بےشک نہ میرے ساتھ سفر اختیار کر
اےمیرے بد گمان مرا اعتبار کر!
وہ خود تو تتلیوں کو لئے گھومتا رہا
اور مجھ کو خط میں لکھتا رہا انتظار کر
اب ان کے قافلے تو کہیں دور جاچکےہیں
جن کی چلب میں آئے تھےصحرا گزار کر
میں نے تو تیرے ہجر کا دکھ جھیل ہی لیا
اب تو بھی خود کو وقف رہِ انتظار کر
کب ہو سکی ہےان کی سمندر سےدوستی
مٹی کےان گھروندوں پہ کم انحصار کر
فرصت ملے تو دیکھ مرے دل کے آئینے
آنکھوں سے اپنی کاغذی پہ دے اتار کر
اےمیرے بد گمان مرا اعتبار کر!
وہ خود تو تتلیوں کو لئے گھومتا رہا
اور مجھ کو خط میں لکھتا رہا انتظار کر
اب ان کے قافلے تو کہیں دور جاچکےہیں
جن کی چلب میں آئے تھےصحرا گزار کر
میں نے تو تیرے ہجر کا دکھ جھیل ہی لیا
اب تو بھی خود کو وقف رہِ انتظار کر
کب ہو سکی ہےان کی سمندر سےدوستی
مٹی کےان گھروندوں پہ کم انحصار کر
فرصت ملے تو دیکھ مرے دل کے آئینے
آنکھوں سے اپنی کاغذی پہ دے اتار کر