آج کل طارق جمیل کی ایک وڈیو اسلام میں محبت کی شادی، کے عنوان سے مختلف فورم پیش کی جارہی ہے- چونکہ آج کے دور میں، وڈیو کے سہارے، نمائشی اور کمرشل ملا ازم فروغ پارہا ہے اس لئے ضرورت ہے کہ عوام کو اس بارے میں آگاہی دی جائے- مجھے امید ہے کہ کوئی جید عالم اس موضوع پر عوام کو گمراہی سے بچانے کی کوشش ضرور کریں گے-
اس وڈیو سے ایسا تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ حضرت علی اور حضرت فاطمہ کی محبت کی شادی تھی، جو سراسر بہتان ہے اس پاکیزہ ہستی پر-
جس شادی کو ہمارا معاشرہ "محبت کی شادی" کہتا ہے وہ ہمارے دین میں حرام ہے- اوراگرمحبت کی شادی ایسی محبت کے نتیجہ میں انجام پائي ہو جو غیرشرعی تعلقات کی بناپرہو مثلا اس میں لڑکا اورلڑکی ایک دوسرے سے ملاقاتیں کریں ایک دوسرے سے خلوت کرتے رہیں اوربوس وکنار کریں اوراس طرح کے دوسرے حرام کام کے مرتکب ہوں ، تویہ اس کا انجام برا ہی ہوگا اوریہ شادی زيادہ دیر نہیں چل پائے گی ۔
کیونکہ ایسی محبت کرنے والوں نے شرعی مخالفات کا ارتکاب کرتےہوئے اپنی زندگی کی بنیاد ہی اس مخالفت پررکھی ہے جس کا ان کی ازدواجی زندگي پر اثر ہوگا اوراللہ تعالی کی طرف سے برکت اورتوفیق نہیں ہوگی ، کیونکہ معاصی کی وجہ سے برکت جاتی رہتی ہے ۔
اگرچہ شیطان نے بہت سے لوگوں کو یہ سبز باغ دکھا رکھے ہیں کہ اس طرح کی محبت جس میں شرعی مخالفات پائي جائيں کرنے سے شادی زيادہ کامیاب اور دیرپا ثابت ہوتی ہے ۔ یہ جاہل ملا محبت کی شادی کو شرعی ثابت کرنے کے درپے ہے اور مثال دے رہا ہے حضرت فاطمہ کی، جو کہ ارینج میرج تھی-
محبت کی شادی سے ہمارے سماج میں جو سمجھا جاتا ہے وہ حرام ہے، لیکن اگر شادی سے پہلے طرفین کی محبت میں اللہ تعالی کی شرعی حدود نہیں توڑی گئيں اورمحبت کرنے والوں نے کسی معصیت کا ارتکاب نہیں کیا، تو ایسی محبت سے انجام پانے والی شادی زيادہ کامیاب ہوگي ، کیونکہ یہ دونوں کی ایک دوسرے میں رغبت کی وجہ سے انجام پائي ہے ۔
جب کسی مرد کا دل کسی لڑکی سے معلق ہو جس کا اس کا نکاح کرنا جائز ہے یا کسی لڑکی نےکسی لڑکے کو پسند کرلیا ہو تو اس کا بہترین حل شادی کے علاوہ کچھ نہيں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( دو محبت کرنے والوں کے لیے ہم نکاح کی مثل کچھ نہیں دیکھتے ) ۔
سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 1847 ) بوصیری رحمہ اللہ تعالی نے اسے صحیح کہا ہے اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے بھی السلسلۃ الصحیحۃ ( 624 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
سنن ابن ماجہ کے حاشیہ میں سندھی رحمہ اللہ تعالی کا کہتے ہیں :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان :
( دو محبت کرنے والوں کے لیے ہم نکاح کی مثل کچھ نہیں دیکھتے
اس وڈیو سے ایسا تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ حضرت علی اور حضرت فاطمہ کی محبت کی شادی تھی، جو سراسر بہتان ہے اس پاکیزہ ہستی پر-
جس شادی کو ہمارا معاشرہ "محبت کی شادی" کہتا ہے وہ ہمارے دین میں حرام ہے- اوراگرمحبت کی شادی ایسی محبت کے نتیجہ میں انجام پائي ہو جو غیرشرعی تعلقات کی بناپرہو مثلا اس میں لڑکا اورلڑکی ایک دوسرے سے ملاقاتیں کریں ایک دوسرے سے خلوت کرتے رہیں اوربوس وکنار کریں اوراس طرح کے دوسرے حرام کام کے مرتکب ہوں ، تویہ اس کا انجام برا ہی ہوگا اوریہ شادی زيادہ دیر نہیں چل پائے گی ۔
کیونکہ ایسی محبت کرنے والوں نے شرعی مخالفات کا ارتکاب کرتےہوئے اپنی زندگی کی بنیاد ہی اس مخالفت پررکھی ہے جس کا ان کی ازدواجی زندگي پر اثر ہوگا اوراللہ تعالی کی طرف سے برکت اورتوفیق نہیں ہوگی ، کیونکہ معاصی کی وجہ سے برکت جاتی رہتی ہے ۔
اگرچہ شیطان نے بہت سے لوگوں کو یہ سبز باغ دکھا رکھے ہیں کہ اس طرح کی محبت جس میں شرعی مخالفات پائي جائيں کرنے سے شادی زيادہ کامیاب اور دیرپا ثابت ہوتی ہے ۔ یہ جاہل ملا محبت کی شادی کو شرعی ثابت کرنے کے درپے ہے اور مثال دے رہا ہے حضرت فاطمہ کی، جو کہ ارینج میرج تھی-
محبت کی شادی سے ہمارے سماج میں جو سمجھا جاتا ہے وہ حرام ہے، لیکن اگر شادی سے پہلے طرفین کی محبت میں اللہ تعالی کی شرعی حدود نہیں توڑی گئيں اورمحبت کرنے والوں نے کسی معصیت کا ارتکاب نہیں کیا، تو ایسی محبت سے انجام پانے والی شادی زيادہ کامیاب ہوگي ، کیونکہ یہ دونوں کی ایک دوسرے میں رغبت کی وجہ سے انجام پائي ہے ۔
جب کسی مرد کا دل کسی لڑکی سے معلق ہو جس کا اس کا نکاح کرنا جائز ہے یا کسی لڑکی نےکسی لڑکے کو پسند کرلیا ہو تو اس کا بہترین حل شادی کے علاوہ کچھ نہيں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( دو محبت کرنے والوں کے لیے ہم نکاح کی مثل کچھ نہیں دیکھتے ) ۔
سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 1847 ) بوصیری رحمہ اللہ تعالی نے اسے صحیح کہا ہے اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے بھی السلسلۃ الصحیحۃ ( 624 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
سنن ابن ماجہ کے حاشیہ میں سندھی رحمہ اللہ تعالی کا کہتے ہیں :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان :
( دو محبت کرنے والوں کے لیے ہم نکاح کی مثل کچھ نہیں دیکھتے