بغیر سوره فاتحہ کے نماز نہیں

  • Work-from-home

Shiraz-Khan

Super Magic Jori
Hot Shot
Oct 27, 2012
18,264
15,551
1,313
ye mie aap se kehna chahta hun k kam az kam doosry bandi ki post perh liya karo phir koi reply kiya karo...
aap ne jo ayat k hawaly diye un ka jawab mie de chuka hun.....
ye to aap ne meri ksi baat ka jawab nien diya balk baar baar wohi ahadees pesh ki jo pehly aap pesh kar chuky ho..
mera sawal ab bhi yehi hay k aap Sahah sitta ki en ahadees ko manty ho ya nien?????????
ws..
bro sub sey pehley tu mey yahi kahonga k aap ney MASHA'Allaah koi qasar nahi chori samjhaney ki. or haqiqat mey dekha jaey tu abi taq exact ansr nahi mila. bus Allaah pak hum sub ko sahi tarah sey deen ko samajhney or usper amal kerney ki toufeeq ata farmaey.ameen
Allaah aapko deeno dunya mey kamiyabi ata farmaey afiat k saath ameen.
JAZAKALLAAH Mohsin bhai.
@​
lovelyalltime​
@​
nasirnoman​
@​
Tooba Khan​
@​
S_ChiragH​
@Farhan-Shamsi
 

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
ye mie aap se kehna chahta hun k kam az kam doosry bandi ki post perh liya karo phir koi reply kiya karo...
aap ne jo ayat k hawaly diye un ka jawab mie de chuka hun.....
ye to aap ne meri ksi baat ka jawab nien diya balk baar baar wohi ahadees pesh ki jo pehly aap pesh kar chuky ho..
mera sawal ab bhi yehi hay k aap Sahah sitta ki en ahadees ko manty ho ya nien?????????






 
  • Like
Reactions: shizz and *Muslim*

i love sahabah

TM Star
Sep 17, 2008
1,108
1,572
1,313
تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم

لولی پہلے کی طرح اب بھی میری کسی بات کا جواب نہیں دیا۔
ایسے صرف کاپی پیسٹ کرنا ہے تو بھائی ایک ہی بار ٹاپک بنا کے اس پہ تمام مواد کاپی پیسٹ کر دو۔
جب ٹاپک بنایا ہے تو پھر جواب دینے کی بھی ہمت رکھو۔ یا ٹاپک بناتے وقت بتا دو کہ آپ سے کوئی سوال نہ کیا جائے۔
ہر ٹاپک میں یہی کر رہے ہو کہ پوسٹ کا جواب دینے کی بجائے پھر کہیں سے کوئی مضمون یا کوئی امیج اٹھا کے اس کو یہاں لگا دیتے ہو۔
جناب پہلے جو باتیں میں نے پچھلی پوسٹ میں پوچھی ہیں ان کا تو جواب دے دیں۔

آپ نے کہا کہ اس میں قرآت کے وقت خاموشی کا حکم ہے۔ تو کیا سورت فاتحہ قرات نہیں ہے۔ یا سورت فاتحہ قران میں نہیں ہے؟
اس روایت میں واضح بیان کیا گیا ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو خاموشی سے سنو اور سورت فاتحہ قران میں ہے۔ کیا آپ سورت فاتحہ کو قران میں نہیں مانتے؟؟
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ کی روایت میں کہاں ہے کہ با آواز بلند الحمد کے سوا قرآت کے وقت خاموش رہو؟؟؟
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْب , قَالَ : ثنا الْمُحَارِبِيّ , عَنْ دَاوُد بْن أَبِي ھنْد , عَنْ بَشِير بْن جَابِر , قَالَ : صَلَّى اِبْن مَسْعُود , فَسَمِعَ نَاسًا يَقْرَءُونَ مَعَ الإِمَام , فَلَمَّا اِنْصَرَفَ , قَالَ : أَمَا آنَ لَكُمْ أَنْ تَفْقَهُوا ؟ أَمَا آنَ لَكُمْ أَنْ تَعْقِلُوا ؟ وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآن فَاسْتَمِعُوا لَہ وَأَنْصِتُوا كَمَا أَمَرَكُمْ اللَّہ .
(تفسیر ابن جریر /سورۃ اعراف /آیت 204، جلد 13 /صفحہ 346 )
حضرت عبدا للہ بن مسعود ؓ نے ( ایک مرتبہ )نماز پڑھائی اور چند آدمیوں کو انہوں نے امام کے ساتھ قراة کرتے سنا جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم سمجھ اور عقل سے کام لو جب قرآن کریم کی تلاوت ہو رہی ہوتو اس کی طرف کان لگاو اور خاموش رہو جیسا اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس کا حکم دیا ۔
اس روايت سے انتہائ واضح طور پر یہ بات ہوگئ ہے کہ کچهہ لوگ امام کے پیچهے قراءت کر رہے تهے اور حضرت عبدالله ابن مسعود رضی الله عنه نے ان کو قراءت سے منع کیا اور یہ بات واضح کردی کہ اس آیت وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا میں الله تعالی نے لوگوں کو خوب توجہ سے سننے اورخاموش رہنے کا حکم دیا ہے۔
اس روایت میں تو باآواز بلند کن الفاظ کا ترجمہ ہے اور یہ کہاں لکھا ہے کہ الحمد کے علاوہ باقی قرآت کے وقت خاموش رہو؟؟
یہ ترجمہ آپ نے کہاں سے نکالا اس روایت کا؟؟
اب آپ نے شاہ فہد کمپلیکس کا ترجمہ شدہ قران یہاں لگا دیا لیکن شاید خود اس کو پڑھنا بھول گئے۔
سب سے پہلے تو آپ نے یہ نہیں بتایا کہ یہ ترجمہ مولانا جونا گڑھی کا کیا گیا ہے اور اس کا حاشیہ صلاح الدین یوسف صاحب کا ہے جو کہ دونوں اہلحدیث عالم ہیں جبکہ آپ کے نزدیک تو کسی عالم اور امام کی بات ماننا جائز ہی نہیں تو پھر ان علماء کے ترجمہ اور حاشیہ پہ اعتبار کیسے کر لیا؟
کیا صلاح الدین یوسف اور جونا گڑھی اپ کے لئے حجت ہیں؟
میں نے تو قران کی آیت کی تشریح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پیش کی جس کو آپ نے تسلیم نہیں کیا اور خود آپ علماء کے حوالے پیش کر رہے ہیں۔
آپ کے نزدیک صلاح الدین یوسف اور جونا گڑھی کی بات ذیادہ اہمیت رکھتی ہے یا حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ اور ابن عباس رضی اللہ کی؟
1213.jpg


اگر آپ خود ہی اس کو پڑھ لیتے تو آپ کو پتہ چلتا کہ یہ حوالہ خود آپ کے موقف کے ہی خلاف ہے۔
آپ کا دعوی ہے کہ کسی بھی نماز میں بھلے وہ امام ہو، منفرد ہو یا مقتدی ہو اور باجماعت نماز میں ہو جو بھی سوری فاتحہ نہیں پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی، لیکن آپ نے جو صفحہ لگایا ہے اس میں آپ نے اپنے مطلب کی بات تو بیان کر دی لیکن اسی بات سے نیچے علامہ ابن تیمیہ رح کا حوالہ چھوڑ دیا۔
آپ نے جو صفحہ لگایا اسی پہ لکھا ہے کہ علامہ ابن تیمیہ رح کے نزدیک سلف کی اکثریت کا قول ہے کہ مقتدی اگر امام کی قرآت سن رہا ہو تو نہ پڑھے اور اگر نہ سن رہا ہو تو پڑھے۔
یہ حوالہ تو آپ کے خلاف ہی ہو گیا کیونکہ آپ کا تو دعوی ہے کہ جو بھی فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں بھلے مقتدی سن رہا ہو یا نہ سن رہا ہو لیکن یہاں تو جھری قرآت میں مقتدی کو پڑھنے سے منع کیا گیا ہے۔
اب آپ بتائیے کہ جھری نماز میں حنبلی بھی مقتدی کے لئے قرات کے قائل نہیں جیسا کہ آپ کے پیش کئے گئے صفحہ سے واضح ہوتا ہے اور یہی سعودیہ والوں کا اور حنابلہ کا موقف ہے لیکن آپ اس کے منکر ہیں اس لئے یہ حوالہ آپ کے موقف پہ پورا نہیں اترتا۔
آپ علامہ ابن تیمیہ رح کے موقف کو مانیں گے یا صلاح الدین یوسف اور جونا گڑھی کے موقف کو؟

اس کے ساتھ ساتھ قارئین اور ممبران کو ایک بات اور بتا دوں کہ سعودیہ والے چونکہ حنبلی ہیں اس لئے انہوں نے اس ترجمہ میں حنابلہ کا موقف پیش کیا ہے لیکن اگر آپ یہی مولانا جونا گڑھی اور صلاح الدین یوسف کا ترجمہ دار السلام کا یا شاہ فہد کے علاوہ کسی اور متکبہ کا لیں تو اس میں علامہ ابن تیمیہ رح کا یہ قول موجود نہیں ہے کیونکہ یہ دونوں عالم اہلحدیث ہیں اور ابن تیمیہ رح کے اس قول کے منکر ہیں اس لئے وہاں یہ ترجمہ نہیں ملے گا اور سعودیہ والے چونکہ حنبلی ہیں اس لئے شاہ فہد کے ترجمہ میں ان کا موقف واضح موجود ہے کہ مقتدی اگر امام کی قرآت سن رہا ہو تو نہ پڑھے اور اگر نہ سن رہا ہو تو پڑھے۔

لولی کیا اب آپ اپنے ہی دئیے گئے اس حوالے کو دیکھتے ہوئے تسلیم کریں گے کہ جھری نماز میں امام کے پیچھے سورت فاتحہ نہ پڑھنے والے کی نماز ہو جاتی ہے؟
جو آدمی رکوع میں شامل ہو اس کی وہ رکعت بغیر سورت فاتحہ کے ہو جاتی ہے یا نہیں؟

@lovelyalltime @nasirnoman @sherry2112 @Farhan-Shamsi
 
  • Like
Reactions: sherry2112

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم
لولی پہلے کی طرح اب بھی میری کسی بات کا جواب نہیں دیا۔
ایسے صرف کاپی پیسٹ کرنا ہے تو بھائی ایک ہی بار ٹاپک بنا کے اس پہ تمام مواد کاپی پیسٹ کر دو۔
جب ٹاپک بنایا ہے تو پھر جواب دینے کی بھی ہمت رکھو۔ یا ٹاپک بناتے وقت بتا دو کہ آپ سے کوئی سوال نہ کیا جائے۔
ہر ٹاپک میں یہی کر رہے ہو کہ پوسٹ کا جواب دینے کی بجائے پھر کہیں سے کوئی مضمون یا کوئی امیج اٹھا کے اس کو یہاں لگا دیتے ہو۔
جناب پہلے جو باتیں میں نے پچھلی پوسٹ میں پوچھی ہیں ان کا تو جواب دے دیں۔

آپ نے کہا کہ اس میں قرآت کے وقت خاموشی کا حکم ہے۔ تو کیا سورت فاتحہ قرات نہیں ہے۔ یا سورت فاتحہ قران میں نہیں ہے؟
اس روایت میں واضح بیان کیا گیا ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو خاموشی سے سنو اور سورت فاتحہ قران میں ہے۔ کیا آپ سورت فاتحہ کو قران میں نہیں مانتے؟؟
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ کی روایت میں کہاں ہے کہ با آواز بلند الحمد کے سوا قرآت کے وقت خاموش رہو؟؟؟
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْب , قَالَ : ثنا الْمُحَارِبِيّ , عَنْ دَاوُد بْن أَبِي ھنْد , عَنْ بَشِير بْن جَابِر , قَالَ : صَلَّى اِبْن مَسْعُود , فَسَمِعَ نَاسًا يَقْرَءُونَ مَعَ الإِمَام , فَلَمَّا اِنْصَرَفَ , قَالَ : أَمَا آنَ لَكُمْ أَنْ تَفْقَهُوا ؟ أَمَا آنَ لَكُمْ أَنْ تَعْقِلُوا ؟ وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآن فَاسْتَمِعُوا لَہ وَأَنْصِتُوا كَمَا أَمَرَكُمْ اللَّہ .
(تفسیر ابن جریر /سورۃ اعراف /آیت 204، جلد 13 /صفحہ 346 )
حضرت عبدا للہ بن مسعود ؓ نے ( ایک مرتبہ )نماز پڑھائی اور چند آدمیوں کو انہوں نے امام کے ساتھ قراة کرتے سنا جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم سمجھ اور عقل سے کام لو جب قرآن کریم کی تلاوت ہو رہی ہوتو اس کی طرف کان لگاو اور خاموش رہو جیسا اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس کا حکم دیا ۔
اس روايت سے انتہائ واضح طور پر یہ بات ہوگئ ہے کہ کچهہ لوگ امام کے پیچهے قراءت کر رہے تهے اور حضرت عبدالله ابن مسعود رضی الله عنه نے ان کو قراءت سے منع کیا اور یہ بات واضح کردی کہ اس آیت وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا میں الله تعالی نے لوگوں کو خوب توجہ سے سننے اورخاموش رہنے کا حکم دیا ہے۔
اس روایت میں تو باآواز بلند کن الفاظ کا ترجمہ ہے اور یہ کہاں لکھا ہے کہ الحمد کے علاوہ باقی قرآت کے وقت خاموش رہو؟؟
یہ ترجمہ آپ نے کہاں سے نکالا اس روایت کا؟؟
اب آپ نے شاہ فہد کمپلیکس کا ترجمہ شدہ قران یہاں لگا دیا لیکن شاید خود اس کو پڑھنا بھول گئے۔
سب سے پہلے تو آپ نے یہ نہیں بتایا کہ یہ ترجمہ مولانا جونا گڑھی کا کیا گیا ہے اور اس کا حاشیہ صلاح الدین یوسف صاحب کا ہے جو کہ دونوں اہلحدیث عالم ہیں جبکہ آپ کے نزدیک تو کسی عالم اور امام کی بات ماننا جائز ہی نہیں تو پھر ان علماء کے ترجمہ اور حاشیہ پہ اعتبار کیسے کر لیا؟
کیا صلاح الدین یوسف اور جونا گڑھی اپ کے لئے حجت ہیں؟
میں نے تو قران کی آیت کی تشریح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پیش کی جس کو آپ نے تسلیم نہیں کیا اور خود آپ علماء کے حوالے پیش کر رہے ہیں۔
آپ کے نزدیک صلاح الدین یوسف اور جونا گڑھی کی بات ذیادہ اہمیت رکھتی ہے یا حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ اور ابن عباس رضی اللہ کی؟
اگر آپ خود ہی اس کو پڑھ لیتے تو آپ کو پتہ چلتا کہ یہ حوالہ خود آپ کے موقف کے ہی خلاف ہے۔
آپ کا دعوی ہے کہ کسی بھی نماز میں بھلے وہ امام ہو، منفرد ہو یا مقتدی ہو اور باجماعت نماز میں ہو جو بھی سوری فاتحہ نہیں پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی، لیکن آپ نے جو صفحہ لگایا ہے اس میں آپ نے اپنے مطلب کی بات تو بیان کر دی لیکن اسی بات سے نیچے علامہ ابن تیمیہ رح کا حوالہ چھوڑ دیا۔
آپ نے جو صفحہ لگایا اسی پہ لکھا ہے کہ علامہ ابن تیمیہ رح کے نزدیک سلف کی اکثریت کا قول ہے کہ مقتدی اگر امام کی قرآت سن رہا ہو تو نہ پڑھے اور اگر نہ سن رہا ہو تو پڑھے۔
یہ حوالہ تو آپ کے خلاف ہی ہو گیا کیونکہ آپ کا تو دعوی ہے کہ جو بھی فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں بھلے مقتدی سن رہا ہو یا نہ سن رہا ہو لیکن یہاں تو جھری قرآت میں مقتدی کو پڑھنے سے منع کیا گیا ہے۔
اب آپ بتائیے کہ جھری نماز میں حنبلی بھی مقتدی کے لئے قرات کے قائل نہیں جیسا کہ آپ کے پیش کئے گئے صفحہ سے واضح ہوتا ہے اور یہی سعودیہ والوں کا اور حنابلہ کا موقف ہے لیکن آپ اس کے منکر ہیں اس لئے یہ حوالہ آپ کے موقف پہ پورا نہیں اترتا۔
آپ علامہ ابن تیمیہ رح کے موقف کو مانیں گے یا صلاح الدین یوسف اور جونا گڑھی کے موقف کو؟
اس کے ساتھ ساتھ قارئین اور ممبران کو ایک بات اور بتا دوں کہ سعودیہ والے چونکہ حنبلی ہیں اس لئے انہوں نے اس ترجمہ میں حنابلہ کا موقف پیش کیا ہے لیکن اگر آپ یہی مولانا جونا گڑھی اور صلاح الدین یوسف کا ترجمہ دار السلام کا یا شاہ فہد کے علاوہ کسی اور متکبہ کا لیں تو اس میں علامہ ابن تیمیہ رح کا یہ قول موجود نہیں ہے کیونکہ یہ دونوں عالم اہلحدیث ہیں اور ابن تیمیہ رح کے اس قول کے منکر ہیں اس لئے وہاں یہ ترجمہ نہیں ملے گا اور سعودیہ والے چونکہ حنبلی ہیں اس لئے شاہ فہد کے ترجمہ میں ان کا موقف واضح موجود ہے کہ مقتدی اگر امام کی قرآت سن رہا ہو تو نہ پڑھے اور اگر نہ سن رہا ہو تو پڑھے۔

لولی کیا اب آپ اپنے ہی دئیے گئے اس حوالے کو دیکھتے ہوئے تسلیم کریں گے کہ جھری نماز میں امام کے پیچھے سورت فاتحہ نہ پڑھنے والے کی نماز ہو جاتی ہے؟
جو آدمی رکوع میں شامل ہو اس کی وہ رکعت بغیر سورت فاتحہ کے ہو جاتی ہے یا نہیں؟

@lovelyalltime @nasirnoman @sherry2112 @Farhan-Shamsi


سلام. میرے بھائی جب آپ خود مختلف تفسیر پیش کر رھے ہیں تو ٹھیک ہے اور جب میں نے کوئی تفسیر پیش کی تو تو غصہ کھا گۓ. ہمیں اب پتا چلا کہ سعودی عرب والے بے وقوف ہیں خواہ مخواہ تفسیر چاپ رھے ہیں . اتنے لوگ حج کرنے آتے ہیں اور وہ فری میں قرآن کی تفسیر دے رھے ہیں اور لوگ پڑھ رھے ہیں
چلو اب اپنے علماء سے کہو کہ یہ تفسیر بند کروا کر کوئی اچھی سی تفسیر جو آپ کے مسلک کے مطابق ھو چھاپیں
صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 873 حدیث قدسی مکررات 12 متفق علیہ 4
حَدَّثَنَاه إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الْعَلَائِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ صَلَّی صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ ثَلَاثًا غَيْرُ تَمَامٍ فَقِيلَ لِأَبِي هُرَيْرَةَ إِنَّا نَکُونُ وَرَائَ الْإِمَامِ فَقَالَ اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِکَ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ قَالَ اللَّهُ تَعَالَی قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ فَإِذَا قَالَ الْعَبْدُ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ قَالَ اللَّهُ تَعَالَی حَمِدَنِي عَبْدِي وَإِذَا قَالَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَی أَثْنَی عَلَيَّ عَبْدِي وَإِذَا قَالَ مَالِکِ يَوْمِ الدِّينِ قَالَ مَجَّدَنِي عَبْدِي وَقَالَ مَرَّةً فَوَّضَ إِلَيَّ عَبْدِي فَإِذَا قَالَ إِيَّاکَ نَعْبُدُ وَإِيَّاکَ نَسْتَعِينُ قَالَ هَذَا بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ فَإِذَا قَالَ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ قَالَ هَذَا لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ قَالَ سُفْيَانُ حَدَّثَنِي بِهِ الْعَلَائُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْقُوبَ دَخَلْتُ عَلَيْهِ وَهُوَ مَرِيضٌ فِي بَيْتِهِ فَسَأَلْتُهُ أَنَا عَنْهُ


اسحاق بن ابرہیم، سفیان بن عیینہ، علاء بن عبدالرحمن، ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے نماز ادا کی اور اس میں ام القرآن نہ پڑھی تو اس کی نماز ناقص ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ یہی فرمایا اور ناتمام ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا گیا ہے ہم بعض اوقات امام کے پیچھے ہوتے ہیں تو آپ نے فرمایا فاتحہ کو دل میں پڑھو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ اللہ عز وجل فرماتے ہیں کہ نماز یعنی سورة فاتحہ میرے اور میرے بندے کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کر دی گئی ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو وہ مانگے جب بندہ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ کہتا ہے تو اللہ تعالی فرماتے ہیں میرے بندے نے میری حمد بیان کی اور جب وہ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری تعریف بیان کی اور جب وہ مَالِکِ يَوْمِ الدِّينِ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی اور ایک بار فرماتا ہے میرے بندے نے اپنے سب کام میرے سپرد کر دئیے اور جب وہ إِيَّاکَ نَعْبُدُ وَإِيَّاکَ نَسْتَعِينُ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے کہ یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور بندے کے لئے وہ ہے جو اس نے مانگا ہے جب وہ (اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ) کہتا ہے تو اللہ عزوجل فرماتا ہے یہ میرے بندے کے لئے ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو اس نے مانگا۔


کیا یہ حدیث صرف اکیلے آدمی کے لیے ہے
یا امام کے پیچھے نماز والے کے لیے بھی ہے
کیا حضرت ابو ھریرہ راضی اللہ نے اپنے پاس سے بول دیا
 
  • Like
Reactions: *Muslim*

Toobi

dhondo gy molko molko milnay k nae,nayab hum..
Hot Shot
Aug 4, 2009
17,252
11,897
1,313
39
peshawar
jazakAllah mohsin bhai..Allah haq samajnay ki sab ko tofeeq day ameen
 

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
اگر آپ خود ہی اس کو پڑھ لیتے تو آپ کو پتہ چلتا کہ یہ حوالہ خود آپ کے موقف کے ہی خلاف ہے۔
آپ کا دعوی ہے کہ کسی بھی نماز میں بھلے وہ امام ہو، منفرد ہو یا مقتدی ہو اور باجماعت نماز میں ہو جو بھی سوری فاتحہ نہیں پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی، لیکن آپ نے جو صفحہ لگایا ہے اس میں آپ نے اپنے مطلب کی بات تو بیان کر دی لیکن اسی بات سے نیچے علامہ ابن تیمیہ رح کا حوالہ چھوڑ دیا۔
آپ نے جو صفحہ لگایا اسی پہ لکھا ہے کہ علامہ ابن تیمیہ رح کے نزدیک سلف کی اکثریت کا قول ہے کہ مقتدی اگر امام کی قرآت سن رہا ہو تو نہ پڑھے اور اگر نہ سن رہا ہو تو پڑھے۔
یہ حوالہ تو آپ کے خلاف ہی ہو گیا کیونکہ آپ کا تو دعوی ہے کہ جو بھی فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں بھلے مقتدی سن رہا ہو یا نہ سن رہا ہو لیکن یہاں تو جھری قرآت میں مقتدی کو پڑھنے سے منع کیا گیا ہے۔
اب آپ بتائیے کہ جھری نماز میں حنبلی بھی مقتدی کے لئے قرات کے قائل نہیں جیسا کہ آپ کے پیش کئے گئے صفحہ سے واضح ہوتا ہے اور یہی سعودیہ والوں کا اور حنابلہ کا موقف ہے لیکن آپ اس کے منکر ہیں اس لئے یہ حوالہ آپ کے موقف پہ پورا نہیں اترتا۔
آپ علامہ ابن تیمیہ رح کے موقف کو مانیں گے یا صلاح الدین یوسف اور جونا گڑھی کے موقف کو؟
اس کے ساتھ ساتھ قارئین اور ممبران کو ایک بات اور بتا دوں کہ سعودیہ والے چونکہ حنبلی ہیں اس لئے انہوں نے اس ترجمہ میں حنابلہ کا موقف پیش کیا ہے لیکن اگر آپ یہی مولانا جونا گڑھی اور صلاح الدین یوسف کا ترجمہ دار السلام کا یا شاہ فہد کے علاوہ کسی اور متکبہ کا لیں تو اس میں علامہ ابن تیمیہ رح کا یہ قول موجود نہیں ہے کیونکہ یہ دونوں عالم اہلحدیث ہیں اور ابن تیمیہ رح کے اس قول کے منکر ہیں اس لئے وہاں یہ ترجمہ نہیں ملے گا اور سعودیہ والے چونکہ حنبلی ہیں اس لئے شاہ فہد کے ترجمہ میں ان کا موقف واضح موجود ہے کہ مقتدی اگر امام کی قرآت سن رہا ہو تو نہ پڑھے اور اگر نہ سن رہا ہو تو پڑھے۔

لولی کیا اب آپ اپنے ہی دئیے گئے اس حوالے کو دیکھتے ہوئے تسلیم کریں گے کہ جھری نماز میں امام کے پیچھے سورت فاتحہ نہ پڑھنے والے کی نماز ہو جاتی ہے؟
جو آدمی رکوع میں شامل ہو اس کی وہ رکعت بغیر سورت فاتحہ کے ہو جاتی ہے یا نہیں؟

@lovelyalltime @nasirnoman @sherry2112 @Farhan-Shamsi
اور دوسری بات یہ بھی بتا دیں کہ آپ کے نزدیک اگر جھری نماز میں پڑھنا جائز نہیں تو کیا سری نماز میں پڑھ سکتا ہے . کیا آپ سری نماز میں پڑھنے کے قائل ہیں
[DOUBLEPOST=1363586111][/DOUBLEPOST]
سلام
میں ایک اور بات بھی کہنا چاہوں گا
میں جب صحیح مسلم کی حدیث پیش کی تو اس کی آدھی عبارت لکھ کر کہ دیا گیا
کہ
یہ صرف اکیلے آدمی کے لیے ہے
لکن جب پوری حدیث پڑھیں گے
ان لوگوں کا جھوٹ پکڑا جا ے گا
ثبوت خود دیکھ لیں
سب سے پہلے حدیث کو دیکھتے ہیں
صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 873 حدیث قدسی مکررات 12 متفق علیہ 4
حَدَّثَنَاه إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الْعَلَائِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ صَلَّی صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ ثَلَاثًا غَيْرُ تَمَامٍ فَقِيلَ لِأَبِي هُرَيْرَةَ إِنَّا نَکُونُ وَرَائَ الْإِمَامِ فَقَالَ اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِکَ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ قَالَ اللَّهُ تَعَالَی قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ فَإِذَا قَالَ الْعَبْدُ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ قَالَ اللَّهُ تَعَالَی حَمِدَنِي عَبْدِي وَإِذَا قَالَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَی أَثْنَی عَلَيَّ عَبْدِي وَإِذَا قَالَ مَالِکِ يَوْمِ الدِّينِ قَالَ مَجَّدَنِي عَبْدِي وَقَالَ مَرَّةً فَوَّضَ إِلَيَّ عَبْدِي فَإِذَا قَالَ إِيَّاکَ نَعْبُدُ وَإِيَّاکَ نَسْتَعِينُ قَالَ هَذَا بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ فَإِذَا قَالَ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ قَالَ هَذَا لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ قَالَ سُفْيَانُ حَدَّثَنِي بِهِ الْعَلَائُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْقُوبَ دَخَلْتُ عَلَيْهِ وَهُوَ مَرِيضٌ فِي بَيْتِهِ فَسَأَلْتُهُ أَنَا عَنْهُ


اسحاق بن ابرہیم، سفیان بن عیینہ، علاء بن عبدالرحمن، ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے نماز ادا کی اور اس میں ام القرآن نہ پڑھی تو اس کی نماز ناقص ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ یہی فرمایا اور ناتمام ہے،حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا گیا ہے ہم بعض اوقات امام کے پیچھے ہوتے ہیں تو آپ نے فرمایا فاتحہ کو دل میں پڑھوکیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ اللہ عز وجل فرماتے ہیں کہ نماز یعنی سورة فاتحہ میرے اور میرے بندے کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کر دی گئی ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو وہ مانگے جب بندہ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ کہتا ہے تو اللہ تعالی فرماتے ہیں میرے بندے نے میری حمد بیان کی اور جب وہ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری تعریف بیان کی اور جب وہ مَالِکِ يَوْمِ الدِّينِ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی اور ایک بار فرماتا ہے میرے بندے نے اپنے سب کام میرے سپرد کر دئیے اور جب وہ إِيَّاکَ نَعْبُدُ وَإِيَّاکَ نَسْتَعِينُ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے کہ یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور بندے کے لئے وہ ہے جو اس نے مانگا ہے جب وہ (اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ) کہتا ہے تو اللہ عزوجل فرماتا ہے یہ میرے بندے کے لئے ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو اس نے مانگا۔
اب ان لوگوں کا جواب دیکھتے ہیں

اگر یہ حدیث اکیلے بندے کی نماز کے بارے میں ہے
تو
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ

کا یہ فرمانا کس لیے تھا
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا گیا ہے ہم بعض اوقات امام کے پیچھے ہوتے ہیں تو آپ نے فرمایا فاتحہ کو دل میں پڑھو
 
  • Like
Reactions: *Muslim*

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
سلام
ایک اور بات جو بہت ضروری ہے کہ یہاں پر
ان لوگوں نے قرآن کی یہ آیت پیش کی
واذاقری القراٰن فاستمعوالہ وانصتوا لعلکم ترحمون
اورجب پڑھاجائے قرآن پس اس کی طرف کان لگائے رہو اور چپ رہو تاکہ تم رحم کئے جاو۔
( سورة اعراف/آیت نمبر 204 )
یہ آیت مکہ میں نازل ہوئی جب نماز فرض نہیں ہوئی تھی۔ پھر یہ بات ہی غلط ہے کہ اس آیت کا تعلق نماز میں سورہ فاتحہ کے نہ
پڑھنے سے ہے

پھر جب میں نے یہ والی حدیث پیش کی تو
اس کے بارے میں کہا گیا کہ یہ ضعیف ہے
سنن ابوداؤد:جلد اول:حدیث نمبر 815 حدیث مرفوع مکررات 15 بدون مکرر


عبد اللہ بن محمد، محمد بن سلمہ، محمد بن اسحاق ، مکحول محمودبن ربیع، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ کہایک مرتبہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے نماز فجر پڑھ رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرات شروع کی مگر لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے قرآن پڑھنا مشکل ہو گیا (کیونکہ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے قرات کر رہے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز سے فارغ ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا شاید تم اپنے امام کے پیچھے قرات کرتے ہو؟ ہم نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہی بات ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ (امام کے پیچھے) سورہ فاتحہ کے علاوہ کچھ مت پڑھا کرو۔ کیونکہ سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔



خود پڑھ لیں
یہاں تو بتا دیا گیا کہ یہاں اس حدیث کا ایک راوی ضعیف ہے
لکن یہ نہیں بتایا گیا کہ
عبادہ بن صامت کی یہ روایت تقریبا تمام حدیث کی کتابوں میں موجود ہے جس میں نبی کریم نے نمازفجر ختم ہوجانے کے بعد صحابہ سے پوچھا کہ میرے پیچھے کون قرات کررہا تھا تو ایک صحابی نے کہا میں۔ نبی کریم نے فرمایا جب میں جہری قرات کروں تو کوئی میرے پیچھے قرات نہ کرے مگر سورہ فاتحہ ضرور پڑھے کیونکہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
(صحیح بخاری، صحیح مسلم، ابن ماجہ، ابو داود، نسائی، جامع ترمزی)
کتاب صحیح بخاری جلد 1 حدیث نمبر 718 مکررات 15
علی بن عبداللہ ، سفیان، زہری، محمود بن ربیع، عبادہ بن صامت (رضی اللہ عنہ) روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو سورہ فاتحہ نہ پڑھے۔
_____________________________________________________________________________________
کتاب صحیح مسلم جلد 1 حدیث نمبر 869 مکررات 15
ابوبکر بن ابی شیبہ، عمرو ناقد، اسحاق بن ابراہیم، سفیان، ابوبکر، سفیان بن عیینہ، زہری، محمود بن ربیع، عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نماز کامل نہیں اس شخص کی جو فاتحۃ الکتاب نہ پڑھے۔
_____________________________________________________________________________________
کتاب صحیح مسلم جلد 1 حدیث نمبر 870 مکررات 15
ابوطاہر، ابن وہب، یونس، حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، محمود بن ربیع، عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس کی نماز نہیں جس نے ام القرآن نہ پڑھی۔
_____________________________________________________________________________________
کتاب صحیح مسلم جلد 1 حدیث نمبر 871 مکررات 15
حسن بن علی حلوانی، یعقوب بن ابراہیم بن سعید، صالح ابن شہاب، حضرت عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے ام القرآن نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں۔
_____________________________________________________________________________________
کتاب صحیح مسلم جلد 1 حدیث نمبر 872 مکررات 15
اسحاق بن ابراہیم، عبد بن حمید، عبدالرزاق، معمر، زہری دوسری سند کے ساتھ یہ حدیث مبارکہ روایت کی ہے۔
_____________________________________________________________________________________
کتاب سنن ابوداؤد جلد 1 حدیث نمبر 814 مکررات 15
قتیبہ بن سعید ابن سرح، سفیان، زہری، محمود، بن ربیع، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس شخص کی نماز نہ ہو گی۔ جس نے سورہ فاتحہ اور مزید کچھ نہ پڑھا۔ سفیان نے کہا یہ حکم اس شخص کے لیے ہے جو تنہا نماز پڑھے۔
_____________________________________________________________________________________
کتاب سنن ابوداؤد جلد 1 حدیث نمبر 815 مکررات 15
عبد اللہ بن محمد، محمد بن سلمہ، محمد بن اسحاق ، مکحول محمودبن ربیع، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ کہ ایک مرتبہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے نماز فجر پڑھ رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرات شروع کی مگر لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے قرآن پڑھنا مشکل ہو گیا (کیونکہ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے قرات کر رہے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز سے فارغ ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا شاید تم اپنے امام کے پیچھے قرات کرتے ہو؟ ہم نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہی بات ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ (امام کے پیچھے) سورہ فاتحہ کے علاوہ کچھ مت پڑھا کرو۔ کیونکہ سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
_____________________________________________________________________________________
کتاب سنن ابوداؤد جلد 1 حدیث نمبر 816 مکررات 15
ربیع بن سلیمان، عبداللہ بن یوسف، ہیثم، بن حمید، زید بن واقد، حضرت نافع بن محمود بن ربیع انصاری سے روایت ہے کہ عبادہ بن صامت نے نماز فجر کے واسطے نکلنے میں تاخیر کی تو ابونعیم نے تکبیر کہہ کر نماز پڑھانا شروع کر دی۔ اتنے میں عبادہ بھی آگئے۔ میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ اور ہم نے ابونعیم کے پیچھے صف باندھ لی۔ ابونعیم با آواز بلند قرات کر رہے تھے۔ انھوں نے جواب دیا ہاں کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں کوئی نماز پڑھائی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بآواز بلند قرات فرما رہے تھے (مگر مقتدیوں کی قرات کے سبب) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے پڑھنا مشکل ہو گیا۔ جب نماز ختم ہوگئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا۔ جب میں بلند آواز سے قرآن پڑھتا ہوں تو کیا تم جب بھی (میرے پیچھے) قرات کرتے ہو؟ ہم میں سے کچھ لوگوں نے کہا۔ ہاں ہم ایسا ہی کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا مت پڑھا کرو۔ میں بھی سوچ رہا تھا کہ مجھے کیا ہوا ہے؟ ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی مجھ سے قرآن چھینے لے جارہا ہے۔ لہذا جب میں زور سے پڑھا کروں تب تم سوائے سورہ فاتحہ کے قرآن مت پڑھا کرو۔
_____________________________________________________________________________________
کتاب سنن ابوداؤد جلد 1 حدیث نمبر 817 مکررات 15
علی بن سہل، ولید بن جابر سعید بن عبدالعزیز، عبداللہ بن علاء، حضرت مکحول نے حضرت عبادہ سے سابقہ حدیث کی طرح ایک روایت اور بیان کی ہے۔ (مکحول کے شاگرد) کہتے ہیں کہ حضرت مکحول مغرب، عشاء اور فجر کی ہر رکعت میں سترا سورہ فاتحہ پڑھتے تھے۔ مکحول نے کہاجہری نماز میں جب امام سورہ فاتحہ پڑھ کر سکتہ کرے تو اس وقت مقتدی کو ستراً سورہ فاتحہ پڑھ لینی چاہیے اور اگر وہ سکتہ نہ کرے تو اس سے پہلے یا اس کے ساتھ یا اس کے بعد پڑھ لے چھوڑے نہیں۔
_____________________________________________________________________________________
کتاب سنن نسائی جلد 1 حدیث نمبر 913 مکررات 15
محمد بن منصور، سفیان، زہری، محمودبن ربیع، عبادة بن صامت سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس شخص کی نماز ہی نہیں ہوتی جو شخص سورہ فاتحہ نہ پڑھے۔
_____________________________________________________________________________________
کتاب سنن نسائی جلد 1 حدیث نمبر 914 مکررات 15
سوید بن نصر، عبد اللہ، معمر، زہری، محمودبن ربیع، عبادة بن صامت سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس شخص کی نماز ہی نہیں ہوتی جو سورہ فاتحہ نہ پڑھے۔ پھر اس سے زیادہ (یعنی سورت وغیرہ)۔
_____________________________________________________________________________________
کتاب سنن نسائی جلد 1 حدیث نمبر 923 مکررات 15
ہشام بن عمار، صدقة، زیدبن واقد، حرام بن حکیم، نافع بن محمود بن ربیعة، عبادة بن صامت سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی وقت کی نماز جہری کی امامت فرمائی پھر ارشاد فرمایا جس وقت میں بلند آواز سے قرات کروں تو کوئی شخص کچھ نہ پرھے لیکن سورہ فاتحہ۔
_____________________________________________________________________________________
کتاب جامع ترمذی جلد 1 حدیث نمبر 234 مکررات 15
محمد بن یحی ابن ابی عمر، علی بن حجر، سفیان، زہری، محمود بن ربیع، عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس کی نماز نہیں جس نے سورة فاتحہ نہیں پڑھی اس باب میں ابوہریرہ عائشہ انس ابوقتادہ اور عبداللہ بن عمر سے بھی روایات مروی ہیں امام ابوعیسی ترمذی فرماتے ہیں حدیث عبادہ حسن صحیح ہے اور صحابہ میں سے اکثر اہل علم کا اس پر عمل ہے ان میں حضرت عمر بن خطاب جابر بن عبداللہ عمران بن حصین وغیرہ بھی شامل ہیں یہ کہتے ہیں کہ کوئی نماز نہیں سورہ فاتحہ کے بغیر اور ابن مبارک شافعی احمد اور اسحاق بھی یہی کہتے ہیں
_____________________________________________________________________________________
کتاب جامع ترمذی جلد 1 حدیث نمبر 293 مکررات 15
ہناد، عبدہ بن سلیمان، محمد بن اسحاق، مکحول، محمود بن ربیع، عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فجر کی نماز پڑھی اس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے قرات میں مشکل پیش آئی جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فارغ ہوئے تو فرمایا شاید تم امام کے پیچھے قرات کرتے ہو حضرت عبادہ کہتے ہیں ہم نے کہا ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کی قسم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ایسا نہ کیا کرو صرف سورة فاتحہ پڑھا کرو کیونکہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی اس باب میں ابوہریرہ عائشہ انس ابوقتادہ اور عبداللہ بن عمرو سے بھی روایت ہے امام ابوعیسی ترمذی فرماتیہیں عبادہ کی حدیث حسن ہے اس حدیث کو زہری نے محمود بن ربیع سے انہوں نے عبادہ بن صامت سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو سورہ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی اور یہ اصح ہے اکثر صحابہ و تابعین کا قراة خلف الامام کے بارے میں اس حدیث پر عمل ہے اور مالک بن انس ابن مبارک شافعی احمد بن حنبل اور اسحاق بھی اسی کے قائل ہیں کہ قرات خلف الامام جائز ہے
_____________________________________________________________________________________
کتاب سنن ابن ماجہ جلد 1 حدیث نمبر 837 مکررات 15
ہشام بن عمار و سہل بن ابی سہل و اسحاق بن اسماعیل، سفیان بن عیینہ، زہری، محمود بن ربیع، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جو نماز میں فاتحة الکتاب کی قرآت نہ کرے اس کی نماز نہیں ۔
_____________________________________________________________________________________

اب میں اپنے بھائی
آئ لو صحابہ
سے گزارش کروں گا کہ
عبادہ بن صامت راضی اللہ
کی بیان کردہ ساری احادیث جو میں نے پیش کی ہیں
ان کے بارے میں بتایا جا ے کہ یہ ساری کی ساری ضعیف ہیں یا صحیح ہیں
آپ کا بھائی
لولی آل ٹائم
 
  • Like
Reactions: *Muslim*

i love sahabah

TM Star
Sep 17, 2008
1,108
1,572
1,313
سلام. میرے بھائی جب آپ خود مختلف تفسیر پیش کر رھے ہیں تو ٹھیک ہے اور جب میں نے کوئی تفسیر پیش کی تو تو غصہ کھا گۓ. ہمیں اب پتا چلا کہ سعودی عرب والے بے وقوف ہیں خواہ مخواہ تفسیر چاپ رھے ہیں . اتنے لوگ حج کرنے آتے ہیں اور وہ فری میں قرآن کی تفسیر دے رھے ہیں اور لوگ پڑھ رھے ہیں
چلو اب اپنے علماء سے کہو کہ یہ تفسیر بند کروا کر کوئی اچھی سی تفسیر جو آپ کے مسلک کے مطابق ھو چھاپیں

تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم
مجھے پتہ تھا کہ آپ میرے سوال کا جواب نہیں دو گے اس لئے بات تبدیل کر دی۔
کاش کبھی کاپی پیسٹ کے علاوہ اپنی عقل ہی استعمال کر لیتے تو یہ بات کرنے کی زحمت نہ ہوتی۔
میں نے اوپر مکمل وضاحت کی کہ یہ حاشیہ صلاح الدین یوسف کا ہے اور ترجمہ جونا گڑھی گا تو کیا یہ دونوں آپ کے لئے حجت ہیں یا نہیں؟
لیکن آپ نے جان بوجھ کر جواب نہیں دیا۔
اگر تفسیر ہی ماننی ہے تو میں نے تو صحابہ کرام رضی اللہ کی تفسیر بیان کی اس کو آپ کیوں نہیں مانتے؟
بلکہ ان کی تفسیر کے جواب میں مولویوں کی تفاسیر پیش کر رہے ہیں اور دعوی آپ کا یہ ہے کہ صرف قرآن اور حدیث کو مانتے ہیں۔
اور پھر آپ نے جواب نہیں دیا کیونکہ یہ حوالہ بھی آپ کے موقف کے خلاف ہے۔اٌپ جھری نماز میں بھی قرآت نہ کرنے والے کی نماز کو باطل کہتے ہیں جبکہ اس حوالے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جھری نماز میں امام کے پیچھے قرآت نہیں کرنی چاہیے۔
یہ ترجمہ مولانا جونا گڑھی کا کیا گیا ہے اور اس کا حاشیہ صلاح الدین یوسف صاحب کا ہے جو کہ دونوں اہلحدیث عالم ہیں جبکہ آپ کے نزدیک تو کسی عالم اور امام کی بات ماننا جائز ہی نہیں تو پھر ان علماء کے ترجمہ اور حاشیہ پہ اعتبار کیسے کر لیا؟
کیا صلاح الدین یوسف اور جونا گڑھی اپ کے لئے حجت ہیں؟
میں نے تو قران کی آیت کی تشریح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پیش کی جس کو آپ نے تسلیم نہیں کیا اور خود آپ علماء کے حوالے پیش کر رہے ہیں۔
آپ کے نزدیک صلاح الدین یوسف اور جونا گڑھی کی بات ذیادہ اہمیت رکھتی ہے یا حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ اور ابن عباس رضی اللہ کی؟
اسحاق بن ابرہیم، سفیان بن عیینہ، علاء بن عبدالرحمن، ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے نماز ادا کی اور اس میں ام القرآن نہ پڑھی تو اس کی نماز ناقص ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ یہی فرمایا اور ناتمام ہے،حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا گیا ہے ہم بعض اوقات امام کے پیچھے ہوتے ہیں تو آپ نے فرمایا فاتحہ کو دل میں پڑھوکیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ اللہ عز وجل فرماتے ہیں کہ نماز یعنی سورة فاتحہ میرے اور میرے بندے کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کر دی گئی ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو وہ مانگے جب بندہ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ کہتا ہے تو اللہ تعالی فرماتے ہیں میرے بندے نے میری حمد بیان کی اور جب وہ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری تعریف بیان کی اور جب وہ مَالِکِ يَوْمِ الدِّينِ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی اور ایک بار فرماتا ہے میرے بندے نے اپنے سب کام میرے سپرد کر دئیے اور جب وہ إِيَّاکَ نَعْبُدُ وَإِيَّاکَ نَسْتَعِينُ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے کہ یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور بندے کے لئے وہ ہے جو اس نے مانگا ہے جب وہ (اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ) کہتا ہے تو اللہ عزوجل فرماتا ہے یہ میرے بندے کے لئے ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو اس نے مانگا۔
آپ نے میرے کئی سوالوں کا جواب نہیں دیا بلکہ پھر وہی احادیث دوبارہ پیش کر دی۔
جناب اگر میری پوسٹ پڑھنے کی زحمت گوارہ کی ہوتی تو آپ کو کچھ سمجھ آتی لیکن آپ شاید کسی کی پوسٹ پڑھنا گوارا نہیں کرتے بلکہ بس آپ کو اپنی پوسٹ کرنی ہے بھلے دوسرا جو مرضی کہے۔
جناب میں نے اس کو اکیلے آدمی کے لئے نہیں کہا بلکہ میں نے تو اکابر علماء کے حوالے دئے ہیں جیسا کہ امام احمد بن حنبل رح کا حوالہ بھی موجود ہے اس حدیث کے بارے میں کہ یہ اکیلے آدمی کے لئے ہے اور علامہ عینی رح کا بھی حوالہ دیا تو جناب یہ اعتراض پہلے امام احمد بن حنبل رح اور باقی ان اکابرین پہ کریں جنہوں نے اس کو منفرد امام کے لئے کہا ہے بعد میں مجھ پہ اعتراض کریں۔
اور یہ جو قول ہے (((حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا گیا ہے ہم بعض اوقات امام کے پیچھے ہوتے ہیں تو آپ نے فرمایا فاتحہ کو دل میں پڑھو)))
تو جناب یہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ کا قول ہے اور آپ تو صرف قرآن اور حدیث مانتے ہیں۔
اگر صحابہ کرام رضی اللہ کے اقوال ہی ماننے ہیں تو میں نے پہلے حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ اور ابن عباس رضی اللہ کے حوالے دئیے اس کے علاوہ حضرت زید رضی اللہ کا قول اور ابن عمر رضی اللہ کا قول میں نے پیش کیا وہ آپ کیوں نہیں مانتے؟

حضرت زید بن ثابت ؓ :۔عن عطاءانہ سال زید ابن ثابت عن القراة مع الامام فقال لا قراة مع الامام فی شیءمن الصلاة ۔
جب حضرت عطائؓ نے سیدنا زید بن ثابت (صحابی ؓ) سے امام کے پیچھے قراة کا سوال کیا تو آپ نے فرمایا امام کے ساتھ کسی نماز میں کوئی قراة نہیں کی جاسکتی.
( مسلم شریف /ج ۱/ص ۵۱۲/نسائی شریف /ج۱/ص۱۱۱/ طحاوی شریف /ج ۱/ص ۸۰۱ /موطا امام محمد /ص100)
حضرت ابن عمرؓ :۔ عن ابن عمر ؓ قال اذا صلی احدکم خلف الامام فحسبہ قراة الامام واذا صلی وحدہ فلیقرا وکان عبداللہ لا یقراء خلف الامام
حضرت ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ تم میں سے جب کوئی امام کے پیچھے نماز پڑھے تو اس کو امام کی قراة ہی کافی ہے اور جب اکیلا پڑھے تو اسے قرا ة کرنی چائیے اور عبداللہ بن عمر ؓ امام کے پیچھے نہیں پڑھا کرتے تھے.
( موطاامام مالک /ص۸۶/طحاوی شریف /ج۱/ص۸۰۱/موطاامام محمد /ص ۴۹)
حضرت نافع رح سے روایت ہے کہ عبدللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) سے جب کوئی پوچھتا کہ : کیا سورہ فاتحہ پڑھی جاۓ امام کے پیچھے؟ تو فرماتے : جب کوئی تم میں نماز پڑھے امام کے پیچھے تو کافی ہے اس کو قرأت امام کی، اور جو اکیلے پڑھے تو پڑھ لے. فرمایا حضرت نافع رح نے کہ حضرت عبدللہ بن عمر نہیں پڑھتے تھے امام کے پیچھے.
اس کے علاوہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ کی ہی روایت ہے کہ جب امام قرآت کرے تم خاموش رہو جس کو امام مسلم نے صحیح کہا ہے تو آپ اس روایت کو کیوں نہیں مانتے جس کی تصیح امام مسلم نے بھی کر دی۔
پھر آپ نے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ کی وہی احادیث دوبارہ لکھ دی جو پہلےپیش کر چکے ہیں۔
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ کی جو روایت بخاری، اور مسلم میں ہے اس میں امام کے پیچھے قرآت کا ذکر نہیں ہے اس لئے آپ اپنا موقف ان روایات سے ثابت نہیں کر سکتے۔

قتیبہ بن سعید ابن سرح، سفیان، زہری، محمود، بن ربیع، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس شخص کی نماز نہ ہو گی۔ جس نے سورہ فاتحہ اور مزید کچھ نہ پڑھا۔ سفیان نے کہا یہ حکم اس شخص کے لیے ہے جو تنہا نماز پڑھے۔
ابو داؤد کی روایت میں اس کے راوی سفیان خود کہتے ہیں کہ یہ روایت منفرد اور اکیلے کے لیے ہے اس لئے یہ روایت بھی آپ کے موقف پہ پوری نہیں اترتی۔
صحاح ستہ کی مشہور زمانہ کتاب مسلم شریف /ج ۱ /ص ۴۴۱/ میں حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ کی مرفوع حدیث ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ہمیں نماز کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا لیوکم احد کم فاذا کبر فکبر وا ............ واذا قرا فانصتو ا ۔تم میں سے ایک تمھار اامام بنے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قرآن پڑھے تو تم خاموش رہو ۔
یہ روایت ان کتب میں بھی ملاحظہ فرماسکتے ہیں
(بیہقی شریف /ج ۱/ص۵۵۱/جامع المسانید لابن کثیر /ج ۴۱/ص۷۷۳۴/حاشیہ نصب الرایہ /ج ۲ /ص۵۱/ محدث منذری بحوالہ عون المعبود /ج ۱/ص۸۴۱/ابن کثیر/ج ۲/ص۰۸۲/فتح الباری /ج ۲ /ص۱۰۲/مغنی لعلامہ ابن قد ا مہ / ج۱ /ص ۱۳۲ /فتاوی ابن تیمیہ /ج ۲/ص۰۹۲/عون المعبود /ج ۳/ص۸۴۱/معارف السنن /ج ۳/ص۵۸۳/ مسند احمد /ج۴ / ص ۵۱۴ / بحوالہ جامع المسانید /ج ۴۱/ص۷۷۳۴/ابن جریر/ج۹/ص۶۹۱/ فصل الخطاب /ص۷۲/سنن ابن ماجہ /ص
۱۶)
یہ صحیح اور صریح روایت ہمارے دعوی پر دلیل وحجت ہے کہ امام کی ذمہ داری قراة کرنا اور مقتدی کی ذمہ داری خاموش رہنا ہے ۔
باب تاویل قولہ عزوجل واذا قری القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمون عن ابی ھریرہ ؓ قال قال رسول اللہ ﷺ انما جعل الامام لیوتم بہ فاذ اکبر فکبرو ا واذا قرافانصتوا (نسائی شریف /ج ۱/ص۶۰۱/۷۰۱)
صحاح ستہ کے مشہور امام امام نسائی ؒ اللہ تعالی کے ارشاد گرامی واذا قری القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمون کی تاویل وتفسیر بیان کرتے ہوئے مشہور صحابی رسول ﷺ حضرت ابو ھریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا امام اس لئے بنایا جاتا ہے تاکہ اس کی اقتداءکی جائے پس جس وقت ( امام ) اللہ اکبرکہے تم بھی (مقتدی )اللہ اکبرکہواورجب (امام )قراة کرے پس تم (مقتدی ) خاموش رہو ۔
اسی روایت کی صحت کو امام مسلم ؒ اپنی شہر ہ آفاق کتاب صحیح مسلم /ج ۱/ ص۴۷۱ پر بایں الفاظ بیان فرماتے ہیں فقال ہو صحیح یعنی واذا قرا فانصتو ا
صحاح ستہ میں سے ایک امام ( امام نسائی ) اس حدیث کو قرآن کریم کی تفسیر میں بیان کرتا ہے اور صحاح ستہ کا دوسرا امام ( امام مسلم ) اس حدیث کو صحیح فرما رہا ہے ۔
عن ابی بکرة ؓ انہ انتہی الی النبی ﷺ و ہو راکع فرکع قبل ان یصل الی الصف فذکر ذالک للنبی ﷺ فقال زادک اللہ حرصاً ولا تعد
(ملخصًا) صحابی رسول حضرت ابو بکرہ ؓ خود اپنا واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ وہ اس حال میں حضرت ﷺ کی خدمت پہنچے کہ حضور اکرم ﷺ رکوع میں تھے تو انہوں نے بھی صف تک پہنچنے سے پہلے رکوع کرلیا (اور پھر صف میں مل گئے) پھر یہی واقعہ حضرت ﷺ کو عرض کیا ( کہ آپ رکوع میں تھے میں نے صف تک پہنچنے سے پہلے پہلے رکوع کرلیا تاکہ میری رکعت ضائع نہ ہوجائے ) اس پر اللہ کے نبی ﷺ نے (تحسین کرتے ہوئے )فرمایا اللہ تعالی آپ کے حرص کو زیادہ کریں دوبارہ نہ کرنا ۔
(بخاری شریف /ج۱/ص ۸۰۱/ابوداود شریف /ج ۱/ص۹۹ /طحاوی شریف /ج ۱/ص ۳۹۱/بیہقی شریف /ج ۲ /ص۹۸/۰۹)

یہ حدیث مبارک ہمارے دعوی پر نصف نہار کی طرح واضح ہے کہ حضرت ابو بکرہ ؓ صحابی رسول ﷺ رکوع میں شامل ہورہے ہیں امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھی مگر حضور نبی کریم ﷺ انہیں نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم نہیں فرماتے بلکہ زاد ک اللہ حرصا ( اللہ آپ کے حرص نماز باجماعت ) کو زیادہ فرمائے کہہ کر اس کی دل جوئی فرما رہے ہیں اگر یہ رکعت امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے کے سبب نہ ہوتی تو حضور ﷺ نماز دوبارہ پڑھنے کا ارشاد فرماتے ۔
اس کے علاوہ میں نے بھی صحیح مسلم اور بخاری کی روایت پیش کی تھی لیکن آپ نے ابھی تک ان کا کوئی جواب نہیں دیا۔

آپ نے کہا کہ اس میں قرآت کے وقت خاموشی کا حکم ہے۔ تو کیا سورت فاتحہ قرات نہیں ہے۔ یا سورت فاتحہ قران میں نہیں ہے؟
اس روایت میں واضح بیان کیا گیا ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو خاموشی سے سنو اور سورت فاتحہ قران میں ہے۔ کیا آپ سورت فاتحہ کو قران میں نہیں مانتے؟؟
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ کی روایت میں کہاں ہے کہ با آواز بلند الحمد کے سوا قرآت کے وقت خاموش رہو؟؟؟
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْب , قَالَ : ثنا الْمُحَارِبِيّ , عَنْ دَاوُد بْن أَبِي ھنْد , عَنْ بَشِير بْن جَابِر , قَالَ : صَلَّى اِبْن مَسْعُود , فَسَمِعَ نَاسًا يَقْرَءُونَ مَعَ الإِمَام , فَلَمَّا اِنْصَرَفَ , قَالَ : أَمَا آنَ لَكُمْ أَنْ تَفْقَهُوا ؟ أَمَا آنَ لَكُمْ أَنْ تَعْقِلُوا ؟ وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآن فَاسْتَمِعُوا لَہ وَأَنْصِتُوا كَمَا أَمَرَكُمْ اللَّہ .
(تفسیر ابن جریر /سورۃ اعراف /آیت 204، جلد 13 /صفحہ 346 )
حضرت عبدا للہ بن مسعود ؓ نے ( ایک مرتبہ )نماز پڑھائی اور چند آدمیوں کو انہوں نے امام کے ساتھ قراة کرتے سنا جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم سمجھ اور عقل سے کام لو جب قرآن کریم کی تلاوت ہو رہی ہوتو اس کی طرف کان لگاو اور خاموش رہو جیسا اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس کا حکم دیا ۔
اس روايت سے انتہائ واضح طور پر یہ بات ہوگئ ہے کہ کچهہ لوگ امام کے پیچهے قراءت کر رہے تهے اور حضرت عبدالله ابن مسعود رضی الله عنه نے ان کو قراءت سے منع کیا اور یہ بات واضح کردی کہ اس آیت وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا میں الله تعالی نے لوگوں کو خوب توجہ سے سننے اورخاموش رہنے کا حکم دیا ہے۔
اس روایت میں تو باآواز بلند کن الفاظ کا ترجمہ ہے اور یہ کہاں لکھا ہے کہ الحمد کے علاوہ باقی قرآت کے وقت خاموش رہو؟؟
یہ ترجمہ آپ نے کہاں سے نکالا اس روایت کا؟؟

آپ نے جو صفحہ لگایا اسی پہ لکھا ہے کہ علامہ ابن تیمیہ رح کے نزدیک سلف کی اکثریت کا قول ہے کہ مقتدی اگر امام کی قرآت سن رہا ہو تو نہ پڑھے اور اگر نہ سن رہا ہو تو پڑھے۔
یہ حوالہ تو آپ کے خلاف ہی ہو گیا کیونکہ آپ کا تو دعوی ہے کہ جو بھی فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں بھلے مقتدی سن رہا ہو یا نہ سن رہا ہو لیکن یہاں تو جھری قرآت میں مقتدی کو پڑھنے سے منع کیا گیا ہے۔
اب آپ بتائیے کہ جھری نماز میں حنبلی بھی مقتدی کے لئے قرات کے قائل نہیں جیسا کہ آپ کے پیش کئے گئے صفحہ سے واضح ہوتا ہے اور یہی سعودیہ والوں کا اور حنابلہ کا موقف ہے لیکن آپ اس کے منکر ہیں اس لئے یہ حوالہ آپ کے موقف پہ پورا نہیں اترتا۔
آپ علامہ ابن تیمیہ رح کے موقف کو مانیں گے یا صلاح الدین یوسف اور جونا گڑھی کے موقف کو؟

@nasirnoman @sherry2112 @Dawn @Tooba Khan @hoorain @lovelyalltime @S_ChiragH @Farhan-Shamsi @Abidi

 
  • Like
Reactions: Tooba Khan

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم
مجھے پتہ تھا کہ آپ میرے سوال کا جواب نہیں دو گے اس لئے بات تبدیل کر دی۔
کاش کبھی کاپی پیسٹ کے علاوہ اپنی عقل ہی استعمال کر لیتے تو یہ بات کرنے کی زحمت نہ ہوتی۔
میں نے اوپر مکمل وضاحت کی کہ یہ حاشیہ صلاح الدین یوسف کا ہے اور ترجمہ جونا گڑھی گا تو کیا یہ دونوں آپ کے لئے حجت ہیں یا نہیں؟
لیکن آپ نے جان بوجھ کر جواب نہیں دیا۔
اگر تفسیر ہی ماننی ہے تو میں نے تو صحابہ کرام رضی اللہ کی تفسیر بیان کی اس کو آپ کیوں نہیں مانتے؟
بلکہ ان کی تفسیر کے جواب میں مولویوں کی تفاسیر پیش کر رہے ہیں اور دعوی آپ کا یہ ہے کہ صرف قرآن اور حدیث کو مانتے ہیں۔
اور پھر آپ نے جواب نہیں دیا کیونکہ یہ حوالہ بھی آپ کے موقف کے خلاف ہے۔اٌپ جھری نماز میں بھی قرآت نہ کرنے والے کی نماز کو باطل کہتے ہیں جبکہ اس حوالے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جھری نماز میں امام کے پیچھے قرآت نہیں کرنی چاہیے۔
یہ ترجمہ مولانا جونا گڑھی کا کیا گیا ہے اور اس کا حاشیہ صلاح الدین یوسف صاحب کا ہے جو کہ دونوں اہلحدیث عالم ہیں جبکہ آپ کے نزدیک تو کسی عالم اور امام کی بات ماننا جائز ہی نہیں تو پھر ان علماء کے ترجمہ اور حاشیہ پہ اعتبار کیسے کر لیا؟
کیا صلاح الدین یوسف اور جونا گڑھی اپ کے لئے حجت ہیں؟
میں نے تو قران کی آیت کی تشریح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پیش کی جس کو آپ نے تسلیم نہیں کیا اور خود آپ علماء کے حوالے پیش کر رہے ہیں۔
آپ کے نزدیک صلاح الدین یوسف اور جونا گڑھی کی بات ذیادہ اہمیت رکھتی ہے یا حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ اور ابن عباس رضی اللہ کی؟





آپ نے میرے کئی سوالوں کا جواب نہیں دیا بلکہ پھر وہی احادیث دوبارہ پیش کر دی۔
جناب اگر میری پوسٹ پڑھنے کی زحمت گوارہ کی ہوتی تو آپ کو کچھ سمجھ آتی لیکن آپ شاید کسی کی پوسٹ پڑھنا گوارا نہیں کرتے بلکہ بس آپ کو اپنی پوسٹ کرنی ہے بھلے دوسرا جو مرضی کہے۔

جناب میں نے اس کو اکیلے آدمی کے لئے نہیں کہا بلکہ میں نے تو اکابر علماء کے حوالے دئے ہیں جیسا کہ امام احمد بن حنبل رح کا حوالہ بھی موجود ہے اس حدیث کے بارے میں کہ یہ اکیلے آدمی کے لئے ہے اور علامہ عینی رح کا بھی حوالہ دیا تو جناب یہ اعتراض پہلے امام احمد بن حنبل رح اور باقی ان اکابرین پہ کریں جنہوں نے اس کو منفرد امام کے لئے کہا ہے بعد میں مجھ پہ اعتراض کریں۔
اور یہ جو قول ہے (((حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا گیا ہے ہم بعض اوقات امام کے پیچھے ہوتے ہیں تو آپ نے فرمایا فاتحہ کو دل میں پڑھو)))
تو جناب یہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ کا قول ہے اور آپ تو صرف قرآن اور حدیث مانتے ہیں۔
اگر صحابہ کرام رضی اللہ کے اقوال ہی ماننے ہیں تو میں نے پہلے حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ اور ابن عباس رضی اللہ کے حوالے دئیے اس کے علاوہ حضرت زید رضی اللہ کا قول اور ابن عمر رضی اللہ کا قول میں نے پیش کیا وہ آپ کیوں نہیں مانتے؟


حضرت زید بن ثابت ؓ :۔عن عطاءانہ سال زید ابن ثابت عن القراة مع الامام فقال لا قراة مع الامام فی شیءمن الصلاة ۔
جب حضرت عطائؓ نے سیدنا زید بن ثابت (صحابی ؓ) سے امام کے پیچھے قراة کا سوال کیا تو آپ نے فرمایا امام کے ساتھ کسی نماز میں کوئی قراة نہیں کی جاسکتی.
( مسلم شریف /ج ۱/ص ۵۱۲/نسائی شریف /ج۱/ص۱۱۱/ طحاوی شریف /ج ۱/ص ۸۰۱ /موطا امام محمد /ص100)
حضرت ابن عمرؓ :۔ عن ابن عمر ؓ قال اذا صلی احدکم خلف الامام فحسبہ قراة الامام واذا صلی وحدہ فلیقرا وکان عبداللہ لا یقراء خلف الامام
حضرت ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ تم میں سے جب کوئی امام کے پیچھے نماز پڑھے تو اس کو امام کی قراة ہی کافی ہے اور جب اکیلا پڑھے تو اسے قرا ة کرنی چائیے اور عبداللہ بن عمر ؓ امام کے پیچھے نہیں پڑھا کرتے تھے.
( موطاامام مالک /ص۸۶/طحاوی شریف /ج۱/ص۸۰۱/موطاامام محمد /ص ۴۹)
حضرت نافع رح سے روایت ہے کہ عبدللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) سے جب کوئی پوچھتا کہ : کیا سورہ فاتحہ پڑھی جاۓ امام کے پیچھے؟ تو فرماتے : جب کوئی تم میں نماز پڑھے امام کے پیچھے تو کافی ہے اس کو قرأت امام کی، اور جو اکیلے پڑھے تو پڑھ لے. فرمایا حضرت نافع رح نے کہ حضرت عبدللہ بن عمر نہیں پڑھتے تھے امام کے پیچھے.

اس کے علاوہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ کی ہی روایت ہے کہ جب امام قرآت کرے تم خاموش رہو جس کو امام مسلم نے صحیح کہا ہے تو آپ اس روایت کو کیوں نہیں مانتے جس کی تصیح امام مسلم نے بھی کر دی۔

پھر آپ نے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ کی وہی احادیث دوبارہ لکھ دی جو پہلےپیش کر چکے ہیں۔
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ کی جو روایت بخاری، اور مسلم میں ہے اس میں امام کے پیچھے قرآت کا ذکر نہیں ہے اس لئے آپ اپنا موقف ان روایات سے ثابت نہیں کر سکتے۔

قتیبہ بن سعید ابن سرح، سفیان، زہری، محمود، بن ربیع، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس شخص کی نماز نہ ہو گی۔ جس نے سورہ فاتحہ اور مزید کچھ نہ پڑھا۔ سفیان نے کہا یہ حکم اس شخص کے لیے ہے جو تنہا نماز پڑھے۔
ابو داؤد کی روایت میں اس کے راوی سفیان خود کہتے ہیں کہ یہ روایت منفرد اور اکیلے کے لیے ہے اس لئے یہ روایت بھی آپ کے موقف پہ پوری نہیں اترتی۔



اس کے علاوہ میں نے بھی صحیح مسلم اور بخاری کی روایت پیش کی تھی لیکن آپ نے ابھی تک ان کا کوئی جواب نہیں دیا۔

آپ نے کہا کہ اس میں قرآت کے وقت خاموشی کا حکم ہے۔ تو کیا سورت فاتحہ قرات نہیں ہے۔ یا سورت فاتحہ قران میں نہیں ہے؟
اس روایت میں واضح بیان کیا گیا ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو خاموشی سے سنو اور سورت فاتحہ قران میں ہے۔ کیا آپ سورت فاتحہ کو قران میں نہیں مانتے؟؟
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ کی روایت میں کہاں ہے کہ با آواز بلند الحمد کے سوا قرآت کے وقت خاموش رہو؟؟؟
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْب , قَالَ : ثنا الْمُحَارِبِيّ , عَنْ دَاوُد بْن أَبِي ھنْد , عَنْ بَشِير بْن جَابِر , قَالَ : صَلَّى اِبْن مَسْعُود , فَسَمِعَ نَاسًا يَقْرَءُونَ مَعَ الإِمَام , فَلَمَّا اِنْصَرَفَ , قَالَ : أَمَا آنَ لَكُمْ أَنْ تَفْقَهُوا ؟ أَمَا آنَ لَكُمْ أَنْ تَعْقِلُوا ؟ وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآن فَاسْتَمِعُوا لَہ وَأَنْصِتُوا كَمَا أَمَرَكُمْ اللَّہ .
(تفسیر ابن جریر /سورۃ اعراف /آیت 204، جلد 13 /صفحہ 346 )
حضرت عبدا للہ بن مسعود ؓ نے ( ایک مرتبہ )نماز پڑھائی اور چند آدمیوں کو انہوں نے امام کے ساتھ قراة کرتے سنا جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم سمجھ اور عقل سے کام لو جب قرآن کریم کی تلاوت ہو رہی ہوتو اس کی طرف کان لگاو اور خاموش رہو جیسا اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس کا حکم دیا ۔
اس روايت سے انتہائ واضح طور پر یہ بات ہوگئ ہے کہ کچهہ لوگ امام کے پیچهے قراءت کر رہے تهے اور حضرت عبدالله ابن مسعود رضی الله عنه نے ان کو قراءت سے منع کیا اور یہ بات واضح کردی کہ اس آیت وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا میں الله تعالی نے لوگوں کو خوب توجہ سے سننے اورخاموش رہنے کا حکم دیا ہے۔
اس روایت میں تو باآواز بلند کن الفاظ کا ترجمہ ہے اور یہ کہاں لکھا ہے کہ الحمد کے علاوہ باقی قرآت کے وقت خاموش رہو؟؟
یہ ترجمہ آپ نے کہاں سے نکالا اس روایت کا؟؟

آپ نے جو صفحہ لگایا اسی پہ لکھا ہے کہ علامہ ابن تیمیہ رح کے نزدیک سلف کی اکثریت کا قول ہے کہ مقتدی اگر امام کی قرآت سن رہا ہو تو نہ پڑھے اور اگر نہ سن رہا ہو تو پڑھے۔
یہ حوالہ تو آپ کے خلاف ہی ہو گیا کیونکہ آپ کا تو دعوی ہے کہ جو بھی فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں بھلے مقتدی سن رہا ہو یا نہ سن رہا ہو لیکن یہاں تو جھری قرآت میں مقتدی کو پڑھنے سے منع کیا گیا ہے۔
اب آپ بتائیے کہ جھری نماز میں حنبلی بھی مقتدی کے لئے قرات کے قائل نہیں جیسا کہ آپ کے پیش کئے گئے صفحہ سے واضح ہوتا ہے اور یہی سعودیہ والوں کا اور حنابلہ کا موقف ہے لیکن آپ اس کے منکر ہیں اس لئے یہ حوالہ آپ کے موقف پہ پورا نہیں اترتا۔
آپ علامہ ابن تیمیہ رح کے موقف کو مانیں گے یا صلاح الدین یوسف اور جونا گڑھی کے موقف کو؟

@nasirnoman @sherry2112 @Dawn @Tooba Khan @hoorain @lovelyalltime @S_ChiragH @Farhan-Shamsi @Abidi

صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 873 حدیث قدسی مکررات 12 متفق علیہ 4

حَدَّثَنَاه إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الْعَلَائِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ صَلَّی صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ ثَلَاثًا غَيْرُ تَمَامٍ فَقِيلَ لِأَبِي هُرَيْرَةَ إِنَّا نَکُونُ وَرَائَ الْإِمَامِ فَقَالَ اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِکَ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ قَالَ اللَّهُ تَعَالَی قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ فَإِذَا قَالَ الْعَبْدُ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ قَالَ اللَّهُ تَعَالَی حَمِدَنِي عَبْدِي وَإِذَا قَالَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَی أَثْنَی عَلَيَّ عَبْدِي وَإِذَا قَالَ مَالِکِ يَوْمِ الدِّينِ قَالَ مَجَّدَنِي عَبْدِي وَقَالَ مَرَّةً فَوَّضَ إِلَيَّ عَبْدِي فَإِذَا قَالَ إِيَّاکَ نَعْبُدُ وَإِيَّاکَ نَسْتَعِينُ قَالَ هَذَا بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ فَإِذَا قَالَ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ قَالَ هَذَا لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ قَالَ سُفْيَانُ حَدَّثَنِي بِهِ الْعَلَائُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْقُوبَ دَخَلْتُ عَلَيْهِ وَهُوَ مَرِيضٌ فِي بَيْتِهِ فَسَأَلْتُهُ أَنَا عَنْهُ


اسحاق بن ابرہیم، سفیان بن عیینہ، علاء بن عبدالرحمن، ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے نماز ادا کی اور اس میں ام القرآن نہ پڑھی تو اس کی نماز ناقص ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ یہی فرمایا اور ناتمام ہے،حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا گیا ہے ہم بعض اوقات امام کے پیچھے ہوتے ہیں تو آپ نے فرمایا فاتحہ کو دل میں پڑھوکیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ اللہ عز وجل فرماتے ہیں کہ نماز یعنی سورة فاتحہ میرے اور میرے بندے کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کر دی گئی ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو وہ مانگے جب بندہ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ کہتا ہے تو اللہ تعالی فرماتے ہیں میرے بندے نے میری حمد بیان کی اور جب وہ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری تعریف بیان کی اور جب وہ مَالِکِ يَوْمِ الدِّينِ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی اور ایک بار فرماتا ہے میرے بندے نے اپنے سب کام میرے سپرد کر دئیے اور جب وہ إِيَّاکَ نَعْبُدُ وَإِيَّاکَ نَسْتَعِينُ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے کہ یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور بندے کے لئے وہ ہے جو اس نے مانگا ہے جب وہ (اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ) کہتا ہے تو اللہ عزوجل فرماتا ہے یہ میرے بندے کے لئے ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو اس نے مانگا۔

کیا یہ حدیث صرف اکیلے آدمی کے لیے ہے
یا امام کے پیچھے نماز والے کے لیے بھی ہے
کیا حضرت ابو ھریرہ راضی اللہ نے اپنے پاس سے بول دیا

 
  • Like
Reactions: *Muslim*

i love sahabah

TM Star
Sep 17, 2008
1,108
1,572
1,313
تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم
مجھے پتہ تھا کہ آپ میرے سوال کا جواب نہیں دو گے اس لئے بات تبدیل کر دی۔
کاش کبھی کاپی پیسٹ کے علاوہ اپنی عقل ہی استعمال کر لیتے تو یہ بات کرنے کی زحمت نہ ہوتی۔
میں نے اوپر مکمل وضاحت کی کہ یہ حاشیہ صلاح الدین یوسف کا ہے اور ترجمہ جونا گڑھی گا تو کیا یہ دونوں آپ کے لئے حجت ہیں یا نہیں؟
لیکن آپ نے جان بوجھ کر جواب نہیں دیا۔
اگر تفسیر ہی ماننی ہے تو میں نے تو صحابہ کرام رضی اللہ کی تفسیر بیان کی اس کو آپ کیوں نہیں مانتے؟
بلکہ ان کی تفسیر کے جواب میں مولویوں کی تفاسیر پیش کر رہے ہیں اور دعوی آپ کا یہ ہے کہ صرف قرآن اور حدیث کو مانتے ہیں۔
اور پھر آپ نے جواب نہیں دیا کیونکہ یہ حوالہ بھی آپ کے موقف کے خلاف ہے۔اٌپ جھری نماز میں بھی قرآت نہ کرنے والے کی نماز کو باطل کہتے ہیں جبکہ اس حوالے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جھری نماز میں امام کے پیچھے قرآت نہیں کرنی چاہیے۔
یہ ترجمہ مولانا جونا گڑھی کا کیا گیا ہے اور اس کا حاشیہ صلاح الدین یوسف صاحب کا ہے جو کہ دونوں اہلحدیث عالم ہیں جبکہ آپ کے نزدیک تو کسی عالم اور امام کی بات ماننا جائز ہی نہیں تو پھر ان علماء کے ترجمہ اور حاشیہ پہ اعتبار کیسے کر لیا؟
کیا صلاح الدین یوسف اور جونا گڑھی اپ کے لئے حجت ہیں؟
میں نے تو قران کی آیت کی تشریح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پیش کی جس کو آپ نے تسلیم نہیں کیا اور خود آپ علماء کے حوالے پیش کر رہے ہیں۔
آپ کے نزدیک صلاح الدین یوسف اور جونا گڑھی کی بات ذیادہ اہمیت رکھتی ہے یا حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ اور ابن عباس رضی اللہ کی؟

آپ نے میرے کئی سوالوں کا جواب نہیں دیا بلکہ پھر وہی احادیث دوبارہ پیش کر دی۔
جناب اگر میری پوسٹ پڑھنے کی زحمت گوارہ کی ہوتی تو آپ کو کچھ سمجھ آتی لیکن آپ شاید کسی کی پوسٹ پڑھنا گوارا نہیں کرتے بلکہ بس آپ کو اپنی پوسٹ کرنی ہے بھلے دوسرا جو مرضی کہے۔
جناب میں نے اس کو اکیلے آدمی کے لئے نہیں کہا بلکہ میں نے تو اکابر علماء کے حوالے دئے ہیں جیسا کہ امام احمد بن حنبل رح کا حوالہ بھی موجود ہے اس حدیث کے بارے میں کہ یہ اکیلے آدمی کے لئے ہے اور علامہ عینی رح کا بھی حوالہ دیا تو جناب یہ اعتراض پہلے امام احمد بن حنبل رح اور باقی ان اکابرین پہ کریں جنہوں نے اس کو منفرد امام کے لئے کہا ہے بعد میں مجھ پہ اعتراض کریں۔
اور یہ جو قول ہے (((حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا گیا ہے ہم بعض اوقات امام کے پیچھے ہوتے ہیں تو آپ نے فرمایا فاتحہ کو دل میں پڑھو)))
تو جناب یہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ کا قول ہے اور آپ تو صرف قرآن اور حدیث مانتے ہیں۔
اگر صحابہ کرام رضی اللہ کے اقوال ہی ماننے ہیں تو میں نے پہلے حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ اور ابن عباس رضی اللہ کے حوالے دئیے اس کے علاوہ حضرت زید رضی اللہ کا قول اور ابن عمر رضی اللہ کا قول میں نے پیش کیا وہ آپ کیوں نہیں مانتے؟
حضرت زید بن ثابت ؓ :۔عن عطاءانہ سال زید ابن ثابت عن القراة مع الامام فقال لا قراة مع الامام فی شیءمن الصلاة ۔
جب حضرت عطائؓ نے سیدنا زید بن ثابت (صحابی ؓ) سے امام کے پیچھے قراة کا سوال کیا تو آپ نے فرمایا امام کے ساتھ کسی نماز میں کوئی قراة نہیں کی جاسکتی.
( مسلم شریف /ج ۱/ص ۵۱۲/نسائی شریف /ج۱/ص۱۱۱/ طحاوی شریف /ج ۱/ص ۸۰۱ /موطا امام محمد /ص100)
حضرت ابن عمرؓ :۔ عن ابن عمر ؓ قال اذا صلی احدکم خلف الامام فحسبہ قراة الامام واذا صلی وحدہ فلیقرا وکان عبداللہ لا یقراء خلف الامام
حضرت ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ تم میں سے جب کوئی امام کے پیچھے نماز پڑھے تو اس کو امام کی قراة ہی کافی ہے اور جب اکیلا پڑھے تو اسے قرا ة کرنی چائیے اور عبداللہ بن عمر ؓ امام کے پیچھے نہیں پڑھا کرتے تھے.
( موطاامام مالک /ص۸۶/طحاوی شریف /ج۱/ص۸۰۱/موطاامام محمد /ص ۴۹)
حضرت نافع رح سے روایت ہے کہ عبدللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) سے جب کوئی پوچھتا کہ : کیا سورہ فاتحہ پڑھی جاۓ امام کے پیچھے؟ تو فرماتے : جب کوئی تم میں نماز پڑھے امام کے پیچھے تو کافی ہے اس کو قرأت امام کی، اور جو اکیلے پڑھے تو پڑھ لے. فرمایا حضرت نافع رح نے کہ حضرت عبدللہ بن عمر نہیں پڑھتے تھے امام کے پیچھے.
اس کے علاوہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ کی ہی روایت ہے کہ جب امام قرآت کرے تم خاموش رہو جس کو امام مسلم نے صحیح کہا ہے تو آپ اس روایت کو کیوں نہیں مانتے جس کی تصیح امام مسلم نے بھی کر دی۔
پھر آپ نے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ کی وہی احادیث دوبارہ لکھ دی جو پہلےپیش کر چکے ہیں۔
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ کی جو روایت بخاری، اور مسلم میں ہے اس میں امام کے پیچھے قرآت کا ذکر نہیں ہے اس لئے آپ اپنا موقف ان روایات سے ثابت نہیں کر سکتے۔
قتیبہ بن سعید ابن سرح، سفیان، زہری، محمود، بن ربیع، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس شخص کی نماز نہ ہو گی۔ جس نے سورہ فاتحہ اور مزید کچھ نہ پڑھا۔ سفیان نے کہا یہ حکم اس شخص کے لیے ہے جو تنہا نماز پڑھے۔
ابو داؤد کی روایت میں اس کے راوی سفیان خود کہتے ہیں کہ یہ روایت منفرد اور اکیلے کے لیے ہے اس لئے یہ روایت بھی آپ کے موقف پہ پوری نہیں اترتی۔


اس کے علاوہ میں نے بھی صحیح مسلم اور بخاری کی روایت پیش کی تھی لیکن آپ نے ابھی تک ان کا کوئی جواب نہیں دیا۔

آپ نے کہا کہ اس میں قرآت کے وقت خاموشی کا حکم ہے۔ تو کیا سورت فاتحہ قرات نہیں ہے۔ یا سورت فاتحہ قران میں نہیں ہے؟
اس روایت میں واضح بیان کیا گیا ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو خاموشی سے سنو اور سورت فاتحہ قران میں ہے۔ کیا آپ سورت فاتحہ کو قران میں نہیں مانتے؟؟
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ کی روایت میں کہاں ہے کہ با آواز بلند الحمد کے سوا قرآت کے وقت خاموش رہو؟؟؟
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْب , قَالَ : ثنا الْمُحَارِبِيّ , عَنْ دَاوُد بْن أَبِي ھنْد , عَنْ بَشِير بْن جَابِر , قَالَ : صَلَّى اِبْن مَسْعُود , فَسَمِعَ نَاسًا يَقْرَءُونَ مَعَ الإِمَام , فَلَمَّا اِنْصَرَفَ , قَالَ : أَمَا آنَ لَكُمْ أَنْ تَفْقَهُوا ؟ أَمَا آنَ لَكُمْ أَنْ تَعْقِلُوا ؟ وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآن فَاسْتَمِعُوا لَہ وَأَنْصِتُوا كَمَا أَمَرَكُمْ اللَّہ .
(تفسیر ابن جریر /سورۃ اعراف /آیت 204، جلد 13 /صفحہ 346 )
حضرت عبدا للہ بن مسعود ؓ نے ( ایک مرتبہ )نماز پڑھائی اور چند آدمیوں کو انہوں نے امام کے ساتھ قراة کرتے سنا جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم سمجھ اور عقل سے کام لو جب قرآن کریم کی تلاوت ہو رہی ہوتو اس کی طرف کان لگاو اور خاموش رہو جیسا اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس کا حکم دیا ۔
اس روايت سے انتہائ واضح طور پر یہ بات ہوگئ ہے کہ کچهہ لوگ امام کے پیچهے قراءت کر رہے تهے اور حضرت عبدالله ابن مسعود رضی الله عنه نے ان کو قراءت سے منع کیا اور یہ بات واضح کردی کہ اس آیت وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا میں الله تعالی نے لوگوں کو خوب توجہ سے سننے اورخاموش رہنے کا حکم دیا ہے۔
اس روایت میں تو باآواز بلند کن الفاظ کا ترجمہ ہے اور یہ کہاں لکھا ہے کہ الحمد کے علاوہ باقی قرآت کے وقت خاموش رہو؟؟
یہ ترجمہ آپ نے کہاں سے نکالا اس روایت کا؟؟

آپ نے جو صفحہ لگایا اسی پہ لکھا ہے کہ علامہ ابن تیمیہ رح کے نزدیک سلف کی اکثریت کا قول ہے کہ مقتدی اگر امام کی قرآت سن رہا ہو تو نہ پڑھے اور اگر نہ سن رہا ہو تو پڑھے۔
یہ حوالہ تو آپ کے خلاف ہی ہو گیا کیونکہ آپ کا تو دعوی ہے کہ جو بھی فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں بھلے مقتدی سن رہا ہو یا نہ سن رہا ہو لیکن یہاں تو جھری قرآت میں مقتدی کو پڑھنے سے منع کیا گیا ہے۔
اب آپ بتائیے کہ جھری نماز میں حنبلی بھی مقتدی کے لئے قرات کے قائل نہیں جیسا کہ آپ کے پیش کئے گئے صفحہ سے واضح ہوتا ہے اور یہی سعودیہ والوں کا اور حنابلہ کا موقف ہے لیکن آپ اس کے منکر ہیں اس لئے یہ حوالہ آپ کے موقف پہ پورا نہیں اترتا۔
آپ علامہ ابن تیمیہ رح کے موقف کو مانیں گے یا صلاح الدین یوسف اور جونا گڑھی کے موقف کو؟

@nasirnoman @sherry2112 @Dawn @Tooba Khan @hoorain @lovelyalltime @S_ChiragH @Farhan-Shamsi @Abidi


آپ نے میرے کئی سوالوں کا جواب نہیں دیا بلکہ پھر وہی احادیث دوبارہ پیش کر دی۔
جناب اگر میری پوسٹ پڑھنے کی زحمت گوارہ کی ہوتی تو آپ کو کچھ سمجھ آتی لیکن آپ شاید کسی کی پوسٹ پڑھنا گوارا نہیں کرتے بلکہ بس آپ کو اپنی پوسٹ کرنی ہے بھلے دوسرا جو مرضی کہے۔
جناب میں نے اس کو اکیلے آدمی کے لئے نہیں کہا بلکہ میں نے تو اکابر علماء کے حوالے دئے ہیں جیسا کہ امام احمد بن حنبل رح کا حوالہ بھی موجود ہے اس حدیث کے بارے میں کہ یہ اکیلے آدمی کے لئے ہے اور علامہ عینی رح کا بھی حوالہ دیا تو جناب یہ اعتراض پہلے امام احمد بن حنبل رح اور باقی ان اکابرین پہ کریں جنہوں نے اس کو منفرد امام کے لئے کہا ہے بعد میں مجھ پہ اعتراض کریں۔
اور یہ جو قول ہے (((حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا گیا ہے ہم بعض اوقات امام کے پیچھے ہوتے ہیں تو آپ نے فرمایا فاتحہ کو دل میں پڑھو)))
تو جناب یہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ کا قول ہے اور آپ تو صرف قرآن اور حدیث مانتے ہیں۔
اگر صحابہ کرام رضی اللہ کے اقوال ہی ماننے ہیں تو میں نے پہلے حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ اور ابن عباس رضی اللہ کے حوالے دئیے اس کے علاوہ حضرت زید رضی اللہ کا قول اور ابن عمر رضی اللہ کا قول میں نے پیش کیا وہ آپ کیوں نہیں مانتے؟

حضرت زید بن ثابت ؓ :۔عن عطاءانہ سال زید ابن ثابت عن القراة مع الامام فقال لا قراة مع الامام فی شیءمن الصلاة ۔
جب حضرت عطائؓ نے سیدنا زید بن ثابت (صحابی ؓ) سے امام کے پیچھے قراة کا سوال کیا تو آپ نے فرمایا امام کے ساتھ کسی نماز میں کوئی قراة نہیں کی جاسکتی.
( مسلم شریف /ج ۱/ص ۵۱۲/نسائی شریف /ج۱/ص۱۱۱/ طحاوی شریف /ج ۱/ص ۸۰۱ /موطا امام محمد /ص100)
حضرت ابن عمرؓ :۔ عن ابن عمر ؓ قال اذا صلی احدکم خلف الامام فحسبہ قراة الامام واذا صلی وحدہ فلیقرا وکان عبداللہ لا یقراء خلف الامام
حضرت ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ تم میں سے جب کوئی امام کے پیچھے نماز پڑھے تو اس کو امام کی قراة ہی کافی ہے اور جب اکیلا پڑھے تو اسے قرا ة کرنی چائیے اور عبداللہ بن عمر ؓ امام کے پیچھے نہیں پڑھا کرتے تھے.
( موطاامام مالک /ص۸۶/طحاوی شریف /ج۱/ص۸۰۱/موطاامام محمد /ص ۴۹)
حضرت نافع رح سے روایت ہے کہ عبدللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) سے جب کوئی پوچھتا کہ : کیا سورہ فاتحہ پڑھی جاۓ امام کے پیچھے؟ تو فرماتے : جب کوئی تم میں نماز پڑھے امام کے پیچھے تو کافی ہے اس کو قرأت امام کی، اور جو اکیلے پڑھے تو پڑھ لے. فرمایا حضرت نافع رح نے کہ حضرت عبدللہ بن عمر نہیں پڑھتے تھے امام کے پیچھے.
اس کے علاوہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ کی ہی روایت ہے کہ جب امام قرآت کرے تم خاموش رہو جس کو امام مسلم نے صحیح کہا ہے تو آپ اس روایت کو کیوں نہیں مانتے جس کی تصیح امام مسلم نے بھی کر دی۔[DOUBLEPOST=1363637824][/DOUBLEPOST]
میں نے بھی صحیح مسلم اور بخاری کی روایت پیش کی تھی لیکن آپ نے ابھی تک ان کا کوئی جواب نہیں دیا۔

آپ نے کہا کہ اس میں قرآت کے وقت خاموشی کا حکم ہے۔ تو کیا سورت فاتحہ قرات نہیں ہے۔ یا سورت فاتحہ قران میں نہیں ہے؟
اس روایت میں واضح بیان کیا گیا ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو خاموشی سے سنو اور سورت فاتحہ قران میں ہے۔ کیا آپ سورت فاتحہ کو قران میں نہیں مانتے؟؟
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ کی روایت میں کہاں ہے کہ با آواز بلند الحمد کے سوا قرآت کے وقت خاموش رہو؟؟؟
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْب , قَالَ : ثنا الْمُحَارِبِيّ , عَنْ دَاوُد بْن أَبِي ھنْد , عَنْ بَشِير بْن جَابِر , قَالَ : صَلَّى اِبْن مَسْعُود , فَسَمِعَ نَاسًا يَقْرَءُونَ مَعَ الإِمَام , فَلَمَّا اِنْصَرَفَ , قَالَ : أَمَا آنَ لَكُمْ أَنْ تَفْقَهُوا ؟ أَمَا آنَ لَكُمْ أَنْ تَعْقِلُوا ؟ وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآن فَاسْتَمِعُوا لَہ وَأَنْصِتُوا كَمَا أَمَرَكُمْ اللَّہ .
(تفسیر ابن جریر /سورۃ اعراف /آیت 204، جلد 13 /صفحہ 346 )
حضرت عبدا للہ بن مسعود ؓ نے ( ایک مرتبہ )نماز پڑھائی اور چند آدمیوں کو انہوں نے امام کے ساتھ قراة کرتے سنا جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم سمجھ اور عقل سے کام لو جب قرآن کریم کی تلاوت ہو رہی ہوتو اس کی طرف کان لگاو اور خاموش رہو جیسا اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس کا حکم دیا ۔
اس روايت سے انتہائ واضح طور پر یہ بات ہوگئ ہے کہ کچهہ لوگ امام کے پیچهے قراءت کر رہے تهے اور حضرت عبدالله ابن مسعود رضی الله عنه نے ان کو قراءت سے منع کیا اور یہ بات واضح کردی کہ اس آیت وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا میں الله تعالی نے لوگوں کو خوب توجہ سے سننے اورخاموش رہنے کا حکم دیا ہے۔
اس روایت میں تو باآواز بلند کن الفاظ کا ترجمہ ہے اور یہ کہاں لکھا ہے کہ الحمد کے علاوہ باقی قرآت کے وقت خاموش رہو؟؟
یہ ترجمہ آپ نے کہاں سے نکالا اس روایت کا؟؟

آپ نے جو صفحہ لگایا اسی پہ لکھا ہے کہ علامہ ابن تیمیہ رح کے نزدیک سلف کی اکثریت کا قول ہے کہ مقتدی اگر امام کی قرآت سن رہا ہو تو نہ پڑھے اور اگر نہ سن رہا ہو تو پڑھے۔
یہ حوالہ تو آپ کے خلاف ہی ہو گیا کیونکہ آپ کا تو دعوی ہے کہ جو بھی فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں بھلے مقتدی سن رہا ہو یا نہ سن رہا ہو لیکن یہاں تو جھری قرآت میں مقتدی کو پڑھنے سے منع کیا گیا ہے۔
اب آپ بتائیے کہ جھری نماز میں حنبلی بھی مقتدی کے لئے قرات کے قائل نہیں جیسا کہ آپ کے پیش کئے گئے صفحہ سے واضح ہوتا ہے اور یہی سعودیہ والوں کا اور حنابلہ کا موقف ہے لیکن آپ اس کے منکر ہیں اس لئے یہ حوالہ آپ کے موقف پہ پورا نہیں اترتا۔
آپ علامہ ابن تیمیہ رح کے موقف کو مانیں گے یا صلاح الدین یوسف اور جونا گڑھی کے موقف کو؟
 
  • Like
Reactions: Tooba Khan

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
salam.main na alam ibn tamiyah ya salahuddin yousaf aur na jona garhi ka muqalid hoon.

jab sahih hadees aa gai to sab ki bat peechay reh jaya gee.

maian koi hanafi ya shafi ya malik ya hunbli nahin hoon keh maian aun ka munkir hoon.

munkir to aap haian jo jahri aur sarri nimaz doono kay munkir haian. kabhi apni fiqa shareef parh ker dekh loo.

sirf aik hadees hee kafi hai tum loogoon kay liya.


kitni safai say jhoot bola tum nay keh yeh hadees akailay aadmi kay liya hai. shabahs meray bhai apnay imam sahib ki bat ko bachnay kay liya ahadees ko thoker mar doo ya hadees ki taweel ker doo.


maian aap kay her sawal ka jawab diya. maian saudi araba maian jo quran diya jata hai aus ki image lagai thee. mujhay koi ghargh nahin keh koi kia kehta hai.

maian saudi arab waloon ka bhi muqalid nahin hoon. ain ki jo bat bhi quran aur sahih ahadees kay mutabiq ho gee mano jaya gee aur jo quran aur sahih ahadees kay mutabiq nahin hoo gee rad ker dii jaya gee.


tum loogoon kay liya aik hadees hee kafi hai

aur kabhi bhi tum as hadees ka jawab nahin dayy saktay. its challenge for you........................



صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 873 حدیث قدسی مکررات 12 متفق علیہ 4

حَدَّثَنَاه إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الْعَلَائِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ صَلَّی صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ ثَلَاثًا غَيْرُ تَمَامٍ فَقِيلَ لِأَبِي هُرَيْرَةَ إِنَّا نَکُونُ وَرَائَ الْإِمَامِ فَقَالَ اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِکَ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ قَالَ اللَّهُ تَعَالَی قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ فَإِذَا قَالَ الْعَبْدُ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ قَالَ اللَّهُ تَعَالَی حَمِدَنِي عَبْدِي وَإِذَا قَالَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَی أَثْنَی عَلَيَّ عَبْدِي وَإِذَا قَالَ مَالِکِ يَوْمِ الدِّينِ قَالَ مَجَّدَنِي عَبْدِي وَقَالَ مَرَّةً فَوَّضَ إِلَيَّ عَبْدِي فَإِذَا قَالَ إِيَّاکَ نَعْبُدُ وَإِيَّاکَ نَسْتَعِينُ قَالَ هَذَا بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ فَإِذَا قَالَ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ قَالَ هَذَا لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ قَالَ سُفْيَانُ حَدَّثَنِي بِهِ الْعَلَائُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْقُوبَ دَخَلْتُ عَلَيْهِ وَهُوَ مَرِيضٌ فِي بَيْتِهِ فَسَأَلْتُهُ أَنَا عَنْهُ


اسحاق بن ابرہیم، سفیان بن عیینہ، علاء بن عبدالرحمن، ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے نماز ادا کی اور اس میں ام القرآن نہ پڑھی تو اس کی نماز ناقص ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ یہی فرمایا اور ناتمام ہے،حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا گیا ہے ہم بعض اوقات امام کے پیچھے ہوتے ہیں تو آپ نے فرمایا فاتحہ کو دل میں پڑھوکیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ اللہ عز وجل فرماتے ہیں کہ نماز یعنی سورة فاتحہ میرے اور میرے بندے کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کر دی گئی ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو وہ مانگے جب بندہ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ کہتا ہے تو اللہ تعالی فرماتے ہیں میرے بندے نے میری حمد بیان کی اور جب وہ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری تعریف بیان کی اور جب وہ مَالِکِ يَوْمِ الدِّينِ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی اور ایک بار فرماتا ہے میرے بندے نے اپنے سب کام میرے سپرد کر دئیے اور جب وہ إِيَّاکَ نَعْبُدُ وَإِيَّاکَ نَسْتَعِينُ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے کہ یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور بندے کے لئے وہ ہے جو اس نے مانگا ہے جب وہ (اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ) کہتا ہے تو اللہ عزوجل فرماتا ہے یہ میرے بندے کے لئے ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو اس نے مانگا۔
کیا یہ حدیث صرف اکیلے آدمی کے لیے ہے
یا امام کے پیچھے نماز والے کے لیے بھی ہے
کیا حضرت ابو ھریرہ راضی اللہ نے اپنے پاس سے بول دیا
 
  • Like
Reactions: *Muslim*

i love sahabah

TM Star
Sep 17, 2008
1,108
1,572
1,313
salam.main na alam ibn tamiyah ya salahuddin yousaf aur na jona garhi ka muqalid hoon.

jab sahih hadees aa gai to sab ki bat peechay reh jaya gee.

maian koi hanafi ya shafi ya malik ya hunbli nahin hoon keh maian aun ka munkir hoon.

munkir to aap haian jo jahri aur sarri nimaz doono kay munkir haian. kabhi apni fiqa shareef parh ker dekh loo.

sirf aik hadees hee kafi hai tum loogoon kay liya.


kitni safai say jhoot bola tum nay keh yeh hadees akailay aadmi kay liya hai. shabahs meray bhai apnay imam sahib ki bat ko bachnay kay liya ahadees ko thoker mar doo ya hadees ki taweel ker doo.


maian aap kay her sawal ka jawab diya. maian saudi araba maian jo quran diya jata hai aus ki image lagai thee. mujhay koi ghargh nahin keh koi kia kehta hai.

maian saudi arab waloon ka bhi muqalid nahin hoon. ain ki jo bat bhi quran aur sahih ahadees kay mutabiq ho gee mano jaya gee aur jo quran aur sahih ahadees kay mutabiq nahin hoo gee rad ker dii jaya gee.


tum loogoon kay liya aik hadees hee kafi hai

aur kabhi bhi tum as hadees ka jawab nahin dayy saktay. its challenge for you........................


@S_ChiragH @Don @Dawn @nasirnoman @sherry2112 @Tooba Khan @hoorain @Atif-adi @Abidi

Lovely ki post ka jwab to baad main du ga filhal moderator ye dekh lain k kiya ye post asool k mutabiq hay???????
aysi hi post agar mie kar du to sab ko tanqed ya firqy k khilaf lagy gi lakin yahan shayed ksi ko koi tanqeed nazar nain aye gi........
 

Shiraz-Khan

Super Magic Jori
Hot Shot
Oct 27, 2012
18,264
15,551
1,313
  • Like
Reactions: Tooba Khan

i love sahabah

TM Star
Sep 17, 2008
1,108
1,572
1,313
salam.main na alam ibn tamiyah ya salahuddin yousaf aur na jona garhi ka muqalid hoon.

jab sahih hadees aa gai to sab ki bat peechay reh jaya gee.

maian koi hanafi ya shafi ya malik ya hunbli nahin hoon keh maian aun ka munkir hoon.

munkir to aap haian jo jahri aur sarri nimaz doono kay munkir haian. kabhi apni fiqa shareef parh ker dekh loo.

sirf aik hadees hee kafi hai tum loogoon kay liya.

kitni safai say jhoot bola tum nay keh yeh hadees akailay aadmi kay liya hai. shabahs meray bhai apnay imam sahib ki bat ko bachnay kay liya ahadees ko thoker mar doo ya hadees ki taweel ker doo.

maian aap kay her sawal ka jawab diya. maian saudi araba maian jo quran diya jata hai aus ki image lagai thee. mujhay koi ghargh nahin keh koi kia kehta hai.

maian saudi arab waloon ka bhi muqalid nahin hoon. ain ki jo bat bhi quran aur sahih ahadees kay mutabiq ho gee mano jaya gee aur jo quran aur sahih ahadees kay mutabiq nahin hoo gee rad ker dii jaya gee.

tum loogoon kay liya aik hadees hee kafi hai

aur kabhi bhi tum as hadees ka jawab nahin dayy saktay. its challenge for you........................

تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم
لولی یہ تو تمہاری شروع سے عادت ہے کہ جب بھی کسی بات کا جواب نہ آئے تو احناف کے خلاف پوسٹ شروع کر دو کیونکہ تمہارا دل جو بغض اور حسد میں بھرا ہوا ہے۔
فورم پہ انصاف نہیں ہوتا ورنہ تمہارے ان نام نہاد اہلحدیثوں کا جن کا دفاع تم دوسرے فورم پہ کرتے ہو ایسے حوالے پیش کرتا کہ تم حنفیوں کو بھول جاتے۔
اب بھی جب جواب نہیں آیا تو اپنی عادت سے مجبور ہو کر احناف کے خلاف پوسٹ شروع کر دی۔
کتنی عجیب بات ہے کہ ہمیں تقلید کرنے پہ برا بھلا کہنے والا آج خود مولویوں کے سہارے لے رہا ہے۔
مانا کہ تم صلاح الدین یوسف اور جونا گڑھی کے مقلد نہیں ہو تو پھر ان کے حوالے کیوں دئیے؟
اور جب حوالہ دیا تو آدھا حوالہ دیا اور نیچے علامہ ابن تیمیہ کا حوالہ کیوں چھوڑ دیا؟
دھوکہ تو تم دے رہے ہو لوگوں کو کہ مولویوں کی تفسیر اور حاشیہ بیان کر کے کہتے ہو کہ قرآن سے ثابت ہے۔
میں نے اس آیت کی تفسیر کے لئے صحابہ کرام رضی اللہ کے حوالے پیش کئے اور تم ان کے مقابلے میں مولویوں کے حوالے پیش کر رہے ہو۔
صحابہ کی تفسیر پہ اعتبار تم خود نہیں کر رہے اور پھر الزام احناف پہ کہ وہ قران اور حدیث کے مخالف ہیں۔
اور مجھے جھوٹا کہنے سے پہلے میرے دئیے گئے حوالے پڑھ لیتے لیکن تمہاری آنکھوں پہ تو احناف کے بغض اور حسد کی پٹی چڑھی ہوئی ہے اس لئے میرا حوالہ تمہیں نظر نہیں آیا۔
اس روایت کو میں نے نہیں بلکہ ان اکابرین نے منفرد کے لئے کہا ہے ذرا حسد اور بغض کی پٹی ہٹا کر پڑھ لینا۔

امام موفق الدینؒ ابن قدامہ الحنبلیؒ
فرماتے ہیں کہ حضرت عبادہ بن صامت کی جو حدیث صحیح ہے تو وہ غیر مقتدی پر محمول ہے اور اسی طرح حضرت ابوہریرہؓ کی روایت بھی غیر مقتدی پر محمول ہے ۔(مغنی جلد 1 ص 606 )۔
امام شمس الدینؒ
فرماتے ہیں کہ وہ مقتدی کے علاوہ دوسروں پر محمول ہے اور اسی طرح حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت بھی غیر مقتدی کے حق میں ہے ۔
(شرح مفتح الکبیر جلد 2 ص 12)
اوپر پہلے امام احمد بن حنبل کا قول میں پیش کر چکا ہوں اور سفیان بن عینیہ رح جو اس حدیث کے راوی ہیں وہ خود حضرت عبادہ کی روایت کو منفرد کے لئے کہہ رہے ہیں،
یہی بات سبل السلام میں بھی موجود ہے جس کا حوالہ میں اوپر دے چکا ہوں۔

امام احمد بن حنبل رح تو یہاں تک کہتے ہیں کہ
''یہ نبی کریم ﷺ، صحابہ اور تابعین ہیں،اہل حجاز میں امام مالک اور اہل عراق میں امام ثوری ہیں،اہل شام میں امام اوزاعی اور اہل مصر میں امام لیث ہیں،ان میں سے کسی نے ایسے شخص کی نماز کو باطل نہیں کہا جس نے جھری نماز میں امام کی اقتدا کی او رر قرآت نہیں کی''
(مغنی ابن قدامہ، جلد 2 صفحہ262)

اب جھوٹا کہو امام احمد بن حنبل کو، ابن قدامہ رح کو اور سفیان بن عینیہ رح کو کیونکہ تم ان سب کے مقلد نہیں ہو۔
مجھے تو جھوٹا کہہ دیا لیکن ساتھ ساتھ ذرا ہمت کر کے ان کو بھی جھوٹا کہہ دو تا کہ پتہ چل سکے کہ تم ان کے مقلد نہیں ہو۔
اور یہ جو قول ہے (((حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا گیا ہے ہم بعض اوقات امام کے پیچھے ہوتے ہیں تو آپ نے فرمایا فاتحہ کو دل میں پڑھو)))
تو جناب یہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ کا قول ہے اور آپ تو صرف قرآن اور حدیث مانتے ہیں۔
اگر صحابہ کرام رضی اللہ کے اقوال ہی ماننے ہیں تو میں نے پہلے حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ اور ابن عباس رضی اللہ کے حوالے دئیے اس کے علاوہ حضرت زید رضی اللہ کا قول اور ابن عمر رضی اللہ کا قول میں نے پیش کیا وہ آپ کیوں نہیں مانتے؟

حضرت زید بن ثابت ؓ :۔عن عطاءانہ سال زید ابن ثابت عن القراة مع الامام فقال لا قراة مع الامام فی شیءمن الصلاة ۔
جب حضرت عطائؓ نے سیدنا زید بن ثابت (صحابی ؓ) سے امام کے پیچھے قراة کا سوال کیا تو آپ نے فرمایا امام کے ساتھ کسی نماز میں کوئی قراة نہیں کی جاسکتی.
( مسلم شریف /ج ۱/ص ۵۱۲/نسائی شریف /ج۱/ص۱۱۱/ طحاوی شریف /ج ۱/ص ۸۰۱ /موطا امام محمد /ص100)
حضرت ابن عمرؓ :۔ عن ابن عمر ؓ قال اذا صلی احدکم خلف الامام فحسبہ قراة الامام واذا صلی وحدہ فلیقرا وکان عبداللہ لا یقراء خلف الامام
حضرت ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ تم میں سے جب کوئی امام کے پیچھے نماز پڑھے تو اس کو امام کی قراة ہی کافی ہے اور جب اکیلا پڑھے تو اسے قرا ة کرنی چائیے اور عبداللہ بن عمر ؓ امام کے پیچھے نہیں پڑھا کرتے تھے.
( موطاامام مالک /ص۸۶/طحاوی شریف /ج۱/ص۸۰۱/موطاامام محمد /ص ۴۹)
حضرت نافع رح سے روایت ہے کہ عبدللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) سے جب کوئی پوچھتا کہ : کیا سورہ فاتحہ پڑھی جاۓ امام کے پیچھے؟ تو فرماتے : جب کوئی تم میں نماز پڑھے امام کے پیچھے تو کافی ہے اس کو قرأت امام کی، اور جو اکیلے پڑھے تو پڑھ لے. فرمایا حضرت نافع رح نے کہ حضرت عبدللہ بن عمر نہیں پڑھتے تھے امام کے پیچھے.
اس کے علاوہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ کی ہی روایت ہے کہ جب امام قرآت کرے تم خاموش رہو جس کو امام مسلم نے صحیح کہا ہے تو آپ اس روایت کو کیوں نہیں مانتے جس کی تصیح امام مسلم نے بھی کر دی۔
[موطا امام مالک (بروایۃ امام محمد) : باب: ترك القراءة خلف الإمام فيما جحر فيہ)
اس کے علاوہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ کی ہی روایت ہے کہ جب امام قرآت کرے تم خاموش رہو جس کو امام مسلم نے صحیح کہا ہے تو آپ اس روایت کو کیوں نہیں مانتے جس کی تصیح امام مسلم نے بھی کر دی۔
صحاح ستہ کی مشہور زمانہ کتاب مسلم شریف /ج ۱ /ص ۴۴۱/ میں حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ کی مرفوع حدیث ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ہمیں نماز کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا لیوکم احد کم فاذا کبر فکبر وا ............ واذا قرا فانصتو ا ۔تم میں سے ایک تمھار اامام بنے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قرآن پڑھے تو تم خاموش رہو ۔
یہ روایت ان کتب میں بھی ملاحظہ فرماسکتے ہیں
(بیہقی شریف /ج ۱/ص۵۵۱/جامع المسانید لابن کثیر /ج ۴۱/ص۷۷۳۴/حاشیہ نصب الرایہ /ج ۲ /ص۵۱/ محدث منذری بحوالہ عون المعبود /ج ۱/ص۸۴۱/ابن کثیر/ج ۲/ص۰۸۲/فتح الباری /ج ۲ /ص۱۰۲/مغنی لعلامہ ابن قد ا مہ / ج۱ /ص ۱۳۲ /فتاوی ابن تیمیہ /ج ۲/ص۰۹۲/عون المعبود /ج ۳/ص۸۴۱/معارف السنن /ج ۳/ص۵۸۳/ مسند احمد /ج۴ / ص ۵۱۴ / بحوالہ جامع المسانید /ج ۴۱/ص۷۷۳۴/ابن جریر/ج۹/ص۶۹۱/ فصل الخطاب /ص۷۲/سنن ابن ماجہ /ص
۱۶)
یہ صحیح اور صریح روایت ہمارے دعوی پر دلیل وحجت ہے کہ امام کی ذمہ داری قراة کرنا اور مقتدی کی ذمہ داری خاموش رہنا ہے ۔
باب تاویل قولہ عزوجل واذا قری القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمون عن ابی ھریرہ ؓ قال قال رسول اللہ ﷺ انما جعل الامام لیوتم بہ فاذ اکبر فکبرو ا واذا قرافانصتوا (نسائی شریف /ج ۱/ص۶۰۱/۷۰۱)
صحاح ستہ کے مشہور امام امام نسائی ؒ اللہ تعالی کے ارشاد گرامی واذا قری القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمون کی تاویل وتفسیر بیان کرتے ہوئے مشہور صحابی رسول ﷺ حضرت ابو ھریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا امام اس لئے بنایا جاتا ہے تاکہ اس کی اقتداءکی جائے پس جس وقت ( امام ) اللہ اکبرکہے تم بھی (مقتدی )اللہ اکبرکہواورجب (امام )قراة کرے پس تم (مقتدی ) خاموش رہو ۔
اسی روایت کی صحت کو امام مسلم ؒ اپنی شہر ہ آفاق کتاب صحیح مسلم /ج ۱/ ص۴۷۱ پر بایں الفاظ بیان فرماتے ہیں فقال ہو صحیح یعنی واذا قرا فانصتو ا
صحاح ستہ میں سے ایک امام ( امام نسائی ) اس حدیث کو قرآن کریم کی تفسیر میں بیان کرتا ہے اور صحاح ستہ کا دوسرا امام ( امام مسلم ) اس حدیث کو صحیح فرما رہا ہے ۔
عن ابی بکرة ؓ انہ انتہی الی النبی ﷺ و ہو راکع فرکع قبل ان یصل الی الصف فذکر ذالک للنبی ﷺ فقال زادک اللہ حرصاً ولا تعد
(ملخصًا) صحابی رسول حضرت ابو بکرہ ؓ خود اپنا واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ وہ اس حال میں حضرت ﷺ کی خدمت پہنچے کہ حضور اکرم ﷺ رکوع میں تھے تو انہوں نے بھی صف تک پہنچنے سے پہلے رکوع کرلیا (اور پھر صف میں مل گئے) پھر یہی واقعہ حضرت ﷺ کو عرض کیا ( کہ آپ رکوع میں تھے میں نے صف تک پہنچنے سے پہلے پہلے رکوع کرلیا تاکہ میری رکعت ضائع نہ ہوجائے ) اس پر اللہ کے نبی ﷺ نے (تحسین کرتے ہوئے )فرمایا اللہ تعالی آپ کے حرص کو زیادہ کریں دوبارہ نہ کرنا ۔
(بخاری شریف /ج۱/ص ۸۰۱/ابوداود شریف /ج ۱/ص۹۹ /طحاوی شریف /ج ۱/ص ۳۹۱/بیہقی شریف /ج ۲ /ص۹۸/۰۹)

یہ حدیث مبارک ہمارے دعوی پر نصف نہار کی طرح واضح ہے کہ حضرت ابو بکرہ ؓ صحابی رسول ﷺ رکوع میں شامل ہورہے ہیں امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھی مگر حضور نبی کریم ﷺ انہیں نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم نہیں فرماتے بلکہ زاد ک اللہ حرصا ( اللہ آپ کے حرص نماز باجماعت ) کو زیادہ فرمائے کہہ کر اس کی دل جوئی فرما رہے ہیں اگر یہ رکعت امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے کے سبب نہ ہوتی تو حضور ﷺ نماز دوبارہ پڑھنے کا ارشاد فرماتے ۔
میں نے بھی صحیح مسلم اور بخاری کی روایت پیش کی تھی لیکن آپ نے ابھی تک ان کا کوئی جواب نہیں دیا۔

آپ نے کہا کہ اس میں قرآت کے وقت خاموشی کا حکم ہے۔ تو کیا سورت فاتحہ قرات نہیں ہے۔ یا سورت فاتحہ قران میں نہیں ہے؟
اس روایت میں واضح بیان کیا گیا ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو خاموشی سے سنو اور سورت فاتحہ قران میں ہے۔ کیا آپ سورت فاتحہ کو قران میں نہیں مانتے؟؟
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ کی روایت میں کہاں ہے کہ با آواز بلند الحمد کے سوا قرآت کے وقت خاموش رہو؟؟؟
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْب , قَالَ : ثنا الْمُحَارِبِيّ , عَنْ دَاوُد بْن أَبِي ھنْد , عَنْ بَشِير بْن جَابِر , قَالَ : صَلَّى اِبْن مَسْعُود , فَسَمِعَ نَاسًا يَقْرَءُونَ مَعَ الإِمَام , فَلَمَّا اِنْصَرَفَ , قَالَ : أَمَا آنَ لَكُمْ أَنْ تَفْقَهُوا ؟ أَمَا آنَ لَكُمْ أَنْ تَعْقِلُوا ؟ وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآن فَاسْتَمِعُوا لَہ وَأَنْصِتُوا كَمَا أَمَرَكُمْ اللَّہ .
(تفسیر ابن جریر /سورۃ اعراف /آیت 204، جلد 13 /صفحہ 346 )
حضرت عبدا للہ بن مسعود ؓ نے ( ایک مرتبہ )نماز پڑھائی اور چند آدمیوں کو انہوں نے امام کے ساتھ قراة کرتے سنا جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم سمجھ اور عقل سے کام لو جب قرآن کریم کی تلاوت ہو رہی ہوتو اس کی طرف کان لگاو اور خاموش رہو جیسا اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس کا حکم دیا ۔
اس روايت سے انتہائ واضح طور پر یہ بات ہوگئ ہے کہ کچهہ لوگ امام کے پیچهے قراءت کر رہے تهے اور حضرت عبدالله ابن مسعود رضی الله عنه نے ان کو قراءت سے منع کیا اور یہ بات واضح کردی کہ اس آیت وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا میں الله تعالی نے لوگوں کو خوب توجہ سے سننے اورخاموش رہنے کا حکم دیا ہے۔
اس روایت میں تو باآواز بلند کن الفاظ کا ترجمہ ہے اور یہ کہاں لکھا ہے کہ الحمد کے علاوہ باقی قرآت کے وقت خاموش رہو؟؟
یہ ترجمہ آپ نے کہاں سے نکالا اس روایت کا؟؟
@nasirnoman @sherry2112 @Dawn @Tooba Khan @hoorain @lovelyalltime @S_ChiragH @Farhan-Shamsi @Abidi
 
  • Like
Reactions: Tooba Khan

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم
لولی یہ تو تمہاری شروع سے عادت ہے کہ جب بھی کسی بات کا جواب نہ آئے تو احناف کے خلاف پوسٹ شروع کر دو کیونکہ تمہارا دل جو بغض اور حسد میں بھرا ہوا ہے۔
فورم پہ انصاف نہیں ہوتا ورنہ تمہارے ان نام نہاد اہلحدیثوں کا جن کا دفاع تم دوسرے فورم پہ کرتے ہو ایسے حوالے پیش کرتا کہ تم حنفیوں کو بھول جاتے۔
اب بھی جب جواب نہیں آیا تو اپنی عادت سے مجبور ہو کر احناف کے خلاف پوسٹ شروع کر دی۔
کتنی عجیب بات ہے کہ ہمیں تقلید کرنے پہ برا بھلا کہنے والا آج خود مولویوں کے سہارے لے رہا ہے۔
مانا کہ تم صلاح الدین یوسف اور جونا گڑھی کے مقلد نہیں ہو تو پھر ان کے حوالے کیوں دئیے؟
اور جب حوالہ دیا تو آدھا حوالہ دیا اور نیچے علامہ ابن تیمیہ کا حوالہ کیوں چھوڑ دیا؟
دھوکہ تو تم دے رہے ہو لوگوں کو کہ مولویوں کی تفسیر اور حاشیہ بیان کر کے کہتے ہو کہ قرآن سے ثابت ہے۔
میں نے اس آیت کی تفسیر کے لئے صحابہ کرام رضی اللہ کے حوالے پیش کئے اور تم ان کے مقابلے میں مولویوں کے حوالے پیش کر رہے ہو۔
صحابہ کی تفسیر پہ اعتبار تم خود نہیں کر رہے اور پھر الزام احناف پہ کہ وہ قران اور حدیث کے مخالف ہیں۔
اور مجھے جھوٹا کہنے سے پہلے میرے دئیے گئے حوالے پڑھ لیتے لیکن تمہاری آنکھوں پہ تو احناف کے بغض اور حسد کی پٹی چڑھی ہوئی ہے اس لئے میرا حوالہ تمہیں نظر نہیں آیا۔
اس روایت کو میں نے نہیں بلکہ ان اکابرین نے منفرد کے لئے کہا ہے ذرا حسد اور بغض کی پٹی ہٹا کر پڑھ لینا۔
امام موفق الدینؒ ابن قدامہ الحنبلیؒ
فرماتے ہیں کہ حضرت عبادہ بن صامت کی جو حدیث صحیح ہے تو وہ غیر مقتدی پر محمول ہے اور اسی طرح حضرت ابوہریرہؓ کی روایت بھی غیر مقتدی پر محمول ہے ۔(مغنی جلد 1 ص 606 )۔
امام شمس الدینؒ
فرماتے ہیں کہ وہ مقتدی کے علاوہ دوسروں پر محمول ہے اور اسی طرح حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت بھی غیر مقتدی کے حق میں ہے ۔
(شرح مفتح الکبیر جلد 2 ص 12)
اوپر پہلے امام احمد بن حنبل کا قول میں پیش کر چکا ہوں اور سفیان بن عینیہ رح جو اس حدیث کے راوی ہیں وہ خود حضرت عبادہ کی روایت کو منفرد کے لئے کہہ رہے ہیں،
یہی بات سبل السلام میں بھی موجود ہے جس کا حوالہ میں اوپر دے چکا ہوں۔
امام احمد بن حنبل رح تو یہاں تک کہتے ہیں کہ
''یہ نبی کریم ﷺ، صحابہ اور تابعین ہیں،اہل حجاز میں امام مالک اور اہل عراق میں امام ثوری ہیں،اہل شام میں امام اوزاعی اور اہل مصر میں امام لیث ہیں،ان میں سے کسی نے ایسے شخص کی نماز کو باطل نہیں کہا جس نے جھری نماز میں امام کی اقتدا کی او رر قرآت نہیں کی''
(مغنی ابن قدامہ، جلد 2 صفحہ262)
اب جھوٹا کہو امام احمد بن حنبل کو، ابن قدامہ رح کو اور سفیان بن عینیہ رح کو کیونکہ تم ان سب کے مقلد نہیں ہو۔
مجھے تو جھوٹا کہہ دیا لیکن ساتھ ساتھ ذرا ہمت کر کے ان کو بھی جھوٹا کہہ دو تا کہ پتہ چل سکے کہ تم ان کے مقلد نہیں ہو۔
اور یہ جو قول ہے (((حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا گیا ہے ہم بعض اوقات امام کے پیچھے ہوتے ہیں تو آپ نے فرمایا فاتحہ کو دل میں پڑھو)))
تو جناب یہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ کا قول ہے اور آپ تو صرف قرآن اور حدیث مانتے ہیں۔
اگر صحابہ کرام رضی اللہ کے اقوال ہی ماننے ہیں تو میں نے پہلے حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ اور ابن عباس رضی اللہ کے حوالے دئیے اس کے علاوہ حضرت زید رضی اللہ کا قول اور ابن عمر رضی اللہ کا قول میں نے پیش کیا وہ آپ کیوں نہیں مانتے؟
حضرت زید بن ثابت ؓ :۔عن عطاءانہ سال زید ابن ثابت عن القراة مع الامام فقال لا قراة مع الامام فی شیءمن الصلاة ۔
جب حضرت عطائؓ نے سیدنا زید بن ثابت (صحابی ؓ) سے امام کے پیچھے قراة کا سوال کیا تو آپ نے فرمایا امام کے ساتھ کسی نماز میں کوئی قراة نہیں کی جاسکتی.
( مسلم شریف /ج ۱/ص ۵۱۲/نسائی شریف /ج۱/ص۱۱۱/ طحاوی شریف /ج ۱/ص ۸۰۱ /موطا امام محمد /ص100)
حضرت ابن عمرؓ :۔ عن ابن عمر ؓ قال اذا صلی احدکم خلف الامام فحسبہ قراة الامام واذا صلی وحدہ فلیقرا وکان عبداللہ لا یقراء خلف الامام
حضرت ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ تم میں سے جب کوئی امام کے پیچھے نماز پڑھے تو اس کو امام کی قراة ہی کافی ہے اور جب اکیلا پڑھے تو اسے قرا ة کرنی چائیے اور عبداللہ بن عمر ؓ امام کے پیچھے نہیں پڑھا کرتے تھے.
( موطاامام مالک /ص۸۶/طحاوی شریف /ج۱/ص۸۰۱/موطاامام محمد /ص ۴۹)
حضرت نافع رح سے روایت ہے کہ عبدللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) سے جب کوئی پوچھتا کہ : کیا سورہ فاتحہ پڑھی جاۓ امام کے پیچھے؟ تو فرماتے : جب کوئی تم میں نماز پڑھے امام کے پیچھے تو کافی ہے اس کو قرأت امام کی، اور جو اکیلے پڑھے تو پڑھ لے. فرمایا حضرت نافع رح نے کہ حضرت عبدللہ بن عمر نہیں پڑھتے تھے امام کے پیچھے.
اس کے علاوہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ کی ہی روایت ہے کہ جب امام قرآت کرے تم خاموش رہو جس کو امام مسلم نے صحیح کہا ہے تو آپ اس روایت کو کیوں نہیں مانتے جس کی تصیح امام مسلم نے بھی کر دی۔
[موطا امام مالک (بروایۃ امام محمد) : باب: ترك القراءة خلف الإمام فيما جحر فيہ)
اس کے علاوہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ کی ہی روایت ہے کہ جب امام قرآت کرے تم خاموش رہو جس کو امام مسلم نے صحیح کہا ہے تو آپ اس روایت کو کیوں نہیں مانتے جس کی تصیح امام مسلم نے بھی کر دی۔
صحاح ستہ کی مشہور زمانہ کتاب مسلم شریف /ج ۱ /ص ۴۴۱/ میں حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ کی مرفوع حدیث ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ہمیں نماز کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا لیوکم احد کم فاذا کبر فکبر وا ............ واذا قرا فانصتو ا ۔تم میں سے ایک تمھار اامام بنے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قرآن پڑھے تو تم خاموش رہو ۔
یہ روایت ان کتب میں بھی ملاحظہ فرماسکتے ہیں
(بیہقی شریف /ج ۱/ص۵۵۱/جامع المسانید لابن کثیر /ج ۴۱/ص۷۷۳۴/حاشیہ نصب الرایہ /ج ۲ /ص۵۱/ محدث منذری بحوالہ عون المعبود /ج ۱/ص۸۴۱/ابن کثیر/ج ۲/ص۰۸۲/فتح الباری /ج ۲ /ص۱۰۲/مغنی لعلامہ ابن قد ا مہ / ج۱ /ص ۱۳۲ /فتاوی ابن تیمیہ /ج ۲/ص۰۹۲/عون المعبود /ج ۳/ص۸۴۱/معارف السنن /ج ۳/ص۵۸۳/ مسند احمد /ج۴ / ص ۵۱۴ / بحوالہ جامع المسانید /ج ۴۱/ص۷۷۳۴/ابن جریر/ج۹/ص۶۹۱/ فصل الخطاب /ص۷۲/سنن ابن ماجہ /ص
۱۶)
یہ صحیح اور صریح روایت ہمارے دعوی پر دلیل وحجت ہے کہ امام کی ذمہ داری قراة کرنا اور مقتدی کی ذمہ داری خاموش رہنا ہے ۔
باب تاویل قولہ عزوجل واذا قری القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمون عن ابی ھریرہ ؓ قال قال رسول اللہ ﷺ انما جعل الامام لیوتم بہ فاذ اکبر فکبرو ا واذا قرافانصتوا (نسائی شریف /ج ۱/ص۶۰۱/۷۰۱)
صحاح ستہ کے مشہور امام امام نسائی ؒ اللہ تعالی کے ارشاد گرامی واذا قری القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمون کی تاویل وتفسیر بیان کرتے ہوئے مشہور صحابی رسول ﷺ حضرت ابو ھریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا امام اس لئے بنایا جاتا ہے تاکہ اس کی اقتداءکی جائے پس جس وقت ( امام ) اللہ اکبرکہے تم بھی (مقتدی )اللہ اکبرکہواورجب (امام )قراة کرے پس تم (مقتدی ) خاموش رہو ۔
اسی روایت کی صحت کو امام مسلم ؒ اپنی شہر ہ آفاق کتاب صحیح مسلم /ج ۱/ ص۴۷۱ پر بایں الفاظ بیان فرماتے ہیں فقال ہو صحیح یعنی واذا قرا فانصتو ا
صحاح ستہ میں سے ایک امام ( امام نسائی ) اس حدیث کو قرآن کریم کی تفسیر میں بیان کرتا ہے اور صحاح ستہ کا دوسرا امام ( امام مسلم ) اس حدیث کو صحیح فرما رہا ہے ۔
عن ابی بکرة ؓ انہ انتہی الی النبی ﷺ و ہو راکع فرکع قبل ان یصل الی الصف فذکر ذالک للنبی ﷺ فقال زادک اللہ حرصاً ولا تعد
(ملخصًا) صحابی رسول حضرت ابو بکرہ ؓ خود اپنا واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ وہ اس حال میں حضرت ﷺ کی خدمت پہنچے کہ حضور اکرم ﷺ رکوع میں تھے تو انہوں نے بھی صف تک پہنچنے سے پہلے رکوع کرلیا (اور پھر صف میں مل گئے) پھر یہی واقعہ حضرت ﷺ کو عرض کیا ( کہ آپ رکوع میں تھے میں نے صف تک پہنچنے سے پہلے پہلے رکوع کرلیا تاکہ میری رکعت ضائع نہ ہوجائے ) اس پر اللہ کے نبی ﷺ نے (تحسین کرتے ہوئے )فرمایا اللہ تعالی آپ کے حرص کو زیادہ کریں دوبارہ نہ کرنا ۔
(بخاری شریف /ج۱/ص ۸۰۱/ابوداود شریف /ج ۱/ص۹۹ /طحاوی شریف /ج ۱/ص ۳۹۱/بیہقی شریف /ج ۲ /ص۹۸/۰۹)

یہ حدیث مبارک ہمارے دعوی پر نصف نہار کی طرح واضح ہے کہ حضرت ابو بکرہ ؓ صحابی رسول ﷺ رکوع میں شامل ہورہے ہیں امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھی مگر حضور نبی کریم ﷺ انہیں نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم نہیں فرماتے بلکہ زاد ک اللہ حرصا ( اللہ آپ کے حرص نماز باجماعت ) کو زیادہ فرمائے کہہ کر اس کی دل جوئی فرما رہے ہیں اگر یہ رکعت امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے کے سبب نہ ہوتی تو حضور ﷺ نماز دوبارہ پڑھنے کا ارشاد فرماتے ۔
میں نے بھی صحیح مسلم اور بخاری کی روایت پیش کی تھی لیکن آپ نے ابھی تک ان کا کوئی جواب نہیں دیا۔

آپ نے کہا کہ اس میں قرآت کے وقت خاموشی کا حکم ہے۔ تو کیا سورت فاتحہ قرات نہیں ہے۔ یا سورت فاتحہ قران میں نہیں ہے؟
اس روایت میں واضح بیان کیا گیا ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو خاموشی سے سنو اور سورت فاتحہ قران میں ہے۔ کیا آپ سورت فاتحہ کو قران میں نہیں مانتے؟؟
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ کی روایت میں کہاں ہے کہ با آواز بلند الحمد کے سوا قرآت کے وقت خاموش رہو؟؟؟
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْب , قَالَ : ثنا الْمُحَارِبِيّ , عَنْ دَاوُد بْن أَبِي ھنْد , عَنْ بَشِير بْن جَابِر , قَالَ : صَلَّى اِبْن مَسْعُود , فَسَمِعَ نَاسًا يَقْرَءُونَ مَعَ الإِمَام , فَلَمَّا اِنْصَرَفَ , قَالَ : أَمَا آنَ لَكُمْ أَنْ تَفْقَهُوا ؟ أَمَا آنَ لَكُمْ أَنْ تَعْقِلُوا ؟ وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآن فَاسْتَمِعُوا لَہ وَأَنْصِتُوا كَمَا أَمَرَكُمْ اللَّہ .
(تفسیر ابن جریر /سورۃ اعراف /آیت 204، جلد 13 /صفحہ 346 )
حضرت عبدا للہ بن مسعود ؓ نے ( ایک مرتبہ )نماز پڑھائی اور چند آدمیوں کو انہوں نے امام کے ساتھ قراة کرتے سنا جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم سمجھ اور عقل سے کام لو جب قرآن کریم کی تلاوت ہو رہی ہوتو اس کی طرف کان لگاو اور خاموش رہو جیسا اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس کا حکم دیا ۔
اس روايت سے انتہائ واضح طور پر یہ بات ہوگئ ہے کہ کچهہ لوگ امام کے پیچهے قراءت کر رہے تهے اور حضرت عبدالله ابن مسعود رضی الله عنه نے ان کو قراءت سے منع کیا اور یہ بات واضح کردی کہ اس آیت وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا میں الله تعالی نے لوگوں کو خوب توجہ سے سننے اورخاموش رہنے کا حکم دیا ہے۔
اس روایت میں تو باآواز بلند کن الفاظ کا ترجمہ ہے اور یہ کہاں لکھا ہے کہ الحمد کے علاوہ باقی قرآت کے وقت خاموش رہو؟؟
یہ ترجمہ آپ نے کہاں سے نکالا اس روایت کا؟؟
@nasirnoman @sherry2112 @Dawn @Tooba Khan @hoorain @lovelyalltime @S_ChiragH @Farhan-Shamsi @Abidi

سلام
میں نے اسی تفسیر کا حوالہ دیا جو قرآن آج بھی سعودی عربیہ میں دیا جاتا ہے سب حجاج کو
میں آپ کی طرح مقلد نہیں ہوں کہ کسی کی بات کو آنکھ بند کر کے مان لوں
آپ لوگوں کے لیے ایک ہی حدیث کافی ہے
صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 873 حدیث قدسی مکررات 12 متفق علیہ 4
حَدَّثَنَاه إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الْعَلَائِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ صَلَّی صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ ثَلَاثًا غَيْرُ تَمَامٍ فَقِيلَ لِأَبِي هُرَيْرَةَ إِنَّا نَکُونُ وَرَائَ الْإِمَامِ فَقَالَ اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِکَ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ قَالَ اللَّهُ تَعَالَی قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ فَإِذَا قَالَ الْعَبْدُ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ قَالَ اللَّهُ تَعَالَی حَمِدَنِي عَبْدِي وَإِذَا قَالَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَی أَثْنَی عَلَيَّ عَبْدِي وَإِذَا قَالَ مَالِکِ يَوْمِ الدِّينِ قَالَ مَجَّدَنِي عَبْدِي وَقَالَ مَرَّةً فَوَّضَ إِلَيَّ عَبْدِي فَإِذَا قَالَ إِيَّاکَ نَعْبُدُ وَإِيَّاکَ نَسْتَعِينُ قَالَ هَذَا بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ فَإِذَا قَالَ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ قَالَ هَذَا لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ قَالَ سُفْيَانُ حَدَّثَنِي بِهِ الْعَلَائُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْقُوبَ دَخَلْتُ عَلَيْهِ وَهُوَ مَرِيضٌ فِي بَيْتِهِ فَسَأَلْتُهُ أَنَا عَنْهُ
اسحاق بن ابرہیم، سفیان بن عیینہ، علاء بن عبدالرحمن، ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے نماز ادا کی اور اس میں ام القرآن نہ پڑھی تو اس کی نماز ناقص ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ یہی فرمایا اور ناتمام ہے،حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا گیا ہے ہم بعض اوقات امام کے پیچھے ہوتے ہیں تو آپ نے فرمایا فاتحہ کو دل میں پڑھوکیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ اللہ عز وجل فرماتے ہیں کہ نماز یعنی سورة فاتحہ میرے اور میرے بندے کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کر دی گئی ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو وہ مانگے جب بندہ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ کہتا ہے تو اللہ تعالی فرماتے ہیں میرے بندے نے میری حمد بیان کی اور جب وہ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری تعریف بیان کی اور جب وہ مَالِکِ يَوْمِ الدِّينِ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی اور ایک بار فرماتا ہے میرے بندے نے اپنے سب کام میرے سپرد کر دئیے اور جب وہ إِيَّاکَ نَعْبُدُ وَإِيَّاکَ نَسْتَعِينُ کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے کہ یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور بندے کے لئے وہ ہے جو اس نے مانگا ہے جب وہ (اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ) کہتا ہے تو اللہ عزوجل فرماتا ہے یہ میرے بندے کے لئے ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو اس نے مانگا۔
کیا یہ حدیث صرف اکیلے آدمی کے لیے ہے
یا امام کے پیچھے نماز والے کے لیے بھی ہے
کیا حضرت ابو ھریرہ راضی اللہ نے اپنے پاس سے بول دیا
لکن آپ نے اس کو صرف اکیلے آدمی کے لیے
کہ دیا
لکن آدھی حدیث کو گول مول کر کے فقہ کی نظر کر دیا
ذرا اپنے جواب پر غور کرو
اس حدیث کی تشریح کر دو اور ثابت کر دو کہ یہ اکیلے آدمی کے لیے ہے
مقلد اسی لیے اندھا ہوتا کہ جب قرآن یا صحیح حدیث کا حوالہ دیا جاتا ہے تو
اپنی جھوٹی انا کو بچانے کے لیے
اپنے مسلک کے علماء کی گود میں جا گرتا ہے
اور کہتا ہے کہ فلاں نے یہ کہا فلاں نے یہ کہا
کبھی نہیں کہے گا کہ اللہ نے قرآن میں یہ کہا
کبھی نہیں کہے گا کہ محمّد صلی اللہ وسلم نے یہ کہا
واہ رے مقلد واہ
 
  • Like
Reactions: *Muslim*

i love sahabah

TM Star
Sep 17, 2008
1,108
1,572
1,313
تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم
مجھے پتہ ہے کہ تمہارے پاس جواب نہیں اس لئے بار بار ایک ہی حدیث پیش کئے جا رہے ہو۔
آو ثابت کرو کہ سعودیہ کی جو تفسیر پیش کی ہے وہ ان اہلحدیث مولویوں کا حاشیہ اور ترجمہ نہیں ہے؟
لولی یہ تو تمہاری شروع سے عادت ہے کہ جب بھی کسی بات کا جواب نہ آئے تو احناف کے خلاف پوسٹ شروع کر دو کیونکہ تمہارا دل جو بغض اور حسد میں بھرا ہوا ہے۔
فورم پہ انصاف نہیں ہوتا ورنہ تمہارے ان نام نہاد اہلحدیثوں کا جن کا دفاع تم دوسرے فورم پہ کرتے ہو ایسے حوالے پیش کرتا کہ تم حنفیوں کو بھول جاتے۔
اب بھی جب جواب نہیں آیا تو اپنی عادت سے مجبور ہو کر احناف کے خلاف پوسٹ شروع کر دی۔
کتنی عجیب بات ہے کہ ہمیں تقلید کرنے پہ برا بھلا کہنے والا آج خود مولویوں کے سہارے لے رہا ہے۔
مانا کہ تم صلاح الدین یوسف اور جونا گڑھی کے مقلد نہیں ہو تو پھر ان کے حوالے کیوں دئیے؟
اور جب حوالہ دیا تو آدھا حوالہ دیا اور نیچے علامہ ابن تیمیہ کا حوالہ کیوں چھوڑ دیا؟
دھوکہ تو تم دے رہے ہو لوگوں کو کہ مولویوں کی تفسیر اور حاشیہ بیان کر کے کہتے ہو کہ قرآن سے ثابت ہے۔
میں نے اس آیت کی تفسیر کے لئے صحابہ کرام رضی اللہ کے حوالے پیش کئے اور تم ان کے مقابلے میں مولویوں کے حوالے پیش کر رہے ہو۔
صحابہ کی تفسیر پہ اعتبار تم خود نہیں کر رہے اور پھر الزام احناف پہ کہ وہ قران اور حدیث کے مخالف ہیں۔
اور مجھے جھوٹا کہنے سے پہلے میرے دئیے گئے حوالے پڑھ لیتے لیکن تمہاری آنکھوں پہ تو احناف کے بغض اور حسد کی پٹی چڑھی ہوئی ہے اس لئے میرا حوالہ تمہیں نظر نہیں آیا۔
اس روایت کو میں نے نہیں بلکہ ان اکابرین نے منفرد کے لئے کہا ہے ذرا حسد اور بغض کی پٹی ہٹا کر پڑھ لینا۔
امام موفق الدینؒ ابن قدامہ الحنبلیؒ
فرماتے ہیں کہ حضرت عبادہ بن صامت کی جو حدیث صحیح ہے تو وہ غیر مقتدی پر محمول ہے اور اسی طرح حضرت ابوہریرہؓ کی روایت بھی غیر مقتدی پر محمول ہے ۔(مغنی جلد 1 ص 606 )۔
امام شمس الدینؒ
فرماتے ہیں کہ وہ مقتدی کے علاوہ دوسروں پر محمول ہے اور اسی طرح حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت بھی غیر مقتدی کے حق میں ہے ۔
(شرح مفتح الکبیر جلد 2 ص 12)
اوپر پہلے امام احمد بن حنبل کا قول میں پیش کر چکا ہوں اور سفیان بن عینیہ رح جو اس حدیث کے راوی ہیں وہ خود حضرت عبادہ کی روایت کو منفرد کے لئے کہہ رہے ہیں،
یہی بات سبل السلام میں بھی موجود ہے جس کا حوالہ میں اوپر دے چکا ہوں۔
امام احمد بن حنبل رح تو یہاں تک کہتے ہیں کہ
''یہ نبی کریم ﷺ، صحابہ اور تابعین ہیں،اہل حجاز میں امام مالک اور اہل عراق میں امام ثوری ہیں،اہل شام میں امام اوزاعی اور اہل مصر میں امام لیث ہیں،ان میں سے کسی نے ایسے شخص کی نماز کو باطل نہیں کہا جس نے جھری نماز میں امام کی اقتدا کی او رر قرآت نہیں کی''
(مغنی ابن قدامہ، جلد 2 صفحہ262)
اب جھوٹا کہو امام احمد بن حنبل کو، ابن قدامہ رح کو اور سفیان بن عینیہ رح کو کیونکہ تم ان سب کے مقلد نہیں ہو۔
مجھے تو جھوٹا کہہ دیا لیکن ساتھ ساتھ ذرا ہمت کر کے ان کو بھی جھوٹا کہہ دو تا کہ پتہ چل سکے کہ تم ان کے مقلد نہیں ہو۔
اور یہ جو قول ہے (((حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا گیا ہے ہم بعض اوقات امام کے پیچھے ہوتے ہیں تو آپ نے فرمایا فاتحہ کو دل میں پڑھو)))
تو جناب یہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ کا قول ہے اور آپ تو صرف قرآن اور حدیث مانتے ہیں۔
اگر صحابہ کرام رضی اللہ کے اقوال ہی ماننے ہیں تو میں نے پہلے حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ اور ابن عباس رضی اللہ کے حوالے دئیے اس کے علاوہ حضرت زید رضی اللہ کا قول اور ابن عمر رضی اللہ کا قول میں نے پیش کیا وہ آپ کیوں نہیں مانتے؟
حضرت زید بن ثابت ؓ :۔عن عطاءانہ سال زید ابن ثابت عن القراة مع الامام فقال لا قراة مع الامام فی شیءمن الصلاة ۔
جب حضرت عطائؓ نے سیدنا زید بن ثابت (صحابی ؓ) سے امام کے پیچھے قراة کا سوال کیا تو آپ نے فرمایا امام کے ساتھ کسی نماز میں کوئی قراة نہیں کی جاسکتی.
( مسلم شریف /ج ۱/ص ۵۱۲/نسائی شریف /ج۱/ص۱۱۱/ طحاوی شریف /ج ۱/ص ۸۰۱ /موطا امام محمد /ص100)
حضرت ابن عمرؓ :۔ عن ابن عمر ؓ قال اذا صلی احدکم خلف الامام فحسبہ قراة الامام واذا صلی وحدہ فلیقرا وکان عبداللہ لا یقراء خلف الامام
حضرت ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ تم میں سے جب کوئی امام کے پیچھے نماز پڑھے تو اس کو امام کی قراة ہی کافی ہے اور جب اکیلا پڑھے تو اسے قرا ة کرنی چائیے اور عبداللہ بن عمر ؓ امام کے پیچھے نہیں پڑھا کرتے تھے.
( موطاامام مالک /ص۸۶/طحاوی شریف /ج۱/ص۸۰۱/موطاامام محمد /ص ۴۹)
حضرت نافع رح سے روایت ہے کہ عبدللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) سے جب کوئی پوچھتا کہ : کیا سورہ فاتحہ پڑھی جاۓ امام کے پیچھے؟ تو فرماتے : جب کوئی تم میں نماز پڑھے امام کے پیچھے تو کافی ہے اس کو قرأت امام کی، اور جو اکیلے پڑھے تو پڑھ لے. فرمایا حضرت نافع رح نے کہ حضرت عبدللہ بن عمر نہیں پڑھتے تھے امام کے پیچھے.
اس کے علاوہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ کی ہی روایت ہے کہ جب امام قرآت کرے تم خاموش رہو جس کو امام مسلم نے صحیح کہا ہے تو آپ اس روایت کو کیوں نہیں مانتے جس کی تصیح امام مسلم نے بھی کر دی۔
[موطا امام مالک (بروایۃ امام محمد) : باب: ترك القراءة خلف الإمام فيما جحر فيہ)
اس کے علاوہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ کی ہی روایت ہے کہ جب امام قرآت کرے تم خاموش رہو جس کو امام مسلم نے صحیح کہا ہے تو آپ اس روایت کو کیوں نہیں مانتے جس کی تصیح امام مسلم نے بھی کر دی۔
صحاح ستہ کی مشہور زمانہ کتاب مسلم شریف /ج ۱ /ص ۴۴۱/ میں حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ کی مرفوع حدیث ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ہمیں نماز کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا لیوکم احد کم فاذا کبر فکبر وا ............ واذا قرا فانصتو ا ۔تم میں سے ایک تمھار اامام بنے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قرآن پڑھے تو تم خاموش رہو ۔
یہ روایت ان کتب میں بھی ملاحظہ فرماسکتے ہیں
(بیہقی شریف /ج ۱/ص۵۵۱/جامع المسانید لابن کثیر /ج ۴۱/ص۷۷۳۴/حاشیہ نصب الرایہ /ج ۲ /ص۵۱/ محدث منذری بحوالہ عون المعبود /ج ۱/ص۸۴۱/ابن کثیر/ج ۲/ص۰۸۲/فتح الباری /ج ۲ /ص۱۰۲/مغنی لعلامہ ابن قد ا مہ / ج۱ /ص ۱۳۲ /فتاوی ابن تیمیہ /ج ۲/ص۰۹۲/عون المعبود /ج ۳/ص۸۴۱/معارف السنن /ج ۳/ص۵۸۳/ مسند احمد /ج۴ / ص ۵۱۴ / بحوالہ جامع المسانید /ج ۴۱/ص۷۷۳۴/ابن جریر/ج۹/ص۶۹۱/ فصل الخطاب /ص۷۲/سنن ابن ماجہ /ص
۱۶)
یہ صحیح اور صریح روایت ہمارے دعوی پر دلیل وحجت ہے کہ امام کی ذمہ داری قراة کرنا اور مقتدی کی ذمہ داری خاموش رہنا ہے ۔
باب تاویل قولہ عزوجل واذا قری القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمون عن ابی ھریرہ ؓ قال قال رسول اللہ ﷺ انما جعل الامام لیوتم بہ فاذ اکبر فکبرو ا واذا قرافانصتوا (نسائی شریف /ج ۱/ص۶۰۱/۷۰۱)
صحاح ستہ کے مشہور امام امام نسائی ؒ اللہ تعالی کے ارشاد گرامی واذا قری القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمون کی تاویل وتفسیر بیان کرتے ہوئے مشہور صحابی رسول ﷺ حضرت ابو ھریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا امام اس لئے بنایا جاتا ہے تاکہ اس کی اقتداءکی جائے پس جس وقت ( امام ) اللہ اکبرکہے تم بھی (مقتدی )اللہ اکبرکہواورجب (امام )قراة کرے پس تم (مقتدی ) خاموش رہو ۔
اسی روایت کی صحت کو امام مسلم ؒ اپنی شہر ہ آفاق کتاب صحیح مسلم /ج ۱/ ص۴۷۱ پر بایں الفاظ بیان فرماتے ہیں فقال ہو صحیح یعنی واذا قرا فانصتو ا
صحاح ستہ میں سے ایک امام ( امام نسائی ) اس حدیث کو قرآن کریم کی تفسیر میں بیان کرتا ہے اور صحاح ستہ کا دوسرا امام ( امام مسلم ) اس حدیث کو صحیح فرما رہا ہے ۔
عن ابی بکرة ؓ انہ انتہی الی النبی ﷺ و ہو راکع فرکع قبل ان یصل الی الصف فذکر ذالک للنبی ﷺ فقال زادک اللہ حرصاً ولا تعد
(ملخصًا) صحابی رسول حضرت ابو بکرہ ؓ خود اپنا واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ وہ اس حال میں حضرت ﷺ کی خدمت پہنچے کہ حضور اکرم ﷺ رکوع میں تھے تو انہوں نے بھی صف تک پہنچنے سے پہلے رکوع کرلیا (اور پھر صف میں مل گئے) پھر یہی واقعہ حضرت ﷺ کو عرض کیا ( کہ آپ رکوع میں تھے میں نے صف تک پہنچنے سے پہلے پہلے رکوع کرلیا تاکہ میری رکعت ضائع نہ ہوجائے ) اس پر اللہ کے نبی ﷺ نے (تحسین کرتے ہوئے )فرمایا اللہ تعالی آپ کے حرص کو زیادہ کریں دوبارہ نہ کرنا ۔
(بخاری شریف /ج۱/ص ۸۰۱/ابوداود شریف /ج ۱/ص۹۹ /طحاوی شریف /ج ۱/ص ۳۹۱/بیہقی شریف /ج ۲ /ص۹۸/۰۹)
یہ حدیث مبارک ہمارے دعوی پر نصف نہار کی طرح واضح ہے کہ حضرت ابو بکرہ ؓ صحابی رسول ﷺ رکوع میں شامل ہورہے ہیں امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھی مگر حضور نبی کریم ﷺ انہیں نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم نہیں فرماتے بلکہ زاد ک اللہ حرصا ( اللہ آپ کے حرص نماز باجماعت ) کو زیادہ فرمائے کہہ کر اس کی دل جوئی فرما رہے ہیں اگر یہ رکعت امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے کے سبب نہ ہوتی تو حضور ﷺ نماز دوبارہ پڑھنے کا ارشاد فرماتے ۔
میں نے بھی صحیح مسلم اور بخاری کی روایت پیش کی تھی لیکن آپ نے ابھی تک ان کا کوئی جواب نہیں دیا۔
آپ نے کہا کہ اس میں قرآت کے وقت خاموشی کا حکم ہے۔ تو کیا سورت فاتحہ قرات نہیں ہے۔ یا سورت فاتحہ قران میں نہیں ہے؟
اس روایت میں واضح بیان کیا گیا ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو خاموشی سے سنو اور سورت فاتحہ قران میں ہے۔ کیا آپ سورت فاتحہ کو قران میں نہیں مانتے؟؟
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ کی روایت میں کہاں ہے کہ با آواز بلند الحمد کے سوا قرآت کے وقت خاموش رہو؟؟؟
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْب , قَالَ : ثنا الْمُحَارِبِيّ , عَنْ دَاوُد بْن أَبِي ھنْد , عَنْ بَشِير بْن جَابِر , قَالَ : صَلَّى اِبْن مَسْعُود , فَسَمِعَ نَاسًا يَقْرَءُونَ مَعَ الإِمَام , فَلَمَّا اِنْصَرَفَ , قَالَ : أَمَا آنَ لَكُمْ أَنْ تَفْقَهُوا ؟ أَمَا آنَ لَكُمْ أَنْ تَعْقِلُوا ؟ وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآن فَاسْتَمِعُوا لَہ وَأَنْصِتُوا كَمَا أَمَرَكُمْ اللَّہ .
(تفسیر ابن جریر /سورۃ اعراف /آیت 204، جلد 13 /صفحہ 346 )
حضرت عبدا للہ بن مسعود ؓ نے ( ایک مرتبہ )نماز پڑھائی اور چند آدمیوں کو انہوں نے امام کے ساتھ قراة کرتے سنا جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم سمجھ اور عقل سے کام لو جب قرآن کریم کی تلاوت ہو رہی ہوتو اس کی طرف کان لگاو اور خاموش رہو جیسا اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس کا حکم دیا ۔
اس روايت سے انتہائ واضح طور پر یہ بات ہوگئ ہے کہ کچهہ لوگ امام کے پیچهے قراءت کر رہے تهے اور حضرت عبدالله ابن مسعود رضی الله عنه نے ان کو قراءت سے منع کیا اور یہ بات واضح کردی کہ اس آیت وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا میں الله تعالی نے لوگوں کو خوب توجہ سے سننے اورخاموش رہنے کا حکم دیا ہے۔
اس روایت میں تو باآواز بلند کن الفاظ کا ترجمہ ہے اور یہ کہاں لکھا ہے کہ الحمد کے علاوہ باقی قرآت کے وقت خاموش رہو؟؟
یہ ترجمہ آپ نے کہاں سے نکالا اس روایت کا؟؟
 

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913


تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم
مجھے پتہ ہے کہ تمہارے پاس جواب نہیں اس لئے بار بار ایک ہی حدیث پیش کئے جا رہے ہو۔
آو ثابت کرو کہ سعودیہ کی جو تفسیر پیش کی ہے وہ ان اہلحدیث مولویوں کا حاشیہ اور ترجمہ نہیں ہے؟
لولی یہ تو تمہاری شروع سے عادت ہے کہ جب بھی کسی بات کا جواب نہ آئے تو احناف کے خلاف پوسٹ شروع کر دو کیونکہ تمہارا دل جو بغض اور حسد میں بھرا ہوا ہے۔
فورم پہ انصاف نہیں ہوتا ورنہ تمہارے ان نام نہاد اہلحدیثوں کا جن کا دفاع تم دوسرے فورم پہ کرتے ہو ایسے حوالے پیش کرتا کہ تم حنفیوں کو بھول جاتے۔
اب بھی جب جواب نہیں آیا تو اپنی عادت سے مجبور ہو کر احناف کے خلاف پوسٹ شروع کر دی۔
کتنی عجیب بات ہے کہ ہمیں تقلید کرنے پہ برا بھلا کہنے والا آج خود مولویوں کے سہارے لے رہا ہے۔
مانا کہ تم صلاح الدین یوسف اور جونا گڑھی کے مقلد نہیں ہو تو پھر ان کے حوالے کیوں دئیے؟
اور جب حوالہ دیا تو آدھا حوالہ دیا اور نیچے علامہ ابن تیمیہ کا حوالہ کیوں چھوڑ دیا؟
دھوکہ تو تم دے رہے ہو لوگوں کو کہ مولویوں کی تفسیر اور حاشیہ بیان کر کے کہتے ہو کہ قرآن سے ثابت ہے۔
میں نے اس آیت کی تفسیر کے لئے صحابہ کرام رضی اللہ کے حوالے پیش کئے اور تم ان کے مقابلے میں مولویوں کے حوالے پیش کر رہے ہو۔
صحابہ کی تفسیر پہ اعتبار تم خود نہیں کر رہے اور پھر الزام احناف پہ کہ وہ قران اور حدیث کے مخالف ہیں۔
اور مجھے جھوٹا کہنے سے پہلے میرے دئیے گئے حوالے پڑھ لیتے لیکن تمہاری آنکھوں پہ تو احناف کے بغض اور حسد کی پٹی چڑھی ہوئی ہے اس لئے میرا حوالہ تمہیں نظر نہیں آیا۔
اس روایت کو میں نے نہیں بلکہ ان اکابرین نے منفرد کے لئے کہا ہے ذرا حسد اور بغض کی پٹی ہٹا کر پڑھ لینا۔
امام موفق الدینؒ ابن قدامہ الحنبلیؒ
فرماتے ہیں کہ حضرت عبادہ بن صامت کی جو حدیث صحیح ہے تو وہ غیر مقتدی پر محمول ہے اور اسی طرح حضرت ابوہریرہؓ کی روایت بھی غیر مقتدی پر محمول ہے ۔(مغنی جلد 1 ص 606 )۔
امام شمس الدینؒ
فرماتے ہیں کہ وہ مقتدی کے علاوہ دوسروں پر محمول ہے اور اسی طرح حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت بھی غیر مقتدی کے حق میں ہے ۔
(شرح مفتح الکبیر جلد 2 ص 12)
اوپر پہلے امام احمد بن حنبل کا قول میں پیش کر چکا ہوں اور سفیان بن عینیہ رح جو اس حدیث کے راوی ہیں وہ خود حضرت عبادہ کی روایت کو منفرد کے لئے کہہ رہے ہیں،
یہی بات سبل السلام میں بھی موجود ہے جس کا حوالہ میں اوپر دے چکا ہوں۔
امام احمد بن حنبل رح تو یہاں تک کہتے ہیں کہ
''یہ نبی کریم ﷺ، صحابہ اور تابعین ہیں،اہل حجاز میں امام مالک اور اہل عراق میں امام ثوری ہیں،اہل شام میں امام اوزاعی اور اہل مصر میں امام لیث ہیں،ان میں سے کسی نے ایسے شخص کی نماز کو باطل نہیں کہا جس نے جھری نماز میں امام کی اقتدا کی او رر قرآت نہیں کی''
(مغنی ابن قدامہ، جلد 2 صفحہ262)
اب جھوٹا کہو امام احمد بن حنبل کو، ابن قدامہ رح کو اور سفیان بن عینیہ رح کو کیونکہ تم ان سب کے مقلد نہیں ہو۔
مجھے تو جھوٹا کہہ دیا لیکن ساتھ ساتھ ذرا ہمت کر کے ان کو بھی جھوٹا کہہ دو تا کہ پتہ چل سکے کہ تم ان کے مقلد نہیں ہو۔
اور یہ جو قول ہے (((حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا گیا ہے ہم بعض اوقات امام کے پیچھے ہوتے ہیں تو آپ نے فرمایا فاتحہ کو دل میں پڑھو)))
تو جناب یہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ کا قول ہے اور آپ تو صرف قرآن اور حدیث مانتے ہیں۔
اگر صحابہ کرام رضی اللہ کے اقوال ہی ماننے ہیں تو میں نے پہلے حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ اور ابن عباس رضی اللہ کے حوالے دئیے اس کے علاوہ حضرت زید رضی اللہ کا قول اور ابن عمر رضی اللہ کا قول میں نے پیش کیا وہ آپ کیوں نہیں مانتے؟
حضرت زید بن ثابت ؓ :۔عن عطاءانہ سال زید ابن ثابت عن القراة مع الامام فقال لا قراة مع الامام فی شیءمن الصلاة ۔
جب حضرت عطائؓ نے سیدنا زید بن ثابت (صحابی ؓ) سے امام کے پیچھے قراة کا سوال کیا تو آپ نے فرمایا امام کے ساتھ کسی نماز میں کوئی قراة نہیں کی جاسکتی.
( مسلم شریف /ج ۱/ص ۵۱۲/نسائی شریف /ج۱/ص۱۱۱/ طحاوی شریف /ج ۱/ص ۸۰۱ /موطا امام محمد /ص100)
حضرت ابن عمرؓ :۔ عن ابن عمر ؓ قال اذا صلی احدکم خلف الامام فحسبہ قراة الامام واذا صلی وحدہ فلیقرا وکان عبداللہ لا یقراء خلف الامام
حضرت ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ تم میں سے جب کوئی امام کے پیچھے نماز پڑھے تو اس کو امام کی قراة ہی کافی ہے اور جب اکیلا پڑھے تو اسے قرا ة کرنی چائیے اور عبداللہ بن عمر ؓ امام کے پیچھے نہیں پڑھا کرتے تھے.
( موطاامام مالک /ص۸۶/طحاوی شریف /ج۱/ص۸۰۱/موطاامام محمد /ص ۴۹)
حضرت نافع رح سے روایت ہے کہ عبدللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) سے جب کوئی پوچھتا کہ : کیا سورہ فاتحہ پڑھی جاۓ امام کے پیچھے؟ تو فرماتے : جب کوئی تم میں نماز پڑھے امام کے پیچھے تو کافی ہے اس کو قرأت امام کی، اور جو اکیلے پڑھے تو پڑھ لے. فرمایا حضرت نافع رح نے کہ حضرت عبدللہ بن عمر نہیں پڑھتے تھے امام کے پیچھے.
اس کے علاوہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ کی ہی روایت ہے کہ جب امام قرآت کرے تم خاموش رہو جس کو امام مسلم نے صحیح کہا ہے تو آپ اس روایت کو کیوں نہیں مانتے جس کی تصیح امام مسلم نے بھی کر دی۔
[موطا امام مالک (بروایۃ امام محمد) : باب: ترك القراءة خلف الإمام فيما جحر فيہ)
اس کے علاوہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ کی ہی روایت ہے کہ جب امام قرآت کرے تم خاموش رہو جس کو امام مسلم نے صحیح کہا ہے تو آپ اس روایت کو کیوں نہیں مانتے جس کی تصیح امام مسلم نے بھی کر دی۔
صحاح ستہ کی مشہور زمانہ کتاب مسلم شریف /ج ۱ /ص ۴۴۱/ میں حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ کی مرفوع حدیث ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ہمیں نماز کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا لیوکم احد کم فاذا کبر فکبر وا ............ واذا قرا فانصتو ا ۔تم میں سے ایک تمھار اامام بنے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قرآن پڑھے تو تم خاموش رہو ۔
یہ روایت ان کتب میں بھی ملاحظہ فرماسکتے ہیں
(بیہقی شریف /ج ۱/ص۵۵۱/جامع المسانید لابن کثیر /ج ۴۱/ص۷۷۳۴/حاشیہ نصب الرایہ /ج ۲ /ص۵۱/ محدث منذری بحوالہ عون المعبود /ج ۱/ص۸۴۱/ابن کثیر/ج ۲/ص۰۸۲/فتح الباری /ج ۲ /ص۱۰۲/مغنی لعلامہ ابن قد ا مہ / ج۱ /ص ۱۳۲ /فتاوی ابن تیمیہ /ج ۲/ص۰۹۲/عون المعبود /ج ۳/ص۸۴۱/معارف السنن /ج ۳/ص۵۸۳/ مسند احمد /ج۴ / ص ۵۱۴ / بحوالہ جامع المسانید /ج ۴۱/ص۷۷۳۴/ابن جریر/ج۹/ص۶۹۱/ فصل الخطاب /ص۷۲/سنن ابن ماجہ /ص
۱۶)
یہ صحیح اور صریح روایت ہمارے دعوی پر دلیل وحجت ہے کہ امام کی ذمہ داری قراة کرنا اور مقتدی کی ذمہ داری خاموش رہنا ہے ۔
باب تاویل قولہ عزوجل واذا قری القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمون عن ابی ھریرہ ؓ قال قال رسول اللہ ﷺ انما جعل الامام لیوتم بہ فاذ اکبر فکبرو ا واذا قرافانصتوا (نسائی شریف /ج ۱/ص۶۰۱/۷۰۱)
صحاح ستہ کے مشہور امام امام نسائی ؒ اللہ تعالی کے ارشاد گرامی واذا قری القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمون کی تاویل وتفسیر بیان کرتے ہوئے مشہور صحابی رسول ﷺ حضرت ابو ھریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا امام اس لئے بنایا جاتا ہے تاکہ اس کی اقتداءکی جائے پس جس وقت ( امام ) اللہ اکبرکہے تم بھی (مقتدی )اللہ اکبرکہواورجب (امام )قراة کرے پس تم (مقتدی ) خاموش رہو ۔
اسی روایت کی صحت کو امام مسلم ؒ اپنی شہر ہ آفاق کتاب صحیح مسلم /ج ۱/ ص۴۷۱ پر بایں الفاظ بیان فرماتے ہیں فقال ہو صحیح یعنی واذا قرا فانصتو ا
صحاح ستہ میں سے ایک امام ( امام نسائی ) اس حدیث کو قرآن کریم کی تفسیر میں بیان کرتا ہے اور صحاح ستہ کا دوسرا امام ( امام مسلم ) اس حدیث کو صحیح فرما رہا ہے ۔
عن ابی بکرة ؓ انہ انتہی الی النبی ﷺ و ہو راکع فرکع قبل ان یصل الی الصف فذکر ذالک للنبی ﷺ فقال زادک اللہ حرصاً ولا تعد
(ملخصًا) صحابی رسول حضرت ابو بکرہ ؓ خود اپنا واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ وہ اس حال میں حضرت ﷺ کی خدمت پہنچے کہ حضور اکرم ﷺ رکوع میں تھے تو انہوں نے بھی صف تک پہنچنے سے پہلے رکوع کرلیا (اور پھر صف میں مل گئے) پھر یہی واقعہ حضرت ﷺ کو عرض کیا ( کہ آپ رکوع میں تھے میں نے صف تک پہنچنے سے پہلے پہلے رکوع کرلیا تاکہ میری رکعت ضائع نہ ہوجائے ) اس پر اللہ کے نبی ﷺ نے (تحسین کرتے ہوئے )فرمایا اللہ تعالی آپ کے حرص کو زیادہ کریں دوبارہ نہ کرنا ۔
(بخاری شریف /ج۱/ص ۸۰۱/ابوداود شریف /ج ۱/ص۹۹ /طحاوی شریف /ج ۱/ص ۳۹۱/بیہقی شریف /ج ۲ /ص۹۸/۰۹)
یہ حدیث مبارک ہمارے دعوی پر نصف نہار کی طرح واضح ہے کہ حضرت ابو بکرہ ؓ صحابی رسول ﷺ رکوع میں شامل ہورہے ہیں امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھی مگر حضور نبی کریم ﷺ انہیں نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم نہیں فرماتے بلکہ زاد ک اللہ حرصا ( اللہ آپ کے حرص نماز باجماعت ) کو زیادہ فرمائے کہہ کر اس کی دل جوئی فرما رہے ہیں اگر یہ رکعت امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے کے سبب نہ ہوتی تو حضور ﷺ نماز دوبارہ پڑھنے کا ارشاد فرماتے ۔
میں نے بھی صحیح مسلم اور بخاری کی روایت پیش کی تھی لیکن آپ نے ابھی تک ان کا کوئی جواب نہیں دیا۔
آپ نے کہا کہ اس میں قرآت کے وقت خاموشی کا حکم ہے۔ تو کیا سورت فاتحہ قرات نہیں ہے۔ یا سورت فاتحہ قران میں نہیں ہے؟
اس روایت میں واضح بیان کیا گیا ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو خاموشی سے سنو اور سورت فاتحہ قران میں ہے۔ کیا آپ سورت فاتحہ کو قران میں نہیں مانتے؟؟
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ کی روایت میں کہاں ہے کہ با آواز بلند الحمد کے سوا قرآت کے وقت خاموش رہو؟؟؟
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْب , قَالَ : ثنا الْمُحَارِبِيّ , عَنْ دَاوُد بْن أَبِي ھنْد , عَنْ بَشِير بْن جَابِر , قَالَ : صَلَّى اِبْن مَسْعُود , فَسَمِعَ نَاسًا يَقْرَءُونَ مَعَ الإِمَام , فَلَمَّا اِنْصَرَفَ , قَالَ : أَمَا آنَ لَكُمْ أَنْ تَفْقَهُوا ؟ أَمَا آنَ لَكُمْ أَنْ تَعْقِلُوا ؟ وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآن فَاسْتَمِعُوا لَہ وَأَنْصِتُوا كَمَا أَمَرَكُمْ اللَّہ .
(تفسیر ابن جریر /سورۃ اعراف /آیت 204، جلد 13 /صفحہ 346 )
حضرت عبدا للہ بن مسعود ؓ نے ( ایک مرتبہ )نماز پڑھائی اور چند آدمیوں کو انہوں نے امام کے ساتھ قراة کرتے سنا جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم سمجھ اور عقل سے کام لو جب قرآن کریم کی تلاوت ہو رہی ہوتو اس کی طرف کان لگاو اور خاموش رہو جیسا اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس کا حکم دیا ۔
اس روايت سے انتہائ واضح طور پر یہ بات ہوگئ ہے کہ کچهہ لوگ امام کے پیچهے قراءت کر رہے تهے اور حضرت عبدالله ابن مسعود رضی الله عنه نے ان کو قراءت سے منع کیا اور یہ بات واضح کردی کہ اس آیت وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا میں الله تعالی نے لوگوں کو خوب توجہ سے سننے اورخاموش رہنے کا حکم دیا ہے۔
اس روایت میں تو باآواز بلند کن الفاظ کا ترجمہ ہے اور یہ کہاں لکھا ہے کہ الحمد کے علاوہ باقی قرآت کے وقت خاموش رہو؟؟
یہ ترجمہ آپ نے کہاں سے نکالا اس روایت کا؟؟




ہمارے پاس ایک معیار موجود ہے کہ دین کی ہر ایک بات کو کتاب و سنت پر پیش کیا جانا چاہئے۔ اب اگر کسی بزرگ کی بات اس معیار پر پوری نہ اترے تو کیا اس کا یہ مطلب نکلتا ہے کہ ‫:
ہمارے نزدیک اس بزرگ کا کوئی مقام نہیں یا ہم ان کی ہر بات کو یکسر مسترد کرتے ہیں یا ہمارا ان کی بات کو نہ ماننا ، ان کی توہین کے زمرے میں آتا ہے ؟

سنن نسائی کی ایک روایت سے اس بات کو سمجھنے کی کوشش کی جانی چاہئے۔

مروان بن حکم سے روایت ہے کہ : میں حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) کے پاس بیٹھا تھا ، انہوں نے حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کو عمرہ اور حج دونوں (یعنی حجِ قران) کی لبیک کہتے ہوئے سنا تو حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) نے حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کو اس سے منع فرمایا ، اس پر حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے جواب دیا

بلى ، ولكني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يلبي بهما جميعا ، فلم أدع رسول الله صلى الله عليه وسلم لقولك
میں آپ کے قول کے مقابلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو نہیں چھوڑ سکتا ۔
النسائی ، كتاب الحج ، لمواقیت ، باب : القران
(حدیث "حسن" ہے)




وہ حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) کا دورِ خلافت تھا اور اپنے دورِ خلافت میں آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کو حکماً اس بات سے منع کیا تھا کہ عمرہ اور حج دونوں (یعنی حجِ قران) کی لبیک نہ پکاریں ( جس کی وجہ یہ تھی کہ آپ رضی اللہ عنہ کو پہلے اس کا علم نہ تھا) ، لیکن حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے آپ (رضی اللہ عنہ) کے قول کی کوئی پرواہ نہیں کی۔

کیا حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کا حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) کے حکم کو نہ ماننا ، توہین کہلائے گا؟
کیا حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کے اس فعل سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ انہوں نے حضرت
عثمان (رضی اللہ عنہ) کی عزت و تکریم نہیں کی
؟

ایسی بہت سی مثالیں دورِ صحابہ میں مل جاتی ہیں۔ اور یہ تو صحابہ کا معاملہ تھا ۔۔۔ اب ذرا سوچ لیں کہ دوسرے ائمہ کرام یا بزرگانِ دین کس شمار و قطار میں ہیں؟

ہمیں اس بات کو خوب یاد رکھنا چاہئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث کے مقابلے میں کسی کے بھی قول کی کوئی اہمیت نہیں ہے چاہے وہ کتنے بھی بڑے امام کا ہو یا کتنی ہی مشہور کتاب میں درج ہو۔

لہذا یہ تاثر دینا درست نہیں ہے کہ فلاں فلاں امام کی فلاں فلاں مشہور کتاب میں جو واقعہ درج ہے اس کو فریقِ مخالف نہ مان کر فلاں فلاں امام کو جھٹلاتا ہے۔

اس حدیث کے بارے میں بھی اپنی رائے دے دیں

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ آپ حج تمتع کو جائز سمجھتے ہیں حالانکہ آپ کے والد عمر رضی اللہ عنہ اس سے روکا کرتے تھے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: یہ بتاؤ کہ میرے والد ایک کام سے منع کريں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کا حکم دیں تو میرے والد کی بات مانی جائےگی یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم مانا جائے گا؟ کہنے والے نے کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم و عمل کو قبول کیا جائے گا۔ تو ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو لیا جائے گا تو پھر میرے والد کے قول کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے مقابلے میں کیوں پیش کرتے ہو۔

(ترمذی۱\۱۶۹،طحاوی۱\۳۹۹)


پلیز بتائیں کہ عبدللہ بن عمر راضی اللہ نے اپناؤ والد کی تقلید کیوں نہیں کی


ہمیں اس بات کو خوب یاد رکھنا چاہئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث کے مقابلے میں کسی کے بھی قول کی کوئی اہمیت نہیں ہے چاہے وہ کتنے بھی بڑے امام کا ہو یا کتنی ہی مشہور کتاب میں درج ہو۔

لہذا یہ تاثر دینا درست نہیں ہے کہ فلاں فلاں امام کی فلاں فلاں مشہور کتاب میں جو واقعہ درج ہے اس کو فریقِ مخالف نہ مان کر فلاں فلاں امام کو جھٹلاتا ہے۔







 
  • Like
Reactions: *Muslim*
Top