اُس دن قسمت اور عشق ایک دوسرے کے مُقابل تھے۔
،فیصلے کی گھڑی تھی
دیکھنا تھا کون بازی جیتتا ہے اور کسے مات دی جاتی ہے۔
تماشائی بھی جوش و خروش سے یہ مقابلہ دیکھ رہے تھے۔
قسمت چہرے پہ اعتماد لیے تھی، جبکہ
عشق ڈرا سہما منہ جھکائے ہوئے تھا۔
بلاآخر فیصلہ سُنایا گیا، اور ہمیشہ کی طرح جیت قسمت کی ہی ہوئی۔
،قسمت کے چہرے پہ خوشی کے ساتھ ساتھ بے تحاشہ غرور بھی چھلک رہا تھا
جبکہ عشق ایک ہارے ہوئے بزدل جواری کی طرح تھا۔
،وہ جواری جو کھیلتا تو ضرور ہے
لیکن اُسے ڈر رہتا ہے کہیں وہ بازی نہ ہار جائے۔
،لوگوں کے ہجوم میں وہ بھی کھڑی تھی،
،آنکھوں میں منجمد پانی لیے
،انتہائی شاک کی حالت میں
فیصلہ اُسکی رضا کے بالکل مختلف جو تھا۔
عشق منہ جھکائے ایک طرف چل دیا، بغیر اُس پہ نظر ڈالے۔
،اگر وہ اسکی آنکھوں میں ایک بار بھی دیکھ لیتا
تو شاید وہ کبھی اُس سے دور جا ہی نہ پاتا۔
…. اور وُہ
،وہ بھاگی
،اسکے پیچھے
،اُسے روکنے کو
لیکن کسی نے بہت زور سے اُسکی کلائی پکڑ کر اُسے اپنی طرف کھینچا۔
،وہ قسمت تھی جسکے چہرے پہ غرور اور فاتحانہ ہنسی تھی
جو کبھی اُسے دیکھا رہا تھا اور کبھی دور جاتے ہوئے عشق کو۔
اُسنے مڑ کر عشق کو دیکھنا چاہا، لیکن وہ وہاں تھا ہی نہیں۔
،تماشائیوں کی بھیڑ میں کہیں گُم ہو چُکا تھا
وہ شاید آخری بار تھا جب اُسنے اپنے عشق کو دیکھا۔
،چاروں طرف اندھیرا پھیل رہا تھا
ایسا ہی کچھ اُسکے اندر بھی ہو رہا تھا۔
..تماشائی اب اپنے اپنے گھروں کو جانے کی لیے چل پڑے
اور وُہ بھی، ویران آنکھیں، پتھر چہرہ لیے، قسمت کا ہاتھ تھامے
،اپنا کھوکھلا وجود گھسٹ رہی تھی
اس بات سے بے خبر اور انجان، کہ وہ اب کس نگر لے جائی جا رہی ہے۔