فریب کھانا ہے
کسی خیال کے ہاتھوں فریب کھانا ہے
ترے جمال کے ہاتھوں فریب کھانا ہے
یہ آفتاب یہ مہتاب کچھ نہیں ہیں مجھے
حسین خال کے ہاتھوں فریب کھانا ہے
کہیں عروج کے آگے ٹھہر نہیں پانا
کہیں زوال کے ہاتھوں فریب کھانا ہے
بلندیوں سے ہے دانہ پرند نے دیکھا
کہ خاکی جال کے ہاتھوں فریب کھانا ہے
یہ تلخ و تند سے لہجوں سے ہار کیوں مانیں
شکر مقال کے ہاتھوں فریب کھانا ہے
خیال ماضی ہے کوئی نہ فکر مستقبل
ہمیں تو حال کے ہاتھوں فریب کھانا ہے
جواب جس کا ہے ازبر فصیح خوب مجھے
اسی سوال کے ہاتھوں فریب کھانا ہے