Thread ka title tak parha nahin janaab aap ne aurالسلام علیکممقلدین کا مذہب ہر گز کسی حدیث و آیت کے خلاف نہیں اگرچہ بظاہر ایک حکم کسی محدث کے یہاں صحیح سند سے مروی حدیث کے موافق نہیں بھی واقع ہے مگر بعض آئمہ نے اپنے تک پہنچی برعکس صحیح روایت پر حکم بیان فرمایا اور بعض نے اسی حدیث مختلفۃ فی الحکم کے مطابق حکم بیان کیا کیونکہ صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمٰعین سے اختلاف عمل ثابت ہے. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف یہ منسوب کیا کہ حضور نے فرمایا" الوضوء مما مست النار جسے آگ نے چھوا ہو اس سے وضوء ہے" حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ روایت بیان کی تو وہاں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما بھی موجود تھے انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے سامنے یہ معارضہ پیش کیا "انتوضاءمن الدھن انتوضاء من الحمیم کیا تیل کے استعمال سے یا گرم پانی کے استعمال سے وضوء ٹوٹ جائے گا?" اس کے جواب میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے بھتیجے جب حدیث رسول بیان کروں تو مثالیں نہ دیا کرو! مگر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما قائم رہے اور آج تک یہی جمہور کا مذھب ہے کیا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما اور جمہور امت کو یہ التزام دیا جا سکتا ہے کہ انھوں نے قیاس شرعی کی بناء پر حدیث کو ترک کیا?حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے یہ حدیث بیان کی کہ "جو جنازہ اٹھائے وضوء کرے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما نے کہا ھل یلزمنا الوضوء من حمل عید ان یا بسۃ کیا سوکھی لکڑیاں اٹھانے سے ہم پر وضوء لازم ہے? حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما کے اس موخذہ پر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ خاموش ہو گئے نزھۃ القاری شرح صحیح البخاری جلد 1یقینا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما کے پاس اس کے برعکس حدیث کا علم ہونا بھی ممکن ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ وعمل کا علم قطعی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عورتوں کو مسجد جانے سے روک دیا تو انھوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھما کی خدمت میں شکایت کی. آپ نے فرمایا. اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہ حالات مشاہدہ فرماتے جو حضرت عمررضی اللہ عنہ مشاہدہ کر رہے ہیں تو وہ بھی تم کو مسجد جانے کی اجازت نہ عطا فرماتےمسلم شریف، ص 266، ج-1، باب استحباب صلاۃ النافلہ فی بیتہ، ناسر مجلس برکاتکیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح حکم نہ تھا کہ عورتوں کو مسجد میں جانے سے نہ روکو!? اورکیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر حدیث رد کرنے یا چھوڑنے کا الزام بطریق تنقیص لگایا جا سکتا ہے، اور پھر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھما نے بھی خلاف حدیث امرکی تصدیق کر دی اورحدیث پر قول کو فوقیت دی? تف ایسی فتنہ پرور سوچ پر جو حدیث کے نام پر مسلمانوں کے اذہان منتشر کر کے آئمہ کے ان مسائل مختلف فیہ جو دالائل شرعیہ پر مبنی ہیں پر تنقید کرتے ہیں اور خود کو حدیث کا عامل بتاتے ہیں. ہر گز ہرگز تقلید کے بغیر حدیث پر عمل نہ کر پائیں گے. عمل کا اختلاف خود نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھی ہوا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تہجد کی نماز بالجہر ادا فرماتے تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بالسر، اور ایسے کئی اختلافات کو نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمٰعین کی نیتوں کے موافق جائز رکھا اورصحابہ رضوان اللہ علیھم اجمٰعین کی نیتیں قرآن و سنت ہی کے پیش نظر تھیں.حضرت ابو سعید بن معلٰی رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ میں مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا اتنے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا میں فورا حاضر بارگاہ نہ ہوا کچھ دیر بعد حاضرہو کرعرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نماز پڑھ رہا تھا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا اللہ عزوجل نے یہ حکم نہیں دیا کہ "اللہ اور رسول بلائیں تو حاضر ہو جاؤ"صحیح بخاری، ص 642، ج 2نماز توڑنا گناہ ہے مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پرحاضر ہونا اس سے بڑا فرض. حدیث کا نام لینے والے یہ بتائیں اگرآئمہ دالائل شرعی بیان کرکے امت کو فرض و واجب و سنت اور مستحب میں تمیز نہ بتاتے تو کس حدیث سے عمل کا صحیح ہونا پتا چلتا? فرض و واجب ومستحب جمع ہو جائیں تو کیا اپنے دل پر چلیں جو آسان لگے کر لیں?شرعی اصول یہ ہے کہ اگر شرعی دلیل (قرآن و سنت و اجماع امت و قیاس شرعی، ضرورت شرعی، حاجت شرعی، عموم بلوٰی، عرف شرعی، تعامل شرعی، مصلحت شرعی اور ازالہء فساد) کا نا قابل عمل صحیح حدیث (کیوں کہ ہر حدیث پر عمل ممکن نہیں) سے معارضہ پیش آ جائے یعنی باہم حکم میں الگ الگ یا مختلف ہوں تو شرعی دالیل پر عمل کیا جائے گا اور معارض حکم کو چھوڑ دیا جائے گا. اک مثال نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحت کے ساتھ ثابت ہے کہ نماز کا تارک کافر ہے" صحیح مسلم، ص 232، ج 1، ناشر مجلس برکات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت ایک نماز کا بھی ترک، عرف و علامت کفر تھا مگر مسلمان کے عمل کی وجہ سے یہ عرف و علامت بدل گیا علامت فسق و فجور بن گیا اس لیے اب اگر کسی نے جان بوجھ کر نماز ادا نہ کی تو فاسق کہلائے گا.محدثین میں جو اختلاف ہے وہ اسناد پر ہے. کئی احادیث جو سند کے اعتبار سے ضعیف جان کر امام بخاری نے صحیح بخاری میں شامل نہیں کیں ان متروکہ احادیث میں سے کچھ امام مسلم نے صحیح مسلم میں صحیح روایت سے ذکر کیں. امام بخاری کو ایک لاکھ صحیح احادیث حظ تھیں جبکہ صحیح بخاری میں چار ہزار کے قریب صحیح احادیث ہیں. آج تک کسی نے بھی نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام احادیث کا احاطہ ء یاداشت نہیں کیا امام بخاری نے بھی بتوفیق الہی احادیث جمع کیں مگر نہ جانے کتنی احادیث ان تک نہیں پہنچی تو کوئی کیسے امام بخاری و دیگر محدثین کی چند احادیث پیش کرکے آئمہ کے مذاہب کو خلاف حدیث ٹھرا سکتا ہے? حالانکہ امام اعظم رحمۃ اللہ ان سے پہلے کے دور میں تھے جب احادیث جمع کرنے کا رواج یا ضرورت اس قدر پیش نہیں آئی تھی اگر ان پر یہ اعتراض رواں ہو سکتا ہے کہ انھوں نے صحیح احادیث کو چھوڑا تو پھریہ لوگ توصحابہ رضوان اللہ علیھم اجمٰعین پر بھی یہ الزام لگانے سے نہیں ڈریں گے فَسـَٔلوا أَهلَ الذِّكرِ إِن كُنتُم لا تَعلَمونَ (النحل:۴۳والانبیا:۷) پس تم سوال کرو اہل علم (علماء) سے، اگر تم نہیں علم رکھتے"اللہ علماء سے پوچھے ہوئے پر عمل کو مشروع کرتا ہے اور یہ لوگ ان علماء کے بتائے ہوئے پر تحقیق کا اضافی حکم دیتے ہیں اللہ نے تو یہ تحقیق سب پر فرض نہیں کی پوچنے کو عمل کے لیے مشروع کیا فقط تو جوصورت مذکورۃ میں اللہ کے حکم کو مانتے ہوئے بطریق تقلید مجتھد کے قول پر عمل کرتا ہے اس کے لیے اتنا ہی کافی ہے. میں ٹی ایم سے مفرور اس لیے ہوں کہ یہاں آ کر باخدا میرا قیمتی وقت خراب ہوتا ہے یہاں کے اکثر لوگوں کی عادت ہے کہ جو وہ قرآن و حدیث کے ظاہری معنٰی سے غلط تعبیر لے کر علماء و فقہا اکرام کی تعلیمات کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں افسوس یہ کہ انہیں شرعی دلیل اور ذاتی رائے میں بھی تمیز نہیں پھران لوگوں کا سلوک یہ ہے کہ اگر کوئی بات سمجھائی جائے تو پے در پے اعتراض کرتے رہیں گے اور من مانتی کے سواء پرعمل نہیں کریں گے اور نام قرآن و حدیث کا لے لینگے، ان کے جوابات میں وقت دینا فضول ہے. ان کے نزدیک قیاس و اجتھاد و اجماع امت شرعی دلیل نہیں ہوتے ان کا بیان ہے "شرعی دلیل صرف قرآن اور حدیث کا نام ہے" اگر کوئی مسلمان تو کیا، کافر قرآن و حدیث کی عبارت کا حوالہ دے کر اپنا مذھب ثابت کرنا چاہے تووہ بات انکے لیے دالیل شرعی ہو گی! اور سمجھیں گے ہم قرآن و حدیث پر عمل پیرا ہیں ان کا گمان ہے فقہا میں اگر کوئی کامل ہوتا تو ان میں اختلاف نہ ہوتا تو جو صحابہ رضوان اللہ علیھم میں فقہی اختلاف تھا اس کا بھی انہیں انکار کر دینا درست لگتا ہوگا. نعوذ اللہ! وہ بھی کامل نہیں! ان کی پیروی کامیابی کی ذمانت نہیں! نعوذ اللہ! ان کا وقتی مشروعیت اصول ہے " تو وقتی طور پر تو وہ صحابی، تابعی یا محدثین کرام کے قول کے مطابق فتویٰ دے سکتا ہے" افسوس! جن ستاروں کی پیروی کو نص حدیث میں ہدایت پانا فرمان ہوا اسے بھی وقتی بنا دیا! یعنی جب من منا تو قول بھی دالیل،،،، نعوذ اللہ! اگران ہستیوں کے مابین اختلاف رہا تو کسی نہ کسی شرعی دلیل کے تحت رہا اور اس کی بنیاد علمی تفاوت بنی، ہرعلم والے پر اک زیادہ علم والا ہے کما جآء فی قولہ تعالٰی.
taqleed ki tareef bayan karne lage agar
aap muqallid hi ho to ooper ki janib jo
ulma ke bayanaat hain wo bhi ehl e ahnaf ke ulma hain
unse bhi zyaada ilm aapko to nahin hi hoga ??
so aap unki bi taqleed karo unhone jesa bola taqleed
ko aap qabool karo ke unhone sahi hi bola hai
ya phir inki taqleed na karke jese ke aap ne nahin hi kiya
ye saabit karo ke aalim koi bhi ho hamesha uska fatwa sahi nahin hota
kisi bhi aalim ka har ISLAMI qoul sahi nahin hota
balke sahi sirf us hi qoul ko maanna chaahiye jo QURANI ayaah aur
ahadeeth ke bilkul mutabiq hai choice is yours aur ab mauzu ke mutaliq
jawaab dijiyega ghuma phira kar nahin sirf ye batana hai aap ko ke
ooper ki janib jo ulma taqleed ke mutaliq bataae ke taqleed kya hai ??
aap use sahi maante hain ya nahin ??