اسے کہنا
اسے کہنا
ہمیں کب فرق پڑتا ہے
کے ہم تو شاخ سے ٹوٹے ہوۓ پتے
بہت عرصہ ہوا ہم کو
رگیں تک مر چکیں دل کی
کوئی پیروں تلے روندے
جلا کر راکھ کر ڈالے
ہوا کے ہاتھ پر رکھ کر
کہیں بهی پهینک دے ہم کو
سپردِ خاک کر ڈالے
ہمیں اب یاد ہی کب ہے
کہ ہم بهی ایک موسم تهے
کسی گلشن کی زینت تهے
کسی ٹہنی کی قسمت تهے
کسی آنکهوں کی راحت تهے
بہت عرصہ ہوا وہ خواب سا موسم
ہمارے ہاتھ سے پهسلا
یا شاید پهر خزاں موسم کو ہم اپنا سمجھ بیٹهے
سو اس دن سے کسی موسم سے
اب اپنا کوئی رشتہ نہیں بنتا
کسی کی شاخ بانہیں ہمیں پہچانتی کب ہیں
کبهی ہم ان کی دهڑکن تهے
یہ شاخیں جانتی کب ہیں