran aor hadees ki baat samjh gye k wo ayema(RA) k khilaf hain lakin allama ibn teymeya(RA) nahin samjh saky aor ayema karam(RA) ka difa karty rahy???????
bohot simple si baat hai bhai or yeh aap khud b jante hain ke hum har alim har imaam or tamaam aima karaam ki baaton ko sir aankhon per rakh kar tasleem karte hain jab unki baaten Muhammad Sallallahu Alaihi Wasallam ki Sahi or Mustanind ahadeeson se b sabit hoti hai
lekin unhi aalim unhi imaam or unhi tamaam aima karaam ki baaton ko reject b kr dete hain jab unki baaten Muhammad Sallallahu Alaihi Wasallam ki Sahi or Mustanind Ahadeeson se takra jati hain
hamare liye hamara Nabi SAW dunya ke tamaam aalimon tamaam imaamon or tamaam aima karaamon se barh kar hai mere bhai hum log apki tarha sirf aima karaamon ke Aqwaalon ke gird hi nhi ghomte rehte ham unke Aqwaalon ko Nabi SAW ki talemaat se match b karte hain aankhen band kar ke yaqin nhi kr lete
or jo yeh last main apne pocha haina ke main Allama ibn e Teyemeya se zyada muhaqqiq hon jo Quran o Hadees ki baat samjh gaye ke woh Ayema Karaam ke khilaf hain?
to iska bohot hi asaan sa javab hai shayed apko samjh b ajai ke Allama ibn e Teyemeya insaan hi the lekin Muhammad Sallallahu Alaihi Wasallam Nabi hain or ek insaan chahen woh imaam ki surat main ho aalim ki surat main ho ya aima karaam ki surat main ho woh ghalti kar sakta hai lekin Nabi Sallallahu ALaihi Wasallam ghalti nhi kar sakte or hamara imaan us Nabi SAW per itna mazbut hai ke hum maan hi nhi sakte ke Us Nabi SAW ka farman ghalat hain or apke aima karaam ki baaten sahi hain
beshak aap logon ke nazdeek un aima karaam ka rutba Nabi SAW ke rutbe se b bara ho chuka hoga lekin ham logon ki pichli tamaam postings se hi apko andaza hojana chahiye ke hamare nazdeek Nabi ki baat se barh ker kisi ki baat nahi hoti phir woh baat kehne wala koi aisa imaam hi kyun na ho jisne apni puri zindagi islaam ko samjhne main or islaam ko phelane main guzaar di ho
 

arifmaqsood1125

Regular Member
Jul 13, 2012
128
177
43
Karachi
اہل مدینہ نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہما کے فتوے پر اعتماد نہیں کیا یعنی ان کی تقلید نہیں کی بلکہ تحقیق کے لیے ابن عبّاس رضی اللہ عنہما کے پاس پہنچے کیوں کہ اپنے امام کے فتوے کی تحقیق کے لیے دوسرے امام کے پاس جانا تقلید نہیں بلکہ تحقیق ہے، لہذا یہ روایت تقلید کی تردید کرتی ہے تائید نہیں
حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ نے اہل مدینہ کے موقف صراحت بیان کی کہ "انہوں نےکہا ہم آپ کے قول پرعمل کر کے حضرت زید کے قول کو نہیں چھوڑیں گے" تقلید کے ثبوت کے لیے اتنا ہی کافی ہے فقط اور جن اشکال کو آپ نے بیان کیا وہ ہر گز قابل تسلیم نہیں اول، کیا آپ کہ سکتی ہو کہ دونوں اصحاب رسول رضی اللہ عنھما نے پہلے بلا دلیل شرعی فتوٰی صادر فرمایا تھا اوران کے لیے ایسا کرنا جائز تھا ? دونوں اصحاب رسول رضی اللہ عنھما مشہور فقہیہ ہیں صرف روایان حدیث نہیں، اور اگر فتوٰی حدیث پر ہوتا تو نسبت قول کی طرف نہ ہوتی. دونوں اصحاب رسول رضی اللہ عنھما ہم عصر تھے اور انکا فتوٰی اجتھاد پر تھا متنازعہ ہونے کے صورت میں اپنے معصرین اہل علم کے پاس مدینہ شریف بھیجا اور یہ تقلید کے ہر گز منافی نہیں ہے کیونکہ ایسا ہی طرزعمل آئمہ کے ادوار میں رہا کہ متنازعہ ہونے کی صورت میں معصرین کی دالیل سن کر رجوع بھی کیا جاتا تھا اس ضمن میں امام ابو حنیفہ رحمۃ کے بعض مسائل میں دو دو اقوال بھی مروی ہوئے جو امام رحمۃ کے بعض اقوال میں رجوع کا ثبوت ہیں پھر متاخرین علماء احناف کے اقوال میں سے بعض کا امام رحمۃ کے اقوال سے معارض ہونا بھی کسی سے چھپا ہوا نہیں مگر چونکہ امام رحمۃ کے اصول اجتہاد کے مطابق مسائل مختلف فیہ روایت ہوئے اس لیے یہ مختلف فیہ مسائل امام رحۃ کے فقہ، فقہ حنفی کی طرف منسوب ہیں.
اب آئیے، مذکورہ حدیث میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا رجوع بیان ہوا نہ کہ اہل مدینہ کا اپنے بیان سے رجوع، وہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو حضرت بن عباس رضی اللہ عنہ سے زیادہ فقہہ سمجھتے ہوئے ان کے قول پراعتماد کرتے تھے اور جب حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے رجوع کیا تو اہل مدینہ نے یہ نہیں کہا کہ ہم آپ کے بیان کردہ مسائل کو کیوں مانے ہم خود مسائل کی تحقیق کر سکتے ہیں، اگر اہل مدینہ مخالفت کرتے تو اس کا بھی ذکر ضرور ایسی روایت میں بیان ہوتا جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مسئلہ میں مخالفت
در حقیقت اہل مدینہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے بیان کردہ مسئلہ کی مزید تفصیل جاننے کے لیے حضرت بن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس گئے نہ کہ تحقیق کے لیے، ورنہ ابن عباس رضی اللہ عنھما کا بیان کردہ مسئلہ مختلف فیہ پانے کے بعد ابن عباس رضی اللہ عنھما کو یہ نہ کہتے کہ "ہم آپ کے قول پرعمل کر کے حضرت زید کے قول کو نہیں چھوڑیں گے" جس سے پتہ چلا کہ ان کا جانا برائے تحقیق نہیں برائے تفصیل تھا اور وہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے قول پر اعتماد کلی کر رہے تھے حافظ ابن حجر عسقلانی متوفی 852 ھ نے بھی ایسی بات کی تصریح بیان کی "انصار نے کہا اے ابن عباس! جب آپ زید کی مخالفت کریں گے تو ہم آپ کی اتباع نہیں کریں گے"
کیا کوئی مقلد ایسا کر سکتا ہے کہ تحقیق کرتا رہے اور اس وقت تک چین سے نہ بیٹھے جب تک مسئلے کی دلیل واضح طور پر سامنے نہ آ جاۓ اور پھر تحقیق شدہ مسئلہ کو اپنے امام سے بھی منوانے کی کوشش کرے یہ سب کچھ تقلید کی تردید ہے ہمارے لیے یہ بات باعث خوشی ہے کہ آپ نے اس حدیث کو بیان کر کے لوگوں کے علم میں اضافہ فرما یا اور حدیث سے تقلید کا رد ثابت کیا
اس حدیث کی روشنی میں اب یہ فرما دیجیے کہ کیا حنفی مقلد کسی شافعی عالم سے کسی مسئلے کی تحقیق کر کے اس مسئلے سے رجوع کر سکتا ہے؟ اگر وہ ایک مسئلے میں تحقیق کر سکتا ہے تو ہر مسئلے میں تحقیق کر سکتا ہے یا نہیں؟اگر کر سکتا ہے تو وہ مقلد رہے گا یا محقق؟
اب یہ بھی بتا دیجیے کہ کیا اہل مدینہ اب بھی زید بن ثابت رضی اللہ عنہما کی تقلید کرتے ہیں؟ اگر نہیں تو کیوں؟
امام کے مقرر کردہ اصول اجتہاد کی تقلید کرنے والے وہ مقلد جو فروعی احکام کے مجتھد ہیں مثلا امام ابو یوسف، امام زفر اور امام محمد جیسا کہ انہوں نے امام اعظم رحمۃ سے بعض فروعی مسائل میں اختلاف کیا مگر چونکہ ان مسائل کا استخراج امام رحمۃ کے مقرر کردہ اصول اجتہاد پر ہی کیا حنفی کہلاتے ہیں اور ان کا یہ اختلاف ہر گز تقلید کے منافی نہیں لہٰذا آپ کا مفروضہ حقیقت میں محض اعتراض بلا تحقیق ہے
شق ثانی یہ کہ حکم متنازعہ ہونے پر تحقیق واجب ہو جاتی ہے جس سے کسی کو انکار نہیں کیونکہ یہ منصوص حکم قرآنیہ ہے فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اس میں خدا اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرو مگر یہ کس پر واجب ہوتی ہے آیا سب لوگ خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام میں جب کہ صورت متنازعہ ہو تحقیق کرنے کے مکلف ہیں? ہر گز نہیں
وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً ۚ فَلَوْلَا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ
اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مومن سب کے سب نکل آئیں۔ تو یوں کیوں نہ کیا کہ ہر ایک جماعت میں سے چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین کا (علم سیکھتے اور اس) میں سمجھ پیدا کرتے اور جب اپنی قوم کی طرف واپس آتے تو ان کو ڈر سناتے تاکہ وہ حذر کرتے
جب تفقہ فی الدین پر سب لوگ مکلف نہیں اور اک جماعت ہے تو ہر اک فرد تحقیق احکام فی الدین کیسے کر سکتا ہے? بخلاف انصار مدینہ کے کہ ان کا مدینہ جا کر مسئلہ دریافت کرنا اور وہ بھی بلا تحقیق اسناد حدیث کے واسطے سے بہت سہل تھا بر قدیر اختلاف زمانہ و حالات آئمہ کے دور میں حدیث سے حکم معلوم کرنا اس لیے بھی دشوار ہے کہ اک امام حدیث نے جو حدیث صحیح سند کے ساتھ ذکر کی وہ دوسرے امام حدیث کی شرائط پر پوری نہیں اترتی
جن لوگوں کو بلا تقلید حدیث پر عمل کرنے کا دعوٰی ہے وہ ذرا، ان صحیحین مسلم و بخاری ملاحظہ کر کے بتائے
مسلم نے عبد الرحمٰن بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "صبح کی نماز کا وقت طلوع فجر سے لے کر اس وقت تک ہے جب تک سورج نہ نکلے، جب سورج نکل آئے تو نماز سے رک جائے کہ یہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے"
صحیح مسلم 1/146
ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "جب تم میں سے کوئی نماز عصر کا ایک سجدہ پا لے سورج غروب ہونے سے پہلے تو اسے اپنی نماز مکمل کر لینی چاہیے اور جب وہ نماز صبح کا ایک سجدہ پالے سورج نکلنے سے پہلے تو وہ اپنی نماز مکمل کر لے
صحیح بخاری 1/427
امام بن تیمیہ جنہیں غیر مقلدین اپنے اکابرین میں جانتے ہے لکھتے ہیں:
جس شخص نے کسی مذہب معین کا التزام کر لیا اور پھر کسی شرعی عذر یا بغیر کسی دلیل مرجح کے کسی اور عالم کے فتوٰی پر عمل کیا تو وہ شخص اپنی خواہش کا پروکار ہے وہ مجتھد ہے نہ مقلد اور وہ بغیر عذر شرعی کے حرام کام کا ارتکاب کر رہا ہے اور یہ چیز لائق مذمت ہے. شیخ نجم الدین کے کلام کا یہی خلاصہ ہے نیز امام احمد اور دیگر آئمہ نے اس کی تصریح کی ہے کہ پہلے کوئی شخص کسی چیز کو حرام یا واجب اعتقاد کرے اور پھر اس کو غیر حرام یا غیر واجب اعتقاد کرے تو یہ اصلا جائز نیہں ہے. مثلا پہلے کوئی شخص پڑوس کی بناء پر شفعہ کا مطالبہ کرے (جیسا کہ حنفی مذھب میں ہے) اور جب اس پر پڑوس کی وجہ سے شفعہ ہو تو کہیے یہ ثابت نہیں ہے (جیسا کہ شافعی مذھب میں ہے) اسی طرح نیبذ پینے، شطرنج کھلنے، یا بھائی کے ساتھ دادا کی میراث کے تقسیم کرنے کے اختلافی مسائل میں کبھی ایک پہلو اختیار کرے اور کبھی محض اپنی خواہش سے دوسرا پہلو اختیار کرے، یہ شخص محض اپنی خواہش کا پیرو کار ہے اور امام احمد اور دیگر آئمہ نے اس کو ناجائز قرار دیا ہے
مجموع الفتاوع ج20 ص220-221 مطبوعہ سعودی عربیہ .
@Tooba Khan
@nasirnoman
@i love sahabah
 

nasirnoman

Active Member
Apr 30, 2008
380
574
1,193
جزاک اللہ عارف مقصود بھائی ۔۔۔ ماشاء اللہ آپ نے بہت ہی عمدگی سے مسئلہ کی وضاحت فرمائی ہے ۔۔۔
لیکن افسوس مسئلہ یہاں کچھ ایسا ہے کہ کچھ لوگوں نے کم علم لوگوں کو اُس کام پر لگادیا ہے ہے جس کام سے بڑے بڑے مایہ ناز علمی ہستیوں نے ہاتھ اٹھالیا کہ یہ ہمارے بس سے باہر ہے ۔۔۔
کاش کہ یہ لوگ سمجھ سکیں کہ جس کام پر یہ لوگ لگے ہیں وہ اتنا آسان و سہل نہیں ۔۔۔۔۔بلکہ بنا دین کا علم سیکھے اس طرح کے مسائل میں دخل اندازی سے کس قدر نقصانات ہوسکتے ہیں
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے۔آمین
 
  • Like
Reactions: Tooba Khan

kingnomi

Doctor
Super Star
Jan 7, 2009
12,873
10,849
1,313
Owsum , Superb , Very Nice :P
جزاک اللہ عارف مقصود بھائی ۔۔۔ ماشاء اللہ آپ نے بہت ہی عمدگی سے مسئلہ کی وضاحت فرمائی ہے ۔۔۔
لیکن افسوس مسئلہ یہاں کچھ ایسا ہے کہ کچھ لوگوں نے کم علم لوگوں کو اُس کام پر لگادیا ہے ہے جس کام سے بڑے بڑے مایہ ناز علمی ہستیوں نے ہاتھ اٹھالیا کہ یہ ہمارے بس سے باہر ہے ۔۔۔
کاش کہ یہ لوگ سمجھ سکیں کہ جس کام پر یہ لوگ لگے ہیں وہ اتنا آسان و سہل نہیں ۔۔۔۔۔بلکہ بنا دین کا علم سیکھے اس طرح کے مسائل میں دخل اندازی سے کس قدر نقصانات ہوسکتے ہیں
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے۔آمین
Chalain Ab boht Huwa Mohsin bhai .. Takleed takleed boht ho gaya ..

Aap say aik Question hai

Kiya Kisi Bhi Imaam Nay ya Imaam Abu Hanifa Rehmatullah Nay Nimaz kay liye Zaban Se Niyat Karnay Ka Hukum Diya ?

Kiya Unho Urdu Mien , Panjabi mien , pashto mien ya sindhi mien bhi words bataye niyat kay zahir hay nhn bataye toh Zahir Hai Unho Nay Arbi Mien toh Nimaz Ki Niyat Karnay ki Kuch Bataya hoga Kuch , Ya Phr Kisi Bhi Imaam Nay Batayi Hogi ? Chalain Imaamon Ko Bhi Chorien Kiya Huzoor S.A.W.W Nay Aisa Kuch bataya ?

Humien Bhi Batayein Aur Yeh thread visit karien.. Mien aap ko tag kar kar kay thak gaya hun lekin aap ho kay is thread mien jawab hi nhn de rahay :) .. Aap Ka Intezar rahega is post kay reply ka aur Nichay Diye Gaye link pe anay Ka

http://www.tafreehmella.com/threads/زبان-سے-نيت.210604/
 

shizz

Active Member
Sep 26, 2012
157
390
113
pakistan
معذرت چاہتی ہوں دیر سے جواب دینے پر.. دراصل مجھے اردو لکھنے میں تھوڑی دشواری ہوتی ہے اس لیے زیادہ وقت نکالنا پڑتا ہے.
مصروفیات کے باعث جواب نہ دے پائی.

حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ نے اہل مدینہ کے موقف صراحت بیان کی کہ "انہوں نےکہا ہم آپ کے قول پرعمل کر کے حضرت زید کے قول کو نہیں چھوڑیں گے" تقلید کے ثبوت کے لیے اتنا ہی کافی ہے فقط اور جن اشکال کو آپ نے بیان کیا وہ ہر گز قابل تسلیم نہیں اول، کیا آپ کہ سکتی ہو کہ دونوں اصحاب رسول رضی اللہ عنھما نے پہلے بلا دلیل شرعی فتوٰی صادر فرمایا تھا اوران کے لیے ایسا کرنا جائز تھا ? دونوں اصحاب رسول رضی اللہ عنھما مشہور فقہیہ ہیں صرف روایان حدیث نہیں، اور اگر فتوٰی حدیث پر ہوتا تو نسبت قول کی طرف نہ ہوتی. دونوں اصحاب رسول رضی اللہ عنھما ہم عصر تھے اور انکا فتوٰی اجتھاد پر تھا متنازعہ ہونے کے صورت میں اپنے معصرین اہل علم کے پاس مدینہ شریف بھیجا اور یہ تقلید کے ہر گز منافی نہیں ہے کیونکہ ایسا ہی طرزعمل آئمہ کے ادوار میں رہا کہ متنازعہ ہونے کی صورت میں معصرین کی دالیل سن کر رجوع بھی کیا جاتا تھا اس ضمن میں امام ابو حنیفہ رحمۃ کے بعض مسائل میں دو دو اقوال بھی مروی ہوئے جو امام رحمۃ کے بعض اقوال میں رجوع کا ثبوت ہیں پھر متاخرین علماء احناف کے اقوال میں سے بعض کا امام رحمۃ کے اقوال سے معارض ہونا بھی کسی سے چھپا ہوا نہیں مگر چونکہ امام رحمۃ کے اصول اجتہاد کے مطابق مسائل مختلف فیہ روایت ہوئے اس لیے یہ مختلف فیہ مسائل امام رحۃ کے فقہ، فقہ حنفی کی طرف منسوب ہیں
آدھی ادھوری بات کو سن کر اپنی طرف سے مطلب نکلنا مقلدین کی پرانی عادت ہے جیسے کہ
"انہوں نےکہا ہم آپ کے قول پرعمل کر کے حضرت زید کے قول کو نہیں چھوڑیں گے"
یہ تو آپ نے پڑھ لیا اس سے جو نتیجہ نکالا وہ بھی بیان کر دیا کہ :
" تقلید کے ثبوت کے لیے اتنا ہی کافی ہے"
سوال تو یہ ہے کہ آخر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سوال ہی کیوں کیا تھا؟؟جب کہ وہ حضرت زیدرضی اللہ عنہ کا قول چھوڑنے پر تیار ہی نہ تھے. ظاہر ہے کے وہ حضرت زید کی بات کو تقلید کے طور پر نہیں ماننا چاہتے تھے بلکہ وہ اس کوشش میں تھے حضرت زید رضی اللہ عنہ کے قول کی دلیل تلاش کی جاۓ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اپنا ہی قول پیش کیا تھا قول سے قول ٹکرا گیا، اب یہ بتایے کہ وہ کیوں حضرت زیدرضی اللہ عنہ کے فتوے سے رجوع کرتے. بالاخر مزید تحقیق کے بعد انھیں معلوم ہو گیا کہ حضرت زید رضی اللہ عنہ کا فتویٰ غلط تھا. انہوں نے بھی رجوع کیا اور حضرت زید رضی اللہ عنہ نے بھی. .
اب آئیے، مذکورہ حدیث میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا رجوع بیان ہوا نہ کہ اہل مدینہ کا اپنے بیان سے رجوع، وہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو حضرت بن عباس رضی اللہ عنہ سے زیادہ فقہہ سمجھتے ہوئے ان کے قول پراعتماد کرتے تھے اور جب حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے رجوع کیا تو اہل مدینہ نے یہ نہیں کہا کہ ہم آپ کے بیان کردہ مسائل کو کیوں مانے ہم خود مسائل کی تحقیق کر سکتے ہیں، اگر اہل مدینہ مخالفت کرتے تو اس کا بھی ذکر ضرور ایسی روایت میں بیان ہوتا جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مسئلہ میں مخالفت
در حقیقت اہل مدینہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے بیان کردہ مسئلہ کی مزید تفصیل جاننے کے لیے حضرت بن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس گئے نہ کہ تحقیق کے لیے، ورنہ ابن عباس رضی اللہ عنھما کا بیان کردہ مسئلہ مختلف فیہ پانے کے بعد ابن عباس رضی اللہ عنھما کو یہ نہ کہتے کہ "ہم آپ کے قول پرعمل کر کے حضرت زید کے قول کو نہیں چھوڑیں گے" جس سے پتہ چلا کہ ان کا جانا برائے تحقیق نہیں برائے تفصیل تھا اور وہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے قول پر اعتماد کلی کر رہے تھے حافظ ابن حجر عسقلانی متوفی 852 ھ نے بھی ایسی بات کی تصریح بیان کی "انصار نے کہا اے ابن عباس! جب آپ زید کی مخالفت کریں گے تو ہم آپ کی اتباع نہیں کریں گے
بڑی ہی عجیب بات کہی ہے بھائی آپ نے ایک طرف تو آپ کہتے ہیں کہ
وہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے زیادہ فقہہ سمجھتے ہوئے ان کے قول پراعتماد کرتے تھے
یعنی کے اہل مدینہ مقلد تو زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے تھے مگر تحقیق کے لیے یا تفصیل کے لیے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس گۓ. یعنی کہ تقلید کی تعریف ہی بدل گئی کہ کسی کے قول کو بلا دلیل مان لینا،
اسکو ہی تحقیق کہتے ہیں تقلید نہیں، حدیث کے سامنے آنے کے بعد قول رد کر دیا گیا،

امام کے مقرر کردہ اصول اجتہاد کی تقلید کرنے والے وہ مقلد جو فروعی احکام کے مجتھد ہیں مثلا امام ابو یوسف، امام زفر اور امام محمد جیسا کہ انہوں نے امام اعظم رحمۃ سے بعض فروعی مسائل میں اختلاف کیا مگر چونکہ ان مسائل کا استخراج امام رحمۃ کے مقرر کردہ اصول اجتہاد پر ہی کیا حنفی کہلاتے ہیں اور ان کا یہ اختلاف ہر گز تقلید کے منافی نہیں لہٰذا آپ کا مفروضہ حقیقت میں محض اعتراض بلا تحقیق ہے
شق ثانی یہ کہ حکم متنازعہ ہونے پر تحقیق واجب ہو جاتی ہے جس سے کسی کو انکار نہیں کیونکہ یہ منصوص حکم قرآنیہ ہے فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اس میں خدا اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرو مگر یہ کس پر واجب ہوتی ہے آیا سب لوگ خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام میں جب کہ صورت متنازعہ ہو تحقیق کرنے کے مکلف ہیں? ہر گز نہیں
اگر ایک عام انسان جو کہ دین کی زیادہ سمجھ بوجھ نہ رکھتا ہووہ کسی عالم دین کی مدد سے قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل کو سمجھے. نہ کے تقلید میں پڑ کر اپنے آپ کو مزید گمراہ کرے، اگر کسی عالم کو قرآن و حدیث کا علم ہی نہیں ہے تو وہ عالم کس بات کا ہے؟
مومنو! خدا اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحب حکومت ہیں ان کی بھی اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں خدا اور اس کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع کرو یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا مآل بھی اچھا ہے
سورة النساء59
یعنی کہ آیت کے پہلے حصّے میں مقلدین سے خطاب کیا گیا ہے اور آخری حصّے میں مجتہدین سے.. اس تفریق کی کوئی دلیل؟؟؟ کتنی عجیب بات ہے کہ آیت کے پہلے حصّے سے تقلید ثابت کرتے ہیں جب دوسرا حصّہ تقلید کی مخالفت کر رہا ہے تو مقلدین یہ کہ دیتے ہیں کہ اس میں مجتہدین سے خطاب کیا گیا ہے، جب کہ پورا قرآن دنیا کہ تمام انسانوں کے لیے ہدایت ہے، پھر اپنی طرف سے تفریق کر لینا کیا بدعت نہیں ؟؟؟
وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً ۚ فَلَوْلَا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ
اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مومن سب کے سب نکل آئیں۔ تو یوں کیوں نہ کیا کہ ہر ایک جماعت میں سے چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین کا (علم سیکھتے اور اس) میں سمجھ پیدا کرتے اور جب اپنی قوم کی طرف واپس آتے تو ان کو ڈر سناتے تاکہ وہ حذر کرتے
جب تفقہ فی الدین پر سب لوگ مکلف نہیں اور اک جماعت ہے تو ہر اک فرد تحقیق احکام فی الدین کیسے کر سکتا ہے? بخلاف انصار مدینہ کے کہ ان کا مدینہ جا کر مسئلہ دریافت کرنا اور وہ بھی بلا تحقیق اسناد حدیث کے واسطے سے بہت سہل تھا بر قدیر اختلاف زمانہ و حالات آئمہ کے دور میں حدیث سے حکم معلوم کرنا اس لیے بھی دشوار ہے کہ اک امام حدیث نے جو حدیث صحیح سند کے ساتھ ذکر کی وہ دوسرے امام حدیث کی شرائط پر پوری نہیں اترتی
کیا اس آیت پر اب بھی عمل ہو سکتا ہے یا نہیں؟ اگر ہو سکتا ہے تو اس زمانے میں جو علماء ہیں انکی تقلید ہوگی نہ کہ فوت شدہ چار علماء کی. لہٰذا یہ آیات تقلید کی تردید کرتی ہے تائید نہیں.
یہ آیت تو اجتہاد کا دروازہ کھول رہی ہے جو کہ آپ بند کر چکے ہیں
صحیح احادیث پر کسی کا اختلاف نہیں ہے، گمراہ تو ضعیف احادیث پرعمل کرنے والے ہوتے ہیں، اگر کسی عالم سے کوئی مسئلہ دریافت کیا جاۓ اور وہ صحیح احادیث کی روشنی میں رہنمائی کرے تو تقلید کا جڑ سے خاتمہ ہو جایگا
جن لوگوں کو بلا تقلید حدیث پر عمل کرنے کا دعوٰی ہے وہ ذرا، ان صحیحین مسلم و بخاری ملاحظہ کر کے بتائے
مسلم نے عبد الرحمٰن بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "صبح کی نماز کا وقت طلوع فجر سے لے کر اس وقت تک ہے جب تک سورج نہ نکلے، جب سورج نکل آئے تو نماز سے رک جائے کہ یہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے"
صحیح مسلم 1/146
ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "جب تم میں سے کوئی نماز عصر کا ایک سجدہ پا لے سورج غروب ہونے سے پہلے تو اسے اپنی نماز مکمل کر لینی چاہیے اور جب وہ نماز صبح کا ایک سجدہ پالے سورج نکلنے سے پہلے تو وہ اپنی نماز مکمل کر لے
صحیح بخاری
یہ دونو احادیث صحیح ہیں آپ لوگوں نے محظ قیاس کی بنیاد پر اسے رد کر دیا یہ احادیث کا انکار نہیں تو اور کیا ہے،
اس وقت فرض شروع کرنا منع ہے یا پھر شروع کیے گۓ فرض کو پورا کر لینا بھی منع ہے؟
دونوں احادیث کا مطلب صاف ہے کہ ایسے وقت میں نماز ممنوع ہے سواۓ اس فرض نماز کے جسکی ایک رکعت وقت کے اندر مل جاۓ.
امام بن تیمیہ جنہیں غیر مقلدین اپنے اکابرین میں جانتے ہے لکھتے ہیں:
جس شخص نے کسی مذہب معین کا التزام کر لیا اور پھر کسی شرعی عذر یا بغیر کسی دلیل مرجح کے کسی اور عالم کے فتوٰی پر عمل کیا تو وہ شخص اپنی خواہش کا پروکار ہے وہ مجتھد ہے نہ مقلد اور وہ بغیر عذر شرعی کے حرام کام کا ارتکاب کر رہا ہے اور یہ چیز لائق مذمت ہے. شیخ نجم الدین کے کلام کا یہی خلاصہ ہے نیز امام احمد اور دیگر آئمہ نے اس کی تصریح کی ہے کہ پہلے کوئی شخص کسی چیز کو حرام یا واجب اعتقاد کرے اور پھر اس کو غیر حرام یا غیر واجب اعتقاد کرے تو یہ اصلا جائز نیہں ہے. مثلا پہلے کوئی شخص پڑوس کی بناء پر شفعہ کا مطالبہ کرے (جیسا کہ حنفی مذھب میں ہے) اور جب اس پر پڑوس کی وجہ سے شفعہ ہو تو کہیے یہ ثابت نہیں ہے (جیسا کہ شافعی مذھب میں ہے) اسی طرح نیبذ پینے، شطرنج کھلنے، یا بھائی کے ساتھ دادا کی میراث کے تقسیم کرنے کے اختلافی مسائل میں کبھی ایک پہلو اختیار کرے اور کبھی محض اپنی خواہش سے دوسرا پہلو اختیار کرے، یہ شخص محض اپنی خواہش کا پیرو کار ہے اور امام احمد اور دیگر آئمہ نے اس کو ناجائز قرار دیا ہے
مجموع الفتاوع ج20 ص220-221 مطبوعہ سعودی عربیہ
اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کو حق نہیں ہے کہ جب خدا اور اس کا رسول کوئی امر مقرر کردیں تو وہ اس کام میں اپنا بھی کچھ اختیار سمجھیں۔ اور جو کوئی خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ صریح گمراہ ہوگیا
سورة الأحزاب36
آپ ہر گز ہمیں کسی امتی کے قول سے قائل نہیں کرسکتے، جب کہ الله کا حکم موجود ہو،
 

shizz

Active Member
Sep 26, 2012
157
390
113
pakistan
امام بن تیمیہ جنہیں غیر مقلدین اپنے اکابرین میں جانتے ہے لکھتے ہیں:
جس شخص نے کسی مذہب معین کا التزام کر لیا اور پھر کسی شرعی عذر یا بغیر کسی دلیل مرجح کے کسی اور عالم کے فتوٰی پر عمل کیا تو وہ شخص اپنی خواہش کا پروکار ہے وہ مجتھد ہے نہ مقلد اور وہ بغیر عذر شرعی کے حرام کام کا ارتکاب کر رہا ہے اور یہ چیز لائق مذمت ہے. شیخ نجم الدین کے کلام کا یہی خلاصہ ہے نیز امام احمد اور دیگر آئمہ نے اس کی تصریح کی ہے کہ پہلے کوئی شخص کسی چیز کو حرام یا واجب اعتقاد کرے اور پھر اس کو غیر حرام یا غیر واجب اعتقاد کرے تو یہ اصلا جائز نیہں ہے. مثلا پہلے کوئی شخص پڑوس کی بناء پر شفعہ کا مطالبہ کرے (جیسا کہ حنفی مذھب میں ہے) اور جب اس پر پڑوس کی وجہ سے شفعہ ہو تو کہیے یہ ثابت نہیں ہے (جیسا کہ شافعی مذھب میں ہے) اسی طرح نیبذ پینے، شطرنج کھلنے، یا بھائی کے ساتھ دادا کی میراث کے تقسیم کرنے کے اختلافی مسائل میں کبھی ایک پہلو اختیار کرے اور کبھی محض اپنی خواہش سے دوسرا پہلو اختیار کرے، یہ شخص محض اپنی خواہش کا پیرو کار ہے اور امام احمد اور دیگر آئمہ نے اس کو ناجائز قرار دیا ہے
مجموع الفتاوع ج20 ص220-221 مطبوعہ سعودی عربیہ
یہ کلمات امام ابن تیمیہ کے ہرگز نہیں ہیں... اوپر عبارت ہے کہ
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ سے دریافت کیا گیا
نجم الدین ابن حمدان نے فتوٰی دیا ہے اس کی وضاحت کر دیں۔
پھر اس کے بعد جو الفاظ اوپر شروع میں لکھے ہیں یہ شیخ نجم الدین کے فتوٰی کے الفاظ ہیں امام ابن تیمیہؒ کے الفاظ نہیں ہیں۔
اور جہاں تک عبارت ہے
((نیز امام احمد اور دیگر آئمہ نے اس کی تصریح کی ہے کہ پہلے کوئی شخص کسی چیز کو حرام یا واجب اعتقاد کرے اور پھر اس کو غیر حرام یا غیر واجب اعتقاد کرے تو یہ اصلا جائز نیہں ہے.))
اس عبارت میں یہودیوں کی طرح تھوڑی سی توڑ موڑ کر کے اپنے مطلب کا معنی اخذ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بالکل قرآن کی آیت
وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقًا يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتَابِ لِتَحْسَبُوهُ مِنَ الْكِتَابِ وَمَا هُوَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَقُولُونَ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَمَا هُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَيَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُونَ (78)
اور ان میں سے ایک گروہ ایسا بھی ہے جو (لکھی ہوئی) کو زبان ٹیڑھی کر کے پڑھتے ہیں تا کہ اس کو کتاب (منزل من اللہ) سمجھا جائے، (حقیقت یہ ہے کہ) وہ کتاب نہیں، وہ دعویدار ہیں کہ (جو وہ پڑھ رہے ہیں) اللہ کی طرف سے ہے جبکہ وہ اللہ کے ہاں سے نہیں، وہ اللہ پر جھوٹ بولتے ہیں صورتحال یہ ہے کہ وہ جانتے ہیں۔
مجموع الفتاوٰی کی اصل عبارت کچھ یوں ہے:
وقد نص الإمام أحمد وغيره على أنه ليس لأحد أن يعتقد الشيء واجبا أو حراما ثم يعتقده غير واجب ولا حرام بمجرد هواه-
امام احمدؒ نے اس بات پر دلیل قائم کی ہے کہ کسی کو لائق نہیں کہ اپنی ہوائے نفس کے لیے کسی چیز کو واجب یا حرام قرار دیتا رہے اور پھر (اپنی ہوائے نفس) خواہش کے لیے غیر واجب، غیر حرام قرار دے دے۔
آگے بھی مختلف مثالیں دی ہیں کہ کسی کو لائق نہیں ہے کہ وہ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے ان چیزوں کو حرام یا جس کو چاہا حلال قرار دے لے.....
ان چیزوں کو سامنے رکھ کر اور دوسروں کی عبارت کو امام صاحب کے نام لگا کر کوئی بندہ بھی جناب امام ابن تیمیہؒ پر تقلید جیسے گندے عقیدے کے جواز کے لیے قطعی کوئی دلیل نہیں بنا سکتا۔
 

kingnomi

Doctor
Super Star
Jan 7, 2009
12,873
10,849
1,313
Owsum , Superb , Very Nice :P
معذرت چاہتی ہوں دیر سے جواب دینے پر.. دراصل مجھے اردو لکھنے میں تھوڑی دشواری ہوتی ہے اس لیے زیادہ وقت نکالنا پڑتا ہے.
مصروفیات کے باعث جواب نہ دے پائی.


آدھی ادھوری بات کو سن کر اپنی طرف سے مطلب نکلنا مقلدین کی پرانی عادت ہے جیسے کہ
"انہوں نےکہا ہم آپ کے قول پرعمل کر کے حضرت زید کے قول کو نہیں چھوڑیں گے"
یہ تو آپ نے پڑھ لیا اس سے جو نتیجہ نکالا وہ بھی بیان کر دیا کہ :
" تقلید کے ثبوت کے لیے اتنا ہی کافی ہے"
سوال تو یہ ہے کہ آخر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سوال ہی کیوں کیا تھا؟؟جب کہ وہ حضرت زیدرضی اللہ عنہ کا قول چھوڑنے پر تیار ہی نہ تھے. ظاہر ہے کے وہ حضرت زید کی بات کو تقلید کے طور پر نہیں ماننا چاہتے تھے بلکہ وہ اس کوشش میں تھے حضرت زید رضی اللہ عنہ کے قول کی دلیل تلاش کی جاۓ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اپنا ہی قول پیش کیا تھا قول سے قول ٹکرا گیا، اب یہ بتایے کہ وہ کیوں حضرت زیدرضی اللہ عنہ کے فتوے سے رجوع کرتے. بالاخر مزید تحقیق کے بعد انھیں معلوم ہو گیا کہ حضرت زید رضی اللہ عنہ کا فتویٰ غلط تھا. انہوں نے بھی رجوع کیا اور حضرت زید رضی اللہ عنہ نے بھی. .

بڑی ہی عجیب بات کہی ہے بھائی آپ نے ایک طرف تو آپ کہتے ہیں کہ
وہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے زیادہ فقہہ سمجھتے ہوئے ان کے قول پراعتماد کرتے تھے
یعنی کے اہل مدینہ مقلد تو زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے تھے مگر تحقیق کے لیے یا تفصیل کے لیے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس گۓ. یعنی کہ تقلید کی تعریف ہی بدل گئی کہ کسی کے قول کو بلا دلیل مان لینا،
اسکو ہی تحقیق کہتے ہیں تقلید نہیں، حدیث کے سامنے آنے کے بعد قول رد کر دیا گیا،


اگر ایک عام انسان جو کہ دین کی زیادہ سمجھ بوجھ نہ رکھتا ہووہ کسی عالم دین کی مدد سے قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل کو سمجھے. نہ کے تقلید میں پڑ کر اپنے آپ کو مزید گمراہ کرے، اگر کسی عالم کو قرآن و حدیث کا علم ہی نہیں ہے تو وہ عالم کس بات کا ہے؟
مومنو! خدا اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحب حکومت ہیں ان کی بھی اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں خدا اور اس کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع کرو یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا مآل بھی اچھا ہے
سورة النساء59
یعنی کہ آیت کے پہلے حصّے میں مقلدین سے خطاب کیا گیا ہے اور آخری حصّے میں مجتہدین سے.. اس تفریق کی کوئی دلیل؟؟؟ کتنی عجیب بات ہے کہ آیت کے پہلے حصّے سے تقلید ثابت کرتے ہیں جب دوسرا حصّہ تقلید کی مخالفت کر رہا ہے تو مقلدین یہ کہ دیتے ہیں کہ اس میں مجتہدین سے خطاب کیا گیا ہے، جب کہ پورا قرآن دنیا کہ تمام انسانوں کے لیے ہدایت ہے، پھر اپنی طرف سے تفریق کر لینا کیا بدعت نہیں ؟؟؟

کیا اس آیت پر اب بھی عمل ہو سکتا ہے یا نہیں؟ اگر ہو سکتا ہے تو اس زمانے میں جو علماء ہیں انکی تقلید ہوگی نہ کہ فوت شدہ چار علماء کی. لہٰذا یہ آیات تقلید کی تردید کرتی ہے تائید نہیں.
یہ آیت تو اجتہاد کا دروازہ کھول رہی ہے جو کہ آپ بند کر چکے ہیں
صحیح احادیث پر کسی کا اختلاف نہیں ہے، گمراہ تو ضعیف احادیث پرعمل کرنے والے ہوتے ہیں، اگر کسی عالم سے کوئی مسئلہ دریافت کیا جاۓ اور وہ صحیح احادیث کی روشنی میں رہنمائی کرے تو تقلید کا جڑ سے خاتمہ ہو جایگا

یہ دونو احادیث صحیح ہیں آپ لوگوں نے محظ قیاس کی بنیاد پر اسے رد کر دیا یہ احادیث کا انکار نہیں تو اور کیا ہے،
اس وقت فرض شروع کرنا منع ہے یا پھر شروع کیے گۓ فرض کو پورا کر لینا بھی منع ہے؟
دونوں احادیث کا مطلب صاف ہے کہ ایسے وقت میں نماز ممنوع ہے سواۓ اس فرض نماز کے جسکی ایک رکعت وقت کے اندر مل جاۓ.

اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کو حق نہیں ہے کہ جب خدا اور اس کا رسول کوئی امر مقرر کردیں تو وہ اس کام میں اپنا بھی کچھ اختیار سمجھیں۔ اور جو کوئی خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ صریح گمراہ ہوگیا
سورة الأحزاب36
آپ ہر گز ہمیں کسی امتی کے قول سے قائل نہیں کرسکتے، جب کہ الله کا حکم موجود ہو،
Wah Boht hi zabardast behnaa ... Bilkul Sahi kaha aap nay Aisii Saaf Saaf misaalien dalail Hain Koi Kam Aqal bhi samajh lega yeh baatien ... Per Afsos Hai .. Well Allah Aap ko Istakamat Day Behna Ameen ...[DOUBLEPOST=1356697391][/DOUBLEPOST]
یہ کلمات امام ابن تیمیہ کے ہرگز نہیں ہیں... اوپر عبارت ہے کہ
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ سے دریافت کیا گیا
نجم الدین ابن حمدان نے فتوٰی دیا ہے اس کی وضاحت کر دیں۔
پھر اس کے بعد جو الفاظ اوپر شروع میں لکھے ہیں یہ شیخ نجم الدین کے فتوٰی کے الفاظ ہیں امام ابن تیمیہؒ کے الفاظ نہیں ہیں۔
اور جہاں تک عبارت ہے
((نیز امام احمد اور دیگر آئمہ نے اس کی تصریح کی ہے کہ پہلے کوئی شخص کسی چیز کو حرام یا واجب اعتقاد کرے اور پھر اس کو غیر حرام یا غیر واجب اعتقاد کرے تو یہ اصلا جائز نیہں ہے.))
اس عبارت میں یہودیوں کی طرح تھوڑی سی توڑ موڑ کر کے اپنے مطلب کا معنی اخذ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بالکل قرآن کی آیت
وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقًا يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتَابِ لِتَحْسَبُوهُ مِنَ الْكِتَابِ وَمَا هُوَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَقُولُونَ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَمَا هُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَيَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُونَ (78)
اور ان میں سے ایک گروہ ایسا بھی ہے جو (لکھی ہوئی) کو زبان ٹیڑھی کر کے پڑھتے ہیں تا کہ اس کو کتاب (منزل من اللہ) سمجھا جائے، (حقیقت یہ ہے کہ) وہ کتاب نہیں، وہ دعویدار ہیں کہ (جو وہ پڑھ رہے ہیں) اللہ کی طرف سے ہے جبکہ وہ اللہ کے ہاں سے نہیں، وہ اللہ پر جھوٹ بولتے ہیں صورتحال یہ ہے کہ وہ جانتے ہیں۔
مجموع الفتاوٰی کی اصل عبارت کچھ یوں ہے:
وقد نص الإمام أحمد وغيره على أنه ليس لأحد أن يعتقد الشيء واجبا أو حراما ثم يعتقده غير واجب ولا حرام بمجرد هواه-
امام احمدؒ نے اس بات پر دلیل قائم کی ہے کہ کسی کو لائق نہیں کہ اپنی ہوائے نفس کے لیے کسی چیز کو واجب یا حرام قرار دیتا رہے اور پھر (اپنی ہوائے نفس) خواہش کے لیے غیر واجب، غیر حرام قرار دے دے۔
آگے بھی مختلف مثالیں دی ہیں کہ کسی کو لائق نہیں ہے کہ وہ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے ان چیزوں کو حرام یا جس کو چاہا حلال قرار دے لے.....
ان چیزوں کو سامنے رکھ کر اور دوسروں کی عبارت کو امام صاحب کے نام لگا کر کوئی بندہ بھی جناب امام ابن تیمیہؒ پر تقلید جیسے گندے عقیدے کے جواز کے لیے قطعی کوئی دلیل نہیں بنا سکتا۔
Beshak Behna .. Bagair Tasdeek Karkay Post Karnay Walay ko jhoota kaha gaya hai ...

Huzoor S.A.W.W Nay Farmaya
Kafi hai aadmi kay jhootay honay kay liye yeh baat kay jo sunay woh bagair tehqeeq kay agay bayan karday ...
( Sahi Muslim )
 
  • Like
Reactions: *Muslim* and shizz

shizz

Active Member
Sep 26, 2012
157
390
113
pakistan
Wah Boht hi zabardast behnaa ... Bilkul Sahi kaha aap nay Aisii Saaf Saaf misaalien dalail Hain Koi Kam Aqal bhi samajh lega yeh baatien ... Per Afsos Hai .. Well Allah Aap ko Istakamat Day Behna Ameen ...[DOUBLEPOST=1356697391][/DOUBLEPOST]

Beshak Behna .. Bagair Tasdeek Karkay Post Karnay Walay ko jhoota kaha gaya hai ...

Huzoor S.A.W.W Nay Farmaya
Kafi hai aadmi kay jhootay honay kay liye yeh baat kay jo sunay woh bagair tehqeeq kay agay bayan karday ...
( Sahi Muslim )
jazak allah bhai
Allah hm sbko isteqamat de ameen,
taqleed ko parwan charhane main sb se bara kirdar ulma hazraat ka hai, agr woh quran ki tashreeh sahi ahadees ki roshni main byan kren to taqleed ka nam o nishan mit jaega,
in shaa Allah main agay thread lagaongi k jb koi ksi ayat ka mafhoom thek tarah na samajh pata tha to sahaba karam ahadees ki roshni main kis tarah rahnumai krte the,
nez aik or thread b lagana hai k jis masle main Allah or uske rasool khamosh hain us main hme b khamoshi ikhtiyar krna chahye apni rae se fatwa nhi dena chahye,
 

kingnomi

Doctor
Super Star
Jan 7, 2009
12,873
10,849
1,313
Owsum , Superb , Very Nice :P
jazak allah bhai
Allah hm sbko isteqamat de ameen,
taqleed ko parwan charhane main sb se bara kirdar ulma hazraat ka hai, agr woh quran ki tashreeh sahi ahadees ki roshni main byan kren to taqleed ka nam o nishan mit jaega,
in shaa Allah main agay thread lagaongi k jb koi ksi ayat ka mafhoom thek tarah na samajh pata tha to sahaba karam ahadees ki roshni main kis tarah rahnumai krte the,
nez aik or thread b lagana hai k jis masle main Allah or uske rasool khamosh hain us main hme b khamoshi ikhtiyar krna chahye apni rae se fatwa nhi dena chahye,
Hmm Behna in sha Allah Jaldi Lagayein ... Mien bhi bhi is mutaliq aik thread laga rha hun dekho aap ..
 
  • Like
Reactions: shizz

arifmaqsood1125

Regular Member
Jul 13, 2012
128
177
43
Karachi
آدھی ادھوری بات کو سن کر اپنی طرف سے مطلب نکلنا مقلدین کی پرانی عادت ہے جیسے کہ
"انہوں نےکہا ہم آپ کے قول پرعمل کر کے حضرت زید کے قول کو نہیں چھوڑیں گے"
یہ تو آپ نے پڑھ لیا اس سے جو نتیجہ نکالا وہ بھی بیان کر دیا کہ :
" تقلید کے ثبوت کے لیے اتنا ہی کافی ہے"
سوال تو یہ ہے کہ آخر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سوال ہی کیوں کیا تھا؟؟جب کہ وہ حضرت زیدرضی اللہ عنہ کا قول چھوڑنے پر تیار ہی نہ تھے. ظاہر ہے کے وہ حضرت زید کی بات کو تقلید کے طور پر نہیں ماننا چاہتے تھے . .

اول ہرسوال تحقیق کے لیے نہیں کیا جاتا جیسے آپ کے سوالات برائے تحقیق نہیں ہیں. بلکہ سوال کا عام مقصد جاننا ہوتا ہے اور جب اک امر کو جان چکے تو پھر دوبارہ سوال کرنے کی دو عام وجوہ ہوتی ہیں
1 جانے ہوئے کی تفصیل یا تسہیل دریافت کرنا
2 جانے ہوئے کی تصدیق کرنا آیا معلوم کی ہوئی بات ٹھیک ہے یا غلط، اور اسی دوسری قسم سوال کو تحقیق کرنا کہتے ہیں
اب آئیے ذرا بقول آپ کے "ظاہر ہے کے وہ حضرت زید کی بات کو تقلید کے طور پر نہیں ماننا چاہتے تھے" آپ کا یہ اختراعی بیان نہ تو حدیث کے کسی جملے یا لفظ کا مدلول ہے جو ظاہر ہو اور نہ ہی حدیث میں اہل مدینہ کے کھلے موقف کے موافق بلکہ خلاف ہے جب نص حدیث میں حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ نے اہل مدینہ کے موقف کی صراحت کر دی کہ "انہوں نےکہا ہم آپ کے قول پرعمل کر کے حضرت زید کے قول کو نہیں چھوڑیں گے" اور وہ بھی حضرت بن عباس رضی اللہ عنہ سے سوال کے بعد تو ان کے سوال کی وجہ، کلام حدیث سے معلوم ہوگئی یہ کہ اگر سوال برائے تحقیق ہوتا یعنی حضرت زید رضی اللہ عنہ کی بات ٹھیک ہے یا غلط تو وہ یہ نہ کہتے حضرت زید رضی اللہ عنہ کے قول کو نہیں چھوڑیں گے. حدیث میں حضرت زید رضی اللہ عنہ کے قول کو نہ چھوڑنے کی تصریح ہے اور آپ کہتی ہو وہ حضرت زید کی بات کو تقلید کے طور پر نہیں ماننا چاہتے تھے آپ کی بات مانیں یا حدیث کے اس مدلول کو جو ظاہر و واضح ہے? لہذا آپ کے مفروضے میں محظ اشکال ہے اوراہل مدینہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سوال کے بعد (نہ کہ سوال سے پہلے)، حضرت زید رضی اللہ عنہ کے قول، ٹھیک ہو یا غلط ہر دو حال میں نہ چھوڑنے کے قائل بیان ہوئے جس سے نہ صرف حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سوال کرنے کا مقصد تحقیق نہ کرنا ظاہر ہو گیا بلکہ حضرت زید رضی اللہ عنہ کے قول پر کلی اعتماد کرنا ثابت ہو گیا اس لیے تقلید کی تعریف احناف کے ثبوت کے لیے اتنا ہی کافی ہے فقط.
بلکہ وہ اس کوشش میں تھے حضرت زید رضی اللہ عنہ کے قول کی دلیل تلاش کی جاۓ
یہ بھی آپ کا اختراعی بیان ہے جو خلاف حدیث ہے کیونکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سوال کے بعد حضرت زید رضی اللہ عنہ کے قول کونہ چھوڑنے کی تصریح حدیث کر رہی ہے اگر دالیل تلاش کر رہے ہوتے تو قول زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو ترجیح دینے کا التزام بھی نہ کرتے یقینا حضرت زید رضی اللہ عنہ نے بلا دالیل شرعی فتوٰی صادر نہیں فرمایا تھا نہ ہی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کیونکہ حدیث میں بلا دالیل شرعی محظ اپنی رائے سے فتوٰی دینے کو گمراہی سے تعبیر کیا گیا ہے "ان سے مسئلے پوچھے جائیں گے تو وہ اپنی رائے سے فتوی دیں گے وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے" صحیح بخاری: کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة باب من زم الراي ح :۷۰۳۷ جبکہ
لہذا صحابی رسول کے فتوی کو بلا دالیل شرعی محظ قول جان کر حدیث کے خلاف سمجھنا غلط ہے بلکہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا فتوٰی جس دالیل شرعی پر تھا اس سے قوی دالیل معلوم ہوئی تو آپ نے رجوع فرمایا
اب یہ بتایے کہ وہ کیوں حضرت زیدرضی اللہ عنہ کے فتوے سے رجوع کرتے. بالاخر مزید تحقیق کے بعد انھیں معلوم ہو گیا کہ حضرت زید رضی اللہ عنہ کا فتویٰ غلط تھا. انہوں نے بھی رجوع کیا اور حضرت زید رضی اللہ عنہ نے بھی. .
یہ بھی آپ کا اختراعی بیان ہے کیونکہ حدیث میں اہل مدینہ کا قول زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو ترجیح دینا ثابت ہے رہی بات کہ انھوں نے صورت متنازعہ ہونے کے بعد جو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے مشورہ پہ کہ "جب تم مدینہ جاؤ تو اس مسئلہ کو معلوم کر لینا" سفر مدینہ اختیار کیا تو یہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے قول کی تحقیق کے لیے تھا کہ آیا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی مخالفت بجا ہے کہ نہیں. کیونکہ حدیث مذکورہ میں اہل مدینہ کے اپنے بیان "حضرت زید کے قول کو نہیں چھوڑیں گے" سے رجوع کرنے کے بارے میں خاموشی ہے اورحضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے رجوع کی تصریح حافظ ابن حجر عسقلانی متوفی 852 ھ کے قول سے ملتی ہے جس سے قیاسا اہل مدینہ کی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی اتباع میں رجوع کرنا تو ثابت ہوتا ہے مگر حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی مخالفت ثابت نہیں ہوتی، پھر ملاحظہ ہوحافظ رحمۃ کی تصریحات
حافظ ابن حجر عسقلانی متوفی 852 ھ نے سنن ابو داؤد طیالسی کے حوالے سے لکھا ہے کہ انصار نے کہا اے ابن عباس! جب آپ زید کی مخالفت کریں گے تو ہم آپ کی اتباع نہیں کریں گے، اور سنن نسائی کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب حضرت زید بن ثابت کو حضرت صفیہ کی حدیث کا علم ہوا تو انہوں نے اپنے موقف سے رجوع کر لیا
اب ناظرین پہ عیاں ہوگیا ہو گا کہ یہ حدیث تقلید کا رد کسی طرح نہیں کرتی بلکہ تقلید شخصی کو زمانہ اصحاب رسول اللہ میں ثابت کرتی ہے چہ جائے اول معترض نے زمانہ تابعین و تبع بابعین سے دالیل طلب کی تھی
بڑی ہی عجیب بات کہی ہے بھائی آپ نے ایک طرف تو آپ کہتے ہیں کہ
وہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے زیادہ فقہہ سمجھتے ہوئے ان کے قول پراعتماد کرتے تھے
یعنی کے اہل مدینہ مقلد تو زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے تھے مگر تحقیق کے لیے یا تفصیل کے لیے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس گۓ. یعنی کہ تقلید کی تعریف ہی بدل گئی کہ کسی کے قول کو بلا دلیل مان لینا،
اسکو ہی تحقیق کہتے ہیں تقلید نہیں، حدیث کے سامنے آنے کے بعد قول رد کر دیا گیا،
یہ بھی محظ اشکال ہے اوپر دیا گیا جواب اس اعتراض کو بھی رفع کرتا ہے
،


اگر ایک عام انسان جو کہ دین کی زیادہ سمجھ بوجھ نہ رکھتا ہووہ کسی عالم دین کی مدد سے قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل کو سمجھے. نہ کے تقلید میں پڑ کر اپنے آپ کو مزید گمراہ کرے، اگر کسی عالم کو قرآن و حدیث کا علم ہی نہیں ہے تو وہ عالم کس بات کا ہے؟
مومنو! خدا اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحب حکومت ہیں ان کی بھی اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں خدا اور اس کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع کرو یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا مآل بھی اچھا ہے
سورة النساء59
یعنی کہ آیت کے پہلے حصّے میں مقلدین سے خطاب کیا گیا ہے اور آخری حصّے میں مجتہدین سے.. اس تفریق کی کوئی دلیل؟؟؟ کتنی عجیب بات ہے کہ آیت کے پہلے حصّے سے تقلید ثابت کرتے ہیں جب دوسرا حصّہ تقلید کی مخالفت کر رہا ہے تو مقلدین یہ کہ دیتے ہیں کہ اس میں مجتہدین سے خطاب کیا گیا ہے، جب کہ پورا قرآن دنیا کہ تمام انسانوں کے لیے ہدایت ہے، پھر اپنی طرف سے تفریق کر لینا کیا بدعت نہیں ؟؟؟

کیا اس آیت پر اب بھی عمل ہو سکتا ہے یا نہیں؟ اگر ہو سکتا ہے تو اس زمانے میں جو علماء ہیں انکی تقلید ہوگی نہ کہ فوت شدہ چار علماء کی. لہٰذا یہ آیات تقلید کی تردید کرتی ہے تائید نہیں.
یہ آیت تو اجتہاد کا دروازہ کھول رہی ہے جو کہ آپ بند کر چکے ہیں
صحیح احادیث پر کسی کا اختلاف نہیں ہے، گمراہ تو ضعیف احادیث پرعمل کرنے والے ہوتے ہیں، اگر کسی عالم سے کوئی مسئلہ دریافت کیا جاۓ اور وہ صحیح احادیث کی روشنی میں رہنمائی کرے تو تقلید کا جڑ سے خاتمہ ہو جایگا

یہ دونو احادیث صحیح ہیں آپ لوگوں نے محظ قیاس کی بنیاد پر اسے رد کر دیا یہ احادیث کا انکار نہیں تو اور کیا ہے،
اس وقت فرض شروع کرنا منع ہے یا پھر شروع کیے گۓ فرض کو پورا کر لینا بھی منع ہے؟
دونوں احادیث کا مطلب صاف ہے کہ ایسے وقت میں نماز ممنوع ہے سواۓ اس فرض نماز کے جسکی ایک رکعت وقت کے اندر مل جاۓ.

مذکورہ اعتراضات بالا کو پڑھنے کا سرسری وقت ملا، جواب فارغ ٹائم میں دونگا، آپ کی اطلاعا عرض ہے میں بحث میں تو پڑ گیا ہوں مگر نہ تو نیٹ کا باقاعدہ یوزر ہوں نہ مجھے اتنا وقت ملتا ہے کہ میں بحثیں کروں! لیکن آپ کو تحمل کرنا ہوگا اگر جواب کا انتظار ہو تو!
@Tooba Khan
@nasirnoman
@i love sahabah
 
Top