میں نے پہلا لفظ ماں سیکھا۔ دوسرا لفظ بابا۔ اور تیسرا لفظ ’’شہید‘‘
میں ایک چھوٹا سا بچہ ہوں
جس نے ابھی
اپنی آنکھیں بھی
مکمل نہیں کھولیں
زباں کی لغزش
ابھی ختم نہیں ہوئی
ابھی چلنے میں
لڑکھڑاھٹ باقی ہے
آنکھوں میں رنگ دیکھنے کی خواہش
میرے کھلونے
میرے منتظر ہیں
مگر یہ اندھیرا کیسا
ویرانیت کیسی
یہ رونا کیسا
میرے بابا کہاں ہو تم
اماں آواز دو مجھے
یہ لال آسمان تلے
مجھے کون اپنی گود میں
لے جا رہا ہے
مجھے اس شور میں
صرف ایک لفظ سنائی دیتا ہے
کہ ہمیں بے گناہی کی سزا میں
بارود سے موت کا
تحفہ دیا گیا ہے
میں نے پہلا لفظ
ماں سیکھا
دوسرا لفظ بابا
اور تیسرا لفظ ٰ’’شہید‘‘