آنکھ بھر آئی
آنکھ بھر آئی کسی سے جو ملاقات ہوئی
خشک موسم تھا مگر ٹوٹ کے برسات ہوئی
دن بھی ڈوبا کہ نہیں یہ مجھے معلوم نہیں
جس جگہ بجھ گئے آنکھوں کے دئیے رات ہوئی
کوئی حسرت کوئی ارماں کوئی خواہش ہی نہ تھی
ایسے عالم میں میری خود سے ملاقات ہوئی
ہو گیا اپنے پڑوسی کا پڑوسی دشمن
آدمیت بھی یہاں نذر فسادات ہوئی
اسی ہونی کو تو قسمت کا لکھا کہتے ہیں
جیتنے کا جہاں موقع تھا وہیں مات ہوئی
اس طرح گزرا ہے بچپن کہ کھلونے نہ ملے
اور جوانی میں بڑھاپے سے ملاقات ہوئی