apke samne ham dalail k sath baat rakhte hain aur apse aur jo bhi isko padhenge unse ye umeed rakhte hain k wo haq baat ko samjhenge aur daleel miljane par is par amal bhi karenge insha Allahit means k jo log mr jaaty hain un k liye Quraan prna theek nahi hai?
mtlb qbristan ja kr nahi prna chahiye to kia waisy b par kr unen sawab nahi puhancha skty?
jazakallah khairpoora nahi pra but jitna b para hai us k liye thanx
aik baat poochna chahti hoon.
mery mamoon pichly dinon aaye thy to wo apny kisi dost ki baat bta rahy thy k us ny koi jaga khareedi hai or wahan masjid bnaani hai...
or us admi ny wahan apni qabr b khodi hai k mujhy yahan dfn kia jye...or wo aadmi daily us khodi hooe qabar main jaa kr Quraan Paak ki tilawat krta hai...
kia aisa krna theek hai?
قرآن پاک کی تلاوت کرکے اس کا ثواب دوسروں کو پہنچانا خواہ زندہ ہوں یا مردہ درست ہےit means k jo log mr jaaty hain un k liye Quraan prna theek nahi hai?
mtlb qbristan ja kr nahi prna chahiye to kia waisy b par kr unen sawab nahi puhancha skty?
Quran padhke iska sawab murdon ko pahunchana ?
قرآن پاک کی تلاوت کرکے اس کا ثواب دوسروں کو پہنچانا خواہ زندہ ہوں یا مردہ درست ہے
لیکن مروجہ قرآن خوانی درست نہیں
یعنی قرآن خوانی کے لئے لوگوں کو اکھٹا کرنا وغیرہ
واللہ و اعلم بالصواب
Quran padhke iska sawab murdon ko pahunchana ?
iski daleel den aap
السلام علیکم ورحمتہ اللہ !
ناصر بھائی ہم فروعی معاملات میں اپنی کم علمی کے باعث بحث سے اجتناب کرتے ہیں
لیکن آپ کے سوال کا مختصر جواب دے دیتے ہیں
مالی عبادات صدقات ،خیرات قربانی وغیرہ کا ثواب مردوں کو بخشنے اور اس سے نفع کا معاملہ تو متفق علیہ ہے ۔۔۔ یقینا آپ کو اس سے کوئی اختلاف نہیں ہوگا
اور جہاں تک بدنی عبادات نماز ،روزہ تلاوت قرآن مجید وغیرہ سے مردوں کو ایصال ثواب پہنچانے کا تعلق ہے تو ائمہ و سلف میں اختلاف رہا ہے
امام مالک اور امام شافعی کو (بنا بر قول مشہور)اس سے انکار ہے کہ نماز روزہ وغیرہ بدنی عبادات کا ثواب کسی کو پہنچ سکے۔
لیکن امام ابو حنیفہ اور امام احمد کا مسلک یہی ہے کہ صدقہ و خیرات اور حج و قربانی کی طرح نماز روزہ اور تلاوت قرآن مجید وغیرہ کا ثواب بھی مردوں کو پہنچ سکتا ہے
اور امام ابن قیم نے "کتاب الروح ص 188" میں اس مسلک کو جمہور سلف کی طرف منسوب کیا ہے
اگر چہ اس بارے میں مالی عبادات کی طرح دلائل بالکل یک طرفہ اور فیصلہ کن نہیں ہیں (اور اسی وجہ سے ائمہ و سلف میں دو رائیں ہوگئیں ہیں )
تاہم جو حضرات اس کے قائل ہوئے ہیں وہ دلائل سے ہی قائل ہوئے ہیں اور یہ دلائل اتنے قوی ہیں کہ امام بیہقی رحمتہ اللہ علیہ جو امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کے ایک بڑے وکیل اور حامی ہیں انہوں نے بھی اس بارے میں ان دلائل ہی کی بنا پر امام شافعی کی تحقیق سے اختلاف کرتے ہوئے یہی رائے ظاہر کی ہے کہ اموات کی طرف سے مالی عبادات کی طرح ہی بدنی عبادات کا کرنا اور اموات کو ان سے بھی نفع اور ثواب پہنچنا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے اس لئے یہی حق ہے
حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ فتح الباری میں امام بیہقی سے ناقل ہیں
"یہ مسئلہ اموات مسلمین کی طرف سے نماز روزہ کرنا صراحتہ حدیث سے ثابت ہے اور اس کے ثبوت کی صحت کے بارے میں مجھے معلوم نہیں محدثین میں کوئی اختلاف ہو ،لہذا اسی کے مطابق عمل واجب ہے (اور کیوں نہ ہم اس کو اختیار کریں جب کہ)خود امام شافعی کا ارشاد ہے کہ میں جو کچھ کہوں اگر رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث اس کے خلاف ثابت ہوجائے تو اس حدیث پر عمل کیا جائے اور ہرگز ہرگز پھر میرے فتوے کی تقلید نہ کی جائے ۔(فتح الباری جلد 7 صفحہ 285)
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے بعض ان احادیث پر مفصل کلام کیا تھا جن سے اموات کی طرف سے روزے رکھنے کا ثبوت ہوتا ہے ۔
امام بیہقی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی مشہور کتاب "معرفتہ السنن والآثار"میں اپنے امام کے اس کلام کا مفصل و مدلل جواب دیا ہے ۔
امام شافعی کے اس کلام اور امام بیہقی کے اس جواب کو حافظ ابن قیم نے "کتاب الروح صفحہ 222"میں بھی نقل کیا ہے
بہرحال اگر چہ واقعہ ہے کہ "بدنی عبادات " کے ذریعے ایصال ثواب کے بارے میں مالی عبادات کی طرح نہ تو ائمہ کا اتفاق ہے اور نہ دلائل ہی ویسے یک طرفہ اور فیصلہ کن ہیں ۔۔۔لیکن ایسا بھی نہیں کہ اس بارے میں نصوص بالکل نہ ہوں اور صرف مالی عبادات پر قیاس کیا ہو بلکہ اس بارے میں مستقل احادیث موجود ہیں وہ ایسی صریح و قوی ہیں کہ ان کی بنیاد پر امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کے امام بیہقی رحمتہ اللہ علیہ جیسے زبردست حامی اور وکیل نے بھی اس مسئلہ میں ان کا ساتھ چھوڑ دینا ضروری سمجھا۔
ناصر بھائی اس لحاظ سے جب ائمہ کرام جیسے حضرات اس مسئلہ پر متفق نہ ہوسکے جن کا علمی مقام علمی تحقیق اور علمی خدمات ہم سب کے سامنے روز روشن کی طرح واضح ہیں تو آج کے دور کے مسلمان ان فروعی اختلافات میں کس طرح صحیح اور درست کا فیصلہ کرسکتے ہیں ?
اگر آپ ہمارے جواب سے اختلاف رائے رکھتے ہیں تو کوئی حرج نہیں آپ اپنا عمل اپنی کے مطابق اختیار کرلیں
جزاک اللہ
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے آمین
Wa Alaykum Assalam WrwbSalam,
I agree with brother Noman; recitation of the Qur'an for benefit of the deceased is valid, but to recite the Qur'an upon the grave or in graveyards or any other polluted place is definitely not permissible.
Aameenجزاکم اللہ خیرا کثیرا
ناصر بھائی آپ کی پرخلوص محبت کا بہت بہت شکریہ
یقین مانیے ہماری حیثیت بھی صرف ایک طالب علم کی طرح ہی ہے اور ہمیں بھی آپ سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے ۔۔۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی علم و عمر میں برکت عطاء فرمائے آمین
ناصر بھائی جیسا کہ آپ نے بھی واضح فرمایا کہ مالی عبادات کا ایصال ثواب میت کو پہنچتاہے
اور اسی طرح میت کے لئے دعا و استغفار وغیرہ بھی قرآن و حدیث سے ثابت ہے
ائمہ کرام میں اختلاف بدنی عبادات نماز ،روہ تلاوت قرآن مجید وغیرہ کے ایصال ثواب میت کو پہنچنے پر ہے جس کی ہم اوپر وضاحت کرچکے ہیں ۔۔۔۔
لیکن اس سے یہ مراد ہرگز نہیں کہ اس سے تیجہ دسواں بیسواں چالیسواں وغیرہ کرنا درست ثابت ہوجاتا ہے بلکہ یہ سب بدعات میں سے ہیں اور ہم سب کو ان بدعات سے بچنا چاہیے اور اسی طرح ہم مروجہ قرآن خوانی کے متعلق بھی واضح کرچکے ہیں کہ یہ بھی درست نہیں۔
باقی بدنی عبادات کا ایصال ثواب میت کو پہنچانے پر ایک تفصیلی بحث ہے ہم اس سے اجتناب کرنا چاہیں گے
آپ کی وضاحت کا ایک بار پھر شکریہ
اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطاء فرمائے ۔آمین
اللہ تعالیٰ ہم سب کو شرک و بدعات سے محفوظ رکھے اور ہم سب کا خاتمہ ایمان پرفرمائے آمین
قابل احترام ناصر بھائی جیسا کہ آپ نے لکھا کہ امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ اور امام احمد رحمتہ اللہ علیہ کا بھی یہی مسلک تھا
تو ناصر بھائی ان بزرگ ہستیوں جن کا علمی مقام اور علمی تحقیق سب کے سامنے ہے کو بھی علم ہوگا کہ بدعت گمراہی ہے ?? اسکے بعد بھی اگر ان ائہ کرام نے فتوی دیا تو یقینا قرآن و سنت کی روشنی میں ہی دیا ہوگا
تو ناصر بھائی ان بزرگ ہستیوں جن کا علمی مقام اور علمی تحقیق سب کے سامنے ہے کو بھی علم ہوگا کہ بدعت گمراہی ہے ?? اسکے بعد بھی اگر ان ائہ کرام نے فتوی دیا تو یقینا قرآن و سنت کی روشنی میں ہی دیا ہوگا
اور جیسا کہ آپ کا کہنا ہے کہ ان حضرات نے مالی عبادات پر قیاس کرتے ہوئے اپنا فتوی جاری کیا لیکن آپ نظر انداز کرگئے کہ ہم نے لکھا تھا کہ امام بیہقی رحمتہ اللہ علیہ جو امام شافعی کے زبردست حامی اور وکیل تھے (جبکہ امام شافعی کا مسلک بدنی عبادات کا ثواب میت کو نہ پہنچنے پر تھا) لیکن امام بیہقی نے اپنے امام سے اس مسئلہ پر اختلاف کرتے ہوئے اس مسئلہ کی تحقیق کی اور مدلل اور مفصل جواب فرمایا
تو یقینا امام بیقی رحمتہ علیہ کے پاس دلائل تھے جبھی انہوں نے اپنے امام سے اختلاف کرتے ہوئے فرمایا کہ ")خود امام شافعی کا ارشاد ہے کہ میں جو کچھ کہوں اگر رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث اس کے خلاف ثابت ہوجائے تو اس حدیث پر عمل کیا جائے اور ہرگز ہرگز پھر میرے فتوے کی تقلید نہ کی جائے"
پھر آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اس مسئلہ کے قائلین بنا دلائل کے محض قیاس پر اس مسئلہ کے حق میں ہیں
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے آمین
agar Quran ka sawab murdon ko milta to sahab ye amal karte kyun k khair k kaam me wo sab se aage sab se zyada harees the lekin hame zayeef hadees bhi iski nahi milti
isliye ye tareeqa sahih nahi hai