بول ۔۔۔۔
بول، کے لب آزاد ہیں تیرے
بول، کہ جاں اب تک تیری ہے
تیرا ستواں جسم ہے تیرا
بول کے جان اب تک تیری ہے
دیکھ کے آہن گر کی دکاں میں
تند ہیں شعلے، سرخ ہیں آہن
کھلنے لگے قفلوں کے دہانے
پھیلا ہر اک زنجیر کا دامن
بول، یہ تھوڑا وقت بہت ہے
جسم و زباں کی موت سے پہلے
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول، جو کچھ کہنا ہے کہ لے !
فیض احمد فیض
بول، کے لب آزاد ہیں تیرے
بول، کہ جاں اب تک تیری ہے
تیرا ستواں جسم ہے تیرا
بول کے جان اب تک تیری ہے
دیکھ کے آہن گر کی دکاں میں
تند ہیں شعلے، سرخ ہیں آہن
کھلنے لگے قفلوں کے دہانے
پھیلا ہر اک زنجیر کا دامن
بول، یہ تھوڑا وقت بہت ہے
جسم و زباں کی موت سے پہلے
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول، جو کچھ کہنا ہے کہ لے !
فیض احمد فیض